Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

منٹو فسادات پر

محمد حسن عسکری

منٹو فسادات پر

محمد حسن عسکری

MORE BYمحمد حسن عسکری

    پچھلے دس سال میں نئےادب کی تحریک نے اردو افسانوی ادب میں گراں قدر اضافے کئے ہیں۔ لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اکثر و بیشتر نئے افسانوں کی محرک تخلیق کی اندرونی لگن نہیں تھی بلکہ خارجی حالات اور واقعات، خواہ ان کا تعلق خود مصنف کی ذات سے ہو یا ماحول سے۔ ممکن ہے یہ بہت حد تک اس رائج الوقت عقیدے کے ماتحت ہوا ہو کہ محض خارجی ماحول کو بدل دینے سے انسانوں کی داخلی زندگی کوبھی بدلا جا سکتا ہے۔ بہرحال عام طور سے یہ دستور رہا ہے کہ جب ہمارے افسانہ نگاروں کو اپنی ادبی سرگرمیاں کمزور ہوتی معلوم ہوئی ہیں تو انہوں نے اپنے آپ کو الزام نہیں دیا،انہیں کبھی یہ تشویش نہیں ہوئی کہ شاید ہماری اندرونی نشوونما بند ہوگئی ہے جسے ہم داخلی عمل سے دوبارہ جاری کر سکتے ہیں۔ اس کے برخلاف انہوں نے اپنے آپ کو یہی سوچ کے تسلی دے لی کہ خارجی دنیا میں کوئی ایسی بات ہوہی نہیں رہی جس کے بارے میں لکھا جائے۔ چھ سات سال ہوئے میں نے اردو کے ایک افسانہ نگار کو، جنہوں نے مفلسی، غلامی اور کشمیر کے متعلق افسانے لکھ کر خاصی مقبولیت حاصل کرلی تھی یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ اگر جاپانی ہندوستانی پر حملہ کردیں اور ملک میں کچھ گڑبڑ ہو تو ادب پر بہار آئے۔

    خدا کا شکر خورے کو شکر دیتا ہے۔ جاپانیوں کا نہ سہی قحط کا حملہ ہوا۔ کسی نے چور بازارمیں چاول بیچ کر روپے بٹورے، کسی نے افسانے لکھ کر شہرت۔ چلئے دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے کسی نہ کسی کے بھلے کے لئے ہی ہوتا ہے۔ اس زمانے میں قحط کے موضوع کو ایسا تقدس حاصل ہوا کہ طالب علموں تک اپنے جنسی تجربات کے بجائے بھوکوں کے متعلق لکھنا شروع کردیا۔ زور یہ تھا کہ اگر رسالے کے مدیر نے افسانہ چھاپنے سے انکار کر دیا تو وہ شقی القلب اور بے رحم ٹھہرے گا۔ غرض بنگال کی مصیبتوں کے طفیل ہمارے افسانہ نگاروں کو کچھ دن خاصی آسانی رہی، گھڑے گھڑائے افسانے ملتے رہے۔ واقعات، جذبات سب مہیا تھے، کسی چیز کے لئے کاوش کی ضرورت ہی نہ تھی۔

    پھر قحط کچھ ٹھنڈا پڑا تو جہازیوں کی ہڑتال ہو گئی۔ کہیں فتح کے جشن میں ہنگامہ ہو گیا۔ غرض کسی نہ کسی طرح کاروبار چلتا رہا۔ اورجب ۴۷ء کے فسادات ہوئے تو گویا اللہ میاں نے چھپرپھاڑ کے دیا۔ جی چاہے تو المیہ افسانہ لکھے ورنہ طنزیہ مضمون ہو سکتا ہے۔ انسانوں کی زندگی پر دانت پیسئے، سامراج کی چالاکیوں کا پردہ چاک کیجئے، ان باتوں سے جی بھر جائے تو کچھ عورتوں کی بے حرمتی کے ذکر سے گرمی پیدا کیجئے۔ موقع موقع سے یہ بھی دکھاتے چلئے کہ اس بہیمیت کے ساتھ ساتھ رحم دلی اور انسانی ہمدردی کے نمونے بھی ملتے ہیں، پھر بھولا سا منہ بناکر تعجب کیجئے کہ ہندومسلمانوں کی عقل کو کیا ہو گیا، کل تک تو بھائی بھائی تھے آج ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیوں ہو گئے۔ بس خطرہ یہ رہ جاتا ہے کہ کہیں آپ کے اوپر جانبداری کا الزام نہ آجائے۔ تو وہ بھی ایسی مشکل بات نہیں۔ شروع میں اگر پانچ ہندو مارے گئے ہیں تو افسانہ ختم ہوتے ہوتے پانچ مسلمانوں کا حساب بھی پورا ہو جانا چاہئے۔ ترازو کی تول دونوں طرف برابر کرنے کے لئے قصور برابر برابر کر دیجئے۔ رمز اصل میں یہ ہے کہ آپ اپنی انسانیت پرستی، نیک دلی، بے تعصبی اور امن پسندی ثابت کر دیں اور کسی کو بات بری بھی نہ لگے۔

    اگر کوئی آدمی ہوا میں تنی ہوئی رسی پر چلنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو داد تو ہمیں اس کو بھی دینی چاہئے۔ آخر اپنے شریفانہ جذبات کو منظرعام پر لانا اور اس طرح دوسروں کے شریفانہ جذبات کو مشتعل کرنا بھی تو انسانیت کی ایک خدمت ہے۔ البتہ شریفانہ جذبات میں تھوڑی سی کسر یہ ہے کہ ان کے ذریعے ادب کی تخلیق نہیں ہو سکتی۔ میں یہ بات کوئی خیالی اور غیرممکن العمل معیار سامنے رکھ کر نہیں کہہ رہا ہوں۔ فسادات والا ادب لکھنے والے افسانہ نگار سب سے پہلا دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم سچ بولیں گے۔ مگر ساتھ ہی انہیں یہ بھی فکر ہوتی ہے کہ نہ ہندو ناراض ہوں نہ مسلمان۔ غیر جانبداری کے معنی یہ لئے جاتے ہیں کہ ایک جماعت کو دوسری جماعت سے زیادہ قصوروار نہ ٹھہرایا جائے۔ یہ ادب ظلم، سنگ دلی اور بہیمیت کو مطعون کرنا چاہتا ہے۔ مگر ظلم کو ظلم کہنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس ذمہ داری سے بچنا چاہتا ہے۔ ادب سے ہم اس قسم کے سچ جھوٹ کا مطالبہ نہیں کرتے جو ہم تاریخ یا معاشیات یا سیاسیات کی کتابوں سے کرتے ہیں۔

    ادیب سے ہم کسی نظریے یا خارجی دنیا کے بارے میں سچ بولنے کا اتنا مطالبہ نہیں کرتے جتنا اپنے بارے میں سچ بولنے کا، فسادات پر لکھنے والے چاہےدنیا بھر کے بارے میں سچ بولتے ہوں، لیکن اپنے بارے میں نہیں بولتے۔ ان کی سب سے بڑ ی کاوش یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنے فطری میلانات اور تعصبات کو چھپائے رکھیں، حالانکہ اتنی زبردست شورش کے زمانہ میں ایسے تعصبات کا ابھر آنا حیاتیاتی ضرورت ہے۔ اگر یہ لوگ اپنے افسانوں میں واقعی کوئی انسانی معنویت پیدا کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے انہیں اپنی انسانی کمزوری کا اعتراف کرنا ہوگا۔ اپنے اندر جو سچ جھوٹ بھرا ہوا ہے اس سے چشم پوشی کر کے سچا ادب پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ مقبول عام ادب پیدا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ پڑھنے والے بھی تو اپنے آپ کو یہی یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہمارے شریفانہ جذبات مرے نہیں۔

    در اصل ادب کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ کون ظلم کرتا ہے کون نہیں کرتا۔ ظلم ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا۔ ادب تو یہ دیکھتا ہے کہ ظلم کرتے ہوئے اور ظلم سہتے ہوئے انسانوں کا خارجی اور داخلی رویہ کیا ہوتا ہے۔ جہاں تک ادب کا تعلق ہے ظلم کا خارجی عمل اور اس کے خارجی لوازمات بے معنی چیزیں ہیں۔ ہمار ے افسانہ نگار ظلم کے صرف معاشری پہلو کو دیکھتے ہیں۔ ظالم اور مظلوم کی اندرونی زندگی سے ظلم کو کیا تعلق ہے، اس سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔ ہمارے افسانہ نگار تلواریں اور بندوقیں تو بیسیوں دکھاتے ہیں، کاش ان تلواروں اور بندوقوں کے پیچھے جیتے جاگتے ہاتھ اور سامنے جیتے جاگتے سینے بھی ہوتے۔۔۔ میں یہ نہیں کہتا کہ فسادات پر لکھنے والے سرے سے بے خلوص ہیں۔ ان میں سے بعض لوگ واقعی نیک دل اور نیک نیت ہیں۔ مگر ادب میں عام زندگی والا خلوص کام نہیں دیتا۔ یہ لو گ اس مقصد سے افسانے لکھتے ہیں کہ ظلم کا خارجی عمل دکھا کر ظلم کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا کریں۔ لیکن جب تک ہمیں کسی فعل کا انسانی پس منظر معلوم نہ ہو، محض خارجی عمل کا نظارہ ہمارے اندر کوئی دیرپا، ٹھوس اور گہری معنویت رکھنے والا رد عمل پیدا نہیں کر سکتا۔ ہم انسانوں سے تو نفرت اور محبت کر سکتے ہیں ظالموں اور مظلوموں سے نہیں۔

    فسادات پر لکھنے والے افسانہ نگاروں نے ظلم سے نفرت دلانے کے لئے اکثر یہ طریقہ کار استعمال کیا ہے کہ ظلم ہوتا ہوا دیکھ کر پڑھنےوالوں کے دلوں میں دہشت پیدا کی جائے۔ مگر یہ سارے واقعات اتنے تازہ ہیں، لوگ اپنی آنکھوں سے اتنا کچھ دیکھ چکے ہیں یا اپنے قریبی دوستوں سے اتنا کچھ سن چکے ہیں کہ محض ظلموں کی فہرست اب ان کے اوپر کوئی اثر ہی نہیں کرتی۔ اگر آپ نے اپنے افسانے میں دوچار عورتوں کی بے حرمتی یا بچوں کا قتل دکھا دیا تو اس سے لوگوں کے اعصاب پر کوئی رد عمل ہوتا ہی نہیں۔ یہ زمانہ ہی ایسا غیر معمولی ہے۔ ظلم آج کل بے اتنہا معمولی چیز بن گئے ہیں۔ غیر معمولی باتیں اب لوگوں کو چونکاتی ہی نہیں۔ اس قسم کے ذکر سے ان کا تجسس تک بیدار نہیں ہوتا۔ اخلاقی حس تو دور کی چیز ہے، فسادات والے افسانے ادب نہیں تھے تو نہ ہوتے، مگر وہ تو اپنا سماجی مقصد بھی ٹھیک طرح ادا نہیں کر سکتے۔ کیونکہ جو باتیں افسانے پیش کرتے ہیں وہ تو اب خبریں بھی نہیں رہیں۔

    منٹو نے بھی فسادات کے متعلق کچھ لکھا ہے۔ لطیفے یا چھوٹے چھوٹے افسانے جمع کئے ہیں۔ در اصل میں نے بڑا غلط فقرہ استعمال کیا ہے۔ یہ افسانے فسادات کے متعلق نہیں ہیں، بلکہ انسانوں کے بارے میں ہیں۔ منٹو کے افسانوں میں آپ انسانوں کو مختلف شکلوں میں دیکھتے رہے ہیں۔ انسان بحیثیت طوائف کے، انسان بحیثیت تماش بین کے وغیرہ۔ ان افسانوں میں بھی آپ انسان ہی دیکھیں گے، فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں انسان کو ظالم یا مظلوم کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے اور فسادات کے مخصوص حالات میں سماجی مقصد کا تو منٹو نے جھگڑا ہی نہیں پالا۔ اگر تلقین سے آدمی سدھر جایا کرتے تو مسٹر گاندھی کی جان ہی کیوں جاتی۔ منٹو کو افسانوں کے سماجی اثرات کے بارے میں نہ زیادہ غلط فہمیاں ہیں، نہ انہوں نے ایسی ذمہ داری اپنے سر لی ہے جو ادب پوری کر ہی نہیں سکتا۔ سچ پوچھیئے تو منٹو نے ظلم پربھی کوئی خاص زور نہیں دیا۔ انہوں نے چند واقعات تو ضرور ہوتے دکھائے ہیں مگر یہ کہیں نہیں ظاہر ہونے دیا کہ یہ واقعات یا افعال بنفسہ اچھے ہیں یا برے۔ نہ انہوں نے ظالموں پر لعنت بھیجی ہے نہ مظلوموں پر آنسو بہائے ہیں۔ انہوں نے تو یہ تک فیصلہ نہیں کیا کہ ظالم لوگ برے ہیں یا مظلوم اچھے ہیں۔

    بر اعظم ہندوستان کے یہ فسادات ایسی پیچیدہ چیز ہیں، اور صدیوں کی تاریخ سے، صدیوں آگے کے مستقبل سے اس بری طرح الجھے ہوئے ہیں کہ ان کے متعلق یوں آسانی سے اچھے برے کا فتوی نہیں دیا جا سکتا۔ کم سے کم ایک معقول ادیب کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ایسے ہوش اڑا دینے والے واقعات کے متعلق سیاسی لوگوں کی سطح پر اتر کے فیصلے کرنے لگے۔ منٹو نے اپنے افسانوں میں وہی کیا ہے جو ایک ایماندار (سیاسی معنوں میں ایماندار نہیں بلکہ ادیب کی حیثیت سے ایماندار) اور حقیقی ادیب کو ان حالات میں اور ایسے واقعات کے اتنے تھوڑے عرصے بعد لکھتے ہوئے کرنا چاہئے تھا۔ انہوں نے نیک و بد کے سوال ہی کو خارج از بحث قرار دے دیا ہے۔ ان کا نقطہ نظر نہ سیاسی ہے، نہ عمرانی، نہ اخلاقی، بلکہ ادبی اور تخلیقی۔

    منٹو نے تو صرف یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ ظالم یا مظلوم کی شخصیت کے مختلف تقاضوں سے ظالمانہ فعل کا کیا تعلق ہے، ظلم کرنے کی خواہش کے علاوہ ظالم کے اندر اور کون کون سے میلانات کار فرما ہیں، انسانی دماغ میں ظلم کتنی جگہ گھیرتا ہے، زندگی کی دوسری دلچسپیاں باقی رہتی ہیں یا نہیں۔ منٹو نے نہ تو رحم کے جذبات بھڑکائے ہیں نہ غصے کے، نہ نفرت کے۔ وہ تو آپ کو صرف انسانی دماغ، انسانی کردار اور شخصیت پر ادبی اور تخلیقی انداز سے غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اگر وہ کوئی جذبہ پیدا کرنے کی فکر میں ہیں تو صرف وہی جذبہ جو ایک فنکار کو جائز طور پر پیدا کرنا چاہئے۔ یعنی زندگی کے متعلق بے پایاں تحیر اور استعجاب۔ فسادات کے متعلق جتنا بھی لکھا گیا ہے اس میں اگر کوئی چیز انسانی دستاویز کہلانے کی مستحق ہے تو یہ افسانے ہیں۔

    چونکہ منٹو کے افسانے سچی ادبی تخلیقات ہیں اس لئے یہ افسانے ہمیں اخلاقی طور پر بھی چونکاتے ہیں، حالانکہ منٹو کا بنیادی مقصد یہ نہیں تھا بلکہ صرف تخلیق۔ غیر معمولی حالات میں اگر کوئی خبر ہمیں چونکا سکتی ہے تو غیرمعمولی واقعات یا افعال نہیں بلکہ بالکل معمولی اور روز مرہ کی سی باتیں۔ اگر کوئی آدمی دو سو بچوں اور عورتوں کو قتل کرنے کے بعد ان کی کھوپڑیوں کا ہارگلے میں پہن لیتا ہے تو یہ کوئی غیر متوقع بات نہیں۔، جب قتل ایک عام مشغلہ بن چکا ہو تو اس میں کوئی خوف کی بات بھی باقی نہیں رہ جاتی۔ لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ قاتلوں کویہ فکر ہو رہی ہے کہ خون سے ریل کا ڈبہ گندا ہو جائے گا تو ہم ضرور ایک طرح کی بے چینی محسوس کرتے ہیں۔ قاتلوں کا قتل کئے چلے جانا دہشت انگیز چیز نہیں ہے، دہشت تو اس خیال سے ہوتی ہے کہ جن لوگوں میں صفائی اور گندگی کی تمیزباقی ہے وہ بھی قتل کر سکتے ہیں۔ آخر معنویت تو تقابل اور تضاد ہی سے پیدا ہوتی ہے۔

    غیر معمولی حالات میں غیر معمولی حرکتیں ہمیں انسان کے متعلق زیادہ سے زیادہ یہ بتا سکتی ہیں کہ حالات انسان کو جانور کی سطح پر لے آتے ہیں۔ لیکن غیر معمولی حالات میں غیر معمولی حرکتیں کرتے ہوئے معمولی باتوں کی طرف توجہ ہمیں انسان کے متعلق ایک زیادہ گہری اور زیادہ بنیادی بات بتاتی ہے، وہ یہ کہ انسان ہر وقت اور بیک وقت انسان بھی ہوتا ہے اور حیوان بھی۔ اس میں خوف کا پہلو یہ ہے کہ انسانیت کے احساس کے باوجود انسان حیوان بننا کیسے گوارا کر لیتا ہے اور تسکین کا پہلو یہ ہے کہ وحشی سے وحشی بن جانے کے بعد بھی انسان اپنی انسانیت سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔ منٹو کے ان افسانوں میں یہ دونوں پہلو موجود ہیں۔ خوف بھی اور دلاسا بھی۔ ان لطیفوں میں انسان اپنی بنیادی بیچارگیوں، حماقتوں، نفاستوں اور پاکیزگیوں سمیت نظر آتا ہے۔

    منٹو کے قہقہے میں بڑا زہر ہے، مگر یہ قہقہہ ہمیں تسلی بھی بہت دلاتا ہے۔ غیر معمولی حالات میں یہ کہنا کہ انسان کی معمولی دلچسپیاں اور معمولی میلانات کسی کے دبائے نہیں دب سکتے، بڑی بات ہے۔ منٹو نے انسان کو نہ ظالم بتلایا ہے نہ مظلوم، بلکہ بس اتنا اشارہ کر کے چپ ہو گیا ہے کہ انسان میں بہت سی باتیں بالکل ان مل بے جوڑ ہیں۔ اس خیال سے مایوسی بھی بہت پیدا ہوتی ہے۔ مگر ایک طرح سے دیکھئے تو انسانی فطرت کا یہ ان مل بے جوڑ پن ہی حقیقی رجائیت کی بنیاد بن سکتا ہے۔ اگر انسان صرف ایک طرح کا، صرف نیک یا صرف بد ہوتا تو بڑی خطرناک چیز ہوتا۔ انسان کی طرف سے اگر کچھ امید بندھتی ہے تو صرف اس وجہ سے کہ انسان کا کچھ ٹھیک نہیں، اچھا بھی ہو سکتا ہے اور برا بھی ہو سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ انسان اپنی انسانیت کے دائرے میں محبوس ہے۔ نہ تو فرشتہ بن سکتا ہے نہ شیطان۔ وہ کتنا ہی غیر معمولی کیوں نہ بننا چاہے، معمولی زندگی کے تقاضے اسے پھر اپنی حدود میں گھسیٹ لاتے ہیں۔ روز مرہ کی معمولی زندگی ایسی طاقت ور چیز ہے کہ انسان اگر بہت اچھا نہیں بن سکتا تو بہت برا بھی نہیں بن سکتا۔ معمولی زندگی اسے ٹھونک پیٹ کے سیدھا کر ہی لیتی ہے۔

    منٹو کے ان افسانوں کا سب سے بڑا وصف معمولی زندگی کی قوت اور عظمت کا یہی اعتراف ہے۔ دوسرے افسانہ نگار ہندوؤں اور مسلمانوں کو شرم دلا دلا کر انہیں راہ راست پر لانا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کے افسانے ختم کرنے کے بعد ہم یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ ان کا احتجاج کارگر بھی ہوگا یا نہیں۔ منٹو نہ تو کسی کو شرم دلاتا ہے نہ کسی کو راہ راست پر لانا چاہتا ہے۔ وہ تو بڑی طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ انسانوں سے یہ کہتا ہےکہ تم اگر چاہو بھی تو بھٹک کے بہت زیادہ دور نہیں جا سکتے۔ اس اعتبار سے منٹو کو انسانی فطرت پر کہیں زیادہ بھروسہ نظرآتا ہے۔ دوسرے لوگ انسان کو ایک خاص رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ انسان کو قبول کرنے سے پہلے شرائط عائد کرتے ہیں۔ منٹو کو انسان اپنی شکل ہی میں قبول ہے، خواہ وہ کیسی بھی ہو۔ وہ دیکھ چکا ہے کہ انسان کی انسانیت ایسی سخت جان ہے کہ اس کی بربریت بھی اس انسانیت کو ختم نہیں کر سکتی۔ منٹو کو اسی انسانیت پر اعتماد ہے۔

    فسادات کے متعلق جتنے بھی افسانے لکھے گئے ہیں ان میں منٹو کے یہ افسانے اور لطیفے سب سے زیادہ ہولناک اور سب سے زیادہ رجائیت آمیز ہیں۔ منٹو کی دہشت اور رجائیت سیاسی لوگوں یا انسانیت کے نیک دل خادموں کی دہشت اور رجائیت نہیں ہے، بلکہ ایک فنکار کی دہشت اور رجائیت۔ اس کا تعلق بحث و تمحیص یا تفکر سے نہیں ہے بلکہ ٹھوس تخلیقی تجربے سے۔ یہی منٹو کے ان افسانوں کا واحد امتیاز ہے۔

    مأخذ:

    مجموعہ محمد حسن عسکری (Pg. 134)

    • مصنف: محمد حسن عسکری
      • ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور
      • سن اشاعت: 2008

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے