Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کچھ فراق کے بارے میں

آل احمد سرور

کچھ فراق کے بارے میں

آل احمد سرور

MORE BYآل احمد سرور

    فراق کی ایک رباعی ہے،

    ہر عیب سے مانا کہ جدا ہو جائے

    کیا ہے اگر انسان خدا ہو جائے

    شاعر کا تو بس کام یہ ہے ہر دل میں

    کچھ درد حیات اور سوا ہو جائے

    ہماری تنقید اب تک فنکار پر زیادہ توجہ کرتی رہی ہے، اس کے فن پر کم۔ فراق کی زندگی میں ان کی شخصیت کے نشیب وفراز کی وجہ سے ان کے فن کی پرکھ متاثر ہوتی رہی۔ اب وقت آیا ہے کہ ان کی رنگا رنگ شخصیت کے طلسم سے آزاد ہوکر ان کے فن کا تجزیہ کیا جائے۔ ان کی غزلوں، نظموں، رباعیوں، ان کے تنقیدی سرمائے، ان کے خطوط، سب کا جائزہ لیا جائے اور ان کی ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اور اس مشترک تہذیب کی بساط پر اردو زبان وادب کے نقش ہائے رنگ رنگ کی اہمیت منوانے کے لیے مسلسل قلمی جہاد کو بھی نظر میں رکھا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ اہم اور معنی خیزہ وہ فنکار ہوتا ہے جو بالآخر فن کی فضا کو بدل دیتا ہے۔ فراق اور فیض دونوں اس لحاظ سے ہمارے اہم اور معنی خیز فنکار ہیں۔ راشد اور میرا جی، بھی اس زمرے میں آتے ہیں۔

    میں نے جان بوجھ کر عظیم جیسے الفاظ استعمال نہیں کیے۔ ہم عظمت، رفعت، بلندی، گہرائی، آفاقیت کا اس فراخ دلی سے استعمال کرتے رہے ہیں کہ یہ الفاظ اپنی معنویت کھو چکے ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ کسی فنکار کے تجزیے میں اس عمدگی EXCELLANCE، اس خوبی، اس خصوصیت، اور انفردایت کی تلاش کریں جو اس کے فن کا عطیہ ہے۔ فراق کے اپنے فن کے متعلق خیالات اس سلسلے میں ہماری زیادہ مدد نہیں کرتے۔ انھوں نے قوتِ شفا اور آفاقی کلچر کا ذکر کیا ہے۔ مجھے قوتِ شفا کے مقابلے میں ان کے یہاں بیداری ذہن اور ہندوستانیت پر بجا زور ملتا ہے۔ جو قوتِ شفا مثلاً ورڈس ورتھ کی شاعری میں ہے، وہ فراقؔ کی شاعری کی فضا سے مختلف ہے۔

    فراقؔ کی شاعری ایک بیدار ذہن کی پیداوار ہے۔ وہ قوتِ شفا کا دعوا تو ضرور کرتی ہے مگر دراصل انھیں کے الفاظ میں اس سے ’’دردِ حیات اور سوا‘‘ ہو جاتا ہے اور یہ بھی کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ جب سننے والا یا پڑھنے والا اس کے روحانی تجربے میں شریک ہو تو اس کی روحانی دنیا بھی بدل جائے۔ درد حیات کا اور سوا ہونا ایک طور پر حیات کا عرفان ہے اور فراق ہمیں جو درد یا عرفان دیتے ہیں، اس میں عشق اور حسن، خواب اور حقیقت، بلندی اور پستی، آسمان اور زمین، سب کچھ بدلا ہوا نظر آتا ہے اور زندگی اور اس کے تضادات، اس کی الجھنیں اور اس کے اندیشہ ہائے دور دراز ایک حیرت اور مسرت کے ساتھ ہمیں نئے سرے سے جینے اور مرنے، بھوگنے اور پانے کی لذت سے آشنا کرتے ہیں۔ وہ رابرٹ فراسٹ کے الفاظ میں زندگی اور اس کے پریمی کے ہر آپسی جھگڑے سے ہمیں آگاہ کرتے ہیں۔ ساحل سے سمندر کا نظارہ کرنے کے بجائے موجوں کے تلاطم، گہرے پانی کی ہیبت، طوفان کی بلاخیزی، بھنور کے ابتلا، موتیوں کی غواصی کا دکھ درد، ہم تک پہنچاتے ہیں۔

    جدید دور کے انسان کا وہ شعور دیتے ہیں جس میں تاریخ بھی ہے، تہذیب بھی، تعمیر بھی، تخریب بھی، پیچیدگی بھی اور پرواز بھی، سائے بھی اور کرنیں بھی۔ ان کی شاعری میں ہندوستان کی روح بھی ہے اور جدید دور کی گونج بھی۔ یہ لمحے کی لے کی وجہ سے ہم میں کبھی کبھی اکتاہٹ ضرور پیدا کرتی ہے مگر اس میں وقت کا عرفان بھی ہے۔ اس میں ان کی اپنی انا خاصی پر شور ہے اور کبھی کبھی کھل جاتی ہے مگر اس کے ساتھ کائنات کا نغمہ بھی ہے۔ اپنے پست و بلند اور ہموار و ناہموار کے باوجود یہ جاندار بھی ہے اور طرح دار بھی۔ فراقؔ کبھی کبھار عروض کی قبا کی چستی کو نبھا نہیں سکتے۔ اس وادی میں ان کا خرام بے پروا بھی ہو جاتا ہے مگر انھوں نے جس آواز کو مرمر کے پالا ہے وہ ہمارے ذہنوں میں اپنی گونج پیدا کرتی رہتی ہے اور خاصی دور تک ہمارا ساتھ دیتی ہے۔

    ان کی غزلوں اور نظموں اور ان کی رباعیات کی وجہ سے ہماری ذہنی دنیا اپنی دھرتی، اپنے آسمان، اپنی فضا اور اپنی روح سے کچھ اور آشنا ہوئی ہے اور عالمی افق کے دریچوں میں بھی جھانکنے لگی ہے۔ آفاقی کلچر کی جو اصطلاح انھوں نے استعمال کی ہے، اس کے بجائے میں ان کے یہاں آفاقی فضا کے احساس کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔ وہ اس دور کی ہر دھڑکن کو محسوس کر سکتے ہیں۔ تہذیب کا پیام ان کے نزدیک اور انسان ہوتے جانا ہے۔ وہ سوچتے رہتے ہیں کہ تہذیبیں کیوں غریب ہوتی ہیں۔ وہ صدی کا بولنا سن سکتے ہیں اور یہ بھی کہنے کی جرأت رکھتے ہیں،

    اس دور میں زندگی بشر کی

    بیمار کی رات ہو گئی ہے!

    فراقؔ ہماری مشترک تہذیب کے وہ نمائندے ہیں جو اس کے سرمائے پر بجا طور پر فخر کرتے ہیں۔ آج کل کچھ محدود ذہن کے علمبرداروں کی طرح اس پر شرماتے نہیں۔ وہ ہندوستان کی پوری تاریخ پر نظر رکھتے ہیں اور ہندوستان کی تہذیب کی وحدت اور کثرت دونوں پر اصرار کرتے ہیں۔ شاعری کا ماحول انھیں ورثے میں ملا تھا مگر انھوں نے اپنے طور پر اردو کے کلاسیکی ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور اس کے رنگ وآہنگ، اس کے اسرار و رموز، اس کی سادگی اور پرکاری سب سے واقف تھے۔ اس کے ساتھ انھیں ہندی ادب پر عبور تھا اور سنسکرت کے جواہر پاروں کی پرکھ بھی۔ وہ انگریزی ادب کے استاد تھے اور اگرچہ ان کا شغف مغرب کے رومانی شعرا سے زیادہ تھا مگر وہ مغربی ادب کے میلانات اور معیاروں کا گہرا شعور ضرور رکھتے تھے۔ ڈپٹی کلکٹری کے بجائے آزادی کی جد وجہد میں شرکت، اسیری، اور کانگریس کے دفتر میں جواہر لال نہرو کا ہاتھ بٹانا (گو اس کی مدت زیادہ نہیں رہی) ان کی عملی زندگی کے ایسے نقوش ہیں جن کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔

    ان کی عمر زیادہ تر الہ آباد یونیورسٹی میں انگریزی کی تدریس میں گزری۔ وہ اسکالر نہ تھے مگر ادب کے مزاج داں تھے۔ وہ ادب کے متعلق معلومات دینے سے زیادہ اس کا جادو عام کرنے، ذہن میں چراغاں کرنے، شعر کی کیفیت اور حسن کو سمجھنے اور پرکھنے پر زور دیتے تھے۔ ہندوستانی ادبیات کے علم اور مغربی ادب کے مطالعے سے ان کے افق ذہنی کو وسعت اور جامعیت دونوں ملی تھیں۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ اپنے تخلیقی مزاج کی وجہ سے وہ حسن کاری کے سارے کرشموں اور فن کے سارے آداب کو ملحوظ رکھنا ضروری نہ سمجھتے تھے۔ ان کی تنقیدیں بھی اسی وجہ سے تاثراتی زیادہ ہوتی تھیں، معروضی کم مگر اس کی خامی کے ساتھ اس کی خوبی اور اس کی کمزوری کے ساتھ اس کی طاقت کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔

    انھوں نے ابتدا میں وسیم خیر آبادی سے اصلاح لی اور اس طرح امیر مینائی کے راستے سے اپنا شعری سفر شروع کیا۔ انھوں نے خاصے ریاض کے بعد اپنی آواز کو پایا اور ان کی ادبی شہرت بھی نیاز کے تعارفی مضمون سے شروع ہوتی ہے مگر اپنی آواز تک پہنچتے پہنچتے وہ اردو ادب اور عالمی ادب کی کتنی آوازوں پر کان دھر چکے تھے۔ یہ نکتہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ میرؔ، مصحفیؔ، مومنؔ، غالبؔ، حسرتؔ، امیر مینائی کے ان پراثرات کی نشاندہی کی گئی ہے اور ڈن، ورڈس اور ٹیگور کے اثرات کی بھی۔ انھوں نے کہیں ان شعرا کے افکار کو جذب کیا ہے اور کہیں ان کو اپنی زبان میں پیش بھی کردیا ہے۔ ان کے مستعار خیالات کی وجہ سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ مانگے کے اجالے سے اکثر کام لیتے ہیں، مگر انھوں نے ان خیالات کی چنگاری سے جابجا اپنا شعلہ بھی روشن کیا ہے۔ ایلیٹ نے اس سلسلہ میں پتے کی بات یہ کہی ہے کہ مانگے کے اجالے کو نہ دیکھو اس کرن کو دیکھو جو اس اجالے سے نکلی ہے۔

    فراقؔ مارکسزم کے اثر سے چلے تھے مگر پہنچے ہندو ہیومنزم تک۔ ترقی پسند تحریک نے انھیں جلد ناآسودہ کر دیا اور جدیدیت کے تجربوں سے وہ بھی اپنے کو ہم آہنگ نہ کر سکے۔ فارم کے معاملے میں روایت انھیں زیادہ عزیز رہی۔ یوں تو انھوں نے غزلیں بھی کہیں اور نظمیں بھی، رباعیاں بھی اور تضمینیں بھی مگر دراصل وہ غزل کے شاعر ہیں۔ ان کی نظموں میں ہنڈولا، شام عیادت، آدھی رات کو، پرچھائیاں اور جگنو پر ہی نظر ٹھہرتی ہے یا روپ کی کچھ رباعیوں پر ان کی ہندوستانی فضا کی وجہ سے، یا اکبر کے متعلق کچھ رباعیوں پر، اکبر کی معنویت کے احساس کی وجہ سے۔ پھر بھی ان کے یہاں جو تنوع ہے اسے کیسے نظرانداز کیا جائے۔ دریا اپنی موج میں خس و خاشاک بھی بہا لاتا ہے مگر موج کے جوش وخروش، اس کی توانائی اور اس کے رقص کو تو ماننا ضروری ہوتا ہے۔ پطرس نے ایک مشاعرے میں فراق کے اشعار سن کر انھیں پیکر ساز IMAGIAT کہا تھا۔ پیکر تراشی واقعی فراق کی نمایاں خصوصیت ہے۔ ان سے فضا آفرینی بھی ہوتی ہے اور ذہن میں اجالا بھی،

    دلوں کو تیرے تبسم کی یاد یوں آئی

    کہ جگمگا اٹھیں جس طرح مندروں کے چراغ

    وہ پچھلی شب نگہ نرگس خمار آلود

    کہ جیسے نیند میں ڈوبی ہوئی ہو چندر کرن

    باغ جنت پہ گھٹا جیسے برس کر کھل جائے

    سوندھی سوندھی تری خوشبوئے بدن کیا کہنا

    سفید پھول زمیں پر برس پڑیں جیسے

    فضا میں کیف سحر ہے جدھر کو دیکھتے ہیں

    ترے خیال کی رنگینیوں کا کیا کہنا

    فضا میں جیسے گلابی سی کوئی چھلکائے

    یہ سر سے تا بقدم محویت کا عالم ہے

    کہ گہرے سوچ میں جس طرح ڈوب جائے بدن

    فراقؔ کی شاعری احتساسی ہے۔ اس میں مصحفی کے رنگ اور لمس کا احساس جھلکتا ہے مگر فراقؔ کی احتساسی شاعری کا کارنامہ ایک حس کے ذریعہ سے دوسری حس کی کیفیت کو دو آتشہ بنانا ہے۔ رچرڈس نے اسے CYNESTHESIW کا نام دیا ہے۔ لہو کی پکار اور راگنی کے آن کھڑے ہونے کی مثالیں ہماری کلاسیکی شاعری میں بھی مل جائیں گی مگر فراق کے یہاں یہ پہلو غزلوں، نظموں، رباعیوں سب میں نمایاں ہے اور اس کی وجہ سے تصویر رنگوں، خوشبوؤں، آوازوں اور لمس کی لذتوں کا ایک غبار رنگین بن جاتی ہے۔ روپ کی یہ دو رباعیاں دیکھیے،

    لہروں میں کھلا کنول نہائے جیسے

    دوشیزۂ صبح گنگنائے جیسے

    یہ سج یہ دھج یہ اجالا یہ نکھار

    بچہ سوتے میں مسکرائے جیسے

    ہر جلوے سے اک درس نمو لیتا ہوں

    لبریز کئی جام و سبو لیتا ہوں

    پڑتی ہے جب آنکھ تجھ پہ اے جان بہار

    سنگیت کی سرحدوں کو چھو لیتا ہوں

    غزلوں میں اس رنگ کی بہار یہ ہے،

    رگوں میں گردش خوں ہے کہ لے ہے نغمے کی

    وہ زیر و بم کا ہے عالم کہ جسم گاتا ہے

    دل دکھے روئے ہیں شاید اس جگہ اے کوئے دوست

    خاک کا اتنا چمک جانا ذرا دشوار تھا

    صاف لودے اٹھی اداس فضا

    مسکراہٹ تری جو یاد آئی

    تجھے تو ہاتھ لگایا ہے بارہا لیکن

    ترے خیال کو چھوتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں

    ستارے کھو گئے ہیں روپ کے سنگیت میں اکثر

    کہاں ساز شب مہتاب میں ہے نغمگی تیری

    فراقؔ نے کہا ہے کہ عشقیہ شاعری صرف عشقیہ نہیں ہوتی اور بہت کچھ ہوتی ہے۔ عشقیہ شاعری کے سلسلہ میں ہمیں میرؔ، مصحفی، مومنؔ، غالبؔ، حسرتؔ، جگرؔ یاد آتے ہیں۔ عسکری نے تو (جو فراقؔ کے شاگرد تھے) یہاں تک کہہ دیا کہ فراق نے اردو شاعری کو ایک نیا عاشق اور ایک نیا معشوق دیا ہے۔ خیر یہ خراج عقیدت ہی کہا جائےگا لیکن فراق کی عشقیہ شاعری میں جو جسم کی جادوگری اور اس کے ساتھ جو روح کی موسیقی ملتی ہے وہ یقیناً ایک اضافہ کہی جا سکتی ہے۔ ان کا یہ مشہور شعر ہو سکتا ہے، بعض ثقہ حضرات کو گراں گذرے مگر اپنے جو کیفیت اور ندرت رکھتا ہے، اسے نظرانداز کیسے کیا جا سکتا ہے،

    ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست

    ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

    فراقؔ کی عشقیہ شاعری کا قطب مینار ان کے ان اشعار میں مل جائےگا۔

    اک فسوں ساماں نگاہ آشنا کی دیر تھی

    اس بھری دنیا میں ہم تنہا نظر آنے لگے

    بہت دنوں میں محبت کو یہ ہوا معلوم

    جو تیرے ہجر میں گذری وہ رات رات ہوئی

    ہزار بار زمانہ ادھر سے گذرا ہے

    نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہگذر پھر بھی

    تو ایک تھا مرے اشعار میں ہزار ہوا

    اس اک چراغ سے کتنے چراغ جل اٹھے

    شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس

    یاد سی آ کے رہ گئیں دل کو کئی کہانیاں

    طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں

    ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

    آہ ان جلووں کے ہوتے ہوئے قائم ہیں حواس

    ہم تری انجمن ناز کے قابل نہ رہے

    قرب ہی کم ہے نہ دوری ہی زیادہ لیکن

    ان سے وہ ربط کا احساس کہاں ہے کہ جو تھا

    رفتہ رفتہ عشق مانوس جہاں ہوتا چلا

    خود کو تیری بزم میں تنہا سمجھ بیٹھے تھے ہم

    سر میں سودا بھی نہیں، دل میں تمنا بھی نہیں

    لیکن اس ترکِ محبت کا بھروسا بھی نہیں

    ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں

    اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

    اس شعر کے ساتھ حسرت کا مشہور شعر یاد آتا ہے،

    نہیں آتی جو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی

    مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

    فراقؔ کے ذہن میں حسرتؔ کا یہ شعر ضرور رہا ہوگا مگر حسرت کے یہاں بھولنے اور یاد کرنے کی جو حدیں ہیں، فراقؔ ان سے آگے نکل جاتے ہیں۔ فراقؔ کے یہاں ایک نفسیاتی ژرف بینی ہے جو انسانی فطرت کی ان تہوں تک پہنچ جاتی ہے جہاں منطق کی رسائی نہیں۔ اسے کچھ لوگوں نے اجتماع ضدین سے تعبیر کیا ہے، حالانکہ یہ فطرت انسانی کے سمندر میں غوطہ لگانے کی ایک سعی ہی ہے۔ اس طرح کچھ اور مثالیں دیکھیے،

    مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست

    آب مجھ سے تری رنجش بیجا بھی نہیں

    دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں

    لیکن اس جلوہ گہ ناز سے اٹھتا بھی نہیں

    عجب کیا کھوئے کھوئے سے جو رہتے ہیں ترے آگے

    ہمارے درمیاں اے دوست لاکھوں خواب حائل ہیں

    بہت بڑھا کے نہ کر شکوۂ تلونِ حسن

    ارے مزاجِ محبت کو بھی ثبات نہیں

    خراب ہو کے بھی سوچا کیے ترے مہجور

    یہی کہ تیری نظر ہے تری نظر پھر بھی

    غرض فراقؔ کی عشقیہ شاعری صرف عشقیہ نہیں کچھ اور بھی ہے۔ جسم سے رشتے کے ساتھ اس میں زندگی اور فطرت انسانی کی پیچدگی، کافر ذہن کی کرشمہ سازی اور زندگی کی بےرحم منطق کی عکاسی سبھی کچھ ہے۔ جبھی تو فراقؔ کے الفاظ میں،

    دکھا تو دیتی ہے بہتر حیات کے سپنے

    خراب ہو کے بھی یہ زندگی خراب نہیں

    یہی مقصد حیات عشق کا ہے

    زندگی زندگی کو پہچانے

    کوئے جاناں کے بھی اک مدت سے ہیں آہٹ پہ کان

    اہل غم کے کارواں کن وادیوں میں کھو گئے

    ابھی سنبھلے رہو کہ دن ہے فراقؔ

    رات پھر بےقرار ہو لینا

    حسن و عشق کا یہ نیا تصور فراقؔ کو زندگی کی جدلیات، اس کے تضادات، کبھی کبھی اس کی لامعنویت، ارتقا کے ساتھ اچانک اس کی تبدلیوں، بظاہر سکون لیکن بہ باطن محشر تک لے جاتی ہے۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں،

    دیکھ رفتار انقلاب فراقؔ

    کتنی آہستہ اورکتنی تیز

    منزلیں گرد کی مانند اڑی جاتی ہیں

    وہی انداز جہانِ گزراں ہے کہ جو تھا

    زندگی کیا ہے اس کو آج اے دوست

    سوچ لیں اور اداس ہو جائیں

    روپ کی رباعیوں کا خاصا چرچا ہوا ہے، ایسا نہیں ہے کہ اردو میں یہ رنگ نیا ہو۔ ہماری مثنویوں میں اور نظیر اکبرآبادی، شوق قدوائی اور آرزو لکھنوی کے یہاں یہ رنگ خاصا چوکھا ہے۔ فراق کی اہمیت اس سلسلے میں یہ ہے کہ انھوں نے گھریلو زندگی کے مختلف دلآویز مرقعوں کے ذریعے سے سہاگن کی، بیوی، ماں اور گھر ستن کے روپ میں جو تصویریں پیش کی ہیں، ان میں ہندی اور کہیں سنسکرت کے الفاظ کے ذریعہ کے فضا آفرینی کا حق ادا کر دیا ہے۔ جاں نثار اختر نے اس رنگ کو اور چمکایا مگر فراق کی تصویریں پھر بھی دامن دل کھینچتی ہیں۔

    فراق کی تنقیدوں پر بھی اب کچھ اظہار خیال ضروری ہے۔ اوپر اشارہ ہو چکا ہے کہ فراق نے نہ صرف کلاسیکی اردو ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا، ان کی نظر میں ہندی کا سرمایہ اور سنسکرت کے شاہکار بھی تھے اور اس کے ساتھ انگریزی ادب سے گہری واقفیت کے ساتھ عالمی میلانات اور تحریکیں اور دورِ حاضر کے فکری سنگ میل بھی ان کی نظر میں تھے۔ ان کی شاعری میں ان سب جلووں اور کرنوں کی چھوٹ مل جائےگی مگر ان کی تنقیدیں تو ان کے ادبی شعور کی دستاویزیں کہی جا سکتی ہیں۔ جدید تنقید زیادہ علمی، زیادہ تجزیاتی، زیادہ معروضی ہوتی جا رہی ہے، پھر اس کے بہت سے دبستان بھی سامنے آ گئے ہیں۔ مجموعی طور پر اب تنقید عمومی تاثرات سے آگے جاکر کسی فن پارے کایا تو اس کی پیکر تراشی، اس کے علامات، اس کی اسطور سازی کے لحاظ سے مطالعہ کرتی ہے یا پھر لفظ کی پہلو داری، اس کے ابہام، اس میں معنی کی کئی تہوں پر غائر نظر ڈالتی ہے۔

    ’’اردو کی عشقیہ شاعری‘‘ میں فراقؔ چونکاتے زیادہ ہے، ذہنی آسودگی کم دیتے ہیں۔ ’’اندازے’‘ میرے نزدیک ان کے تنقیدی شعور کی بہتر نمائندگی کرتی ہے۔ انھوں نے مصحفی کی شاعری کے احتساسی پہلو پر جس طرح زور دیا ہے، اس طرح ان سے پہلے کسی نے نہیں دیا تھا۔ حسرت کے ذریعہ سے ضرور مصحفی کی بازیافت ہوئی مگر غزل کی داستان میں مصحفی کے زریں ورق کی آب و تاب فراق کا عطیہ کہی جا سکتی ہے۔ ذوق کی شاعری میں پنچایتی رنگ پر زور دے کر انھوں نے ذوق کی مقبولیت کی جو تشریح کی ہے، وہ بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔ اس طرح کلیم الدین احمد کے غزل پر اعتراضات کے سلسلے میں ان کی تنقید اگرچہ بھرپور وار نہیں ہے مگر غزل کو انتہاؤں کا سلسلہ کہہ کر انھوں نے ایک اہم پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے جو کلیم الدین احمد کی نظر سے اوجھل تھا۔

    شاعر فراقؔ در اصل نقاد فراق پر سایہ فگن رہتا ہے۔ اس لیے ان کی تنقید تاثراتی ہو جاتی ہے، تجزیاتی کم۔ تاثراتی تنقید کو آج کے تجزیاتی اور معروضی دور میں وہ اہمیت نہیں دی جاتی، جو پہلے دی جاتی تھی۔ گو اسے یکسر نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے ذریعے سے تعارف، تحسین، قدر شناسی تو ہوتی ہے۔ یہ اپنے تاثر کے ذریعے سے پڑھنے والے کی دنیا میں کیفیت تو پیدا کرتی ہے۔ یہ شاعر کے روحانی سفر میں اس کے ساتھ چلنے کی صلاحیت تو عطا کرتی ہے۔ فراقؔ کی تنقیدوں میں تنظیم کی کمی کے باوجود تاثیر ہے۔ انھوں نے جابجا بڑے پتے کی باتیں بڑے مزے سے کہی ہیں۔

    اپنے متعلق انھوں نے جو کچھ کہا ہے، اس میں تخلیق کار کی ترنگ ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کے لیے وہ اپنے اشعار بھی اکثر پیش کرتے ہیں اور اس طرح چونکہ اپنا پروپیگنڈا کرتے ہیں اس لیے ان کی بات بعض اوقات دل کو نہیں لگتی مگر اپنے ہم عصروں کے سلسلے میں انھوں نے معنی خیز باتیں بھی کہی ہیں۔ اس سلسلے میں فانی کے متعلق ان کے مضمون کو میں بڑی اہمیت دیتا ہوں۔ فانیؔ کے یہاں غم، موت اور جبر زیست سے شغف، سستی، رجائیت یا پیامی یا مقصدی میلان کی وجہ سے معتوب ٹھہرا۔ مجنوں نے بھی اس پر خاصی نکتہ چینی کی مگر فراقؔ فانیؔ کی شاعری کو اس کے صحیح تناظر میں دیکھتے ہیں اور یہاں تک کہتے ہیں کہ ’’مستقبل فانی کی آواز پر آواز دےگا۔‘‘

    اقبال کے سلسلے میں فراق نے انصاف سے کام نہیں لیا۔ انھوں نے شاعر اقبال کی روح تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی۔ فلسفی اقبال کے سیاسی میلانات کو زیادہ اہمیت دی۔ انھوں نے آفاقی کلچر کا نام ضرور لیا مگر اقبال کے انفس و آفاق کی سیر نہ کر سکے۔ ان کے اپنے عشق کے تصور میں جو ارضیت تھی، اس کی وجہ سے وہ اقبال کے عشق کے امکانات، اس کی پرسوز عقلیت، زمین کے ہنگاموں کو سہل کرنے کے ساتھ اس میں مستی اندیشہ ہائے افلاکی کا عرفان حاصل نہ کر سکے۔ یہ مزاجوں کا فر ق ہے۔ ادب میں آمریت نہیں۔ یہاں میرؔ، نظیرؔ، غالبؔ، اقبالؔ، انیس سب کی بلندی، عمدگی، خوبی، طرحداری کو سمجھنا اور حسن کاری کے ہرقطب مینار کے لیے سرخم کرنا ہوتا ہے اور یہ بڑے بڑوں کے بس کی بات نہیں۔

    فراق نے آزادی کے بعد جس طرح اردو زبان کی ہندوستانیت، اس کی تہذیب، اس کی ہماری دھرتی، ہماری فضا اور ہماری تاریخ پر مستحکم بنیاد اور اس کے مزاج کی رعنائی و زیبائی، اس کے چلن کی مقبولیت اور اس کی روانی، طاقت اور تاثیر پر زور دیا ہے، اسے کوئی اردو دوست اور کوئی محب وطن نظرانداز نہیں کر سکتا۔ لوک ادب سے اردو شاعری کے رشتے کو فراق نے بڑی خوبی سے واضح کیا ہے۔ زبان جس طرح روزہ مرہ کے استعمال سے سبک اور سڈول، مترنم، دلوں سے نکل کر دلوں میں گھر کرنے والی، اپنے آہنگ کی وجہ سے لطف و انبساط کی دولت عطا کرنے والی، ذہن میں چراغاں کرنے والی، خیال کی توسیع کرنے والی طاقت بنتی ہے، اسے فراق نے اپنی ان تحریروں سے بڑی خوبی سے اجاگر کیا ہے۔ اس طرح وہ ہماری تہذیب کے ایک مغنی ہی نہیں ایک مجاہد بھی کہے جا سکتے ہیں۔ فراق نے اردو شاعری کو ایک نیا مزاج دیا۔ ناہمواری اور تکرار کے باوجود ان کے یہاں حیرت انگیز جلووں کی کمی نہیں۔ انھوں نے اردو شاعری کو اور ہندوستانیت اور ارضیت، حیات و کائنات کا اور عرفان عطا کیا۔

    انھوں نے اپنی تنقیدں میں فن کے جادو، اس کی تاثیر، اس کی نشتریت اور زندگی کے لیے اس کی معنویت کا راز آشکار کیا۔ ان کی نکتہ سنجی نے ہمارے تخیل کو تب وتاب دی۔ ان کے کچھ اشعار زندگی کے سفر میں ہمیں یاد آتے رہیں گے۔ ان کے کچھ اقوال شعروادب کی افہام وتفہیم میں مدد دیتے رہیں گے۔ فراقؔ کا حوالہ دیا جاتا رہےگا۔ انھیں بھلایا نہ جا سکےگا۔

    مأخذ:

    پہچان اور پرکھ (Pg. 183)

    • مصنف: آل احمد سرور
      • ناشر: ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2012

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے