Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شاہ جہانی دیگ کی کھرچن

شاہد احمد دہلوی

شاہ جہانی دیگ کی کھرچن

شاہد احمد دہلوی

MORE BYشاہد احمد دہلوی

    اب سے چالیس پینتالیس سال پہلے تک دلی میں شاہجہانی دیگ کی کھرچن باقی تھی۔ بڑے وضع دار لوگ تھے یہ دلی والے۔ جب تک جیتے رہے ان کی وضع میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ہر شخص اپنی جگہ پر ایک نمونہ تھا، ایک نگینہ تھا دلی کی انگوٹھی میں جڑا ہوا۔ انہیں دیکھ کر آنکھوں میں روشنی آ جاتی اور ان کی باتیں سن کر دل کا کنول کھل جاتا، خوش مذاق، خوش صفات، اب ایسے لوگ کہاں پیدا ہوں گے؟ یہ ایک مخصوص تہذیب کی پیداوار تھے اور اس تہذیب کی شمع گل ہو گئی اور شمع کے ساتھ پروانے بھی رخصت ہوئے۔ 

    میر ناصر علی دہلوی یہ صاحب جو کمان کی طرح جھکے جھکے، پیچھے ہاتھ باندھے چوک پر کباڑیوں میں پھر رہے ہیں، خان بہادر میر ناصر علی ہیں۔ اسی سے اوپر ہیں مگر فراش خانہ سے جامع مسجد روزانہ پیدل آتے جاتے ہیں۔ آندھی جائے مینہ جائے ان کا پھیرا ناغہ نہیں ہوتا۔ انہیں پرانی چیزیں جمع کرنے کا شوق ہے اس لیے چوک پر بیٹھنے والے کباڑیوں میں گھومتے پھرتے ہیں۔ کباڑیے بھی انہیں خوب جان گئے ہیں۔ جو چیز کوڑیوں کے مول لاتے ہیں، میر صاحب سے ان کے روپے بناتے ہیں مگر میر صاحب ان کے جھانسوں میں کم ہی آتے ہیں، یہ اشرفیوں کی چیز روپوں میں ان سے خریدتے ہیں، کبھی میر صاحب کے گھر جا کر آپ دیکھتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ ایک چھوٹا سا نگار خانۂ چین ان کے گھر میں اتر آیا ہے۔ 

    یہ وہی ناصر علی ہیں جو ’’تیرہویں صدی‘‘ میں سر سید سے الجھتے سلجھتے رہے۔ ان کے باپ دادا شاہی مناظرہ کرنے والے تھے، یوں میر صاحب کو دین کی تعلیم پہنچی ہوئی تھی۔ سرسید انہیں ’’ناصح مشفق‘‘ کہتے تھے۔ صاحب طرز ادیب تھے، اب سے پچاس ساٹھ سال پہلے ان کا طوطی بولتا تھا۔ ان کا آخری پرچہ ’’صلائے عام‘‘ تھا جو ربع صدی تک جاری رہا اور ان کے ساتھ ہی رخصت ہوا، ان کا کتب خانہ دلی کے بہترین کتب خانوں میں شمار ہوتا تھا۔ صورت سے قلندر معلوم ہوتے تھے۔ جب بولنے پر آتے تو سمندر بن جاتے۔ ادب، فلسفہ، مذہب، تاریخ کے جوار بھاٹے آنے لگتے، اپنے آگے کسی کو نہ گردانتے تھے، سب کو طفل مکتب جانتے تھے، مزاج کے کڑوے تھے اور باتیں اکثر کسیلی کرتے تھے، نمک کے محکمے میں ساری عمر نوکر رہے۔ جتنے عرصے ملازمت کی اس سے زیادہ عرصہ تک پنشن لی۔ اتنے جئے کہ ہم عمروں میں کوئی باقی نہ رہا۔ شاید اسی وجہ سے چڑچڑے ہو گئے تھے۔ 

    دلّی میں حضرت خواجہ باقی باللہ کی درگاہ میں جو راستہ شمال سے جاتا ہے، اس پر ایک بزرگ کا مزار ہے جس پر یہ شعر لکھا ہوا ہے۔ 

    فاتحہ مرقد ویراں پہ بھی پڑھتے جانا
    ان سے کہہ دو جو ہیں اس راہ کے گزرنے والے

    ان ہی حافظ ویراں کے میر صاحب مرید تھے، مگر میر صاحب اپنی بعد کی زندگی میں پیری مریدی کے سخت خلاف ہو گئے تھے۔ میر صاحب کے لباس میں نفاست بہت تھی۔ لباس صاف ستھرا ہوتا تھا، کھانا من بھاتا کھاتے تھے، چائے بڑے اہتمام سے پیتے تھے۔ کہیں آتے جاتے نہیں تھے۔ کسی سے ملتے جلتے نہیں تھے۔ جتنا وقت ملتا تھا مطالعہ میں گزارتے تھے۔ ہزاروں شعر اردو فارسی کے انہیں یاد تھے۔ اپنے مضامین میں ان اشعار کا نہایت موزوں صرف کرتے تھے۔ میر صاحب جیسی نثر کسی اور کو لکھنی نصیب نہ ہوئی۔ مرض الموت میں شدید تکلیف اٹھائی مگر پیشانی پر شکن تک نہ آئی۔ بڑے صابر و ضابط آدمی تھے۔ مرنے سے کچھ دیر پہلے بیٹے نے مزاج پرسی کی تو بولے، 

    سفینہ جب کہ کنارے پہ آلگا غالبؔ
     خدا سے کیا ستم وجور ناخدا کہئے

    نواج سراج الدین احمد خاں سائلؔ دہلوی گورا رنگ، کشادہ پیشانی، غلافی آنکھیں، سنہرے فریم کی عینک، ستواں ناک، موزوں دہن، کترواں لبیں، بھرواں گول سفید داڑھی، بھاری ڈیل، سر و قد، اونچی چولی کا انگر کھا، آڑا پاجامہ، پاؤں میں وارنش کا پمپ شو، دائیں ہاتھ میں چھڑی، بائیں ہاتھ میں لمبا سا سگار، بڑے شاندار آدمی تھے نواب سائل۔ لوہارو کے نواب زادوں میں سے تھے، بہت بڑے اور مشہور شاعر، اور اس سے بڑھ کر شریف انسان، فصیح الملک داغؔ کے داماد تھے اور شاگرد بھی۔ 

    داغؔ کا جب انتقال ہوا اور جانشینی کا جھگڑا آن پڑا تو سائلؔ نے اعلان کر دیا کہ داغؔ کے سب شاگرد داغؔ کے جانشین ہیں، اس زمانہ میں بہت سے استاد اپنے نام کے ساتھ جانشین داغؔ لکھتے تھے مگر نواب سائلؔ نے کبھی اس کا ادعا نہیں کیا۔ مشاعروں میں اکثر شریک ہوتے اور اپنے مخصوص ترنم میں غزل سناتے تھے، مگر جب مشاعروں میں بےہودگیاں ہونے لگیں تو نواب سائلؔ نے شریک ہونا چھوڑ دیا تھا۔ بیخودؔ دہلوی بھی داغؔ کے ارشد تلامذہ میں سے تھے اور سائلؔ کو اپنا حریف سمجھتے تھے۔ استاد بیخودؔ تحت اللفظ میں پڑھتے تھے اور انہیں بھی داد بہت ملتی تھی مگر سائلؔ کا ترنم مشاعرہ لوٹ لیتا تھا۔ اس پر بیخودؔ جھنجھلا جاتے اور جو منہ میں آتا کہنا شروع کر دیتے۔ 

    سائلؔ بہت سمائی کے آدمی تھے، خاموش رہتے مگر ان کے شاگرد بھڑک اٹھتے اور دونوں استادوں کے شاگردوں میں فساد ہو جاتا۔ نتیجہ یہ کہ ایک زمانہ میں مشاعرے ہی بند ہو گئے تھے مگر اس درجہ اختلاف پر بھی ان دونوں بزرگوں میں خلوص و محبت کے تعلقات آخر تک قائم رہے، نواب سائلؔ نے اپنے بیٹے کو استاد بیخودؔ کی شاگردی میں دے رکھا تھا۔ 

    مرنے سے چند سال پہلے نواب سائلؔ کے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی اور وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے تھے۔ گھر پر انہوں نے ایک رکشا رکھ لی تھی، اسی میں آتے جاتے تھے، روزانہ شام کو اردو بازار میں ایک کتب فروش کی دکان کے آگے وہ اپنی رکشا میں بیٹھے دکھائی دیتے، یہیں ان سے بہ آسانی ملاقات ہو جاتی تھی، ایک دفعہ آبدیدہ ہوکر فرمایا، ’’مجھے وہ وقت یاد آتا ہے جب میرے والد کی ڈیوڑھی پر ان کا ہاتھی آتا تھا، میں لپک کر اس کی دم پکڑ کر چڑھ جاتا تھا، یا اب یہ وقت ہے کہ دو قدم بھی نہیں چل سکتا۔‘‘ 

    اردو فارسی میں ان کی قابلیت مسلم تھی، پنجاب یونیورسٹی کے ممتحن بھی تھے، چھوٹے بڑے سب سے اچھی طرح پیش آتے تھے، اس لیے اکثر طالب علم انہیں گھیرے رہتے تھے۔ ایک دن اس شعر پرچند دوستوں میں بحث چل نکلی۔ 

    خواہیم از خدا و نخواہیم از خدا
    دیدن رخ حبیب و ندیدن رُخِ رقیب

    لف ونشر مرتب کے اعتبار سے اس شعر کی صورت یوں بنتی ہے،

    خواہیم از خدا دیدن رُخِ حبیب
     نخواہیم از خدا نہ دیدن رُخِ رقیب

    لہٰذا شعر کا مطلب خبط ہو جاتا ہے۔ چنانچہ یہ مسئلہ نواب سائلؔ کے سامنے پیش کیا گیا۔ پہلے تو وہ بھی چکرائے مگر غور کرنے کے بعد بولے، ’’کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے، رقیب کے بدلے حبیب ہونا چاہیے۔‘‘ 

    نواب سائلؔ بلیرڈ بہت اچھی کھیلتے تھے، کلبوں میں انگریز ان کے ساتھ کھیلنے کے خواہش مند رہتے تھے، لباس تراشنا بہت اچھا جانتے تھے، انگرکھا، سوٹ، اوورکوٹ، شیروانی، ہر لباس تراش لیتے تھے، کاڑھنا بھی خوب جانتے تھے، کسی پر مہربان ہوتے تو اسے اپنے ہاتھ کا کڑھا ہوا رومال عنایت فرماتے تھے۔ آخر میں مثنوی جہانگیر و نور جہاں لکھ رہے تھے، کئی لاکھ شعر کہہ چکے تھے، مگر یہ مثنوی ختم نہیں ہوئی اور عمر تمام ہو گئی۔ 

    نواب شجاع الدین احمد خاں تاباںؔ دہلوی نواب سائلؔ کے بڑے بھائی تھے نواب تاباںؔ۔ بالکل ان ہی کی طرح میدہ و شہاب رنگ، ویسا ہی ڈیل ڈول، ناک نقشہ اور لباس۔ مگر دونوں بھائیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ بڑے بھائی کو چھوٹے بھائی سے نہ جانے کیا کدتھی کہ ہمیشہ برا بھلا ہی کہتے رہتے تھے بلکہ برملا گالیاں تک دینے سے نہ چوکتے تھے اور گالی بھی ایک سے ایک نئی تراشتے تھے۔ سائلؔ بیچارے سر جھکا کر کہتے۔ ’’بھائی جان، آدھی مجھ پر پڑ رہی ہیں اور آدھی آپ پر۔‘‘ اس پر وہ اور بھڑک اٹھتے اور وہ ملاحیاں سناتے کہ دھری جائیں نہ اٹھائی جائیں۔ مگر کیا مجال جو سائلؔ صاحب کی تیوری پر بل آجائے، وہ بھائی کی بزرگی کا اتنا احترام کرتے تھے کہ اونچی آواز میں بھی ان کے سامنے نہیں بولتے تھے۔ 

    نواب تاباںؔ بھی شاعر تھے، اردو میں بھی شعر کہتے تھے اور فارسی میں بھی۔ حکیم اجمل خاں کے ہاں شرفائے دہلی کا جمگھٹا رہتا تھا۔ حکیم صاحب بھی طرفہ خوبیوں کے آدمی تھے، یہ جتنے بڑے طبیب تھے اتنے ہی بڑے شاعر بھی تھے۔ ایک دفعہ شبلی نعمانی دلّی آئے تو حکیم صاحب کے ہاں مہمان ہوئے۔ نواب تاباںؔ کی تعریف غائبانہ بہت کچھ سن چکے تھے، ان سے ملنے کے خواہش مند ہوئے۔ حکیم صاحب نے سوچا کہ نواب صاحب کو اگر یہاں بلایا گیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اس بات کا برا مان جائیں، لہٰذا ایک صاحب کے ساتھ شبلی کو ان کے گھر بھیج دیا۔ نواب صاحب نے بڑے تپاک سے ان کا خیر مقدم کیا، عزت سے بٹھایا، خاطر تواضع کی۔ 

    شبلی کی فرمائش پر اپنی غزل سنانی شروع کی، شبلی بھی ذرا مدمغ آدمی تھے خاموش بیٹھے سنتے رہے، تاباںؔ نے دیکھا کہ مولانا ہوں ہاں بھی نہیں کرتے تو چمک کر بولے، ’’ ہاں صاحب، یہ شعر غور طلب ہے۔‘‘ یہ کہہ کر غزل کا اگلا شعر سنایا۔ مولانا نے اوپری دل سے کہا، ’’ سبحان اللہ! اچھا شعر کہا ہے آپ نے۔‘‘ بس پھر تاباںؔ آئیں تو جائیں کہاں؟ بولے، ’’ابے لنگڑے! میں نے تو یہ شعر تین دن میں کہا اور تو نے ایک منٹ میں اسے سمجھ لیا؟ بیٹا، یہ شعر العجم نباشد!‘‘ اس کے بعد ان کا گالیوں کا پٹارہ کھل گیا اور مولانا شبلی کو اپنا پنڈ چھڑانا مشکل ہو گیا۔ ویسے اپنی روز مرہ کی زندگی میں تاباںؔ بڑے زندہ دل آدمی تھے اور دوستوں کو کھلا پلا کر خوش ہوتے تھے، شطرنج کی انہیں دھت تھی اور چال بھی اچھی تھی، بڑے بڑے کھلاڑی ان کے ہاں آتے رہتے تھے۔ 

    استاد بیخودؔ دہلوی یہ صاحب جو مٹیا محل سے ٹلکتے ٹلکتے چلے آ رہے ہیں، گندمی رنگ، بڑی سی پھریری داڑھی، ہاتھوں میں ہزار دانہ سنبھالے، استاد بیخودؔ ہیں۔ ٹانگیں دیکھئے ذرا ان کی، کمانیں بنی ہوئی ہیں، جوانی میں گھڑسواری کا شوق تھا، منہ زور سے منہ زور گھوڑا ان کی ران تلے چیں بول جاتا تھا۔ ہم نے انہیں اسّی برس کی عمر میں بھی گھوڑے پر سیدھے بیٹھے دیکھا ہے، ان کے والد سو سے اوپر ہوکر مرے تھے، میر صاحب بھی سو کے قریب ہوکر گئے ہیں۔ 

    دلّی والوں کی ٹکسالی زبان بولتے ہیں، روزانہ شام کو ٹہلنے نکلتے ہیں۔ یادگار کا ایک چکر کاٹ کر اردو بازار میں وصی اشرف کے کتب خانہ پر ٹھیکی لیتے ہوئے واپس جاتے ہیں۔ انہوں نے بڑے بڑے پرانوں کی آنکھیں دیکھی ہیں۔ مرزا غالبؔ کو جب انہوں نے دیکھا تو ان کی عمر پانچ سال کی تھی۔ مرزا کے دیوان کی شرح بھی انہوں نے لکھی ہے، باتیں بڑے مزے کی کرتے ہیں۔ کتب خانہ پر جم جاتے ہیں تو ان کی باتیں سننے کے لیے ہم انہیں چھیڑ دیتے ہیں۔ 

    ’’کیوں میر صاحب، کیا دشنہ اور خنجر ایک ہی چیز کو کہتے ہیں؟‘‘ 

    میر صاحب ’’اماں دشنہ دشنہ ہوتا ہے اور خنجر خنجر ہوتا ہے، بھلا دشنہ خنجر کیسے ہو سکتا ہے اور خنجر دشنہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ 

    اسی سے ملتا جلتا جواب پالکی نالکی کے لیے بھی ملتا ہے۔ کتب خانہ سے روزانہ ایک ناول پڑھنے کے لیے لے جاتے ہیں اور اگلے دن یہ کہہ کر دے جاتے ہیں کہ ’’اس میں مزہ نہیں آیا، کوئی اور اچھا سادو۔‘‘ یوں اردو کے اچھے برے سارے ناول چاٹ گئے ہیں۔ کسی کو شاگرد بناتے ہیں تو اس سے باقاعدہ مٹھائی لیتے ہیں، داغؔ کے چہیتے شاگرد ہیں، استاد کے پاس برسوں رہے۔ داغ کے شاگردوں کے چاروں رجسٹر انہی کے پاس رہتے تھے۔ 

    کبوتر اڑانے کا شوق تھا، جن بھوت بھی اتارتے تھے، ایک دن پوچھا، ’’استاد آپ جن بھوت کیسے اتارتے ہیں؟‘‘ فرمایا، ’’ جب حرام زادی کی چوٹی میں تین بل دے کر ناک میں مرچوں کی دھونی دیتا ہوں سر والا فوراً غائب ہو جاتا ہے۔‘‘ 

    خواجہ ناصر نذیر فراقؔ دہلوی دلی کے پرانے خاندانوں میں سے ایک خاندان خواجہ میر دردؔ کا ہے، فراقؔ اسی خاندان کے چشم وچراغ تھے۔ جاڑوں میں روئی کا پاجامہ پہنے ہم نے انہی کو دیکھا۔ گول چہرہ، گول داڑھی، رنگ کھلتا ہوا، دہرا بدن، شعر تو اتنا اچھا نہیں کہتے تھے مگر نثر لاجواب لکھتے تھے۔ شمس العلما، محمد حسین آزادؔ کے شاگرد تھے۔ فراق صاحب درویش صفت بزرگ تھے۔ عمر بہت زیادہ نہیں تھی مگر ہاتھوں میں رعشہ آ گیا تھا۔ ایک زمانہ میں مسجد فتح پوری کے مدرسہ کے مدرس تھے، میرے والد سے ان کے برادرانہ تعلقات تھے، جب میں نے صحافت کی دنیا میں قدم رکھا تو ان کی خدمت میں بھی حاضر ہوا، خواجہ میر دردؔ کی بارہ دری میں ان کا ایک چھوٹا سا مکان تھا، وہیں قریب ایک بیٹھک میں مطلب کرنے لگے تھے۔ کبھی مخزن میں لکھا کرتے تھے، اس کے بعد ان کے لکھنے پڑھنے کا شوق ختم ہو گیا تھا۔ 

    مخزن میں ان کے مضامین بھی پڑھے اور ان کی جوانی کی تصویر بھی دیکھی۔ اس سے مجھے اشتیاق ہوا کہ ان سے ضرور لکھوانا چاہیے۔ جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو گلے لگا کر رونے لگے اور بولے، ’’بھتیجے کے لیے نہیں لکھوں گا تو اور کس کے لیے لکھوں گا۔‘‘ چنانچہ ’’لال قلعہ کی ایک جھلک‘‘ انہوں نے قسط وار ’’ساقی‘‘ میں لکھی۔ آخری بار جب میں حاضر ہوا تو پلنگ پر لحاف اوڑھے بے حس و حرکت پڑے ہوئے تھے۔ صاحبزادہ ناصر خلق فگار کو پاس بلا کر بولے، ’’ننھے، ہمارے مرنے کی خبر انہیں ضرور دینا۔‘‘ غریب آدمی تھے، مگر محبت و خلوص کی دولت سے مالا مال۔ بہت بھولے آدمی تھے۔ سید احمد مؤلف فرہنگ آصفیہ نے کسی موقع پر انہیں بادشاہ اردو کہہ دیا تھا۔ مرحوم ان کے اس قول کو اکثر دہرایا کرتے تھے۔ 

    میرے بیٹھے پر ایک دفعہ بیخودؔ صاحب ان سے ملنے آ گئے۔ دونوں تقریباً ہم عمر ہی تھے۔ گرمجوشی سے ملے۔ منجملہ اور باتوں کے فراقؔ صاحب نے فرمایا، ’’دلّی میں اب کیا رہ گیا ہے؟ نظم کے یہ بادشاہ ہیں اور نثر کا میں۔‘‘ میں نے کہا، ’’اس میں کیا شک ہے۔‘‘ جب بیخودؔ صاحب چلے گئے تو بولے، ’’اور یہ بھی کیا رہ گئے ہیں؟ بس میں ہی رہ گیا ہوں۔‘‘ 

    اسی بھولپن میں بعض باتیں بڑی عجیب بھی کہہ جاتے۔ مثلاً یہ کہ لال قلعہ جب بن رہا تھا تو لوہے کے بڑے بڑے کڑہاؤ چڑھے ہوئے تھے۔ ان میں چربی کھولتی رہتی تھی۔ مٹی کی اینٹ جب بن جاتی تو پہلے اس چربی میں پکائی جاتی۔ جب خوب سرخ ہو جاتی تو اسے نکال کر دیوار میں چن دیا جاتا۔ 

    فرماتے تھے کہ سندر بن میں ہم نے ایک پرندہ ایسا دیکھا جس کا صرف ایک بازو تھا۔ دوسرے بازو کی جگہ ہڈی کا صرف آنکڑا سا تھا۔ نر کا دایاں پر ہوتا تھا اور مادہ کا بایاں۔ جب انہیں اڑنا ہوتا تو نرا اور مادہ آنکڑے میں آنکڑا ڈال کر پھر سے اڑ جاتے۔ ان کی ایسی بے پرکی اڑانے میں بھی ایک لطف تھا۔ 

    میر باقر علی دہلوی داستان گو املی کی پہاڑی پر ایک بڑے میاں رہتے تھے۔ دبلا ڈیل، اکہرا بدن، میانہ قد، چھوٹی سفید داڑھی، کبھی خاصے آسودہ حال تھے مگر اب اجلے پوشی سے گزارا کرتے تھے۔ بڑے چرب زبان اور لسّان آدمی تھے، نام تھا میر باقر علی۔ یہ دلی کے آخری داستان گو تھے۔ جب یہ فن زندہ تھا اور اس کے قدردان بھی زندہ تھے تو میر صاحب دور دور بلائے جاتے تھے اور جھولیاں بھر بھر کے لاتے تھے۔ جب زمانہ کے مشاغل بدل گئے اورمیر صاحب کا فن کس مپرسی میں پڑ گیا تو میر صاحب چھا لیا بیچنے لگے تھے۔ دلّی میں کسی کے ہاں داستان کہنے جاتے تو دو روپے لیا کرتے۔ پھر ایک دور ایسا آیا کہ لوگوں کو دو روپے بھی اکھرنے لگے تو میر صاحب نے اپنے گھر ہی میں داستان کہنی شروع کر دی اور ایک آنہ ٹکٹ لگا دیا، دس بیس شائقین آ جاتے اور میر صاحب کو روپیہ سوا روپیہ مل جاتا۔ 

    امیر حمزہ کی داستان سنایا کرتے تھے۔ بعض دفعہ سامعین کی فرمائش پر کسی ایک پہلو کو بیان کرتے۔ کوئی کہتا میر صاحب آج تو لڑائی کا بیان ہو جائے اور میر صاحب رزم کو اس تفصیل سے پیش کرتے کہ آنکھوں کے سامنے میدان جنگ کا نقشہ قائم ہو جاتا، ہتھیاروں کے نام گنانے پر آتے تو سو سوا سو نام ایک ہی سانس میں گنا جاتے، اور یہ نام انہیں صرف رٹے ہوئے نہیں تھے، ٹوک کر چاہے جس ہتھیار کو ان سے پوچھ لیجئے۔ اس کی صورت شکل اور اس کا استعمال بتا دیتے تھے۔ 

    کوئی کہتا، ’’میر صاحب، آج تو عیاریاں بیان ہو جائیں۔‘‘ اور میر صاحب عیاریوں کے کارنامے بیان کرنے لگتے، ساتھ ساتھ اداکاری بھی کرتے جاتے، اور سننے والے ہنستے ہنستے لوٹ جاتے۔ میر صاحب کے علم کی کوئی تھاہ نہیں تھی۔ ہر علم میں تیرے ہوئے تھے اور یہ ان کے فن کا تقاضا بھی تھا۔ بڑھاپے میں میر صاحب نے مدرسہ طبیہ میں باقاعدہ طب بھی پڑھی تھی، مگر مطلب کبھی نہیں کیا، ان کی اکلوتی بیٹی البتہ طبیبہ تھیں اور زنانہ مطب بھی کرتی تھیں۔ 

    میر صاحب کو افیون اور حقے کا شوق تھا، داستان شروع کرنے سے پہلے چاندی کی کٹوری میں روئی میں لپیٹ کر افیون گھولتے تھے، اس گھولوئے کی چسکی لگاتے، حقے کا کش لیتے اور داستان شروع کر دیتے۔ چائے کا بھی شوق تھا، اس کی تین صفتیں بتاتے تھے، لب بند، لب ریز اور لب سوز یعنی اتنی میٹھی ہو کہ ہونٹ چپک جائیں، پیالی لباب بھری ہو اور خوب گرم ہو۔ 

    میر صاحب کے شناسا میر محمود علی صاحب نے بتایا کہ کلکتہ میں ایک دفعہ لکھنو کے ایک داستان گو کی دھوم مچی۔ ایک دن ہم بھی سننے گئے تو دیکھا کہ داستان گو صاحب کے آگے طلسم ہوشربا کھلی دھری ہے، اس میں سے پڑھتے جاتے ہیں اور جب بہت جوش میں آتے ہیں تو ایک ہاتھ اونچا کر لیتے ہیں، طبیعت بہت مکدر ہوئی۔ جی چاہا کہ کسی طرح میر باقر علی یہاں آ جاتے تو کلکتہ والوں کو معلوم ہوتا کہ داستان گوئی کسے کہتے ہیں۔ نہ سان نہ گمان، اگلے دن کیا دیکھتے ہیں کہ کولو ٹولہ میں میر صاحب سامنے سے چلے آرہے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اپنے کسی کام سے آئے ہیں۔ قصہ مختصر، میر صاحب کی داستان ہوئی اور لکھنوی داستان گو ہاتھ جوڑ جوڑ کر کہتا تھا، ’’حضور یہ اعجاز ہے، حضور یہ آپ ہی کا حصہ ہے۔‘‘ 

    میر جالبؔ دہلوی میر باقر علی کے ایک دوست تھے میر جالبؔ دہلوی۔ قد و قامت میں انہی جیسے، صورت شکل اور وضع قطع میں بھی ان سے مشابہ، اتنا بڑا صحافی اردو صحافت نے آج تک پیدا نہیں کیا، کتابیں پڑھنے کا انہیں بچپن سے شوق تھا۔ جو کتاب، رسالہ، اخبار ہاتھ لگ گیا اسے شروع سے آخر تک پڑھ ڈالتے۔ اخباروں کے اشتہارات تک نہیں چھوڑتے تھے۔ بازار میں کوئی چھپا ہوا کاغذ پڑا مل جاتا تو اسے اٹھا لیتے اور گھر آکر اسے پڑھتے۔ غریب گھر میں پیدا ہوئے تھے، اسکول کی تعلیم کا خرچ پورا کرنے کے لئے بچوں کو پڑھاتے تھے، اس زمانہ میں سستے ناولوں کے ترجموں کی مانگ تھی۔ میر صاحب نے اس کام کی طرف بھی توجہ کی، مولوی عنایت اللہ اور قاری سرفراز حسین سے مشورہ اور اصلاح لینے لگے، یوں ترجمہ کرنے کی بھی انہیں اچھی مشق ہو گئی۔ 

    اب انہیں اخبار نویسی کی چیٹک لگی۔ دلّی میں اس وقت کوئی قابل ذکر اخبار نہیں تھا، اس لئے میر صاحب لاہور پہنچے اور ایک اخبار میں تیس روپے پر ملازم ہو گئے۔ اس تیس روپے سے ان کی اخباری زندگی شروع ہوئی اور مرتے دم تک وہ اخباری سلسلہ ہی میں ترقی کرتے چلے گئے۔ انتخاب، لاجواب، پیسہ اخبار اور وکیل کی ادارت نے ان کی منفرد حیثیت قائم کر دی۔ جب مولانا محمد علی نے دلی سے ہمدرد جاری کیا تو میر صاحب کو اپنے اخبار میں بلا لیا۔ میر صاحب چھاپہ مشین کے کابلے سے لے کر چھپے ہوئے پرچہ کی تقسیم تک ہر کام سے واقف تھے۔ ایسا کام سنبھالا کہ مولانا محمد علی بالکل نچنت ہو گئے۔ ہمدرد کے بند ہو جانے پر میر صاحب کلکتہ چلے گئے اور جب لکھنؤ سے راجہ محمود آباد نے ’’ہمدم‘‘ نکالا تو اس کی ادارت کے لیے راجہ صاحب کی نظر انتخاب میرؔ صاحب ہی پر پڑی۔ ’’ہمدم‘‘ کے بعد میر صاحب نے اپنا اخبار ’’ہمت‘‘ جاری کیا جو ان کی زندگی کے ساتھ ختم ہوا۔ 

    میر صاحب چلتے پھرتے انسائیکلوپیڈیا تھے، ہر چیز کے متعلق ان کی معلومات اتنی زیادہ تھیں کہ اگر کوئی ان کی تقریر سن لے تو چھوٹی موٹی کتاب تیار کر لے۔ لوگ ان سے کوئی سوال پوچھ کر گنہگار ہو جاتے تھے، میر صاحب کا لیکچر شروع ہونے کے بعد ختم ہونے میں نہ آتا تھا۔ ایک دفعہ میر صاحب کے جاننے والے غلطی سے ان سے کچھ پوچھ بیٹھے۔ میر صاحب نے وہیں اپنی معلومات کا پٹارہ کھول دیا۔ جب وہ صاحب کھڑے کھڑے تھک گئے تو آہستہ آہستہ اپنے گھر کی طرف چلنے شروع ہوئے۔ میر صاحب بھی ان کے ساتھ ساتھ چلتے رہے اور بولتے رہے۔ ان صاحب کا گھر آ گیا تو وہ رک گئے۔ میر صاحب بھی رک گئے مگر اپنی معلومات سے انہیں مستفیض فرماتے رہے۔ 

    وہ گھبرا کر اپنی ڈیوڑھی میں گھس گئے تو میر صاحب بھی ان کے پیچھے پیچھے ڈیوڑھی میں داخل ہو گئے۔ انہوں نے جب میر صاحب کو ذرا غافل پایا تو چپکے سے سٹک گئے۔ میر صاحب در و دیوار ہی سے باتیں کرتے رہے۔ یہاں تک کہ جب انہیں ہوش آیا تو دیکھا کہ کوئی متنفس نہیں ہے۔ حیران ہوئے کہ میں یہاں کیسے اور کیوں آ گیا؟ ڈیوڑھی میں سے جلدی سے نکل اپنے گھر کی راہ لی۔ دراصل میر صاحب بھی چنیا بیگم کے عاشق تھے اور اس کی جھونک میں انہیں دین دنیا کی خبر نہیں رہتی تھی۔ 

    میر صاحب بہت باقاعدہ آدمی تھے، ردی سے ردی اخبار کو بھی پڑھتے تھے اور اس کا فائل بنا لیتے تھے۔ جتنے خط ان کے پاس آتے تھے سب کو محفوظ رکھتے تھے۔ ان کے کتب خانہ میں کئی ہزار نایاب کتابیں تھیں۔ افسوس! ان کے انتقال کے بعد ان کا سارا بیش قیمت سرمایہ یا تو دیمک نے کھایا، یا چولھا جلنے کے کام آیا۔ غالباً پانچ ہزار کتابیں ان کے پوتے جمیل جالبی نے جامعہ ملیہ دہلی کو دے دی تھیں۔ یقین ہے کہ جب ۱۹۴۷ء میں جامعہ کے کتب خانہ کو فسادیوں نے جلایا، تو اس میں یہ بیش قیمت سرمایہ بھی جل گیا ہوگا۔ 

    ملّا واحدیؔ دہلوی کوچہ چیلان میں جہاں میر جالب کا مکان تھا، اس سے ذرا اور آگے بڑھ کر ملّا واحدی کا مکان تھا۔ جالبی صاحب کی طرح واحدی صاحب کا مکان بھی ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے، ادب، مذہب، صحافت اور سیاست کی اکثر شخصیتوں نے اسی مکان میں فروغ پایا۔ خواجہ حسن نظامی، نیاز فتح پوری، دیوان سنگھ مفتون، عارف ہسوی اور بہت سوں نے یہیں سے نام پایا۔ یہاں سے متعدد رسالے جاری ہوئے۔ واحدی صاحب عمر بھر بڑے خاموش اور مخلص کارکن رہے۔ نام و نمود کی انہوں نے کبھی پروا نہیں کی۔ دوستوں کے دوست بلکہ دشمنوں کے بھی دوست رہے۔ دلی میں ان کی بہت جائداد تھی، خدمت کے جنون نے انہیں کھک کر دیا۔ آخر میں بس یہی ایک مکان رہ گیا تھا جس میں ۱۹۴۷ء تک رہے۔ 

    دلّی سے انہیں عشق تھا، کہیں باہر نہیں رہ سکتے تھے۔ شملہ گئے تو ایک گاڑی سے گئے اور دوسری سے لوٹ آئے۔ واحد صاحب بڑے محنتی اور اصولی آدمی ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں بہت کام کیا۔ بیسیوں ایڈیٹر اور سیکڑوں ادیب پیدا کئے۔ خواجہ حسن نظامی اپنی ابتدائی زندگی میں واحدی صاحب ہی کے رہین منت رہے، خواجہ صاحب نے بھی آخری وقت تک حق دوستی نبھایا۔ علامہ راشد الخیر ی سے’’شام زندگی‘‘ واحدی صاحب ہی نے لکھوائی۔ علامہ آزاد مزاج آدمی تھے۔ دنوں قلم ہاتھ میں نہیں لیتے تھے، لو گ خوشامدیں کرتے، معاوضے پیشگی دے جاتے مگر وہ توجہ نہ کرتے۔ واحدی صاحب نے نہ جانے کیا منتر پڑھا کہ علامہ کو سولہ آنے اپنے قبضہ میں کر لیا، روزانہ انہیں ایک کمرہ میں بند کر کے باہر سے قفل ڈال دیتے، اور جب مقررہ صفحوں کی تعداد پوری ہو جاتی تو انہیں کھول دیتے۔ یوں یہ پوری کتاب لکھوائی گئی۔ 

    خواجہ حسن نظامی دلّی سے تین میل کے فاصلہ پر بستی نظام الدین میں رہتے تھے مگر روزانہ واحدی صاحب کے ہاں آتے اور ان ہی کے ہاں بیٹھ کر تصنیف و تالیف کا کام کرتے۔ خواجہ صاحب اور واحدی صاحب کے ایک اور مخلص دیرینہ بھیا احسان تھے، جو تھے تو میرٹھ کے رئیسوں میں سے مگر رہتے دلّی میں تھے۔ واحد ی صاحب کی طرح یہ بھی وضع دار اور دل والے تھے۔ ادب کا چسکا اور اخبار کا روگ انہیں بھی ساری عمر لگا رہا۔ 

    ۴۷ء کے فسادات میں واحدی صاحب کو بھی دلی چھوڑنی پڑی، یہ گویا ناخن کا گوشت سے جدا ہونا تھا۔ کراچی کے ایک سرکاری کوارٹر میں اپنے بیٹے کے ساتھ انہیں رہنا پڑا۔ دنوں ان کی آنکھ کا آنسو نہ تھما۔ اس غم کو بھلانے کے لئے واحدی صاحب نے کتابیں لکھنی شروع کیں اور رفتہ رفتہ انہیں صبر آ گیا، خواجہ صاحب، بھیا احسان اور دوسرے سب ساتھی رخصت ہو گئے، یہ سب کے ماتم میں سروچراغاں ہیں۔ 

    علّامہ راشد الخیری دہلوی یہ جو ایک بڑی نورانی شکل کے بڑے میاں شپڑ شپڑ کرتے چلے آ رہے ہیں، علامہ راشد الخیری ہیں۔ انہوں نے اپنی ساری عمر اسی قلندرانہ وضع میں گزار دی، کبھی اپنا حلیہ درست کرنے کا انہیں خیال نہیں آیا، سادگی ان کا خاصۂ طبعی ہے، بڑے آدمی ہیں مگر چھوٹے آدمیوں کی خدمت کر کے انہیں خوشی حاصل ہوتی ہے۔ پاس پڑوس، رشتہ کنبہ، دوست احباب میں گھوم پھر کر سب کی خیریت معلوم کرتے ہیں، کسی کی تکلیف ان سے دیکھی نہیں جاتی، دامے، درمے، قدمے، سخنے ہر طرح مدد کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ رانڈ بیواؤں کا ان کے گھر میں تانتا بندھا رہتا ہے۔ ان کی بیگم بھی انہیں کے مزاج کی آدمی ہیں، کسی کو کچھ دیتے ہیں تو سیدھے ہاتھ کی خبر الٹے ہاتھ کو نہیں ہوتی۔ 

    رات کا وقت پڑوس میں سے کسی عورت کے رونے کی آواز آئی۔ مولانا بے قرار ہو کر اٹھے۔ جاکر پوچھا تو معلوم ہوا شام تک پھلرواسا لال کھیلتا مالتا رہا۔ گلے میں کچھ یونہی سی تکلیف تھی، اب لحظہ لحظہ اس کی حالت بگڑتی جا رہی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے بچہ ہاتھوں میں آ گیا۔ مولانا نے دلاسا دیا، فوراً تانگہ کرکے نئی دلّی پہنچے اور اپنے ساتھ ڈاکٹر چاؤلہ کو لے کر آئے، ڈاکٹر نے انجکشن دیا، مولانا نے اسے فیس دی اور ابھی ڈاکٹر ڈیوڑھی تک ہی پہنچا تھا کہ ماں کی دلدوز چیخ نے بچے کی موت کا اعلان کر دیا، گھر والے اتنے نادار تھے کہ کفن دفن کا انتظام بھی مولانا ہی کو کرنا پڑا۔ 

    مولانا نہایت دردمند انسان تھے اس لئے ان کی طبیعت غم پسند ہو گئی تھی۔ زندگی کے غمناک پہلوؤں ہی کو انہوں نے اپنے افسانوں اور ناولوں کا موضوع بنایا۔ سب سے زیادہ مظلوم مخلوق انہیں مسلمان عورت دکھائی دیتی تھی۔ اسی کی حمایت میں وہ عمر بھر لکھتے رہے۔ اپنی موثر غم انگیز تحریر کے باعث وہ مصور غم کہلائے۔ 

    جو لوگ حزن پسند ہوتے ہیں، عموماً جھلّے مزاج کے بھی ہوتے ہیں مگر مولانا اپنی نجی زندگی میں بڑے خوش مزاج اور بذلہ سنج تھے، خوب ہنستے ہنساتے تھے۔ بڑے آدمیوں سے ملنے میں انہیں پس وپیش ہوتا تھا مگر برابر والوں اور چھوٹوں سے جی کھول کر باتیں کرتے تھے، دوسروں کی باتوں سے بھی لطف اٹھاتے تھے، خصوصاً جب کسی سے کوئی غلطی ہو جائے۔ ایک بزرگ نے فرمایا، میں ان سے خوب بھینچ بھینچ کر گلے ملا (بھینچ بر وزن کھینچ) مولانا پھڑک گئے، پوچھا کیسے ملے؟ وہ بولے بھینچ بھینچ کر، بار بار ان سے پوچھتے تھے اور ہنستے تھے۔ پھر بولے، ’’اچھا کاغذ قلم لاؤ اور ایک شعرلکھ لو، ابھی موزوں ہوا ہے،

    جو پودوں کو پانی دیا سینچ سینچ
    لگے ملنے گل بھی گلے بھینچ بھینچ

    مولانا کی خوش مزاجی بسترمرگ پر بھی قائم رہی۔ جو کوئی بیمار پرسی کو آتا، اس سے ہنسی کی باتیں کرتے۔ ان کے بھانجے محمد میاں نے پوچھا، ’’کیوں ماموں جان، جارج پنچم کے بعد تو اس کا بیٹا ہی بادشاہ بنے گا؟‘‘ مولانا نے فرمایا، ’’نہیں آپ کے حق میں وصیت کئے جا رہے ہیں۔‘‘ 

    پنڈت امرناتھ ساحرؔ دہلوی دلی کے آخری دور کے لائق فخر لوگوں میں سے پنڈت جی بھی تھے۔ عمر ستر اور اسّی کے درمیان، اونچا پورا قد، بہت لمبی چوڑی داڑھی، ریٹائرڈ تحصیلدار تھے۔ میر ناصر علی کی طرح ان کی پنشن پانے کی مدت بھی ملازمت کی مدت سے تجاوز کر گئی تھی۔ اردو شاعری کے عاشق اور استاد تھے، فارسی میں بھی شعر کہتے تھے، مگر اتنے گہرے اور ادق عرفانی مضامین باندھتے کہ سامعین کے پلے کچھ نہ پڑتا۔ 

    پنڈت جی دلی کے پرانے وضع دار ہندوؤں کا آخری نمونہ تھے، ان کی عبا قبا، جبہ و دستار دیکھ کر یہ بتانا مشکل ہوتا کہ یہ ہندو ہیں یا مسلمان۔ ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ دلی کے ہندو مسلمانوں کے لباس اور بول چال میں پہلے کوئی نمایاں فرق نہیں ہوتا تھا۔ پنڈت جی کی زبان بھی چغلی نہیں کھاتی تھی۔ یہی کیفیت ہم نے پنڈت دتاتریہ کیفیؔ اور پنڈت تربھون ناتھ زارؔ کی بھی دیکھی۔ 

    پنڈت جی بہت خلیق اور متواضع آدمی تھے۔ ایک دفعہ چند لڑکے رات کے گیارہ بجے ان کے گھر پہنچ گئے، چوڑی والان سے جو راستہ بازار سیتا رام کو جاتا ہے اس کے سرے پر ان کا بالا خانہ تھا، کنڈی کھڑکی تو پنڈت جی ہاتھ میں لالٹین لیے زینے پر سے اترے۔ پوچھا، ’’کیسے زحمت فرمائی؟‘‘ لڑکوں نے کہا، ’’ہمیں آپ کا کلام سننے کا اشتیاق ہے، صبح کی گاڑی سے ہمیں واپس جانا ہے۔‘‘ پنڈت جی نے فرمایا، ’’ کیا مضائقہ ہے۔‘‘ اور خندہ پیشانی سے سب کو اپنے ساتھ اوپر لے آئے۔ کمرہ کھول کر آرام سے بٹھایا، جل پان پیش کیا اور اپنا کلام انہیں سنا کر رخصت کرنے نیچے تک آئے۔ 

    اسکول اور کالج کے لڑکے جب چاہتے پنڈت جی کو مشاعرے کی صدارت کے لئے لے جاتے، بعض بد تہذیب لڑکے پنڈت جی سے بدتمیزی کر جاتے تو پنڈت جی ناراض ہو جاتے۔ مگر پھر فوراً من بھی جاتے، ایک مقامی کالج کے مشاعرے میں ایک صاحب زادہ نے پنڈت جی کو مخاطب کر کے مطلع پڑھا،

    یہ کہنا جاکے بیٹا اپنی ماں سے
    کہ تم روٹھی ہو کیوں ابّا میاں سے

    پنڈت جی کی آنکھیں ابل پڑیں۔ بولے، ’’کیا مضائقہ ہے، صاحب زادے تمہارے باپ سے شکایت کروں گا۔‘‘ دوسرے لڑکوں نے کہا، ’’پنڈت جی اس گستاخ کو معاف کر دیجئے، ہاتھ جوڑ رہا ہے۔‘‘ پنڈت جی مسکرا دیے اور بولے، ’’ادھر لاؤ اسے، میں اس کے کان کھینچوں گا۔‘‘ پھر محبت سے کان کھینچ کر بولے، ’’کیا مضائقہ ہے، با ادب بانصیب بے ادب بے نصیب، جاؤ۔‘‘ 

    پنڈت جی خود بھی سالانہ مشاعرہ بڑے پیمانے پر کرتے تھے۔ مہمانوں کے قیام و طعام کا انتظام کرتے، دور دور سے شعراء ان کے مشاعرے میں شریک ہونے آتے۔ دہلی میں اس مشاعرے کی دھوم مچ جاتی۔ پنڈت جی کے بعد اس شان کے مشاعرے دلی میں دیکھنے میں نہیں آئے۔ 

    مولانا خلیقی دہلوی اب سے چالیس سال پہلے ’’ادب لطیف‘‘ کی تحریک طاعون کی طرح پھیلی، اس کی محرک بڑی حد تک ٹیگور کی ’’گیتانجلی‘‘ تھی۔ اس دور کے ادیبوں کو ایک نئی چیز ہاتھ آئی کہ ایسے بھی چھوٹے چھوٹے خیالی مضامین لکھے جاتے ہیں، جن میں خوبصورت فقرے اور اچھوتی ترکیبیں ہوں، چاہے مطلب کچھ بھی نہ نکلتا ہو۔ نیاز فتح پوری نے ’’گیتانجلی‘‘ کا ترجمہ ’’عرض نغمہ‘‘ کے نام سے کر دیا اور انگریزی سے ناواقف ادیبوں نے اسی انداز پر طبع آزمائی شروع کر دی۔ بعض اچھے ادیب بھی اسی سستے رنگ میں رنگے گئے۔ یلدرم، نیاز، دلگیر، مہدی افادی، ل احمد اور خلیقی دہلوی نے خوب خوب قلم کی جولانیاں دکھائیں، اس جتھے کے پہلے سرغنہ شاہ دلگیر اکبر آبادی تھے۔ نقاد کے ایڈیٹر، جن کے بعد دوسرے لیڈر نیاز فتح پوری، نگار کے ایڈیٹر۔ 

    اس ٹولی میں بیان کے ساتھ ساتھ خیال کے بانکپن کا جس نے سب سے زیادہ لحاظ رکھا، وہ ایک صاحب تھے محمد دین خلیقی دہلوی تھے۔ تو تجارت پیشہ آدمی مگر ادب کا بڑا ستھرا مذاق رکھتے تھے، کوئی اچھوتی ترکیب سمجھ میں آ جاتی تو گھنٹوں اس کا لطف لیتے، لکھتے بہت کم تھے اور مختصر لکھتے تھے، مگر جو کچھ لکھتے یہ معلوم ہوتا کہ نگینے جڑ دیے ہیں، جس طرح شاعر اپنی غزل یا نظم سناتا ہے، یہ اپنی نثر سناتے تھے۔ ان کے اکثر فقرے کانوں میں گونج رہے ہیں، کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں۔ 

    ’’ایک دن بستی والوں نے دیکھا کہ چشمے کا پانی شراب بن گیا ہے۔ شراب اس لئے بن گیا ہے کہ صبح کے وقت قد آدم انسانی آئینے اس میں معتدل کئے جاتے تھے۔‘‘ (یعنی عورتیں اس میں نہایا کرتی تھیں۔) 

    خلیقی صاحب اپنے نثر پاروں کی داد پاتے تو از راہ انکسار فرماتے، ’’ننگ قلم ہوں۔‘‘ باتیں کرنے میں بھی اکثر مغلق الفاظ بولتے تھے۔ یہ عادت غالباً انہیں مولانا عبد السلام صاحب کی صحبت میں پڑی تھی جن کی عالمانہ خوش گفتاری دور دور مشہور تھی۔ خلیقی صاحب نے زیادہ عمر نہیں پائی۔ انہیں دل کا عارضہ ہو گیا تھا اور یہ بھی انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ مرض لاعلاج ہے۔ خاصے بھاری بھرکم آدمی تھے، بیماری میں گھلے چلے گئے۔ فرماتے تھے کہ ’’مجھے اس کی خوشی ہے کہ دل کی بیماری سے مر رہا ہوں۔‘‘ 

    قاری سرفراز حسین دہلوی میرے والد کے پاس جو حضرات اکثر آتے تھے اور جن کے گھر وہ اکثر جایا کرتے تھے، ان میں ایک ادھیڑ عمر کے آدمی بڑے کلے ٹھلے کے تھے۔ دہرا ڈیل، کسرتی بدن، سر پر کرسٹی کی ترکی ٹوپی، کالا فراک کوٹ، سفید پتلون، پاؤں میں ڈاسن کا کالا شو، دائیں ہاتھ میں چھڑی، بائیں ہاتھ میں سفید دستانے، گول چہرہ، گیہواں رنگ، کشادہ پیشانی، ستواں ناک، کترواں مونچھیں، مختصر سی خوشنما داڑھی، آنکھوں پر سنہری فریم کا چشمہ، ان سے ہمارے گھر میں پردہ نہیں کیا جاتا تھا، ابّا انہیں دیکھتے ہی کھل جاتے اور اپنی ساری سنجیدگی و بردباری بالائے طاق رکھ دیتے۔ 

     یہ تھے قاری سرفراز حسین عزمیؔ دہلوی، جو اپنی باتوں سے ظرافت کے پھول کھلاتے رہتے۔ زندہ دل، بڑے خوش کلام، ان کی شخصیت بڑی پہلو دار تھی۔ رنڈیوں کی زندگی پر انہوں نے آٹھ دس ناول لکھے جن میں سب سے مشہور ’’شاہد رعنا‘‘ ہے۔ یہ وہی کتاب ہے جسے دیکھ کر مرزا ہادی رسواؔ نے ’’امراؤ جان ادا‘‘ لکھی۔ ناولوں کے علاوہ قاری صاحب نے علم الکلام پر بھی ایک کتاب لکھی تھی۔ تبلیغ کے سلسلے میں انگلستان اور جاپان بھی گئے تھے۔ 

    قاری صاحب اس قدر خوش گفتار تھے کہ لوگ ان کی باتیں سننے کے لئے ترستے تھے۔ مذہب، ادب، سیاست، تاریخ، فنون، کسی گھر بند نہیں تھے۔ ایک دفعہ مسوری میں ایک رئیس نے چاہا کہ قاری صاحب ان کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی باتوں سے ان کا جی بہلائیں۔ قاری صاحب نے ٹالنے کے لئے کہہ دیا کہ میں سو روپے فی گھنٹہ لوں گا۔ وہ بھی بگڑے دل رئیس تھے۔ دو سو روپے روزانہ قاری صاحب کو دیتے رہے اور قاری صاحب وہ روپیہ انجمن اسلامیہ کو بھیجتے رہے۔ 

    ۱۹۱۱ء میں شیخ عبدالقادر کی سرپرستی میں علامہ راشد الخیری نے رسالہ ’’تمدن‘‘ جاری کیا، اس کے پہلے پرچے میں قاری صاحب کا بھی ایک مضمون شائع ہوا۔ عنوان تھا، ’’انسان، فرشتے کی عینک سے۔‘‘ یہ مضمون ڈپٹی نذیر احمد کے نزدیک بہت قابل اعتراض تھا، اس لئے کہ اس میں مذہبی روایات کا مذاق اڑایا گیا تھا۔ ڈپٹی صاحب علامہ راشد الخیری کے پھوپھا تھے۔ فوراً ان کی طلبی ہوئی، ڈپٹی صاحب نے بڑی لعن طعن کی، ان کے بعد قاری صاحب پیش ہوئے۔ ڈپٹی صاحب ان پر بھی خوب برسے، دونوں نے توبہ تلاکی اور معاملہ رفع دفع ہوا، اس کے بعد قاری صاحب نے اپنے کسی مضمون میں مذہب کا مذاق نہیں اڑایا بلکہ خود مذہب کی طرف ڈھل گئے اور مبلغ بن کر سمندر پار ملکوں میں گئے۔ خوش گفتار تو تھے ہی، تقریر اردو میں بھی اچھی کرتے تھے اور انگریزی میں بھی۔ 

    آخری عمرمیں گوشہ گیر ہو گئے تھے اور کتابیں لکھا کرتے تھے۔ جب ہاتھ میں رعشہ آ گیا تو ایک منشی رکھ لیا تھا۔ قاری صاحب بولتے جاتے اور منشی لکھتا رہتا، مگر قاری صاحب اس سے مطمئن نہیں ہوتے تھے اور کبیدہ خاطر رہتے تھے کہ خود لکھنے کی کچھ اور ہی بات ہوتی ہے۔ ۱۹۳۰ء میں جب میں نے ’’ساقی‘‘ جاری کیا تو قاری صاحب نے ایک ناول ’’ثروت دلہن‘‘ اپنے منشی سے لکھوایا۔ یہ ناول قسط وار ’’ساقی‘‘ میں شائع ہوا۔ 

    خواجہ حسن نظامی دہلوی دلی سے تین میل دور بستی نظام الدین میں خواجہ حسن نظامی صاحب رہتے تھے۔ خواجہ صاحب دین اور دنیا دونوں میں کامیاب رہے۔ وہ اپنی شہرت اور کامیابی کے لیے ہر ذریعہ اختیار کرتے تھے۔ سب سے پہلے تو ان کی نرالی دھج تھی کہ ہزاروں کے مجمع میں نظر ان ہی پر پڑتی تھی۔ سر پر زرد کلاہ نما ٹوپی، شانوں پر زلفیں لہراتیں،، کشادہ پیشانی، سنہری فریم کی عینک، ہونٹوں پر لاکھا جما ہوا، کترواں لبیں، پھریری داڑھی، ٹخنوں تک خاکی جبہ، آنکھوں میں مقناطیسی کشش۔ 

    تحریر و تقریر دونوں کے بادشاہ تھے۔ سلطان جی کی درگاہ کے مجاوروں میں سے تھے، چھٹپن ہی میں باپ کے سائے سے محروم ہو گئے۔ پھیری پر کتابیں بیچتے اور اپنا اور اپنی ماں کا پیٹ پالتے مگر جو ہر فطری نے انہیں اس پستی پر قانع نہ ہونے دیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ خواجہ صاحب آفتاب بن کر چمکے، کئی لاکھ مریدوں کے پیر بنے، پان سو کتابوں کے مصنف اور مؤلف، بیسوں اخبار، رسالوں کے ایڈیٹر، اللہ نے مال دولت سے بھی سرفراز فرمایا، مگر اتنے بلند مراتب حاصل ہونے کے بعد بھی ان کی وضع داری میں فرق نہ آیا، غرور و تکبر ان کے پاس تک نہ پھٹکا۔ جن سے جیسے تعلقات ابتدا میں تھے ویسے ہی آخر تک رہے۔ صرف ایک پرانے رفیق سردار دیوان سنگھ مفتون ایڈیٹر ریاست سے آخر میں بگاڑ ہو گیا تھا۔ خواجہ صاحب نے سردار جی سے بارہا صلح صفائی کرنی چاہی مگر وہ بھی بڑے ہٹیلے آدمی ہیں۔ اپنی ضد پر اڑے رہے اور خواجہ صاحب کے خلاف لکھتے رہے مگر خواجہ صاحب نے ان کی کڑوی کسیلی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ 

    خواجہ صاحب نے تبلیغی کام بھی بہت کیا۔ جب شدھی اور سنگٹھن نے زور باندھا تو خواجہ صاحب خم ٹھونک کر میدان میں آگئے۔ سوامی شردھا نند سے مباہلہ کرنے کے لئے انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ جامع مسجد کے مینار پر سے دونوں کود پڑیں، جو راہ حق پر ہوگا وہ بچ رہےگا، مگر سوامی جی نے اس چیلنج کو منظور نہیں کیا۔ 

    ایک دفعہ ایک معاملہ میں مولانا محمد علی سے خواجہ صاحب کی ٹھن گئی۔ دونوں طرف سے دھواں دھار مضامین لکھے گئے۔ خواجہ صاحب عجیب عجیب سرخیوں کے پوسٹر بھی لکھ کر شہر میں لگواتے تھے۔ مولانا نے خواجہ صاحب ہی کو قد آدم پوسٹر کہنا شروع کر دیا تھا۔ چند بھلے آدمیوں نے بیچ میں پڑ کر ناگوار قضیہ کو ختم کرایا۔ 

    خواجہ صاحب کی غیر معمولی کامیابی نے ان کے بہت سے حاسد پیدا کر دیے تھے، ان میں سے بعض ان کی جان کے لاگو بھی ہو گئے تھے۔ ایک دن ایک آریہ سماجی انہیں قتل کرنے کے ارادے سے ان کے کمرے میں گھس آیا۔ خواجہ صاحب بالکل اکیلے تھے مگر ذرا نہ گھبرائے۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ڈپٹا، ’’کیوں آیا ہے؟ واپس چلا جا۔‘‘ وہ ایسا مرعوب ہوا کہ فوراً واپس چلا گیا۔ ایک دفعہ شہر سے اپنی بستی میں رات کو کچھ دیر سے پہنچے، جب ان کی کارگیرج کے قریب پہنچی تو کسی نے تین چار فائر کئے اور بھاگ گیا۔ خواجہ صاحب تو بچ گئے مگر ان کے خسر کے گولی لگی اور انہوں نے وہیں دم دے دیا۔ 

    خواجہ صاحب انگریزی بالکل نہیں جانتے تھے مگر وائسرائے تک سے مل لینے میں انہیں باک نہیں ہوتا تھا۔ حکام سے سفارش کر کے انہوں نے ہزاروں کے کام نکالے، مگر خود کبھی حکام رسی سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ بڑی پہلودار شخصیت تھی خواجہ صاحب کی۔ صوفیٔ صاف باطن تھے، پیر تھے، مسلمانوں کے لیڈر تھے، صاحب طرز انشا پرداز تھے، بہت بڑے صحافی تھے اور بہت بڑے انسان تھے۔ 

    خواجہ حسن نظامی دلّی کی تہذیب کے موٹام تھے،

    ان کے مرنے سے مرگئی دلّی

    مولانا عبدالسلام دہلوی دلی کے ایک قلندر مزاج بزرگ تھے۔ چار ابرو کا صفایا، گول چہرہ، کھلتا ہوا رنگ، سر پر دو پلی، ململ کا کرتا اور چست پاجامہ، پاؤں میں نری کی جوتی، ان کے علم و فضل کی دھاک بڑے بڑوں کے دلوں پر بیٹھی ہوئی ہے۔ جس علم سے کہو، وجود باری تعالیٰ ثابت کر دیتے تھے۔ عربی فارسی کی تمام پرانی کتابیں انہیں از بر تھیں۔ جو رو نہ جاتا، اللہ میاں سے ناتا۔ چھڑادم، کتابیں تھیں اور طالب علم، شاگردی میں مشکل ہی سے کسی کو قبول کرتے تھے، کچھ لیتے لواتے تو تھے ہی نہیں اس لئے ان پر کسی کا بس نہیں چلتا تھا۔ کسی کو شاگرد بناتے تو پہلے اس کا امتحان لیتے اور وہ بھی اتنا سخت کہ شاگرد توبہ کرتا ہوا وہاں سے بھاگ جائے۔ 

    گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ دیکھئے اور شاگرد سے جناب کا ارشاد کہ ’’جا بے دھوپ میں کھڑا ہوجا۔‘‘ اب وہ غریب صحن میں کھڑا سنک رہا ہے اور جناب اندر پڑے پنکھا جھل رہے ہیں۔ کسی کو ذرا سی خطا پر در سے باندھ کر مارتے اور اف تک کرنے کی اجازت نہ دیتے۔ نیا شاگرد پہلے ہی دن بھاگ کھڑا ہوتا، مگر جو ان کی آزمائش کی آگ میں تپ جاتا ہے وہ پھر کندن بھی بن جاتا ہے۔ 

    وہ دیکھئے سامنے سے مولانا جھومتے آ رہے ہیں۔ قومی الجثہ آدمی ہیں۔ کوئی انہیں نہ جانتا ہو تو پہلوان سمجھے، سر اور چہرے پر مشین پھری ہوئی ہے، یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی بھدرا کرا کے چلے آ رہے ہیں۔ پان کھاتے ہیں، اونچی آواز میں بولتے ہیں، تیل بیچتے ہیں اور روکھی سوکھی کھاتے ہیں۔ صوفی منش ہیں، قوالی شوق سے سنتے ہیں، رنڈیوں کا گانا بھی سن لیتے ہیں۔ صوفیوں کے حلقے میں بیٹھتے ہیں تو ان کے لتے لے ڈالتے ہیں، ان کے علم و فضل کا دریا سب کو تنکوں کی طرح بہا لے جاتا ہے، عرسوں میں شریک ہوتے ہیں، ایک عرس میں جہاں بڑا بڑا جغادری صوفی بیٹھا تھا، مولانا بھی تشریف فرما تھے کہ ایک حسین طوائف لانگتی پھلانگتی آ گئی اور اس کے پیچھے پیچھے اس کی نائکہ بھی۔ ایک دل پھینک صوفی نے جل جلالہ کہہ کر طوائف کو اپنے پاس بٹھا لیا، مولانا نے نائکہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا، ’’یہ عمان والہ بھی ساتھ ہیں، انہیں بھی سنبھالئے۔‘‘ 

    مولانا نے بلا کا حافظہ پایا تھا۔ دلّی کی ایک مشہور طوائف کا مجرا ہو رہا تھا، مولانا نے اسے ٹوک کر کہا، ’’کیا پانچ پانچ سات سات شعر کی غزلیں سنا رہی ہو؟ تمہیں جو لمبی سے لمبی چیز یاد ہو سناؤ۔‘‘ طوائف بھی پرانی تعلیم کی عورت تھی۔ سو ڈیڑھ سو بند کا ایک خمسہ اس نے شروع کردیا اور دو گھنٹے کی خبر لائی۔ مولانا ساتھ ساتھ اشعار پڑھتے جاتے تھے اور جب اس نے خمسہ ختم کر دیا تو مولانا نے شروع سے آخر تک لفظ بلفظ وہی خمسہ دہرا دیا۔ 

    مولانا اپنے آگے کسی کو نہیں گانٹھتے تھے۔ جوش ملیح آبادی مولانا کی تعریف سن کر ملنے گئے، مولانا اچھی طرح ملے مگر جب وجود باری تعالیٰ پر جوش صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار فرمایا تو مولانا چمک گئے اور بولے، ’’تمہارا دماغ شیطان کی کھڈّی ہے۔‘‘ اس کے بعد سیکڑوں شعر اقبالؔ کے سنا ڈالے اور کہا، ’’بس شاعر تو اقبالؔ ہے۔‘‘ 

    مولانا حیدرآباد دکن بھی گئے تھے۔ کسی نے مشورہ دیا کہ آپ حضور نظام کی خدمت میں پیش ہو جائیں تو کچھ وظیفہ مقرر ہو جائےگا۔ مولانا نے بگڑ کر کہا، ’’اگر تمہارے نظام کی ساری دولت ایک پلڑے میں رکھی جائے اور میرا ایک بوسیدہ سے بوسیدہ بال دوسرے پلڑے میں تو انشاء اللہ میرا بال ہی بھاری اترےگا۔‘‘ 

    مولانا کو جب جلال آتا تو ان کی تقریر سننے کے قابل ہوتی، نہایت مرصع اور مغلق فقرے بولتے تھے۔ ایک طوائف کے متعلق ارشاد ہوا کہ ’’اس مثلث لحمی کے لئے تو عمودِ زریں ہی چاہیے۔‘‘ 

    مولانا کو لکھنے کا شوق نہیں تھا، ایک آدھ مضمون لکھا بھی تو وہ خاصہ پھسپھسا تھا مگر بولنے میں کوئی ان کے آگے دم نہ مار سکتا تھا۔ مولانا دلی ہی میں رہے اور ہمیشہ اکیلے رہے۔ ۱۹۴۷ء کے ہنگامے میں ایک سکھ کرپان لیے مولانا کے گھر میں گھس آیا۔ مولانا نے ایک ڈانٹ پلائی، اس پر کچھ ایسی دہشت طاری ہوئی کہ کرپان اس کے ہاتھ سے گر پڑی اور وہ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ گیا۔ 

    آغا شاعر قزلباش دہلوی پنڈت امرناتھ ساحرؔ کے ایک سالانہ مشاعرے میں جس کی صدارت میر ناصر علی کر رہے تھے، ایک بڑے میاں ڈھیلا سا صافہ لپیٹے اپنا کلام سنانے صدر مقام پر ہائے ہائے کرتے آئے۔ گورا رنگ، بڑی بڑی آنکھیں، سفید مونچھیں، داڑھی منڈی ہوئی، ہاتھ پاؤں بے قابو، دو زانو بیٹھنے کے بعد جب سانس ٹھیک ہو گیا تو جناب صدر کی طرف دیکھ کر انہوں نے کہا، ’’چیں!‘‘ معلوم ہوا کہ اجازت چاہی ہے، پھر رونی آواز میں سامعین سے کہا، ’’استادکی رباعی تبرکاً پڑھتا ہوں۔‘‘ 

    رباعی جو پڑھی تو آواز ایسی نکلی جیسے بادل گرج رہا ہو، یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے؟ یا بہ ایں بے نمکی یا بہ ایں شورا شوری؟ معلوم ہوا کہ یہ صاحب جب سناتے ہیں تو اپنی تکلیفیں بھول جاتے ہیں، نام آغا قزلباش ہے۔ داغؔ کے چہیتے شاگرد ہیں۔ تحت اللفظ اپنے استاد ہی کی طرح پڑھتے ہیں۔ داغؔ کو پڑھتے نہ سنا ہو تو انہیں سن لو۔ استاد کی رباعی ختم ہوئی تو تحسین و آفرین کے شور سے لالہ پارس داس کی حویلی گونج گئی۔ آغا صاحب نے اپنا کلام سنانا شروع کیا تو ہر ہر شعر پر قیامت برپا ہوتی رہی۔ جب غزل ختم کی تو پھر بے دم ہو گئے اور نقاہت کی وجہ سے خود ڈائس سے نہ اتر سکے۔ ساحرؔ صاحب نے سہارا دے کر اتارا اور اپنے پاس بٹھا لیا۔ آغا بہت بیمار تھے، تھوڑی دیر بعد چلے گئے۔ 

    ان کی جوانی مشہور تھی، بڑے دیدور جوان تھے۔ ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے تھے اور سر آنکھوں پر بٹھائے جاتے تھے۔ اب یہ صورت تھی کہ بیماری اور ناداری نے انہیں ایک ڈراؤنی چیز بنا دیا تھا۔ ان کے جاننے والے اب انہیں دیکھ کر آنکھیں چراتے اور دور ہی سے کترا کر نکل جاتے۔ برے وقت کا ساتھی کوئی نہیں۔ بچے چھوٹے چھوٹے تھے۔ کوئی سہارا لگانے والا نہیں تھا۔ جن ریاستوں میں جوانی گزاری ان ریاستوں کے رئیس مر کھپ گئے۔ ایسے بوڑھے بیل کو کون بھس دے؟ ناچار اپنے پرانے دوستوں اور قدردانوں کے گھروں پر جاتے مگر وہ بھی کب تک ساتھ دیتے؟ اُپرانے لگے اور اندر ہی سے کہلوانے لگے کہ ’’نہیں ہیں۔‘‘ 

    آغا صاحب شاعر تو بڑے تھے ہی، انہوں نے ناول بھی لکھے اور ڈرامے بھی، پورے قرآن شریف کا ٹکسالی اردو میں منظوم ترجمہ بھی انہوں نے کیا تھا۔ کاش وہ ترجمہ چھپ جائے۔ 

    آغا کا آخری وقت ایسا خراب ہوا کہ اللہ دشمن کا بھی نہ کرے، کسی دوست کو دیکھا تو آبدیدہ ہو گئے۔ جامع مسجد کو دیکھا تو آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ لال قلعہ کو دیکھا تو رونے لگے۔ غرض یونہی روتے دھوتے دنیا سے سدھارے۔ 

    مرزا حیرتؔ دہلوی دریبہ میں پائے والوں کی طرف سے داخل ہوکر چند قدم چلنے کے بعد ایک تین در کی دکان بائیں ہاتھ کو آتی ہے۔ اس کے تھڑے کی طرف گاؤ تکئے سے لگے ایک بزرگ بیٹھے رہتے تھے، گورا رنگ، سفید براق سرسیدی داڑھی، غلافی آنکھیں، گالوں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، لبوں پر پان کی سرخی، یہ مرزا حیرتؔ دہلوی تھے، بہت بڑے عالم تھے، مگر دماغ تخریب کی طرف مائل تھا۔ ہنگاموں ہی کو وجہ رونق سمجھتے تھے۔ 

    دلّی میں چھاپے کی مشین سب سے پہلے انہوں نے ہی لگائی تھی اور’’کرزن گزٹ‘‘جاری کیا تھا۔ اس اخبار میں جس کی چاہتے خبر لیتے، جس کی چاہتے ٹوپی اتار لیتے۔ شورش پسند آدمی تھے، نت نئے ہنگام برپا کرتے رہتے تھے، واقعہ کربلا ہی سے انکار کر دیا تھا اور حساب لگا کر یہ بتایا تھا کہ جس زمانہ میں اس کا واقع ہونا بتایا جاتا ہے، گرمی کا موسم ہی نہ تھا بلکہ سخت سردی کا زمانہ تھا۔ مولانا حالیؔ نے مسدس مد و جزر اسلام لکھی تو دنوں اس کی تردید و تضحیک میں مضامین لکھتے رہے۔ حالیؔ فرماتے ہیں،

    عرب کچھ نہ تھا اک جزیرہ نما تھا

    مرزا حیرتؔ نے اس پر فرمایا،

    ذرا دیکھئے تو یہ کیا کہہ رہے ہیں
    عرب کو جزیرہ نما کہہ رہے ہیں

    ڈپٹی نذیر احمد کا ترجمۂ قرآن شائع ہوا تو اس کے فوراً بعد مرزا حیرتؔ کا ترجمۂ قرآن شائع ہو گیا اور اس کا سائز بھی رکھا تو گز بھر کا۔ شبلی نعمانی کے ساتھ حیدرآباد دکن گئے، سرسالار جنگ کی خدمت میں دونوں پہنچے، شبلی نے مرزا کی تعریف کر کے تعارف کرایا، سالار جنگ نے مرزا سے کلام سنانے کی فرمائش کی، مرزا نے شبلی کی ایک تازہ نظم سنانی شروع کردی۔ شبلی نے ٹہوکا دیا تو چٹکی لے کر انہیں خاموش کر دیا۔ سالار جنگ نے ایک ہزار روپیہ انعام دیا۔ باہر نکل کر شبلی نے کہا، ’’یہ کیا حرکت تھی آپ کی؟‘‘ بولے، ’’تم سناتے تو تمہیں پھوٹی کوڑی بھی نہ ملتی، مجھے ہزار روپے تو مل گئے۔‘‘ 

    جب مولانا محمد علی اور خواجہ حسن نظامی کی چلی تو مرزا حیرت مولانا کے طرفداروں میں ہو گئے اور اپنے اخبار ’’درۂ عمر‘‘ میں خواجہ صاحب کے خلاف لکھنے لگے، ایک دن مرزا حیرتؔ اپنی دکان پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک بدمعاش نے کسی بات پر جھگڑا کر کے ان پر ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔ لوگوں نے بیچ بچاؤ کیا مگر اس کمبخت نے ایک جوتا ایسا کھینچ کر مارا کہ مرزا کے منہ پر لگا۔ اس دن کے بعد سے مرزا حیرتؔ نے دکان پر سامنے کے رخ بیٹھنا چھوڑ دیا۔ مرزا حیرتؔ کے انتقال کے بعد ان کا نایاب اور قیمتی کتب خانہ لال کنویں پر ایک کباڑیے کے ہاں برسوں کوڑیوں کے مول بکتا رہا۔ 

    دلی کی یاد آئی تو دلی کی وضع دار ہستیوں کی یاد دل میں چٹکیاں لینے لگی۔ ان کا تذکرہ زلف یار کی طرح دراز ہی ہوتا چلا جاتا ہے، یا اسے شب فراق کی درازی سے مشابہ سمجھئے۔ آنکھیں اب ان صورتوں کو ڈھونڈتی ہیں اور ماضی کے دھندلکے میں نظریں بھٹک کر مایوس لوٹ آتی ہیں۔ 

    وے صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
    اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں

     

    مأخذ:

    دلی جو ایک شہر تھا (Pg. 150)

    • مصنف: شاہد احمد دہلوی
      • ناشر: فیاض رفعت
      • سن اشاعت: 2011

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے