aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مجاز کی شاعری میں رومانی عناصر

سیداحتشام حسین

مجاز کی شاعری میں رومانی عناصر

سیداحتشام حسین

MORE BYسیداحتشام حسین

    حضرت عیسیٰ کے لئے کہا گیا ہے کہ وہ پہلے اور آخری عیسائی تھے جسے صلیب پر لٹکایا گیا۔ ممکن ہے کہ مذہبی عقیدے کے پرکھنے کی کوئی ایسی یقینی کسوٹی ہو جس سے کمالِ اعتقاد کا علم ہو سکے لیکن کسی رومانی فنکار کے لیے یہ کہنا کہ وہ مکمل رومانی تھا، کسی حالت میں بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ رومانیت کے عناصر سیال اور مدارج مختلف ہیں۔ اس کا ایک مثالی تصور تو ہو سکتا ہے، باضابطہ گرفت میں آنے والا نظریہ نہیں ہو سکتا۔ شاید اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ رومانی محض ریاضی کی زبان میں ایک فرد نہیں ہوتا بلکہ اس کی اَنا کا وسیع دائرہ اس کے گرد وپیش حلقہ کیے ہوئے ہوتا ہے۔

    اس دائرے کی تہیں فضائے بسیط کی تہوں اور پرتوں کی طرح نورونار کے مختلف مدارج اور محبت و نفرت کے مختلف کروں سے تشکیل پاتی ہے۔ انفرادیت کا یہ پیکر مضطرب اپنی اندرونی لگن کا پابند، اپنے فطری ہیجان کا اسیر اور اپنے جذبات کے اشاروں پر گام فرما ہوتا ہے۔ اس طرح کی ’’انفرادیتوں‘‘ کا کسی تحریک کا جزو بن جانا محض اس بات کا ثبوت ہے کہ فرد بھی کسی نظام کا اسیر ہے اور جذبات کی غیرمعمولی بے اعتنائی کے باوجود کسی عہد میں اپنے سے ملتے جلتے تخئیل پرستوں کے کارواں میں شریک ہونا پڑتا ہے۔ اس تحریک میں ’’اکائیوں‘‘ کی شرکت کے باوجود کچھ مماثلتیں، کچھ مشترک انداز ہائے نظر پیدا ہو جاتے ہیں پھر بھی ہر رومانی اپنے اپنے اعصاب کی پکار کا جواب دیتا ہے اور اس کے لئے یہ لازمی نہیں ہوتا کہ وہ ہر قدم پر اور سماج کے ہر عنصر سے بغاوت پر آمادہ ہو، یہی چیز ہے جو ایک رومانی کو دوسرے سے ممتاز کرتی ہے۔

    یہ کہنا کہ اردو ادب میں کوئی باضابطہ رومانی تحریک رہی ہے، تاریخ، ادب کا ایک بحث طلب مسئلہ ہو سکتا ہے لیکن اس پر بحث نہیں ہو سکتی کہ عصر جدید میں بہت سے شاعروں اور ادیبوں نے مختلف وجوہ سے اسی حسن تخئیل، اسی شوقِ گریزپا اور اسی شدتِ احساس کو اپنا رہنما بنایا جو دنیا کے رومانی ادیبوں اور شاعروں کے رہنما ہو چکے ہیں۔ بعض نے اپنی عنان بالکل انھیں کو سونپ دی محض اپنی انفرادیت کو بھی جماعتی شعور کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے رہے۔

    جہاں تک تخئیل اور جوش کے جادو سے کسی روایت کے طلسم کو توڑنے کا تعلق ہے، ہر دور اپنے بت شکن پیدا کر لیتا ہے کیوں کہ رومانی کی بے اطمینانی اور غیرآسودگی میں ہر ظلم اور ہر نقص کے خلاف آواز بلند کرنے اور کچھ نہیں تو حقارت کی نظر ڈال لینے کاجذبہ تو ضرور خاص ہی ہوتا ہے۔ اس حیثیت سے یہ بات بالکل سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اردو کے اکثر رومانی شاعر اور ادیب اس وقت پیدا ہوئے جب اردو ادب میں مقصدیت اور غایت پرستی کا میلان شعوری طور پر پیدا ہو چکا تھا کیوں کہ تاریخ کی انقلابی منزل میں رومانیت محض ابہام، اشاریت، بیمار داخلیت اور عدم مقصدیت کے علاوہ بھی کچھ ہو سکتی ہے۔

    یہ باتیں کہنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ادھر چند دنوں کے اندر مجازؔ کو برابر کیٹسؔ اور شیلی سے مشابہ کیا گیا ہے۔ چوں کہ آئندہ مجازؔ پر اس حیثیت سے بھی بہت کچھ لکھا جائےگا، اس لئے کسی حد تک سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ مجازؔ کی شاعری میں رومانی عنصر کی کیا حیثیت اور نوعیت تھی۔ جہاں تک شاعری کا تعلق ہے تخئیل، احساس، انفرادی تجربوں کے اظہار سے رومانی اور غیر رومانی دونوں کام لیتے ہیں۔ فرق یہ ہوتاہے کہ غیر رومانی انھیں حقائق کے اظہار کا ذریعہ بتاتا ہے اور رومانی ان کے ذریعہ حقائق سے بے نیاز ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ گو یہ بات مکمل طور پر ممکن نہیں ہو سکتی۔

    دنیا کے کئی اہم ترین رومانی فن کار اپنے عہد کی سیاسی اور سماجی تحریکوں سے متاثر ہوتے رہے ہیں۔ ورڈسورتھؔ اور کولرجؔ کچھ ہی عرصے تک سہی انقلابِ فرانس کے حامی تھے۔ شیلیؔ، آئر لینڈ اور اٹلی کی آزادی کا پرجوش مبلغ اور انگلستان کی مزدور تحریک کا حامی تھا۔ بائرنؔ یونان کی آزادی کے لیے جان دینا اپنا شاعرانہ فرض جانتا تھا۔ وکٹر ہیوگوؔ فرانس میں جمہوریت کے قیام پر زور دیتا تھا۔ یہ فہرست بڑھائی جا سکتی ہے۔ اس کے تذکرے کی ضرورت محض اتنی ہے کہ رومانیت کے تنومند بیدار اور سماجی عناصر کو اس کے مریض، مبہم اور محض انفرادی عناصر سے الگ کرکے بھی دیکھا جا سکتا ہے اور مجازؔ کی شاعری میں جو رومانیت ہے، اس کی تخئیل اس حقیقت کو سمجھے بغیر نہیں کی جا سکتی۔

    ممکن ہے کہ مجازؔ نے پہلے بھی کچھ غزلیں اور نظمیں کہی ہوں لیکن ان کی شاعری کا باقاعدہ آغاز ۱۹۲۰ء کے بعد ہوتا ہے جب ہندوستانی نوجوان کے سامنے فردوسِ آزادی کے در کھلے ہوئے تھے۔ جب نئی زندگی کا تصور اسے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ جب مستقبل ایک حسین دوشیزہ بن کر اشارے کر رہا تھا لیکن وہاں تک پہنچنے کے لیے ہر نوجوان کو ان سے زیادہ سخت اور حقیقی آزمائشوں سے گذرنا ضروری تھا جن سے اپنی محبوبہ یا مقصد کی جستجو میں پرانے قصوں کے ہیرو کو گذرنا پڑتا تھا۔ یہ آزمائشیں کامیابی کی راہ نہ پاکر کرب وبے خودی اور تخئیل بغاوت کی شکل اختیار کرتی تھیں۔ اسی کے ساتھ محبت اور مقصد زندگی میں ذاتی رکاوٹوں اور ناکامیوں کے بھوت بھی منڈلا رہے تھے۔

    بنے بنائے راستوں پر چلنا، روایتی اخلاقی تصور سے آسودہ ہونا، دشواریوں کے سامنے سر جھکا کر جانا ناممکن تھا۔ اس لیے خارجی اور دونوں قسم کی زندگی انحراف، بغاوت، شوخ گفتاری، وارفتہ مزاجی اور سرفروشی کا سلسلہ کرتی تھی۔ مجازؔ نے باضابطہ شاعری کی دنیا میں قدم رکھا تو یہ دنیا اس کے سامنے تھی۔ وہ روایتی انداز نظر کی انگلی تھام کر بھی چل سکتے تھے اور دوسرے شعراء کی طرح ایک خاص حلقے سے داد تحسین حاصل کر سکتے تھے، لیکن انھوں نے اپنے لیے دوسرا راستہ تجویز کیا۔ انھوں نے بچپن میں کچھ خواب دیکھے اور ان کی تعبیر دیکھنا چاہتے تھے،

    دیوانہ وار ہم بھی پھریں کوہ و دشت میں

    دل دادگانِ شعلۂ محمل میں ہم بھی ہوں

    دل کو ہو شاہزادیٔ مقصد کی دھن لگی

    حیراں سراغِ جادۂ منزل میں ہم بھی ہوں

    صحرا ہو، خار زار ہو، وادی ہو، آگ ہو

    اک دن انھیں مہیب منازل میں ہم بھی ہوں

    دریائے حشر خیز کی موجوں کو چیر کر

    کشتی سمیت دامنِ ساحل میں ہم بھی ہوں

    اک لشکرِ عظیم ہو مصروفِ کار زار

    لشکر کے پیش پیش مقابل میں ہم بھی ہوں

    ان خوابوں کے ساتھ، بلکہ خیال میں ان سے پہلے آنے والے، یہ خواب بھی تھے، گیسوؤں کے حسین سلاسل میں اسیر ہونے کے خواب، دوشِ ثریا پر سر رکھ کر ترانے گانے کے خواب اور آشفتگانِ عشق کی منزل میں بھٹکتے پھرنے کے خواب۔ ان خیالات میں سادگی اور خلوص ہے، کوئی گہرائی، فلسفیانہ اور سماجی شعور ہو یا نہ ہو، جوشِ شباب کی گرمی اور صداقت ہے۔ انھیں محض رومانی یا تخئیلی نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ یہ خواب انفرادی خواہشات اور انفرادی تصورات کا عکس تھے۔ ان میں محض انفرادیت بھی نہیں بلکہ لشکر عظیم کے ساتھ مل کر کارزار میں شریک ہونے کی آرزو ہے۔

    اگر مجازؔ کی شاعری کو تاریخی طور پر سامنے رکھا جائے اور اس میں رومانیت کے اندر حقیقت کی نمود کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کے یہاں رومانیت کے بنیادی عناصر ایک خاص رنگ میں جلوہ گر ہوئے اور کبھی ان کے یہاں سماج سے کٹ کر علاحدہ ہونے، اپنی ذاتی مسرتوں میں کھو جانے اور ایک خیالی جنت بنالینے کی نمایاں خواہش نہیں پیدا ہوئی ہے۔ ان کے احساس نے اپنے کرب کے ساتھ دوسروں کے کرب اور اپنی الجھنوں کے ساتھ دوسروں کی الجھنوں کو بھی دیکھا۔ چند ابتدائی غزلوں اور نظموں کی جذباتی خامی اور فنی ناپختگی سے قطع نظر مجازؔ ابتدا ہی سے شاعرانہ شعور کے مالک نظر آتے ہیں۔ زندگی کے محدود تجربوں کی بنا پر چند خیالات بار بار آتے ہیں اور اپنی ذات کے گرد کائنات رقص کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے،

    یہ میری دنیا یہ میری ہستی

    نغمہ طرازی، صہبا پرستی

    شاعر کی دنیا شاعر کی ہستی

    یا نالۂ غم، یا شورِ مستی

    محوِ سفر ہوں، گرمِ سفر ہوں

    میری نظر میں رفعت نہ پستی

    یا خلد و ساقی، اے جذبِ مستی

    یا ٹکڑے ٹکڑے دامانِ ہستی

    ان اشعار میں رومانی وفور ہے لیکن ایسی جذباتیت نہیں ہے جو حقیقت کی نفی کرتی ہو۔

    مجازؔ کی نظموں کا مطالعہ کرتے ہوئے ۱۹۳۳ء ایک خاص سال معلوم ہوتا ہے۔ اس سال کی غزلوں اور نظموں میں شاعر کے تجربے بڑھتے اور شعور کے حدود وسیع ہوتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ یہ ایک حساس، مضطرب، کامیاب بغاوت پسند نوجوان شاعر کی زندگی کے موڑ پر آ جانے کا سال ہے۔ اسی سال مجازؔ نے اپنی تین بہت ہی کامیاب نظمیں لکھیں۔ آج کی رات، رات اور ریل، انقلاب، یہ سب کسی نہ کسی حیثیت سے ان کی اہم نظمیں ہیں۔ آج کی بے پناہ غنائیت اسے ایک طرف خوب صورت رومانی نظم بناتی ہے، دوسری طرف تجربہ کا والہانہ بیان اسے حقیقت کی گود میں ڈالتا ہے۔ یہاں واقعہ جذبہ کی صداقت سے ہم آہنگ ہے اور اس کا اظہار نفسِ مضمون سے مطابقت رکھتا ہے۔

    حسن، رنگینی، مسرت اور مستی کا سیلاب بھی اس حقیقت کو غرق نہیں کر سکا کہ محبت کے ایک تجربے نے سنگ ریزوں کو گہر میں اور رہ گزر کو کہکشاں میں تبدیل کر دیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ’رات اور ریل‘ کو نہ صرف مجازؔ کی بلکہ اردو کی بہترین نظموں میں شمار کرنا چاہیے اور اس وقت تک اس نظم پر گہری نظر نہیں ڈالی گئی ہے۔ پروفیسر کلیم الدین احمد کے یہ کہنے کے باوجود کہ یہ نظم طفلانہ ہے، میں اسے ایک اہم نظم تسلیم کرنے پر مجبور ہوں۔ اس میں مجازؔ نے موضوع کا انتخاب ایک رومانی کی طرح کیا ہے اور بہت سے اشارے اور کنایے بھی وہی استعمال کیے ہیں جس سے اس انداز کی تکمیل ہوتی ہے۔ لیکن اس کا اصل حسن، موضوع اور اظہار کی ہم آہنگی میں ہے۔ حرکت کی اشارتی مصوری، آواز اور کیفیات کی مصوری، جذبہ اور خیال کی مصوری نے اسے فنی حیثیت سے ایک غیر معمولی نظم بنا دیا ہے۔ ’رات اور ریل‘ میں الفاظ جہد حیات کی واضح علامتوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

    ہندوستان اور آزادی کی جد وجہد، اندھیرے پر روشنی کی یلغار، ایک سرکش فوج کا حملۂ بغاوت، ارتقا، سارے رموز اس نظم میں موجود ہیں۔ جوشؔ ملیح آبادی نے اپنی ایک نظم میں ریل کے لیے دو حسین اور معنی خیز استعارے استعمال کیے ہیں بلکہ ایک جگہ اسے، ’’پا بہ گل ویرانیوں میں نغمۂ شہرِ رواں‘‘ کہا ہے اور دوسری جگہ ’’جہل کے سینے پہ زلفِ علم لہراتی ہوئی۔‘‘ لیکن وہ مسلسل کیفیت جو اس نظم سے پیدا ہوتی ہے، وہ پیہم اثر جو اس سے وجود میں آتا ہے، وہ اردو شاعری میں اپنا آپ جواب ہے اور اسی سال کی تیسری عہدِ آفریں نظم ’’انقلاب۔‘‘ چوں کہ اس کا موضوع گہرے سماجی اور سیاسی شعور کا طالب ہے، اس لیے بعض نقادوں کو اس میں سطحیت، پروپیگنڈے، نراج، جذباتیت اور رومانی تصویر پرستی کا احساس ہوا ہے۔ یہ باتیں کسی حد تک درست بھی ہیں لیکن اس کے باوجود اس کی شعریت اور غنائیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت انقلاب کا یہی رومانی تصور روحِ شاعر کو اکساتا تھا اور عمل کا یہی جوش حب الوطنی کا سبق دیتا تھا۔ یہاں بھی رومانی عنصر وقت کے حقیقی تقاضے کے احساس سے مغلوب اور انفرادیت کا پہلو اجتماعی احساس کے نیچے دبا ہوا نظر آتا ہے۔

    غم رومانیت کا ایک بہت اہم عنصر ہے لیکن مجازؔ کے یہاں وہ محض اداسی کی کیفیت اختیار کرتا ہے، نہ تو غمِ جاوداں بنتا ہے اور نہ خواہشِ مرگ میں تبدیل ہوتا ہے۔ موت کا ذکر بھی ہے تو دولھن بن کر نہیں آتا۔ یہ ہر شخص کو معلوم ہے کہ مجازؔ، فانیؔ کی شاعری کو پسند کرتے تھے اور ایک وقت میں ان کے طرز اظہار اور رنگِ بیان سے متاثر بھی تھے لیکن فانیؔ کے خیالات کی پرچھائیاں مجازؔ کے کلام پر بہت کم پڑ سکیں کیوں کہ ان کا شعور دوسرے سانچے میں ڈھل رہا تھا لیکن پھر بھی اس کی جھلک عارضی کیفیات کی شکل میں نظر آ جاتی ہے۔ یہ بات شوقِ گریزاں کے مطالعہ سے سمجھ میں آ سکتی ہے جس میں ’’عشرتِ جہل و تیرگی‘‘ عزیز ہے، ’’دشتِ ظلمات‘‘ میں بھٹکنا پسند ہے اور یہ درخواست بھی ہے،

    جس کو اپنی خبر نہیں رہتی

    اس کو سالارِ کارواں نہ بنا

    میری جانب نگاہِ لطف نہ کر

    غم کا اس درجہ کامراں نہ بنا

    تقریباً اس زمانے کی نظم ’’تعارف‘‘ بھی ہے، اس میں بھی فتنۂ عقل سے بیزاری کا جذبہ نظر آتا ہے۔ اس خوب صورت نظم میں یہ شعر بھی ہے،

    چھیڑتی ہے جسے مضرابِ الم

    سازِ فطرت کا وہی تار ہوں میں

    اور کوئی شخص اسے رومانی الم پسندی کی روایت سے وابستہ کر سکتا ہے لیکن دوسرے اشعار کے ساتھ مل کر لفظِ الم کے کچھ اور معنی بھی ہو سکتے ہیں اور یہ الم محض مطلق غم یا خیالی علم نہیں رہ جاتا۔ جو شخص شوخیٔ گفتار کا مجرم، نوع انساں کا پرستار، لپکتا ہوا شعلہ اور چلتی ہوئی تلوار ہونے کا مدعی ہے وہ غم کا پرستار نہیں کہا جا سکتا۔

    رومانی انداز نظر کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ بعض چھوٹے چھوٹے ذاتی تجربے، خوشی اور غم کے لمحے انوکھے، عظیم الشان، انفرادی اور غیرمعمولی معلوم ہوتے ہیں، اس کی نمائندگی جشنؔ سال گرہ، خانہ بدوشؔ، نذرؔ دل، نورا، ننھیؔ پجارن اور مجبوریاںؔ سے ہوتی ہے۔ یہ ساری نظمیں ڈیڑھ دوسال کے وقفے میں لکھی گئی ہیں، اس وقت مجازؔ دہلی میں تھے اور آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت اختیار کر لی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت وہ ذہنی کشمکش جس نے رات اور ریل، انقلاب اور شوق گریزاں کو جنم دیا تھا، دب گئی تھی۔ نذرِ علی گڑھ بھی اس زمانے کی ایک والہانہ رومانی، جذباتی اور عقیدت مندانہ نظم ہے۔ یہ اس علی گڑھ کو خراجِ عقیدت ہے جس نے انھیں یہ سرمستی، رنگینی، ولولہ اور عزم عطا کیا تھا۔

    جیسے ہی ملازمت ختم ہوئی اور ملازمت کا ختم ہونا بھی انگریزی عہد میں وطن کی خدمت کے لئے آزاد رہنے کے جذبے کا نتیجہ تھا، مجازؔ نے اپنی عہد آفریں نظم ’’اندھیری رات کا مسافر‘‘ لکھی۔ یہ ایک مکمل نظم ہے اور پہلی دفعہ اس میں شعور کی گہرائی اور وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ نظم بھی رومانی وفور سے بھری ہوئی ہے لیکن واضح طور پر ایک مریض، بے مقصد اور داخلیت پسند رومانیت سے مختلف ہے۔ اس کا حسن اس کی علامتوں کی عمومیت اور غیر مبہم کیفیت میں پوشیدہ ہے۔ رات اور ریل کی طرح یہ نظم بھی حسین استعاروں سے مالا مال ہے اور شاعر کی بے فکری صلاحیت کی جانب بھی اشارہ کرتی ہے۔ اور صرف مجازؔ کی نمائندہ نظم نہیں، ہر رومانی بغاوت پسند، حساس فکر، مضطرب نوجوان کے تصورات کی آئینہ داری اور نمائندگی کرتی ہے۔

    مجازؔ کی شاعرانہ اور فن کارانہ صلاحیت نے اسے نغمہ اور ترنم، کرب اور نشاط، خیال پرستی اور سماجی شعور کا ایک حسین مرکب بنا دیا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ حقیقی سیاسی شعور کی ابتدا مجازؔ کے یہاں ۱۹۳۷ء سے ہوئی ہے۔ اگرچہ دہقاں اور مزدور کا ذکر ۱۹۳۲ء میں بھی مل جاتا ہے۔ یہ وقت وہ تھا کہ ہندوستان کے نوجوان اشتراکیت سے متاثر ہو چکے تھے اور یہ وابستگی زیادہ تر رومانی حیثیت رکھتی تھی لیکن اس کے چند واضح پہلو بھی تھے اور مشکل ہی سے کوئی نوجوان شاعر و ادیب ہوگا جس نے اس وابستگی کا اظہار نہ کیا ہو۔

    سیاست، ادب اور فلسفہ زندگی میں اشتراکی رجحانات جگہ پا رہے تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو اور سبھاش چند بوس کی سرکردگی میں قومی تحریک کا نمایاں بازو مضبوط ہو رہا تھا اور ایسی ادبی تحریکات کی ابتدا ہو رہی تھی جو اپنے اشتراکی رجحان پر فخر کرتی تھیں۔ یہاں شاعر کے لیے محض رومانی ہو جانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اگر رومانیت شدت احساس، انقلاب پسندی، انفرادی جوش، شاعرانہ حسن کاری کا بھی نام ہے تو یہ نہ صرف ہمیشہ باقی رہنے والے عناصر ہیں بلکہ تخلیقی ادب کو تقویت پہنچاتے ہیں۔

    مجازؔ کے یہاں اس کے بعد رومانیت اسی انداز میں ملتی ہے۔ جذباتیت، انفرادی تصور پرستی اور سطحی رندانہ پن کی کمی ہوجاتی اور مقصد سے شعور بھی لیکن فنکارانہ وابستگی، گرم جوشی، تفکر اور شعریت کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ رومانیت مجاز کو ترقی سے روکنے والا عنصر نہیں پرواز کرنے والا عنصر بن جاتا ہے۔ زندگی اور انسان سے شدید محبت ان کے فن کو حسن، وسعت اور گہرائی بخشتی ہے، جس میں خواب سحر، عشرتِ تنہائی، اعتراف اور فکر کی سی نظمیں وجود میں آتی ہیں۔

    مأخذ:

    تنقید اور عملی تنقید (Pg. 223)

    • مصنف: سیداحتشام حسین
      • ناشر: محمد نجم الحسن
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے