aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

منٹو اور فحاشی

شمیم حنفی

منٹو اور فحاشی

شمیم حنفی

MORE BYشمیم حنفی

     

    (1)

    منٹو ایک واقعے کا عنوان ہے۔ ہمارے افسانوی ادب کی تاریخ کے شاید سب سے اہم اور بامعنی اور مکمل واقعے کا۔ اس واقعے کا آغاز اس کی پہلی کہانی کے ساتھ ہوا تھا۔ اب اگر آپ کسی ادبی مؤرخ سے رجوع کریں تو وہ بتائے گا کہ اس واقعے کا نقطہ اختتام ۱۹۵۵کے ماہ جنوری کی اٹھارویں تاریخ ہے۔ وہ لمحہ جو خود منٹو کے لئے اس واقعے کے تسلسل سے بیزاری کا شدید ترین لمحہ تھا اور جب مرنے سے پہلے بار بار اس کے ہونٹوں پر یہ الفاظ آئے تھے کہ ’’اب یہ ذلت ختم ہوجانی چاہئے!‘‘ لیکن یہ ایک ایسی ذلت تھی جو منٹو کی موت کے ساتھ بھی ختم نہ ہوسکی۔

    اس لمحے نے منٹو کو اپنے مقدمات کی پیروی سے تو نجات د لادی مگر آنریبل جسٹس دین محمد جنہوں نے منٹو کے وجود کو ننگ ادب قرار دیا تھا، اس لمحے کے بعد بھی زندہ رہنے اور منٹو کی ذلت کے ساتھ ساتھ ایک فرقہ ملامتیہ کا قصہ بھی چلتا رہا۔ اصل میں افراد چاہے رخصت ہوجائیں، سوچنے، جینے اور زندگی کو برتنے کے اسالیب جنہیں ہم کسی فرد سے مختص کرسکیں، جوں کے تو ں قائم رہتے ہیں۔ چنانچہ ایک اسلوب منٹو کی ذات تھی جو اپنے طبیعی اور زمانی رشتوں سے انقطاع کے بعد بھی زندہ ہے۔ اسی طرح ایک اور اسلوب ملامت، دشنام اور احتساب کاوہ قہر بے پناہ ہے جس کا سرچشمہ کبھی میزان عدل کے تماشہ گر رہے، کبھی ترقی پسند اور تعمیر پسند ناقد اور قاری۔ سو یہ اسلوب بھی کسی نہ کسی سطح پر اب تک سانس لئے جارہا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں۔

    یہ اندو ہ ناک سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک زندگی سے آنکھیں چار کرنے اور زندگی سے آنکھیں چرانے کا طور عام رہے گا۔ زندگی کی بنیادی سچائیوں کی طرح کچھ فریب بھی وقت اور مقام کی قید سے ماورا ہوتے ہیں اور ان کے ایک دوسرے سے ٹکرانے کا عمل کبھی ختم نہیں ہوتا۔ ایسا نہ ہو تو شاید ان کی پہچان بھی باقی نہ رہ جائے۔ زندگی کی کوکھ سے جنم لینے والی ہر حقیقت، ہر جذبے، ہر قدر، ہر رویے کی حیثیت اضافی ہوتی ہے اور ان کی شناخت قائم کرنے کا سب معتبر ذریعہ وہ آئینہ ہے جو کسی مختلف، متضاد اور متصادم رویے کے انعکاس کا وسیلہ بنتا ہے۔

    منٹو کی انفرادیت اور اس کی ترکیب میں شامل عناصر کی دریافت بھی ہم ان ضدوں کے حوالے سے کرتے ہیں، جن کا منظر نامہ منٹو کی ادبی روایت یا اس کے عہد کی ادبی صورت حال سے قطع نظر اس کے معاشرتی ماحول نے ترتیب دیا تھا، جس کی اساس منٹو کے حال کے علاوہ اس کے ماضی پر بھی قائم ہے۔ جس کے دریچوں سے گز ر کر ہم تک گزشتہ زمانوں کی بساط پر پھیلے ہوئے متعدد اور متنوع انسانی تجربات کے اجالے اور اندھیرے کی رسائی ہوتی ہے۔ جو بیک وقت پرانا بھی ہے اور نیا بھی۔ چنانچہ ماضی اور حال کو ایک دوسرے سے الگ کرنے والی منحنی لکیر کو مٹاتا ہے اور کم از کم منٹو کی حد تک قصہ جدید قدیم کو دلیل کم نظر ی ٹھہراتا ہے۔

    شاید اسی لئے منٹو کی حیثیت ایک ایسے مسئلے کی ہے جو دائم اور مستقل ہے۔ اس مسئلے کو اپنے اپنے طور پر حل کرنے کی کوشش بہت سے لوگ کرتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں میں منٹو کے ناشر اور قاری اور نقاد اور محتسب سبھی شامل ہیں۔ کسی کے نزدیک اس مسئلے کا اقتصادی پہلو سب سے اہم بن جاتا ہے۔ کوئی اسے کیس ہسٹری کے طور پر پڑھتا ہے اور نفسیات جنسی کی اصطلاحوں میں اس کی الجھنوں کا سرا ڈھونڈتا ہے۔ کچھ اس میں لذت اندوزی کے سامان تلاش کرتے ہیں۔ کچھ اپنے جمالیاتی تقاضوں کی تکمیل کا۔ ان میں سب سے دلچسپ احوال فرقہ ملامتیہ کے ان صاحبان ذی شان کا ہے جن کے لئے منٹو کے آسیب کا وجود ایک مستقل پریشانی کا سبب ہے کہ اس کے شریر قدموں کی چاپ گلُِ منظر کی دید کے مقدس اور مطہر عمل میں بار بار مانع آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس مصیبت کا علاج ادب کی اصطلاحوں کے بس کا نہیں، چنانچہ یہ جوا اٹھانے پر ان کی طبیعتیں آمادہ نہ ہوئیں اور انہوں نے ہاتھوں میں سنگ ریز ے سنبھال لئے۔

    یہ بارش سنگ ختم اس لئے نہیں ہوتی کہ اس ذلت کا تسلسل بھی ہنوز قائم ہے جس نے منٹو کے حواس کو تھکا ڈالا تھا۔ اس لئے ہم یہ سوچنے میں حق بجانب ہوں گے کہ منٹو کا وجود جس واقعے سے عبارت تھا، وہ آج بھی جاری ہے۔ اس کی موت کے ساتھ نہ تو جینے کا وہ اسلوب ختم ہوا ہے، نہ لکھنے کا۔ میرے اس جملے کا مطلب وہ ہرگز نہیں جو قواعد اور صرف و نحو کے ماہرین سمجھیں گے۔ عسکری نے منٹو کی ذات کو زندگی کے ایک اسلوب سے تعبیر کیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ منٹو ان معدودے چند ادیبوں میں ہے جن کے یہاں جینے اور لکھنے کے مفاہیم لغوی نہیں ہوتے اور مراداً ایک ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ ہم اس کے بارے میں کوئی بھی گفتگو صرف اس کی عام انسانی شخصیت کے حوالے سے نہیں کر سکتے۔ اس کا جینا اور اس کا لکھنا ایک دوسرے کا تکملہ ہیں اور اپنے باہمی ادغام سے اس اکائی کو جنم دیتے ہیں جو ایک مسلسل متحرک، نمو پذیر اور وقت اور مقام کی سطح سے بلند تر، غیر محصور اور غیر متعین واقعے کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔

    اس صورت حال نے منٹو کو ایک انوکھی اور اٹل اور بعض اعتبارات سے ایک ناقابل تسخیر توانائی کا علامیہ بنادیا ہے۔ اس کے ہر پڑھنے والے پر یہ شرط عاید ہوتی ہے کہ منٹو کے بارے میں کسی بامعنی گفتگو کا ارادہ کرنے سے پہلے وہ ان تقاضوں کو سمجھے، جنہیں اس کے افسانوں سے الگ کسی بھی فکری یا اخلاقی یا جذباتی سطح پر سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ بنیادی طور پر منٹو کا چیلنج ایک ادب تخلیق کرنے والے کا چیلنج ہے۔ اس چیلنج کی حقیقت سے انکار کرنے والا نہ منٹو کی شناخت کا دعوے دار ہوسکتا ہے نہ زندگی کے ان لازوال منطقوں کا، جن کا شناس نامہ منٹو کی تحریریں ہیں۔ اپنی اس حیثیت کا اندازہ خود منٹو کو بھی تھا۔

    چنانچہ اس نے کبھی بھی کسی قدر، نظریے، اخلاقی یا تہذیبی تصور یا مصلحانہ جوش اور جذبے کو اپنی بیساکھی بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ وہ اس رمزسے باخبر تھا کہ ایک ادیب کی حیثیت سے جن حقوق کی ادائیگی کا بار اس نے سنبھال رکھا ہے، اس سے زیادہ کی متحمل ایک فرد کی زندگی نہیں ہوسکتی۔ لیکن ظاہر ہے کہ منٹو جیسے ادیب کی طرح زندگی بھی اپنی کچھ شرطیں رکھتی ہے اور ہر شخص سے، خواہ وہ منٹو ہی کیوں نہ ہو، چند تقاضوں کی تکمیل کا مطالبہ کرتی ہے۔ چنانچہ منٹو کے ناخن پر بھی چند گرہوں کا قرض مسلط رہا۔

    ’’ٹھنڈا گوشت کا مقدمہ قریب قریب ایک سال چلا۔ ماتحت عدالت نے مجھے تین ماہ قید بامشقت اور تین سوروپے جرمانے کی سزادی۔ سیشن میں اپیل کی تو بری ہوگیا۔ (اس حکم کے خلاف سرکار نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے۔ مقدمے کی سماعت ابھی تک نہیں ہوئی۔)

    اس دوران میں مجھ پر جو گزری، اس کا کچھ حال آپ کو میری کتاب، ٹھنڈا گوشت، کے دیباچے بعنوان ’زحمت مہر درخشاں ‘میں مل سکتا ہے۔ دماغ کی کچھ عجیب ہی کیفیت تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیاکروں۔ لکھنا چھوڑدوں یا احتساب سے قطعاً بے پروا ہوکر قلم زنی کرتا رہوں۔ سچ پوچھئے تو طبیعت اس قدر کھٹی ہوگئی تھی کہ جی چاہتا تھا کہ کوئی چیز الاٹ ہوجائے تو آرام سے کسی کو نے میں بیٹھ کر چند برس قلم اور ادب سے دور رہوں۔ دماغ میں خیالات پیداہوں تو انہیں پھانسی کے تختے پر لٹکا دوں۔ الاٹمنٹ میسر نہ ہو تو بلیک مارکٹنگ شروع کردوں یا ناجائز طور پر شراب کشید کرنے لگوں۔

    آخر الذکر کام میں نے اس لئے نہ کیا کہ مجھے اس بات کا خدشہ تھا کہ ساری شراب میں خود پی جایا کروں گا۔ خرچ ہی خر چ ہوگا۔ آمدنی ایک پیسے کی بھی نہ ہوگی۔ بلیک مارکٹنگ اس لئے نہ کر سکا کہ سرمایہ پا س نہ تھا۔ ایک صرف الاٹمنٹ تھی جو کار آمد ثابت ہوسکتی تھی۔ آپ کو حیرت ہوگی مگر یہ واقعہ ہے کہ میں نے اس کے لئے کوشش کی۔ پچاس روپئے حکومت کے خزانے میں جمع کراکے میں نے درخواست دی کہ میں امرت سرکا مہاجرہوں۔ بیکار ہوں اس لئے مجھے کسی پریس یا سنیما میں کوئی حصہ الاٹ فرمایاجائے۔

    درخواست کے فارم چھپے ہوئے تھے۔ ایک عجیب و غریب قسم کا سوالیہ تھا۔ ہرسوال اس قسم کا تھا جو اس امر کا طالب تھا کہ درخواست کنندہ پیٹ بھر کے جھوٹ بولے۔ اب یہ عیب مجھ میں شروع سے رہا ہے کہ جھوٹ بولنے کا سلیقہ نہیں ہے۔ میں نے الاٹمنٹ کرانے والے بڑے بڑے گھاگھوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہاکہ تمہیں جھوٹ بولنا ہی پڑے گا۔ میں راضی ہوگیا۔ لیکن جب چھپے ہوئے فارم کی خالی جگہیں بھرنے لگا تو روپے میں صرف ددیا تین آنے جھوٹ بو ل سکا۔ اور جب انٹرویو ہوا تو میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ صاحب جوکچھ درخواست میں ہے، بالکل جھوٹ ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ میں ہندوستا ن میں کوئی بہت بڑی جائداد چھوڑکے نہیں آیا صرف ایک مکان تھا اور بس۔ آپ سے میں خیرات کے طور پر کچھ نہیں مانگتا۔

    میں بزعم خود بہت بڑا افسانہ نگار تھا، لیکن اب مجھے محسوس ہوا کہ یہ کام میرے بس کا نہیں۔ اللہ میاں میاں ایم اسلم اوربھارتی دت کو سلامت رکھے۔ میں ان کے حق میں اپنی افسانہ نگاری سے سبک سر ہوتا ہوں اور صرف اتنا چاہتا ہوں کہ حکومت مجھے کوئی ایسی چیز الاٹ کردے جس کے لئے مجھے کام کرنا پڑے اور اس کام کی اجرت کے طور پر مجھے پانچ چھ سور روپیہ ماہوار مل جایا کرے۔‘‘ 
    سعادت حسین منٹو
    لاہور۔ ۱۱جنوری ۱۹۵۲
    (گنجے فرشتے)

    (2)
    منٹو نے زندگی کاجو اسلوب اختیار کیا تھا وہ خطرناک حد تک پیچیدہ اور پر فریب ہے۔ اس زندگی کی سچائیوں کے گردایک ایسا غبار آلود ہالہ ہمہ وقت ہمیں گردش کرتا ہو ا دکھائی دیتا ہے کہ بعض اوقات سچائیاں نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں اور ہماری بصارت صرف اس ہالے میں الجھ کر رہ جاتی ہے۔ یہ ہالہ بیک وقت اس کی زندگی اور اس کی تحریروں دونوں کے چہار اطراف پھیلا ہو ا ہے۔ منٹو سے قطع نظر اس کے احباب اور سادہ لوح ناقدین نے بھی خاصی گرد اڑائی ہے۔ شاید منٹو کی اپنی مرضی کو بھی اس معاملے میں خاصا دخل حاصل تھا۔ دوسروں سے مختلف، انوکھا اور غیر متوقع دکھائی دینے کی ایک شرارت آمیز آرزو مندی، ایک معمولی سی بات کو کسی نئے، پراسرار زاویے سے اس طو رپر کہنے کی خواہش کہ سننے والا چونک پڑے اور حیرانی سے دوچار ہو، یہ رویہ بنیادی طور پر ایک جمالیاتی بعد رکھتا ہے۔

    ظاہر ہے کہ انسانی تجربات کی بیشتر صورتیں زندگی کے معمولات ہی کا حصہ ہوتی ہیں۔ اکثر لکھنے والے ان معمولات کو وقار عطا کرنے کے لئے ان کے بیان میں وہ سہل الحصول اور آزمودہ نسخہ استعمال کرتے ہیں، جسے ایک سطحی قسم کی جذباتیت زدگی سے پیدا ہونے والے بے بضاعت تفکر یا اخلاقی پوز کا نام دیا جاسکتا ہے۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ خاصے تعلیم یافتہ لوگ بھی اس عمل کی سوقیت کو پہچاننے میں ناکام رہ جاتے ہیں اور سچائی پر فریب کو، فن پر طلافروشی کو اور انکشافِ حقیقت پر ایک بے روح لفاظی کو ترجیح دینے کے عامیانہ رویے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ ساری خرابی اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ مسئلے کی فنی اور جمالیاتی جہتو ں کو نظر انداز کر کے وہ اس کی جذباتی، فکری اور اخلاقی تعبیرات کے صحرا میں حقائق کے زرو مال کی جستجو کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں منٹو کی اصل شخصیت کا نگا ہ سے اوجھل ہوجانافطری ہے۔

    ادب میں اس رویے کی پسماندگی کو ایک سرمایہ افتخار کی حیثیت دینے کی ذمے داری ان ترقی پسندوں پر عاید ہوتی ہے جنہوں نے فن اور شخصیت کے روابط کو سمجھنے میں غلطی کی اور ان کے درمیانی فاصلے کی حقیقت سے بھی بے نیاز انہ گزر گئے۔ اصل میں ان کا مسئلہ ادب تھا ہی نہیں۔ ایک نسخہ کیمیائی کی جستجو ئے مدام کا کچھ اندازہ آپ اس واقعے سے لگا سکتے ہیں کہ بعض جغادری قسم کے ترقی پسند جعفر زٹلی کے کلیات میں سماجی بغاوت کے چند نشانات کی دریافت کو اپنی تلاش کا حاصل سمجھ بیٹھے، ایک لمحے کے لئے بھی یہ سوچے بغیر کہ ادب سے گالی کا کام لینا اور گالی کو ادب بنانا دو قطعاً مختلف بلکہ متضاد رویے ہیں۔ ایک کی اساس جذباتی اور ذہنی اشتعال پر ہے، دوسرے کی ادب کے جمالیاتی اور فنی عمل پر۔ یہی وجہ ہے کہ منٹو کو مردود و مطعون قرار دینے والوں میں مولوی اور منصف، صحت مندخیالات کی اشاعت کو ادب کا نصب العین سمجھنے والے مدیر ان رسائل اور مملکت خداداد کے سماجی مصلح اورمعمار، علامہ تاجور نجیب آبادی اور ترقی پسند نقاد سب کے سب ایک ساتھ صف آرا دکھائی دیتے ہیں۔

    رد عمل کی کم وبیش ایک ہی سطح کا اظہار ان تمام اصحاب کے یہاں ہوا ہے۔ ان میں بیشتر ادب کی ابجد سے بھی ناواقف تھے اور جنہیں ادب فہمی کا دعویٰ تھا، ان تک یہ اطلاع پہنچ نہیں سکی تھی کہ جدید ادب کے بنیادی تصورات میں سے ایک تصو ر یہ معروف اور مانوس حقیقت بھی ہے کہ کوئی بھی انسانی تجربہ، جو ایک جمالیاتی جہت سے ہم رشتگی کا امکان یکسر کھونہ بیٹھا ہو، ایک ادیب کا تجربہ بن سکتا ہے۔ کوئی بھی ایساتجربہ فن کے علاقوں سے باہر نہیں ہے جو ایک فنی عمل کے ذریعہ ایک وسیع تر جمالیاتی ہیئت میں منتقل ہونے کی قوت کا حامل ہو۔ ادب میں ’فحاشی ‘بھی اسی طرح اپنا وجود رکھتی ہے جس طرح فحاشی سے یکسر پاک اور منزہ ادب۔ اپنے معترضین کی سادہ ذہنی کا منٹو کو بخوبی علم تھا۔ چنانچہ عدالتوں میں اپنے بیانات صفائی کے علاوہ منٹو نے اپنے رویوں کی وضاحت و تعبیر کے سلسلے میں جو مضامین لکھے ہیں، ان میں اس کا انداز کم وبیش وہی ہے جو غبی طلبا کے ہجو م میں ایک صابر اور نرم خو معلم کا ہوتا ہے۔

    اس کی احتساب گزیدہ کہانیوں پر اس کے معترضین کا اشتعال بے سبب نہیں تھا، خود منٹو نے ارادۃً اس کا جواز فراہم کیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ ان حلقوں کی جانب سے اگر رد عمل کا اظہار اشتعال کی اس سطح پر نہ ہوا ہوتا تو منٹو کو مایوسی ہوئی ہوتی۔ جس لکھنے والے کے نزدیک اپنے قارئین کو مشتعل کرنے کا عمل ایک ناگزیر جمالیاتی اور تخلیقی رد عمل کو دعوت دینے کی غایت سے مملو ہو، اس کے عمل کی کامیابی کا انحصار ہی اس حقیقت پر ہے کہ اس کے قارئین متوقع اثر قبول کرنے سے معذور نہ رہ جائیں۔ اس سلسلے میں یہ مفروضہ بہت مضحک ہے کہ بدی یا لذت اندوزی کا عمل فنی تجربے کا حصہ بننے کے بعد اپنی اصلیت سے سر تاسر لاتعلق ہوجائے اور گناہ ایک کار خیر کی شکل اختیار کر لے۔ اس قسم کی قلب ماہیت تخلیقی تجربے کی سطح پر بعید ازقیاس تو نہیں ہے، لیکن اسے کسی حتمی اصول کی حیثیت دینا بھی غلط ہے۔

    اب رہااس قاری کا مسئلہ جو فکشن کے ہر تجربے کو اپنے عمل کی بساط پرازسر نو خلق کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور حقیقت کے عام تصور کو اسی کے تخلیقی تصور سے ممیز کرنے کی استعداد سے بے بہرہ ہے تو اس میں قصور افسانہ نگار سے زیادہ اس کی اپنی ذہنی اور تہذیبی تربیت اور ادراک کا ہے۔ انسانی معاشرے میں ایسے جری اور مہم پسند افراد بھی مل جائیں گے جو دینی اور طبی کتب کے صفحات پر بھی اپنے جنسی جذبات کو توانائی بخشنے والے عناصر تلاش کر لیں گے۔ اب سے بہت آگے ۱۸۳۳میں نوح و بیسٹر نامی ایک بزرگ نے انجیل مقدس کی زبان اور بعض اصطلاحات میں ترمیم و تنسیخ کی ضرورت محسوس کی تھی اور اپنے تئیں ’’فحش الفاظ‘‘ اس سے خارج کردیے تھے۔ اصلاح پسندی کے اس مولویانہ جوش کی مبالغہ آمیز صورت یہ واقعہ ہے کہ گزشتہ صدی کے ایک نامعلوم مبصر نے انجیل پر تبصر ہ کرتے ہوئے ایک جریدے میں اس رائے کا اظہار کیا کہ اس مقدس کتاب کی زبان ’’انتہائی فحش ہے اور ا س لائق نہیں کہ اسے کسی مہذب مجمع میں دہرایا جاسکے۔‘‘

    جب ایک ایسی کتاب کے سلسلے میں، جسے ہماری زمین پر بسنے والے لکھوکھا افراد انسانی معاشرے کی فلاح اور نجات کا واحد ذریعہ قرار دیتے ہیں، اس نو ع کے رد عمل کا اظہار ممکن ہے تو ہمیں علامہ تاجور نجیب آبادی کے ان الفاظ پر حیرت نہ ہونی چاہئے کہ، ’’ٹھنڈا گوشت کسی مسجد میں یاکسی مجلس میں جماعتی حیثیت میں سننا پسند نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی پڑھے تو اپنا سرسلامت لے کر نہ جاسکے۔ چالیس سالہ ادبی زندگی میں ایسا ذلیل اور گندہ مضمون میری نظر سے نہیں گزرا ہے۔‘‘

    یہ بات تو منٹو کے حاشیہ خیال میں بھی نہ آئی ہوگی کہ اس کا کوئی افسانہ جمعہ کی نماز کا خطبہ بھی بن سکتا ہے۔ پھر اگر جماعتی حیثیت سے اسے اپنی بات کے سنے جانے کا گمان بھی ہوتا تو اس نے ایک افسانہ نگار کے بجائے ان طلافروشوں کا اسلوب اختیار کیا ہوتا جو کسی عام شاہراہ کے کنارے اپنی دکانیں سجاتے ہیں یا تخلیقی فن کا ر کے بجائے کسی جادو بیان خطیب کے لہجے میں کلام کرتے ہیں۔ اس نے اپنے قاری سے وہ رشتہ قائم کرنے کی سعی کی تھی جو ایک فر د کا دوسرے فر دسے ہوتا ہے۔ جو انجمن آرائی کے بجائے اپنے خلوت کدے میں ایک راہب کی طرح اپنے تجربات کو ایک نئی سچائی کا روپ دیتا ہے اور اسے معمولات کی سطح سے اٹھاکر ایک انکشاف میں منتقل کردیتا ہے۔ منٹو نے اس سچائی کے تحفظ کی خاطر بقول عسکری، انانیت کا ایک حصار اپنی ذات کے گرد کھنچا کہ یہی سچائی اس کی انفرادیت و ملکیت تھی۔

    مگر اس سچائی کے حصول کے لئے، زندگی کی عام اور بین سطح پر اس نے ان تمام افراد، اشیا اور مظاہر سے ربط استوار کیا جن کے اجتماع سے انسانی تجربات کی تماشہ گاہ ترتیب پاتی ہے اور ان تجربات کی بو قلمونی، ان کی باہمی آویزش، اور تصادم کے نتیجے میں نمو پذیر ہونے والی چنگاریوں کا ادراک ہوتا ہے۔ سچائی کے حصول کی اس جستجو میں اس کی خود پسندی بھی مانع نہ ہوسکی کیونکہ بہ حیثیت افسانہ نگار منٹو اس رمزسے آگاہ تھا کہ سچائی کی دریافت اور اس تک رسائی کے لئے تجربے کی کسی ایک مخصوص اور معینہ سطح کی پابندی، کسی ایک جہت کی شناخت، کسی ایک دائرے میں گردش کافی نہیں ہوسکتی۔ اس سچائی کو پانے کا امکان سب سے زیادہ ان لوگوں کے درمیان ہوسکتا تھا جو مسلمات کی پروا کیے بغیر، عام سماجی اور اخلاقی امتناعات کی قید سے آزاد زندگی کو اس کے تمام تر شور شرابے اور اس کی ساری ہلاکت آفر ینیوں کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔

    نیکی کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے بدی کا اور بدی کے رمزسے شناسائی کے لئے اس کی تہہ میں مخفی صداقتوں کا عرفان ضروری ہے۔ اسی لئے منٹو نے کسی بندھے ٹکے اصول یا نظریے یا قدر یاسماجی فلسفے کے بجائے زندگی کو اس پیچیدہ اور ہزار شیوہ منطق کے ذریعہ سمجھنے کی کوشش کی جس کا مواد انسان کا پورا نظام احساس فراہم کرتا ہے۔ اس کے تجربے محض عقلی تجربے نہیں تھے، ان تجربوں کی آماجگاہ صرف روح بھی نہیں تھی۔ چنانچہ منٹو نے نہ تو کتابوں کو اپنا رہنما بنایا، نہ کسی خارجی تصور کو۔ اسے سروکار انسانوں سے تھا، تجریدات سے نہیں۔ اور جو قوتیں جیتی جاگتی ذات کو ایک تجرید کی شکل دینے میں سب سے زیادہ کار گر ہوتی ہیں وہ وہی ہیں جنہیں انسانی معاشرہ اخلاقی تہذیبی اور سماجی اقدار کا نام دیتا ہے۔ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ رویہ خواہ کتنا ہی نیک اندیش کیوں نہ ہو، ا س کی اساس فر د کشی بلکہ انسان کشی کے ایک بظاہر بے ضرر اصول پر قائم ہے۔

    بادی النظر میں یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے مگر واقعہ یہی ہے کہ منٹو کے یہاں اپنے ’’برے سے برے‘‘ کردار کے لئے نفرت یا کراہت کے تاثر کا شائبہ تک نہیں۔ و ہ قاتلوں، زانیوں، شرابیوں اور ٹھکرائے ہوئے لوگوں کا ذکر بھی اس طرح کرتا ہے گویا ان کے اعمال جنسی یا جذباتی یا جسمانی تشدد کے عنصر سے یکسر عاری ہیں۔ گویا کہ ہر عمل ایک انسانی عام عمل کی حیثیت سے زندگی کی کسی نہ کسی حقیقت کا انکشاف کرتا ہے اور بس۔ منٹو نے اپنی حد یہیں قائم کر لی تھی،

    ’’میں تہذیب و تمدن کی اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا، جو ہے ہی ننگی۔ میں اسے کپڑا پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا اس لئے کہ یہ میرا کام نہیں، ورزیوں کا ہے۔ لوگ مجھے سیاہ قلم کہتے ہیں لیکن میں تختہ سیاہ پر کالی چاک سے نہیں لکھتا، سفید چاک استعمال کرتا ہوں کہ تختہ سیاہ کی سیاہی اور بھی زیادہ نمایاں ہوجائے۔‘‘ منٹو (ادب جدید)


    (3)
    منٹو نے اپنی کہانیوں کو جذبات کی بے جا مداخلت سے جس طرح محفوظ رکھا ہے وہ بجائے خود ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ جذباتی ہونا شر م کی بات نہیں ہے کہ یہ وصف بھی انسان کے مزاج اور طبیعت کا ایک فطری جزو ہے۔ لیکن جب کوئی ادب تخلیق کرنے والا جذبات کی لگام پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے تو رسوائی جذبات کی بھی ہوتی ہے اور اس کے تخلیقی کردار کی بھی۔ ایسی صورت میں وہ فن کار نہیں رہ جاتا اور انسانی تجربات کے ادارک کی ایک ایسی سطح پر آن گرتا ہے جو انفرادی بصیرت کی روشنی سے یکسر محروم ہوجاتی ہے اور اپنے عامیانہ پن کے اخفا کی خاطر جذبات کا طلسم باندھتی ہے۔ اس رویہ کوہم ایک نوع کے جذباتی ابتذال سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ منٹو نے جن آتش فشاں تہذیبی، سماجی اور انفرادی آثار کے سیاق و سباق میں اپنے تجربات کا اظہار کیا ہے، اس کے پیش نظریہ کوئی انہونی بات نہ ہوتی اگر وہ اپنے بعض اخلاق گرفتہ معاصرین کی طرح خطیبانہ طمطراق اور مصلحانہ خروش کا حصار اپنی ذات کے گر د کھینچ لیتا۔

    اس طرز فکر کو آپ ’’ادبی فحاشی‘‘ کا نام نہ دیں جب بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے، اپنی غایت کے اعتبار سے ’’مفید اور صحت مند‘‘ ہونے کے باوجود یہ طر ز عمل تخلیقی اور فکری دونوں سطحوں پر مبتذل ہے۔ عام وقائع اور جذبات سے بے حجابانہ ربط اور ان میں داخلی نظم و ضبط سے کلیۃً عاری آلودگی بھی ایک طرح کی بے توفیقی اور پھوہڑپن ہے، خاص طور سے فکشن لکھنے والے کے لئے۔ یہ انداز نظر نیک مقاصد کے اظہار کو بھی مسخرہ پن بنادیتا ہے۔ اس کے وفور کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لکھنے والا انسانی فکر اور جبلت کے طبیعی تقاضوں یا انسان کے عام جسمانی تفاعل میں ہر لمحہ قائم اور موجود رشتوں کے احساس سے غافل ہوکر خالی خولی تصورات کی سطح پر اس کے عمل اور ارادوں کی تعبیر یں ڈھونڈے نے لگتا ہے۔ اپنے محبوب کرداروں کی زبان سے وہ کچھ کہلوانے میں مگن ہوجاتا ہے، جو لفظ لفظ اس کے برہنہ شعور کی تختی پر لکھا ہوا ہے۔

    بالآخر وہ اس پراسرار جو ہر سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے جسے ہم فن کار کی داخلی توانائی اور اس کی انفرادی قوت سے تعبیر کرسکتے ہیں، یعنی یہ کہ وہ انسانی سرشت سے متعلق باسی خبروں کا ڈھنڈ ور چی بن جاتا ہے اور خود اس کی ذات اس کے قاری کے لئے کسی نئے رمز، بصیرت کے کسی ان دیکھے نقش، آگہی کی کسی غیر متوقع دریافت کا نشان نہیں رہ جاتی۔

    منٹو نے اس مسئلے کو بھی اظہار کی اسی سطح پر حل کرنے کی کوشش کی ہے جسے ہم ایک ادیب یا فن کار کی بنیادی سطح کہہ سکتے ہیں، یعنی کہ اظہار کی تخلیقی اور فنی سطح۔ یہاں بھی منٹو کی تخلیقی فکر اور اس کے عام افعال اور زندگی کے عام اسلوب میں ہمیں زبردست ہم آہنگی کا احساس ہوتا ہے۔ شعبدہ بازوں اور بازی گروں سے منٹو کی دلچسپی کسی عام انسان کی دلچسپی نہیں تھی۔ یہ ایک طرح کی تخلیقی ہم آہنگی تھی یا دوسرے کے آئینہ ذات میں اپنی پہچان اور بہ حیثیت فن کار اپنے منصب کی شناخت کا عمل۔ اسے عام زندگی میں اپنے دوستوں کو اورتحریرو ں کے ذریعہ اپنے قارئین کو چونکانے کی جو طلب پریشان رکھتی تھی، وہ ایک فنکار کی طلب تھی۔ سچائی اگر صرف روز مرہ کی سطح پر منکشف کرے تو زندگی کے معمولات اور عام مقدرات کا حصہ بن کر اپنی رہی سہی چمک بھی کھو بیٹھتی ہے۔

    چنانچہ منٹو اس کے ادراک اور اظہار میں ایسی کوئی نہ کوئی جہت ہمیشہ ڈھونڈنکالتا تھا جو اسے نامانوس اور نوساختہ بنادے۔ اس کی بیشتر کہانیوں کے اختتام کا لمحہ مانوس میں اسی نامانوس عنصر تک ایک خلا قانہ جست کی کامرانی کا لمحہ ہے۔ اس کے وہ تمام قارئین، ناقدین اور محتسبین جو اس لمحے کے کشف پر جھنجھلا اٹھتے ہیں اور اس کشف کی جمالیاتی قدر کا احساس کئے بغیر اس کے اخلاقی مضمرات میں الجھ جاتے ہیں، فکری اعتبار سے فلاکت زدہ اور تخلیقی اعتبار سے بنجر اور بے روح لوگ ہیں۔ منٹو اپنی اس قوت کشف کے ساتھ ساتھ ایسے تمام لوگوں کی بنیادی کمزور ی اور محرومی سے بخوبی آگاہ تھا۔ چنانچہ اپنی ان کہانیوں کے معاملے میں بھی جن پر قانونی احتساب کا حلقہ تنگ تھا، نہ تو اس نے معاشرے کے دباؤ کو قبول کیا نہ لارنس کی طرح اپنے ناشرین کی مصلحتوں کے پیش نظر کسی معمولی ترمیم و تبدیلی پر بھی رضا مند ہوا۔

    لارنس کے بر عکس منٹو ایک انتہائی خود سر اور ضدی طبیعت کا مالک تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ اگر اس کے الفاظ یا اظہار کے بعض پیرایے قارئین کے ایک حلقے کی پریشانی کا سبب بنتے ہیں تو یہ قصور خود ان قارئین کا ہے۔ سچائی کے اظہار سے پریشانیِ خاطر میں مبتلا ہونے والے افراد ادب کے معاملے میں بیوقوف ہی نہیں اخلاقی سطح پر بھی صحت مند نہیں ہوتے۔ منٹو کی کہانیاں ان کے حواس کے لئے ایک تازیانے کا اور بے روح ایقانات کے لئے ایک سزا کا حکم رکھتی ہیں۔ لیکن ادب کے غبی قاری یا تخلیقی طور پر نکبت زدہ شخص کی ایک پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی معذوریوں کو چھپانے کے لئے ضمنی بلکہ غیر متعلق مسائل پر گفتگو کے حیلے تلاش کرلیتا ہے۔ منٹو کے معترضین کو اس معاملے میں یہ سہولت بھی میسر آئی کہ منٹو نے اپنے اسلوب پر کسی خارجی آرائش کا غلاف چڑھانے کی کبھی بھی کوشش نہیں کی۔ اس کی کہانیوں میں حسن کے تمام عناصر خود ان کہانیوں کے باطن سے نمودار ہوئے ہیں۔ جذبات کے خول، مبالغے کی چاشنی، خوبصورت اور انوکھی علامتوں اوررنگین، سحر طراز الفاظ کے جادو سے منٹو کی کہانیاں یکسر خالی ہیں۔

    وہ کسی بیرونی سہارے کے بغیر اپنے تجربات کا انکشاف اس آہستگی کے ساتھ کرتاہے کہ یہ آہستہ کاری ہی اس کا نقش امتیاز بن جاتی ہے۔ لیکن یہی آہستہ کاری منٹو کا حجاب ہے۔ تخلیقی اظہار کا یہ راستہ دشوار گزار بھی ہے اور داخلی اعتبار سے پیچیدہ بھی۔ اس میں وہ ایمائیت ہے جو غزل کے اچھے شعر میں پائی جاتی ہے۔، بیک وقت معنی کی کئی سطحوں سے ہم کنار۔ حقیقت صرف وہ نہیں جو دکھائی دیتی ہے بلکہ الفاظ کے پیچھے بھی تجربے کے کئی ابعاد روشن ہیں۔ منٹو کی نثر فلابیر کی طرح شفاف اور حشو و زوائد سے یکسر پاک نہ سہی جب بھی اردو کے بیشتر جلیل القدر افسانہ نگاروں کے لئے ایک اچھا خاصا چیلنج ضرور ہے۔ اس میں احساس کی وہ طہارت، سچائی اور برجستگی ملتی ہے جو تجربے کے سچے، براہ راست اور فطری ادراک سے پیدا ہوتی ہے۔ منٹو اپنے تجربات کا بیان اس طرح کرتا ہے گویا کہ اس کے اظہار کا سانچہ بھی در اصل اس تاثر ہی کا حصہ ہو جو ایک واردات کے صورت اس تک پہنچا ہے۔

    موذیل جیسی کہانی ایک نشست میں منٹو ہی لکھ سکتا تھا۔ اور یہ صورت ا س کی متعدد کہانیوں کے ساتھ ہے کہ جزئیات اور زمانی و مکانی حوالوں کی ہم رکابی کے باوجود ان کا رد عمل قاری پر ایک اتمام یافتہ نظم یا ایک گٹھے ہوئے شعر کی طرح ہوتا ہے، جس میں نہ زبان کا وہ ابتذال ہے نہ جذبے کا جو داخلی تنظیم کے انتشار کا نتیجہ ہوتا ہے۔ منٹو نے کبھی کسی ایسے جذبے کی نمائش نہ کی جو اس کے تجربے کی شاخ سے ایک کونپل کی طرح بغیر کسی تصنع اور غوغا کے اپنے آپ ہی نمودار نہ ہوا ہو۔ اس بات سے اسے قطعا ًسرو کار نہ تھا کہ کسی مخصوص تجربے یا واردات کی طرف بھلے مانسوں کا جذباتی رویہ کیا ہوتا ہے، یا کیا ہونا چاہئے اور اگر اس کی کوئی قطعی صورت متعین کی جاسکتی ہے تو مار باندھ کر اسے اختیار کرنے کی جدو جہد کی جائے۔ کوئی بھی جذبہ اگر آپ کی فطرت کے خم و پیچ سے خود بخود نہیں ابھرتا تو اس کا اظہار ایک معمولی درجے کی ادبی جعل سازی کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔

    منٹو کر تب باز تھا مگر جھوٹ بولنا یا تصنعات کا سماں باندھنا اس کے لئے ممکن نہ تھا۔ چنانچہ اس کے معترضین کا رد عمل بھی بالعموم ایک کڑوے سچ کو برداشت نہ کرسکنے کا نتیجہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر سچائی دیانت کی ہی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ اور دیانت داری کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ آدمی مفروضہ اور مستعار یا کم از کم مبالغہ آمیز جذبات کی سطح سے خود کو دور رکھے۔ جذباتی ہونے کی پہلی سزا جو کسی ادیب کو ملتی ہے، وہ یہ ہے کہ اپنی رہی سہی ذہانت سے بھی وہ دست کش ہوجاتا ہے۔ اور منٹو کا معاملہ یہ تھا کہ وہ اپنی ذہانت کے خول کا پابند نہ سہی، جب بھی در اصل وہ اپنی ذہانت ہی کے وسیلے سے اپنے احساسات کے حقیقی اور واقعی اسلوب کی پہچان قائم کرتا تھا۔ منٹو کے ذہنی اور تخلیقی رویوں میں جو خوفزدہ کردینے والی دیانت داری نظر آتی ہے اور جس نے منٹو کی ذات پر جھوٹ سے مفاہمت کے تمام دروازے بند کردیے تھے، و ہ جذباتی وفور سے پیدا شدہ ابتذال کو رد کرنے کے سبب ہی اس کے کردار کا جزو بن سکی تھی۔

    ’’ہرشہر میں بد ر رو ئیں اور موریاں موجود ہیں جو شہر کی گندگی باہر لے جاتی ہیں۔ ہم اگر اپنے مرمریں غسل خانوں کی بات کرسکتے ہیں، اگر ہم صابن اور لیونڈر کا ذکر کرسکتے ہیں تو ان موریوں بدر روؤں کا ذکر کیوں نہیں کر سکتے جو ہمارے بدن کا میل پیتی ہیں۔‘‘

     

    منٹو
    (سفید جھوٹ)
    کالی شلوار کے بیان میں

    (4)
    منٹو نے افسانہ نگار اور جنسی مسائل کے عنوان سے گفتگو میں یہ کہا تھا کہ ’’نیم کے پتے کڑوے سہی مگر خون ضرورصاف کرتے ہیں۔‘‘ اسی گفتگو میں اس کے یہ الفاظ بھی شامل تھے کہ ’’ہم مرض بتاتے ہیں لیکن دواخانو ں کے مہتمم نہیں ہیں۔‘‘ اس سے قطع نظر کہ جنسی مسائل پر غوروفکر کی ایک جہت ایک غیر طبیعی بلکہ روحانی اور مذہبی منطقے سے بالآخر جا ملتی ہے، منٹو زندگی سے وابستہ تمام افعال اور احساسات حتی کہ اپنے اظہار اور تجربات کے ادراک کی سطح پر بھی ایک گہرے اخلاقی رویے کا پابند نظر آتا ہے۔ اس کی سچائی اور صاف گوئی بھی اس کی اسی اخلاقیات کا حصہ ہے۔ ممتاز شیریں نے لکھا ہے کہ ’’منٹو کا رویہ اگر سنکی نہیں تو ایک حد تک سادی ضرور ہے۔ زندگی اور انسان کو اور انسان کے وحشیانہ ہیجانی جذبات عریاں کرنے میں اور اپنی تحریروں میں دھچکا پہنچانے میں منٹو کا رویہ موپاساں کی طرح تقریبا سادی ہے۔‘‘ یہ سادیت منٹو کے یہاں اگر چہ بنیادی طور پر ایک جمالیاتی اساس رکھتی ہے مگر اس کے مفہوم کا تعین ہم منٹو کی اخلاقیات کے سیاق کو جانے بغیر نہیں کر سکتے۔

    اس کی اخلاقیات کا تارو پود بیک وقت انسان کے تئیں ایک متین، ملال آمیز تفکر، ایک گہری درد مندی اور انسانی تجربات کے تئیں ایک منزہ اور شفاف معروضیت سے تیار ہوا ہے۔ وہ اپنے کرداروں کے الم اور ان کے دہشت بھرے تجربوں میں شریک بھی ہے اور ان سے الگ بھی۔ وہ انسان کے وحشیانہ ہیجانات، ا س کی غارت گری، ایذا پسندی اور شہوانیت کی پہچان بھی رکھتا ہے اور ان نرم آثار جذبات کی بھی جن پر درشت اور سنگین واقعات کا خول چڑھا ہوا ہے۔

    اپنے کرداروں کے باطن تک منٹو کی رسائی محض ذہن کے وسیلے سے نہیں ہوتی ورنہ اس کے افسانے کیس ہسٹریز بن جاتے اور اس طرح صرف ایک سماجیاتی مطالعے کی موضوع کی حیثیت اختیار کر لیتے۔ لیکن ایک تو یہ منٹو سماجی حقیقت اور فنی حقیقت کے امتیاز کا گہرا شعور رکھتا تھا اور یہ جانتا تھا کہ خالص حقیقت انسانی نفسیا ت یا اس کے معاشرتی ماحول کے مطالعے میں چاہے جتنی ہی قدر وقیمت کی حامل اور کارآمد کیوں نہ ہو، ادب میں اس کا گزر تھوڑے بہت کھوٹ کے بغیر ممکن نہیں۔ چنانچہ اپنے ایک مضمون (کسوٹی) میں اس نے کہا تھا کہ،

    ’’ادب زیور ہے اور جس طرح خوبصورت زیور خالص سونا نہیں ہوتے، اسی طرح خوبصورت ادب پارے بھی خالص حقیقت نہیں ہوتے۔ ان کو سونے کی طرح پتھروں پر گھس گھسا کر پر کھنا بہت بڑی بے ذوقی ہے۔‘‘

    دوسرے یہ کہ منٹو کا بنیادی مسئلہ ایک ادیب کا مسئلہ تھا اور وہ اس رمز سے واقف تھا کہ ادیب کی ذمے داریوں اور مناصب کی نوعیت سماجی علوم کے ماہرین کے مقابلے میں مختلف ہی نہیں ہوتی، نسبتاًزیادہ پیچیدہ اور نازک بھی ہوتی ہے۔ ’’ادب یا توادب ہے ورنہ بہت بڑی بے ادبی ہے۔ زیور تو زیور ہے ورنہ ایک بہت ہی بدنما شے ہے۔ ادب اور غیر ادب، زیور اور غیر زیور میں کوئی درمیانی علاقہ نہیں۔‘‘ چنانچہ جیسا کہ او پر عرض کیا گیا، منٹو اپنے کرداروں کے باطن تک اپنے تمام تر حواس کی مدد سے پہنچتا تھا اور ان کرداروں کی پہچان کے لئے بھی اس نے ان کے خارجی یا ذہنی عمل کے بجائے ان کے مجموعی نظام احساس کی سطح کا انتخاب کیا تھا۔ اس طرح کردار اور ان سے وابستہ واقعات اپنی تمام جہتوں، اپنے تضادات، اپنی اندرونی کشمکش، اور اپنی نفسی اور اعصابی پیچیدگیوں کے ساتھ اس کے حواس پر وار د ہوئے تھے۔

    منٹو کے یہاں انسان، انسانیت اور افراد کے باطن میں چھپی اور دبی ہوئی اخلاقی طہارت کے تئیں جو وابستگی دکھائی دیتی ہے وہ ا س امر کی شاہد ہے کہ منٹو کا رویہ اپنے کرداروں کے معاملے میں ایجابی تھا اور وہ انہیں پہلے سے کوئی شرط قائم کئے بغیر ان کی کلیت کے ساتھ انہیں قبول کرتا تھا۔ جبھی تو منٹو کے کردار اس کی کہانیوں میں ڈر ے سہمے اور سمٹے ہوئے دکھائی نہیں دیتے اور آزادانہ اپنا تعارف کراتے ہیں۔ حجابات سے ایسی آزادی منٹو کی تخلیقی شخصیت کا سب سے نمایاں وصف ہے۔ عسکری نے غلط نہیں کہا تھا کہ،

    ’’جو باتیں اور ادیب کہنے کی ہمت نہ کرسکتے تھے، وہ منٹو بے دھڑک کہہ ڈالتا تھا لیکن اس سے بھی بڑی چیز یہ ہے کہ منٹو کی قسم کا فن کار ہم جیسے لوگوں کے لئے ایک ڈھال کا کام دیتا ہے۔ زندگی کی جن زہر ہ گداز حقیقتوں کا شعور حاصل کئے بغیر ہم ٹھیک طرح زندہ نہیں رہ سکتے، انہیں ہمارے بجائے اس قسم کا فن کار محسوس کر کے ہمیں بتاتا ہے۔ یعنی وہ ہماری طرف سے احساس کی اذیت اٹھاتا ہے۔ اگر ایسا فن کار ہمارے درمیان نہ رہے تو پھر یہ ذمہ داری اپنی اپنی بساط بھر ہم سب کو قبول کر نی پڑتی ہے۔ منٹو کے بعد یہ بوجھ ہمارے کاندھوں پر آپڑا ہے۔ ہمیں شعور کی بلاؤں سے محفوظ رکھنے والی دیوار ہمارے سامنے سے ہٹ گئی ہے۔‘‘

    اردو افسانے کا المیہ یہ ہے کہ منٹو کے معاصرین میں بھی کسی نے احساس کی اس وسعت اور ذہن کی اس کشادگی کے ساتھ اس بوجھ کو اٹھانے میں اس کا ساتھ نہیں دیا تھا اور اس کے بعد تو خیر لکھنے والوں کا رویہ ہی بڑی حد تک تبدیل ہوگیا اور نئے منشور ترتیب دیے جانے لگے۔ فن کار کی انانیت اور انفرادی تجربے سے وفاداری کا چرچا تو بہت ہوا مگر کسی دوسرے افسانہ نگار نے منٹو کی طرح اپنی ذات سے باہر دوسرے کرداروں کی انانیت اور تجربے کی انفرادیت کا اس درجہ احترام نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ تن تنہا منٹو نے اردو افسانے کو جتنے زندہ اور متحرک کرداروں سے متعارف کرایا ہے، شاید اردو کے تمام افسانہ نگار مل کر بھی یہ بار نہ اٹھا سکیں۔

    اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ منٹو کے علاوہ کسی اور نے اچھے افسانے نہیں لکھے یا یہ کہ منٹو نے برے، بلکہ بہت برے اور پھسپھسے افسانے نہیں لکھے۔ میں تو صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ منٹو نے چونکہ صرف اپنے شعور یا کسی مخصوص و معین قدر کو اپنا رہنما نہیں بنایا تھا، ا س لئے اپنے کرداروں کا عکس اتارتے ہوئے بھی اس نے ان کی ذات کے حصے بخرے نہیں کئے۔ وہ ’’دوا خانے کا مہتمم‘‘ بننے کے خبط میں مبتلا نہ سہی، جب بھی اس کی انگلیاں اپنے معاشرے کی نبض پر تھیں اوراس کا وجود ایک مقیاس کی مثال تھا۔

    اس نے وعظ وپند، تقریر اور اظہار زہد کو اپنا شیوہ بنانے سے گریز بھی شاید اس لئے کیا کہ وہ اخلاق کا ایک گہرا اور بسیط تصور رکھتا تھا۔ اسے اپنے آپ کو گندگی کا غواص کہنے میں شر م نہیں آئی، صرف اس لئے کہ اپنی جستجو کا مقصد اس کی ذات پر روشن تھا اور ایک موقعے پر عدالت میں اپنا بیان دیتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ وہ شاعری (ادب) جو آپ اپنی غایت ہے اور جس کا عمل صرف ایک سطحی نشاط اندوزی اور جسمانی تلذذ کے احساس کے تشکیل و ترویج تک محدود ہے، ’’ایسی شاعری دماغی جلق ہے۔ لکھنے او ر پڑھنے والے دونوں کے لئے میں اسے مضر سمجھتا ہوں۔‘‘

    منٹو نے اپنے نصب العین کی تلاش کے لئے انسانی تجربے کی ان آبادیوں میں گشت کیا جس پر ایک اوسطیت زدہ اخلاقیات نے بے خبری کے پردے ڈال دیے تھے، یہ بے خبری ایک تو سماجی، معاشرتی اور اخلاقی معاملات میں رویے کے یک رخے پن کا نتیجہ تھی، دوسرے اس لئے بھی کہ منٹو کے معاصرین کو اپنی ذات پر وہ تخلیقی اعتماد، قلب و نظر کی وہ بے خوفی میسر نہ تھی جو منٹو کے یہاں ہمیں و افراد کھائی دیتی ہے۔ لیکن اس کا اہم ترین سبب وہ سچائی ہے جس کا رشتہ منٹو کی اخلاقیات سے جڑا ہوا ہے۔ اس سچائی کو ہم ایک طرح کی اخلاقی مساوات کا نام دے سکتے ہیں۔ اس مساوات کا احساس منٹو کو ایک ایسی سطح پر لے جا تا ہے جہاں اس کے کردار اور خود اس کی اپنی ذات کے مابین ذہنی، اخلاقی، تہذیبی اور معاشرتی درجات کا کوئی فرق نظر نہیں آتا۔

    ’’اس کی نظر میں کوئی انسان بے وقعت نہیں تھا۔ وہ ہر آدمی سے اس توقع کے ساتھ ملتا تھا کہ اس کی ہستی میں بھی ضرور کوئی نہ کوئی معنویت پوشیدہ ہوگی جو ایک نہ ایک دن منکشف ہوجائے گی۔ میں نے اسے ایسے ایسے عجیب آدمیوں کے ساتھ ہفتوں گھومتے دیکھا ہے کہ حیرت ہوتی تھی۔ منٹو انہیں برداشت کیسے کرتا ہے۔ لیکن منٹو بور ہونا جانتا ہی نہ تھا۔ اس کے لئے تو ہر آدمی زندگی اور انسانی فطرت کا ایک مظہر تھا، لہذا ہر شخص دلچسپ تھا۔ اچھے اور برے، ذہین اور احمق، مہذب اور غیر مہذب کا سوال منٹو کے یہاں ذرا نہ تھا۔ اس میں تو انسانوں کو قبول کرنے کی صلاحیت اتنی زبردست تھی کہ جیسا آدمی منٹو کے ساتھ ہو منٹو ویسا ہی بن جاتا تھا۔‘‘ محمد حسن عسکری، (منٹو)

    (5)
    یہاں سوال اٹھتا ہے کہ پھر منٹو کو فحاشی کا قصوروار ٹھہرایا کیو ں گیا؟ بہتر ہوگا کہ اس مسئلے پر گفتگو سے پہلے ہم فحاشی کے اس تصور پر بھی ایک نظر ڈالتے چلیں جس کا تعلق ادب سے ہے او رجو ایک عرصے سے بحث و مباحثہ کا موضوع بنا ہوا ہے۔ فنی اظہار کے جتنے بھی اسالیب انسان نے اب تک دریافت کئے ہیں، اس مسئلے سے قطع نظر کہ ان کا سرچشمہ انسانی تجربات کے جن علاقوں سے تعلق رکھتا ہے، وہ معاشرتی اخلاق کے لئے ممنوعہ ہیں یا قابل قبول، بنیادی طور پر جمالیات کا مسئلہ ہیں اور اس دائرے میں رہ کر ہی ان پر کوئی بامعنی گفتگو کی جاسکتی ہے۔

    اس سلسلے میں منٹو کا موقف بہت واضح ہے اور اس کی جانب پہلے بھی اشارہ کیا جاچکا ہے کہ منٹو کے نزدیک وہ ’’ادب پارہ‘‘ جس کا اولین مقصد قوت باہ میں اضافہ یا اس قوت کے اظہار کا کوئی سہل الحصول نسخہ ڈھونڈ نکالنا ہو، دراصل ادب ہے ہی نہیں، لیکن ظاہر ہے کہ ایسے اصحاب جن کے تخیل کی زر خیز ی طب کی کتابوں اور دینی رسائل میں بھی جنسی لذت اندوزی کے وسائل کی دریافت پر قادر ہو، ان کا شعور کسی بھی ادب پارے میں در مقصود کے حصول سے بہرہ ور ہوسکتا ہے۔

    ’اوپر، نیچے اور درمیان ‘میں منٹو نے اس رویے پر طنز کے بہت سبک وار کئے ہیں۔ اس کہانی کے دو کردار ’لیڈی چیٹر لیز لور ‘کا مطالعہ اپنی اولاد کے لئے تو مضرت رساں سمجھتے ہیں مگر خود اس کتاب کے جستہ جستہ اقتباساست کے ذریعہ اس لمحے کی تلاش کرتے ہیں جو ان کی سوئی ہوئی قوتوں کو متحرک کرسکے۔ ان کے اعصاب کی کمزوریوں کاحال یہ ہے کہ کتاب کے بعض جملوں پر نظر پڑتے ہی ان کی نبض کی رفتار تیز ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگ نہ جنس کے مسائل سمجھ سکتے ہیں، نہ اس ادب کے جس میں جنسی تجربوں کی وساطت سے انسانی وجود کی کائنات اصغر کے کسی پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہو۔

    چنانچہ کسی ادب پارے میں جنسی اشتعال کے عنصرکا ہونا یا نہ ہونا بے معنی ہے۔ اس مسئلے کی بنیاد پر ہم نہ تو اس ادب پارے کی جمالیاتی تقویم کر سکتے ہیں نہ ہی اس پر کسی جمالیاتی فیصلے کا اطلاق کرسکتے ہیں۔ بحث صرف اس بات سے ہونی چاہئے کہ اس اشتعال کے نقطے تک رسائی یا اس عنصر کی پہچان کے لئے قاری نے کیا راستہ اختیار کیا ہے۔ ممتاز شیریں نے منٹو پر اپنے مضمون میں اس کے اسلوب کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے،

    ’’ٹھنڈا گوشت، ایک ایسا افسانہ ہے جسے ہم منٹو کے فن کے مکمل نمونے کے طور پر لے سکتے ہیں۔ منٹو کے اسلوب تحریر میں غضب کی چستی ہے۔ ’ٹھنڈا گوشت ‘اتنا گٹھا ہوا، چست اور مکمل افسانہ ہے کہ اس میں ایک لفظ بھی گھٹایا یا بڑھایا نہیں جاسکتا۔ ایشر سنگھ کے ٹوٹے پھوٹے جملوں میں اس مضطرب دل و دماغ کی ساری کرب انگیز کیفیت کھنچ آئی ہے۔ پہلے منٹو کو کوئی کردار ابھارنا ہوتا تھا تو وہ کئی ایک واقعات کے ذریعے اور خود اپنی طرف سے ان کی صفت بیان کر کے یہ کردار ابھارتا تھا۔ ’ٹھنڈا گوشت ‘کے دوتین ابتدائی پیراگرافو ں میں صرف جسمانی ساخت اور چند ایک حرکات کے بیان میں ایشر سنگھ اور کلونت کور کے غیر معمولی کردار ابھر آئے ہیں۔ موپاساں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جب وہ کسی غیر معمولی گرم اور شہوت انگیز عورت کا ذکر تا ہے تو اس تحریر کا کاغذ تک تازہ گرم گوشت کی طرح پھڑکنے لگتا ہے۔ کچھ یہی کیفیت کلونت کور کے بیان میں ہے۔‘‘ (منٹو کا تغیر اور ارتقا)

    دوسری طر ف ’ٹھنڈا گوشت ‘کے مقدمے میں ایک گواہ صفائی ڈاکٹر سعید اللہ کا یہ بیان ہے کہ افسانہ ’ٹھنڈا گوشت ‘پڑھنے کے بعد میں خود ٹھنڈا گوشت بن گیا۔ ایک اور قاری (مولانا اختر علی) کارد عمل مقدمے کی سماعت کے دوران یہ تھا کہ اب ایسا ادب پاکستا ن میں نہیں چلے گا اور انہیں کی قبیل کے دوسرے بزرگ (چودھری محمد حسین) نے فرمایا کہ ا س کہانی کی تھیم یہ ہے کہ ہم مسلمان اتنے بے غیرت ہیں کہ سکھوں نے ہماری مردہ لڑکی تک نہیں چھوڑی۔ ویسے منٹو نے اپنے تئیں اس کہانی کے ذریعہ دوسروں تک ایک پیغام پہنچانے کی خدمت انجام دی تھی۔

    ’’یوں تو یہ کہانی بظاہر جنسی نفسیات کے ایک نکتے کے گرد گھومتی ہے لیکن در حقیقت اس میں انسان کے نام ایک نہایت ہی لطیف پیغام دیا گیا ہے کہ و ہ ظلم، تشدد اور بربریت و حیوانیت کی آخری حدود تک پہنچ کر بھی اپنی انسانیت نہیں کھوتا۔ اگر ایشر سنگھ اپنی انسانیت کھوچکا ہوتا تو مردہ عورت کا احساس اس پر اتنی شدت سے کبھی اثر نہ کرتا کہ وہ اپنی مردانگی سے عاری ہوجاتا۔‘‘

    وہ بزرگ جنہوں نے اس افسانے کے سلسلے میں منٹو کو تین ماہ قید بامشقت اور تین سو روپے جرمانے کی سزا دی تھی، ان کا موقف اس باب میں یہ تھا کہ پاکستان کے مروجہ اخلاقی معیار قرآن پاک کی تعلیم کے سوا اور کہیں سے زیادہ صحیح طور پر معلوم نہیں ہوسکتے۔ غیر شائستگی اور اور شہوت پرستی شیطان کی طرف سے ہے۔ ایک ترقی پسند نقاد (ممتاز حسین) کا تبصرہ یو ں ہے کہ منٹو نیکی کی تلاش میں نکلتا ہے اور اس کی کرن ایک ایسے انسان کے پیٹ سے نکالتا ہے جس کے بارے میں آپ اس قسم کی توقع نہیں رکھتے۔ یہ ہے منٹو کا کارنامہ! لیکن ظاہر ہے کہ منٹو کا اصل کارنامہ بہ حیثیت ادیب یہ ہرگز نہیں ہے۔ رہی اس مقدمے کے منصف اور استغاثے کے بعض گواہوں کی بات، تو ان کے بارے میں منٹو کا یہ خیال غلط نہ تھا کہ ان کے سامنے اپنی صفائی میں بیان دینا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف تھا۔

    کسی کے نزدیک فحاشی کا مسئلہ سیاست کی حدود تک جاپہنچا، کسی نے اسے اسلام کے لئے خطرے کا نشان سمجھا۔ ایک صاحب اسے منٹو کے بجائے شیطان کارنامہ قرار دے بیٹھے تو دوسری طرف ایک ہمدرد نقاد نے اسے نیکی کی تلاش کے ایک سفر سے تعبیر کیا۔ مجھے اس سوال سے غرض نہیں کہ رد عمل کی ان تمام صورتوں میں کون سی صورت نسبتا ً بہتر منطقی اساس رکھتی ہے اور ہم خود کو اس سے متفق پاتے ہیں یا نہیں۔ میرا مسئلہ وہ پیغام بھی نہیں جو اس کہانی کی وساطت سے منٹو نے عام کرنا چاہا ہے کہ یہ کام تو معمولی قسم کے واعظ بھی کرسکتے ہیں۔ ادب کے ایک قاری کی حیثیت سے ہمارا سروکار اس مسئلے سے ہونا چاہئے کہ یہ پیغام یا اخلاقی نصب العین ادب بن سکا ہے یا نہیں۔ اس ’’ذلت اور شیطنت‘‘ کے اعتبار کی بنیادیں اخلاقیات کی زمین پر نہ سہی، فنی احساس و اظہار کی سطح پر قائم ہوسکی ہیں یا نہیں۔ اخلاق بقول فراق، ’’نخل لب دریائے معاصی‘‘ ہے یا خیر کے چھینٹوں سے نمو پانے والا شجر سایہ دار، یہاں یہ تمام سوالات ضمنی حیثیت رکھتے ہیں اور محض ان سے منٹو کے ادبی منصب میں اضافہ ہوتا ہے نہ تخفیف۔

    ادب میں جنسی تجربوں کی شمولیت کے سوال پر بحث کرتے ہوئے ہمیں جمالیاتی امتیازات کو بہر صورت پیش نظر رکھنا چاہئے۔ چنانچہ ممتاز شیریں کی اس رائے پر نظر ڈالتے وقت بھی کہ منٹو کے شہوت انگیز نسوانی کردار سوگندھی، نیلم اور کلونت کو ر اپنے تیز جذبات کے ساتھ جاندار اور پھڑکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، اس کیفیت کے ساتھ کہ اس تحریر کا کا غذ تک، جن پر ان کا ذکر ہو ’’تازہ گرم گوشت کی طرح پھڑکنے لگتا ہے۔‘‘ ہمیں یہ نہ بھولنا چاہئے کہ منٹو اپنے کرداروں کے عمل کی غایت میں انسانی سطح پر چاہے جس حد تک شریک رہا ہو، بطور افسانہ نگار و ہ معروضیت کے احسان کی قدروقیمت کا بھی گہرا شعور رکھتا ہے۔ اس ضمن میں خو د منٹو کی اپنی تصریحات اور بیانات صفائی کو زیادہ اہمیت نہ دینی چاہئے کہ ایک تو ان کے مقاصد محدود تھے، دوسرے منٹو جیسی ذہانت رکھنے والے شخص سے یہ امر کچھ بعید نہ تھا کہ اپنی غلط گمانیوں کو صحیح ثابت کرنے کے لئے بھی وہ ادھر ادھر سے دلائل یکجا کر کے ایک اچھا خاصہ مقدمہ تیار کر لے۔

    ’لذت سنگ ‘میں منٹو نے کہا تھا کہ میرے نزدیک قصائیوں کی دوکانیں فحش ہیں کیونکہ ان میں ننگے گوشت کی بہت بد نما اور کھلے طور پر نمائش کی جاتی ہے۔ یہ الفاظ اہم ہیں کیونکہ ان کا تعلق اسی اساسی مسئلے سے ہے جسے ہم منٹو کے جمالیاتی اور فنی عمل کے تناظر میں دیکھ سکتے ہیں اور ان سے منٹو کے تخلیقی رویے کی تعیین میں کچھ روشنی حاصل کرسکتے ہیں۔ منٹو نے ’ٹھنڈا گوشت ‘کی قسم کے افسانوں میں جہاں کہیں اپنے کسی کردار کے گرم اور تیز جذبات کی تصویر یں کھینچی ہیں، ایسے تمام مواقع کہانی کے ارتقا کی چند کڑیوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے، چنانچہ مقصود بالذات نہیں ہیں۔ یہ مواقع اس شدید لمحے کی جانب سفر کی رفتار کو تیز کردیتے ہیں جو منٹو کے سفر کی اصل منزل یا اس کی کہانیوں کا نقطہ عروج اور اختتامیہ ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس لمحے تک پہنچتے پہنچتے سفلہ جذبات کی سطحوں کو مر تعش کرنے والی شوخ اور رنگین تصویریں اس لمحے کے ملال اور اس کی استعجابی کیفیت میں ڈوب جاتی ہیں اور ان کا انفرادی تاثر زائل ہوجاتا ہے۔ کہانی کے مجموعی ڈھانچے اور اس کی تخلیقی وحدت سے ہمیشہ غلط راستے پر لے جانے کا سبب بنتی ہے۔

    منٹو کی کہانیوں کے مجموعی تناظر میں ان تصویروں کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ اس کی بیشتر کہانیوں کے ٹیکسچر کی منطق ان تصویروں کو ایک ناگزیر یت عطا کرتی ہے۔ فحش ذہنی کا مرتکب وہ اس صورت میں ہوتا جب یہ تصویریں اس کی کہانیوں کے فریم میں کلیدی نقطے کے طور پر ایک خود مکتفی اور قائم بالذات حیثیت کی حامل ہوتیں اور یہ نقطہ ایک پھیلتے ہوئے دائرے کی صورت کہانی کے پورے تاثر کو اپنی گرفت میں لے لیتا۔ منٹو نے حالی، اقبال اور بہشتی زیور کی ذہنی غذا پر پرورش پانے والے بظاہر منزہ اور مثالی انسان کے مقابلے میں انسان کو اس کی کلیت میں، اس کے اندرونی تضادات اور اس کے باطن کی سطح پر جاری رہنے والی اندھیرے اور اجالے کی مستقل کشمکش کے آئینے میں دیکھنے کی جرأت کی ہے۔ ان کہانیوں کو یورپ کی Erotica کے طور پر پڑھنا بھی مناسب نہ ہوگا، نہ ہی انہیں جعفر زٹلی کے کلیات اور متشرع بزرگوں کی ان مثنویوں کے ساتھ رکھا جاسکتا ہے جن میں اظہار کی بے باکی گالی کا اور معشوق سے وصل کے مناظر Blue Films کا روپ اختیار کر لیتے ہیں۔

    وہ بوکیشیو یا بالزاک کی طرح جنسی مہمات کی نقش گری اگر کرتا بھی ہے تو اس طرح کہ ایک انتہائی ذاتی عمل ایک وسیع تر سماجی تصور کی کلید بن جاتا ہے اور پرانی داستانوں کے کسی جادوئی کلمے کی مانند ایک پر اسرار، نادیدہ اور نو دریافت منظر نامے کا باب کھولتا ہے۔ یہ رویہ منٹو کو بعض اعتبارات سے بو دلیر اور لارنس کی طرح ایک زبردست اخلاقی وژن رکھنے والے ادیب کی حیثیت دیتا ہے مگر ایک بہت بڑے فرق کے ساتھ کہ منٹو کی حقیقت پسندی جنسی افعال کی معنویت میں معاشرے سے وابستہ چند سوالات کے جواب تک تو پہنچتی ہے لیکن ان میں کسی سری، متصوفانہ یا مابعد طبیعی منطق کا سرا نہیں ڈھونڈتی۔ مجموعی طور پر یہی انداز نظر منٹو کی اخلاقیات کو ترقی پسندوں اور ایک دینی یا متصوفانہ ذہنی ماحول کی ترجمانی کرنے والے ادیب نما معلموں کی آئیڈ یلزم کے تصور سے متمائز کرتا ہے اور اسے زیادہ بسیط، بامعنی اور فطری بناتا ہے۔

    اس کے آئینے میں جو عکس دکھائی دیتے ہیں وہ نہ صرف سماجی انسان کے ہیں نہ مذہبی انسان کے بلکہ ایک مربوط انسان کے خدو خال سے مزین ہیں۔ منٹو ان کے اعمال کی غایت کو سمجھنے کے لئے نہ کسی سماجی فلسفے کا محتاج ہوتا ہے نہ مذہب، تصوف اور مابعد الطبیعات کے پر اسرار جہانو ں کی سیر کا طالب ہوتا ہے۔ اس کی جسارت آمیز حقیقت پسندی کسی بیرونی سہارے کی تلاش نہیں کرتی اور اپنے مہیب الم آلود انکشافات کے ذریعہ اس عام مفروضے کی نفی بھی کرتی ہے کہ جنسی تجربے کی حدیں اتنی تندی اور اخلاص کے سبب بالآخر ایک نیم مذہبی تجربے سے جا ملتی ہیں۔ ایسانہ ہوتا تو منٹو بھی آچاریہ رجنیش کی طرح کسی کلٹ کا علمبردار بن جاتا اور اس کی تحریریں ایک صحیفے کی صورت اختیار کر لیتیں۔ وہ انسانی تجربات کی ایسی سطحوں تک جاپہنچتا ہے جو بہت سادہ اور دوٹوک نہیں ہیں۔ تاہم وہ کسی بھی سطح پر جسم کے وجود کو ایک فریب یا اپنے کرداروں کو ایک تصور کی شکل میں دیکھنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔

    منٹو کی کہانیوں میں اسی لئے فنی تنظیم کے شعور سے پیدا ہونے والی رمزیت اور چستی کے باوجود سطح کا کھردراپن اور بیان کا بے تصنع، بیساختہ فطری بہاؤ بہت واضح ہے۔ وہ اپنے بیان کو دلچسپ بنانے کے لئے کسی بھی قسم کے لسانی اور اسلوبیاتی تکلف سے کام نہیں لیتا، نہ اظہار کی مجموعی ہیئت میں نقطہ کمال تک رسائی کا طالب ہوتا ہے، پھربھی اس کی کہانیاں پڑھنے والے پر ایک تجربے کی صورت وارد ہوتی ہیں۔ ایسا صرف اس لئے ہی کہ منٹو کی نگاہ مانوس واقعات کی رسمیت کے زائیدہ غبار میں بھی روشنی کے ان تمام نقطوں کو پہچان لیتی ہے جن کی ترتیب سے اس کی کہانیوں کا خارجی ڈھانچہ وجود میں آتا ہے۔ لارنس کے بارے میں اس کے ایک سوانح نگار کا قول ہے کہ وہ ترشے ترشائے، صاف، منزہ فن پاروں، نک سک سے درست نپی تلی ہوئی ہئیتوں اور خوبصورت، آراستہ، پرشکوہ عمارتوں سے اس لئے بیزاری محسوس کرتا تھا کہ ان میں سادگی کا وہ جو ہر مفقود ہوتا ہے جس کی ایک سطح کھردراپن بھی ہے۔

    موسیقی میں اسے احتیاط، سلیقے اور انتہائی محنت سے مرتب کی ہوئی سمفنیز کے مقابلے میں عوامی گیت زیادہ متوجہ کرتے تھے کہ ان کی نمو ایک فوری، خود کار تشویق کی و ساطت سے ہوتی ہے۔ وہ اپنے احساسات کے حوالے سے تجربے کی جو بھی ہیئت دریافت کرتا تھا اسے جوں کا توں کاغذ پر منتقل کردیتا تھا اور اس عمل میں شعور کی مداخلت بیجا سے ہمیشہ ڈرتا اور بچتا تھا۔ اس کی تلاش بس یہ ہوتی تھی کہ جو کچھ بھی وہ خلق کرے اس کا سرچشمہ تمام و کمال اس کے باطن میں پوشیدہ پراسرار اور غیر عقلی توانائیاں ہوں، ہر طرح کے بیرونی جبر، ترغیب اور مصلحت سے یکسر آزاد اور مبرا۔

    لارنس کے یہاں حواس کی طہارت کو قائم رکھنے کی اس لگن نے ایک صوفیانہ استغراق کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ وہ کسی راہب کی مثال اپنی خلوتوں کے سناٹے میں متین اور ملول کشف کے ان لمحوں کا منتظر رہتا تھا جو اس تک جسم کی روحانیت کے رازوں کی خبر لاسکیں۔ اس رویے کے تسلط نے لارنس کے یہاں ایک غیر ارضی، کسی قدر جذباتی اور سری کیفیت کو جنم دیا ہے۔ یہ کیفیت جنس کو عبادت اور جسم کو بالآخر ایک تجرید بنا دیتی ہے، مثلاًلیڈی چیٹر لیز لور کے یہ اقتباسات،

    And he had to come in to her at once,to enter the peace on earth of her soft-quiescent body…

    For down in her she felt a new stirring,a new nakedness emerging…

    And it seemed she was like the sea,nothing but dark waves rising and heaving,heaving with great swell,so that slowly her whole darkness was in motion,and she was ocean rolling its dark dumb mass.Oh,and far down inside her the deeps parted and rolled asunder,from the centre of soft plunging,and the plunger went deeper and deeper disclosed,the heavier the billows of her rolled away to some shore,uncovering her,and close and closer plunged the palpable unknown,and further and further rolled the waves of her self away from herself,leaving her,till suddenly,in a soft shuddering convulsion,the quick of all her plasm was touched she knew herself touched, the consummation was upon her,and she was gone.

    لیجئے قصہ ختم! روز مرہ زندگی کی ایک جیتی جاگتی حقیقت ارتفاع کے ایک ماورائی مرحلے کو عبور کرتی ہوئی کہاں جاپہنچی؟ سیدھے سادے لفظوں میں اسے ہم حقیقت کے اس سفر سے تعبیر کر سکتے ہیں جس کی منزلِ مراد مجاز کا نقطہ ہے یعنی یہ رگوں میں دوڑتا، چہکتا، بولتا لہوبالآخر ایک حسی کیفیت میں تبدیل ہوگیا۔ اس کے بر عکس منٹو کے نگار خانے کی یہ چند تصویریں،

    ’’کلونت کو ر اپنے باز و پر ابھرے ہوئے لال دھبے کو دیکھنے لگی، ’بڑا ظالم ہے تو ایشر سیاں! ‘ایشر سنگھ اپنی گھنی کالی مونچھوں میں مسکرایا، ’ہونے دے آج ظلم! ‘اور یہ کہہ کر اس نے مزید ظلم ڈھانے شروع کئے۔ کلونت کور کا بالائی ہونٹ دانتوں تلے کچکچایا، کان کی لوؤں کو کاٹا، ابھر ے ہوئے سینے کوبھنبھوڑا، بھرے ہوئے کولہوں پر آواز پیدا کرنے والے چانٹے مارے، گالوں کے منھ بھر بھر کے بو سے لیے، چو س چوس کر اس کا سارا سینے تھوکوں سے لتھیڑدیا۔ کلونت کور تیز آنچ پر چڑھی ہوئی ہانڈی کی طرح ابلنے لگی، لیکن ایشر سنگھ ان تمام حیلوں کے باوجود خود میں حرارت پیدا نہ کر سکا۔ جتنے گراور جتنے داؤ اسے یاد تھے، سب کے سب اس نے پٹ جانے والے پہلو ان کی طرح استعمال کردیے، پر کوئی کار گر نہ ہوا۔ کلونت کور نے جس کے بدن کے سارے تارتن کر خود بخود رہے تھے، غیر ضروری چھیڑ چھاڑ سے تنگ آکر کہا، ’’ایشر سیاں، کافی پھینٹ چکا ہے، اب پتا پھینک!‘‘

    ’’دیوار کا سہارا لے کر مسعود نے اپنے جسم کو تولااور اس انداز سے آہستہ آہستہ کلثوم کی رانوں پر اپنے پیر جمائے کہ اس کاآدھا بوجھ کہیں غائب ہو گیا۔ ہولے ہولے بڑی ہوشیاری سے اس نے پیر چلانے شروع کیے۔ کلثوم کی رانوں میں اکڑی ہوئی مچھلیاں اس کے پیروں کے نیچے دب دب کر ادھر ادھر پھسلنے لگیں۔ مسعود نے ایک بار اسکول میں تنے ہوئے رسّے پر ایک بازی گر کو چلتے ہوئے دیکھاتھا۔ اس نے سوچاکہ بازی گر کے پیروں کے نیچے تنا ہوا رسّا اسی طرح پھسلتا ہوگا۔‘‘

    ’’ساری رات رندھیر کو اس کے بدن سے عجیب و غریب قسم کی بو آتی رہی تھی۔ اس بو کو جو بیک وقت خوشبواور بد بو تھی، وہ تمام رات پیتا رہا۔ اس کی بغلوں سے، اس کی چھاتیوں سے، اس کے بالوں سے، اس کے پیٹ سے، ہر جگہ سے، یہ جو بد بو بھی تھی اور خوشبو بھی، رندھیر کے ہرسانس میں موجود تھی۔ تمام رات وہ سوچتا رہا کہ یہ گھاٹن لڑکی بالکل قریب ہونے پر بھی ہرگز ہرگز اتنی زیادہ قریب نہ ہوتی، اگر اس کے ننگے بدن سے یہ بو نہ اڑتی۔ یہ بو جو اس کے دل و دماغ کی ہر سلوٹ میں رینگ گئی تھی، اس کے تمام پرانے اور نئے خیالوں میں رچ گئی تھی۔ اس بو نے اس لڑکی کو اور رندھیر کو ایک رات کے لئے آپس میں حل کردیا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے اندر داخل ہو گئے تھے۔ عمیق ترین گہرائیوں میں اتر گئے تھے جہاں پہنچ کر وہ ایک خاص انسانی لذت میں تبدیل ہوگئے تھے، ایسی لذت جو لمحاتی ہونے کے باوجود دائمی تھی، مائل پرواز ہونے کے باوجود ساکن اور جامد تھی۔ و ہ دونوں ایک ایسا پنچھی بن گئے تھے جو آسمان کی نیلاہٹوں میں اڑتا اڑتا غیر متحرک دکھا ئی دیتا ہے۔‘‘

    ان میں پہلی دو تصویریں حقیقت کی طبیعی سطح سے ایک پل کے لئے او پر نہیں اٹھتیں اور ان کے کردار اپنے گوشت پوست کے ساتھ پڑھنے والے کو متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ تیسری تصویر حقیقت کے مشہود تجربے کو ایک غیر مرئی تاثر کی سطح تک لے جاتی ہے اور واقعے کو کیفیت میں منتقل کر تی ہے، اس کے باوجود تجربے کی ارضی بنیادیں منہد م نہیں ہوتیں اور اس کے کردار کسی بعید ازقیاس، ان دیکھی اور پر اسرار فضا میں تحلیل نہیں ہوتے۔ چنانچہ ان کی موجودگی اور بشریت کے حدود کا تاثر قائم رہتا ہے۔ انسانیت کے شعور کی ایک سطح یہ بھی ہے کہ انسانی وجود کا اثبات اس کی کلیت کے حوالے سے کیا جائے اور اچھے برے اعمال کی بحث سے الگ ہو کر انسان کو سمجھنے کی جستجو کی جائے۔

    بودلیئر نے رومانویوں کے تکمیل ذات کے نظریے کو اس تصور کی بنیاد پر مسترد کیا تھا کہ انسان پیشاب کی تھیلی کے نیچے نو مہینے گزارتا ہے، چنانچہ اس کا پاک اور منزہ ہونا خارج ازامکان ہے۔ اسی کے ساتھ وہ یہ بھی سمجھتا تھا کہ خیر کی نمود گناہ کے احساس کے بغیر ممکن ہی نہیں ہوسکتی۔ ایک عرصے تک اس نوع کے تصورات کو لوگ شیطانی قوتوں کے اظہار سے تعبیر کرتے رہے، لیکن اب جبکہ اس معاملے میں عام نقطہ نظر خاصا تبدیل ہوچکا ہے، بودلیئر کے مطالعے کی ایک نئی نہج بھی دریافت کی جاچکی ہے اور نہ صرف یہ کہ اس کے یہاں ایک باضابطہ نظام اخلاق کی موجودگی کا ذکر بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ کیا جاتا ہے، بلکہ اس نظام کے ڈانڈے بودلیئر کی کیتھو لیسزم سے بھی ملادیے گئے ہیں۔

    منٹو کی اخلاقیات، جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے، اس قسم کے کسی بھی تناظر کی گنجائش نہیں رکھتی۔ اس کے یہاں الفاظ کی جو کفایت، اسلوب میں جوچستی اور کہانیوں کے مجموعی آہنگ میں جو غیر جذباتیت نمایاں ہے، وہ انسان کی طرف اس کے مخصوص رویے کی زائیدہ ہے۔ یہ رویہ بودلیئر یا لارنس یا متقدمین کے رویوں سے مختلف ہی نہیں، ان سب سے ز یادہ حقیقت پسندانہ بھی ہے۔ شاید اسی لئے ہم منٹو کی فکر کو اپنے زمانے کی فکر سے نسبتاً زیادہ ہم آہنگ پاتے ہیں۔ اور اسے بودلیئر یا لارنس کی طرح ایک اخلاقی وژن رکھنے والے ادیب کی حیثیت دینے کے باوجود اسے ہم ان باکمالوں سے اس درجہ الگ بھی دیکھتے ہیں۔

    یوں منٹو نے کبھی بھی اس ضمن میں ایسی فلسفہ طرازی بھی کی ہے جو اس کے معروضی اور حقیقت پسندانہ اخلاقی تصور کو ایک نئے فکری تناظر میں دیکھنے کا تقاضہ کرتی ہے۔ مثلاً اس کے یہ الفاظ، ’’دوروحوں کا سمٹ کر ایک ہوجانا اور ایک ہوکر والہانہ وسعت اختیار کر جانا۔ دو روحیں سمٹ کر اس ننھے سے نکتے پر پہنچتی ہیں، جو پھیل کر کائنات بنتا ہے۔‘‘ اس کے عام رویے سے میل نہیں کھاتے اور منٹو کو تجربے کی واقعیت کے بجائے اس کے امکان کا عکاس ٹھہراتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس نوع کے بیانات کی حقیقت صرف اس قدر ہے کہ منٹو ملامتوں کی بارش میں چند مفروضات کو ڈھال بنانے کے جتن بھی کرتا تھا۔ اسی لئے اس کے ان مضامین میں جو اپنے موقف کی وضاحت کے لئے لکھے گئے، بعض مقامات پر اعتداز کا انداز بھی بہت واضح ہے۔

    اکا دکا مستثنیات سے قطع نظر، منٹو کے یہاں جنسی واردات کے بیان یافحاشی کے تصور کی بابت ایک غیر مبہم اور غیر جذباتی صاف گوئی ملتی ہے۔ جس طر ح و ہ عام زندگی میں بھی بظاہر غیر شریفانہ زندگی گزارنے والوں سے بے جھجھک ملتا تھا، اسی طرح اپنی کہانیوں میں لچوں، لفنگوں، بھڑووں، طوائفوں، قاتلوں، شرابیوں، غر ضیکہ اخلاقی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے بیان میں بھی وہ صاف گو نظر آتا ہے۔ اس کا لب و لہجہ کسی بھی قسم کے اخلاقی اور فلسفیانہ پوز سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا۔ یہ صاف گوئی منٹو کے یہاں اس کے اخلاقی تعہد ہی کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ بصورت دیگر جنسی جذبات یا جنسی واردات کی عکاسی میں اس کی صاف گوئی مور ا ویا کی طرح ایک دلچسپ ابتذال کی شکل بھی اختیار کر سکتی تھی۔

    مور اویا اور منٹو دونوں جنسی احساسات کی ترجمانی میں غیر معمولی مہارت رکھتے ہیں۔ دونوں ان احساسات کی نفسیاتی جہتوں کے شناسا ہیں۔ تا ہم منٹو کا معاملہ اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس کا مقصود جنسی کوائف اور واردات کی کوری تصویر کشی نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ وہ اوپر سے کسی اخلاقی فیصلے کا نفاذ نہیں کرتا، پھر بھی اس کے کرداروں کا عمل با الآخر اپنے سماجی سیاق کی جانب ہمیں متوجہ کرتا ہے۔ اس کی کہانیوں کے خارجی ڈھانچے سے ایک اخلاقی لہر خود بخود نمودار ہوتی ہے اور ان کے اختتام پر قاری لذیذ واردات کی تصویر وں کے بجائے خود کو کہانی کے مجموعی تاثر یا اس مرکزی نقطے سے دو چار پاتا ہے جس کی حیثیت منٹو کے بنیادی وژن کا قفل کھولنے والی کلید کی ہے۔ ظاہر ہے کہ ادب کا مقصد جنسی واردات کا بے کم وکاست بیان ہے بھی نہیں۔ یہ خدمت سماجیات کے ماہرین بہتر طور پر انجام دے سکتے ہیں۔ منٹو اپنے تجربات کو ایک شعور کی سطح پر دریافت کرتا ہے، پھر انہیں ٹھوس اور ذی روح استعاروں کی مدد سے ازسر نو خلق کرتا ہے،

    ’’اس کے خارش زدہ کتے نے بھونک بھونک کر مادھو کو کمرے سے باہر نکال دیا۔ سیڑھیاں اتارکر جب کتا اپنی ٹنڈ منڈ دم ہلاتا سوگندھی کے پاس واپس آیا اور اس کے قدموں کے پاس بیٹھ کر کا ن پھڑپھڑا نے لگا تو سوگندھی چونکی، اس نے اپنے چاروں طرف ایک ہولناک سناٹا دیکھا، ایساسناٹا جو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ اسے ایسا لگا کہ ہر شے خالی ہے۔ جیسے مسافروں سے لدی ہوئی ریل گاڑی سب اسٹیشنوں پر مسافر اتار کر اب لوہے کے شیڈ میں بالکل اکیلی کھڑی ہے۔ یہ خلا جو اچانک سوگندھی کے اندر پیدا ہو گیا تھا۔ اسے بہت تکلیف دے رہا تھا۔ اس نے کافی دیر تک اس خلا کو بھر نے کی کوشش کی مگر بے سو د۔ وہ ایک ہی وقت میں بے شمار خیالات اپنے دماغ میں ٹھونستی تھی۔ مگر بالکل چھلنی کا ساحساب تھا، ادھر دماغ کو پر کرتی تھی، ادھر وہ خالی ہوجاتا۔ بہت دیر تک وہ بید کی کرسی پر بیٹھی رہی۔ سوچ بچار کے بعد بھی جب اس کو اپنا دل پر چانے کا کوئی طریقہ نہ ملا تو اس نے اپنے خارش زدہ کتے کو گو د میں اٹھایااور ساگوان کے چوڑے سے پلنگ پر اسے پہلو میں لٹا کر سوگئی۔‘‘

    ’’ترلوچن واپس آگیا۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں موذیل کو بتایا کہ پالی کور جاچکی ہے۔ موذیل نے اطمینان کا سانس لیا۔ لیکن ایسا کرنے سے بہت سا خون اس کے منہ سے بہہ نکلا، ’او ہ ڈیم اٹ۔ ‘یہ کہہ کر اس نے اپنی مہین مہین بالوں سے اٹی ہوئی کلائی سے اپنا منہ پونچھا اور ترلوچن سے مخاطب ہوئی، ’آل رائٹ ڈارلنگ۔۔ بائی بائی۔ ‘ ترلوچن نے کچھ کہنا چاہا مگر لفظ اس کے حلق میں اٹک گئے۔ موذیل نے اپنے بدن پر سے تر لوچن کی پگڑی ہٹائی، ’لے جاؤ اس کو۔۔۔ اپنے اس مذہب کو۔ ‘اور اس کا بازو اس کی مضبوط چھاتیوں پر بے حس ہوکر گر پڑا۔‘‘

    کھول دو کے اختتامیہ جملوں کی طرح ان اقتباسات میں بھی کہانی کے رگ و پے میں دوڑتا ہوا لہو ایک نقطے پر کھینچ آیا ہے ؛واقعہ تاثربن گیا ہے اور کرداروں کے سوچنے کا عمل ان کے افعال کا حصہ۔ اس سطح پر منٹو کا تخلیقی رویہ ہمیں اس کے تمام معاصرین کے مقابلے میں بہت جاندار دکھائی دیتا ہے اور یہ محسو س ہوتا ہے کہ منٹو اپنے تخلیقی منصب کا جیسا زبردست شعور رکھتا تھا، اس کی مثال ہمیں اس کے معاصرین سے قطع نظر مغرب کے ان جلیل القدر قصہ گویوں کے یہاں بھی کم کم ہی ملے گی جو ’’فحش نگاروں‘‘ کی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔

    ادب میں فحاشی کے عنصر پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک نقاد نے کہا تھا کہ کسی فحش ادب پارے کی ایک پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کے فحش حصوں کو عام قاری باربار پڑھتا ہے تاکہ لذت کوشی کا احساس قائم رہے۔ اس لذت کا سامان واقعے کے علاوہ بیان کا ڈھانچہ تیار کرنے والے الفاظ اور استعارے فراہم کرتے ہیں۔ پست درجے کی کتابیں از اول تاآخر اس فضا کو قاری کے سامنے سے اوجھل نہیں ہونے دیتیں۔ امریکیوں کی اصطلاح میں اسے ہم Hardcore Pornographyکہہ سکتے ہیں۔ یہ فحاشی اچھے لکھنے والوں کے یہاں ایک تخئیلی جہت اختیار کر لیتی ہے۔ مثال کے طورپر جان بارتھ کے ناول The Sot-weed Factor (۱۹۶۰) میں یا ہنری ملر کی بعض کتابو ں میں جس پر پاؤنڈنے ہیمنگوے کے نام اپنے ایک خط میں یہ بلیغ تبصر کیا تھا (۱۹۲۴) کہ میں نے ابھی ابھی ایک دلچسپ فحش کتاب ختم کی ہے جس کا مصنف ہنری ملر نامی ایک شخص ہے۔

    اس موقع پر ہمیں یہ نہ بھولنا چاہئے کہ کچھ نہ کہنے کے طریقے ادب میں کبھی بھی د لچسپ نہیں ہوتے۔ خالی خولی لفاظی یا لسانی داؤں بیچ اسلوب کے ماہرین کے لئے قابل توجہ ہوسکتی ہے مگر ادب پڑھنے والے مطالبات کا سلسلہ اس سے آگے بھی جاتا ہے۔ اس کا مسئلہ وہ انوکھی اکائی ہوتی ہے جو لفظ اور خیال کے باہم انضمام کے نتیجے میں سامنے آتی ہے اور ہر چند کہ اس کا مقصد قاری تک صرف کوئی خبر لے جانا نہیں ہوتا مگر وہ اس عنصر سے خالی بھی نہیں ہوتی۔ فحاشی کی سطح پر اس رویے کی شاید سب سے بہتر مثال جیمس جوائس کی ’یولیسس‘میں مولی بلوم کی خود کلامی ہے۔ اس کا ایک اقتباس بھی دیکھتے چلیں،

    ….I saw he understood or felt what a woman is and I knew I could get round him and I gave him all him all the pleasure I could leading him on till he asked me to say yes…and I thought well as well him as another and then I asked him with my eyes to to ask again yes and then he asked me would I yes to say yes my mountain flower and first I put my arms around him yes and drew him down to me so he could feel my brests all perfume yes and his heart was going like mad and yes I said yes I will yes.

    یہاں واردات کا سارا لطف زبان کے فن کا رانہ استعمال سے پیدا ہوا ہے اور بیان کے مدھم مدھم نیم روشن اسلوب نے عمل کے تشدد پر ایک دھندسی پھیلا دی ہے۔ منٹو بعض اوقات زبان کا استعمال اس طرح کرتا ہے کہ لفظ دہکتے ہوئے انگارے بن جاتے ہیں۔ اس طرح اس کے اظہار کی نوعیت بھی بظاہر سادہ ہونے کے باوجود ایک دشوار طلب فنی آہنگ رکھتی ہے۔ مگر منٹو کی مینا کاری جوائس سے بہت مختلف ہے، چنانچہ اس کا رد عمل بھی نسبتاً شدید تر ہوا۔ یوں جوائس کی کتاب کو بھی ادب کی حیثیت سے قبول کرنے پر لوگ خاصی بحث و تکرار کے بعد آمادہ ہوئے تھے اور گندی کتابوں کا کاروبار کرنے والے اسے اولاً اپنے کام کا لکھنے والا سمجھ بیٹھے تھے، لیکن حجابات کی گرد چھٹنے کے بعد اسے اپنے ہی ذہنی ماحول میں ادب کے باغیانہ اور تجزیہ پسند میلانات کا سب سے بڑا ترجمان کہا گیا اور اس کی کتاب آواں گارد رویے کے اولین نقوص میں شمار کی جانے لگی۔

    منٹو کے سلسلے میں بھی غلط فکریوں کا شور اب دھیما پڑ چکا ہے لیکن اسے اس کے حقیقی تناظر میں دیکھنے کی روایت ہمارے یہاں اب تک عام نہیں ہوسکی ہے۔ اس کا سبب یہی ہے کہ ادب اور فحاشی کے روابط اور امتیازات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی کوششیں ہمارے ادبی ماحول میں بھی صرف مستثنیات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اردو بلکہ پورے مشرق کی ادبی روایت میں جنس کے عنصر کو کم و بیش ایک مرکزی موضوع کے طور پر برتا گیا ہے۔

    عسکری نے اس سے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ مشرق کی فکر حقیقت کے ایک انتہائی بسیط اور بے کراں تصور سے وابستگی کے سبب حقیقت کو اعلی اور اسفل کے خانوں میں اس طرح تقسیم نہیں کرتی کہ دونوں ایک دوسرے کی ضد دکھائی دیں۔ اس کے برعکس و ہ زندگی کے ہر مظہر کو، اس کی سرشت خیر سے عبارت ہو یا شرسے، انسانی تجربات کی ایک ہی زنجیر کا جزو سمجھتی ہے اور اس ضمن میں کسی بھی تعصب یا تحفظ کو روا نہیں رکھتی۔ مشرق کے کلاسیکی ادب میں اس تاثر کی تصدیق کا سامان بہت وافر ہے۔ مگر امر واقعہ کے طور پر کہنا غلط نہ ہوگا کہ خواہ فکری سطح پر ہم نے اس حقیقت کو بہت کھلے دل سے قبول کر لیا ہو، ہمارا معاشرہ اس باب میں خاصا سخت گیر رہا ہے اور ایک مستقل ثنویت اس کے مزاج کا حصہ رہی ہے۔

    عام لوگ جنہیں دعاؤں کی بیاض میں قوت باہ اور امساک کے نسخوں کی موجودگی پر کبھی اعتراض نہ ہو ا، وہی جنسی واردات کے اظہا رمیں ایک طرح کی دو شیزگی کو شرافت نفس کا شناس نامہ سمجھتے رہے۔ متقدمین کو تو خیر جانے دیجئے کہ ان کی نثر اور نظم میں حجابات کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے اور شعر و افسانے کے پر دے میں وہ اچھی طرح کھل کھیلے ہیں، منٹو کے عہد تک ہمارا معاشرتی ماحول اس معاملے میں خاصے دوغلے پن کا شکار رہا ہے۔ لذت کیشی نے اس معاشرے میں ایک مذہبی قدر کا رتبہ پایا ہے اور ایک تہذیبی امتیاز کی حیثیت بھی اسے حاصل رہی ہے مگر جنسی عمل کے سلسلے میں گناہ پوشی یا جرم کی پردہ داری کا رویہ بھی یہاں خاصہ عام رہا ہے۔ اس رویہ کی سماجی افادیت مسلم، پھر بھی ادب میں یا تہذیبی فکر میں اس کی بیجا مداخلتوں نے نہ صرف یہ کہ ہمارے معاشرے کے ادبی تصورات کو ضرب لگائی ہے، سچائی کی تلاش کے بعض راستے بھی ہم پر بند کر دیے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر سنجیدہ اور بامعنی فنی تخلیق بنیادی طور پر اخلاقی ہوتی ہے، شاید اخلاق سے زیادہ بااخلاق، لیکن فن کار کا اخلاقی ادراک چونکہ رسمی اخلاقیات کو صدمہ پہنچاتا ہے، اس لئے لوگ اسے قبول کرنے سے ڈرتے ہیں۔

    اور منٹو کا تو مستقل مشغلہ ہی یہ تھا۔ اس کی کہانیوں کے بعض اقتباسات یا چند ’’غیر محتاط‘‘ لفظوں کے استعمال کی بنیاد پر انہیں فحش کہنے والوں کو ادب کی جمالیات کا یہ بین اصول فراموش نہ کرنا چاہئے کہ منٹو کی بیشتر کہانیاں ایک مکمل واردات کی صورت اپنے اظہار کی ہیئت کا تعین کرتی ہیں۔ پھرجہاں تک غیر محتاط اور غیر ثقہ لفظوں کے استعمال کا تعلق ہے اس ضمن میں ’فینی ہل ‘کے مصنف کا یہ قول بھی ایک سچائی کا اظہار ہے کہ میں شرط باند ھ کر فحش ترین کتاب اس طرح لکھ سکتا ہوں جس میں ایک بھی فحش لفظ استعمال نہ کیا گیا ہو۔ اس سے قطع نظر کسی لفظ کے فحش یا غیر فحش ہونے کی بنیادیں کیا ہیں؟ معاشرتی حجابات یا اس لفظ سے پیدا ہونے والی کیفیت اور فن پارے کے مجموعی تاثر کی تشکیل میں اس کیفیت کا عمل؟ ظاہر ہے کہ اس سلسلے میں کو ئی بھی ادیب ان معیاروں کو اپنا رہ نما نہیں بنا سکتا جن کی اساس صرف مروجہ محاورے پر قایم ہو۔ چاسر اور شیکسپیئر نے تو یہ تک کہا تھا کہ،

    To gain the language
    Tis needful that the most immodest word
    Be looked upon and learnt.
    Henry4 (Part 2)

    اب اگر اس باب میں انہوں نے معاشرے کے جبر کو قبول کرلیا ہوتا تو نتائج کس درجہ عبرت ناک ہوتے۔ اس کا اندازہ ہم صرف اس واقعے سے لگا سکتے ہیں کہ امریکی پیورٹزم کے زیر اثر انیسویں صدی کے نصف تک وہاں یہ حال رہاکہ خواتین کی موجودگی میں زبان پر Legsکا لفظ لانا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ایک سیاح کی ڈائری میں تو یہ لطیفہ بھی ملتا ہے کہ اس زمانے میں کسی دعوت کے موقعے پر ایک خاتون نے مرغ کی ٹانگ طلب کی تو اپنا مافی الضمیر مرغ کے First & Second Jointsکہہ کر ادا کیا۔ خیر یہ تو عام لوگوں کا حال تھا، لغات ترتیب دینے والے بھی اپنی کتاب میں فحش الفاظ کی شمولیت سے ڈرتے تھے۔ اس احتساب زدگی کے نتیجے میں ادب جنسی واردات کے بیان سے تو کسی نہ کسی حد تک محفوظ ہوگیا مگر اس کی جگہ تشدد آمیز قصوں کی مقبولیت نے لے لی۔ پھوڑے کو اگر مصنوعی طو ر پر دبانے کی کوشش کی جائے تو زہر سارے جسم میں پھیل سکتا ہے۔ چنانچہ موجودہ امریکی معاشرے کی صورت حال سامنے ہے۔ یہاں میں جنس اور تشدد کے باہمی رشتوں کے مسئلے میں نہیں الجھنا چاہتا کہ یہ کام ماہرین نفسیات کا ہے، لیکن ادب کے ایک عام قاری کی حیثیت سے ہم یہ جانتے ہیں کہ ادیب کا کام نہ تو جبلتوں کی پسپائی ہے، نہ کسی ایسے جذبے کے اظہار پر روک لگانا جو اس کے تجربے میں شامل ہو اور جس کی بنیاد پر وہ کسی فن پارے کی تخلیق کا دباؤ محسوس کر رہا ہو۔

    پھر منٹو نے ہر کہانی میں نہ تو آپ بیتی بیان کی ہے، نہ ہی اس نے اپنی تخلیقی زندگی کا مقصد جنس یا فحاشی کے کسی تصور کی اشاعت کو قرار دیا تھا۔ وہ تو اس خوش گمانی میں بھی مبتلا نظر نہیں آتا جو اس قبیل کے بعض لکھنے والوں کے یہاں خود بخود پیدا ہوجا تی ہے، یعنی کہ اسے یہ خبط بھی نہیں رہا کہ وہ ہنری ملر کی طرح سماجی جبر سے نجات یا حواس کی آزادی کا کوئی دستور العمل ترتیب دے رہا ہے۔ اسے یہ احساس ضرور تھا کہ وہ جھوٹ بولنے کے ہنر سے ناواقف ہے۔ لیکن وہ اس جھوٹ کا کبھی بھی منکر نہ ہوا جو فنی حقیقت نگاری کے خمیر کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔ ’گنجے فرشتے ‘کے اختتامیے میں اس نے لکھا تھا کہ میرے اصلاح خانے میں کوئی شانہ نہیں، کوئی شیمپو نہیں، کوئی گھونگھر پیدا کرنے والی مشین ہیں۔ میں بناؤ سنگھار کرنا نہیں جانتا اس کتاب میں جو فرشتہ بھی آیا ہے اس کا مونڈن ہوا ہے اور یہ رسم میں نے بڑے سلیقے سے ادا کی ہے۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ منٹو نے اس رسم ادائیگی میں آپ اپنی ذات کو بھی نظر انداز نہیں کیا ہے اور بارہ گنجے فرشتوں کے ساتھ اس میں ایک اور گنجافرشتہ خود منٹو ہے۔ وہ نہ دوسروں سے جھوٹ بول سکتا تھا، نہ اپنے آپ سے، چنانچہ اپنی کہانیوں میں بھی اس نے جھوٹ کو صرف اس حد تک روا رکھا ہے جس کا بار یہ کہانیاں اٹھاسکیں۔

    المیہ یہ ہے کہ انسان سب سے زیادہ جھوٹ کا عادی جنسی معاملات کے بیان میں ہوتا ہے۔ ہنری ملر کے ایک نقاد نے کہا تھا، ہنری ملر پر قانونی احتساب اس لئے عاید ہوا کہ اس کا احتساب کرنے والے اس کی باتوں میں یقین بھی رکھتے تھے اور یہ جانتے تھے کہ وہ سچ بول رہا ہے۔ منٹو کے ساتھ بھی معاملے کی نوعیت کم و بیش یہی رہی ہے۔ اس کے سخت ترین نقاد نے بھی اب تک یہ کہنے کی جسارت نہیں کی ہے کہ منٹو کا تخیل انسانی تجربات کی جن دنیاؤں کا سفری ہے، وہ محض واہمہ یا ایک بگڑے ہوئے ذہن کی پیدا وار ہیں۔ چنانچہ ہر سچائی اس کے اظہار کی گرفت میں آنے کے بعد اپنے تاثر کی تمام جہتوں کا تحفظ کر تی ہے۔ اس کی کہانی اپنے بیان کی تفصیلات کے بجائے اپنے مجموعی تاثر بلکہ اس تاثرکے نقطہ ارتکاز کی وساطت سے قاری کے حواس پر وار د ہوتی ہے، چنانچہ منٹو کو ہم اس قسم کا دلچسپ لکھنے والا نہیں کہہ سکتے جس کی مثال ہنری ملر ہے۔

    ہنری ملر کے بیان میں ادبیت کا عنصر اس حد تک غالب ہے کہ کبھی کبھی ذہن اس کے تجربے کے بجائے تجربے کی میکانکی ترتیب اور اس کی لسانی ہیئت کے خم و پیچ میں الجھ جاتا ہے، ہر چند کہ ملر بز عم خود ہمیشہ اس فریب میں مبتلا رہا کہ روایتی معنوں میں وہ ادیب نہیں ہے اور اس کا اصل کارنامہ ادب اور زندگی سے وابستہ دوسری مروجہ قدروں کے خلاف ایک فکری اور جذباتی بغاوت ہے۔ اس نے اپنی کتابوں کو خدا، مقدر، زماں، عشق، حسن اور فن، ان سب کے لئے ایک تہمت، ایک رسوائی، ایک گندی گالی اور حقارت کی ایک ٹھوکر سے تعبیر کیا تھا۔ اس طرز فکر کے شاخسانے انجام کا رملر کی اخلاقیات ہی سے جاملتے ہیں۔

    منٹو نے اپنی کہانیوں میں بیان کا جو پیرایہ اختیار کیا ہے، اسے بھی ہم ایک نوع کے اخلاقی انتخاب کا نتیجہ کہہ سکتے ہیں، خاص طور پر اس لئے بھی کہ منٹو کاکھلا ڈلا اسلوب اس کی خطرناک حد تک بے حجاب اور بے ریاشخصیت ہی کا عکس ہے۔ منٹو نے جن خطوط پر اپنی شخصیت کی پرداخت کی تھی، کم وبیش انہی کے مطابق اپنے تخلیقی اظہار کی ہئیتوں کا تعین بھی کیا۔ اس عمل میں منٹو کی اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اس کے عہد کا بدلتا ہوا ذہنی ماحول بھی برابر کا شریک ہے۔ منٹو نے صرف اپنے ملک، اپنی قوم، اپنے دینی عقائد اور اپنے مخصوص سماجی ایقانات یا فرقہ وارانہ تحفظات کو اپنے تخلیقی شعور کا پس منظر نہیں بنایا۔ وہ زماں کے ایک تغیر پذیر اور متحرک اور موجود دائرے کی روشنی میں اپنے شعور کی تربیت کا سامان اکھٹا کرتا ہے۔ اس لئے منٹو کو صرف اس کی اپنی ادبی یا قومی یا تہذیبی روایت کی میزان پر جانچنے کے نتائج کا غلط اور ناقص ٹھہرنا فطری تھا۔

    (6)
    ’’پاکستان کے مروجہ اخلاقی معیار قرآن پاک کی تعلیم کے حوالے سے بہت صحیح طور پر معلوم ہوسکتے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ غیر شائستگی، شہوانیت، نفس پرستی اور سوقیانہ پن زندگی میں موجود ہے۔ اگر ادبی مذاق کے اس معیار کو تسلیم کرلیا جائے جسے صفائی کے گواہوں نے بیان کیا ہے، تو زندگی کے پہلوؤں کا حقیقت نگار انہ اظہار اچھا ادب ہوسکتا ہے، لیکن پھر بھی یہ ہمارے معاشرے کے اخلاقی معیار کی خلاف ورزی کرے گا۔‘‘

    ’’کہانی بعنوان ’ٹھنڈا گوشت ‘کو غور سے پڑنے کے بعد مجھے اطمینان ہوگیا ہے کہ اس میں قارئین کا اخلاقی معیار بگاڑنے کا میلان موجود ہے اور یہ ہمارے ملک کے مروجہ اخلاقی معیاروں کی خلاف ورزی کر تی ہے۔ اس لئے میں ملزم سعادت حسن منٹو کو ایک فحش تحریر پیش کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتا ہوں اور اسے زیر دفعہ ۲۹۲، پی سی تین ماہ قید بامشقت اور تین سو روپے جرمانے کی سزا دیتا ہوں۔ عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں اس کو مزید اکیس یوم کی سزا بھگتنی پڑے گی۔‘‘ 
    اے۔ ایم۔ سعید۔
    مجسٹریٹ درجہ اول، لاہور

    یہ اقتباس ’ٹھنڈا گوشت ‘پر مقدمے کے فیصلے سے ماخوذ ہے اور اس پر ۱۶جنوری ۱۹۵۰کی تاریخ ثبت ہے۔ یہ تاریخ ۱۶جنوری ۱۹۸۰بھی ہوسکتی تھی (اور سزا میں سوکوڑوں کا اضافہ بھی ہوسکتا تھا) ادب میں فحاشی کے تصور کی طرف محض عام تہذیبی اور فکری سطح پر رویوں کی تبدیلی کا فی نہیں تاوقتیکہ قانون کی دفعات پر بھی زندگی کے اسالیب اور اقدار میں زمانے کے ساتھ ساتھ رونما ہونما ہونے والی تبدیلیوں نے براہ راست اثر نہ ڈالا ہو۔ یہ بات انہونی نہیں ہے مگر صرف ان معاشروں کے لئے جن کی اجتماعی بصیرت تبدیلیوں کے عمل سے گزرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور انسانی تجربات کی کسی معینہ ہیئت کو ہر زمانے کے لئے یکساں اور تغیرات سے ماورا نہیں سمجھتی۔ چنانچہ دنیا کے بیشتر ممالک جن کا معاشرتی نظام ارتقا پذیر رہا ہے، فطرت کے اس عام اصول کو تسلیم کرتے آئے ہیں کہ زندگی کی خارجی سمت و رفتار کا اثر معاشرے کی داخلی تنظیم پر بھی پڑتا ہے اور ہر زمانہ اپنے اقدار و افکار کا ڈھانچہ اپنی نفسیاتی صورت حال، اس صورت حال کے زائیدہ جبر اور اس جبر کے سائے میں نمو پذیر ہونے والی اخلاقی سرشت کے مطابق تیار کرتا ہے۔

    لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ زمانہ آگے بڑھ جاتا ہے مگر قوی اور ملکی قوانین کی سطح میں ارتعاش کے آثار یکسر مفقود ہوتے ہیں۔ منٹو اپنی تخلیقات کے سلسلے میں پاکستان کے موجودہ قوانین اور اخلاقی ضابطوں کی روشنی میں کن مقدرات کی آزمایش سے گزرنا پڑتا، یہ سوچ کر آج ہم کانپ کانپ جاتے ہیں۔ ایک زمانے میں والٹ وہٹمن کو اپنے عہد کے فحش ترین درندے کا لقب دیا گیا تھا۔ عرصہ ہوا منٹو کا ذکر کرتے ہوئے ایک ترقی پسند نقاد نے کہا کہ، منٹو جیسے غلاظت نگار گو رکی کے روس میں بھی پیدا ہوئے تھے۔ لیکن آج، دوستو ئیفسکی کی حیثیت روسی ادب کے شاید سب سے بڑے سرمایہ افتخار کی ہے اور خود ترقی پسند تنقید نے منٹو سے ہار مان لی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک امریکہ کے بعض کتب خانوں میں جوائس کی کتاب A Portrait of the Artist as a young Manاس کمرے میں مقفل کر کے رکھی جاتی تھی جہاں خطرناک قسم کا مواد ڈھیر کردیا جاتا تھا کہ عام لوگوں تک اس کے جراثیم نہ پہنچ سکیں۔

    کہیں کہیں اس رسم کا چلن بھی تھا کہ مشہور مصوروں کی بنائی ہوئی برہنہ عورتوں کی تصاویر میں عریانی کا تاثر پیدا کرنے والے مقامات کاغذ کی کترنوں یا کتب خانے کی مہروں سے چھپا دیے جاتے تھے (جاپانی کہ ایک مقصد پرست قوم ہیں، یہ رسم اب تک نبھائے جارہے ہیں، اس احساس سے یکسر بے نیاز کہ عریانی کو چھپانے کا یہ طریقہ اسے اور زیادہ نمایاں کردیتا ہے۔ ) اشتراکی ممالک میں بورژ و ا ممالک کے مصنفین کی ایسی کتابیں جن سے اشتراکی تصورات یا مقاصد پر ضرب پڑتی ہے، اکثر فحش قرار دی جاتی ہیں۔

    نفسیات کے ایک عالم کا قول ہے کہ سنجیدہ مقصدر کھنے والی مگر عام اخلاقیات کی ڈگر سے ہٹی ہوئی کتابوں کو فحش کہنے والے اکثر ادھیڑ عمر کے بد کار اشخاص ہوتے ہیں جن کے نزدیک فحش تحریریں جنسی جذبے کو مشتعل کر نے کے سامان سے مماثل ہوتی ہیں۔ اس نظریے کی صحت اور عدم صحت پر بحث نفسیات ِجنسی کے ماہرین کا میدان ہے، تاہم سنجیدہ فکشن کے بارے میں یہ خیال غلط نہیں کہ اپنے اخلاقی مطالبات کی تکمیل کے لئے اس نوع کی تخلیقات میں نفی کا ایک عنصر لازمے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نفی کی ضربیں مروجہ روایات، مسلمات، اقدار، عقاید، تعصبات اور ایقانات، ان سب پر پڑتی ہیں۔

    منٹو نے کہا تھا، ’’ادب درجہ حرارت ہے اپنے ملک کا، اپنی قوم کا۔۔۔ ادب اپنے ملک، اپنی قوم کی علالت کی خبر دیتا رہتا ہے۔ پرانی الماری کے کسی خانے میں ہاتھ بڑھا کر کوئی گرد آلود کتاب اٹھائیے، بیتے ہوئے زمانے کی نبض آپ کی انگلیوں کے نیچے دھڑکنے لگے گی۔‘‘ اسی مضمون (کسوٹی) میں اس نے یہ بھی کہا تھا کہ، ’’یہ زمانہ نئے دوروں اور نئی ٹیسوں کا زمانہ ہے۔ ایک نیادور پرانے دور کا پیٹ چیر کر پیدا کیا جارہا ہے۔ پرانا دور موت کے صدمے سے دوچار ہے۔ نیا دور زندگی کی خوشی سے چلا رہا ہے۔ دونوں کے گلے رندھے پڑے ہیں۔ دونوں کی آنکھیں نمناک ہیں۔ اس نمی میں اپنے قلم ڈبو کر لکھنے والے لکھ رہے ہیں۔‘‘

    ادب کے تعمیر ی تصور پر جان دینے والا (اصطلاحاً) نقاد پلٹ کر یہ پوچھ سکتا ہے کہ ادب آخر علالت ہی کی خبر کیوں دیتا ہے؟ آخر ادب کے دسترخوان پر صحت افزا نعمتوں کی بھی کمی نہیں ہے اور اپنی افادیت کے اعتبار سے یہ نعمتیں دواؤں کی مثال ہیں۔ منٹو کے نزدیک ایسی دواؤں کے استعمال کا جواز ایک طرح کا اخلاقی قبض فراہم کرتا ہے۔ پھر اسے تو ہمیشہ اس بات پر اصرار رہا ہے کہ ادیب کا منصب دواخانے کے اہتمام و انصرام سے بالاتر ہے۔ خود کو معالج سمجھنے کا مطلب صریحاً یہ ہے کہ دوسروں کو مریض سمجھا جائے۔ منٹو اپنے معاشرے کے امراض کا شعور تو رکھتا ہے مگر اس طرح کہ آپ اپنی ذات کو بھی اس کے آلام سے الگ تصور نہیں کرتا۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ بہ حیثیت ادیب معاشرے کو اس کے امراض کا احساس دلاکر و ہ جھنجھوڑ تو سکتا ہے لیکن علاج کے معاملے میں وہ ایک حقیقت آفریں بے بسی کا شکار بھی ہے۔ معاشرے کے نظم و نسق اور تعمیر و ترقی کی باگ ڈور جن ہاتھوں میں ہے وہ اس کے ہاتھوں سے زیادہ طاقتور ہیں۔ ایسانہ ہوتا تو انسانی معاشرہ اپنے دکھوں کے جنجال سے کب کا آزاد ہوچکا ہوتا۔ اسے ان امراض سے نفر ت ہے کیونکہ ان کی ہلاکت سے وہ عام انسانوں کی بہ نسبت بہت زیادہ واقف ہے۔

    اس کا انسانی وجود کی مختلف سطحوں اور جہتوں کا شعور بھی عام انسانوں کی بہ نسبت زیادہ گہرا اور مربوط ہے۔ اسی لئے برے سے برے انسان کی طرف بھی اس کا رویہ مساوات کا ہے اور وہ اس بات پر افسردہ ہے کہ اس کے معاشرے نے دکھوں کا جو باراٹھا رکھا ہے، اس سے خود اس کے شانے بھی دبے جارہے ہیں۔ سو منٹو کا تخلیقی کردار اپنی ذلت کے احساس سے ابھرا ہے۔ اس نے اندھیرے کو اندھیرے کے طور پر دیکھااور اس غلاف سے کچھ چنگاریاں ڈھونڈ نکالیں، جو وجود کو جھٹلائے بغیر روشنی کی تلاش کا پتہ دیتی ہیں۔ منٹو کے معاشرے کی اخلاقی بنیادیں ابھی اس درجہ استوار نہیں تھیں کہ ان حقیقتوں کی تاب بھی لاسکتیں جونشاط آفریں نہیں ہیں۔ پھر اس کا قصور یہ بھی تھا کہ اس نے امید پیشگی کے دور میں اپنے ترقی پسند معاصر ین کی طرح انسان کی عظمت اور امید کے راگ کیوں نہیں الاپے۔ منٹو نے صرف سچائی کی عظمت پر تکیہ کیا اور ان اذیتوں کو ایک قدر جانا جن کے انکھوے سچائی کی شاخ سے پھوٹتے ہیں۔

    ’زحمت مہر درخشاں‘ میں منٹو نے عالمی ادب کے کئی حوالوں سے اپنے مقدمات کی تصدیق کے لئے نکات اخذ کئے ہیں۔ ’مادام بوواری ‘پر فحاشی کے مقدمے کا ذکر کرتے ہوئے اس نے وکیل صفائی کی بحث کا ایک اقتباس بھی نقل کیا ہے۔ اقتباس یوں ہے، ’’حضرات! یہ کتاب جو بقول وکیل استغاثہ شہوانی جذبات کو بھڑکاتی ہے موسیو فلابیر کے وسیع مطالعے اور غور وفکر کا نتیجہ ہے۔ اس نے اپنی توجہ متین فطرت کی وساطت سے ایسے ہی متین اور ملول مضامین کی طرح منعطف کی ہے۔ وہ ایسا آدمی نہیں ہے جس کے خلاف وکیل استغاثہ نے ہیجان خیز تصویروں کی نقاشی کے الزام میں جگہ جگہ اپنی تقریر وں میں زہر اگلا ہے۔ میں پھر دہراتا ہوں کہ فلابیر کی فطرت میں بے انتہا سنگینی، شد ید سنجیدگی اور بے پناہ ملال بھرا پڑا ہے۔‘‘

    منٹو نے اس اقتباس کے ساتھ یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ خود فلابیر کے پایے کا ادیب ہے۔ اس کے یہاں کم تر سطح پر سہی مگر الفاظ کی وہی کفایت، جذبے کا وہی انضباط، جزئیات کے بیان میں وہی ارضیت اور نقطہ نظر کے اظہار میں وہی معروضیت ملتی ہے جس سے فلابیر کی تحریریں پہچانی جاتی ہیں۔ منٹو نے بس رویے کی مماثلت پر زور دیا ہے، ان الفاظ میں کہ ’ٹھنڈا گوشت ‘میں بلابیر کی فطرت کی بے انتہا سنگینی اور شدید سنجیدگی شاید نہ ہو لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ بے پناہ ملال سے بھرا پڑا ہے۔ اس ملال کا اظہار ایشر سنگھ کے کردار کی بے ساختہ درد مندی سے بھی ہوتا ہے اور کہانی کے اختتام سے پھوٹ نکلنے والی کیفیت سے بھی۔ اس سے پہلے ایشر سنگھ اور کلونت کور کی باہمی چھیڑ چھاڑ اور معاملہ بندی کا جو منظر منٹو نے پیش کیا ہے وہ اپنی شوخ رنگی کے سبب تضاد کی فضا پیدا کرتا ہے، چنانچہ ملال کا تاثر کسی جذباتی مبالغے کے بغیر واقعے کی سطح سے خو دبخود رونما ہوا ہے۔

    منٹو کی ’’فحش بیانی‘‘ کو اس کے سیاق میں دیکھا جائے تو وہ ایک نوع کی فنی ضرورت بن جاتی ہے اور اس کا مفہوم وہ کچھ نہیں رہ جا تا جس پر ا س کے محتسبین یا معترضین نے اپنی اخلاقیات کے مصرعے لگائے ہیں۔ جیسا کہ او پر عرض کیا گیا ہے، منٹو کے اسلوب میں فلابیر کی سی شائستگی اور ملائمت تو نہیں، پھر بھی اس کا رویہ کا روباری ذہنیت رکھنے والے فحش نگاروں سے یکسر مختلف ہے۔ وہ اپنی شوخ بیانی سے قاری کے سفلہ جذبات کو ہوا نہیں دیتا، نہ مبتذل رویوں کے بازار میں تعیش کے وسیلے فراہم کرنے والی لفظی تصویروں کے ڈھیرسجاتا ہے۔ غیر تربیت یافتہ قاری اگر اس سے غلط نتائج اخذ کرتا ہے تو اس کا سبب قاری کی اپنی معذوریوں سے قطع نظر یہ بھی ہے کہ اس میں قصور قاری کی فہم کا ہے۔ اس کے اسلوب کے کھردرے پن سے مترشح ہونے والا بہیمانہ تاثر بھی قاری کی غلط گمانیوں کو تقویت پہنچاتا ہے۔

    منٹو کا اسلوب اس کے کرداروں کی طرح اپنے باطن کا گداز بیرونی سطح کی درشتگی کے نیچے چھپائے رکھتا ہے۔ عام پڑھنے والے کی نظر مظاہر میں الجھ کر رہ جاتی ہے، چنانچہ ان کے پردے میں مخفی حقیقت تک رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ لارنس نے ’لیڈی چیٹر لیز لور ‘کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمام تر جارحیت کے باوجود میں اس ناول کو ایک دیانت دار، صحت مند کتاب کہتا ہوں جو آج کے معاشرے کے لئے ضروری ہے۔ وہ الفاظ جو اول اول پڑھنے والے کواس درجہ چونکاتے ہیں، چند لمحوں بعد اس صلاحیت سے عاری دکھائی دیتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ان لفظوں نے صرف آنکھوں کو چونکایا تھا، ذہن کو نہیں۔ شعور سے بہرہ ور اشخاص یہ جانتے ہیں کہ ان لفظوں نے انہیں چونکایا نہیں تھا۔ اس کے برعکس انہیں ایک طرح کے سکون کا احساس ہوتا ہے۔

    منٹو کا اسلوب پڑھنے والے کو استعجاب اور اشتعال دونوں کا تجربہ بخشتا ہے مگر اس کے اسباب کا تعلق کہانیوں کی خارجی ہیئت سے زیادہ واقعات کی انوکھی تربیت اور ان کے غیر متوقع اختتام سے ہے۔ پھر لارنس کے برعکس منٹو قاری کو جذبات کے تزکیے کا ہنر نہیں بتاتا بلکہ اسے ذہنی اور حسی اضطراب کی ایک دیر پا اور پر پیچ کیفیت سے دوچار کرتا ہے۔ یہ کیفیت ادب کے سنجید ہ قاری کے لئے ایک لمبی جاں گداز جستجو کا صلہ ہوتی ہے، عام لوگوں کے لئے صرف گھبراہٹ اور سچائی کو حلق سے نیچے نہ اتار سکنے کی کوفت کا سامان۔ عسکری نے اس قبیل کے پڑھنے والوں کے لئے ایک سوالیہ نشان مقرر کیا ہے، یہ کہ،

    ’’اگر ہمیں جھنجھوڑ کر جگانے کے بعد منٹو نے ہمیں انسانی فطرت اور انسانی معاشرے کا کوئی تماشہ نہیں دکھایا، اگر اس نے ہمارے اندر زندگی کا کوئی نیا شعور پید ا نہیں کیا تو پھر ہم اسے گالیاں دینے میں حق بجانب ہوں گے کہ اس نے ہمیں چین سے سونے بھی نہ دیا۔ جو لوگ کسی قیمت پر جاگنا ہی نہیں چاہتے انہیں تو ان کے حال پر چھوڑیے، لیکن کیا آپ ’نیا قانون ‘، ہتک ‘یا ’بابو گوپی ناتھ ‘جیسے افسانے پڑھ کر دیانت داری کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ منٹو نے ہمیں چونکا کر مفت میں ہماری نیند خراب کی۔‘‘

    یہ ایک انتہائی مشکل سوال ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جو طبیعت کے یک سرے پن اور ہٹ دھرمی کو کردار کی استقامت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور ہم میں سے اکثر لوگوں کے مزاج کا طور یہی ہوتا ہے۔ حقیقت کا غلط یا صحیح جیسا بھی تصور ہم ایک بارقایم کر لیتے ہیں، اسے آسانی سے بدلنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ اور منٹو کا تو مشغلہ ہی یہ تھا۔ اس کے احساس کی زمین سے مس ہونے کے بعد حقیقتیں بھی تبدیل ہوتی ہیں اور ان کو دیکھنے اور سمجھنے کے زاویے بھی۔ لیکن سماجی قوانین کی پرورش جن حقیقتوں کی غذا پر ہوتی ہے، ان کا آب و رنگ کم و بیش ہمیشہ یکسا ں رہتا ہے۔ یہ حقیقتیں بر سہا برس کی آزمودہ ہوتی ہیں، رائج تصورات اور واہموں کی پروردہ۔ ان کا تعلق زماں کے اس منطقے سے ہوتا ہے جو ماضی ہے، یعنی کہ زندہ تجربات کی ضرب سے یکسر محفوظ اور بدلتی ہوئی سچائیوں کے عمل دخل سے یکسر بے نیاز۔ گریز پائی کی صعوبتیں صرف حال اٹھاتا ہے، چنانچہ اس کی بساط پر ہر لمحہ حقیقتیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں۔ ’اوپر، نیچے اور درمیان ‘کے مقدمے کا فیصلہ کرنے والے مجسٹریٹ نے کہا تھا،

    ’’قانون یہ نہیں چاہتا کہ ادب اپنے تقاضوں کو یامقاصد کو پورا نہ کرے۔ قانون یہی چاہتا ہے کہ ان مقاصد کو انسان کے لئے مفید ہونا چاہئے۔ اگر مقصد مفید نہ ہو، یعنی خالی شہوانی جذبات کو برانگیختہ کر نا مقصود تو نہ ہو، مگر موضوع اور الفاظ ایسے ہوں جن سے کمزور مریض یا ناپختہ ذہن شہوانی لذت کشی میں مبتلا ہوجائیں تو قانون اس عبارت کو غیر مفید اور فحش قرار دیتا ہے۔‘‘

    یہ لطیفہ بھی ’شعرمرابہ مدرسہ کے برد ‘کے مصداق ہے۔ قانون کی نظر میں ادب کی عدم افادیت اور فحش نگاری مترادفات ہیں۔ اشتراکی قوانین کی نظر میں ہر وہ تحریر فحش ہے جو اشتراکی معاشرے کے نصب العین سے ہم آہنگ نہ ہو۔ کیتھو لک حکومتوں نے ان کتابوں اور مصنفین کوفحش جانا جو کلیسا کے عاید کر دہ اخلاقی معاییر اور ضابطوں کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہوں۔ بودلیئر انیسویں صدی کے فرانس کے لئے فحش ہے، بیسویں صدی تک آتے آتے وہ انسانی تجربے کی بعید ترین سرحدوں کا مخبر بن گیا۔ نظریے، اخلاق اور سماجی تحفظات کی سیاست جب جمالیات کی بھول بھلیاں میں قدم رکھتی ہے تو اس سے ایسے ہی لطائف سرزد ہوتے ہیں۔ منٹو نے ’پس منظر ‘میں اسی رویے کو طنز کا نشانہ بنایا ہے،

    ’’یہ جتنے ادیب اور شاعر بنے پھرتے ہیں، اب ان کو چاہئے کہ ہوش میں آئیں اور کوئی شریفانہ پیشہ اختیار کریں۔
     لیڈر بن جائیں۔۔۔
     صرف مسلم لیگ کے؟
    جی ہاں! میرا مطلب یہی تھا، کسی اور لیگ کا لیڈر بننا فحش ہے۔
     بے حد فحش۔۔۔‘‘

    یہ ادب کے معاملے میں رویے کی فحاشی کا ایک اور نمونہ ہے۔ انسانی معاشرے کی رنگا رنگی کے لئے احمقوں کا وجود ناگزیر سہی مگر یہ لطیفہ مصیبت اس وقت بن جاتا ہے جب سنجید ہ مسائل پر اظہار خیال اور فیصلے کے اختیارات کی باگ ڈور بھی ان کے ہاتھوں میں آجاتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ قوانین کی تشکیل عام انسانوں کے عمل اور رد عمل کی بنیادوں پر کی جاتی ہے لیکن ادب یافنون لطیفہ سے متعلق مسائل بہر صورت عوام الناس کے مسائل نہیں ہیں۔ یہ مسائل اپنی تفہیم کے لئے چند مخصوص شرائط مقرر کر تے ہیں اور قاری سے شعور کی ایک الگ سطح کے طالب ہوتے ہیں، مگر انسانی معاشرے اور اور اس سے وابستہ قوانین کی ترتیب جن خطوط پر ہوئی ہے، ان کی تعیین میں عام انسانوں کا عمل دخل اس حد تک رہا ہے کہ انسانی حواس کے ناز ک ترین ارتعاشات کی دنیا بھی ان کے اختیارات سے آزاد نہیں رہ سکی ہے۔ ’یولیسس ‘کے مقدمہ کے فیصلے میں یہ الفاظ بھی شامل تھے،

    ’’ایک خاص کتاب ایسے (شہوانی) جذبات اور خیالات پیدا کرسکتی ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ عدالت کی رائے میں یہ دیکھ کر ہوگا کہ اوسط درجے کی جنسی جبلتیں رکھنے والے آدمی پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے، ایسے آدمی پر جسے فرانسیسی ’معمولی قسم کی حسیات رکھنے والا انسان‘کہتے ہیں اور جس کی حیثیت قانونی تفتیش کی اس شاخ میں ایک فرضی عامل کی ہوتی ہے جیسے خفیفہ کے مقدموں میں ’سمجھ بوجھ والے آدمی ‘کی حیثیت ہوتی ہے یا رجسٹریشن کے قانون میں ایجاد کے مسئلے کے متعلق فن کے ماہر کی۔‘‘

    یعنی یہ کہ کسی مشین کے عمل کو سمجھنے کے لئے تو ہم اس شعبے کے ماہر سے رجوع کرنے پر مجبو ر ہوں گے مگر ادب کے معاملات میں ہر کس و ناکس کی رائے اہم ہوسکتی ہے۔ ان زمانوں میں جب ادب اور فنون لطیفہ کو ایک عام تہذیبی قدر کی حیثیت حاصل تھی اور اختصاص کے قہر سے انسانی معاشرہ محفوظ تھا، اس طرز فکر کی معقولیت کا جواز مہیا کیا جاسکتا ہے۔ منٹو نے اپنی کہانیوں کا مواد عام زندگی کے ذخیروں اور عام انسانوں کے تجربات سے حاصل کیا تھا مگر وہ کردار جن کی وساطت سے اس نے زندگی کی زہرہ گداز حقیقتوں کا سراغ لگایا، اس کے قاری نہیں تھے۔ منٹو نے آغا حشر کی طرح اپنی تحریریں تانگے والوں کو نہیں سنائیں کہ عام انسانوں کے ردعمل کا اندازہ کر کے وہ ان کی کمرشیل حیثیت کا تعین کر سکے۔ وہ تو عمر بھر اس ایقان کو سینے سے لگائے رہا کہ کہانیاں لکھنا اس کے لئے صرف پیشہ نہیں ایک داخلی ضرورت کا جبر ہے۔ وہ اس لئے لکھتا ہے کہ اسے کچھ کہنا ہوتا ہے۔

    زندگی میں معنی کی تلاش سے پہلے ضروری ہے کہ خود اپنے رویے کے معنی متعین کئے جائیں۔ منٹو اس فرض سے کبھی غافل نہیں رہا، اسی لئے اس کا برے سے برا افسانہ بھی ہمارے لئے کچھ نہ کچھ معنی ضرور رکھتا ہے۔ فحاشی کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ وہ لکھنے والے اور پڑھنے والے دونوں کو خود غرض بناتی ہے۔ دونوں کے مقاصد سراسر ذاتی، سطحی اور طے شدہ ہوتے ہیں، مگر منٹو نے انانیت کا مقنعہ پہننے کے بعد بھی اپنے سماجی تعہد کو قایم رکھا۔ ایسانہ ہو تو منٹو کی تحریر وں کے خلاف ادیب کی سماجی، وابستگی اور ادب کے سماجی رول پر زور دینے والے حلقوں کی جانب سے اتنے شدید ردعمل کا اظہار نہ ہوتا۔ منٹو نے سماجی تعہد کے معنی ہی بدل دیے، چنانچہ اپنے ترقی پسند معاصرین سے اس کے اختلافات کے باوجود خود ترقی پسند نقاد بھی منٹو پر نہ تو سماجی شعور سے عاری ہونے کی تہمت لگا سکتے ہیں، نہ اسے میرا جی کی قسم کے ادیبوں کے صف میں رکھا جاسکتا ہے۔

    اس نے کہا تھا، ’’ ہم لکھنے والے پیغمبر نہیں۔ ہم ایک ہی چیز کو، ایک ہی مسئلے کو مختلف حالات میں مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں اور جو کچھ ہماری سمجھ میں آتا ہے، دنیا کے سامنے پیش کردیتے ہیں اور دنیا کو کبھی مجبور نہیں کرتے کہ وہ اسے قبول بھی کرے۔‘‘ یہ تو منٹو کا اپنا زاویہ نظر تھا جس میں انکسا ر کی شائستگی بھی ہے اور ادیب کے منصب کا عرفان بھی۔ اس نے اپنی جانب سے کوئی جبر اپنے معاشرے پر یا اپنے قاری پر نہیں عاید کیا۔ لیکن دشواری یہ تھی کہ منٹو کے تخیل کی زرخیزی نے جن سچائیوں کے نشانات ڈھونڈ نکالے تھے، خود ان کی حیثیت ایک ایسے دائم و قائم جبر کی تھی جو زندگی کی ترکیب میں شامل ہے اور جس کی اذیت اٹھانے کی سکت ہر ایک میں نہ تھی۔ عام انسانوں کی طرح بیشتر سماجی قوانین بے لوچ بھی ہوتے ہیں اور ان کے محافظ اپنی معذوری کے اعتراف پر آمادہ بھی نہیں ہوتے۔ منٹو نے ان سے ایسا کوئی تقاضہ بھی نہیں کیا۔ ایسی صورت میں معقولیت کی بات تو یہی تھی کہ وہ منٹو کو بھی اپنے محاسبے اور مطالبات سے آزاد چھوڑدیتے، یہ سوچ کر کہ دنیا کی ہر چیز ہر شخص کے لئے نہیں ہوتی۔ مگر اسے ایک عام انسان کی حیثیت سے منٹو کی خوش نصیبی سمجھا جائے یا بدبختی کہ بطور ادیب اسے نظر انداز کر نا ممکن ہی نہ تھا، سو یہ آشوب اسے بھگتنا ہی پڑا۔ منٹو کی حیثیت اسی لئے اردو فکشن کی تاریخ میں احساس اور فکر کے ایک اسلوب کی بھی ہے اور ایک ہنگامہ آفریں واقعے کی بھی۔

    ’’اپنے افسانوں کے سلسلے میں مجھ پر چار مقدمے چل چکے ہیں، پانچواں اب چلا ہے جس کی روداد میں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ پہلے چار افسانے جن پر مقدمہ چلا، ان کے نام حسب ذیل ہیں، ’کالی شلوار ‘، ’دھواں ‘، ’ٹھنڈا گوشت‘، اور پانچواں ’اوپر نیچے اور درمیان۔ ‘ پہلے تین افسانوں میں تو میری خلاصی ہوگئی، کالی شلوار کے سلسلے میں مجھے دلی سے دو تین بار لاہور آنا پڑا۔ ’دھواں ‘نے مجھے بہت تنگ کیا، اس لئے کہ مجھے ممبئی سے لاہور آنا پڑتا تھا، لیکن ’ٹھنڈا گوشت‘ کا مقدمہ سب سے بازی لے گیا۔ اس نے میر ا بھر کس نکال دیا۔ یہ مقدمہ گو یہاں پاکستان میں ہوا، مگر عدالتوں کے چکر کچھ ایسے تھے جو مجھ ایسا حساس آدمی برداشت نہیں کرسکتا کہ عدالت ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہر تو ہین برداشت کرناہی پڑتی تھی۔ خدا کرے، کسی کو، جس کا نام ’عدالت ‘ ہے، سے واسطہ نہ پڑے۔ ایسی عجب جگہ میں نے کہیں بھی نہیں دیکھی۔ پولس والوں سے مجھے نفرت ہے۔ ان لوگوں نے میرے ساتھ ہمیشہ ایسا سلوک کیا ہے جوگٹھیا قسم کے اخلاقی ملزموں سے کیا جاتا ہے۔‘‘

    احتساب اورسنسر شپ کے حدود پر اظہار خیال کرتے ہوئے مغرب کی ایک عدالت عالیہ کے حسٹس برنان (جنہوں نے اس زمانے کے معروف Roth caseکا فیصلہ کیا اور جس کے بعد بیشتر مغربی ممالک کے سنسر شپ کے نظام میں زبردست تبدیلیاں رونما ہوئیں ) نے کہا تھا کہ کسی مصنف پر فحاشی کا جرم عاید کرنے سے پہلے کم از کم تین باتوں کی تصدیق ہونی چاہئے۔ ایک تو یہ کہ متعلقہ تحریر کا بنیادی تاثر مجموعی طور پر جنسی واردات میں ایک ابتذال آمیز دلچسپی کی ترغیب دیتا ہے، دوسرے یہ کہ اس تحریر کا مقصد معاصر معاشرتی رویوں اور ضابطوں کو جان بوجھ کر مجروح کرنا ہے، اور تیسرے یہ کہ مصنف نے اپنی تحریر میں جو مواد پیش کیا ہے اس کی سماجی قدر کچھ بھی نہیں ہے۔

    اس طرز فکر سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے زمانے تک آتے آتے ادب میں فحاشی کے تصور کی وسعت کا احساس صرف ادب لکھنے والوں یا ادب سے پیشہ ورانہ تعلق رکھنے والوں تک محدود نہیں رہ گیا تھا۔ اس کے سماجی، تہذیبی، نفسیاتی اور تاریخی عوامل کا قصہ بہت طولانی ہے، بہر حال، مجملاً یہاں اس امر کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ ادب کی تفہیم اور تخلیق دونوں کی بابت ہمارے عہد کے عام نقطہ نظر میں بہت دھندلی اور خاموش سہی، مگر کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور ہوئی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اب ادب کی دنیا بھی اختصاص کے دائرے میں سمٹتی جارہی ہے۔ دوسرے یہ کہ ہمارے معاشرے میں اب ادیب پہلی جیسی خطرناک حیثیت رکھنے والا شہری نہیں رہ گیا ہے۔ سماج کے نظم و نسق اور اس کی تربیت اور تعمیر کے حقوق اب جس نوع کے افراد کے نام کم وبیش محفوظ ہوچکے ہیں، وہ ادیب کو سماجی سطح پر اپنا حریف نہیں سمجھتے۔

    اب ’فینی ہل ‘جیسی کتابیں کھلے بندوں چھپتی اور بکتی ہیں اور فرینک ہیرس، یا ہنری ملر جیسے لکھنے والوں کو معاشرتی ادارے خوف اور نفرت اور حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ عام لوگوں کی نظر میں ادیب ایک بے ضرر مخلوق ہے اور بس۔ اسی لئے عوامی سطح پر اب کسی ادبی تخلیق کے سلسلے میں رد عمل کا اظہار یا تو ہوتا ہی نہیں اور اگر ہوتا بھی ہے تو اس کے نتائج دور رس نہیں ہوتے۔ مغرب کے بیشتر ملکوں میں روشن خیالی کی اس روایت کا سلسلہ عرصہ پہلے شروع ہوچکا تھا۔ البتہ اشتراکی معاشرے یا ایسے ممالک جہاں شخصی اقتدار کی رسم اب تک چلی آرہی ہے، اس قسم کی روشن خیالی کو اب بھی قبول کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے، سبب بہت واضح ہے۔ اقتدار چاہے شخصی ہو یا اس کی باگ ڈور کسی مخصوص نظریے یا سیاسی تصور اور مذہبی عقیدے کے مبلغوں کے ہاتھ میں ہو، ہر اس سچائی کو شک اور خوف کی نگاہ سے دیکھتا ہے جس سے اس کی اپنی بنیادوں پر ضرب پڑتی ہے، یا اگر براہ راست ضرب نہیں بھی پڑتی تو کم ازکم جس سے اصحاب اقتدار کے اپنے قومی، فرقہ وارانہ، سیاسی اور سماجی تعصبات کی تصدیق نہ ہوتی ہو۔

    ایسے معاشروں کی اخلاقی بساط اتنی محدود اور شعور کی بنیادیں اس درجہ کمزور ہوتی ہیں کہ اختلاف کی معمولی سی لہر بھی انہیں اپنے لئے ایک خطر ہ دکھائی دیتی ہے۔ اس صورت حال کے تماشے شخصی یا نظریاتی اقتدار کے ماتحت معاشروں میں آئے دن دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں سنسر شپ کے اصول و ضوبط کی تعیین جتنے ناقص اور کمزور مفروضات کی بنیاد پر ہوتی ہے، ان کا تصور بھی مہذب دنیا کے لئے عبرت کا خاصا سامان فراہم کرتا ہے۔ منٹو پر قانون کی جس دفعہ کے تحت مقدمے چلائے گئے اس کی تفصیلات خود منٹو نے ’’زحمت مہر درخشاں‘‘ میں بیان کی ہیں،

    ’’فحاشی کی جانچ کا معیار وہاں یہ مقرر کیا گیا ہے کہ آیا فحاشی کے تحت الزام زدہ مضمون میں ان لوگوں کے اخلاق بگاڑنے اور ان کو بری ترغیب دینے کا میلان ہے، جن کے ذہن ایسے غیر اخلاقی اثرات قبول کرنے کے لئے تیار ہیں، اور جن کے ہاتھوں میں اس قسم کی، اخلاق کے لئے ضرر رساں تصنیف ہے، اندازہ کیا جائے، ان کے ذہن میں بد چلنی اور بدکاری کا اثر پیدا کرے گی؛ (اگر ایسا ہے ) تو یہ ایک فحش اشاعت ہوگی۔ قانون کا منشا ہے کہ اس (کی فروخت) کو روکاجائے۔ اگر کوئی تحریر حقیقتاً کسی ایک بھی جنس کے نوجوان یا زیادہ عمر کے لوگوں کے اذہان کو انتہائی گندے اور شہوت پر ستانہ قسم کے خیالات سجھائے تو اس کی اشاعت خلاف قانون ہے، خواہ ملزم کے پیش نظر کوئی در پردہ مقصد ہی کیوں نہ ہو، جو معصوم حتی کہ قابل تعریف ہو۔ کوئی چیز جو شہوانی جذبات کو مشتعل کرے فحش ہے۔‘‘

    یعنی یہ کہ اس معاملے میں قانون نے اگر مگر کی گنجائش بھی نہیں چھوڑی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ قانون نہیں بلکہ دور وحشت کے کسی قبائلی سردار کافرمان نامہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ منٹو کو آج بھی اپنے مخصوص سماجی ماحول میں اسی سطح کے تجربے سے دوچار ہونا پڑتا، لیکن یہ طے ہے کہ معاشرے کی جانب سے اس نوع کے قوانین کو آج پہلی جیسی چھوٹ نہیں مل سکتی۔ سیاسی نظریے یا شخصی اقتدار کے تابع ممالک میں سنسر شپ کے نظام کے صدمات صرف ایسے ادیب نہیں سہتے جو حال کی فضا میں سانسیں لے رہے ہوتے ہیں، اس کا شکار ماضی کا وہ ادبی سرمایہ بھی ہوتا ہے جس میں موجودہ صورت حا ل سے تصادم یا اس کی نفی کے نشانات کا سراغ ملتا ہے۔ ایسے ممالک جو شخصی یا کسی سکہ بند سیاسی نظام کے تابع نہیں ہیں، وہاں بھی ادب کے احتساب کی بنیادیں مضحک اور نامعقول ہیں، گرچہ ایک بدلی ہوئی سطح پر۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سنسر شپ نے قانون کی حیثیت اس عہد میں اختیار کی جسے اہل مغرب تعقل کے عہد کا نام دیتے ہیں۔

    فحاشی کی بنیاد پر ادب کی باقاعدہ سنسر شپ کا آغاز انگلستان، امریکہ دونوں ملکوں میں ۱۸۶۸میں ہوا اور فحاشی کی پہچان یہ قائم کی گئی کہ وہ ادب پارہ جو ناپختہ (نابالغ) ذہنوں پر غیر اخلاقی اثرات مرتب کرے، فحش اور قابل گرفت ہے۔ بیسویں صدی تک آتے آتے اس معیار نے اتنی ترقی کر لی کہ اب نابالغ ذہنوں کی جگہ عام سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد کو دے دی گئی۔ اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں تھا، اگر کسی ادب پارے کی بابت عام سوجھ بوجھ رکھنے والے کا رد عمل جاننے سے پہلے انہیں ادب کی حدود اور اس کی تخلیق کے عمل سے متعلق چند بنیادی نکات سے باخبر کردیا جاتا۔ بقول منٹو، جس طرح ادب اور غیر ادب کے درمیان کسی کھلے ہوئے علاقے کا وجود نہیں ہے، اسی طرح ادب کو سمجھنے والوں اور نہ سمجھنے والوں کے حلقے بھی متعین ہیں۔

    منٹو کا سابقہ اپنی کہانیوں کے احتساب کے سلسلے میں افراد کی جس نوع سے پڑا، وہ سب کے سب اسی دوسرے حلقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ایسانہ ہوتا تو اپنے مقدمات کے بارے میں منٹو کی وضاحتیں اس درجہ عام فہم بلکہ سطحی نہ ہوتیں۔ جس طرح سکہ بند سماجی اور سیاسی نظریات کے تابع ممالک میں سنسر شپ کے قوانین کے بنیادی لاحقے سیاسی ہوتے ہیں، اسی طرح منٹو کو جن افراد اور ضابطوں سے نپٹنا پڑا ان کے ’’ادبی تصور‘‘ کی اساس یا تو اخلاق کے روایتی تصور پر قائم تھی یا پھر مذہب پر۔ مذہب تو خیر ایک ادارہ ہے ہی، اخلاقی تصورات بھی باقاعدہ روایت بننے کے بعد ایک ادارے ہی کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں، چنانچہ اس میں تعصبات کا در آنا فطری ہے۔ اس کی مضحک ترین مثال حضرت عیسی ؑسے بانوے برس پہلے کا ایک کتبہ ہے جس میں خطابت کے رائج تصور کے برخلاف ایک نئے تصور کے قیام پر احتساب عاید کئے جانے کا تذکرہ ہے۔ افراد اور ایقانات جب ادارے بن جاتے ہیں تو ان سے کسی بامعنی اختلاف کے دروازے خود بہ خود بند ہوجاتے ہیں۔ منٹو کی ساری مشکل یہی تھی۔

    منٹو کو ہم صرف ان معنوں میں فحش نگار کہہ سکتے ہیں جن کی گنجائش اصطلاحات علمیہ کے ماہرین نے لفظ Pornographyکے اختراع میں نکالی ہے۔ ان کا بیان ہے کہ Pornographyکا مصدر یونانی زبان کے لفظ porneبمعنی طوائف ہے۔ چنانچہ طوائفوں کے بارے میں کچھ لکھنا فحاشی ہے۔ منٹو نے طوائفوں کے بارے میں لکھا ہی نہیں، انہیں اپنی زندگی کو ایک تخلیقی سمت عطاکرنے والے کرداروں کی حیثیت سے بھی دیکھا ہے،

    ’’ہم رجائی ہیں۔ دنیا کی سیاہیوں میں بھی ہم اجالے کی لکیر دیکھ لیتے ہیں۔ ہم کسی کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتے، چکلوں میں جب کوئی ٹکھیائی اپنے کوٹھے پر سے کسی راہ گیر پر پان کی پیک تھوکتی ہے، تو ہم دوسرے تماشائیوں کی طرح نہ تو کبھی اس راہ گیر پر ہنستے ہیں اور نہ کبھی اس ٹکھیائی کو گالیاں دیتے ہیں۔ ہم یہ واقعہ دیکھ کرر ک جائیں گے۔ ہماری نگاہیں اس غلیظ پیشہ ور عورت کے نیم عریاں لباس کو چیرتی ہوئی اس کے سیاہ عصیاں بھر ے جسم کے اندر داخل ہو کر اس کے دل تک پہنچ جائیں گی، اس کو ٹٹولیں گی اور ٹٹولتے ہوئے ہم خود کچھ عرصے کے لئے تصور میں وہی کر یہہ اور متعفن رنڈی بن جائیں گے، صرف اس لئے کہ ہم اس واقعے کی تصویر ہی نہیں بلکہ اس کے اصل محرک کی وجہ بھی پیش کرسکیں۔

    ہم وکیلوں کے متعلق کھلے بندوں باتیں کر سکتے ہیں۔ ہم نائیوں، دھوبیوں، کنجڑوں اور بھٹیاروں کے متعلق بات چیت کرسکتے ہیں۔ ہم چوروں، اچکوں، ٹھگوں اور راہزنوں کے قصے سناسکتے ہیں۔ ہم جنوں اور پریوں کی داستانیں بیٹھ کے گڑھ سکتے ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب آسمان کی طرف شیطان بڑھنے لگتا ہے تو فرشتے تارے توڑ توڑ کر اسے مارتے ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بیل اپنے سینگوں پر ساری دنیا اٹھائے ہوئے ہے۔ ہم داستان امیر حمز ہ اور قصہ طوطا مینا تصنیف کرسکتے ہیں۔ ہم لندھور پہلوان کے گرز کی تعریف کرسکتے ہیں۔ ہم عمر و عیار کی ٹوپی اور زنبیل کی باتیں کر سکتے ہیں۔ ہم ان طوطوں اور میناؤں کے قصے سناسکتے ہیں جو ہرزبان میں باتیں کر تے تھے۔ ہم جادو گروں کے منتروں اور ان کے توڑ کی باتیں کرسکتے ہیں۔

    ہم عمل ہم زاد اور کیمیا گری کے متعلق، جو من میں آئے کہہ سکتے ہیں۔ ہم داڑھیوں، پائجاموں اور سر کے بالوں کی لمبائی پر جھگڑسکتے ہیں۔ ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ سبز رنگ کے کپڑے پر کس رنگ اور کس قسم کے بٹن سجیں گے۔۔۔ ہم ویشیا کے متعلق کیوں نہیں سوچ سکتے۔ اس کے پیشے کے بارے میں کیوں غور نہیں کرسکتے۔ ان لوگوں کے متعلق کیوں کچھ نہیں کہہ سکتے جو اس کے پاس جاتے ہیں؟‘‘

    اور اب منٹو کے ایک سوانح نگار کی کتاب سے یہ چند سطریں،

    ’’سامنے لالٹین کی روشنی میں، ایک عورت ننگے فرش پر بیٹھی روٹی کھارہی تھی۔ ہمیں دیکھ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کی عمر بمشکل اٹھارہ سے انیس برس کی ہوگی، لیکن وہ فاقہ زدہ معلوم ہوتی تھی۔ اس کارنگ گہرا سانولا تھا۔ اس کی آنکھیں اس بچے کی طرح ڈری ہوئی تھیں جیسے کوئی بری بات کرتے ہوئے کسی نے سرسے پکڑ لیا ہو۔‘‘

    ’’اربھئی، کوئی مال وال بھی ہے کہ نہیں؟‘‘ عباس نے ٹھیٹ تماش بینوں کے انداز میں پوچھا۔

    ’’اس وقت تو میں ہی ہوں۔۔۔‘‘ اس عورت نے لقمہ نگلتے ہوئے پوربی لہجے میں جواب دیا۔ ا س نے لالٹین فرش سے اٹھائی اور اسے اپنے چہرے کے برابر لے آئی جیسے اپنا مال دکھانا چاہتی ہے۔

    ’’اچھا تو پھر کبھی آئیں گے!‘‘ عبا س نے کہا۔ گاہک کو سودا پسند نہیں آیا تھا اور وہ کوئی دوسری دوکان دیکھنے کا ارادہ کرچکا تھا۔ لڑکی کا چہرہ دفعتاً اور سیاہ ہوگیا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ہریکین لالٹین دھواں چھوڑٹی ہوئی یکایک بھک سے بجھ گئی ہے اور اس عورت کے چہرے پر، جو اس کی روشنی میں اپنا سودا بیچنا چاہتی تھی کالک اور لیپ کر گئی ہے۔ سیڑھیاں اترتے وقت مجھے یوں محسوس ہوا جیسے باہر سڑک کے، فتح پوری کے، چاندنی چوک کے، ساری دلی کے دیے گل ہوگئے ہیں۔ ہندوؤں، پٹھانوں، تغلقوں، لودھیوں، خلجیوں، غلاموں، مغلوں اور انگریز وں کی دلی پر کسی بہت بڑے ہوائی حملے کی تیاریاں ہورہی ہیں، جس سے بچنے کے لئے ہم کسی اندھے کنویں میں اترتے جارہے ہیں۔

    ’’منٹو خاموش تھا۔ شاید اسے محسوس ہورہاتھا کہ اس کی سوگندھی میں اب جلنے کی ہمت بھی نہیں رہی۔ ہتک کا احساس بھی جاتا رہا۔ سیٹھ ’اونہہ!‘کر کے نکل گیا ہے۔‘‘ (ابوسعید قریشی)

    ان اقتباسات سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ طوائف کو موضوع بنانا بھی منٹو کے لئے در اصل ایک اخلاقی انتخاب کا ہی جبر تھا۔ فحش نگاری کے عمل پر اس سے بڑا طنز اور کیا ہوسکتا ہے؟ یہ سوال منٹو کے معترضین کے لئے ہے۔ لیزلی فیڈ لر نے چھپ چھپاتے بکنے والی کتابوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ اب فحاشی کی موت ہوچکی ہے اور ہم ادبی فحاشی کو ایک سنجید ہ عمل کی شکل میں قبول کرنے کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ اردو افسانے کی زمین پر یہ بیج منٹو نے بکھیرے تھے، فصل اب تیار ہوئی ہے۔

    مگر منٹو! وہ فحش نگار کب تھا؟

     

    مأخذ:

    منٹو: حقیقت سے افسانے تک (Pg. 13)

    • مصنف: شمیم حنفی
      • ناشر: دہلی کتاب گھر، دہلی
      • سن اشاعت: 2012

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے