aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نظم سے نثر تک

مجنوں گورکھپوری

نظم سے نثر تک

مجنوں گورکھپوری

MORE BYمجنوں گورکھپوری

    جو سوال میں آپ لوگوں کے سامنے پیش کر رہا ہوں، اس پر کم و بیش ایک چوتھائی صدی سے غور کر رہا ہوں۔ یہ وہ زمانہ تھا جبکہ پہلی بار ایک ذمہ دار شخص نے یہ آواز بلند کی تھی کہ غزل شاعری کی ایک ’’نیم وحشی‘‘ صنف ہے، جوآج تک رہ رہ کر گونج رہی ہے۔ حالی جو آزاد کے ساتھ جدید اردو نظم کے بانی ہیں، اردو شاعری کی ہر صنف بالخصوص غزل میں کئی اعتبارات سے اصلاح اور ترقی چاہتے تھے، لیکن وہ بھی غزل کو ’’نیم وحشی‘‘ قرار دینے کی جسارت نہیں کر سکے تھے۔ قبل اس کے کہ میں اپنے اصل موضوع کی طرف رجوع کروں کچھ نظم اور غزل یعنی Lyric Utterance کی روداد پر احساس و فکر اور اظہار و ابلاغ کی تاریخ کی معیت میں تامل اور تصفیہ کی ضرورت ہے۔

    سب سے پہلے ایک دھوکے کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ میں غزل اور نظم کی دوسری صنفوں کے درمیان نبرد آزمائی نہیں چاہتا۔ ہم کو تمام اصناف کی ضرورت ہے، کبھی ایک صنف ہمارے کام آتی ہے، کبھی دوسری صنف۔ لیکن ادبی تاریخ کی ایک حقیقت سے ہم روگردانی نہیں کر سکتے۔ غزل فارسی اور اردو کے علاوہ کسی دوسری زبان میں نہیں ملتی اور ان زبانوں کے منظومات پر تاریخی نظر ڈالتے ہوئے ہم کو یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ غزل کی طرف لوگ اس وقت رجوع ہوئے جب مثنوی اور قصیدہ جیسی صنفیں اچھی طرح تربیت پا چکی تھیں اور زبان مکمل طور پر بالغ اور بلیغ ہو چکی تھی اور شاعر کو اپنے اوپر اتنا اعتماد پیدا ہو چکا تھا کہ جو بات چالیس مصرعوں میں پھیلاکر کہی جاتی ہے اس کو وہ سمیٹ کر پوری توانائی کے ساتھ دو مصرعوں میں کہہ سکتا ہے۔

    فارسی نظم اور دکن کی اردو نظم کی تاریخ ہمارے دعوے کی تائید کرےگی۔ اس لئے ہم غزل کو تو کسی طرح ’’نیم وحشی‘‘ نہیں کہہ سکتے۔ تا وقتیکہ سرے سے نظم کے سارے فن کو ’’نیم وحشی‘‘ نہ قرار دے دیا جائے اور ابھی تک کسی کی اتنی ہمت نہیں ہوئی ہے کہ وہ معصوم انسان کے اس معصوم ذریعہ اظہار کو جس کو نظم کہتے ہیں، نیم وحشی یا نیم مہذب کہہ کر برطرف کر سکے۔

    مہذب زبانوں کی نظم کی تاریخ کا اگر غور سے مطالعہ کیا جائے تو یہ اکثر محسوس ہوتا ہے کہ کسی خاص دور میں کوئی خاص صنف یا ہیئت یا بعض مخصوص اصناف یا ہیئتیں زیاہ مقبول اور رائج رہی ہیں۔ یہ بھی ہوا ہے کہ کسی ایک شاعر نے کسی ایک صنف یا ہیئت کونہ صرف زمانہ کے مزاج کے لئے بلکہ خود اپنے مزاج کے لئے زیادہ مساعد اور موزوں پایا۔ فردوسی نے ہر لحاظ سے مثنوی کو اپنے مزاج سے زیادہ قریب پایا اور اس کے زمانہ کے مزاج کا شاید یہ اظہار ہے کہ اس کی کوئی دوسری مثنوی اتنی مقبول و معروف نہ ہو سکی جتنی کہ اس کی شہرہ آفاق رزمیہ مثنوی ہوئی۔ اسی طرح یہ نظامی گنجوی کے عہد اور خود اس کے مزاج کی ناگزیر نمائندگی ہے کہ وہ صرف اپنی ’’پنج گنج‘‘ اور اس میں بھی ’’سکندرنامہ بری‘‘اور ’’خسرو وشیریں‘‘ کے بدولت جتنا مشہور ہوا، اتنا نظم کی کسی صنف یا ہیئت کی وجہ سے نہ ہو سکا۔ حالانکہ اس نے نہ جانے کتنے اشعار دوسری صنفوں میں بھی کہے ہیں۔

    سعدی کی غزلیں ان کے اپنے مزج کا آئینہ ہیں اور فارسی غزل سرائی میں ایک خاص مقام رکھتی ہیں۔ انہوں نے قصیدے بھی لکھے ہیں جو فارسی قصیدہ کی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کئے جا سکتے۔ لیکن جو سعدی آج ساری دنیا میں مشہور ہے وہ’’گلستان‘‘ اور’’بوستان‘‘ کا سعدی ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سعدی کی شخصیت جیسی ’’گلستان‘‘اور’’بوستان‘‘ میں اجاگر ہوئی، ویسی نہ غزل میں ہو سکی نہ قصیدے میں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ خود سعدی کا مزاج اور ان کے زمانہ کے مزاج کی سچی نمائندگی کے لئے ’’گلستان‘‘ اور’’بوستان‘‘ ہی کے عنوان کی تخلیقات زیادہ موزوں تھیں۔

    جامی نے ’’لوائح‘‘کے نام سے عارفانہ نثری ملفوظات بھی لکھے اور رباعیاں بھی کہیں اور ان کی غزلیں بھی اپنے اندر بڑا رس رکھتی ہیں۔ ان کی غزلوں کے متفرق اشعار اب تک فارسی جاننے والوں کے درمیان ضرب المثل ہیں۔ مگر کیا ان کا کوئی ادبی کارنامہ ان کی ’’یوسف و زلیخا‘‘ سے زیادہ مطبوع و مقبول اور زباں زد خواص و عوام ہو سکا۔ وہ اب تک ’’یوسف و زلیخا‘‘ کے شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ’’یوسف و زلیخا‘‘ شاعر اور شاعر کے عہددونوں کے مزاجوں کو ایک آہنگ بناکر پیش کرتی ہے۔

    خیام اپنے زمانہ کے علم ریاضیات اور علم ہیئت کا بہت بڑا ماہر تھا۔ وہ سرکاری ستارہ شناس بھی تھا اور بڑا رسوخ اور اقتدار رکھتا تھا لیکن جس خیام کی سارے عالم میں دھوم ہے وہ ’’رباعیات‘‘ کا خیام ہے۔ جس شخص نے اتنی رباعیاں کہہ ڈالی ہوں، کیا اس نے شاعری کی کسی دوسری صنف میں ایک شعر بھی نہ کہا ہوگا؟ گورکن محققین سے کہئے تو شاید وہ پتہ لگا دیں گے کہ خیام سے قصیدہ اور غزل کے بھی کچھ نمونے یادگار ہیں۔ لیکن ہم تو اس کو رباعیات سے جانتے اور مانتے ہیں۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ یورپ نے خیام کو لذتیت (Hedonism)کا علم بردار سمجھ کر قبول کیا اور اس کا ڈھنڈورا پیٹا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے مغربی ممالک میں ’’ابیقوریت‘‘ (Epicureanism) سستی لذت پرستی اور عیش کوشی کی مترادف سمجھ لی گئی۔ حالانکہ بیچارہ ابیقورس اور اس کے شاگردان رشید لذت پرستی سے کوسوں دور تھے۔

    خیام نے اپنی رباعیات میں زندگی کا جو تصور پیش کیا ہے اس کو مجموعی طور پر عارفانہ لاادریت (Mystial Agnosticism) کہہ سکتے ہیں اور یہ خیام اور اس کے عہد کا مزاج تھا جس کے لئے رباعی سے زیادہ موزوں نظم کی کوئی صنف یا ہیئت نہیں ہو سکتی تھی۔ رباعی زندگی کے کلیات و نظریات کے مجذوبانہ (Rhapsodic) اظہار کے لئے سب سے زیادہ مناسب صورت ہے۔

    حافظ نے، جہاں تک مجھے معلوم ہے، دو مختصر مثنویاں ایک بے عنوان اور دوسری ’’ساقی نامہ‘‘ کے عنوان سے کہی ہیں۔ دونوں نامکمل معلوم ہوتی ہیں۔ اس نے بہت سے قطعات اور رباعیات بھی کہیں ہیں۔ اس نے پانچ مختصر قصیدے بھی لکھے ہیں جو پکار پکار کر کہتے ہیں کہ شاعر قصیدہ میں بالکل معذور ہے۔ ہم کیا ساری دنیا جس حافظ کو سینے سے لگائے ہوئے ہے، وہ غزل اور وہ بھی ایک خاص انداز کی غزل کا حافظ ہے۔ بات یہ ہے کہ جیسی غزلیں حافظ نے کہی ہیں وہ نہ صرف اس کے اپنے مزاج کا عکس ہیں بلکہ اس کے عہد کے مزاج کی بھی اگر مکمل آئینہ داری ہو سکتی تھی تو اسی طرز کی غزل سرائی میں ہو سکتی تھی۔

    انگریزی میں شیکسپئر سے لے کر ملٹن تک غنائی، ڈرامائی اور رزمیہ شاعری کو قبول عام حاصل رہا اور بیشتر اکابر انہیں اصناف میں اپنے بہترین کارنامے پیش کرتے رہے۔ ہیئتوں میں نظم غیرمقفی اور سانیٹ عوام اور خواص دونوں میں مرغوب ہیئتیں رہیں۔ اس دور کی کچھ اچھی نظمیں چہار مصرعے یعنی (Stanza Form) میں بھی ملتی ہیں۔

    جتنی مثالیں اوپر دی جا چکی ہیں، ان میں کسی دور میں کسی شاعر نے شاعری کی کسی صنف یا کسی ہیئت کے خلاف کوئی فتوی نہیں دیا۔ بس یہ ہوتا رہا کہ چاہے اپنے عہد کے مزاج سے، چاہے خود اپنے مزاج سے غیرشعوری اور بے تکلف طور پر متحرک ہوکر شاعر نے اپنے بہترین کارنامے کسی خاص صنف اور کسی خاص ہیئت میں پیش کئے۔ انگریزی شاعری میں صرف ایک عہد ایسا نظر آتا ہے جس نے نظم غیر مقفی اور سانیٹ کو ڈھنڈورا پیٹ کر دیس نکالا دے دیا اور صرف Heroic Complete کو، جس کوہندی کا دوہا یا سوٹھا سمجھئے، شاعری میں وقت کا حکم ناطق قرار دیا۔

    اس کے علاوہ اگر کسی ہیئت کو یہ عہد سرپرستانہ طور پر برداشت کر سکتا تھا تو وہ چہار مصرعہ یا Stanza Form تھا۔ مگر یہ اٹھارہویں صدی تھی جس کو انگریزی تمدن اور ادب کی تاریخ میں عقل و ہوش اور نثر کی پہلی صدی کہا گیا ہے۔ یہ انگریزی نثر کا پہلا عظیم دور تھا۔ لیکن شعر کہنے کی آرزو ہوس بن کر ہماری روح سے لپٹی رہتی ہے۔ پوپ عظیم نثر لکھنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا اوران معنوں میں وہ شاعر بھی نہیں تھا جن معنوں میں ہم اسپنسر، شیکسپئر، ملٹن، ورڈسورتھ، کیٹس اور شیلی کو شاعر کہتے ہیں۔ اس لئے اس نے نظم کی ایسی ہیئت اختیار کی جو نثر سے قریب اقرب رکھتی ہو یعنی (Heroic Complets) اور باقی تمام ہیئتوں کو قلم زد کر دیا۔ اس دور میں پوپ کے قدوقامت کا کوئی ایسا بڑا باغی نہیں تھا جو پوپ کی آواز کے خلاف آواز بلند کرتا اور نظم کی ہرصنف اور ہرہیئت کو اس کا حق دلاتا۔

    بہر صورت اٹھارہویں صدی دراصل نثر کی صدی تھی جس نے انگریزی نثر کو پہلی مرتبہ اس قابل بنایا کہ آج وہ نظم کی ہم پلہ ہی نہیں ہے، بلکہ اس سے زیادہ قابلیت اور وسعت اپنے اندر پیدا کر لی ہے۔ انسان کی انفرادی یا اجتماعی زندگی اب جو رخ بھی اختیار کرے انگریزی نثر اس کے تمام نئے مسائل و معاملات سے عہدہ بر آ ہو سکتی ہے۔ اٹھارہویں صدی انگریزی ادب میں بڑا اہم دور ہے اور ایسی دانشمندانہ نثر جس کو ادب بھی کہا جا سکے اس کی سب سے بڑی دین ہے۔ اس سے کوئی قابل تصور مستقبل انکار نہیں کر سکتا، لیکن اس صدی نے اپنے منصب سے ہٹ کر نظم میں بے جا مداخلت کی اور گنتی کے چند مخصوص ہیئتوں اور اصناف کو اپنا معیار بناکر باقی تمام صنفوں اور ہیئتوں کو تخیل کی بے اعتدالی سمجھا اور ان کی تحقیر آمیز مخالفت اپنا منصبی فرضی سمجھا۔

    ہم سب جانتے ہیں کہ اٹھارہویں صدی کی آخری دہائیوں میں اس ادبی استبداد و احتساب کے خلاف پیش رومانیوں (Pre Romantics) نے کیسی کیسی مجاہدانہ کوششیں کیں۔ گرے (Gray) نے Odes یعنی خطابیہ نظمیں لکھیں۔ بلیک (Black) نے اپنی معصوم اور مجذوبانہ نظموں کے پردے میں ہم کو ایک ماورائی عالم کا احساس دلانا شروع کیا۔ کاوپر (Cowper) نے صاف صاف کہہ دیاکہ خدا نے دیہاتی بستیاں بنائیں اور آدمی نے شہر بسائے۔ برنس (Burns) نے ہل اور کھیتی کو مرکز قرار دے کر خالص عشقیہ شاعری کی جو آج بھی ہمارے لئے معصوم عشقیہ نظم نگار ی میں نمونہ بن سکتی ہے۔

    اور پھر کولرج Coleridge اور ورڈسورتھ کا عہد آتا ہے جو رومانیوں (Romantics) کی پہلی نسل ہے جس نے اٹھارہویں صدی کی ادبی جباریت (Literary Tyranny) سے کیا کچھ انتقام نہیں لیا۔ سب سے پہلے ان لوگوں نے جس بات پر زور دیاوہ ایسی مسرت تھی جس سے وسیع سے وسیع تر حلقہ عوام اپنے کو مانوس پائے اور جو کثیر سے کثیر تعداد کے لئے قابل قبول ہو اور پھر زبان اورانداز بیان میں کسی قسم کی غرابت نہ ہو۔ خود ورڈسورتھ اور کولرج اپنے اس معیار پر کس حد تک پورے اتر سکے؟ یہ ایک الگ سوال ہے مگر یہ تو حقیقت ہی ہے کہ ان لوگوں نے اٹھارہویں صدی کی شعری روایتوں سے بغاوت کی اور شدید بغاوت کی اور انتقامی ولولہ کے ساتھ نظم غیرمقفی، سانیٹ اور خطابیہ نظمیں لکھیں۔

    رومانی دور کے انگریزی شاعروں نے اپنے غیرفانی منظومات انہیں ہیئتوں میں یادگار چھوڑے ہیں۔ یہاں تک پہنچنے کے بعداب ہم اس قابل ہیں کہ تعمیم کرکے ایک کلیہ پیش کر سکیں۔ یہ صحیح ہے کہ ہر دور میں تخلیقی اظہار کے اسلوب وہیئت میں نئے تجربے ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے اور ان میں سے بیشتر زندہ رہ گئے ہیں اور زندہ رہیں گے۔ لیکن اول تو اس کا یہ نتیجہ نہیں ہونا چاہئے کہ پرانی ہیئتوں نے ہم کو جو کچھ دیا ہے اس سے انکار کر دیا جائے، یا اس کی تحقیر کی جائے۔ دوسرے اگر غور سے کام لیا جائے تو ماننا پڑےگا کہ اصل چیز میلان فکر اور اسلوب اظہار ہے۔ انہیں میں تغیر اور ترقی کی ضرورت ہے۔ میلان فکر اور اسلوب اظہار کو نصف صدی پیچھے نہیں ہونا چاہئے۔

    جہاں تک کسی مخصوص صنف یاہیئت کا سوال ہے تو وہ پرانی ہو یا نئی، اگر وہ ہمارے بدلتے ہوئے میلان فکر کے مطالبات کو پورا کر سکتی ہے اور ہمارے نئے اسلوب اظہار کی متحمل ہو سکتی ہے اور اگر وہ کسی نثر نگار یا نظم نگار کے مزاج سے خاص مناسب رکھتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کو اختیار نہ کیا جائے۔ اس موقع پر مجھے کچھ مثالیں یاد آ رہی ہیں۔ انگریزی نظم کی مشہور و مقبول ہیئت سانیٹ بڑی پرانی ہیئت ہے اور روایتی طور پر غزل کی طرح اس کا بھی اصلی موضوع عشق ہے اور سانیٹ کی اکثریت حسن و عشق کے جذبات و معاملات ہی سے متعلق ہے، مگر ذرا ملٹن اور ورڈسورتھ کو سامنے رکھئے۔ یہ شعرا جہاں نظم غیرمقفی کے مانے ہوئے استاد ہیں، وہیں وہ سانیٹ کی ہیئت کے ایسے ماہر ہیں کہ کسی دور میں بھی انگریزی سانیٹ کی تاریخ ان کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔ ان دونوں کی سانیٹ کا حجم اچھا خاصا ہے۔ لیکن ان میں ایک نے بھی عشقیہ جذبات سے متعلق کوئی سانیٹ نہیں لکھی، دونوں نے اپنے اپنے دور کے ایسے عملی مسائل اور فکری رموز سے متعلق سانیٹ لکھیں جو بالکل غیر انفرادی ہیں اور عام انسان کی زندگی سے متعلق ہیں۔

    سانیٹ کے سلسلہ میں ایک مثال اور دینا چاہتا ہوں جو ملٹن اور ورڈسورتھ سے بھی زیادہ اہم ہے اور وہ روپرٹ بروک (Rupurt Brooke) ہے جو اٹھائیس سال کی عمر میں اسکائروس کے مقام پر ۱۷ اپریل ۱۹۱۵ء میں اپنے ملک اور اپنی قوم کا ناموس قائم رکھنے کے لئے جنگ میں مارا گیا۔ ’’سپاہی شاعروں‘‘ میں اس کا نام ہمیشہ سر فہرست رہےگا۔ اس نے جہاں اور بہت سی نظموں میں اپنے مزاج اور اپنے دور کے مزاج کی عکاسی کی ہے وہاں چند سانیٹ کا ایک مجموعہ بھی یادگار چھوڑا ہے، جس کا نام ۱۹۱۴ء ہے۔ ان میں سے ہر سانیٹ اپنے زمانہ کی پکار ہے۔

    یہ بیسویں صدی تھی جو سانیٹ کی صدی نہیں کہی جا سکتی۔ یہ وہ زمانہ تھا جبکہ ہاپکنس اور ایلیٹ انگریزی نظم میں وہ نئے تجربات کر چکے تھے جو نئی نسل کو اپنی طرف کھینچ رہے تھے۔ اب ذرا اردو غزل کی طرف پھر آئیے۔ آزاد اور حالی کے بعد نظم کی وہ صنف جس کو اصطلاحاً نظم کہتے ہیں، وقت کی آواز ہو چکی تھی اور غزل گو لکیر کے فقیر سمجھے جانے لگے تھے۔ لیکن اقبال پر ذرا غور کیجئے۔ باوجود اس کے کہ ان کے مزاج کو غزل سے فطری مناسبت تھی، انہوں نے نظمیں لکھیں اور آج وہ اردو نظم کی جدید نسل کے پیغمبر مانے جاتے ہیں، لیکن انہوں نے غزلیں کم نہیں کہی ہیں اور اگرتھوڑی دیر کے لئے ان کی نظموں سے قطع نظر کرکے صرف غزلوں تک توجہ محدود رکھی جائے تونہ صرف یہ کہ وہ غزل کے شاعر معلوم ہوں گے بلکہ واضح طور پریہ بھی محسوس ہوگا کہ انہوں نے غزل کو ایک نیا مزاج دیا جو ان کے عہدکا مزاج تھا۔

    اقبال نے غزل کے دیرینہ روایات اور رموز و علامات میں نئی بلاغتیں پیدا کیں اور اردو غزل کو اس لائق بنایا کہ وہ کائنات کی اصل و غایت، انسانی فطرت کے بدلتے ہوئے داعیات و میلانات اور مائل بہ ارتقا انسانی زندگی کے مسائل کا حل فن کے ناموس کو قائم رکھتے ہوئے پیش کر سکے۔ یہ اور بات ہے کہ ہم ان کے پیش کئے ہوئے حل سے مطمئن نہ ہوں۔ چکبست اپنے مزاج کے اعتبار سے غزل سے زیادہ نظم کے میدان کے سورما تھے۔ مگر نہ صرف یہ کہ وہ غزلیں بھی کہتے تھے بلکہ مشاعروں میں بھی شریک ہوتے تھے اور اپنی غزلیں سناتے تھے، اس لئے کہ ۱۹۲۶ء تک چند مخصوص صحبتوں کے علاوہ کسی مشاعرے میں کوئی شخص نظم پڑھ کر خواص و عوام میں اپنے کوشاعر نہیں منوا سکتا تھا۔ چکبست کی غزلیں مشاعروں میں بھی اور اخبار و رسائل میں بھی بھرپور داد پاتی تھیں۔

    پرانی نسل والے اور نئے دور کے نونہال دونوں اپنے کو چکبست سے مانوس اور ان کی آواز کو اپنے دل کی آواز پاتے تھے۔ چکبست نے اردو نظم (جس کے تحت غزل اور نظم دونوں آتی ہیں) کے روایات و صور اور اصول و اسالیب سے بھی بغاوت نہیں کی۔ بظاہر انہوں نے سب کو جوں کا توں برقرار رکھا۔ لیکن بڑے نازک اور غیرمحسوس طور پر انہوں نے اردو نظم کے ان قدیم ترکیبی عناصر میں نئی روح پھونکنا شروع کی۔ ان کی ایک غزل کو بھی شاید خالص عشقیہ شاعری کے تحت جگہ نہ دی جا سکے۔ نظموں کی طرح ان کی غزلوں کی بھی اصل خصوصیت یہ ہے کہ ان میں ہم کو عام انسانی زندگی کے مسائل و مراحل کی کسک محسوس ہوتی ہے اور ان کے حل کی طرف اشارے ملتے ہیں۔

    اس تمام طول کلام کا مقصد صرف یہ تھا کہ ہم سمجھ لیں کہ نظم یا نثر کی کسی خاص صنف یاہیئت کی شرط نہیں ہے۔ اصل شرط اپنی فکری دیانت داری اور اپنے فنی کردار کی سالمیت ہے۔ اگر ہم واقعی کوئی نئی فکری استعداد رکھتے ہیں، اگر ہم واقعی کسی فن کے اہل ہیں تو ہم کچھ کسی صنف یا ہیئت میں پیش کریں گے، وہ ذاتی تخلیق کی ایک ناقابل فراموش مثال بھی ہوگی اور فکر و فن کی تاریخ میں ایک یادگار منزل بھی۔ نہیں تو وقتی اور عارضی رہے گی اور ثقیل مادی نقطہ نظر سے آپ جتنی بھی چند روزہ شہرت حاصل کر لیں اور مادی اعتبار سے آپ جس قدر بھی کامیاب ہونے کا دعویٰ کر سکیں، لیکن ایک چوتھائی صدی بعد آپ کونہ افراد یاد رکھیں گے نہ تاریخ۔ یہ نہ تو نظم و غزل کا سوال ہے نہ نظم و نثر کا۔ یہ تو جس کی ’’جس سے بن آئی‘‘ والی بات ہے۔ اس لئے کہ فن کاری کی کوئی بھی قسم ہو وہ محبت کی طرح بہرحال ’’دل کا ایک سودا ہے۔‘‘

    ابھی تک بات سادہ اور سیدھی تھی جس میں صرف رایوں کا اختلاف ہو سکتا تھا، لیکن اس سیدھی سادہ بات سے قدرتی طور پر ذہن ایک دوسرے مسئلہ کی طرف منتقل ہوتا ہے جو بہت نازک ہے۔ غزل یا نظم کی کسی ہیئت کو’’نیم وحشی‘‘یا مہذب کہہ دینا تو بڑی سستی قسم کی سہل انگاری ہے۔ نظم انسان کے حاصل کئے ہوئے اولین فضائل میں سب سے اعلیٰ فضیلت ہے۔

    ارسطو نے المیہ کو نقل بتایا ہے۔ ہماری ساری فن کاری بنیادی طور پر مقصدی اور تخلیقی نقل ہے۔ چٹانوں کی نقاشی، رقص، موسیقی، سنگ تراشی، نظم نگاری اصل میں تعویذی یا افسونی قدر رکھتی تھیں اور ہماری روزمرہ زندگی کی مرادوں کی تخیلی نقلیں ہوتی تھیں۔ ان سے اور کچھ ہو یا نہ ہو ہمارے دلوں میں زندگی کا نیا ولولہ اور سعی وپیکار کا تازہ حوصلہ پیدا ہوتا تھا۔ ان تخیلی کوششوں میں سب سے بلند و برتر کوشش نظم نگاری ہے۔ ہمارے مذہبی ملفوظات جن کو الہام کہا جاتا ہے اگر ضوابط کی ظاہری پابندیوں کے ساتھ منظوم نہ بھی ہوں تو بھی منظوم ہونے کا حکم رکھتے ہیں۔ اس لئے الہامی کتابوں کے ایک مکمل جملہ کو آج تک Verse کہا جاتا ہے، جس کے اصل معنی زنجیر یعنی کڑی سے کڑ ی ملانے کے ہیں اور جو آج نظم کے معنو ں میں عام طور پر مستعمل ہے۔ اس سے فن نظم کی برگزیدگی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

    لیکن یہ بھی تاریخ کی ایک حقیقت ہے کہ انسان کا تہذیبی سفر نظم پر رک کر نہیں رہ گیا۔ سوچنے کی بات ہے کہ بالغ اور تربیت یافتہ انسان کی ضرورت اگر صرف نظم سے ہمیشہ کے لئے پوری ہو سکتی تھی تو نظم کے بعد اس کے پیٹ ہی سے نثر کیوں وجود میں آتی اور آج وہ نظم کی ہمسر اور بعض اعتبارات سے اس سے برتر فنکاری کی ایک اہم صنف کیسے ہو گئی۔ ترقی یافتہ مغربی ممالک کی دو سوسال اور اپنے ملک کی سو سال کی تاریخ کو سامنے رکھئے۔ اگر آپ حقیقت کو حقیقت ماننے کی لیاقت رکھتے ہیں تو اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ رفتہ رفتہ نظم کی جگہ نثر لیتی گئی ہے اور روز بروز نظم سے زیادہ نثر میں فنکارانہ رچاؤ پیدا ہوتا گیا ہے اور نثر نظم سے زیادہ ہماری زندگی سے قریب ہوکر ہمارے مسائل و مطالبات کی داد دینے اور ان سے عہدہ بر آہو نے کے قابل ہوتی گئی ہے۔

    بعض ممالک تو ایسے ہیں جو ہمارے ملک سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہیں اور جن کے ادبی اکتسابات ہمارے ادبی اکتسابات سے کہیں زیادہ دنیا میں تخیلی نمونے تسلیم کئے جا چکے ہیں، مگر ان ملکوں کی نظم نے دنیا کو اتنا متاثر نہیں کیا ہے جتنا کہ ان کی نثر نے کیا ہے، روس، امریکہ، ناروے، سویڈن اور ڈنمارک ہمارے دعوے کی تائید کریں گے۔ ان ملکوں کی نظم نگاری نے خود ان کے ملک کو جتنا بھی ابھارا ہو، لیکن عالمی قدر و اہمیت ان کی نثر ہی کو حاصل ہو سکی ہے۔

    اب ذرا انگریزی ادب پر پھر تاریخی نظر ڈالئے۔ انگریزی میں پہلے بھی نثر لکھی جا چکی تھی۔ جان لائیلی (John Lyly) کی Euphues سرفلپ سڈنی کی Apologic For Poesic سرطامس براؤن کی Religio Medice اور Hydrotaphia اور Bacon کے مضامین لکھے جا چکے تھے جو انگریزی نثر کے فنکاری ہونے کے اولین شواہد ہیں۔ لیکن انگریزی نثر نے جو اعتبار اور جو امتیاز اٹھارہویں صدی میں حاصل کیا وہ اس سے پہلے اس کو کبھی نصیب نہیں ہوا تھا۔ اس کے بعد انگریزی نثر برابر اعتماد اور استقامت کے ساتھ آگے بڑھتی گئی اور نظم کے مقابلہ میں زیادہ ترقی کرتی رہی۔ اٹھارہویں صدی تو خیر انگریزی نثر کی صدی کہی گئی ہے، ذرا انیسویں صدی کے ادبی اکتسابات کو نگاہ میں رکھئے۔ کولرج اور ورڈسورتھ سے لے کر مارس اور سوئنبرن تک عظیم نظم نگاروں سے عظیم نثرنگاروں کی تعداد کچھ زیادہ ہی ملےگی اور پھر جو تنوعات آپ کو نثر میں ملیں گے وہ نظم میں نہیں ملیں گے۔

    ورڈسورتھ اور کیٹس سے لے کر ٹینی سن، میتھو آرنلڈ اور سوئنبرن تک نظم میں فکر اور اسلوب دونوں کے اعتبار سے وہ رنگارنگی نہیں ملے گی جو اس دور کی زندگی کا تقاضہ ہے اور جو کولرج سے لے کر آسکرو آئلڈ تک کے نثری کارناموں میں ہم کو ملتی ہے اور پھر یہ نہ بھولئے کہ جن لوگوں کے نام گنائے گئے وہ سب کے سب نظم نگار بھی تھے اور نثار بھی۔ لیکن ان میں اکثر ایسے ہیں جن کے نثری کارنامے، ان کی نظموں کے مقابلہ میں ہم کو زیادہ متاثر کر رہے ہیں، باوجود اس کے کہ وہ خود اپنے دور کے معمولی نظم نگار نہیں تھے۔ مثلاً کولرج، میتھو آرنلڈ، طامس ہارڈی وغیرہ اور بیسویں صدی کی انگریزی نثر تو افکار اور اسالیب، مواد اور ہیئت دونوں میں تنوع اورہمہ گیری کے لحاظ سے انگریزی نظم سے منزلوں آگے ہے۔

    یہی حال اور ترقی یافتہ ملکوں کے ادب کا ہے۔ خود اردو میں ۱۸۵۷ء کے بعد نثر میں جو تنوع پیدا ہوا ہے اور جو جامعیت آئی ہے اور اردو نثر زندگی کی تمام سمتوں پر جس طرح حاوی ہو گئی ہے، اردو نظم اقبال، چکبست، جوش اور ان کے ورثہ داروں کے باوجود اس کی مثال نہیں پیش کر سکتی۔ نظم اپنے ضوابط کی وجہ سے کبھی بھی زندگی کے نئے میلانات اور ان نئے میلانات کے موافق نئے اسالیب کو اس مستعدی کے ساتھ اور اتنا جلد قبول نہیں کر سکتی جو نثر کا عام دستور ہے۔ نثر میں نظم کے مقابلہ میں ردوقبول اور زندگی کی بدلتی ہوئی قدروں سے ہم آہنگی کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے، اس لئے کہ اس کو نظم کے مقابلہ میں آزادیاں اور سہولتیں زیادہ نصیب ہیں۔ نظم کی تاریخ ہزاروں برس کی ہے اور نثر کی عمر گنتی کی چند صدیاں ہیں۔

    ہم نظم یا نظم کی کسی صنف یا ہیئت کو ’’نیم وحشی‘‘ کہنے کے لئے تیار نہیں ہیں، لیکن یہ کھلی ہوئی بات ہے کہ نظم انسان کے گہوارے کی زبان ہے اور اس کے بچپن اور معصومیت کے دور کا یادگار اکتساب ہے۔ نثر بالغ اور زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ انسان کی زبان ہے۔ اس لئے آج زندگی کی پیچیدگیوں میں نثر نظم سے زیادہ مؤثر اور مددگار اور رہنماثابت ہو رہی ہے۔ آج کی نثر حجم، تنوع، کیفیت وکمیت ہر لحاظ سے آج کی نظم سے زیادہ اعتماد کے ساتھ آگے ہے اور نظم کے مقابلہ میں فنکاری اور زندگی دونوں کی ہی ہم آہنگی کا بہتر ثبوت دے رہی ہے۔ پہلے نثر وہ لکھتا تھا جو نظم کی قابلیت نہیں رکھتا تھا اور اپنے کو شاعر سے کمتر سمجھتا تھا۔ آج نظم وہ لکھتا ہے جو نثر کی عظمت کا دل میں قائل ہوتے ہوئے اپنے کو اس میدان میں کسی نہ کسی وجہ سے درماندہ پاتا ہے۔

    میں چاہتا ہوں کہ نظم لکھی جائے، اگر وہ لوگ نظم لکھیں جو واقعی نظم کی قابلیت رکھتے ہوں اور جو لوگ نثر کے زیادہ اہل ہیں وہ خدا کے لئے نظم نہ لکھیں اور اگر کوئی نظم یا نثر کے فنی ناموس اور اس کی عظمت کو برقرار نہیں رکھ سکتا تو وہ نہ نظم لکھے نہ نثر، اس کو چاہئے کہ وہ اپنے ذاتی نفس کی تربیت کے لئے جو لوگ عظیم نظم اور نثر لکھ رہے ہیں ان کامطالعہ حلم اور تحمل کے ساتھ کرتا رہے اور اس وقت تک نظم یا نثر لکھنے کی جرأت نہ کرے جب تک وہ اعتماد کے ساتھ کوئی نئی فکرنہ کر سکے، یعنی زندگی کا کوئی واضح نیا تصور نہ پیش کر سکے یا بیان اور ابلاغ کا کوئی نیا اسلوب نئی نسل کو نہ دے سکے۔

    میرا مقصد نظم کی اولیت اور اس کی عظمت کو گھٹانا نہیں ہے۔ نظم نے انسانی زندگی کی تہذیب و تحسین اور اس کو جمیل سے جمیل تر بنانے میں اب تک جو حصہ لیا ہے، اس نے انسان کے انفرادی اور اجتماعی کردار کو جو شرافتیں اور لطافتیں بخشی ہیں ان سے ہماری تہذیب کے ترقی یافتہ سے ترقی یافتہ دور میں انکار کرنا کفران نعمت ہوگا۔ اگر نظم نہ ہوتی تو آج نثر فنکاری کی حیثیت نہ حاصل کر سکتی۔ والٹر ریلے نے بڑی بلیغ بات کہی ہے، ’نظم نثر کی معلمہ ہے۔‘‘ میرا خیال ہے کہ نظم نثر کی ماں، اس کی دودھ پلائی اور اس کی ادیب و اتالیق ہے اور جہاں تک اردو نثر کا سوال ہے نہ صرف ولی، سراج، درد، سودا، میر، مصحفی، غالب، حالی، اقبال اور چکبست نے نثر کو نثر ہونا سکھایا ہے، بلکہ ذوق، ناسخ، امانت، فصاحت، امیر مینائی اور ریاض کی نظم نگاری نے بھی اردو نثر کو جس قدر تیز و طرار بنایا ہے اس کو تسلیم نہ کرنا تاریخ کو جھٹلانا ہوگا۔

    اپنا دائرہ اردو نظم و نثر تک رکھتے ہوئے مجھے کہنے کی اجازت دیجئے کہ نئی نسل کے جس نثر نگار نے عادل شاہی اور قطب شاہی دور کے نظم نگاروں سے لے کر میر و غالب تک اور میر و غالب سے لے کر مرزا شوق اور امانت و فصاحت تک کا مطالعہ نہیں کیا ہے، وہ اچھا نثر نگار نہیں ہو سکتا اور اس کا کوئی نثری پارہ عظیم نثر نہیں ہو سکےگا لیکن جہاں تک ہم دور سے دورتر مستقبل کا تصور کر سکتے ہیں، ہم کو صاف طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب نظم سے زیادہ ہم کو نثر کی ضرورت ہے، ایسی نثر کی جو نظم کی جگہ لے سکے اور اپنے کو ہر اعتبار سے نظم کے ترکے کی وارث ثابت کر سکے۔

    ممکن ہے کبھی ایسا دور آئے کہ انسان کو وہ نفس مطمئنہ حاصل ہو سکے، جو دور معصومیت میں حاصل تھا، حالانکہ اس وقت کی زندگی ہماری زندگی کے مقابلہ میں کہیں زیادہ پرصعب اور دشوار گزار تھی۔ ہم ساری تہذیبی ترقی اور ان تمام سہولتوں کے باوجود، جو فتح کائنات نے ہمارے لئے مہیا کر دی ہیں، اپنے آبا و اجداد سے زیادہ غیرمطمئن ہیں۔ آج ہماری زندگی کی سب سے زیادہ نمایاں خصوصیت نظیری کی زبان میں وہ ’’خاطر پریشان‘‘ ہے جس کے ہوتے ہوئے نماز ادا نہیں کی جا سکتی، یا بقول سعدی پراگندہ روزگار اتنا پراگندہ دل ہوتا ہے کہ اس کی دو رکعت نماز بھی پریشانی کے ساتھ ادا ہوتی ہے۔

    خدا کرے کہ ہمارا حال مستقبل کی طرف جو اشارے کر رہا ہے، وہ سب غلط ہوں اور جلد یا دیر کوئی ایسا مستقبل آئے کہ انسان اپنی اصلی اور فطری معصومیت اور اس معصومیت کی دی ہوئی تمام وہ شرافتیں پھر حاصل کر سکے جن کو وہ کھو چکا ہے، پھر شاید اتنی ہی عظیم نظمیں لکھی جانے لگیں اور وہ ہماری زندگی کی ویسی ہی نمائندگی کر سکیں جیسی کسی زمانہ میں کرتی تھیں۔ پھر ظاہر ہے کہ نثر نظم سے شرمائےگی۔

    میں اپنے ان خیالات میں مبتلا تھا کہ حال میں زندگی اور ادب کے مشہور امریکی نقاد اڈمنڈولسن (Edmind Wilson) کا ایک مضمون میری نظر سے گزرا، جس کا عنوان Is verse a Dying Technique ہے۔ اس کی رائے بھی وہی ہے جو میری رائے ہے۔ مگر وہ صرف دبی زبان سے یہ کہہ سکا ہے کہ نظم اب ایک مرتا ہوا فن ہے اور اس کی جگہ اب نثر لے رہی ہے۔ میرے خیال میں نظم کبھی بھی مرتا ہوا فن نہیں ہوگی۔ وہ اس وقت تک زندہ رہے گی جب تک بالغ انسان کے اندر بچپن اور بچپن کی معصومیت کسی نہ کسی حد تک باقی رہےگی۔ لیکن فی الحال نظم میں وہ توانائی نہیں ہے جو نثر نے اپنے اندر پیدا کر لی ہے اور جو اب زندگی کا فن سے مطالبہ ہے۔

    اڈمنڈ ولسن کا خیال بہت صحیح ہے۔ نثر نے آج نظم کے سارے فن کو اپنے اندرجذب کر لیا ہے۔ ہزاروں برس کی تاریخ میں نظم نے جتنے زندہ اور پائندہ فنی محاسن کمائے تھے نثر نے ان سب کو اپنے اندر سمو لیا ہے اور آج اس قابل ہو گئی ہے کہ ہم اس کو ان معنوں میں ’’الوہی‘‘‘ یا آسمانی الہامی یا غیبی (Divine) کہہ سکیں جن معنوں میں ہم ہومر کو کہتے تھے یا جن معنوں میں کبھی شاعری یعنی نظم کو ’’پیغمبری کا ایک جزو‘‘ کہا گیا تھا۔

    میں نے اب تک بڑی احتیاط اور التزام کے ساتھ نظم اور نظم نگار کو شعر اور شاعر سے مخلوط ہونے نہیں دیا ہے۔ شعر اور نظم میں فرق ہے۔ شعر یا شاعری تخلیقی شعور کا نام ہے۔ وہ ایسا جمالیاتی احساس ہے جو دور بدور ترقی کرتا رہا ہے اور جس کے اظہار کی ایک صورت نظم ہے۔ اس نقطہ نظر سے نثر اور نظم کے درمیان تو فرق ہو سکتا ہے، نثر اور شعر کے درمیان کوئی تضاد نہیں۔ اگر کسی قول میں شاعری کے تمام محاسن موجود ہیں اور وزن کی پابندی نہیں ہے تو وہ نثر ہے اور اگر وزن کی پابندی بھی موجود ہے تو وہ نظم ہے۔ یعنی ہو سکتا ہے کہ نظم کا ایک مصرعہ شعر نہ ہو اور نثرکا ایک فقرہ شعر ہو۔ اسی لئے کولرج نے کہا تھا کہ نثر کی ضد شاعری نہیں ہے بلکہ نظم ہے اور شاعری کی ضد نثر نہیں ہے بلکہ سائنس ہے۔

    یہ بہت بڑی بات کہی گئی ہے جو صرف اپنے وقت کی آواز نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے ایک پیغام ہے۔ اگر نثر میں وہ جادو نہیں ہے جس کو ہم نظم سے منسوب کرنے کے خوگر ہو گئے ہیں تو وہ نثر نہیں ہے بلکہ کوئی صحافتی ٹکڑا ہے یا ریاضیات، کیمیا یا طبعیات کے قانون کا بیان ہے۔ نثر کو اگر فن ہونا ہے تو اس کو نظم ہوئے بغیر شعر ہونا ہے۔ یعنی ظاہری اور محسوس وزن کے بغیر اگر نثر میں بھی وہ آہنگ یا رقص صوتی نہیں جو شعر کا مطالبہ ہے تو وہ نثر نثر ہوتے ہوئے بھی کوئی فنی تخلیق نہ ہوگی۔

    ابھی اس مسئلہ پر بہت کچھ اور کہا جا سکتا ہے جس کے کہنے کی ضرورت بھی ہے۔ میں اپنے ہم خیال اور اپنے سے مختلف خیال رکھنے والے دوستوں کے کانوں میں ایک بات ڈال دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ ہم لوگ اپنی زبان اور ادب کی تمام ترقیوں کے باوجود نظم اور نثر دونوں میں ابھی بالشتئے (Pygmies) ہیں اور ہم کو دنیا بالخصوص مغربی دنیا کے ادبی دیو قامتوں سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ نظم اور نثر کا صحیح تصور اسی طرح ہمارے اندر پیدا ہو سکتا ہے۔ پھر نظم اور نثر دونوں کی تاریخ اور دونوں کے تاریخی مناصب کا شعور ہم کو ایک دوسرے کے خلاف کھلانے اور لڑانے سے باز رکھےگا۔ پھر نہ نظم کہنے والا نثر لکھنے والے کو حقیر سمجھےگا، نہ نثر لکھنے والا نظم لکھنے والے سے اپنے کو برتر سمجھےگا۔ یہ یاد رکھئےگا کہ نہ چند مبہم مصرعے موزوں کرتے چلے جانے کا نام نظم ہے اور نہ پسینہ پسینہ ہوکر چند فقرے ہموار کر لینے کو نثر کہتے ہیں۔

    میں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، ابھی ان پر بڑے مطالعہ اور غور و فکر اور بڑی تفصیل و توضیح کی ضرورت ہے۔ میری درخواست ہے کہ بغیر اپنی ذات یا اپنے پڑوسی کی ذات کو درمیان میں لائے ہوئے ان پر سنجیدگی اور متانت کے ساتھ سوچا جائے۔

    ایک دوسرا دھوکہ بھی دور کر دینا چاہتا ہوں۔ جن خیالات کا میں نے اس مضمون میں اظہار کیا ہے، ان پر تقریباً ایک سال سے زبانی اپنے ہم پیشہ نوجوانوں کے درمیان بحث کر رہا ہوں۔ میرے بعض رفیق میرا اصل مطلب سمجھے بغیر میری اس رائے کو علی گڑھ اور علی گڑھ سے باہر مختلف صحبتوں میں پیش کرتے رہے جس کے بارے میں مجھ سے مقامی بازپرس کے علاوہ باہر سے بھی سوال کیا جاتا رہا ہے۔ یہ ہمارے زمانہ کی حقیقت ہے کہ نثر فن کی حیثیت سے نظم سے زیادہ ہمارے کام آ رہی ہے اور صرف ہندوستان میں نہیں بلکہ سارے مشرق و مغرب میں نثر نظم سے زیادہ لکھی اور پڑھی جا رہی ہے، لیکن میری دلی آرزو بھی یہی ہے کہ خدا کرے تہذیب کا کوئی ایسا دور پھر آئے کہ ہماری نظم پھر ویسی ہی عظیم ہو جائے جیسی وہ کبھی تھی۔

    مجھ سے پوچھا جاتا رہا ہے کہ اگر نظم کی جگہ نثر لے رہی ہے تو اس کا کیا راز ہے کہ آج تک جتنے بڑے نقاد ہوئے ہیں وہ نظموں پر ہی تنقید کرتے رہے ہیں اور نظم کو ادبی تخلیق کا معیار قرار دے کر ادب سے بحث کرتے رہے ہیں۔ بات بہت صحیح اور معقول ہے۔ میں نے خود نثرنگاروں سے کہیں زیادہ شاعروں پر لکھا ہے۔ یہ سوال نظم کی عظمت اور حرمت کی حمایت میں کیا گیا تھا، اسی کو دوسرے فریق نے نظم اور تنقیددونوں کی تنقیص میں پیش کیا۔ بات صاف ہو جانا چاہئے۔ یہ واقعہ ہے کہ دنیا کی ہر زبان میں اب تک جتنی ادبی تنقیدیں لکھی گئی ہیں ان کا بیشتر حصہ نظم اور نظم نگاروں سے متعلق ہے لیکن اول تو اس سے میرے اصلی دعو ی کی تردید نہیں ہوتی۔ تنقیدنگار اگر اب تک نظم کو اپنی تنقید کا مرکز بنائے رہے ہیں اور اگر آئندہ بھی بنائے رہیں تو اس سے یہ بات غلط کہاں ثابت ہوتی ہے کہ گزشتہ دو ڈھائی سو سالوں کے عرصہ میں نثر نے جیسی ترقی کی ہے نظم نہیں کر سکی ہے۔ نظم اپنی تمام ہیئت تراشیوں اور بدعتوں کے باوجود کچھ گھٹی گھٹی سی ہے۔

    دوسری بات یہ ہے کہ اگرچہ نظم پر تنقیدی سرمایہ کی مقدار بہت زیادہ ہے، لیکن نثر پر تنقیدی ادب کا حجم اتنا کم نہیں ہے جتنا لوگ سمجھتے ہیں۔ خود اردو میں نثر اور نثرنگاروں پر کم نہیں لکھا گیا ہے۔ یہ مانتے ہوئے بھی نظم کے مقابلہ میں نثر پربہت کم لکھا گیا ہے اور ابھی بہت کچھ لکھنے کی ضرورت ہے۔ حالی اور ان کے معاصرین نے اردو نثر اور نثرنگاروں پر بہت کم لکھا۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ صحیح معنوں میں اردو نثر اسی زمانہ میں لکھی جانے لگی تھی اور اپنی تمام تخلیقات کے باوجود ابھی ایسا اعتبار نہیں حاصل کر سکی تھی کہ اعتماد اور قطعیت کے ساتھ اس کی ادبی حیثیت پر کوئی حکم لگایا جا سکتا۔

    شکایت یہ کی جاتی ہے کہ حالی، آزاد اور شبلی نے نثر پر کیوں نہیں لکھا۔ ان بزرگوں نے عصری ادب پر بالکل نہیں لکھا ہے، اپنے دور کے نظم نگاروں پر بھی نہیں لکھا ہے۔ اپنے زمانے کے فکری اور عملی اکتسابات پر رائے دینا مشکل ہوتا ہے۔ کسی چیز کو دیکھنے اور پرکھنے کے لئے ایک مخصوص فاصلے اور زاویے کی ضرورت ہوتی ہے جو کسی کو خود اپنے عہد کے لئے میسر نہیں ہوتا۔ معترض یہ کہہ سکتا ہے کہ نثری داستانیں پہلے سے موجود تھیں۔ ان پر ان اکابر نے کیوں نہیں لکھا؟ اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ انیسویں صدی میں اور بیسویں صدی کی پہلی دو دہائیوں تک اردو داستانوں کو ادب میں شمار نہیں کیا جاتا تھا۔ ان کو محض تفریح کا سامان اور بیشتر تضیع اوقات اور تخریب اخلاق کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔

    مجھے یاد ہے کہ نوجوان اس زمانہ میں طلسم ہوش ربا، بوستان خیال، قصہ ممتاز اور اردو الف لیلہ چھپ چھپ کر پڑھتے تھے اور جب بڑے بوڑھے سراغ لگا لیتے تھے تو یہ کتابیں چھین لی جاتی تھیں، حالانکہ خود یہ بڑے بوڑھے بغیر کسی قسم کی شرم محسوس کئے ہوئے علی الاعلان یہی کتابیں پڑھتے رہتے تھے۔ ایسا کیوں تھا؟ یہ پوچھنے کا ہم کو کوئی حق نہیں۔ یہ تواس زمانے کے اقدار اور معیار تھے۔ جیسے نئی نسل کے اقدار و معیار ہیں جو پرانی نسل والوں کی سمجھ میں کسی طرح نہیں آ سکتے اور اگر سمجھ میں آ جائیں تو وہ پرانی نسل والے نہ رہیں۔ یہ بھی ذہن میں رکھئے کہ جس زمانہ کا میں ذکر کر رہا ہوں اس زمانہ میں دوسرے ملکوں میں بھی داستانوں کو ادبی نثر میں وہ حیثیت حاصل نہیں تھی جو آج ہے۔

    ارباب نقد و بصراب تک نثر سے زیادہ نظم پر کیوں لکھتے رہے؟ اس کا راز یہ ہے کہ نظم کی تاریخ نثر کی تاریخ سے بہت پرانی ہے اور ہماری کچھ عادت ہو گئی ہے کہ ادب پر فنکاری کی حیثیت سے رائے دیتے وقت نظم اور نظم نگار ہی ہمارے ذہن کے پیش منظر میں ہوتے ہیں۔ ایک اوربات ہے۔ نظم کی عظمت اور اس کی قدامت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ نظم کی تشریح و تحلیل اور اس پر تنقید نثر کے فکری تجزیہ اور اس کے اسلوب کی تشریح اور دونوں پر تنقید سے زیادہ سہل ہے۔ اس لئے کہ نظم کے کلیات و مسلمات بہت پہلے سے موجود ہیں جن کا سہارا لے کر اپنی بات زیادہ آسانی کے ساتھ سمجھائی جا سکتی ہے۔

    مأخذ:

    تنقید کے بنیادی مسائل (Pg. 81)

      • ناشر: شعبۂ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
      • سن اشاعت: 1967

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے