Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سجاد ظہیر

سید سبط حسن

سجاد ظہیر

سید سبط حسن

MORE BYسید سبط حسن

     

     

    1973ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے روح رواں سید سجاد ظہیر کے انتقال پر سبط حسن صاحب نے زیر نظر دو مضامین سپرد قلم کئے۔ پہلا مضمون انگریزی روزنامہ ڈان کراچی میں شائع ہوا جبکہ دوسرا مضمون انہوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین، ادارہ یادگار غالب اور ینگ رائٹرز فورم کے زیراہتمام تعزیتی جلسے منعقدہ غالب لائبریری میں پڑھا۔ انگریزی مضمون کا ترجمہ اور تعزیتی جلسہ میں پڑھا جانے والا مضمون ماہنامہ ’’طلوع افکار‘‘ کراچی کے سجاد ظہیر نمبر (نومبر۱۹۷۳ء) میں شائع ہوئے۔ (مرتب)

    انجمن ترقی پسند مصنفین کے بانی سجاد ظہیر کی اچانک موت نے ایک ایسی پیاری شخصیت کو ہمارے درمیان اور اردو ادب کے میدان سے اٹھا لیا ہے جس کی خدمات جدید اردو ادب کی نشوونما کے سلسلے میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ یہ نکتہ قابل غور ہے کہ ان کا انتقال ایسے وقت میں ہوا جب وہ افریقی اور ایشیائی ادیبوں کی کانفرنس (منعقدہ الماآٹا) میں شرکت کر رہے تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ افریقہ اور ایشیا کے ادیبوں کا اتحاد اور ان کی یکجہتی سجاد ظہیر کو ہمیشہ بے حد عزیز تھی۔

    گزشتہ ایک سال سے وہ بر صغیر کے اردو کے اولین اور فارسی کے اہم اور منفرد شاعر امیر خسرو کی زندگی اور ان کی شاعری کے بارے میں لندن، برلن، ماسکو، تاشقند، کابل اور ہندوستان کے کونے کونے سے مواد جمع کر رہے تھے۔ اس لئے کہ امیر خسرو کی چھٹی صد سالہ برسی پوری دنیا میں ۱۹۷۵ء میں منائی جائے گی۔

    سجاد ظہہیر لکھنؤ چیف کورٹ کے چیف جج سر سید وزیر حسن کے چوتھے بیٹے تھے۔ انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے بی اے پاس کیا اور ۱۹۳۵ء میں بیرسٹر بن گئے، مگر انہوں نے نہ کبھی وکالت کی اور نہ کوئی ملازمت بلکہ اپنا تمام وقت سیاسی اور ادبی سرگرمیوں کی نذر کر دیا۔ ۱۹۳۷ء میں ان کی شادی اردوکی مشہور افسانہ نگار اور ناول نگار رضیہ سجاد ظہیر سے ہوئی۔

    انگلستان کے قیام کے دوران میں انہوں نے سامرا جیت کے خلاف تحریکوں میں کھل کرحصہ لیا اور سوشلزم سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ سجاد ظہیر بنیادی طور پر ادبی مزاج رکھتے تھے، چنانچہ لندن میں ان کے تعلقات آڈن، لوئس، میکنیس، اسٹیفن اسپینڈر، رالف فوکس، جیک لنسے، ڈیوٹ گیسٹ، گنٹورتھ اور ملک راج آنند ایسے اہم ادیبوں اور شاعروں سے ہو گئے تھے جو ان دنوں ترقی پسند رجحانات کے لئے مشہور تھے۔ سجاد ظہیر فرانسیسی اور انگریزی زبانوں پر پورا عبور رکھتے تھے۔ لیکن انہوں نے ہمیشہ اپنے خیالات کا اظہار اردو ہی میں کیا۔ اس لئے کہ انہیں اردو سے بڑا گہرا جذباتی لگاؤ تھا۔ لندن ہی میں انہوں نے اپنا مشہور و معروف ناول ’’لندن کی ایک رات‘‘ لکھ لیا تھا۔ جو آج بھی ویسا ہی تازہ اور مقبول ہے جیسا کہ اپنے ابتدائی دور میں تھا۔ اس ناول کے بعد انہوں نے کئی ایک بہت عمدہ افسانے بھی لکھے۔

    ان کا دوسرا بڑا معرکہ آرا کام کہانیوں کے اس مجموعے کی ترتیب اور اشاعت تھا جسے ’’انگارے‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس مجموعے میں پروفیسر احمدعلی، ڈاکٹر رشید جہاں اور ان کے میاں محمود الظفر کی کہانیاں بھی شامل تھیں۔ شائع ہوتے ہی اس کتاب نے پورے ملک میں ایک تہلکہ مچا دیا تھا۔ یہ کہانیاں آج کے دور میں تو بڑی بے ضرر سی معلوم ہوتی ہیں لیکن جس زمانے میں یہ کتاب چھپ کر سامنے آئی تھی اس وقت کے اردو پڑھنے والے ہمارے سماجی اور اخلاقی دوغلے پن کے متعلق ایسی کھری اور سخت تنقید پڑھنے کے عادی نہیں تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس کتاب پر روایت پرستوں نے بڑی لے دے کی، یہاں تک کہ اس کتاب کے کہانی لکھنے والوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔ بالآخر یوپی گورنمنٹ نے اس کتاب کو ضط کر لیا۔

    یہ دور پوری دنیا میں سیاسی، اخلاقی اور فکری اعتبار سے شدید بحران کا وقت تھا۔ ہٹلر انہی دنوں تازہ تازہ جرمنی کی مسند اقتدار پر آیا تھا اور اسپین کی جمہوری اور منتخب حکومت کا تختہ جرنل فرانکو اور اس کے حواریوں نے جرمنی کے نازی اور اٹلی کی فاشسٹ قوتوں کی مدد سے الٹ دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یورپ اور ایشیا کے آزادی اور جمہوریت پسند فطری طور پر اس شخصی اقتدار کی پھیلتی ہوئی وبا سے سخت مضطرب تھے، چنانچہ انہوں نے دنیابھر کی ترقی پسند ادبی قوتوں کومنظم کیا تاکہ فرد کی آزادی اوراس کے جمہوری حقوق کاعلم بلند رکھا جا سکے۔ اس پس منظر میں سجاد ظہیر اور ان کے ساتھیوں نے ایسے ادیبوں کی ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی جو انسانیت کی مادی اور عقلی سربلندی کے حق میں نبردآزما ہو سکتے تھے۔

    ۱۹۳۶ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین قائم کرنے سے پہلے سجاد ظہیر بر صغیر کے تقریباً تمام ممتاز اہل علم اور ادیبوں اور شاعروں سے ملے اور ان سے اس مسئلے پر تبادلہ خیال کیا۔ ان کے اس خیال کوعلامہ اقبال، رابندرناتھ ٹیگور، مولوی عبد الحق، منشی پریم چند، قاضی عبد الغفار، مسزسروجنی نائیڈو، میاں بشیراحمد، مولانا عبد الحمید سالک، مولاناغلام رسول مہر، صوفی غلام مصطفے تبسم، مولانا حسرت موہانی، مولانا چراغ حسن حسرت، جوش ملیح آبادی اوربہت سے دوسرے ادیبوں نے بے حد سراہا۔ ان کے اپنے ہم عمر اور ہم عصروں مثلاً فیض احمد فیض، ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری، پروفیسر مجنوں گورکھپوری، پروفیسر احمد علی، پروفیسر فراق گورکھپوری، اختر شیرانی اور احمد ندیم قاسمی وغیرہم نے ان کی بھرپور حمایت کی۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس لکھنؤ میں ۱۹۳۶ء میں اردو کے عظیم ناول نویس اور افسانہ نگارمنشی پریم چندکی صدارت میں ہوئی۔ اس اجلاس میں سجاد ظہیر کو انجمن کا جنرل سکریٹری منتخب کیا گیا اور بہت ہی مختصر عرصے میں انجمن نے اپنے آپ کو ایک حرکی قوت کے طور پر ثابت کر دیا اور ہمارے ادب میں نئی اقدار کی آبیاری شروع کردی۔

    1939ء تا 1942ء نظربندی کے دوران میں سجاد ظہیر نے سراج مبین کے نام سے بہت سے ادبی مضامین لکھے جو انجمن ترقی پسند مصنفین کے ترجمان رسالے ’’نیا ادب‘‘ میں شائع ہوئے۔ رہائی کے بعد وہ بمبئی چلے گئے جہاں انہوں نے ’’قومی جنگ‘‘ کی ادارت کے فرائض انجام دیے۔ اسی دوران میں وہ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے۔ سجاد ظہیر نے اپنی سیاسی مصروفیتوں کے باوجود کبھی اردو ادب اور زبان کی خدمت سے غفلت نہیں برتی۔ یہ خدمت انہوں نے شروع ہی سے خود عائد کردہ فرض کے طور پر اپنائی تھی اور آخر تک وہ یہ فرض نہایت ذمہ داری اورلگن کے ساتھ پورا کرتے رہے۔

    انہوں نے بمبئی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یوم غالب کا انتظام کیا اور بڑی شان سے منایا۔ اس کے کچھ ہی دنوں بعد انہوں نے اسی طرح یوم شبلی بھی منایا۔ ان دونوں تقریبات میں مختلف مدرسہ فکر کے ادیبوں نے شرکت کی۔ واقعہ یہ ہے کہ فن اور ادب کے بارے میں سجاد ظہیر کے جذبات نہایت گہرے اور نازک تھے۔ ادیبوں کے بارے میں وہ ہمیشہ اتنے پرخلوص اور گرم جوش رہے کہ وہ ادیب بھی جو ان کے سیاسی مسلک سے شدید اختلاف رکھتے تھے، نہ صرف ان کی دوستی اور ان کی رفاقت کا دم بھرتے تھے بلکہ ہمیشہ ان کے ادبی مقاصد کے بارے میں دست تعاون دراز کرتے تھے۔

    ۱۹۴۷ء کے آخر میں سجاد ظہیر پاکستان چلے آئے تھے لیکن ۱۹۵۱ء میں انہیں راولپنڈی سازش کے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا۔ حیدرآباد اور مچھ جیل کی مشقت آمیز نظربندی کے دوران میں سجاد ظہیر نے دو نہایت وقیع اور پائدار ادبی اہمیت کی کتابیں لکھیں جن میں سے ایک فارسی کے عظیم شاعر حافظ شیرازی کی زندگی اور شاعری کا جائزہ اور تنقیدی مطالعہ ہے۔ اس کتا ب کا نام ’’ذکر حافظ‘‘ ہے۔ دوسری کتاب ’’روشنائی‘‘ ہے، جو ترقی پسند مصنفین کی تحریک کی ابتدا اور اس کے پھیلاؤ کی تاریخ بھی ہے اور ان بے سر و پا الزامات کی مدلل تردید بھی جو اس تحریک پر تھوڑے تھوڑے وقفے سے عائد کئے جاتے رہے ہیں۔

    جیل میں نظر بندی کے عرصہ میں انہوں نے کچھ نظمیں بھی لکھی تھیں جو حال ہی میں دہلی میں ’’نیلم‘‘ کے نام سے ایک مجموعہ کی شکل میں شائع ہوئی ہیں۔ ان نظموں کی اکثریت ان نظموں کی ہے جنہیں آج کل تجریدی شاعری کہا جاتا ہے۔ ’’نیلم‘‘ کے دیباچے میں سجاد ظہیر نے نئی نسل کے جدید شعراء کے مسائل اور روایت پسندانہ اشاریت اور ڈکشن کی محدود نوعیت پر بڑی اہم تنقیدی بحثیں اٹھائی ہیں۔ اس لئے ان کے خیال میں آج کل کے نوجوان شاعراپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بالعلوم روایتی سمبلز اور ڈکشن کوعہد جدید کی روح کی گرفت اور احاطہ نہ کرنے کے شاکی نظر آتے ہیں۔

    سجاد ظہیر کو ۱۹۵۵ء میں مچھ جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔ لیکن فورا ًہی انہیں ہندوستان بھجوا دیا گیا۔ وہ عمر بھر پاکستان اور اس کے عوام کے لئے اپنے دل میں نیک خواہشات بسائے رہے اور دونوں ملکوں کے درمیان دوستی اور خوشگوار تعلقات کے لئے سر توڑ کوشش کرتے رہے۔ وہ دہلی کے ایک روزنامے (حیات) کے مدیر تھے اور ایک صحافی ہونے کی حیثیت سے پچھلے دنوں پاکستان آنے کی اجازت حاصل کرنے کے لئے کوشش کر رہے تھے۔ اس ضمن میں انہوں نے آکسفورڈ کے اپنے پرانے ہم سبق اور آج کل لندن میں پاکستان کے سفیر میاں ممتاز دولتانہ سے ملاقات بھی کی تھی اور دولتانہ صاحب نے جناب ذوالفقار علی بھٹو کو اس بارے میں لکھا بھی تھا۔ لیکن اس سے پہلے کہ بھٹو صاحب کا جواب یہاں سے جاتا، سجاد ظہیر اس دنیا سے ہی رخصت ہوگئے۔

    سجاد ظہیر کوئی پرنویس قسم کے ادیب نہیں تھے۔ اپنے ۳۵ سالہ ادبی کیریئر میں انہوں نے صرف ایک ناول، چند کہانیاں اور ڈرامے اور جدلی مادیت پر ایک کتابچہ، حافظ شیرازی کی شاعری کا تنقیدی جائزہ، ترقی پسند تحریک کی تاریخ، نظموں کا ایک مجموعہ اور دو درجن سے زائد مضامین لکھے لیکن جو کچھ بھی انہوں نے لکھا، جدید اردو ادب پر اس کے بڑے گہرے اثرات پڑے ہیں۔

    انہوں نے اپنا ادبی کیریئر بحیثیت افسانہ نگار کے شروع کیا لیکن جلد ہی وہ تنقید کی طرف نکل آئے اور بلاشبہ ان کے افکار اور خیالات کی ترجمانی کا یہی سب سے اچھا ذریعہ ثابت ہوا۔ اردو تنقید کی تاریخ میں ان کے تنقیدی مضامین سنگ میل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کے مضامین سے کلاسیکی اور جدید ادب کی تعبیر اور تنقید کے لئے نئی سمتیں کھلی ہیں۔ جو سادگی ان کی شخصیت کا جزو تھی وہی ان کے ادبی اسلوب کی خصوصیت بھی ہے انہوں نے ادب کی سکہ بند ترکیبیں اور بھاری بھرکم الفاظ، اپنے پڑھنے والوں کو متاثر اور خوف زدہ کرنے کے لئے کبھی استعمال نہیں کئے۔ وہ کسی سے اپنی ذہنی برتری منوانے کے قائل ہی نہیں تھے۔ وہ دلائل سے آدمی کوقائل ضرور کرتے تھے لیکن انہوں نے کبھی روایتی علمی اکڑفوں نہیں دکھائی۔ بحث و مباحثے وہ بڑے شان سے کرتےتھے اور اپنی ساری علمی قوت صرف کر دیتے تھے، لیکن انہوں نے کبھی کسی کے جذبات کو مجروح نہیں کیا۔ وہ تنقید بہت سخت کرتے تھے لیکن نہ ان کے دل میں کسی کی طرف سے میل ہوتا تھا نہ کبھی نجی حملے کرتے تھے۔ نہ کبھی اپنے مخالف کے بارے میں سرپرستانہ رویہ اختیار کرتے تھے۔

    فطرت نے انہیں بڑا میٹھا مزاج دیا تھا۔ امرواقعہ یہ ہے کہ وہ ہمارے دور کی سب سے زیادہ پسندیدہ اور پیار کی جانے والی شخصیت تھے۔ لوگوں سے ملنے جلنے کا انہیں بے حد شوق تھا اور خاص طورسے نوجوان لکھنے والوں اورذکی اورذہین نوجوانوں سے وہ بڑے خلوص سے ملتے تھے۔ نہ صرف ان کو بڑی کشادہ پیشانی اور خوش دلی کے ساتھ خوش آمدید کہتے تھے، بلکہ ان کے مسائل پر بڑی توجہ اور گرم جوشی سے تبادلہ خیال کرتے تھے۔ وہ بھی ایک مخلص دوست اور ان کے برابر کے ساتھی کی حیثیت میں، نہ کہ کسی فتوے بازمفتی کی طرح۔ وہ بڑے صبر سکون کے ساتھ دوسروں کی گفتگو سنتے اور کبھی کسی ملاقاتی کو انہوں نے ہراساں کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا ہر ملاقاتی انہیں بڑے پیار سے بنے بھائی کہتا تھا۔

    سجاد ظہیر کے اندر ادبی تقریبات کی تنظیم اور ترتیب کی بڑی صلاحیتیں تھیں۔ مثلاً اس صدی کی ربعہ اول میں ڈھاکہ سے پشاور اور دہلی سے مدراس تک کا سفر کرنا اور ان مختلف زبانوں اور نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والے ادیبوں کوایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا اور پھر ان کو ایک بڑی تنظیم کی لڑی میں پرودینا بڑا جان جوکھوں کامرحلہ تھا لیکن سجادظہیر نے یہ کام نہایت خوش اسلوبی سے اور ہنستے کھیلتے کر دکھایا۔ اس دوران میں نہ انہوں نے کبھی عجلت پسندی دکھائی اور نہ کبھی کسی پرغصہ کیا اور نہ ہی ان کے چہرے پرکبھی بیزاری، تھکاوٹ اور ناگواری کے اثرات دیکھنے میں آئے۔

    سجاد ظہیر ادب اور سیاست دونوں کے بارے میں سخت جانب دارتھے۔ وہ عمر بھر اپنے مقصد نظرکے لئے رزم آرا رہے اور اس راہ میں انہوں نے بلاشبہ بہت بڑی قربانیاں دیں۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود انہوں نے اپنے دوستوں اور عزیزوں پر کبھی اپنے نظریات تھوپنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ بڑے روشن دماغ انسان ہونے کے ساتھ ساتھ صحیح معنی میں صاحب ذوق اور جمال پسندانسان تھے، اس لئے کہ زندگی کے ہرحسن سے انہیں شدید پیارتھا، چاہے وہ کسی روپ میں کیوں نہ ہو، اور اسی شدت کے ساتھ وہ لوگوں کی غربت، بدحالی اور ذہن پر پہرے بٹھا دینے سے نفرت کرتے تھے۔ وہ مشرقی اور مغربی موسیقی کے بڑے دلدادہ تھے اور فارسی، اردو اور ہندی شاعری کو بے پسند کرتے تھے۔

    وہ عمر بھر انسانوں اور انسانیت کی سر بلندی کے لئے بڑے خلوص اور رچاؤ کے ساتھ جد و جہد کرتے رہے اور کسی موقع پر بھی انہوں نے کسی قسم کی تلخی کا شائبہ تک نہیں آنے دیا۔ اردو ادب کی تاریخ میں ان کا نام ایک ایسی زندگی بخش تحریک کے بانی کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا جس نے ابتدا سے اب تک اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں والی دو نسلوں کو جنم دیا ہے۔

    (۲)
    حیات اور موت کا رشتہ ابدی ہے اور ہم سب جو زندہ ہیں، وہ ہر لمحہ موت ہی کی طرف سفر کر رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہم یہ سفر کیسے کرتے ہیں۔ حیات بخش، قوتوں سے رابطہ رکھ کریا موت کی قوتوں کے سایے میں۔ کیونکہ جینے کے دو ہی طریقے ہیں۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ آدمی جب تک زندہ رہے زمین کا بوجھ بنا رہے اور لوگ اس سے پناہ مانگتے رہیں حتیٰ کہ اس کا جنازہ بھی وبال دوش ہو۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انسان جب تک زندہ رہے دوسروں کی زندگی کا سہارا بنا رہے اور مرتے وقت نہ اپنی ذات سے نادم ہو نہ دنیا والوں سے شرمندہ۔

    سجاد ظہیر صاحب جن کا سوگ منانے کے لئے ہم آج یہاں جمع ہوئے ہیں، بڑے آن بان سے جیے اور بڑی شان سے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ انہوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ تمام عمر زندگی، سچائی، انصاف اور انسانیت کی قوتوں کا ساتھ دیا اور بدی، بے انصافی، انسان دشمنی، ذہنی اور مادی غلامی، غرض یہ کہ ان تمام قوتوں سے لڑتے رہے جو موت اور زوال کی نشانیاں ہیں۔

    سجاد ظہیر نیکی اور صداقت تھے، اسی لئے ان کے ساتھ رفاقت کا رشتہ جوڑنا بہت آسان تھا۔ ان کا دل بقول غالب مہر و وفا کا باب تھا۔ اس دروازے پر نہ کوئی حاجب و دربان تھا اور نہ شناختی کارڈ کی ضرورت ہوتی تھی۔ اسی لئے پاکستان کیا، اس شہر میں بھی آپ کو ایسے لوگوں کی کافی تعداد ملے گی جو ان کی شرافت، خلوص، انسان دوستی کے معترف ہوں گے۔ یہاں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے ان کےساتھ مل کر ادبی یا سیاسی کام کیا ہے۔ اگر میں کچھ ایسی باتیں کہوں جس میں خودنمائی کی جھلک نظرآئے توآپ لوگ مجھے معاف کر دیں کیونکہ ان کی ذات سے وابستگی میں عام طور سے من و تو کے جحابات اٹھ جاتے تھے اور ہر شخص یہی محسوس کرتا تھا کہ میری ذات سجاد ظہیر کی ذات کا ایک جزو ہے۔

    سجاد ظہیر کی ادبی زندگی کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ ترقی پسند ادب کی تحریک کی بنیاد ڈالنے اور اس تحریک کو آگے بڑھانے میں انہوں نے بڑا تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ ان کی تحریروں نے ادیبوں کے طرز فکر و احساس پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ چنانچہ ان کی ادبی خدمات کبھی بھلائی نہیں جا سکتیں۔ لیکن ان کی شخصیت کا سیاسی پہلو ابھی زیادہ اجاگر نہیں ہوا ہے۔ وہ طالب علمی کے زمانے میں کمیونسٹ تحریک سے وابستہ ہوئے اور مرتے دم تک اس سے وابستہ رہے۔ وہ ایک نہایت خوش حال گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور اپنی یا اعلیٰ تعلیم کے باعث بڑی آسانی سے نہایت آسودہ اور پر چشم زندگی بسر کر سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے انقلابی جد و جہد کی پرخار وادی میں قدم جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر رکھا تھا۔ انہوں نے کبھی پیچھے مڑکر نہ دیکھا کہ اس آبلہ پائی نے کتنے کانٹوں کو گلنار بنایا ہے۔ وہ آگے ہی بڑھتے رہے۔

    جو لوگ سجاد ظہیر کے مزاج کی نرمی، مٹھاس اور نفاست سے واقف تھے اور فنون لطیفہ سے ان کی والہانہ محبت سے آگاہ تھے، ان کو سجاد ظہیر کی سیاسی مصروفیتوں پر کبھی کبھی بڑی حیرت ہوتی تھی۔ کیونکہ کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمیوں میں حصہ لینا یا پارٹی کی تنظیم کے لئے دوڑ بھاگ کرنا بظاہر بڑا غیرشاعرانہ فعل معلوم ہوتا ہے۔ وہ سوچتے تھے کہ اتنا نازک مزاج شخص بھلا مزدوروں اور کسانوں میں گھل مل کرکسی طرح کام کر سکتا ہے۔ ادب اور پارٹی کی سیاست ان کو دومتضاد چیزیں نظر آتی تھیں مگرسجاد ظہیر کواس بات پرحیرت ہوتی تھی کہ وہ لوگ جواپنے کو روشن خیال اور ترقی پسند کہتے ہیں، کمیونسٹ کیوں نہیں ہو جاتے۔ وہ کہتے تھے کہ میں ترقی پسند ادیب اسی لئے ہوں کہ کمیونسٹ ہوں اور کمیونسٹ اسی لئے ہوں کہ ترقی پسند ادیب ہوں۔ وہ ان دونوں حقیقتوں کو ایک دوسرے کی ضد نہیں سمجھتے تھے بلکہ ایک کو دوسرے کا منطقی نتیجہ تصور کرتے تھے۔

    انہوں نے پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری کا عہدہ بڑے پریشان کن حالات میں سنبھالا تھا۔ پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کے صوبائی دفتر لاہور، کراچی اور پشاور میں موجود تھے۔ لیکن سب سے فعال صوبائی پارٹی صوبہ پنجاب کی تھی۔ البتہ اس پارٹی کے بیشتر رہنما سکھ یا ہندو تھے۔ سردار سوہن سنگھ جوش، سردار تیجا سنگھ سوتنتر، سردارکرم سنگھ مان وغیرہ۔ ان میں سے بعض کا تعلق غدر پارٹی سے رہ چکا تھا۔ بعض مولانا عبید اللہ سندھی اور مولوی برکت اللہ مرحوم کے ساتھ کام کر چکے تھے اور دس دس پندرہ پندرہ سال قید رہے تھے۔ ملک تقسیم ہوا تو ان سب لوگوں کو بھی ہندوستان جانا پڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہاں کی پارٹی کا شیرازہ بکھر گیا۔ سجاد ظہیر کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے تین سال کی مختصر مدت میں کمیونسٹ پارٹی کے نہ صرف بکھرے ہوئے تاروں کو از سر نو جوڑا بلکہ نئے کارکنوں کی سیاسی تربیت کر کے اس نوزائیدہ پارٹی کو ایک نہایت باعمل اور منظم جماعت میں تبدیل کر دیا۔

    سجاد ظہیر کو پاکستان کے حالات کا مطالعہ کرنے کا بہت کم موقع ملا تھا۔ روپوشی کی وجہ سے وہ عام لوگوں سے کیا، خود پارٹی کے کارکنوں اور ہمدردوں سے بھی آزادی سے نہ مل سکتے تھے۔ اس کے باوجود ان کی شخصیت میں اس بلا کی کشش تھی کہ پارٹی کا ہر رکن ان سے ذاتی طور پر ایک یگانگت اور اپنائیت محسوس کرتا تھا۔ ہر شخص کو ان پر اور ان کے طریقہ کار پر پورا پورا بھروسہ تھا۔ یہی وہ اوصاف تھے جن کی بدولت وہ پارٹی کے اندرفکر وعمل کی وحدت کو فروغ دینے میں کامیاب ہوئے۔ اس وقت کمیونسٹ پارٹی سیسہ کی ایک دیوار تھی جس میں گروہ بندیوں اورباہمی رقابتوں کے شگاف نہیں تھے۔

    سجاد ظہیر بنیادی طور پر ایک آرٹسٹ تھے۔ چنانچہ وہ انقلابی سرگرمیوں کو بھی ایک آرٹسٹ کی نظر سے دیکھتے اور برتتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ انقلاب بھی تو ساز ہستی کا ایک حیات بخش نعمہ ہے، لہذا ہر انقلابی کا رکن کا فرض ہے کہ جس طرح ایک موسیقار ستار کے مختلف تاروں کو حرکت دے کر ان کی آوازوں میں ایک آہنگ اور حسن پیدا کرتا ہے یا ایک پیانو بجانے والا پیانو کی پتیوں پر اپنی انگلیوں کی جنبش سے نئی نئی دھنیں بناتا ہے تاکہ لوگوں کا جمالیاتی ذوق نکھرے اوران میں زندہ رہنے اورزندگی کوحسین بنانے کا ولولہ پیدا ہو، اسی طرح ہم انقلابیوں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے عمل سے لوگوں میں زندگی سے محبت کرنے، زندگی کے سچے اور حیات بخش اقدار کو ترقی دینے، زندگی کوزیادہ آسودہ، آزاد اورباشعور بنانے اور ان قوتوں سے نبردآزما ہونے کی صلاحیتیں ابھارے جو انسانیت کے لئے ایک جان لیوا روگ بن گئی ہیں۔

    سجاد ظہیر نے تحریک پاکستان کی حمایت اس وقت کی جب مسلم لیگ ایک جماعت تھی اور بر صغیر کی تمام سیاسی جماعتیں تحریک پاکستان کے خلاف تھیں۔ انہوں نے قوموں کے حق خودارادیت کی تشریح میں جو مضامین لکھے یا تقریریں کیں ان کی بدولت بہت سے مسلم لیگی رہنماؤں کوپہلی بارقوموں کے حق خودارادیت کا علم ہوا۔ لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان کے ارباب اختیار نے اسی شخص کو قابل گردن زدنی ٹھہرایا۔

    چنانچہ ان کے پاکستان میں قدم رکھنے سے پیشتر ہی ان کی گرفتاری کا پروانہ جاری ہوگیا تھا۔ وہ جب تک پاکستان میں رہے روپوش رہے یا پھر گرفتار، اور جب وہ رہا ہوئے توانہیں دو دن کے اندر ملک بدر کر دیا گیا۔ اس نیک سلوک کے باوجود سجاد ظہیر جب تک زندہ رہے، پاکستان اور یہاں کے لوگوں سے محبت کرتے رہے۔ ان کی برابر یہ کوشش رہی کہ پاکستان اورہندوستان کے درمیان دوستی اورمحبت کے رشتے قائم ہو جائیں۔ اپنے مضامین میں اور تقریروں میں وہ ہمیشہ اسی بات پر زور دیتے تھے۔ حال ہی میں انہوں نے نئی دہلی کے ایک ہفتہ وار اخبار میں پاکستانی ادب پر بڑی ہمدردی سے ایک مضمون لکھا تھا۔ اس کا حوالہ دیتے ہوئے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ’’پاکستانی ادب پرایک چھوٹا سا مضمون میں نے حال ہی میں ایک ہندوستانی ہفتہ وار کے لئے لکھا تھا۔ ہندوستان میں پاکستانی کتابیں بڑی مشکل سے یا بالکل نہیں ملتیں۔ پاکستان کے پرانے رسالوں کے بل پر اور پرانی کتابوں کی بنیاد پر جو کچھ ہوسکا میں نے وہ لکھا۔ پھر بھی ہندوستان کے موجودہ حالات میں شاید یہ بھی غنیمت تھا۔‘‘

     ایک اور خط میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ کیسی غیر فطری صورتحال ہے کہ دوست عزیز تک ایک دوسرے سے نہیں مل سکتے اور نہ ایک دوسرے ملک سے دوسرے ملک آ جا سکتے ہیں۔ دہلی سے ماسکو یا لندن جانا آسان ہے، امرتسر سے لاہور ناممکن ہے۔ یورپ والے آپس میں بڑی بڑی خوفناک لڑائیاں لڑتے رہے ہیں۔ فرانس اور جرمنی تو شارلیمین کے زمانے سے یعنی ہزار سال سے ہر صدی میں دو چار لڑائیاں لڑ لیتے ہیں۔ لیکن لڑائی بند ہوئی اور آنا جانا تجارت لین دین سب شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن ہماری دشمنیاں اتنی مجنونانہ ہیں کہ اپنا بھلا اور انسانیت کا بھلا دونوں بھول جاتے ہیں۔ آج اسلام آباد میں گفتگو ہو رہی ہے، میرا خیال ہے کہ اس بار کوئی مثبت نتیجہ ضرور نکلے گا۔ لیکن کتنا مثبت کہ ہرمرتبہ جب ملتے ہیں تو گاڑی آگے بڑھتی ہے لیکن کچھ دور چل کر پھر دل دل میں پھنس جاتی ہے، میاں دعا کرو کہ ہماری ساری زندگی میں کم از کم یہ صورت تو ختم ہو۔‘‘ (۲۴ جولائی ۷۳ء لندن)

    افسوس ہے کہ ان کی یہ آرزو پوری نہ ہوئی۔ انہوں نے لندن میں میاں ممتاز دولتانہ سے ملاقات کی تھی تاکہ وہ سجاد ظہیر کو اخبار نویس کی حیثیت سے پاکستان آنے کی اجازت دلوا دیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہاں سے واپس جانے کے بعد وہ جومضامین لکھتے، ان کا اثران ہندوستانی اخبار نویسوں کی تحریروں سے زیادہ ہوتا جواب تک یہاں آ چکے ہیں۔

    سجاد ظہیر تمام عمر اس راہ پرچلتے رہے جو انسانی معاشرے کے نجات کی راہ ہے۔ شعور ذات، تحصیل ذات اور تکمیل ذات کا راستہ بھی یہی ہے۔ سجاد ظہیر اب زندہ نہیں ہیں لیکن ان کے کارنامے تو زندہ اور تابندہ ہیں۔ اب یہ نوجوانوں کا کام ہے کہ اس روشنی سے کسب فیض کریں اور آزادی اور جمہوریت کا جو پیغام سجاد ظہیر لے کر چلے تھے اس کو اپنے ہم وطنوں تک پہنچائیں۔

    ہر لحظہ نیا طور، نئی برق تجلی
    اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے

     

     

    مأخذ:

    ادب اور روشن خیالی (Pg. 90)

    • مصنف: سید سبط حسن
      • ناشر: مکتبہ دانیال، کراچی
      • سن اشاعت: 1990

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے