aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصحفی کے شعری امتیازات

احمد امتیاز

مصحفی کے شعری امتیازات

احمد امتیاز

MORE BYاحمد امتیاز

    شیخ غلام ہمدانی مصحفیؔ(۱۷۴۸ء۱۸۲۴ء) کا شمار دبستانِ لکھنؤ کے بانیوں میں ہوتا ہے تاہم ان کی شاعری کی ابتداء دلّی میں ہوئی تھی۔ دلّی میں مغلیہ سلطنت کا جب شیرزاہ بکھرگیا تودلّی کو خیرباد کہہ کر لکھنؤ میں گوشۂ عافیت تلاش کرنے والوں میں مصحفیؔ بھی تھے۔ مصحفیؔ سے قبل دلّی سے ٹوٹ کو جو ستارے لکھنؤمیں آباد ہوئے تھے اُن میں خان آرزوؔ، جعفر علی حسرتؔ، میر ضاحکؔ، منّتؔ، فغاںؔ، سوداؔ، میرؔ، سوزؔ وغیرہ تھے اور ان کے بعد انشاؔ، جرأتؔ اور میر حسنؔ سے لکھنؤ کی سرزمین آباد ہوئی تھی۔ لکھنؤ آنے کے بعد مصحفیؔ، مرزا سلیمان شکوہ کے یہاں ملازم ہوئے اور ان کے کلام پر اصلاح دیا کرتے تھے۔ انشاؔ کے لکھنؤ پہنچنے کے بعد مرزا سلیمان شکوہ، مصحفیؔ کے بجائے انشاؔ سے اصلاح لینے لگے۔ یہی وجہ تھی کہ انشاؔ اور مصحفیؔ میں آپسی شکر رنجی اورمعرکہ آرائی شروع ہوئی۔ یہ معرکہ آرائی بڑھتے بڑھتے ابتذال کی حد تک پہنچ گئی اوردونوں کی چشمک سے تنگ آکر آصف الدولہ کو مداخلت کرنا پڑی اور انشاؔ کو شہر بدر ہونا پڑا۔

    مصحفیؔ دربارداری کے سخت مخالف تھے اس لیے ساری زندگی کسمپرسی اور تکلیف میں گزاری۔ انھیں ساری زندگی اپنی نا قدری کا احساس رہا۔ شاید اس لیے نثار احمد فاروقی نے انھیں ’’مسکین اور مظلوم شاعر‘‘ قرار دیا ہے۔ مصحفیؔ کو امرأ سے ہمیشہ شکایت رہی کیوں کہ اکثر ان کے وظیفے میں تاخیر کی جاتی تھی۔ گویا ان کو غمِ روزگار نے کبھی چین سے رہنے نہیں دیا۔ اس اضطراب میں وہ اپنی سخن وری سے بھی متنفر ہو جاتے تھے۔ ان کی اس نفسیاتی الجھن کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جس کا اظہار انہوں نے ’ریاض الفصحا‘ کے دیباچے میں کیا ہے کہ ’’میں شعر و شاعری اور امیروں سے ملاقات پر تبرّا کرتا ہوں اور ان سے بھاگتا ہوں۔‘‘ یہ بیان مصحفیؔ کی خودداری اور انانیت کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔

    مصحفیؔ اپنے عہد کے ایک باکمال اور قادر الکلام شاعر تھے۔ اِس کے کئی واضح ثبوت ہمیں ملتے ہیں۔ ایک ثبوت یہ ہے کہ ان کے نو دیوان میں ۳۷ ہزار اشعار موجود ہیں۔ دوسرا یہ کہ اِن کے تلازموں کی تعداد۱۳۶تک پہنچتی ہے اور ان کا شعری سلسلہ آتشؔ، اسیرؔ، گرم،ؔ منتظرؔ وغیرہ سے ہوتا ہوا حسرتؔ موہانی، فراقؔ گورکھ پوری اور ناصرؔ کاظمی تک پہنچتا ہے۔ اور تیسرا یہ کہ میر حسنؔجیسا شاعر شعر وادب کی باریکیاں سیکھانے کے لیے اپنے بیٹے میر خلیقؔ(میر انیسؔ کے والد) کو مصحفیؔ کی خدمت میں بھیجتاہے۔ مصطفیٰ خاں شیفتہؔ نے اپنے تذکرہ ’’گلشنِ بے خار‘‘ میں مصحفیؔ کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ان کی ابتداء عہدِ سوداؔ کی انتہا تھی اور اُن کے چُنیدہ اشعار مرتبے میں اعلٰی اور ارفع ہیں ۔‘‘ مذکورہ بیان سے بھی مصحفیؔ کے معتبر، مستند اور مقبول ہونے کے ثبوت ملتے ہیں۔

    ہماری تنقید کو محمد حسین آزاد نے ’آبِ حیات‘ کے ذریعے جہاں نیا راستہ سجھا یا وہیں بڑے مغالطے بھی پیدا کیے اورتعصب کو راہ بھی دی۔ مصحفیؔ اور قائمؔ کے ساتھ انہوں نے جو ستم ظریفی کی وہ اہلِ ادب سے پوشیدہ نہیں ہے۔ محمد حسین آزاد کے بیانات پر بھروسہ کرکے ہمارے دوسرے ناقدین اور محققین نے بھی ’’گائے جا پپیہے گائے جا‘‘ کی روش اختیار کی اورمصحفیؔ کے شعری خدمات پر خاطر خواہ توجہ نہیں کی۔ فراقؔ، مجنوںؔ اور سید عبداللہ نے اپنے مقالوں کے ذریعے مصحفیؔ فہمی کے راستے ہموا رکرنے کی کوشش توکی تھی مگر اُن کے بعد جوتحقیقی اور تنقیدی سرگرمیاں ہونی چاہیے تھیں نہیں ہوئیں۔ ہمارے ناقدین نے مصحفیؔ پر جو اعتراضات کیے ہیں اُن میں سے ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ مصحفیؔ کا اپنا کوئی شعری رنگ نہیں ہے بلکہ اُنہوں نے مختلف شعراء کے شعری اسلوب سے استفادہ کیا ہے۔ نثار احمد فاروقی نے اس تعلق سے بجا یہ سوال قائم کیا ہے کہ ’’رنگ کی بات کرنے والوں نے کیا کبھی ’’رنگ‘‘ کو Define کرنے کی کوئی ادنیٰ سی کوشش بھی کی ہے؟‘‘ میں بھی یہی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایسا کہنے اورسوچنے والے کیوں نہیں سمجھتے کہ یہ مصحفیؔ کا امتزاجی رنگ یا اسلوب کی مخلوطی شان ہی تھی، جو روایت کے طو ر پر لکھنؤ کے دورِ زوال میں اُس کی آبرو کی محافظ بنی اور دبستان ِ لکھنؤ کی عزت کو برقرار رکھنے میں محرّک ثابت ہوئی اور ان کے شاگردوں نے مصحفیؔ کے شعری اسلوب کی پیروی کرکے لکھنؤکے مجروح شعری کردار پر مرہم لگانے کی کوشش کی۔ مصحفیؔ پر جتنے بھی اعتراضات کیے گئے ہیں، ان کی شاعری ان تمام اعتراضات کو رد کر دیتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تومصحفیؔ کی شاعری وقت کے ساتھ ماند پڑ جاتی لیکن دوسو برس بعد بھی اگر مصحفیؔ کی شاعری ہمیں اپنی طرف بلاتی ہے تو پھر ہمارے ناقدین کو اپنی رائے پر نظر ثانی کرنی چاہیئے۔

    مصحفیؔ کے زمانے میں لکھنؤ کے پرانے شعراء ان کے راستے میں حائل رہے۔ اُن مخالفین کے درمیان اپنی شناخت قائم کرنا اِتنا آسان نہیں تھا مگر مصحفیؔ نے اپنے متوازن شعری کردار سے یہ کردکھایا۔ اس کی واضح وجہ یہ تھی کہ مصحفیؔ کے تخلیقی باطن کا تعلق دلّی سے تھا۔ اس لیے اُن کے یہاں داخلی کیفیت اور عشقیہ مضامین میں ایک قسم کی ارتفاعیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ وہ جرأتؔ اور انشاؔ کی سطح پر اُتر کر شاعری نہیں کرسکتے تھے کیوں کہ یہ چیز اُن کے تہذیبی مزاج کے مطابق نہ تھی بلکہ دبستانِ لکھنؤ کا شعری مزاج ان کے لیے دلی صدمے ہی کی حیثیت رکھتا تھا۔ دوسرے زاویے سے دیکھیں تو مصحفیؔ نے مرزا مظہر جانِ جاناں، خواجہ میر دردؔ اور میر تقی میرؔسے صحبتیں اٹھائی تھیں اس لیے ان کے یہاں لکھنؤ کی خارجیت اور ابتذال کی صورت پروان چڑھ ہی نہیں سکتی تھی۔ لکھنؤ کی شاعری اور مزاج نے جب جب انھیں دامن گیر کیا وہ اس کی طرف دو قدم چلتے لیکن مصحفیؔ کے ذہنی سانچے میں لکھنوی مزاج کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی اس لیے ہر دوقدم کے بعد اپنی اصل شاعری یعنی باطنی تخلیقی روش کی طرف مراجعت کرجاتے تھے۔ اس مراجعت سے ایک طرف تو یہ ہوا کہ ان کی تخلیقی قوتوں میں اضافہ ہوا اور دلّی کی شعری روایت ان کے لاشعور کا حصہ بنی رہی۔ دوسری طرف یہ ہوا کہ لکھنؤ کے نئے شعری منظر نامے کے خلاف ان کی شاعری نے ایک نئے رنگ کا تاثر پیدا کردیا۔ یعنی انہوں نے دلّی کے بنیادی اسلوب میں لکھنؤ کے خارجی عناصر کو شامل کرکے نئے اسلوب کی طرح ڈال دی۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ مصحفیؔ نے لکھنؤ کے خارجی عناصر کی شمولیت کے باوجود جرأتؔ اور انشائؔ کے رنگ کو نہیں اپنایا۔ اس نئے تجربے سے مصحفیؔ کی شاعری ایک نئی شعری وحدت میں ڈھلتی چلی گئی یعنی ایسی وحدت جو نئی اور پرانی روایات کا مظہرتھی، اُس میں دلّی کا رنگ بھی تھا اور لکھنؤ کی خوشبو بھی۔

    کیا یار کے دامن کی خبر پوچھو ہو ہم سے

    یاں ہاتھ سے اپنا ہی گریبان گیا تھا

    جورِ فلک سے ہم نہ کبھی سر اٹھا سکے

    جوں شمع، زیرِ تیغ یہاں عمر کٹ گئی

    عبیر مل کے مرے منہ سے جب وہ شاد ہوا

    مرے بھی ہاتھ میں تھوڑا سا پھر گُلال دیا

    ہر چند کہ تھا قابلِ دیدن بدن اس کا

    پر آنکھ نہ ٹھہری جو کھُلا پیرہن اس کا

    اُس گل بدن نے بندِ قبا جوں ہی واکیے

    مجلس تمام پھولوں کی بوسے مہک گئی

    ہر گز نہ کھُلی آنکھ تری خواب سے غافل

    اور قافلۂ صبح سفر کر گیا کب کا

    امیر جتنے تھے آزاد ہوگئے صیاّد!

    قفس سے ایک نہ یہ مرغِ ناتوا ں چھوٹا

    مرزاغالبؔ بھی اس رنگ اور خوشبو سے دامن نہیں بچا سکے اور کہا،

    اسدؔ! بندِ قبائے یار ہے فردوس کا غنچہ

    ذرا وا ہو تو دکھلادوں کہ اک عالم گلستاں ہے

    محمد علی تاجؔ کا یہ شعر بھی اس کی گواہی دیتا ہے،

    چمن میں پھول کھلاتی پھرے بہار تو کیا

    کسی کے بندِ قبا ٹوٹنے لگیں، تب ہے

    اِس قسم کے اشعار سے مصحفیؔ کے دیوان بھرے پڑے ہیں۔ مصحفیؔ نے دو دبستانوں کی شعری روایتوں کو ہم آہنگ کرکے غزل کے دائرے کو نئی وسعت دینے کی کوشش کی تھی۔ اُن کے معاصر شعراء کا کلام ہمیں زیادہ دور اور دیر تک اپنے ساتھ نہیں رکھ پاتا لیکن مصحفیؔ کا کلام قدم قدم پر نئی زبان، نئے محاورے، نئے نئے لفظیات اور تراکیب ومرکبات، سے ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ مصحفیؔ نے اپنی غزلوں کے اسلوب میں جو آہنگ پیدا کیا تھا وہ اُس زمانے کی دوسر ی آوازوں پر حاوی تھی۔ جرأتؔ ا ورانشاؔ سے معرکہ آرائی کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔

    دبستانِ دلّی کی بہت سی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ یہاں غزل کے کئی رنگ تھے، کئی اندازاور کئی لہجے تھے جو فارسی شاعری کے زیرِ اثر مدّت سے چلے آرہے تھے۔ مصحفیؔ نے ان تمام خوبیوں کو اپنے اسلوب کی کڑی میں پرویا تھا۔ ان کے اسی اسلوب کی پیروی بڑے پیمانے پر بعد کے زمانے میں ہوئی۔

    اے مصحفیؔ کل کوچۂ خوباں میں گئے تھے

    دیکھا جو وہاں سایۂ دیوار گرے ہم

    پھر وہ بے تابیِ دل یاد دلائی گل نے

    اک ذرا صبر تہہِ دام مجھے آیا تھا

    شبِ مہتاب میں کیا کیا سَمے ہم کو دکھاتا ہے

    بکھر نا چاند سے چہرے پر اُس زلفِ پر یشا ں کا

    ہو عزمِ سفر تجھ کو تو اے مصحفیؔ اب بھی

    چلنے کے لیے قافلے تیار کھڑے ہیں

    مصحفیؔ کی شاعری سے بحث کرتے ہوئے اکثر اُ ن کی زبان، ان کے موضوعات، اُن کی انتخابیت یعنی لفظیات اور لہجہ آفرینی کا ذکر ہوتا ہے۔ اُن کے زبان وبیان کے بارے میں یہ اتفاق رائے ہے کہ مصحفیؔ کاکلام تصنّع اور تکلّف سے پاک ہے اور ہر اعتبار سے معیاری اور مستند ہے۔ موضوعات کے اعتبار سے بھی مصحفیؔ نے کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی ہے بلکہ اپنے عہد کے تمام تقاضو ں کوموضوع بنایا ہے۔ لفظیات اور لہجہ آفرینی میں مصحفیؔ نے بڑے تجربے بھی کیے ہیں۔ اِسی فن کاری کے سبب مصحفیؔ کا اثر ایک مدّت تک اردو شاعری پر رہا ہے۔ مصحفیؔ کی شاعری کا یہ وہ اہم پہلو ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

    مصحفیؔ کی شاعری کا ایک اہم وصف حواسی عمل بھی ہے یعنی حواس کو متحرک کرنے والے پیکر۔ مصحفیؔ کی شاعری پر لکھنے والوں نے اِس پہلو پر بہت کم توجہ دی ہے حالانکہ یہ پہلو مصحفیؔ کے یہاں حاوی پہلو کی حیثیت رکھتا ہے۔ رنگ، روشنی اور خوشبو سے بننے والے پیکروں میں مصحفیؔ نے بڑی جدّت پیدا کی ہے۔ اُن کے یہاں محبوب کی تمثال گری میں بھی پیکر کے تفاعل کا ہنر مندانہ استعمال دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن مصحفیؔ نے خوشیوں، امنگوں، تمنائوں، ولولوں، حسرتوں، آرزوئوں، ناکامیوں، محرومیوں اور دیگر جمالیاتی اور نفسیاتی کیفیتوں کو بھی پیکر کی شکل دی ہے۔ پیکر مکمل تصویر نہیں ہوتا بلکہ متحرک تصویر ہوتا ہے اِس لیے کلام میں کھِلا کھِلا سا رنگ ابھرتا ہے اور ذہن کو جگمگاتی ہوئی روشنیوں سے قریب تر کر دیتا ہے۔ پیکر سازی کے اس عمل میں ان کا کوئی معاصر اُن کی ہم سری نہیں کرپاتا۔

    آنکھیں تمہاری جھکیں ہیں ادھر کو بیشتر

    تم اِن اشارتوں سے بلاتے ہو ہم کو کیا

    اٹھا جو صبح خواب سے و ہ مست ِ پُرخمار

    خورشید کف کے بیچ لیے جام آگیا

    شعری پیکر کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اُس کا کوئی بھی پہلو دوسرے پہلو پر حاوی نہیں ہوتا یعنی تناسب کے لحاظ سے وہ معتدل ہوتا ہے اس لیے اپنی جگہ مکمل کھِلاہوا نظر آتا ہے اور ایک دوسرے کے لیے معاون اور مددگار بن جاتا ہے۔ اِس عمل سے شعر کی بوقلمونی میں اضافہ ہوتا ہے اور قاری کے ذہن میں بھی پیکر خلق ہوجاتے ہیں۔ مصحفیؔ کے یہاں اِس قسم کے اشعار کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے مثلاً،

    قہر ہے اک تو اُن کڑوں کی صدا

    تس پہ پھر پاؤں کا بھی تھپکانا

    (سمعی پیکر)

    نمودِ رنگ ِ گُل یوں غنچۂ سوسن کی تہہ میں ہے

    شرابِ سرخ دیوے جلوہ جوں اودی گلابی سے

    (رنگین پیکر)

    ساعد سے ترے شعلے یوں حُسن کے اٹھتے ہیں

    ہاتھوں میں ترے گویا مہتابیِ دستی ہے

    (لمسی پیکر)

    کل قافلۂ نکہتِ گُل ہوگا روانہ

    مت چھوڑیو تو ساتھ نسیمِ سحری کا

    (شامہ پیکر)

    اے مصحفیؔ افسوس کہاں تھا تُو دوانے

    کل اُس کے تئیں ہم نے عجب آن میں دیکھا

    (بصری پیکر)

    تم رات وعدہ کرکے جوہم سے چلے گئے

    پھر تب سے خواب میں بھی نہ آئے بھلے گئے

    ترے ہی غم کی لگے ہم خوشامدیں کرنے

    جہاں میں جب کوئی اپنا نہ غم گسار رہا

    (جمالیاتی اور نفسیاتی کیفیتوں کی پیکر سازی)

    مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مصحفیؔ نے غزلیہ روایت سے اپنے شعری اسلوب کو ہم آہنگ رکھا، اس کے معیار کی پاس داری کی اوراپنے جمالیاتی احساس سے اردو شاعری کو نئی معنویت دینے کی کوشش کی۔ ان کے کلام میں پیش روؤں کی تقلید بھی ہے اور تقلیب بھی۔ مصحفیؔ وہ پہلا شاعر ہے جس نے لکھنؤ کی شاعری میں امتزاجی اسلوب کی طرح ڈالی تھی گرچہ اس زمانے میں شعری آدرش کو قائم رکھنا محال تھا تاہم مصحفیؔ نے کشمکش اور اضطراب کے باوجود دلّی اور لکھنؤ کے فکری فاصلے کو کم کیا۔ یہ مصحفیؔ کے وہ شعری امتیازات ہیں جنھیں جس قدر سراہا جائے کم ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے