Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصحفی اور ان کی شاعری

مجنوں گورکھپوری

مصحفی اور ان کی شاعری

مجنوں گورکھپوری

MORE BYمجنوں گورکھپوری

    اردو شاعری کی تاریخ میں مصحفیؔ کی ذات کئی اعتبار سے اہم اور قابلِ لحاظ ہے اور وہ ایک ایسی حیثیت کے مالک ہیں جس کے اندر ہم کو ایک عجیب تناقص اور ایک غیر معمولی تضاد نطر آتا ہے۔ ان کی شاعری ہمارے اندر ایک تصادم کا احساس پیدا کرتی ہے۔ یہ تصادم مزاج اور ماحول کا تصادم ہے۔ مصحفیؔ تاریخ کی دو بالکل مختلف فصلوں کی درمیانی کڑی ہیں۔ وہ اردو شاعری کے دومختلف مدرسوں کے درمیان ایک رابطہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    ایک طرف تو اس دور کی آخری یادگار ہیں، جو میرؔ، وزیر اور سوداؔ جیسے کاملین سے ممتاز ہے اور جس کی سب سے نمایاں خصوصیت خالص تغزل یعنی داخلیت (Subjectivism) ہے۔ دوسری طرف ان سے اس دور کی ابتدا ہوتی ہے جس کو اردو شاعری کا لکھنوی دور کہتے ہیں۔ یہ دور خارجیت کا دور ہے اور تکلف اور ظاہری سجاوٹ کے لیے مشہور ہے۔ اس دور کی سچی نمائندگی کرنے والے انشاؔ، جرأت اور رنگین ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ جب کہ دلی اجڑ چکی ہے اور سلطنت وامارت کی طرح شعر و شاعری اپنا ڈیرہ خیمہ لے کر لکھنو میں آ بسی ہے۔ مصحفیؔ اسی ’’اجڑے دیار کے رہنے والے تھے۔‘‘ جو ’’پورب کے ساکنوں‘‘ میں آ پڑے تھے۔ دلی کی وضع اور اس کی سچائی اور معصومیت ان کا خمیر ہو چکی تھی۔ ان کے خون میں وہی معصومانہ تغزل، وہی خلوص شعری حرکت کر رہاتھا جو میرؔ اور دردؔ کا ترکہ تھا۔

    لیکن کرتے کیا، زمانے کی ہوا بدل چکی تھی۔ نیا دیس تھا اور نیا بھیس، زمانہ اور ماحول دونوں خلاف مزاج۔ زمانے کے ساتھ مصالحت کئے بغیر چارہ نہیں تھا۔ انشاؔ کی چہلوں اور جرأت کی طراریوں کے سامنے قدم جمائے رہنا تھا اور اس میں شک نہیں کہ اس آزمائش اور کشاکش کو جس سلیقہ کے ساتھ مصحفی نے نباہا، وہ ہر شخص کا کام نہیں تھا۔ لیکن ان کو پورا احساس تھا کہ وہ غلط زمانے میں پیدا ہوئے، جب کہ اصلی شاعری کی کہیں قدر نہ رہی اور جب کہ شاعری بھی لکڑی اور دنگل کی طرح اکھاڑے کی چیز ہوکر رہ گئی تھی۔ ایک غزل میں جو غالباً طرحی تھی، اسی کا رونا روتے ہیں،

    کیا چمکے اب فقط مرے نالے کی شاعری

    اس عہد میں ہے تیغ کی بھالے کی شاعری

    شاعر رسالہ دار نہ دیکھے نہ ہیں سنے

    ایجاد ہے انہیں کی رسالے کی شاعری

    ہوں مصحفیؔ میں تاجر ملک سخن کہ ہے

    خسروؔ کی طرح یاں بھی اٹالے کی شاعری

    غرض کہ مصحفیؔ کی شاعری میں دہلوی اور لکھنوی دونوں دبستانوں کی خصوصیات باہم دست و گریباں نظر آتی ہیں۔ اور وہ بےچارے کفر و ایمان کی کشاکش میں بری طرح مبتلا رہتے ہیں۔ اپنی شخصیت اور اپنی حیثیت کے لحاظ سے تاریخ شعر اردو میں مصحفی بالکل اکیلے ہیں اور کیا اس کے پہلے اور کیا اس کے بعد ان کا ساتھ دینے والا اور ان کی ہم نوائی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ بیک وقت ماضی کی یادگار اور حال کی کشاکش میں مبتلا اور مستقبل کے میلانات کا اشاریہ ہیں۔ متقدمین کے گائے ہوئے راگ نہ صرف ان کے کانوں میں بلکہ ان کی ہستی کی ایک ایک تہ میں گونج رہے تھے۔ لیکن خود ان کے زمانے میں دوسرے راگوں کی مانگ تھی، جن کے موجد جرأت اور انشاؔ تھے۔ نتیجہ ایک لطیف اور پرکیف قسم کی انتخابیت یا ہم آہنگی تھی جو مصحفیؔ کے دم سے شروع ہوئی اور انہیں پر ختم ہوئی۔ غور سے مطالعہ کرنے والوں کو مصحفیؔ کے کلام میں اگر ایک طرف اس قسم کا خالص تغزل ملتا ہے،

    ترے کوچے اس بہانے مجھے دن سے رات کرنا

    کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنا

    یا

    کبھو تک کے در کو کھڑے رہے کبھو آہ بھر کے چلے گئے

    ترے کوچے میں اگر آئے بھی تو ٹھہر ٹھہر کے چلے گئے

    یا

    کنج قفس میں ہم تو رہے مصحفیؔ اسیر

    فصل بہار باغ میں دھومیں مچا گئی

    تو دوسری طرف ایسے اشعار کی بھی کثرت ہے جو صرف لکھنوی فضا میں پیدا ہو سکتے تھے اور جو لکھنوی دبستان شاعری کے لیے ہمیشہ سرمایۂ ناز و افتخار رہے ہیں، مثلاً،

    آیا لئے ہوئے جو وہ کل ہاتھ میں چھڑی

    آتے ہی جڑدی پہلی ملاقات میں چھڑی

    یا

    آنکھوں میں اس کی میں نے جو تصویر کھینچ لی

    سرمے نے اس کی چشم کی شمشیر کھینچ لی

    یا

    جنبش لب نے تری میری زباں کردی بند

    تو نے کچھ پڑھ کے عجب مجھ پہ یہ منترمارا

    ظاہر ہے کہ ان اشعار میں محض قافیہ اور ردیف او ر رعایات و مناسبات سے مضمون پیدا کئے گئے ہیں اور ان میں جذبات و واردات یا خیالات و افکار کی سچائی سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اس قسم کی شاعری کی بنیاد جس کو مجملاً خارجی شاعری کہتے ہیں، لکھنؤ میں پڑی اور یہیں سے اس نے فروغ پایا۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس دبستان شاعری کے بانیوں میں مصحفیؔ بھی تھے، جو مجبور تھے کہ اپنے کو غالب جماعت میں شامل رکھیں۔ قبل اس کے کہ ہم مصحفیؔ کے کلام سے تفصیلی بحث کریں، اگر ان کی زندگی پر بھی ایک سرسری نظر ڈالی جائے تو بے موقع یا غیر متعلق بات نہ ہوگی۔

    مصحفیؔ کا اصل نام غلام ہمدانی تھا اور باپ کا نام شیخ ولی محمد، وطن امروہہ ضلع مرادآباد تھا۔ ان کے آباؤ اجداد ملازمان شاہی میں سے تھے، عنفوان شباب میں ان کا دلی آنا ہوا اور لکھنؤ آنے سے پہلے برابر دلی ہی میں رہے۔ طبیعت علم و ادب کی طرف بچپن سے مائل تھی اور شعر وسخن سے خدا داد مناسبت تھی۔ دلی اس وقت تک ارباب فضل وکمال سے خالی نہیں ہوئی تھی۔ مصحفیؔ نے بہت جلد مروجہ نصاب کے مطابق عربی فارسی میں خاطر خواہ دستگاہ حاصل کی۔ وہ خود اپنے تذکرے ’’ریاض الفصحا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ تیس سال کی عمر میں انہوں نے شاہ جہاں آباد میں فارسی نظم و و نثر کی تکمیل کر لی تھی اور پھر لکھنؤپہنچ کر مولوی مستقیم ساکن گوپا مئو سے عربی علوم یعنی طبیعی الٰہی اور ریاضی وغیرہ میں مہارت حاصل کی۔

    قانونچہ مولوی مظہر علی صاحب سے پڑھا، آخر عمر میں تفسیر اور حدیث کے مطالعہ کی طرف مائل ہوئے۔ عربی میں ان کو ایسی قدرت حاصل تھی کہ قریب ایک جزو غزلیات او رسود وسونعتیہ قصیدے اس زبان میں بھی کہے، جو طاق پر دھرے دھرے نم زدگی گی کے سبب سے کرم خوردہ ہوکر غارت ہو گئے۔ غرض کہ مصحفی نہ صرف شاعر تھے، بلکہ خاصے عالم و فاضل تھے۔ فارسی میں دو دیوان لکھے تھے۔ ایک تو دلی میں چوری گیا۔ یہ دیوان مرزاؔ جلال اسیر اور ناصرؔ علی کے رنگ میں تھا۔ اس شعر میں اسی دیوان کی طرف اشارہ ہے،

    اے مصحفیؔ شاعر نہیں پورب میں ہوا میں

    دلی میں بھی چوری مرا دیوان گیا تھا

    دوسرا دیوان باقی رہا جو بعض کتب خانوں میں اب بھی موجود ہے۔ فارسی کلام کا نمونہ یہ ہے،

    مدتے شد کہ میان من وا و آشتی است

    کیست آں کس کہ کنوں می دہد آزار مرا

    مرکب انداز کہ میدان تگ و تازے ہست

    در رہت سینہ سپر عاشق جانبازے ہست

    مائل سو ختم شعلۂ آوازے ہست

    درکمین دل من زمزمہ پردازے ہست

    نیست نو میدیم از توکہ دگر چشم ترا

    سوئے آئینہ نگاہے غلط اندازے ہست

    درونِ خانہ تو اے نازنیں چہ میدانی

    کہ گفتہ شد سربازار داستاں کسے

    یہ منتخب اشعار سے انتخاب تھا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مصحفیؔ کے فارسی کلام میں کوئی خاص بات نہیں ہے بلکہ زبان اور مضامین دونوں کے اعتبار سے ان کا یہ کلام ڈھیلا اور پھسپھسا معلوم دیتا ہے۔

    جب دلی اجڑی اور اہل علم وفن کی رہی سہی محفل بھی برہم ہوئی تو مصحفیؔ نے بھی رخت سفر باندھا اور لکھنؤ کی راہ لی۔ یہ آصف الدولہ کا زمانہ تھا۔ دلی چھوڑ کر مصحفیؔ سب سے پہلے ٹانڈہ (ضلع فیض آباد) پہنچے اور قیام الدین قائم کے توسط سے نوا ب محمد یار خاں کے دربار میں ملازم ہوئے۔ کچھ دنوں اس طرح فکر معاش کی جانکاہیوں سے آزاد رہے اور یک گونہ سکون کے ساتھ بسر اوقات کی۔ نواب محمد یار خاں کے زوال کے بعد لکھنؤ آئے اور پھر دلی چلے آئے، اس نیت سے کہ اب استغناء اور قناعت کے ساتھ پاؤں سمیٹ کر یہیں رہیں گے لیکن سفاک زمانے نے ان کا یہ عہد پورا نہ ہونے دیا اور معاش کی صورت نہ نکل سکی۔ آخرکار پھر لکھنؤ آئے اور اب کے مرزا سلیمان شکوہ کی سرکار میں ملازم ہوئے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ فراغت اور آزادی کے دن ان کو پھر نصیب نہیں ہوئے۔ لطفؔ ’’گلشن ہند‘‘ میں لکھتے ہیں، ’’بالفعل کہ دوسو پندرہ ہجری میں۔۔۔ چودہ برس سے اوقات لکھنؤ میں بسر ہوتا ہے۔ ضیق معاش تو ایک مدت سے وہاں نصیب اہل کمال ہے۔ اسی طور پر درہم برہم اس غریب کابھی احوال ہے۔‘‘ مصحفیؔ کا ایک شعر ہے،

    سنے ہے مصحفیؔ اب تو بھی فی الحال

    منڈا کر سر کو ہوجانا فارغ البال

    بےچارے آخر کار یہی کرنا پڑا۔ جس شعور کی تربیت دلی میں ہوئی تھی، اس کو لکھنؤ پہنچ کر اپنا مزاج اور لب ولہجہ دونوں بدل دینا پڑا اور جمہور کو قائل کرنے کے لیے ایسی طرز اختیار کرنا پڑی، جس سے اگر مصحفی دلی میں رہ جاتے تو یقیناً اپنے کو علیحدہ رکھتے لیکن فضا اور ماحول سے بغاوت کرنا نہ ہر شخص کے بس کی بات ہے اور نہ خطرات سے خالی۔ مصحفیؔ مجبور تھے کہ اس قسم کے شعر کہہ کر عوام سے داد لیں اور انہیں کو معراج شعری سمجھیں۔

    نہ کھینچے خامہ مو ایسی تمثال

    کہ وہ ہے عاشقوں کی ناک کا بال

    یا

    جو دیکھیں انگلیاں وہ گوری گوری

    بنا خورشید پانی کی کٹوری

    لیکن مصحفیؔ کے کلام کا یہ حصہ بھی جو لکھنؤ کا ساختہ و پرداختہ ہے، اگر غور سے پڑھا جائے اور اس پر گہری ناقدانہ نظر ڈالی جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ شاعر اصلاً و فطرتاً لکھنؤ کا شاعر نہیں ہے۔ ان کی زبان اور ان کے اسلوب میں یہاں بھی ایک اندرونی فضائی کیفیت ہوتی ہے، جو ایک نرمی اور ایک گداز لیے ہوئے ہوتی ہے اور جو بہت واضح طور پر خوش نوایان دلی کے گائے ہوئے راگ کا آخری ارتعاش معلوم ہوتی ہے۔

    لکھنؤ پہنچ کر مصحفی کی شاعری نے دیکھتے ہی دیکھتے میں اتنی شہرت حاصل کر لی کہ ہر طرف سے شاگردوں کی آمد شروع ہو گئی۔ یہ تو امر مسلم ہے کہ جتنے شاگرد مصحفی کو نصیب ہوئے، کسی دوسرے اردو شاعر کو نہیں ہوئے۔ خود مصحفی کو اس پر ناز ہے۔ ’’ریاض الفصحا‘‘ میں لکھتے ہیں، ’’درزبان اردوئے ریختہ قریب صدکس امیر زادہا و غریب زادہا بحلقۂ شاگردی من آمدہ باشند و فصاحت و بلاغت از من آموختہ۔‘‘

    دوا وین کے علاوہ مصحفیؔ نے نثر میں کئی کتابیں لکھی ہیں۔ جن میں تین تذکرے شاعروں کے ہیں، جو مشہور ہیں اور چھپ گئے ہیں۔ ان میں سے دو’’ریاض الصفحا‘‘ اور ’’تذکرۂ ہندی‘‘ میں اردو شاعروں کا ذکر ہے۔ تیسرا یعنی ’’عقد ثریا‘‘ چند فارسی شعراء کا ایک مختصر سا تذکرہ ہے۔ مصحفی نے چوں کہ عمر طویل پائی اس لیے اکثر متقدمین و متاثرین کے ہم عصر رہے۔ ان تذکروں میں شاعروں کی بابت جو کچھ لکھا ہے، وہ تاریخی اعتبار اور اہمیت رکھا ہے اور پھر چوں کہ مصحفی سخن سنج تھے۔ اس لئے کلام پر رائے عموماً جچی تلی دیتے ہیں اور کلام کا جو انتخاب دیتے ہیں، وہ ان کے مذاق سلیم پر دلالت کرتا ہے۔ ’’ریاض الفصحا‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک رسالہ عروض میں لکھا تھا۔ جس کا نام’’خلاصۃ العروض‘‘ تھا اور ایک کتاب فارسی محاورات پر تھی جس کا نام ’’مفید الشعراء‘‘ بتاتے ہیں۔

    مصحفیؔ، جیسا کہ بتایا جا چکا ہے، اردو شاعری کے دومختلف زمانوں اور دو مختلف مدرسوں کو ملاتے ہیں۔ ایک طرف تو انہوں نے میرؔ اور سوداؔ کا آخری زمانہ دیکھا اور دوسرے طرف انشاءؔ اور جرأتؔ کے ساتھ مشاعرے اور مطارحے کر رہے تھے۔ ان کی غزلوں میں جہاں میرؔ، سوزؔ اور دردؔ کی خصوصیات ملتی ہیں، وہیں پہلو بہ پہلو انشاء اور جرأت کا رنگ بھی کافی نمایاں نظر آتا ہے۔ بالخصوص جرأت کی ریس تو وہ سعی و کاوش کے ساتھ کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں، لیکن اندازے سے معلوم ہوتا ہے کہ خود ان کو دلی کے متغزلین کا ہم آہنگ ہونا مرغوب تھا اور یہ کہنا بعید از قیاس نہ ہوگا کہ جب تک دلی میں رہے، اسی آہنگ سے شعر کہتے رہے۔ چنانچہ میر حسن نے اپنے ’’تذکرۂ شعرائے اردو‘‘ میں مصحفیؔ کے کلام کا جو انتخاب دیا ہے، ان میں شاید ہی دوچار اشعار ایسے نکلیں جن پر لکھنوی رنگ کا دھوکہ ہو اور میر حسن جس وقت اپنا تذکرہ لکھ رہے تھے، مصحفیؔ شاہجہاں آباد ہی میں تھے اور تجارت کرتے تھے۔

    مصحفیؔ ایک زبردست قوت آخذہ کے مالک تھے اور جیسا کہ اس سے پہلے بھی ایک مرتبہ کہہ چکا ہوں ان کی سب سے بڑی انفراد ی خصوصیت تقلید اور انتخابیت ہے، یعنی دوسروں کے اثرات کو اخذ کرنے کا ان میں خاص ملکہ تھا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بقول آزادؔ کے، ’’غزلوں میں سب رنگ کے شعر ہوتے تھے۔ کسی طرز خاص کی خصوصیت نہیں۔ مصحفیؔ انتخاب اور تقلید کی طرف فطرتاًً مائل نظر ٓتے ہیں۔ اس سے ان کو فائدہ بھی پہنچا اور نقصان بھی۔

    فائدہ تو یہ پہنچا کہ متقدمین کے رنگ کو ان کلام میں اس طرح جذب کر لیا کہ وہ گویا ان کا رنگ تھا مگر اسی کے ساتھ اپنے وقت کی خصوصیات اور میلانات پر بھی نظر رکھی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو شاعری کی دنیا میں ان کا مرتبہ انشاءؔ اور جرأتؔ اور دوسرے معاصرین سے بہت بلند رہا اور ان اساتذہ کے مقابلے میں آج تک غزل گو شعراء مصحفی کی شاعری سے زیادہ اثر قبول کرتے اور فیض اٹھاتے رہے لیکن اسی تقلید سے مصحفیؔ کو نقصان یہ ہوا کہ خواہ مخواہ زمانہ سازی کی غرض سے انشاءؔ اور جرأت کی طرز میں اپنی قوت ضائع کرنے لگے، جس سے ان کو کوئی طبعی مناسبت نہیں تھی۔ مگر یہ ہونا تھا۔ قوت آخذہ جب ضرورت سے زیادہ بڑھ جائے تو اکثر ماصفا اور ماکدر میں امتیاز کرنے سے قاصر رہ جاتی ہے۔

    مصحفیؔ اگرچہ انشاءؔ اور جرأتؔ کے ہم عصر ہیں لیکن ان کے ان اشعار سے قطع نظر کرنے کے بعد بھی جن میں صاف میرؔ اور سوداؔ کے انداز پائے جاتے ہیں، وہ بالعموم زبان اور محاورات میں اپنے زمانے سے الگ رہتے ہیں اور ان متقدمین کے عہدسے قریب۔ آزادؔ نے ان کو میر سوز، سوداؔ اور میر کا آخری ہم زبان بتایا ہے۔ اور جس کسی نے بھی مصحفی کے کلام کا مطالعہ کیا ہے، اس کو اس رائے سے اتفاق ہوگا۔ ان کی زبان میں وہی ملائمت اور گداختگی ہے جو میرؔ کے عہد کی عام خصوصیت تھی اور ان کے لب و لہجہ اور اسلوب میں وہی نرمی اور مسکینی ہے جو پھر کبھی کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوئی۔ مصحفیؔ کے یہاں ایسے اشعار کی تعداد کافی ہے، جن پر میر سوزؔ اور میرؔ اور ان کے دوسرے معاصرین کا دھوکہ ہو سکتا ہے۔ مثلاً،

    ہم سمجھے تھے جس کو مصحفیؔ یار

    وہ خانہ خراب کچھ نہ نکلا

    آکے میری خاک پہ کل گردوباد

    دیر تلک خاک بسر کر گیا

    جب واقف راہ و روش ناز ہوئے تم

    عالم کے میاں خانہ برانداز ہوئے تم

    مصحفی آج تو قیامت ہے

    دل کو یہ اضطراب کس دن تھا

    تم رات وعدہ کرکے جو ہم سے چلے گئے

    پھر تب سے خواب میں بھی نہ آئے بھلے گئے

    او دامن کو اٹھاکے جانے والے

    ٹک ہم کو بھی خاک سے اٹھالے

    ان اشعار میں جو شکستگی اور سپردگی پائی جاتی ہے وہ کچھ میرؔ، دردؔ، اور قائم وغیرہ ہی کی یاد تازہ کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس مزاج و طبیعت کا آدمی انشاءؔ و جرأتؔ کا حریف نہیں ہو سکتا تھا، یہ ان کی بدنصیبی تھی کہ ان کو ایسے بھانڈوں سے پالا پڑا۔ جہاں تک شاعری اور اس کی فطرت کا سوال ہے، مصحفیؔ اور انشاءؔ میں کوئی مناسبت نظر نہیں آتی۔ آزادؔ نے آب حیات میں انشا کو جو مصحفیؔ سے اس قدر بڑھا چڑھا کر دکھایا ہے وہ ان کا محض تعصب ہے۔ مصحفیؔ کے متعلق ان کا یہ کہنا یقیناً صحیح ہے کہ ’’ذرا اکڑکر چلتے ہیں تو ان کی شوخی بڑھاپے کا ناز بے نمک معلوم دیتا ہے۔‘‘ مصحفیؔ کی فطرت میں اکڑنا نہیں ہے اس لئے ان کو اکڑنا زیب نہیں دیتا لیکن اکڑنے کا نام شاعری نہیں ہے۔ شوخی اور طراری کو دراصل شاعری اور بالخصوص غزل گوئی سے کوئی تعلق نہیں، انشاؔ کی تیزی اور طباعی مسلم، ان کی علمی قابلیت بھی مسلم مگر ان کے اندر وہ خصوصیات بہت کم تھیں جو تغزل کی جان ہوتی ہیں۔ اور جو تھیں وہ ہمارے کسی کام کی نہیں۔ اس لیے کہ خود شاعر نے ان کا صحیح استعمال نہیں کیا۔

    آزادؔ نے انشاؔ کے متعلق میاں بے تابؔ کی رائے نقل کی ہے، ’’سید انشا کے فضل وکمال کو شاعری نے کھویا اور شاعری کو سعادت علی خاں کی مصاحبت نے ڈبویا۔‘‘ اس میں اتنا تو ہم بھی مانتے ہیں کہ ان کے فضل و کمال کو ان کی شاعری نے کھویا لیکن جہاں تک ان کی شاعری کا تعلق ہے ہم کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگر سعادت علی خاں کی مصاحبت نہ ہوتی تو بھی وہ ڈوبی ہی تھی۔ آخر مصحفیؔ کی شاعری کو کسی نے کیوں نہیں ڈبویا، انشاء اگر خود ایسے نہ ہوتے تو سعادت علی خاں کی مصاحبت ان کا کچھ نہ بگاڑ سکتی بلکہ شاید اس مصاحبت کو ضرورت سے زیادہ دخل ہی نہ ہوتا۔

    بہرحال جہاں تک غزل سرائی کا تعلق ہے، انشاءؔ اور مصحفیؔ کا کوئی مقابلہ نہیں۔ جرأت غزل سرا ضرور تھے لیکن ان کی غزل سرائی تمام خارجی انداز کی تھی۔ انہوں نے ایک بالکل دوسری دھن اختیار کی، یعنی معاملہ بندی اور ادابندی۔ اردو میں انداز ادااور معاملہ کی شاعری (Poetry of Belaviour) جرأت سے شروع ہوتی ہے۔ لکھنوی دبستان شاعری کے بانی دراصل جرأت تھے۔ لکھنؤ کے شاعروں کا طرۂ امتیاز خارجیت ہے جو اس تکلف اور تصنع کی ذمہ دار ہے جس کو ہم لکھنؤ کے ساتھ مخصوص کرتے ہیں۔

    مصحفیؔ کو فطرتاً ان راگوں سے رغبت تھی جو متقدمین گا گئے تھے۔ اس دعویٰ کے ثبوت میں ان کی عشقیہ مثنوی ’’بحرالمحبت‘‘ بھی پیش کی جا سکتی ہے جو انہوں نے میرؔ کی مثنوی ’’دریائے عشق‘‘ کو سامنے رکھ کر لکھی ہے اور جس میں اس بات کی پوری کوشش کی ہے کہ میرؔ کی ہوبہو نقل اتار کر رکھ دیں۔ مصحفیؔ کی مثنوی کو میرؔ حسن کی مثنوی سے کوئی مشابہت نہیں ہے، حالانکہ میرؔ حسن بھی مصحفیؔ کے معاصرین میں سے تھے۔

    پہلے ہم مصحفی کے اس کلام کی طرف متوجہ ہونا چاہتے ہیں جس پر متقدمین بالخصوص میرؔ کا نرم اور پرگداز تغزل چھایا ہوا نظر آتا ہے۔ میرؔ وغیرہ کا جہاں مصحفیؔ نے تتبع کیا ہے، وہاں اپنے رنگ کو ان لوگوں کے رنگ سے کافی ملا دیا ہے اور خود انہیں لوگوں میں مل جل گئے ہیں۔ مصحفیؔ کی شاعری کا مطالعہ کرکے ماننا پڑتا ہے کہ شاعر کا کام قدیم رسوم و روایت کو اپنے اندر جذب کرکے محفوظ رکھنا ہے۔ اگر وہ اس قابل ہیں۔ شاعر کا یہ فرض ہے کہ ادب اور زندگی کے روایات میں سے ان عناصر کو لے لے جو زمانی اور مکانی خصوصیات سے محدود نہ ہوں۔ شاعر اور نقاد دونوں کی نظر ادب کے ان اجزا پر ہونا چاہیے جن میں بقا اور ارتقا کی صلاحیت ہو۔

    مصحفیؔ نے یہی کیا ہے۔ انہوں نے پرانے اسالیب و صور کو اختیار کرکے نہ صرف زندہ رکھا ہے بلکہ ان کو از سر نو ترتیب دے کر ان کے اندر نئے امکانات پیدا کئے ہیں۔ ان کی زبان اگرچہ میرؔ، درد ؔاور سوداؔ کے مقابلے میں زیادہ منجھی اور کسی ہوئی ہے لیکن ان میں درد مندی، دل برشتگی اور سوز و گداز کا فی حد تک وہی ہے جس کو ان بزرگوں سے منسوب کیا جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر وہی خلوص اور محویت، وہی عاشقانہ انفعال اور خود گزاشتگی ہے، جو غزل کی جان ہے اور جو میرؔ و دردؔ کا مخصوص انداز ہے۔ دو شعر ملاحظہ ہوں،

    یاد ایام بے قرار یٔ دل

    وہ بھی یارب عجب زمانہ تھا

    اب کہاں ہم کہاں وہ کنج قفس

    کوئی دن واں بھی آب ودانہ تھا

    یہ غزل میرؔ اثر کی اس مشہور غزل پر کہی گئی ہے جس کے تین شعر یہ ہیں،

    کبھو کرتے تھے مہربانی بھی

    آہ وہ بھی کوئی زمانہ تھا

    کیا بتا دیں کہ اس چمن کے بیچ

    کہیں اپنا بھی آشیانہ تھا

    ہوشیاروں سے مل کے جانو گے

    کہ اثر بھی کوئی دوا نہ تھا

    مصحفیؔ کے اشعار بھی خاص و عام کی زبانوں پر چڑھ کر ضرب المثل ہو جانے کی اسی قدر صلاحیت رکھتے ہیں، جس قدر میرؔ اثر کے اشعار، لیکن مصحفیؔ اپنی پر گوئی اور ہمہ رنگی کی وجہ سے اکثر خسارے میں رہتے ہیں۔ ورنہ خالص تغزل کے رنگ میں ان کے وہاں کافی شعر موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ان اشعار پر غور کیجیے،

    مت میرے رنگ زرد کا چرچا کرو کہ یاں

    رنگ ایک سا کسی کا ہمیشہ نہیں رہا

    مصحفیؔ ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم

    تیرے دل میں تو بہت کم رفو کا نکلا

    تجھے اے مصحفیؔ کیا ہے خبر درد محبت کی

    نہ اے بے درد میرے سامنے لے نام درماں کا

    صدمے سودل پہ ہوئے ہم نے نہ جانا کیا تھا

    ہائے رے ذوق وہ الفت کا زمانہ کیا تھا

    کہتا نہ تھا میں اے دل جانا نہ اس گلی میں

    آخر تو مجھ پہ آفت خانہ خراب لایا

    میرؔ، دردؔ اور اثرؔ کی ایک ممتاز خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اکثر چھوٹی چھوٹی سادہ اور شگفتہ بحریں اختیار کرتے ہیں جن میں بجائے خود وہ گداز اور بےساختہ پن ہوتا ہے، جس کا دوسرا نام تغزل ہے اور ان بحروں میں انہوں نے وہ اشعار نکالے ہیں، جو ان کا حاصل عمر ہے۔ مصحفی کو بھی انہیں اکابرین متغزلین کی طرح چھوٹی اور دل آویز بحروں کے ساتھ خاص انس ہے، جن میں انہوں نے بڑے پرتاثیر اشعار کہے ہیں۔ مصحفیؔ کی ان غزلوں کو پڑھئے، تو ان پر اور بھی متقدمین کے رنگ کا دھوکہ ہوتا ہے۔ البتہ مصحفیؔ جو چھوٹی بحریں اختیار کرتے ہیں ان میں میرؔ، دردؔ اور اثرؔ کی چھوٹی بحروں کے مقابلے میں اکثر لوچ اور ترنم زیادہ ہوتا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے لکھنؤ کی نئی فضا کے بہترین عناصر کو بھی اپنی شاعری میں جذب کر لیا ہے۔ کچھ اشعار سنئے،

    خواب تھا یا خیال تھا کیا تھا

    ہجر تھا یا وصال تھا کیا تھا

    شب جو دل دو دو ہاتھ اچھلتا تھا

    وجد تھا یا وہ حال تھا کیا تھا

    جس کو ہم روز ہجر سمجھے تھے

    ماہ تھا یا وہ سال تھا کیا تھا

    مصحفیؔ شب جو چپ تو بیٹھا تھا

    کیا تجھے کچھ ملال تھا کیا تھا

    مصحفیؔ یار کے گھر کے آگے

    ہم سے کتنے نکھرے بیٹھے ہیں

    تلوار کو کھینچ ہنس پڑے وہ

    ہے مصحفیؔ کشتہ اس ادا کا

    فلک گر ہنساتا ہے مجھ پر کسی کو

    میں ہنس کر فلک کی طرف دیکھتا ہوں

    یار کا صبح پر ہے وعدۂ وصل

    ایک شب اور ہی جئے ہی بنی

    رکھا تہ خاک مصحفیؔ کو

    آرام تمام ہوچکا اب

    کہہ دے کوئی جا کے مصحفیؔ سے

    ہوتی ہے بری یہ چاہ ظالم

    کیا کریں جا کے گلستاں میں ہم

    آگ رکھ آئے آشیاں میں ہم

    مصحفیؔ عشق کرکے آخرکار

    خوب رسوا ہوئے جہاں میں ہم

    غم دل کا بیان چھوڑ گئے

    ہم یہ اپنا نشان چھوڑ گئے

    صفحۂ روزگار پر لکھ لکھ

    شفق کی داستاں چھوڑ گئے

    یہ مصحفیؔ کا وہ تغزل ہے جو ان کو متقدمین سے بالکل گھلا ملا دیتا ہے۔ جذبات میں وہی سادگی اور خلوص ہے۔ انداز بیان میں وہی بھولاپن ہے، الفاظ اور ان کی بندش میں وہی بے تکلفی اور سہولت ہے۔

    لیکن ادبی انتخابیت (Literary Flecticism) میں سب سے بڑی خرابی یہ ہوتی ہے کہ وہ کبھی کسی ایک رنگ پر قناعت نہیں کرتی اور بعض اوقات وہ رنگ بھی اختیار کر لیتی ہے جس کو چھوڑے رہنا ہی بہتر ہوتا۔ اسی انتخابیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج اگر مصحفیؔ کے کلام کا کوئی نقاد ان پر یہ الزام لگائے کہ وہ کسی خاص طرز کے ماہر نہیں ہیں تو اس کی تردید مشکل سے کی جا سکتی ہے۔ متقدمین ہی میں لے لیجئے۔ جہاں مصحفیؔ نے میرؔ، سوداؔ دردؔ اور اثرؔ وغیرہ کے رنگ کی تقلید کی ہے، وہیں سوداؔ کی تقلید بھی کچھ کم نہیں کی اور اکثر سنگلاخ زمینوں میں مرکب اور طویل ردیفوں کے ساتھ غزلیں لکھی ہیں۔ جن میں صرف تکلف اور تصنع برتا جا سکتا ہے اور تغزل کو نباہا نہیں جا سکتا۔ کہا جا سکتا ہے کہ اگر انشاء کے دور میں نہ پیدا ہوئے ہوتے اور ان کو ایسے معرکوں میں نہ شریک ہونا پڑتا تو شاید وہ اس روش سے احتراز کرتے، یہ کہنا ایک حدتک تو صحیح ہوگا لیکن مصحفیؔ کی طبیعت ضرورت سے زیادہ ہمہ گیر اور وسیع واقع ہوئی تھی۔

    انشاءؔ سے مقابلہ نہ بھی ہوتا تو بھی وہ ہر رنگ میں طبع آزمائی ضرور کرتے۔ تاہم اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جس رنگ کو بھی انہوں نے اختیار کیا، اس میں نہ صرف اپنی استادی اور کمال فن کا ثبوت دیا بلکہ غزل کی آبرو بھی رکھ لی۔ یہ سچ ہے کہ مشکل اور ٹیڑھی زمینوں میں وہ انشاؔ کے سامنے مشکل سے ٹھہرتے نظر آتے ہیں لیکن اگر اس غیر مناسب موازنہ کو نظر انداز کر دیا جائے تو خود اپنی جگہ مصحفیؔ اپنے فن کے تنہا ماہر ہیں، زبان اور محاورہ اور شاعری کے رسوم و آداب کی تہذیب وتحسین میں ان کا درجہ انشاؔ سے کہیں زیادہ بلند ہے۔ پر تکلف زمینوں میں چند اشعار مثالاً درج کئے جاتے ہیں،

    پیری سے ہو گیا یوں اس دل کا داغ ٹھنڈا

    جس طرح صبح ہوتے کر دیں چراغ ٹھنڈا

    اس طرح انشاؔ کی غزل مصحفیؔ کی غزل سے بڑھی چڑھی معلوم ہوتی ہے جس کا مطلع یہ ہے،

    پرتو سے چاندنی کے ہے صحن باغ ٹھنڈا

    پھولوں کی سیج پر آ، کر دے چراغ ٹھنڈا

    لیکن مصحفی کی غزل نہ صرف لطف زبان، حسن محاورہ، الفاظ کے رکھ رکھاؤ اور دوسرے عصری میلانات کے لحاظ سے ایک دلکش نمونہ ہے، بلکہ اس کے اندر وہ متانت، وہ گھلاوٹ، وہ نرمی او ر وہ دل گداختگی پورے طور پر موجود ہے جو غزل کے ترکیبی عناصر میں داخل ہیں اور جن کے لئے اس سے پہلے کا دور مشہور ہے۔ مصحفیؔ کے دیوان میں ایسی غزلیں بھی کافی تعداد میں ہیں، جن کے لطف کا دارومدار ردیفوں پر ہے لیکن جو اپنے اندر پوری غزلیت بھی رکھتی ہیں۔ یہ غزل مشہور ہو چکی ہے،

    جو پھرا کے منہ کو اس نے بہ قفانقاب الٹا

    ادھر آسماں الٹا ادھر آفتاب الٹا

    میں عجب یہ رسم دیکھی کہ بروز عید قرباں

    وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا

    بہ سوال بوسہ اس نے مجھے رک کے دی جو گالی

    میں ادب کے مارے اس کو نہ دیا جواب الٹا

    اسی طرح انشاؔ کی بھی غزل ہے اور جہاں تک بیان کے زور اور انداز کے بانکپن کا تعلق ہے، ان کی غزل مصحفیؔ کی غزل سے ممتاز ہے۔ اس میں وہی طراری اور چنچل پن ہے جو انشاؔ کی فطرت تھی۔ ان کے عام لب ولہجہ اور تیور کا اندازہ ان کے صرف ایک شعر سے ہو جاتا ہے۔

    عجب الٹے ملک کے ہیں اجی آپ بھی کم تم سے

    کبھی بات کی جو سیدھی تو ملا جواب الٹا

    مصحفیؔ کا رنگ بالکل جدا ہے جس کا انشاؔ کے رنگ سے مقابلہ کرنا ایک فضول سی بات ہے۔ مصحفیؔ کی زبان اور ان کے اسلوب میں وہ سادگی اور سیدھاپن ہے جو خلوص کی علامت ہے اور جس کے بغیر غزل صحیح معنوں میں غزل نہیں ہوتی۔ چند اور مثالیں ملاحظہ ہوں،

    چھپایا تم نے منہ ایسا کہ بس جی ہی جلا ڈالا

    تغافل نے تمہارے خاک میں ہم کو ملا ڈالا

    کہے تو کھیل لڑکوں کا ہے یہ یعنی مصور نے

    جو نقش اس صفحہ ہستی پر کھینچا سو مٹا ڈالا

    زلفوں کی برہمی نے برہم جہان مارا

    پلکوں کی کاوشوں نے سینوں کو چھان مارا

    ہر گز وہ دست و بازو ہلتے کبھی نہ دیکھا

    جو تیر اس نے مارا سو بےگمان مارا

    ایسی طرحوں میں پرتاثیر اشعار نکالنا ہر شاعر کا کام نہیں ہے۔ زبان اور محاورے اور ردیف کے پیچھے غزلیت کا سر رشتہ اکثر ہاتھ سے چلا جاتا ہے۔ ایسی غزلوں میں بھی مصحفیؔ کے یہاں جو بے تکلفی، بے ساختگی اور تاثیر ہے، وہ ان کے معاصرین میں بہت کم ملتی ہے۔ مصحفیؔ صرف قافیہ ردیف یا محاورے کے لیے اپنے اشعار کے ساتھ زبردستی نہیں کرتے۔ ان دو اشعار میں محاورے اور ردیف قافیے کس خوبی کے ساتھ نباہے گئے ہیں اور آورد یا تکلف کا کہیں سے احساس نہیں ہونے پاتا۔

    جب کو ہ وبیاباں میں جا ہم نے قدم مارا

    فرہاد نہ کچھ بولا مجنوں نے نہ دم مارا

    تنہا نہ دل اپنا ہی میں زیر وزبر دیکھا

    اس جنبش مژگاں نے عالم کو بہم مارا

    یہی کیفیت ان اشعار میں ہے،

    جس دم کہ وہ کمر میں رکھ کر کٹار نکلا

    جس رہ گزر سے نکلا عالم کو مار نکلا

    آئی زباں جو اپنی جنبش میں نزع کے دم

    تیرا ہی نام منہ سے بے اختیار نکلا

    تہمت ہے مصحفیؔ پر سیر چمن کی یارو

    کب گھر سے اپنے باہر وہ سوگوار نکلا

    ایک ہچکی میں ٹھکانے دل بیمار لگا

    اس پہ اب تیر لگا خواہ تو تلوار لگا

    مصحفیؔ عشق کی ہے گرمی بازار وہی

    کشورِ حسن میں نت رہتا ہے بازار لگا

    یہی بات انشاؔ کو میسر نہیں ہوئی۔ ایسی ٹیڑھی طرحوں میں انہوں نے اپنی شوخ و شنگ طبیعت کی جو لانیاں جتنی بھی دکھائی ہوں لیکن مصحفیؔ کی طرح ظاہری رکھ رکھاؤ کے ساتھ کلام کو ایک باطنی کیفیت سے معمور رکھنا ان کے بس کا کام نہ تھا۔ اب ہم ایسی ہی طرحوں میں سے کچھ اور اشعار یکجا کرتے ہیں،

    میں ادا، اس کی کہوں کیا مرے مے نوش نے رات

    سرپہ ساقی کے کس انداز سے ساغر مارا

    مصحفیؔ عشق کی وادی میں سمجھ کر جانا

    آدمی جاتا ہے اس راہ میں اکثر مارا

    آخر کو مصحفیؔ نے دی جان تیری خاطر

    جی سے گزر گیا وہ نادان تیری خاطر

    کیوں نہ ہو شیشۂ دل چور مرے پہلو میں

    میں نے ایام جنوں کھائے ہیں تھوڑے پتھر

    کوئی سحر سے باندھتا ہے دکاں کو

    وہ کافر جو آوے تو بازار باندھے

    نہ ساون کرے پھر برسنے کا دعویٰ

    جو یہ دیدۂ تر کبھی تار باندھے

    محبت میں صادق یہ اغیار ٹھہرے

    ہم اک بات کہہ کر گنہگار ٹھہرے

    مصحفیؔ کے کلام کا ایک معتدبہ حصہ خارجی انداز میں ہے، جو جرأت کا اسلوب رکھتا ہے۔ وہ معاملہ بندی، ادا بندی، معشوق کا سراپا، اس کے عشوہ وناز اور سج دھج کے بیان میں بھی استادانہ ملکہ رکھتے ہیں۔ اس میدان میں ان کا جرأت کے ساتھ مقابلہ تھا اور یہ کہنا غلط نہیں کہ اول اول انہوں نے جرأت ہی کی تقلید میں یہ رنگ اختیار کیا لیکن جرأت و مصحفیؔ میں فرق ہے۔ خارجی رنگ میں بھی مصحفیؔ کا انداز متقدمین ہی سے قریب معلوم ہوتا ہے۔ ان کی زبان یہاں بھی انشاؔ اور جرأتؔ دونوں سے پیاری ہوتی ہے، لیکن اس کے یہاں وہ پتے کی باتیں سننے میں نہیں آتیں جن کے لیے جرأت مشہور ہیں۔ جرأتؔ کا چلبلا پن ان کی اپنی فطرت کا تقاضا تھا۔ جس سے مصحفیؔ کو کوئی طبعی مناسبت نہ تھی۔ چنانچہ جب کبھی خواہ مخواہ کی ریس میں اپنے اوپر بہت زیادہ تشدد کرتے ہیں، تو مبتذل ہو جاتے ہیں، جو ان کے وہاں شاق گزرتا ہے۔ مثلاً مصحفیؔ جیسے شاعر سے ہم اس قسم کی باتیں سننے کی توقع نہیں رکھتے،

    یہ طرز اختلاف نکالا ہے تم نے واہ

    آتے ہی پاس چٹ سے وہیں مار بیٹھنا

    پانی بھرے ہے یارو یاں قرمزی دوشالہ

    لنگی کی سج دکھا کر سقنی نے مار ڈالا

    لیکن اکثر مقامات پر اس تقلید میں بھی کامیاب رہے ہیں اور تخیل کی مدد سے ان خارجی موضوعات میں بھی جرأتؔ سے زیادہ پیاری اور مزے دار باتیں کہہ گئے ہیں۔ یہ ان کے رچے ہوئے مذاق کا نتیجہ تھا۔ متقدمین کے غائر مطالعہ سے انہوں نے اپنے تخیل اور اپنی فطرت شعری کی تربیت کی تھی۔ اس لیے جہاں جہاں خارجی معاملات باندھے ہیں، اثر و کیفیت کو قائم رکھا ہے مثلاً،

    قدم اس دھج سے کچھ پڑتا ہے اس غارت گرجاں کا

    کہ دل ہر ہر قدم پر لوٹ ہے گبرو مسلماں کا

    بھیگے سے ترا رنگ حنا اور بھی چمکا

    پانی میں نگاریں کفِ پا اور بھی چمکا

    گیند بازی سے اذیت نہ کہیں پہنچے تمھیں

    کہ پلٹتی ہے بری طرح سے سرکار کی گیند

    دل سے گیا ہے میرا وہ سیم تن چراکر

    شرما کے جو چلے ہے سارا بدن چرا کر

    اے مصحفیؔ توان سے محبت نہ کیجیو

    ظالم غضب کی ہوتی ہیں یہ دلّی والیاں

    میری نظر مجھی کو ملے دور چشم بد

    اس وقت بن رہے ہو پری پھر کے دیکھ لو

    جمنامیں کل نہا کر جب اس نے بال باندھے

    ہم نے بھی اپنے دل میں کیا کیا خیال باندھے

    اول تو یہ دھج اوریہ رفتار غضب ہے

    تس پر تیرے پازیب کی جھنکار غضب ہے

    مصحفیؔ کے کلام میں اس عریانی کا شائبہ بہت کم ہے جس کی جرأت وغیرہ کے یہاں بہتات ہے۔ ان کی شاعری خالص شاعری ہے۔ ان کے اندر جتنی نزاکتیں اور لطافتیں اور جتنی رنگینیاں ملتی ہیں، ان کی زبان اور طرز ادامیں جو سجاوٹ اور طرح داری ہوتی ہے وہ سب ان کے ذوق شعر اور مطالعہ کا نتیجہ ہیں۔ انہوں نے بہترین روایات شاعری کو اخذ کرکے اپنی چیز بنا لیا تھا۔ اردو میں دو شاعر ایسے ہیں جن کو روایات و صور کے شاعر کہہ سکتے ہیں۔ مصحفیؔ اور حسرتؔ موہانی۔ ان کی شاعری کے محرکات زندگی کے تجربات اتنے نہیں جتنے کہ خالص شاعری کے تجربات، شاعری کے تجربات سے میری مراد اساتذہ کے کلام کا ذوق و انہماک کے ساتھ مطالعہ کرکے اس کو اپنے رگ و پے میں جذب اور ساری کر لینا ہے۔ مصحفیؔ اور حسرت دونوں نے یہی کیا ہے۔ دونوں کو شاعر بنانے کے لیے تخیل اور اساتذہ کے کلام کافی تھے۔ مصحفیؔ کا کلام چاہے وہ خارجی پہلو رکھتا ہو چاہے داخلی ایک خاص کیفیت کا حامل ہوتا ہے۔ ان کی شاعری ارتسامی (IMPRESSIONISTIC) ہوتی ہے۔ ان کے محاکات، حسن کاری (Art) کی ایک خاص بصیرت لیے ہوتے ہیں۔ ایک شعر سنیے،

    کیا نظر پڑ گئیں آنکھیں وہ خمار آلودہ

    شفق صبح تو ہے زور بہار آلودہ

    یوں تو بہ ظاہر مصحفیؔ کے کلام میں کوئی انفرادیت نظر نہیں آتی اور آزاد کی یہ رائے صحیح معلوم ہوتی ہے کہ غزلوں میں ہر رنگ کے شعر ہوتے ہیں۔ کسی خاص رنگ کی قید نہیں لیکن گہری نظر ڈالنے سے مصحفیؔ کے کلام میں ہم کو ایک تیز انفرادی کیفیت محسوس ہوگی، جو انہیں کی چیز ہے اور جس کو میں نے ایک اندرونی فضائی کیفیت بتایا ہے۔ مصحفیؔ اردو کے پہلے شاعر ہیں جنہوں نے غزل کے اشعار میں رنگ اور فضا کا احساس پیدا کیا اور یہی ان کی سب سے بڑی انفرادی خصوصیت ہے۔ جس کا اثر بعد کی اردو شاعری میں کافی دور تک پڑا اور جس کی وجہ سے جرأت کے مقابلہ میں شاعروں نے مصحفی کو زیادہ نظر کے سامنے رکھا۔ کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں،

    ایک دن روکے نکالی تھی میں واں کلفتِ دل

    اب تلک دامن صحرا ہے غبار آلودہ

    اس شعر میں ایسی گہرائی اور چھا جانے والی فضا پیدا کر دی گئی ہے کہ سنگلاخ زمین کا خفیف سے خفیف احساس بھی پیدا نہیں ہونے دیا ہے۔ اس طرح کے کچھ اور اشعار سنیے،

    چلی بھی جا جرسِ غنچہ کی صدا پہ نسیم

    کہیں تو قافلہ نو بہار ٹھہرے گا

    تیری رفتار سے اک بے خبری نکلے ہے

    مست ومد ہو ش کوئی جیسے پری نکلے ہے

    کھول دیتا ہے تو جب جاکے چمن میں زلفیں

    پابہ زنجیر نسیمؔ سحری نکلے ہے

    جس بیابان ِخطرناک میں ہے اپنا گزر

    مصحفیؔ قافلے اس راہ سے کم نکلے ہیں

    کس نے رکھے ہیں قفس ان پہ گرفتاروں کے

    کانٹے کیوں سرخ ہیں سب باغ کی دیواروں کے

    مأخذ:

    نکات مجنوں (Pg. 124)

    • مصنف: مجنوں گورکھپوری
      • ناشر: مکتبہ عزم و عمل، کراچی
      • سن اشاعت: 1966

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے