aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رسم الخط اور پھول

انتظار حسین

رسم الخط اور پھول

انتظار حسین

MORE BYانتظار حسین

    بات ہے رسم الخط کی لیکن معاف کیجئے مجھے ایک اشتہاری اعلان یاد آ رہا ہے جو سن لائٹ صابون والوں کی طرف سے ہوا ہے۔ سن لائٹ کی کسی ٹکیا میں انہوں نے ایک چابی چھپاکر رکھ دی ہے، جس کسی خریدار کی ٹکیا سے یہ چابی نکلےگی اسے وہ ایک مؤثر انعام دیں گے۔ اس اعلان کے بعد سے پاکستان کے شہروں میں سن لائٹ صابون بہت بکنا شروع ہو گیا ہے اور مولانا محمد حسین آزاد نے یہ بتایا تھا کہ نئے انداز کی خلعتیں اور زیور جو آج مناسب حال ہیں، انگریزی صندوقوں میں بند ہیں۔ ان صندوقوں کی کنجی انگریزی دانوں کے پاس ہے۔

    اصل میں ہم پچھلے سو سال سے مغرب سے صابون کی ٹکیاں خرید رہے ہیں اور ان صندوقوں کی کنجی کی تلاش میں ہیں۔ مسلمان قوم نے اپنے بزرگوں کے بتائے ہوئے نسخہ کے مطابق نئے علوم کی کنجی پا لینے کی فکر میں انگریزی پڑھی ور پتلون پہنا اور آئی سی ایس افسر پیدا کئے۔ آئی سی ایس افسروں نے برابر والوں سے انگریزی میں اور خانساماؤں سے صاحبوں والے کھڑے لہجے میں اردو بولنے کا طور اختیار کیا اور چمچے اور کانٹے سے بریانی تناول کرنے کا تجربہ کیا اور اپنی کوٹھیوں میں انگریزی پھول لگائے۔ ان کا تجربہ ایسا ناکام نہیں رہا۔ اب لاہور کی کوٹھیوں میں انگریزی پھول عام کھلے دکھائی دیتے ہیں مگر بیلا چنبیلی نظر نہیں آتے۔ یہ ہے ہمارے جملہ مسائل کی جڑ۔

    مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ ہمیں اپنے پھول عزیز نہیں رہے ہیں۔ رسم الخط کا مسئلہ پھولوں کے مسئلہ کا حصہ ہے۔ جب باغیچوں سے ان کے اپنے پھول رخصت ہو جائیں اور پرایے پھول کھلنے لگیں تو یہ وقت اس زمین کی پوری تہذیب پر بھاری ہوتا ہے۔ رسم الخط اپنی جگہ کوئی چیز نہیں ہے، وہ تہذیب کا حصہ ہوتا ہے۔ یہ تہذیب شکلوں کے ایک سلسلہ کو جنم دیتی ہے یا پہلے سے موجود شکلوں کو ایک نئی معنویت دے دیتی ہے۔ بہر حال تہذیبی زندگی شکلوں کا ایک نظام ہوتا ہے۔ ممکن ہے بظاہر نظر نہ آئے مگر ان کی تہہ میں ایک وحدت موجود ہوتی ہے، جس کی وجہ سے یہ سب شکلیں ایک دوسرے سے پیوست ہوتی ہیں۔ ان میں سے اگر کوئی ایک شکل نکل جائے اور اس کی جگہ کوئی اجنبی شکل لاکر رکھ دی جائے تو اس سے شکلوں کے اس پورے نظام میں درہمی پیدا ہوتی ہے اور ان کی بنیادی وحدت کو صدمہ پہنچتا ہے۔

    فارسی رسم الخط ہماری تہذیب کی وہ شکل ہے جو اس کی بنیادی وحدت کے نشان کا مرتبہ رکھتا ہے لیکن اگر ہماری تہذیب کی دوسری شکلیں جاری ہیں تو یہ نشان کب تک کھڑا رہےگا، اور گر یہ نشان گر گیا تو تہذیب کی باقی شکلیں کتنے دن کی مہمان ہیں۔ پس مسئلہ محض اس رسم الخط کا نہیں بلکہ اس پوری تہذیب کا ہے جس کا یہ رسم الخط نشان ہے۔

    اپنی تہذیبی شکلوں کے بارے میں شک اور بےاطمینانی ہمارے یہاں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہ پچھلے سو سال سے جاری ہے اور اردو زبان توا چھی خاصی ایک دیوار گریہ بن کر رہ گئی ہے۔ سب سے پہلے مولانا حالی روئے تھے کہ اردو میں نیچرل شاعری نہیں ہوتی، پھر شکایت ہوئی کہ اردو میں مثنوی نہیں لکھی گئی۔ پھر یہ صفِ ماتم بچھی کہ اردو میں ڈراما نہیں ہے۔ اب یہ تکلیف ہے کہ اردو میں رومن رسم الخط نہیں پایا جاتا۔ زبان چیزوں کو دیکھنے، محسوس کرنے اور سوچنے کا ذریعہ ہوتی ہے۔ ایک خاص زبان کے اندر اظہار کے جو مختلف سانچے ظہور میں آتے ہیں، وہ اس تہذیب کے انداز فکرونظر کے مظہر ہوتے ہیں۔ جب اپنے اظہار کے سانچوں اور صورتوں کے بارے میں شک پڑ جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس قوم کو اپنی فکرونظر پر اپنے احساسات پر اعتبار نہیں رہا ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ اسے اپنی ذات پر بھروسا نہیں رہا ہے۔ اپنی ذات کے بارے میں بےاعتباری ہمارے یہاں صرف تاریخ، زبان، ادب اور معاشرت تک محدود نہیں رہی بلکہ ہماری ذات کی روحانی علامتیں بھی اس کی زد میں آ گئیں اور سیرت طیبہ لکھنے والے بزرگوں کو رسول اکرم کی عظمت ثابت کرنے کے لئے کارلائل اور برنارڈ شا تک جانا پڑا۔

    جب ایک قوم پر یہ نوبت آ جائے کہ وہ اپنی روحانی علامتوں کی توثیق کے لئے کارلائل اور برنارڈ شا سے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے لگے تو اس کے معنی تو یہی ہوئے کہ وہ اپنے اعتبار کا اثاثہ تو لٹا بیٹھی۔ اب وہ اپنی ذات کو بلیاں لگاکر کھڑی کرنے اور دوسروں کے سہارے اپنا اعتبار بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ رومن رسم الخط اختیار کرنے کی تجویز بھی اس قسم کی ایک کوشش ہے۔ یوں سمجھئے کہ ہم رومن رسم الخط کی بلی لگاکر گری ہوئی اردو کو کھڑا کرنا چاہتے ہیں اور اس بلی کے سہارے نئے سائنسی علوم کے آسمان کو چھونا چاہتے ہیں۔ یوں اگر رومن رسم الخط کی بلی کے سہارے پروفیسر انجم رومانی آئن سٹائن بن جائیں اور ن، م راشد ٹی ایس ایلیٹ کے برابر کھڑے ہو سکیں تو اس میں بےشک اردو کی بڑی عزت ہے۔ لیکن کہیں یہ نہ ہو کہ اس چکر میں پروفیسر انجم رومانی ٹوٹی پھوٹی غزل کہنے سے بھی جائیں اور راشد صاحب کو جو چار بھلے آدمی اب پڑھ لیتے ہیں وہ بھی انہیں طاق میں بٹھا دیں اورا ردو بےچاری دھوبی کا کتا بن کر رہ جائے۔

    اگر اس ٹوٹکے سے نئی سائنس کے آسمان تک پہنچ جانا اور ترقی کرنا ممکن ہوتا تو ایشیا میں ترکی والے سب سے ترقی یافتہ قوم ہوتے۔ ترکی کے تعلیم یافتہ حضرات بھی تو اسی ہمارے والے روگ میں مبتلا چلے آتے ہیں۔ وہ بھی اپنی اس تاریخ پر بہت شرمندہ تھے جس نے بڑے فاتحین اور جید علما پیدا کئے تھے۔ ادھر وہ اپنی تاریخ و تہذیب سے رسہ تڑاکر رومن رسم لخط کی بیساکھی کے سہارے یوروپین قوم بن کر کھڑے ہونے کے لئے ہاتھ پیر مارتے رہے۔ ادھر اس عرصے میں جاپان نے اپنے دقیانوسی رسم الخط کے باوجود بڑے بڑے کارخانے قائم کر لیے اور صنعتی مغرب سے مقابلہ کرنے لگا۔ ترکی کی مثال ہمارے لئے عبرت کا سامان رکھتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یار لوگ اسے رومن رسم الخط کے حق میں سند بناتے ہیں۔

    تعلیم یافتہ ترکوں نے عربی رسم الخط کو ترک کرکے رومن رسم الخط ا پنا لیا۔ پاکستان کے تعلیم یافتہ حضرات ہنوز تذبذب میں ہیں۔ اگر سوچئے تو ان دونوں صورتوں میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ ذہنی طور پر تو ہم بھی عربی، فارسی رسم الخظ کو ترک کر چکے ہیں۔ ویسے مجھے پھر بھی یقین نہیں آتا کہ ہم اس رسم الخط سے اپنا پیچھا چھڑا سکیں۔ بات یہ ہے کہ میں نے مال روڈ پر عین شیزان کے سامنے موتیا کے گجرے بکتے دیکھے ہیں۔ انگریزی تعلیم یافتہ حضرات پچھلے سو سال سے اپنی کوٹھیوں کے باغیچوں میں انگریزی پھولوں کی قلم لگا رہے ہیں، لیکن موچی دروازے کا عام آدمی آج بھی موتیا ہی کا گجرا خریدتا ہے اور عقیدت مند عورتیں آج بھی مزاروں پر موتیا ہی کے گجرے چڑھاتی ہیں۔

    اس واقعہ کے دو پہلو ہیں۔ ایک ناخوشگوار ایک خوشگوار۔ ناخوشگوار پہلو یہ ہے کہ پھولوں کے معاملے میں یہ دوئی ہمارے تہذیبی انتشار کا اظہار ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے تنفس کا آہنگ برہم ہو گیا تھا، ہماری نظر بٹ گئی ہے۔ عقل و استدلال کی زبان میں اسے فکرواحساس کا انتشار کہتے ہیں۔ خوشگوار پہلو یہ ہے کہ انگریزی پھولوں کی اتنی آبیاری کے بعد بھی موتیا کے پھول کھلتے ہیں اور ان کی مہک مال روڈ تک آتی ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ اپنے پھولوں کو فراموش کرنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا ن، م راشد صاحب سمجھتے ہیں۔

    آدمی نے پہلی پہل براہ راست چیزوں کی تصویریں بناکر صرف مطلب کا اظہار کیا۔ یہ تصویریں تجدیدی رنگ میں ڈھلے ڈھلتے رسم الخط بن گئیں۔ اب یہ تصویریں رسم الخطوں کی تہوں میں اسی طرح پیوست ہیں جس طرح اجتماعی لاشعور میں قدیم شکلیں اور تشبیہیں مدفون رہتی ہیں۔ میں رومن رسم الخط کی بات نہیں کرتا کہ وہ تو مردہ ہو چکا ہے۔ لیکن اپنے رسم الخط کو لیجئے جو ایک زندہ رسم الخط ہے اس کی کششوں اور دائروں اور قوسوں میں تصویریں اسی طرح زندہ و تابندہ ہیں جس طرح مسلمانوں کے اجتماعی تخیل میں ماضی کی شکلیں زندہ و تابندہ ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک قوم نے جس طرح چیزوں کو دیکھا اور تصور کیا اور اپنی ذات سے ہم رشتہ کیا، پھر دیکھنے کے سفر میں جو جو منزلیں آئیں اور ذات اور خارجی اشیا کے رشتہ نے جس طور پر ارتقا کیا وہ سب کچھ رسم الخط میں محفوظ ہوتا ہے۔ گویا رسم الخط اجتماعی طرزِ نظر کا ترجمان ہوتا ہے۔ اس کی جڑیں ان تصویروں، شکلوں اور تشبیہوں میں ہوتی ہیں جن سے ایک قوم کے تخیل کا خمیر اٹھتا ہے اور احساسات کی شکل بنتی ہے۔

    اسی لئے رسم الخط کی تبدیلی محض رسم الخط کی تبدیلی نہیں ہوتی، بلکہ وہ اپنے باطن کو بھی بدلنے کا اقدام ہوتی ہے۔ لیکن اپنے باطن کو بدلنا کچھ آسان نہیں ہوتا۔ اسی لئے رسم الخط کی تبدیلی صرف اس صورت میں مؤثر ثابت ہوتی ہے جب وہ ایسے عقائد و خیالات کی کمک کے ساتھ آئے جو انسان میں باطنی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ مثلاً جیسا ایران میں ہوا، جہاں عربی رسم الخط ایسے عقائد و خیالات کے راستہ پہنچا جو انسان کے باطن کو بدلنے کے مدعی تھے۔ ایران میں رسم الخط کی تبدیلی اس قوم کی اجتماعی ذات کی تبدیلی کا حصہ تھی۔ قوم کا باطن جوں کا توں رہے اور رسم الخط بدل جائے تو پھر یہی ہوتا ہے کہ اچھی بھلی قوم جمہوریہ ترکیہ بن کر رہ جاتی ہے۔

    گویا ہم نے اگر رومن رسم الخط کو اختیار کیا تو وہ سرکاری دفتروں میں رہےگا، یونیورسٹیوں کی زینت بنےگا اور کوٹھیوں میں گملوں اور گلدانوں میں لگاکر رکھا جائےگا۔ مگر مسجدوں، درگاہوں اور امام باڑوں میں طغرے بھی اور دودھ فروشوں اور پانوں کی دکانوں پر غالب و اقبال کے شعر اسی پرانے دھرانے رسم الخط میں آویزاں رہیں گے۔ ریاضیات اور طبیعات کو پوری حقیقت سمجھنے والوں کو شاید اس واقعہ میں کوئی معنی نظر نہ آئیں، لیکن جنہیں یہ معلوم ہے کہ یہ طغرے ہماری باطنی زندگی میں کتنا اثرونفوذ رکھتے ہیں اور ان مذہبی اور کاروباری اداروں کو ہماری تہذیبی زندگی میں کیا مقام حاصل ہے، ان کے لئے اس واقعہ کے معنی یہ ہیں کہ رومن رسم الخط انگریزی پھولوں کی طرح سجاوٹ کی چیز بن کر رہےگا۔ ہماری اجتماعی زندگی کی جڑوں میں شاید وہ سرایت نہ کر سکے۔

    اگر کسی صاحب کو اس میں شک ہے تو ان سے یہ مفید معلومات حاصل کرنے کو جی چاہتا ہے کہ ترکی میں مصطفیٰ کمال کے وقت سے اب تک رومن رسم الخط نے عام لوگو ں میں کتنا رواج پایا ہے۔ میاں بشیر احمد تو یہ کہتے ہیں کہ پڑھے لکھے رپورٹر بھی رپورٹنگ کے وقت آسانی عربی رسم الخط ہی میں دیکھتے ہیں اور پروفیسر حمید احمد خاں یہ بتاتے ہیں کہ انقرہ لائبریری کی کتابوں کی فہرست بھی ابھی خیر سے رومن رسم الخط میں منتقل نہیں ہو سکی ہے۔ انقرہ اور استنبول سے نکل کر اس رسم الخط کی کیا اوقات ہوگی، یہ خود تصور کر لیجئے۔ جو قوم روشن خیالوں کی ساری جدوجہد کے باوجود اب تک ترکی زبان میں اذان گوارا نہیں کر سکی ہے، اسے رومن رسم الخط کیسے ہضم ہو جائےگا۔ انگریزی پھول اور رومن حروف اجنبی زمینوں سے آئے ہیں ہمیں ان سے مہک نہیں آتی۔ شاید ہماری باطنی زندگی میں وہ رسوخ انہیں کبھی حاصل نہ ہو سکے جس کے بعد پھول اور حروف روحانی معنویت کے حامل بن جایا کرتے ہیں۔

    اردو کو رومن رسم الخط سے بس اتنا فیض حاصل ہوگا کہ وہ ٹیڈی گرل بن جائےگی مگر نقصان یہ ہوگا کہ نظر کا وہ انتشار جسے پھولوں کی دوئی نے جنم دیا ہے، رومن حروف کے طفیل اپنی انتہا کو پہنچ جائےگا۔ اس کے معنی ہیں مسلمانوں کی تہذیبی وحدت میں انتشار اور قلب ونظر کا فساد۔ اور یہ ایسا نقصان ہے کہ اگر پاکستانی قوم آگے چل کر کوئی آئن سٹائن بھی پیدا کرے تو اس نقصان کی تلافی نہیں ہو سکتی۔

    مأخذ:

    علامتوں کا زوال (Pg. 58)

    • مصنف: انتظار حسین
      • ناشر: ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2011

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے