aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ناول کا موضوع

پریم چند

ناول کا موضوع

پریم چند

MORE BYپریم چند

    ناول کا میدان اپنے موضوع کے اعتبار سے دوسرے فنون لطیفہ سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ والٹر بسنٹ نے اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار ان لفظوں میں کیا ہے، ’’ناول کے موضوع کی وسعت انسانی زندگی سے کسی طرح کم نہیں۔ ان کا تعلق اپنے کرداروں کے فکر و عمل، ان کی انسانیت اور حیوانیت نیکی اور بدی سے ہے۔ ان کی نفسیات کی مختلف صورتیں اور نو بہ نو حالات میں ان کا ارتقا ناول کا خاص موضوع ہے۔‘‘

    موضوع کی ہمہ گیری سے ہی ناول کو دنیا ئے ادب میں ایک اہم درجہ حاصل ہوا۔ اگر آپ کو تاریخ سے دلچسپی ہے تو آپ اپنے ناول میں گہرے سے گہرے تاریخی حقائق کا اظہار کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کو فلسفہ سے لگاؤ ہے تو آپ ناول میں بڑے بڑے فلسفیانہ مسائل کی تفسیر و تنقید کر سکتے ہیں۔ اگر آپ شعری صلاحیت رکھتے ہیں تو ناول میں اس کے لئے بھی بڑی گنجائش ہے۔ سماج، سیاست، سائنس اور آثار قدیمہ سبھی موضوعات ناول میں سما سکتے ہیں۔ یہاں ادیب کو اپنے قلم کے جوہر دکھانے کا جتنا موقع مل سکتا ہے، اتنا ادب کی کسی اور صنف میں ممکن نہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ناول نگار کے لئے کوئی قید ہی نہیں ہے۔ ناول کے موضوع کی وسعت ہی ناول نگار کو بیڑیوں میں جکڑ دیتی ہے۔ تنگ گوشوں پر چلنے والوں کے لئے اپنی منزل پر پہنچنا اتنا مشکل نہیں ہے جتنا ایک بڑے میدان میں چلنے والے کے لئے۔

    ناول نگار کے لئے سب سے اہم چیز اس کی تعلیمی صلاحیت ہے۔ اگر اس میں اس کی کمی ہے تو وہ اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اگر اس میں اور چاہے جتنی کمیاں ہوں لیکن تخیل کی قوت ناگزیر ہے۔ اگر اس میں یہ قوت موجود ہے تو وہ ایسے کتنے ہی مناظر و واقعات اور کیفیات کی تصویر کشی کر سکتا ہے جن کا اسے ذاتی تجربہ حاصل نہیں ہوا۔ اگر اس میں یہ صلاحیت نہیں تو خواہ اس نے کتنی ہی سیر و سیاحت کی ہو اور وہ کتنا ہی عالم کیوں نہ ہو اور اس کے تجربات کا دائرہ کتنا ہی وسیع کیوں نہ ہو اس کی تخلیق میں دل کشی نہیں آسکتی۔ ایسے کتنے ہی ادیب ہیں جن میں انسانی زندگی کے واقعات کو دلچسپ اور مؤثر اسلوب میں بیان کرنے کی صلاحیت موجود ہے لیکن وہ تخیل کی کمی کی وجہ سے اپنے کرداروں میں زندگی کے آثار پیدا نہیں کر سکتے، جیتی جاگتی تصویریں نہیں کھینچ سکتے۔ ان کی نگارشات کو پڑھ کر ہمیں یہ خیال نہیں ہوتا کہ ہم کوئی سچا واقعہ دیکھ رہے ہیں۔

    اس میں شک نہیں کہ ناول نگار کا طرز بیان دلکش اور مؤثر ہونا چاہئے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم الفاظ کا گورکھ دھندا رچ کر پڑھنے والے کو اس مغالطہ میں ڈال دیں کہ اس میں ضرور کوئی نہ کوئی حسن یا خوبی ہے جس طرح کسی آدمی کا ٹھاٹ باٹ دیکھ کر ہم اس کی اصلیت کے بارے میں غلط رائے قائم کر لیتے ہیں، اسی طرح ناول کی لفظی شان و شوکت دیکھ کر ہم خیال کرنے لگتے ہیں کہ اس میں کوئی اعلیٰ مقصد چھپا ہوا ہے۔ ممکن ہے ایسے ادیب کو کچھ دیر کے لئے مقبولیت مل جائے۔ لیکن عوام ان ہی ناولوں کو پسند کرتے اور قابل احترام کہتے ہیں جن کی خصوصیت پیچیدگی اور دقت پسندی نہیں بلکہ ’عام فہمی‘ ہوتی ہے۔

    ناول نگار کو اس کا حق ہے کہ وہ اپنے قصہ کو واقعات سے دلچسپ بنائے لیکن شرط یہ ہے کہ ہر واقعہ قصہ کے اصل خاکے سے قریبی تعلق رکھتا ہو بلکہ اتنا ہی نہیں اس میں اس طرح گھل مل گیا ہو کہ قصہ کا ضروری حصہ معلوم ہو، ورنہ ناول کی صورت اس مکان کی سی ہو جائے گی جس کا ہر حصہ علیحدہ ہو۔ جب ناول نگار اپنے موضوع سے ہٹ کر کسی دوسرے سوال پر بحث کرنے لگتا ہے تو وہ قاری کی اس لطف اندوزی میں مخل ہوتا ہے جو اسے قصہ میں محسوس ہو رہی ہے۔ ناول میں وہی واقعات اور وہی خیالات لانا چاہئے جن سے قصہ کی روانی بڑھ جائے جو پلاٹ کے ارتقا میں معاون ہوں۔ یا کرداروں کی داخلی کیفیت اور کشمکش کو سامنے لاتے ہوں۔ قدیم داستانوں میں داستان نگار کا مقصد واقعات کی تصویریں دکھانا ہوتا تھا، اس لئے وہ ایک قصہ میں کئی کہانیاں شامل کر کے اپنا مقصد پورا کر لیتا تھا۔ عصری ناولوں میں ناول نگار کا مطمح نظر کرداروں کے جذبات، احساسات اور واقعات کو سامنے لانا ہوتا ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے کرداروں کو گہری نگاہ سے دیکھے، اس کے کرداروں کا کوئی حصہ نگاہ سے اوجھل نہ رہنے پائے، ایسے ناولوں میں ضمنی قصوں کی گنجائش نہیں ہے۔

    یہ سچ ہے کہ دنیا کی ہر شے ناول کا موضوع بن سکتی ہے۔ قدرت کا ہر مظہر، انسانی زندگی کا ہر پہلو، جب کسی پختہ کار ادیب کے قلم سے نکلتا ہے تو ادب کا گوہر گراں مایہ بن جاتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ موضوع کی اہمیت اور اس کی گہرائی بھی ناول کی کامیابی میں بہت مددگار ہوتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہمارے کردار کسی اونچے طبقہ کے افراد ہی ہوں، رنج و مسرت، محبت اور نفرت اور رشک و رقابت انسانی نسل کا خاصہ ہیں۔ ہمیں دل کے صرف ان تاروں پر چوٹ لگانی چاہئے جن کی جھنکار سے پڑھنے والوں کے دلوں پر بھی ویسا ہی اثر ہو۔ کامیاب ناول نگار کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے پڑھنے والوں کے دل میں بھی ان ہی جذبات کو بیدار کردے جو اس کے کرداروں میں رونما ہوں۔ پڑھنے والا بھول جائے کہ وہ کوئی ناول پڑھ رہا ہے۔ اس کے اور کرداروں کے درمیان باہمی دوستی اور رفاقت کا جذبہ پیدا ہو جائے۔

    عام حالات میں انسان کی ہمدردی اس وقت تک بیدار نہیں ہوتی جب تک کہ اس پر خاص طور سے توجہ نہ دی جائے۔ ہمارے دل کے تہہ در تہہ جذبات عام حالات میں متحرک نہیں ہوتے۔ اس کے لئے ایسے واقعات کی تخلیق کرنی ہوتی ہے جو ہمارا دل ہلا دیں۔ جو ہمارے جذبات کی گہرائی تک پہنچ جائیں۔ اگر کسی عورت کو مظلومیت کی کیفیت سے دوچار کرانا ہو تو اس واقعہ سے زیادہ اور کون سا واقعہ موثر ہو سکتا ہے کہ شکنتلاؔ راجہ دشنیتؔ کے دربار میں آکر کھڑی ہوتی ہے اور راجہ اسے نہ پہچان کر اس کی توہین کرتا ہے۔ افسوس ہے کہ آج کل کے ناول گہرے جذبات کے آئینہ دار نہیں ہوتے۔ روزمرہ کی سطحی اور معمولی باتوں ہی میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔

    اس امر میں ابھی تک اختلاف ہے کہ ناول میں انسانی کمزوریوں، نفسانی خواہشوں اور رسوائیوں کا تفصیلی بیان مستحسن ہے یا نہیں، مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ جو ادیب اپنے آپ کو محض ان ہی موضوعات میں اسیر کر لیتا ہے وہ کبھی فن کی اس عظمت کو نہیں پاسکتا جو زندگی کی جد و جہد میں ایک انسان کی داخلی حالت کو حق و باطل کی کشمکش اور آخر میں سچائی کی فتح کو نفسیاتی انداز سے دکھاتی ہے۔

    حقیقت پسندی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنی نظر کو پراگندہ تاریک پہلوئوں کی طرف ہی مرکوز کردیں۔ تاریکی میں انسان کو تاریکی کے سوا اور سوجھ بھی کیا سکتا ہے؟ بیشک چٹکیاں لینا یہاں تک کہ نشتر لگانا بھی کبھی کبھی ضروری ہوتا ہے لیکن جسمانی تکلیف چاہے نشتر سے دور ہو جائے۔ لیکن ذہنی یا قلبی تکلیفوں کو ہمدردی اور محبت ہی سے سکون مل سکتا ہے کسی کو نیچ سمجھ کر ہم اسے اونچا نہیں بنا سکتے۔ بلکہ اسے اور نیچے گرادیں گے۔ بزدل یہ کہنے سے دلیر نہیں ہو جائے گا کہ ’’تم بزدل ہو‘‘ ہمیں یہ دکھانا پڑے گا کہ اس میں ہمت، طاقت اور قوت برداشت سب کچھ ہے۔ صرف اسے جگانے کی ضرورت ہے۔ ادب کا تعلق سچائی اور حسن سے ہے۔ یہ ہمیں نہ بھولنا چاہئے۔

    لیکن آج کل بدکاری، قتل، چوری اور ڈاکہ زنی سے بھرے ناولوں کا جیسے سیلاب سا آگیا ہے۔ ادب کی تاریخ میں ایسا کوئی دور نہ تھا جب ایسے بے مصرف ناولوں کی ایسی بھرمار رہی ہو۔ جاسوسی ناولوں میں آخر اتنی دلچسپی کیوں ہوتی ہے؟ کیا اس کا سبب یہ ہے کہ لوگ اب پہلے سے زیادہ گناہ آلود ہوگئے ہیں۔ جس زمانہ کے لوگوں کو یہ دعویٰ ہے کہ انسانی سماج تہذیب و اخلاق اور عقل و شعور کے اعتبار سے ترقی کی معراج پر پہنچا ہوا ہے، یہ کون مانے گا کہ ہمارا سماج تنزل کی طرف جا رہا ہے۔ شاید اس کا سبب یہ ہو کہ کاروباری جمود کے دور میں ایسے واقعات کی کمی ہوگئی ہے جو انسان کے دل کی سوزش پسندی کو آسودہ کر سکیں جو اس میں سنسنی پیدا کردیں، یا اس کا سبب یہ ہو سکتا ہے کہ انسان کی دولت کی خواہش ناول کے کرداروں کو دولت کے لئے مجرمانہ حرکتیں کرتے دیکھ کر تسکین پاتی ہو۔ ایسے ناولوں میں یہی تو ہوتا ہے کہ کوئی لالچی آدمی کسی دولت مند کو قتل کر ڈالتا ہے۔ یا اسے کسی مصیبت میں پھنسا کر اس سے من مانی رقم حاصل کرتا ہے۔ پھر جاسوس آتے ہیں، وکیل آتے ہیں اور مجرم گرفتار ہوتا ہے۔ اسے سزا ملتی ہے۔ ایسے ’میلان‘ کو محبت اور ترک و ایثار کی کہانیوں سے آسودگی نہیں مل سکتی۔

    ہندوستان میں اس کاروبار نے ابھی اتنی ترقی تو نہیں کی لیکن ایسے ناولوں کی بھرمار شروع ہو گئی ہے۔ اگر میرا اندازہ غلط نہیں ہے تو ایسے ناولوں کی کھپت، اس ملک میں بھی کافی ہوتی ہے۔ اس مضر رجحان کا نتیجہ روسی ناول نگار میکسم گورکی کے الفاظ میں ’’ایک ایسے ماحول کا پیدا ہونا ہے جو مجرمانہ جبلتوں کو استوار کرتا ہے۔‘‘ اس سے یہ تو ظاہر ہی ہے کہ انسان میں حیوانی صفات اتنی توانائی حاصل کرتی جا رہی ہیں کہ اب اس کے دل میں نرم و نازک جذبات کے لئے جگہ ہی نہیں رہی۔

    ناول کے اشخاص کا کردار جتنا صاف گہرا اور ارتقا پذیر ہوگا، اتنا ہی پڑھنے والوں پر اس کا اثر ہوگا، اور یہ لکھنے والے کی تخلیقی صلاحیت پر منحصر ہے۔ جس طرح کسی انسان کو دیکھتے ہی ہم اس کے خیالات اور احساسات سے متعارف نہیں ہو جاتے، جیسے جیسے ہمارے روابط اس سے بڑھتے ہیں، ویسے ویسے اس کی داخلی کیفیت ہم پر ظاہر ہوتی ہے، اسی طرح ناول کے کردار بھی ناول نگار کے تخیل میں مکمل صورت میں نہیں آجاتے بلکہ ان میں بتدریج ارتقا ہوتا جاتا ہے۔ یہ ارتقا اتنے غیر محسوس اور پوشیدہ طور پر ہوتا ہے کہ پڑھنے والے کو کسی تبدیلی کا علم بھی نہیں ہوتا۔ اگر کرداروں میں کسی کا ارتقا رک جائے تو اسے ناول سے نکال دینا چاہئے۔ کیونکہ ناول اشخاص کے ارتقا کا ہی نام ہے۔ اگر اس میں ارتقا کمزور ہے تو وہ ناول کمزور ہو جائے گا۔ کوئی کردار انجام میں بھی ویسا ہی رہے جیسا وہ پہلے تھا، اس کے شعور اور جذبات کا ارتقا نہ ہو تو وہ ناکام کردار ہوگا۔

    اس زاویہ نظر سے اگر ہم اپنے موجودہ ناولوں کا جائزہ لیں تو ہمیں بڑی مایوسی ہوگی۔ بیشتر کردار ایسے ہی ملیں گے جو اگر چہ کام تو بہت سے کرتے ہیں لیکن جیسے اور جس طرح کے کام وہ ابتدا میں کرتے نظر آتے ہیں وہی اور اسی انداز سے انجام میں بھی۔ ناول لکھنے سے پہلے اگر ہم ان کرداروں کے ذہن و فکر کا ایک خاکہ بنا لیا کریں تو پھر ان کا ارتقا دکھانے میں ہمیں آسانی ہوگی۔ یہ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کرداروں کا ارتقا حالات سے مطابقت رکھتا ہو۔ یعنی لکھنے والا اور پڑھنے والا دونوں اس سے متفق ہوں۔ اگر پڑھنے والے کا یہ خیال ہو کہ اس حالت میں ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا تو اس کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ مصنف اپنے کردار کو پیش کرنے میں ناکام رہا ہو۔ ہرکردار میں کچھ نہ کچھ انفرادی صفات بھی ہونا چاہئیں۔ جس طرح دنیا میں کوئی دو اشخاص ایک سے نہیں ہوتے، اسی طرح ناول میں بھی نہیں ہونا چاہئے۔ کچھ لوگ تو بات چیت یا شکل و صورت سے کرداروں میں تخصیص پیدا کر دیتے ہیں لیکن اصل فرق تو وہ ہے جو مختلف کرداروں کے درمیان خود نمایاں ہو۔

    ناول میں مکالمے جتنے زیادہ ہوں اور مصنف کے قلم سے جتنا کم نکلے اتنا ہی وہ خوبصورت ہوگا۔ مکالمے صرف رسمی نہیں ہونا چاہئیں بلکہ ہر جملہ جو کسی کے منہ سے نکلے، اسے اس کے خیالات اور اس کی شخصیت پر روشنی ڈالنا چاہئے۔ مکالموں کے لئے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف نفسیات اور حالات سے مطابقت رکھتے ہوں بلکہ آسان اور سلجھے ہوئے بھی ہوں۔ ہمارے ناولوں میں اکثر مکالمے بھی مصنف کے اپنے اسلوب نگارش میں ہوتے ہیں۔ تعلیم یافتہ سوسائٹی میں تو خیر زبان اور لب و لہجہ ایک ہی ہوتا ہے لیکن دیگر طبقوں اور فرقوں میں اس کا روپ کچھ نہ کچھ بدل جاتا ہے۔ بنگالی، مارواڑی اور اینگلو انڈین بھی کبھی کبھی بہت پاکیزہ اور صاف زبان (شدھ ہندی) بولتے پائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ مستثنیات ہیں۔ ہاں دیہاتوں کی بول چال کی زبان کسی قدر پریشانی کا باعث ہوتی ہے۔ بہارکے دیہاتوں کی زبان شاید دہلی کے آس پاس کا آدمی سمجھ نہ سکے گا۔

    در اصل کسی مصنف کی تخلیق اس کی اپنی نفسیات، اس کے کردار، اس کے فلسفہ حیات اور نتائج فکر کا آئینہ ہوتی ہے۔ جس کے دل میں ملک کی محبت ہے۔ اس کے اشخاص قصہ، واقعات اور حالات سبھی اسی رنگ میں رنگے ہوئے نظر آئیں گے۔

    رومانی ادیبوں کے کردار بھی بیشتر ایسے ہی ہوتے ہیں جنہیں زندگی اور زمانے کی رفتار سازگار نہیں ہوتی۔ وہ جاسوسی اور طلسماتی چیزیں لکھا کرتے ہیں۔ اگر مصنف رجائی ہے تو اس کی تخلیقات میں امیدوں اور حوصلوں کی روشنی نظر آئے گی۔ اگر وہ قنوطی ہے تو بہت کوشش کرنے پر بھی وہ اپنے کرداروں کو زندہ نہ بنا سکے گا۔ ’’فسانہ آزاد‘‘ کو اٹھا لیجئے۔ فوراً پتہ چل جائے گا کہ مصنف ہنسنے ہنسانے والی شخصیت ہے، جو زندگی کو سنجیدگی کے ساتھ سوچنے کے قابل نہیں سمجھتا۔ جہاں اس نے سماجی مسائل کو اٹھایا ہے وہاں وہ اپنا خاص اسلوب قائم نہ رکھ سکا۔

    جس ناول کے مطالعہ کے بعد قاری کو اپنے اندر ایک تکمیل یا آسودگی کا احساس ہوا اور اس کے پاکیزہ جذبات بیدار ہوجائیں، وہی کامیاب ناول ہے۔ جس کے خیالات گہرے اور تیکھے ہیں، جو زندگی میں لدو بن کر نہیں بلکہ سوار بن کر چلتا ہے۔ جو جد و جہد کرتا ہے اورناکام ہوتا ہے۔ اٹھنے کی کوشش کرتا ہے اور گرتا ہے۔ جو عملی زندگی کے پیچ وخم سے گزرا ہے۔ جس نے زندگی اور زمانے کے انقلابات دیکھے ہیں جس نے دولت اور عسرت کا سامنا کیا ہے۔ جس کی زندگی مخملی گدوں پر ہی نہیں گزرتی، وہی ایسے ناول لکھ سکتا ہے، جن میں روشنی زندگی اور آسودگی دینے کی صلاحیت ہوگی۔

    ناول پڑھنے والوں کا مزاج اور میلان اب کچھ بدلتا جا رہا ہے۔ اب انہیں مصنف کے تخیل کی پرواز سے تسکین نہیں ہوتی۔ تخیل بہرحال تخیل ہوتا ہے وہ حقائق کا بدل نہیں ہو سکتا۔ مستقبل ان ہی ناولوں کو لبیک کہے گا جو تجربات اور واقعات پر استوار ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل کے ناول میں تخیل کی اڑان کم اور حقیقت کا عنصر زیادہ ہوگا۔ ہمارے کردار خیالی نہیں ہوں گے۔ ان کا تعلق افراد کی ارضی زندگی سے ہوگا۔ کسی حد تک تو اب بھی ایسا ہوتا ہے۔ لیکن آج ہم اکثر ایسے حالات اور واقعات پیدا کر دیتے ہیں جن کا انجام فطری ہونے پر بھی وہ ہوتا ہے جو ہم چاہتے ہیں۔ ہم قصہ کو جتنا بھی فطری بنا لیتے ہیں اتنا ہی کامیاب ہوتے ہیں لیکن مستقبل میں ہمارا قاری اس سوانگ سے مطمئن نہیں ہوگا۔

    یوں کہنا چاہئے کہ مستقبل کا ناول انسانی زندگی کی ہوبہو تصویر ہوگا۔ خواہ اس زندگی کا تعلق اعلیٰ اشخاص سے ہو یا ادنیٰ انسانوں سے۔ در اصل کردار کی عظمت یا برتری و کمتری کا فیصلہ ان مشکلات سے کیا جائے گا جن پر اس نے فتح پائی ہے۔ ہاں اسے اس ڈھنگ سے پیش کیا جائے گا کہ ناول معلوم ہو۔ ابھی ہم جھوٹ کو سچ بنا کر دکھانا چاہتے ہیں۔ مستقبل میں سچ کو جھوٹ بناکر دکھانا ہوگا۔ کسی کسان کا کردار ہو، کسی قومی رہنما کا یا کسی بڑے آدمی کا اس کی بنیاد سچائی اور حقیقت پر ہوگی۔ تب یہ کام آج کے کام سے زیادہ مشکل ہوگا۔ کیونکہ ایسے بہت کم لوگ ہیں جنہیں ہر قسم کے انسانوں کی زندگی کو قریب سے دیکھنے اور جاننے کا فخر حاصل ہو۔

    مأخذ:

    مضامین پریم چند (Pg. 219)

    • مصنف: پریم چند
      • ناشر: انجمن ترقی اردو، پاکستان
      • سن اشاعت: 1981

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے