Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مرزا غالب کلیم الدین احمد کی نظر میں

نسیم احمد نسیم

مرزا غالب کلیم الدین احمد کی نظر میں

نسیم احمد نسیم

MORE BYنسیم احمد نسیم

    پروفیسر کلیم الدین احمد کی تنقید نگاری کا باضابطہ آغاز ”گل نغمہ“ کے مقدمے سے ہوا۔ یہ کتاب ان کے والد عظیم الدین احمد کی نظموں کا مجموعہ ہے۔ کلیم الدین نے ان نظموں کو ترتیب دے کرایک مفصل مقدمہ تحریر کیا۔ ”گل نغمہ“ 1939ء میں شائع ہوئی اور ”اردو شاعری پر ایک نظر“ 1940ء کے آغاز میں منظر عام پرآئی۔ مذکورہ مقدمے کے دوحصے تھے۔ پہلا حصہ اردو شاعری کے عمومی جائزے سے متعلق تھا جب کہ دوسرا حصہ عظیم الدین احمد کی مشمولہ نظموں سے تعلق رکھتاتھا۔ عظیم الدین احمد کی نظمیں کلیم الدین احمد کی نظر میں مغربی معیار پر کھری اترتی تھیں۔ ان نظموں میں وہی ربط وتسلسل تھا، وہی اوصاف وخصائص تھے جو کلیم الدین کے مزاج اور معیار کے عین مطابق تھے۔ یہی سبب تھا کہ کلیم الدین نے ان نظموں کو بطور خاص لیا او ران کی خوبیوں کو بڑھاچڑھا کر پیش کیا۔ اس مقدمے کا نتیجہ یہ ہو اکہ انہوں نے اس وقت جو نتائج اخذ کئے تھے ان پر انہیں اخیردم تک قائم رہنا پڑا۔ دراصل یہیں سے نظموں کی برتری اور غزلوں کی بے سروسامانی کی داستان شروع ہوتی ہے۔ کلیم الدین احمد کے مطابق ربط، اتفاق اور تکمیل ہی تہذیب کا سنگ بنیاد ہے۔ اور غزل کا مروجہ مزاج اور فارم اس سے مبر ااور محروم ہے۔ غزل میں ارتقائے خیال نہیں ہوتا اس لئے ان کا موقف ہے کہ اس کے مجموعی تاثر میں شدت کا احساس، ناممکن ہے۔ اس لئے غزل کے ذریعے عالمی سطح کی تخلیق ممکن نہیں ہوسکتی۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ ”ہر شعر مکمل تو ضرور ہوتاہے لیکن غزل میں چند مختلف المعنی اشعار اکٹھا کردئے جاتے ہیں جن سے یہ اثر زائل ہوجاتاہے اور ذہن و ادراک پر کسی تجربہ کی تصویر نقش نہیں ہوتی بلکہ چند بے ربط نقوش مرتسم ہوجاتے ہیں۔ جن سے نہ تہذیب یافتہ دماغ کو لطف، نہ تربیت یافتہ تخیل کو سرورممکن ہے۔ یعنی اعلیٰ شعر مفرد بھی کسی اچھی نظم کا مرتبہ حاصل نہیں کرسکتا۔“ اس طرح ان کے مطابق غزل کی حیثیت صرف ایک نیم وحشی صنف سخن کی ہے۔

    کلیم الدین احمد کے رفیق اور انگریزی ادب کے دانش ور پروفیسر فضل الرحمن نے کلیم الدین احمد کے اس نظرے ے کی بابت اظہا رخیال کرتے ہوئے لکھاہے کہ ”کلیم کامعیار خود ساختہ نہیں، اپنا بنایا ہوا نہیں، بلکہ یہ معیار عالمی معیار ہے۔ اور تمام متمدن دنیا میں مانے جاتے ہیں یعنی وہ کلیم الدین کو معیار ساز تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن اس بات کا اعتراف وہ ضرور کرتے ہیں کہ اردو تنقید کی تاریخ میں اس عالمی معیار کے اطلاق کی راہ ان ہی کی بدولت ہموار ہوئی اور جو اعتراضات کے پہلو تھے ان پر اعتراضات بھی ہوئے۔ کلیم الدین احمد کے ذریعے ا چانک غزل جیسی مقبول ترین صنف کو نیم وحشی کہہ دینا ظاہر ہے بہت ہی ہنگامہ خیز رہا۔ نیم وحشی والا فقرہ خوب چلا اور آج بھی چلتاہے۔ اعتراضات کے ضمن میں یہاں صرف فضیل جعفری کی توضیحات کوپیش کیاجاتاہے۔ وہ بھی فضل الرحمن کی طرح ان کے مفروضات کو خود ساختہ تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ جعفری صاحب کے مطابق ”غزل کے سلسلے میں کلم الدین احمد کے یہاں یقینا ایک طر ح کا Persecution Maniaنظر آتا ہے۔ وہ خود ساختہ اصولوں اور نظریات کو ثابت کرنے کے لے ے غلط منطق کا سہار الیتے ہیں۔ جارج سنتائنا کے مضمون سے انہوں نے نیم وحشی صنف سخن کولیا ہے۔ انہوں نے باربار غزل کاBrowning کے مونو لاگ سے تقابل کرکے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ سنتائنا نے براﺅننگ کی اس ہیئت Form) ) میں کہی گئی نظموں کو نیم وحشی کہا ہے۔ نیز یہ کہ کلیم الدین غزل کو مشرق کی ایک آزاد، خود مختار اور خود کفیل صنف سمجھنے کے بجائے صرف اپنے مفروضات پر اصرار کرتے ہیں۔

    (کمان اور زخم، فضیل جعفری۔ جنوری 2008۔ این سی پی یوایل، نئی دہلی)

    بہرحال کلیم الدین احمد نے اپنے مزاج اور اپنے طے شدہ معیار کے مطابق جن شعرا پر خاص اور پینی نگاہ ڈالی ہے ان میں غالب کا نام خاصا اہم ہے۔ چونکہ غالب خالصتاً غزل کاشاعر ہے اس لے ے اسے کلیم الدین احمد کا خصوصی موضوع بننا ہی تھا۔ اردو شاعری پر ایک نظر حصہ اول میں میر، سودا، ذوق اور مومن کے ساتھ غالب کی غزلیہ شاعری پر ان کی دوٹوک اوردھار دار آرا ملتی ہیں۔ وہ غالب کے یہاں تازگی، شگفتگی اور ندرت خیال کے معترف تو ہیں لیکن صرف اس مقام پر جب وہ قطعہ بند اشعار کہہ رہے ہوتے ہیں، لیکن یہاں بھی انہیں ایک کسر نظر آتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ مربوط غزل کہتے یا غزل کے چند شعروں میں بہ اعتبار معنی ربط ومطابقت پید اکرنے کی کوشش کرتے۔ مثال کے طو رپر وہ ایک غزل نقل کرتے ہیں،

    لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دن اور

    تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور

    آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ جاﺅں

    مانا کہ ہمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور

    جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے

    کیا خوب قیامت کاہے گویا کوئی دن اور

    ہاں اے فلک پیر جواں تھا ابھی عارف

    کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور

    ظاہر ہے یہ غزل عارف کا مرثیہ ہے۔ اس لے ے جزوی طو رپر ہی سہی ربط اور تسلسل کا عنصر در آیاہے۔ کلیم الدین احمد اس ربط پر اطمینان کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن اس میں بھی وہ کہانی کی طرح آغاز، ارتقا اور انجام پر اصرار کرتے ہیں۔ گویا وہ ایک طرح سے غزل کے اجزائے ترکیبی طے کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مذکورہ غزل کے کئی اشعار کی نئی ترتیب بناتے ہیں۔ وہ اس غزل کے دوسرے اور تیسرے شعر یعنی،

    آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہوکہ جاﺅں

    اور

    جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے ۔۔ کو غزل کے مطلع یعنی،

    لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دن اور

    تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور۔۔۔ سے پہلے دے کھنا چاہتے ہیں۔ ان کا سیدھا ساسوال ہے کہ تخاطب عارف ہے یا ’’فلک پیر؟‘‘ جواب میں خود ہی فرماتے ہیں کہ یہی تو غزل کا انتشار اور ریزہ خیالی ہے۔ اور اسی سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ،

    ”اردو شاعر غزل گوئی کے اس قدر خوگر ہوگئے کہ اس کی بے ربطی اور پراگندگی ان کی فطرت ثانی بن گئی۔ یہاں تک کہ اس کا اظہار ربط و موافقت کے ساتھ نہیں کرتے تھے۔ اور جب ذاتی جذبہ نہیں، فرضی خیال ہو تو پھر ربط و موافقت معلوم!“

    (اردو شاعر ی پر ایک نظر حصہ اول۔ کلیم الدین احمد)

    درج بالا اقتباس سے کلیم الدین احمد کے موقف اور نظرے ے کی عملی طو رپر بھی وضاحت ہوجاتی ہے۔ وہ غالب کے آرٹ کے قائل ہیں اسے بڑا شاعربھی تسلیم کرتے ہیں لیکن نظموں والی ترتیب کی غیر موجودگی میں غالب کے نمایاں اوصاف بھی بالآخر انہیں عیوب معلوم ہوتے ہیں۔ اہل علم واقف ہیں کہ اردو میں غزل کی روایت عربی اور فارسی سے آئی ہے۔ اس صنف میں متقدمین، متوسطین اور معاصرین میں قادرالکلام اور عظیم المرتبت شاعروں کی اچھی خاصی تعداد موجو دہے۔ ان شعرا نے کلیم الدین والے اسی انتشار اور بے ربطی کے ساتھ اردو شاعری اور بالخصوص غزل کو بام عروج پر پہنچایا۔ میری ناقص رائے میں ترتیب اور ربط وتسلسل کے لے ے نظم، مثنوی اور مراثی وغیرہ تو موجو دہی ہیں، پھر غزل میں بھی انہی اجزا کے التزام کا مناسب جواز کیا ہے؟ غزل کا اصل اختصاص ہی یہ ہے کہ اس کاہر شعر ایک نئے ذائقے اور نئے احساس سے آشنا کرائے۔ یہی غزل کی بنیادی شناخت بھی ہے۔ لیکن کلیم الدین احمد غزل کی اس شناخت کو ہی اس کی ناکامی کا اصلی سبب تصور کرتے ہیں۔ وہ اپنے مضمون میں غالب کے یہاں انتشار کی نشاندہی کرنے کے بعد اس کے اسلوب اور مضمون میں بھی ناہمواری کا سر اغ لگاتے ہیں۔ وہ غالب کے فارسی آمیز اشعار کومبہم، ادق کہتے ہیں اور اس کی جگہ،

    ابن مریم ہوا کرے کوئی

    میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

    جیسے اکہرے، عام اور سادہ سے شعر میں ترنم، پرکاری اور دل پذیری کے عناصر تلاش کرتے ہیں۔ جبکہ غالب کے عمدہ مضامین کو وہ ناہموار ثابت کرتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ فرماتے ہیں کہ،

    ”وہ ( غالب) اعلیٰ فلسفیانہ خیالات کو حلقہ شعر میں کھینچ لاتے ہیں تو کہیں وقیع صوفیانہ تصورات کو پرجوش و پراثر طریقے سے بیان کرتے ہیں۔ کہیں گہرے اور نفیس کوائف کی ترجمانی کرتے ہیں تو کہیں مشاہدہ عالم کاتازہ اور شگفتہ نقشہ کھینچتے ہیں۔ لیکن اس بوقلمونی کے ساتھ وہ پرانے اور فرسودہ خیالات، مروجہ عشقیہ جذبات کو عامیانہ اور رکیک طور پر بھی نظم کرتے ہیں۔ اس ناہمواری کی وجہ سے طبیعت مکدر ہوجاتی ہے۔“

    (اردو شاعری پر ایک نظر۔ حصہ اول۔ کلیم الدین احمد)

    ان کے اس ذاتی تکدر سے کتنی طبیعتیں مکدر ہوجاتی ہیں، وہ اس کی مطلق پروا نہیں کرتے۔ انہیں غالب کی دوسری خامیوں میں صلاحیت کی کمی، مغربی شاعری سے ناواقفیت، قطعات اور غزل مسلسل میں جدت اور ارتباط کا فقدان، نظم وضبط کی کمی اور کئی دوسری چیزیں نظر آتی ہیں۔ رسالہ ”معاصر“ (پٹنہ) جنوری 1942ء اور شمارہ۔ 1981ء میں وہ غالب اور اقبال کا موازنہ ملٹن اور ورڈز ورتھ سے کرتے ہیں۔ ان کا قول ہے کہ فارسی کی تقلید نے اردو شاعری کو غیر فطری بنادیا۔ اس لے ے یہ عالمی معیار کو نہیں پہنچ سکی۔ آگے چل کر وہ نظم کی حمایت میں نظیر اکبرآبادی کو بطور مثال سامنے رکھتے ہیں اوراس کی اہمیت اور حقیقت کا بالتفصیل تعین کرتے ہیں۔ وہ بیشتر غزل گویوں کے ساتھ ساتھ بالخصوص غالب کو نظیر کے مقابلے کم تر ثابت کرتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ گزشتہ سطور میں عرض کیاگیا کہ وہ بہر حال غالب کو ایک بڑا آرٹسٹ تسلیم کرتے ہیں۔ ان کا مضمون ’غالب کا آرٹ‘ معاصر، پٹنہ کے فروری 1945ء کے شمارے میں شائع ہواتھا۔ اس میں انہوں نے غالب کے یہاں صرف خیالات میں گہرائی کا ہی نہیں بلکہ وسعت اور ہمہ گیری کا بھی اعتراف کیا ہے۔ ایک مقام پر وہ غالب کے یہاں خلاف توقع دو مصرعوں میں جہان معنی کی تلاش بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اور اس کے یہاں نظمیت کا وصف بھی انہیں دکھائی دینے لگتا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔ ساتھ ہی ساتھ تضاد بھی دیکھیں،

    ”ہر کام کا آسان ہونا دشوار ہے۔ اس طرح ایک شعر کا نظم بن جانا دشوارہی نہیں ناممکن سا ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ آدمی کو انسان ہونا میسر ہویا نہ ہو غالب کے اشعار کو نظمیت میسر ہے۔“

    (اردو شاعری پر ایک نظر۔ حصہ اول۔ کلیم الدین احمد)

    غرض یہ کہ کلیم الدین احمد کے درج بالا سطو رسے بہ آسانی یہ اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ وہ غزل کی بے سروسامانی اور غالب کے یہاں انتشار و بے ربطی کی کیفیت اور اسلوب و مضامین کی ناہمواری کے علاوہ اوربھی کئی خامیاں، قطعیت کے ساتھ شمار کراتے ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ انہی خامیوں کو آگے چل کر بانداز دگر خوبیاں بھی بنادے تے ہیں۔ تنقید کی یہ کرشمہ سازی قابل غور ہے۔ ان کے یہاں تضادات کی کیفیت متعدد مقامات پر موجود ہے۔ ان کا خاص میدان قدیم شاعری، تذکرے اور اولین دور کی تنقیدی نگارشات ہیں۔ وہ اکثر وبیشتر پہلے شعرا اور نقادوں کو شدومد کے ساتھ رد کرتے ہیں لیکن تھوڑی دورہی جانے کے بعد پچھلی تمام باتیں بھول جاتے ہیں۔ اور خود کو رد کرتے ہوئے شعرا کے درمیان موازنے کی صورت پید اکرتے ہیں۔ اور انہی مطعون شعرا اور نقادوں کے یہاں بڑی بڑی خوبیاں دریافت کرلیتے ہیں۔ ان کے متذکرہ مضمون کے غائر مطالعے سے اندازہ ہوتاہے کہ غالب کے سلسلے میں بھی شایدا نہوں نے یہی ترکیب اپنائی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے