aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ساقی کا دوسرا اداریہ (۱۹۴۸ء)

شاہد احمد دہلوی

ساقی کا دوسرا اداریہ (۱۹۴۸ء)

شاہد احمد دہلوی

MORE BYشاہد احمد دہلوی

     

    (کراچی سے شائع ہونے والے ساقی کا پہلا اداریہ)

    الحمد للہ کہ ساقی کی صورت دوبارہ دکھائی دی،

    گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار
    لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا

    پورے ایک سال بعد ساقی کے چھپنے کا موقع آیا۔ اس تمام عرصے میں ساقی جاری کرنے کی کوشش کی گئی لیکن نامساعد واقعات نے ہمیشہ مایوس کیا۔ دلی کے چھٹنے اور اثاث البیت کے لٹنے نے دل و دماغ ماؤف کر دیا تھا لیکن وقت کے ساتھ تعطل و جمود رفع ہوا۔ اپنی بربادی پر صبر آ گیا۔ ہمت مردانہ نے دور سے آواز دی، 

    آفتابِ تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا
    آسماں ٹوٹے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک؟ 

    اور جرأتِ رندانہ نے بیدار ہوکر ایک بار پھر دنیائے عمل میں لا کھڑا کیا۔ چاروں طرف تباہی و بربادی کا اندھیرا پھیلا ہوا تھا، لیکن امید کی ننھی سی کرن جگمگا رہی تھی اور سرگرم عمل ہونے کا اشارہ کر رہی تھی۔ گزشتہ زندگی ایک حسین خواب بن چکی تھی۔ اب نہ جائداد تھی، نہ کاروبار تھا اور نہ بینک کا روپیہ تھا۔ آمدنی کے سارے ذرائع مسدود ہو چکے تھے۔ احباب مدد فرمانا چاہتے تھے لیکن مجھے تو دولت پاکستان سے اپنی روزی آپ پیدا کرنی تھی۔ جس نے ہزاروں جھمیلوں میں سے نکال کر مجھے لاہور پہنچایا تھا، وہی آئندہ بھی میرا کفیل ہوگا اور بہ فضلہ مجھے ہر طرح کی آسائش مل گئی۔ کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی سب کچھ مل گیا۔ پاکستان مل گیا تو سب کچھ مل گیا۔ 

    نفسا نفسی کے عالم میں کسی سے بے مروتی کی شکایت بے جا ہے، تاہم ان دوستوں کی محبت ساری عمر یاد رہےگی جنھوں نے ڈھارس بندھائی۔ ان میں سب سے پیش پیش ایم اسلم ہیں جن کے خلوص نے میرے سارے غم دھو دیے۔ میں نے لاہور کو اپنا وطن ثانی بنایا تھا لیکن چند ناگزیر وجوہ کی بنا پر مجھے کراچی منتقل ہونا پڑا اور یہیں سے ساقی جاری ہو رہا ہے۔ لاہور سے میرا تعلق منقطع نہیں ہوا ہے بلکہ میرا بیشتر وقت لاہور میں گزرتا ہے۔ لاہور سےکوئی کیسے جدا ہو سکتا ہے؟ میرے عسکری صاحب بھی لاہور ہی میں ہیں اور ساقی مرتب کرنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ اگر ان کی اعانت مجھے حاصل نہ ہوتی تو ساقی اب بھی چھپنے نہ پاتا۔ یہ پہلا پرچہ عجلت میں تیار کیا گیا ہے تاہم اپنے سابقہ معیار سے ساقط نہیں سمجھا جا سکتا۔ امید ہے کہ آئندہ شمارے بہتر سے بہتر ہوتے جائیں گے۔ 

    مشہور پریس کراچی کے مالک حکیم محمد تقی صاحب نے طباعت کا ذمہ لے کر حق دوستی اور حق وطن ادا کیا۔ اگر ہر قدم پر تائید ایزدگی شامل حال نہ ہوتی تو ساقی کا خدا جانے کب تک انتظار رہتا۔ 

    ساقی جنوری ۱۹۳۰ء میں جاری ہوا تھا تو مشکلات پیش آئی تھیں، ان سے کچھ زیادہ ہی اس وقت پیش آ رہی ہیں۔ ہمارے پاس سوائے جذبہ خدمت کے، اب اور کچھ نہیں ہے۔ اس لیے ساقی کو زندہ رکھنا آپ کا کام ہے۔ پچھلا سارا اندوختہ ہجرت عظیم کی بھینٹ چڑھ گیا۔ ساقی کے اس نیے دور حیات کو اس طرح قائم رکھ سکتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ ساقی کی اشاعت ہو۔ خود خریدیں اور دوسروں کو بھی خریداری پر مائل کریں۔ اس کی آمدنی پر نہ تو پہلے میرا دارومدار تھا اور نہ اب انحصار ہے۔ اس کی آمدنی اسی کی بہتری پر خرچ ہوتی ہے۔ گزشتہ انیس برس میں ساقی نے جو کچھ پیش کیا ہے، سب آپ کے سامنے ہے۔ اب آپ خود اندازہ کیجئےکہ ساقی آئندہ کیا ہوگا۔ قدردانی شامل حال رہی تو انشاء اللہ پچھلے دور سے بھی بڑھ چڑھ کر شائع ہوگا۔ ہم اس فرض میں کوتاہی نہیں کریں گے۔ آپ اپنی ذمہ داری نبھائیں گے۔ امید ہے کہ سب کام سدھ ہو جائیں گے۔

     

    مأخذ:

    دلی جو ایک شہر تھا (Pg. 237)

    • مصنف: شاہد احمد دہلوی
      • ناشر: فیاض رفعت
      • سن اشاعت: 2011

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے