Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مختصر افسانہ

پریم چند

مختصر افسانہ

پریم چند

MORE BYپریم چند

    افسانہ حکایت یا مختصر کہانی لکھنے کی روایت قدیم زمانہ سے چلی آتی ہے۔ مذہبی کتابوں میں جو تمثیلی حکایتیں بھری پڑی ہیں وہ مختصر کہانیاںہی ہیں لیکن کتنے اعلیٰ پایہ کی۔ مہابھارت، اپنیشد بدھ جاتک، بائبل سبھی مقدس کتابوں میں عوامی تعلیم کا یہی وسیلہ مفید اور موثر سمجھا گیا ہے۔ علم اور کام کی باتیں اتنی سہولت سے اور کیوں کر سمجھائی جاتیں؟ لیکن اس دور کے رشی ان حکایتوں کے ذریعہ روحانی اور اخلاقی مقاصد کی وضاحت کرتے تھے۔ ان کی غایت محض دل بہلاوا نہیں تھی۔ دھرم گرنتھوں کے روپک اور بائبل کے دیکھ کر یہی کہنا پڑتا ہے کہ اگلے جو کچھ کر گئے وہ ہماری طاقت سے باہر ہے۔ کتنا پاکیزہ تخیل، کیسی نفسیاتی بصیرت اور کیسا دل نشین طرز تحریر ہے کہ اسے دیکھ کر موجودہ دور کے ادیبوں کی عقل چکرا جاتی ہے۔ آج کل افسانہ کا مفہوم بہت وسیع ہو گیا ہے۔ اس میں عشق و محبت کی کہانیاں، جاسوسی قصے، فوق الفطرت واقعے، عجیب و غریب حادثے، سائنس کی باتیں، یہاں تک کہ دوستوں کی گپ شپ بھی شامل کردی جاتی ہے۔ ایک انگریزی نقاد کی رائے کے مطابق تو کوئی تحریر جو پندرہ منٹ میں پڑھی جا سکے۔ مختصر افسانہ کہی جا سکتی ہے اور تو اور اس کی اصل غایت اتنی غیر واضح ہو گئی ہے کہ اب اس میں کسی خاص مقصد کا وجود حامی تصور کیا جانے لگا ہے۔ وہ کہانی سب سے ناقص سمجھی جاتی ہے جس میں مقصد کا سایہ بھی نظر آئے۔

    افسانوں کے ذریعہ اخلاقی پیغام دینے کی روایت نہ صرف مذہبی کتابوں میں بلکہ ادبی تصانیف میں بھی موجود تھی۔ کتھا سرت ساگر، اس کی مثال ہے۔ اس کے بعد بہت سی مختلف کہانیوں کو ایک سلسلہ میں مربوط کرنے کا رجحان پیدا ہوا۔ ’’بیتال پچیسی‘‘ اور ’’سنگھاسن بتیسی‘‘ اسی انداز کی کتابیں ہیں ان میں کتنے اخلاقی اور روحانی مسائل حل ہوگئے ہیں۔ یہ ان لوگوں سے چھپا نہیں ہے، جنہوں نے ان کا مطالعہ کیا ہے۔ عربی میں قصہ الف لیلیٰ اسی قسم کے عجیب و غریب افسانوں کا مجموعہ ہے۔ اگرچہ اس میں کسی نوع کا پیغام یا سبق دینے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ اس میں سبھی قسم کے جذبات کی تسکین کا سامان ہے۔ لیکن تحیر کا جذبہ غالب ہے اور اس میں کسی اپدیش کی گنجائش نہیں رہتی۔ اسی نمونے کو لے کر ہمارے ملک میں ’شوک بہتری‘ کے ڈھنگ کے افسانے لکھے گئے ہیں۔ جن میں عورت کی بے وفائی کا راگ الاپا گیا ہے۔ یونان میں حکیم ایسپ نے ایک نیا ہی ڈھنگ نکالا۔ اس نے جانوروں اورپرندوں کی کہانیوں کے ذریعہ اپدیش دینے کی جدت کی۔

    عہد وسطیٰ شاعری اور ڈرامہ نگاری کا دور تھا۔ اس زمانے میں قصہ کہانی کی طرف بہت توجہ دی گئی۔ کہیں تو بھکتی (معرفت) کی شاعری غالب رہی کہیں بادشاہوں کے قصائد کی۔ ہاں شیخ سعدیؔ نے فارسی میں گلستاں بوستاں لکھ کر افسانہ کی لاج رکھ لی۔ یہ پیغام اتنا دل آویز اور دل نشین ہے کہ آنے والے زمانوں میں بھی لوگوں کے دل اس کی خوشبو سے مست و بے خود ہوتے رہیں گے۔

    انیسویں صدی میں ادیبوں نے پھر افسانہ کی طرف توجہ کی اور اسی وقت سے معیاری ادب میں اس کی امتیازی اہمیت ظاہر ہوئی۔ یورپ کی تمام زبانوں میں کہانیاں مقبول و مروج ہیں لیکن میرے خیال میں فرانس اور روس کے ادب میں جیسی اعلیٰ پایہ کی کہانیاں ملتی ہیں۔ یورپ کی دوسری زبانوں میں نہیں ملتیں۔ انگریزی میں ڈکنس، ویلس، ہارڈی، کپلنگ شارکٹ، برانٹی وغیرہ نے کہانیاں لکھی ہیں۔ لیکن ان کی تخلیقات موپساں، بالزاک یا پیرؔلوتی کی ٹکر کی نہیں۔ فرانسیسی کہانیوں میں سادگی اور روانی بدرجہ اتم ہوتی ہے۔ اس کے ماسوا موپساںؔ اور بالزاک نے افسانہ کے آدرش کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا ہے۔ ان میں نفسیاتی یا سماجی گتھیاں سلجھائی گئی ہیں۔ روس میں سب سے اعلیٰ درجہ کی کہانیاں کاونٹ ٹالسٹائی کی ہیں۔ ان میں کئی توایسی ہیں جن کو قدیم زمانے کے تمثیلی قصوں کے ہم مرتبہ کہا جاسکتا ہے۔ چیخوفؔ نے بہت سی کہانیاں لکھی ہیں اور یورپ میں وہ بہت مقبول بھی ہوئیں لیکن ان میں روس کے نفسانیت پسند معاشرہ کی زندگی کی مصوری کے سوا اورکوئی خصوصیت نہیں۔ دوستوں نے بھی ناولوں کے علاوہ کہانیاں لکھی ہیں لیکن ان میں نفسیاتی کمزوریاں دکھانے کی ہی کوشش کی گئی ہے۔ ہندوستان میں نکم چندر اور ڈاکٹر رابندر ناتھ نے کہانیاں لکھی ہیں اور ان میں سے بعض اعلیٰ معیار کی حامل ہیں۔

    سوال یہ ہوسکتا ہے کہ افسانہ اور ناول میں اختصار اور وسعت کے علاوہ بھی کوئی فرق ہے؟ ہاں ہے اور بہت بڑا فرق ہے۔ ناول واقعات، کرداروں اور تصویروں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ افسانہ صرف ایک واقعہ ہے۔ دوسری تمام باتیں اسی ایک واقعہ کے زیر اثر ہوتی ہیں۔ اس اعتبار سے اس کا موازنہ ڈرامہ سے کیا جاسکتا ہے۔ ناول میں آپ خواہ کتنے ہی واقعات لائیں، کتنے ہی مناظر کھینچیں اور کتنے ہی کرداروں کی مصوری کریں لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ سب واقعات اورکردار کسی ایک نقطہ پر مل جائیں ان میں کتنے ہی کردار توصرف جذبات اوراحساسات نمایاں کرنے کے لئے ہی رہتے ہیں۔ لیکن افسانہ میں اس اجتماع کی گنجائش نہیں بلکہ بعض ماہرین فن کی رائے تو یہ ہے کہ اس میں صرف ایک ہی واقعہ یا کردار کا بیان ہونا چاہئے۔ ناول میں آپ کے قلم میں جتنی طاقت ہو اتنا زور دکھایئے۔ سیاست سے بحث کیجئے۔ کسی محفل کے بیان میں دس بیس صفحے لکھ جایئے۔ کوئی گرفت نہیں (زبان عام فہم ہونا چاہئے) افسانہ میں آپ محفل کے سامنے سے گزر جائیں گے۔ اور بہت بے چین ہونے پر بھی آپ اس کی طرف نگاہ نہیں اٹھا سکتے۔ وہاں تو ایک لفظ اور ایک فقرہ بھی ایسا نہیں ہونا چاہئے جو افسانہ کے مقصد کو واضح نہ کرتا ہو۔ اس کے علاوہ کہانی کی زبان بھی بہت ہی سہل اور فہم ہونا چاہئے۔

    ناول وہ لوگ پڑھتے ہیں جن کے پاس روپیہ ہے اور فرصت و فراغت بھی ان ہی کے پاس ہوتی ہے۔ افسانہ عام انسانوں کے لئے لکھا جاتا ہے جن کے پاس نہ دولت ہے اور نہ وقت اور نہ فرصت۔ یہاں تو اختصار ہی انتہائے کمال ہے۔ مختصر افسانہ دھرپد کی وہ تان ہے جس میں فنکار محفل شروع ہوتے ہی اپنی تمام صلاحتیں دکھا دیتا ہے۔ ذرا سی دیر میں دل کو ایسے لطیف انداز سے اور اتنا مسحور کر دیتا ہے کہ جتنا رات بھر گانا سننے سے بھی نہیں ہو سکتا۔

    ہم جب کسی اجنبی سے ملتے ہیں تو فطری طور پر یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کون ہے؟ پہلے اس سے متعارف ہونا ضروری سمجھتے ہیں لیکن آج کل کہانی نئے نئے طریقوں سے شروع کی جاتی ہے۔ کہیں دو دوستوں کی باہمی گفتگو سے کہانی کا آغاز ہوتا ہے اور کہیں پولیس رپورٹ کے ایک ورق سے تعارف بعد میں ہوتا ہے۔ یہ انگریزی افسانہ نگاری کی نقل ہے۔ اس سے کہانی غیرضروری طور پر پیچیدہ اور مشکل ہو جاتی ہے۔ یورپ کی دیکھا دیکھی خطوں، ڈائریوں یا ذاتی یادداشتوں کے ذریعہ بھی کہانیاں لکھی جاتی ہیں۔ میں نے خود بھی ان تمام طریقوں سے افسانے لکھے ہیں۔ لیکن درحقیقت ان سے کہانی کی روانی میں رکاوٹ ہوتی ہے۔ یورپ کے بعض عالم نقاد کہانی میں کسی انجام کی ضرورت بھی نہیں سمجھتے۔ اس کا سبب یہی ہے کہ وہ لوگ کہانیاں صرف وقت گزاری اور تفنن کے لئے ہی پڑھتے ہیں۔ آپ کو ایک دوشیزہ لندن کے کسی ہوٹل میں مل جاتی ہے، اس کے ساتھ اس کی ضعیف ماں بھی ہے۔ ماں لڑکی سے کسی خاص شخص کے ساتھ شادی کرنے کے لئے اصرار کرتی ہے۔ لڑکی نے پہلے ہی اپنے لئے دوسرا شوہر منتخب کر لیا ہے۔ ماں بگڑ کر کہتی ہے ’’میں تجھے اپنی دولت نہیں دوںگی‘‘ لڑکی جواب دیتی ہے’’مجھے اس کی پروا نہیں‘‘ آخر میں ماں اپنی لڑکی سے روٹھ کر چلی جاتی ہے۔ لڑکی غمگین و مایوس بیٹھی ہے کہ اتنے میں اس کا اپنا پسندیدہ نوجوان وارد ہوتا ہے۔ دونوں میں گفتگو ہوتی ہے، نوجوان کی محبت سچی ہے۔ وہ دولت کے بغیر ہی شادی کے لئے رضامند ہو جاتا ہے۔ شادی ہوتی ہے کچھ دنوں تک دونوں اطمینان و خوشی سے بسر کرتے ہیں۔ اس کے بعد نوجوان کو دولت کی خواہش کسی دوسری ذی ثروت لڑکی کی تلاش پر اکساتی ہے اس کی بیوی کو اس کی خبر ہو جاتی ہے اور وہ ایک دن گھر سے نکل جاتی ہے۔ بس یہیں کہانی ختم کر دی جاتی ہے کیونکہ حقیقت پسندوں کا قول ہے کہ دنیا میں نیکی اور بدی کا پھل ملتا نظر نہیں آتا بلکہ اکثر برائی کا نتیجہ اچھائی اور بھلائی کا برائی ہوتا ہے۔

    آدرش وادی (مثالیت پسند) کہتا ہے کہ حقیقت کو حقیقت کے رنگ میں دکھانے سے فائدہ ہی کیا۔ وہ تو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہی ہیں۔ کچھ دیر کے لئے تو ہمیں زندگی کے اس ادنیٰ کاروبار سے الگ رہنا چاہئے۔ اس طرح تو ادب کا اصل مقصد ہی فراموش ہو جاتا ہے۔ آدرش وادی ادب کو زندگی کا چربہ نہیں بلکہ چراغ مانتا ہے جس کا کام روشنی پھیلانا ہے۔ ہندوستان کا قدیم سرمایہ ادب آدرش واد (مثالیت) کا ہی آئینہ دار ہے۔ ہمیں بھی آدرش ہی کی تائید اور تحفظ کرنا چاہئے۔ ہاں واقعیت کی (ادب میں) ایسی رنگ آمیزی ہونا چاہئے کہ ہمیں حقیقت اور صداقت سے دور نہ جانا پڑے۔

    مأخذ:

    مضامین پریم چند (Pg. 251)

    • مصنف: پریم چند
      • ناشر: انجمن ترقی اردو، پاکستان
      • سن اشاعت: 1981

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے