Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

قطب صاحب کی سیر

شاہد احمد دہلوی

قطب صاحب کی سیر

شاہد احمد دہلوی

MORE BYشاہد احمد دہلوی

    عجب بےفکرے تھے یہ دلی والے بھی۔ اپنی جان کو کوئی غم نہ لگاتے تھے۔ کہتے تھے، ’’فکر جان کا روگ ہوتا ہے۔ ہم غم کیوں پالیں؟ پالیں ہمارے دشمن، بیری۔ شکر خورے کو شکر اور موذی کو ٹکر۔ میاں اسی لئے تو کماتے دھماتے ہیں کہ آنند کے تار بجائیں۔ ان کی بھلی چلائی جو جوڑ جوڑ مر جائیں گے اور مال جنوائی کھائیں گے۔ آج مرے کل دوسرا دن۔ مر گئے مردود جن کی فاتحہ نہ درود۔ جو صبح صبح ان کی صورت دیکھ لو تو دن بھر روٹی نصیب نہ ہو۔ اللہ پیسہ دے، پیسے کی محبت نہ دے۔ ہاتھ کے میل سے محبت کیا؟ میاں ہم تو کوڑی کفن کو لگا نہیں رکھتے۔ اپنا آپا کیسا ہے؟ جان ہے تو جہان ہے۔ آپ زندم جہان زندم، آپ مردم جہان مردم، کھائیں گے گھی سے نہیں تو جائیں گے جی سے۔‘‘

    ان دلی والوں نے ابی قورس کا نام کا ہے کو سنا ہوگا؟ انہیں فلسفیوں سے کیا کام؟ یہ تو سیدھی سی بات جانتے ہیں کے کھاؤ پیو اور موج مارو۔ موت سر پر کھڑی ہے۔ جو دم گزر جائے غنیمت ہے۔ آج نقد کل ادھار۔ کل کی کل دیکھی جائےگی۔

    اَب تو آرام سے گزرتی ہے

    عاقبت کی خبر خدا جانے

    ہاں تو ہوا یہ کہ مینہ کا پہلا چھینٹا پڑنے کے بعد گرمی دھل گئی اور موسم سہانا ہو گیا۔ کیا امیر کیا غریب، سب کے دل ہرے ہو گئے۔ ایسے سمے میں بھلا پاؤں توڑے گھروں میں دلی والے کیسے بیٹھے رہتے؟ اسی دن کی تو آس لگائے بیٹھے تھے۔ گھر گھر سیر کا چرچا ہونے لگا۔

    آغا نواب نے شام ہوتے گھر میں قدم رکھا۔ دالان میں جاکر انگرکھا اتارا۔ اتنے وہ کپڑے بدلیں، بیگم نے صحن میں بچھی ہوئی چوکیوں پر بی مغلانی سے کہہ کر دری چاندنی کا فرش لگوا دیا۔ خود لپک کر مکھانوں کے ستو اور گڑھل کے شربت کا اہتمام کیا۔ ایک جھم جھماتے کٹورے میں ستو گھولے، دوسرے میں شربت بنایا۔ ان میں برف کچل کر ڈالی اور چاندی کی تھالی میں دونوں کٹورے لگا کر آغا نواب کے لئے سوزنی پر لگا دیے۔ پھر بوا مغلانی کو آواز دی، ’’بوا مجھے پٹاری دے جانا۔‘‘

    آغا نواب گاؤ تکئے کے سہارے ہو بیٹھے تو بیگم پاس بیٹھ کر پنکھا جھلنے لگیں۔ آغا نواب نے کہا، ’’میں نے مختار کار صاحب سے کہہ دیا ہے کہ قطب صاحب میں ہمارے لئے بالا خانے کا انتظام کر دیں۔ پھول والوں کی سیر کی تاریخ بھی مقرر ہو چکی ہے۔‘‘ بیگم نے خوش ہوکر پوچھا، ’’تو خیر سے کب چلنا ہوگا؟‘‘ آغا نواب نے کہا، ’’کل منہ اندھیرے۔‘‘ بیگم نے چونک کر کہا، ’’کل؟ آپ بھی ہتھیلی پر سرسوں جماتے ہیں۔ بھلا اتنے جلدی سب کام ہو جائیں گے؟‘‘ آغا نواب بولے، ’’کار خیر میں دیر کیسی؟ مختار کار نے آدمی مہرولی روانہ کر دیا ہے۔ ابھی تو پوری رات پڑی ہے۔‘‘

    بیگم نے کہا، ’’ہاں رات تو پڑی ہے پوری مگر کام بھی تو سمیٹنے ہیں۔ یہ تو نہیں ہے کہ منہ اٹھایا اور چل دیے۔ ماشاء اللہ بھرا پرا گھر ہے۔ پھر پاس پڑوس کے بھی دو چار گھر ہیں۔ یہ غریب بھی ہمارا آسرا تکتے ہیں۔‘‘ آغا نواب بولے، ’’ہاں ہاں، انہیں ضرور ساتھ لے لینا۔ ان سے بڑی رونق ہوتی ہے۔ انہیں یہ ضرور بتا دینا کہ صبح گجردم پالکی گاڑیاں اور بھارکس پھاٹک پر لگ جائیں گے۔ سورج نکلنے سے پہلے گھروں سے روانہ ہو جانا ہے۔‘‘

    بیگم کی باچھیں کھلی جا رہی تھیں۔ گھر کی چاردیواری میں گھٹے گھٹے دم بولا گیا تھا۔ بولیں، ’’تو میں بچیوں سے کہہ دوں صبح بیدار ہونا ہے۔ ویسے نماز کے لئے تو روزانہ ہی اٹھتی ہیں، قدرے پہلے جاگ جائیں۔ صبح کے ناشتے کا بھی انتظام کروں اور ضروری برتن بھانڈا ایک بوری میں بھروا دوں۔ صندوقوں میں سے فرش بھی نکلواؤں۔ ہمسائیوں کو اطلاع کراؤں کہ وہ بھی چلنے کے لئے تیار ہو جائیں۔‘‘

    آغا نواب نے کہا، ’’تمہیں اختیار ہے جسے چاہو نیوتا دو۔‘‘ بیگم نے سب سے پہلے بڑی بیگم کو اطلاع دی۔ وہی اس خاندان کی بڑی بوڑھی ہیں۔ ان کے مشورے کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ بڑی بیگم نے کہا، ’’اس وقت تو کوئی اور ہی دعا مانگتی، قبولیت کی گھڑی تھی۔ میرے دل میں قطب صاحب کا خیال آیا ہی تھا کہ تم نے خیر سے یہ خبر سنائی۔ لوبی، بسم اللہ کرو۔ سودا سلف منگاؤ۔ ماشاء اللہ پورا محلہ ہی ساتھ جائےگا۔ نواب دولہا تو کہیں اکیلے جانے کے قائل ہی نہیں۔ جاؤ تم اپنے کام دیکھو۔‘‘

    سیر کی خبر سنتے ہی بچیوں میں کھلبلی مچ گئی۔ سب کو اپنے اپنے کپڑوں اور جوڑوں کی فکر ہوئی۔ بڑی ننھی بولی، ’’نانی اماں، ہمارے پاس تو دھانی دوپٹہ کوئی نہیں ہے۔‘‘ نانی اماں نے کہا، ’’بیٹی تم اپنے دھلے ہوئے کپڑے ساتھ رکھ لو۔ قطب صاحب میں ایک سے ایک اچھا رنگریز موجود ہے۔‘‘ چھوٹی ننھی نے تنک کر کہا، ’’جنگل میں دھراہے رنگریز۔‘‘ نانی اماں بولیں، ’’اے بیٹی ہوش کے ناخن لے۔ کیسا جنگل؟ رت بدلتے ہی جنگل میں منگل ہو گیا ہوگا۔ تم دیکھنا تو سہی وہاں کیسی بہار آ رہی ہوگی۔ آدھی دلی وہاں ڈُھل چکی ہوگی۔‘‘

    صبح جانے کی خوشی میں بھلا نیند کسے آتی؟ رات آنکھوں ہی آنکھوں میں کٹ گئی۔ یہ برکھارت بڑی اللہ آمین کی تھی۔ سارے شہر میں ایک ہلچل مچی ہوئی تھی، جس کو دیکھو سیر کے لئے پر تول رہا ہے۔ کوئی سبزی منڈی کے باغوں میں جائےگا، کوئی کوٹلہ پرانے قلعہ، مدرسہ، ہمایوں کے مقبرے یا اس سے آگے حوض خاص۔ مگر قطب صاحب کی بات ہی کچھ اور ہے۔ حضرت بختیار کاکیؒ کی برکت کہو کہ دلی والے سات کوس کھنچے چلے جاتے ہیں اور وہاں تہوار کا سرا بھی تو ہے۔ تین دن بعد پھول والوں کی سیر ہے۔ یوں اور بھی خلقت ٹوٹی پڑتی ہے۔

    یوں تو دلی سے قطب صاحب موٹریں اور بستیں چلتی ہیں مگر دلی کے سیلانی جیوڑے گیارہ میل کے راستے کا بھی لطف اٹھاتے ہیں، اس لئے تانگوں، اونٹ، گاڑیوں، بیل گاڑیوں اور ٹھیلوں میں جانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ جگہ جگہ ٹھیکیاں لیتے کچھ راستہ سواری میں اور کچھ پیدل طے کرتے ہیں۔ غریب غربا پیدل جاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہی لوگ سیر کا اصل لطف اٹھاتے ہیں۔ مٹکے میں ایک دو جوڑے رکھے اور مٹکا سر پر اوندھا لیا اور چل پڑے۔ یہ مٹکا صندوق کا کام بھی دیتا ہے اور چھتری کا بھی۔ خراماں خراماں شور مچاتے چلے جاتے ہیں۔ جہاں چاہتے ہیں چھاؤنی چھا لیتے ہیں۔ کھاتے ہیں، پیتے ہیں، کھیلتے ہیں، دوڑ لگاتے ہیں اور ہنستے کھیلتے اجالے اجالے قطب صاحب پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں بیسیوں ٹوٹی پھوٹی عمارتیں ہیں۔ کسی کھنڈر میں ڈیرا جما لیتے ہیں۔

    فجر کی اذان کے وقت سے گلی گلی ڈیوڑھیوں اور چوراہوں پر سواریاں لگ گئیں۔ گٹھریاں، بوغبند، برتنوں کی بوریاں بھارکسوں میں لادی گئیں۔ آغا نواب نے عورتوں کے لئے پالکی گاڑیوں کا انتظام کیا ہے۔ ان کی لین ڈوری لگ رہی ہے۔ ان میں محلے بھر کی عورتیں اور بچے ایسے ٹھنس کر بیٹھے کہ ہلنا تک محال ہو گیا۔ جہاں چار مردوں کا بیٹھنا مشکل ہوتا ہے، وہاں آٹھ عورتیں آرام سے بیٹھ جاتی ہیں۔ آغا نواب ہنس کر کہا کرتے تھے کہ عورتیں ربڑ کی بنی ہوئی ہوتی ہیں۔

    گاڑیاں بھر بھر کے روانہ ہوتی رہیں۔ دلی دروازے سے باہر نکلے۔ خونی دروازے سے آگے فیروز شاہ کا کوٹلہ آ گیا۔ جنھیں قطب صاحب پہونچنے کی جلدی نہیں ہے، کوٹلے میں رک گئے۔ یہاں بھی چھوٹا سا میلہ لگا ہوا ہے۔ حلوائی کی دکان پر گرما گرم کچوریاں جھپا جھپ اتر رہی ہیں۔ حلوہ مانڈا بھی موجود ہے۔ ایک ایک پیسے یہ یہ بڑی کچوری لے لو۔ آلو کی ترکاری ہے جس میں گاجر اور آم کے اچار کی ایک ایک پھانک بھی ہے۔ چار پیسے کی بیوڑیوں میں پیٹ بھر کے ناشتہ کیا۔ دکاندار نے بیوڑیوں پر حلوے کی لگدی بھی رکھ دی تھی۔ اس سے منہ میٹھا کیا۔ پھر منہ صاف کرنے کے لئے ایک پیسے میں دو دیسی پانوں کا بیڑا بنوایا، کلہ تازہ کیا، اوپر چڑھ کر اشوک کی لاٹ دیکھی اور آگے روانہ ہو گئے۔

    ببر کے تکئے سے ہوتے ہوئے پرانے قلعے پہونچے۔ شیر منڈل پر چڑھے۔ کسی نے بتایا کہ اسی پر سے ہمایوں بادشاہ کا پیر پھسلا تھا اور ایسا پھسلا کہ بادشاہ کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ مسجد میں سے جمنا کی سیر کی۔ کچھ لوگ قلعہ کے پہلو میں ہنڈیوں والے مزار کے ٹیلے پر چڑھے۔ خبر نہیں یہ کس زمانے کے بزرگ ہیں۔ لوگ منتیں مانتے ہیں اور جب مرادیں پوری ہو جاتی ہیں تو ایک مٹکے یا ہنڈیا میں شربت بھر کے مزار پر چڑھاتے ہیں۔ سیکڑوں ہزاروں ہنڈے اور ہانڈیاں یہاں اوندھی ہوئی دیکھ لو۔ ان پر اللہ کے بندے سفیدی بھی کر دیا کرتے تھے۔ دور سے ایسا لگتا تھا جیسے اس ٹیلے پر ککرمتّا کا جنگل کھڑا ہے۔ ۴۷ء میں جب دلی میں کٹا مری پھیلی اور دلی کے مسلمان گھروں سے نکل کر ان کھنڈروں میں آن پڑے تو پرانے قلعے میں ایک لاکھ نگھرے مسلمان تھے۔ ہم بھی ان ہی میں تھے۔ ہم نے یہ دیکھا کہ جب پانی بھرنے کے لئے برتنوں کی ضرورت پیش آئی تو انہی بزرگ کے مزار کے ہزاروں مٹکے ان مہاجروں کے کام آئے۔ خیر، یہ ایک الگ قصہ ہے۔ پھر کبھی آپ کو سنائیں گے۔

    سیلانی دوپہر سے پہلے سلطان جی جا پہنچے۔ دلی والے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کا نام لینا بے ادبی سمجھتے ہیں، اس لئے انہیں سلطان جی کہتے ہیں۔ درگاہ میں داخل ہوئے۔ پہلے سلطان جی کے محبوب مرید حضرت امیر خسرو کے مزار پر فاتحہ پڑھی، پھر سلطان جی کے مزار پر حاضری دی۔ پہلو ہی میں مسجد ہے۔ اس میں جا کر گنبد میں لٹکے ہوئے سونے کے کٹورے کو دیکھا۔ کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں یہ نیچا تھا۔ کسی بدفطرت نے اسے چرانا چاہا تو اوپر کھنچ گیا۔ درگاہ سے نکل کر ہمایوں کے مقبرے کا رخ کیا۔ یہاں بھی سیلانی اترے ہوئے ہیں۔ پتنگ بازوں کے ہاتھ لگ رہے ہیں۔ مقبرے کا چکر لگایا اور صفدر جنگ کے مقبرے جا پہونچے۔ یہ مقبرہ مدرسہ کہلاتا ہے۔ ساون بھادوں میں کچھ دیر آرام کیا۔ قطب صاحب میں جب چھڑیاں ہوتی ہیں تو دلی والے مدرسے میں ضرور ٹھہرتے ہوئے جاتے ہیں۔ دلی کی بعض برادریوں میں عورتوں کا ایک گانا گایا جاتا ہے۔

    چاہے سیاں مارو میں چھڑیوں میں جاؤں گی

    اندر سے کی گولیاں مندر سے میں کھاؤں گی

    مدرسےمیں سستا کر سیلانی موسم لطف اٹھاتے، چہلیں کرتے حوض خاص جا پہنچے۔ یہ بڑے سکون کی جگہ ہے۔ تھوڑی دیر یہاں ٹھہرے، پھر قطب صاحب روانہ ہوئے۔ شام ہونے سے پہلے مہرولی پہنچ لئے۔ جن لوگوں نے کمرے یا بالا خانے کرائے پر نہیں لئے ہیں، وہ جنگلی محل، ظفر محل، مرزا بابر کی کوٹھی اور بیسیوں پرانی عمارتوں میں جا اترے اور اپنی تھگلی صاف کر قبضہ جما بیٹھے۔ کوئی روک ٹوک نہیں، جس کا جہاں جی چاہے رہے۔ شام ہو رہی ہے، اس لئے سب اپنے اپنے ٹھکانوں پر پہنچ کر سب سے پہلے کھانے کا انتظام کر رہے ہیں۔

    مہرولی کا بازار سجا ہوا ہے۔ ہر چیز یہاں افراط سے ملتی ہے۔ تندور گرم ہیں، نان بائی حکم کے منتظر ہیں۔ اپنا گھی اور روا میدہ لائیے اور اپنے سامنے پراٹھے لگوائیے۔ چنگیر میں ترتراتے پراٹھے رکھے، آم کا اچار سامنے کی دکان سے خریدا۔ آبخورے میں دودھ والے سے ربڑی لی۔ کان میں چرخی کے پنکھے کی آواز آئی، ادھر کا رخ کیا۔ کبابی سیخیں بھر بھر کے رکھتا جاتا ہے۔ جو سیخیں سنک گئی ہیں پانی کا ہاتھ لگا کر انھیں ڈھاک کے دونوں میں اتارتا جاتا ہے۔ اس سے حسب ضرورت گولے کے کباب خریدے۔ دو شاخہ جلائے آموں کا ڈھیر ٹھیلے پر رکھے پھیری والا آواز لگاتا سامنے سے گزرتا ہے، ’’کیرانے کا لڈو ہے۔‘‘ ایک پنسیری آم اس سے خریدے اور لدے پھندے اپنے ٹھکانے پر لوٹے۔ سب نے مل کر کھانا کھایا اور پھر جو پڑ کر سستائے تو صبح کی خبر لائے۔

    صبح ہوئی، منہ ہاتھ دھویا، ناشتہ کیا۔ بازار میں ہمہ نعمت موجود ہے۔ سب کو سیر کی سوجھی۔ پہلے جہاز پر گئے۔ شمسی تالاب کٹورے کی طرح پڑا چھلک رہا ہے۔ پانی بہت گہرا ہے۔ اس میں صرف تیراک ہی اتر سکتے ہیں۔ وہاں سے اولیاء مسجد پہونچے، نفل پڑھے۔ یہاں سے جھرنے گئے۔ سہ درے والان کی چھت میں سے پانی اس طرح گر رہا ہے جیسے بارش ہو رہی ہو۔ پرنالوں کا پانی چھجے پر سے چادریں بن کر گر رہا ہے۔ حوض میں بچے، جوان، بوڑھے، سبھی نہا رہے ہیں اور سہ درے کی چھت پر سے پانی ان پر گر رہا ہے۔ پھسلنا پتھر جھرنے کی دیوار میں گڑا ہوا ہے۔ اب ٹوٹ چکا ہے۔ اس پر سے پھسلنے میں بڑا مزہ آتا تھا۔ مرد عورت سب اس پر سے پھسلا کرتےتھے اور خوب ہنسی ہوتی تھی۔

    اس سے آگے امریّاں ہیں۔ بڑے بڑے تناور آم کے درخت اس طرح سر جوڑے کھڑے ہیں کہ دھوپ کا گزر نہیں ہوتا۔ بیسیوں جھولے ان میں پڑے ہیں۔ چپے چپے پر سیلانی بیٹھے ہیں۔ انگیٹھیاں دہک رہی ہیں۔ کڑھائیاں چڑھی ہوئی ہیں۔ گلگلے، سہال، اندر سے کی گولیاں، پھلکیاں اور پتے تلے جا رہے ہیں۔ جھولوں میں مرد کھڑے پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ بعض جھولوں میں پٹریوں کے نیچے دس دس پندرہ پندرہ سیر کے پتھر بندھے ہوئے ہیں۔ یہ اس لئے کہ جب جھولے کی پینگ خوب بڑھ جائے تو جھولا الٹنے نہ پائے، جھولے کا لنگر قائم رہے۔ دوستوں میں شرطیں لگی ہوئی ہیں کہ پینگ اتنی اونچی جائے کہ سامنے والے درخت کا پتہ توڑ لیا جائے۔ خاصا جان جوکھوں کا کام ہے مگر جھولنے والے جھولتے ہیں اور شرط بھی جیتتے ہیں۔

    امریوں میں دوسری طرف پورے پورے گھر اترے ہوئے ہیں۔ عورتوں کے لئے دہرے جھولے پڑے ہوئے ہیں۔ دوان میں بیٹھتی ہیں اور آمنے سامنے ہوکر جھولتی ہیں اور جھولنے والیاں اور جھلانے والیاں سب مل کر گا رہی ہیں،

    چھا رہی کاری گھٹا جیا مورا لہرائے ہے

    سن ری کوئل باوری تو کیوں ملہار گائے ہے

    آ پپیہا آ ادھر، میں بھی سراپا درد ہوں

    آم پہ کیوں جم رہا، میں بھی تو رنگ زرد ہوں

    فرق اتنا ہے کہ اس میں رس ہے مجھ میں ہائے ہے

    چھا رہی کاری گھٹا جیا مورا لہرائے ہے

    اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ اسی وقت ایک زور کا چھینٹا آیا۔ اونٹتے تیل میں جو پانی کی بوند پڑی تو تیل چٹخا اور ’’اوئی اوئی‘‘ کہتی سب دور دور ہو بیٹھیں۔ جلدی سے کڑھائی پر تسلا ڈھانکا۔ چلتا ہوا ابر تھا، ذرا دیر میں کھل گیا۔ گرم گرم پکوان اترنے لگا۔ سب نے سیر ہوکر کھایا اور جھول جھول کر اور گھوم پھر کر ہضم کیا۔ لڑکیوں نے آنکھ مچولی کھیلی۔ کسی بڑی بوڑھی کو دائی بنایا۔ چور کی آنکھیں میچی گئیں۔ جو لڑکی چور بنی تھی آنکھیں کھلنے پر اوروں کو تلاش کرنے لگی۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس نے ایک کو تاک لیا اور اس کی طرف جھپٹی۔ اس نے چور کو اپنی طرف آتے دیکھ کر بھاگنا چاہا مگر چور لڑکی اس سے زیادہ تیز تھی۔ جب اس نے دیکھا کہ چور سے بچنا مشکل ہے تو چیخیں مارتی دائی کی طرف بھاگی۔ اتنے میں برابر اور لڑکیاں بھی قہقہے لگاتی، اپنی اپنی اوٹ سے نکل کر کدکڑے لگانے لگیں۔ چور لڑکی کبھی ایک کے پیچھے بھاگتی، کبھی دوسری کا پیچھا کرتی۔ اگر ایک ہی کے پیچھے لگی رہتی توشاید اسے پکڑ لیتی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سب نے کاوے کاٹ کاٹ کردائی کو چھو لیا اور یہ بیچاری دوبارہ چور بنی۔

    کہیں اندھا بھینسا کھیلا جا رہا ہے۔ ایک لڑکی کی آنکھوں پر دوپٹہ باندھ دیا گیا ہے۔ باقی لڑکیاں چپکے چپکے آکر اسے ستاتی ہیں۔ وہ غریب اندھوں کی طرح ہاتھ پھیلائے ان کی آواز پر دوڑتی ہے مگر بھلا کون اس کے ہاتھ آتا ہے، سب خوب ہنستے ہنستے ہیں۔ کہیں کوڑا جمال شاہی کھیلا جا رہا ہے اور بھاگتے چور کے کوڑے لگائے جا رہے ہیں۔

    آج کا پورا دن امریوں ہی میں گزرا۔ خوب دھماچوکڑی رہی۔ جو کچھ کھایا پیا تھا، سب ہضم ہو گیا۔ جب لوٹ کر اپنے ٹھکانے پر آئے تو وہاں سے خربوزے اپنے ساتھ لیتے آئے۔ دھول کوٹ، دوہی مزے، پھیکا یا میٹھا۔ چار آنے کی پنسیری۔ ٹانکیاں لگا لگا کر میٹھے میٹھے کھائے، پھیکے ایک طرف اچھال دیے۔ قطب کا پانی بڑا ہاضم ہے۔ ابھی کھاؤ ابھی پھر بھوک لگنے لگی۔ دلی والے جتنے دن یہاں رہتے ہیں، خوب ڈٹ کر کھاتے ہیں۔ سچ ہے، ایک داڑھ چلے، ستر بلاٹلے۔ اچھا، اب انھیں یہیں چھوڑیے۔ دن بھر کے تھکے ہوئے ہیں، لمبی تانیں گے، چل کر آپ بھی آرام کیجئے۔

    مأخذ:

    دلی جو ایک شہر تھا (Pg. 48)

    • مصنف: شاہد احمد دہلوی
      • ناشر: فیاض رفعت
      • سن اشاعت: 2011

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے