aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شعر، غیر شعر اور نثر

شمس الرحمن فاروقی

شعر، غیر شعر اور نثر

شمس الرحمن فاروقی

MORE BYشمس الرحمن فاروقی

     

    در مکتب نیاز چہ حرف و کدام صوت
    چوں نامہ سجدہ ایست کہ ہر جانوشتہ ایم
    بیدل

    نئی شاعری کی بنیاد ڈالنے کے لیے جس طرح یہ ضروری ہے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے اس کے عمدہ نمونے پبلک میں شائع کیے جائیں، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ شعر کی حقیقت اور شاعر بننے کے لیے جو شرطیں درکار ہیں ان کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے۔ (حالی۔ مقدمۂ شعروشاعری)

    کیا شاعری کی پہچان ممکن ہے؟ اگر ہاں، تو کیا اچھی اور بری شاعری کو الگ الگ پہچاننا ممکن ہے؟ اگر ہاں، تو پہچاننے کے یہ طریقے معروضی ہیں یا موضوعی؟ یعنی کیا یہ ممکن ہے کہ کچھ ایسے معیار، ایسی نشانیاں، ایسے خواص مقرر کیے جائیں یا دریافت کیے جائیں جن کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ اگر یہ کسی تحریر میں موجود ہیں تو وہ اچھی شاعری ہے، یا اچھی شاعری نہ سہی، شاعری تو ہے؟ یا اس سوال کو یوں پیش کیا جائے، کیا نثر کی پہچان ممکن ہے؟ کیوں کہ اگر ہم نثر کو پہچاننا سیکھ لیں تو یہ کہہ سکیں گے کہ جس تحریر میں نثر کی خصوصیات نہ ہوں گی، اغلب یہ ہے کہ وہ شعر ہوگی۔

    لیکن پھر یہ بھی فرض کرنا پڑےگا کہ شعر اور نثر الگ الگ خوص وخصائص رکھتے ہیں اور ایک، دوسرے کو خارج کر دیتا ہے۔ تو کیا ہم یہ فرض کر سکتے ہیں؟ یا ہمیں یہ کہنا ہوگا کہ شعر اور نثر کے درمیان بال برابر حد فاصل ہے جو اکثر نظر انداز بھی ہو جاتی ہے، یا ایسی بھی منزلیں ہیں جہاں نثر اور شعر کا ادغام ہو جاتا ہے؟ پھر یہ بھی سوال اٹھےگا کہ نثر سے ہماری مراد تخلیقی نثر ہے (یعنی جس طرح کی نثر کا تصور افسانے یا ناول، ڈرامے سے منسلک ہے۔) یا محض نثر، (یعنی ایسی نثر جس کا تصور تنقید، سائنسی اظہار تاریخ وغیرہ سے منسلک ہے؟)

    اتنے سارے سوالات اٹھانے کے بعد آپ کو مزید الجھن سے بچانے کے لیے کچھ توضیحی مفروضات یا مسلمات کا بیان بھی ضروری ہے، تاکہ حوالہ میں آسانی ہو سکے۔ پہلا مفروضہ یہ ہے کہ بہت موٹی تفریق کے طور پر وہ تحریر شعر ہے جو موزوں ہے، اور ہر وہ تحریر نثر ہے جو ناموزوں ہے۔ موزوں سے میری مراد وہ تحریر ہے جس میں کسی وزن کا باقاعدہ التزام پایا جائے، یعنی ایسا التزام جو دہرائے جانے سے عبارت ہو اور ناموزوں وہ تحریر ہے جس میں وزن کا باقاعدہ التزام نہ ہو۔

    اگر چہ یہ ممکن ہے کسی ناموزوں تحریر میں اکا دکا فقرے یا بہت سے فقرے کسی باقاعدہ وزن پر پورے اترتے ہوں، لیکن جب تک یہ باقاعدہ وزن یا باقاعدہ اوزان دہرائے نہ جائیں گے یا ان میں ایسی ہم آہنگی نہ ہوگی جو دہرائے جانے کا بدل ہو سکے، تحریر ناموزوں رہےگی اور نثر کہلائےگی۔ یہ قضیہ اتنا واضح ہے کہ اسے مثالوں کی ضرورت نہیں لیکن پھر بھی اتمام حجت کے لیے یہ تحریریں پیش خدمت ہیں۔

    (1) میں گھر گیا تو میں نے دیکھا کہ میرے بچے سارے گھر میں ادھم مچاتے پھر رہے ہیں۔

    (2)

    بادل جو گھرے ہیں قریے قریے پر
    اٹھ کر آتے ہیں بحروں سے اکثر

    گھر گھر پہ پڑے ہیں ابر اسود کے پرے
    دیکھو دیکھو اڑے ہیں کیا کالے پر

    پہلی عبارت میں مندرجہ ذیل اوزان موجود ہیں جن کی وجہ سے تحریر کے یہ ٹکڑے الگ الگ موزونیت کے حامل ہیں،

    میں گھر گیا۔۔۔ مستفعلن
    تو میں نے دیکھا کہ میرے بچے۔۔۔ فعل فعولن فعل فعولن
    سارے گھر میں۔۔۔ فاعلاتن
    ادھم مچاتے۔۔۔ فعل فعولن
    پھر رہے ہیں۔۔۔ فاعلاتن

    چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی علاحدہ موزونیت نے اس تحریر کو ایک ڈھیلا ڈھالا آہنگ تو بخش دیا ہے، لیکن تکرار یا التزام کی شرط پوری نہ ہونے کی وجہ سے میں اسے نثر کہوں گا۔ دوسری تحریر ایک خود ساختہ فی البد یہہ رباعی ہے، اس کی معنویت سے قطع نظر کیجیے، یہ ملاحظہ کیجیے کہ چار مصرعوں میں چار الگ الگ اوزان استعمال ہوئے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے، (1) مفعول مفاعلین مفعولن فع (2) مفعولن مفعولن مفعولن فع (3) مفعول مفاعلن مفاعیل فعل (4) مفعولن فاعلن مفاعیلن فع۔

    ظاہر ہے کہ یہ اوزان ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں اور ان میں بھی عدم تکرار کی وہی کیفیت ہے جو عبارت نمبر ایک میں تھی۔ لیکن چوں کہ ان میں ایسی ہم آہنگی ہے جو التزام یا تکرار کا بدل ہو سکتی ہے اس لیے میں اس تحریر کو شعر کہوں گا۔ ویسے بھی یہ بات ظاہر ہے کہ محولہ بالا رباعی میں جو صورت حال ہے وہ استثنائی ہے، عام طور پر شعر میں ایک ہی وزن کو دہرایا جاتا ہے۔ بہر حال، سب سے مستحکم اور سمجھنے کے لیے سب سے کارآمد تفریق یہ ہے کہ کلام موزوں شعر ہے اور کلام ناموزوں نثر ہے۔ ہماری ساری مشکلیں بھی اسی تفریق سے پیدا ہوتی ہیں لیکن اسے ذہن میں رکھنا بھی ضروری ہے، ورنہ ہمیں بہت سی مثنویوں کے بارے میں یہ کہنا پڑےگا کہ ان میں اتنے فی صدی اشعار، اشعار نہیں ہیں اگرچہ موزوں ہیں۔

    پھر ادب کے طالب علموں، بچوں، عام لوگوں کو بڑی دقت کا سامنا ہوگا جب ہم انھیں یہ سمجھائیں گے کہ دیکھیے فلاں تحریر ناموزوں ہے لیکن شعر ہے، اس لیے شعر کے نصاب میں داخل ہے، آپ بھی اسے شعر کہیے اور فلاں تحریر کے فلاں حصے موزوں ہوتے ہوئے بھی شعر نہیں ہیں، اس لیے نثر کے نصاب میں داخل ہیں، آپ بھی اسے نثر کہیے، اور بقیہ حصے موزوں بھی ہیں اور شعر بھی ہیں اس لیے انھیں نظم کے نصاب میں رکھا گیا ہے۔ اس طرح رسالوں، کتابوں، نصابوں، عام بول چال میں نثر وشعر کی تفریق ہی ختم ہو جائےگی۔ اس کے نتیجے میں جو افراتفری پھیلےگی، اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

    یہ مسئلہ اس طرح بھی نہیں حل ہو سکتا (جیسا کہ بعض لوگوں نے کوشش کی ہے) کہ جس کلام موزوں میں شعر کے خواص نہ ہوں اسے شعر نہ کہہ کر نظم کہا جائے۔ کیوں کہ کسی ایک شعر یا ایک مختصر نظم کے بارے میں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ نظم ہے اگرچہ شعر نہیں ہے۔ لیکن کسی بھی طویل منظومے، مثلاً قصیدے، یا مثنوی میں پھرو ہی مشکل پڑے گی۔ ہمیں کہنا پڑےگا کہ اس میں فلاں حصہ صرف نظم ہے، شعر نہیں ہے، اور فلاں حصہ شعر بھی ہے۔ لہٰذا عام بول چال میں تفریق کے لیے موزوں اور ناموزوں کی شرط لگانا لازمی ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ تنقیدی بول چال کے لیے یہ تفریق بالکل بے معنی ہے، کیوں کہ پھر تو،

    بمبئی ایک بڑا شہر ہے دوستو
    دلی بھی ایک بڑا شہر ہے دوستو

    اور

    محفلیں برہم کرے ہے گنجفہ باز خیال
    ہیں ورق گردانئ نیرنگ یک بت خانہ ہم

    میں فرق کیوں کر کیا جا سکےگا؟ اس لیے میں نے سوال یہاں سے شروع کیا ہے، کیا شاعری کی پہچان ممکن ہے؟ یعنی موٹی تفریق کے طور پر تو ہم نے مان لیا کہ موزوں کلام شعر ہوتا ہے، لیکن اس شعر کا بہ حیثیت شاعری کے کیا درجہ ہے، یہ الگ بحث ہے، اور یہی اصل بحث ہے۔ یعنی یہ تو ہم نے مان لیا کہ انڈوں کے بجائے بچے پیدا کرنے والا، بچوں کو دودھ پلانے والا، قوت گویائی رکھنے والا، زیادہ تر بے بالوں والا جانور انسان ہوتا ہے، لیکن اس انسان میں انسانیت کتنی ہے، ایرے غیرے، نتھو خیرے اور اکبر اعظم میں کیا فرق ہے، کون سی خصوصیات اکبر اعظم کو بہ حیثیت انسان ممتاز کرتی ہیں۔ یہ الگ بحث ہے، اور یہی اصل بحث ہے۔

    دوسرا مفروضہ (پہلا تو یہ ہے کہ موزوں کلام شعر ہوتا ہے) چند پرانے مفروضوں کو رد کرتا ہے۔ قدیم مشرقی تنقید میں شعر کی تعریف یوں کی گئی تھی کہ موزوں ہو۔ بامعنی ہو اور بالا ارادہ کہا گیا ہو۔ موزونیت تو ٹھیک ہے، لیکن با معنی ہونا ایک بے معنی شرط ہے، جب تک کہ با معنویت کو چند شعری رسوم یعنی Conventions کا پابند نہ بنایا جائے۔ مثلاً،

    دشنہ غمزۂ جاں ستاں ناوک ناز بےپناہ 
    غالب

    ترے نوکر ترے در پر اسد کو ذبح کرتے ہیں 
    غالب

    غیر نے ہم کو قتل کیا نے طاقت ہے نے یارا ہے 
    میر

    کی طرح کے ہزاروں مصرعے اور نظمیں بے معنی ہیں جب تک ان رسوم کے حوالے سے نہ پڑھی جائیں، جن کی حدوں میں رہ کر شاعر نے انھیں لکھا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان مصرعوں میں الگ الگ الفاظ کا با معنی ہونا سند نہیں، کیوں کہ بہت سے اشعار ہیں جو یقیناً بے معنی ہیں لیکن ان کے تمام الفاظ کے معنی سمجھ میں آتے ہیں۔ یہ خود ساختہ مثالیں دیکھیے،

    کدوکشتی نہ ہو باقی ترادم ہی سلامت ہے
    نہ بلی ہے نہ کتا ہے نہ ڈوری ہے کہ آفت ہے

    لہٰذا جب شعر پر با معنی ہونے کی شرط ہوگی تو یہ بھی کہنا پڑے گا کہ شعر کی معنویت کا انحصار ان شعری رسوم یعنیs Convention پر ہے جن کے حوالے سے اور جن کے سیاق وسباق میں شعر کہا گیا ہو۔ ہاں اگر بے معنی سے مراد یہ ہے کہ شعر کچھ اس طرح کے خودساختہ الفاظ کا مجموعہ ہو جن کے انفرادی معنی بھی نہ ہوں۔ مثلاً، چوں جن چناں لم لگ لہاں آلے تیاں والی وہو۔۔۔ تو کوئی جھگڑا نہیں 1 لیکن بالارادہ کی شرط ہر طرح ناقابل قبول ہے کیوں کہ (تخلیقی عمل پیچیدہ بحثوں سے گزرے بغیر) یہ بات مسلم الثبوت ہے کہ لوگوں نے بے ارادہ، بے ساختہ، ارتجالاً خواب میں یا نیم بے ہوشی کے عالم میں، یا Trance کے عالم میں بھی شعر کہے ہیں۔

    علاوہ بریں، کسی شعر کو محض دیکھ کر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ بے ارادہ کہا گیا ہے کہ بالارادہ۔ یہ معلوم کرنے کے لیے آپ کے پاس کچھ خارجی معلومات بھی ہونا چاہیے کہ یہ شعر، شاعر نے کس وقت، کس طرح اور کیوں کہا تھا۔ ظاہر ہے کہ ہر غزل یا ہر نظم کے بارے میں یہ معلومات حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور اگر ہو بھی جائے تو طویل نظموں، ڈراموں اور مثنویوں کا کیا بنےگا؟ ان کے بارے میں کیسے معلوم ہوگا کہ کون سا مصرع کس طرح کہا گیا تھا؟ اس میں کسی ایسی چیز کو شرط ٹھہرانا جس کا تعین ہی دشوار ہو، نا مناسب اور خلاف عقل ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ یہ شرط اصول شاعری سے علاقہ نہیں رکھتی، بلکہ ایک خارجی بندش ہے۔ اس طرح کی بندشیں اگر لگائی جائیں تو ایک وقت وہ بھی آ سکتا ہے جب ہم یہ کہیں کہ وہی شعر، شعر ہے جسے گورے آدمی نے کہا ہو۔

    تیسرا اور آخری مفروضہ یہ ہے کہ شعر کے لیے موضوع کی تخصیص نہیں ہو سکتی۔ یعنی قطعیت کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں موضوعات شاعرانہ ہیں اور فلاں غیر شاعرانہ، کیوں کہ اول تو ہزارہا موضوع ایسے ہیں جو شعر اور نثر دونوں میں مشترک ہیں اور دوسرے یہ کہ ایسے موضوعات بھی جوصرف شعر سے مختص کہے جا سکتے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ پھر ان میں روز بروز اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ اس لیے موضوعات شعر کی کسی جامع فہرست کی ترتیب ناممکن ہے۔ لہٰذا شعر کو پرکھنے اور اس میں ’’شاعری‘‘ کے عنصر کو پہچاننے اور الگ کرنے کے لیے موضوع کی قید نہیں لگائی جا سکتی۔

    یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں شعر میں شاعری نہیں ہے، کیوں کہ اس کا موضوع غیر شاعرانہ ہے۔ اس طرح شعر کی پہچان یا تعریف یا تنقیص جو بھی ہو سکتی ہے صرف فن شعر کے حوالے سے ہو سکتی ہے۔ اہم ترین موضوع پر بھی کہا ہوا شعر شاعر ی سے عاری ہو سکتا ہے اور پوچ ترین موضوع پر کہا ہوا شعر اعلیٰ درجے کا بھی ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ شعر کو پرکھنے کا پیمانہ شاعری ہے، کوئی شے دیگر نہیں۔ شاعری کا جو کچھ بھی موضوع ہے اس کے الفاظ میں بند ہے، الفاظ جو بہ قول پاسترناک ’’حسن اور معنی کا وطن اور گھر‘‘ ہوتے ہیں۔

    ان مفروضوں کے بعد دو مسائل اور ہیں جو شروع میں اٹھائے ہوئے سوالوں سے متعلق ہیں۔ اول تو یہ کہ ہم صرف انھیں خواص یا نشانیوں کو شعر کی نشانیاں ٹھہرا سکتے ہیں جو نثر اور شعر میں مشترک نہیں ہیں۔ انتہائی اسفل سطح پر تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شعر میں الفاظ خوب صورت طریقے سے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس پہچان میں پہلی قباحت تو یہ ہے کہ خوب صورت کی تعریف کیا ہو، اور دوسری یہ کہ چوں کہ نثر میں بھی الفاظ عام سطح سے زیادہ خوب صورت، با معنی اور منظم ڈھنگ سے استعمال ہوتے ہیں، اس لیے شعر کا وصف ذاتی کیا ہوا؟ اگر ذرا اور پیچیدہ بات کہی جائے کہ شعر جس طرح کا علم بخشتا ہے اس طرح کا علم نثر سے نہیں حاصل ہو سکتا۔ تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس علم کی تخصیص اور پہچان کیسے ہو؟ اور شعر کون سے ایسے وسائل استعمال کرتا ہے جن کے ذریعہ وہ اس علم تک ہماری رسائی کرتا ہے جو نثر سے ہمیں نہیں ملتا؟

     لہٰذا وہ نشانیاں جو نثر اور شعر میں مشترک ہیں، ان کو پہچاننے سے ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوتا اور نہ ان نشانیوں کا ذکر کرنے سے ہماری مشکل آسان ہوتی ہے، جن کو اول تو پہچاننا مشکل ہے اور اگر پہچان بھی لیا جائے تو یہ بتانا مشکل ہے کہ شعر کی ان تک رسائی کیوں کر ہوئی۔ ہمیں تو ان نشانیوں کی تلاش ہے جو صرف شعر میں پائی جاتی ہیں، یا اگر نثر میں پائی بھی جاتی ہیں تو اجنبی معلوم ہوتی ہیں، یا پھر وہ کم کم پائی جاتی ہیں۔ ظاہر ہے یہاں بھی ہمارا تیسرا مفروضہ سامنے آتا ہے کہ شعر کے پیدا کردہ تاثر یا جذباتی رد عمل کی ا قداری Qualitative یا مقداری Quantitative قدر کو شعر کی پہچان نہیں بنایا جا سکتا۔ مثلاً کوئی شعر بے ثباتی دنیا کا تذکرہ کر کے ہمیں متاثر کرتا ہے، یا کوئی نظم انسان کی لاچاری کا ذکر کر کے ہمیں متاثر کرتی ہے۔ جذباتی تاثر پیدا کرنے کی یہ قوت جو شعر میں پائی جاتی ہے، اس لسانی ترتیب کے مطالعہ میں ہماری کوئی مدد نہیں کرتی، جسے ہم شعر کہتے ہیں۔

    کیوں کہ یہ قوت تو کسی افسانے، ناول یا ڈرامے میں بھی ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ اس قوت کا ذکر اور اس سے متاثر ہونے کی صلاحیت، شعر کا لطف اٹھانے میں ہماری معاون ہو، لیکن شعر کو پہچاننے میں ہماری معاون نہیں ہو سکتی۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چوں کہ فلاں لسانی ترتیب ہمارے اندر جذباتی تاثر پیدا کرتی ہے، اس لیے وہ شعر ہے کیوں کہ یہ جذباتی تاثر تو کئی طرح کی تحریروں سے پیدا ہو سکتا ہے، اس کے لیے شعر کی قید نہیں ہے۔ اگر شعر میں کوئی ایسی شے نہیں ہے جو اسے نثر سے ممتاز کر سکے، سوائے باقاعدہ وزن کے، تو نسل آدم کسی نہ کسی موقعے پر تو پوچھتی کہ شعر گفتن چہ ضرور بود؟ اور پھر شعر کی پراسرار قوتوں اور اتھاہ گہرائیوں کو چھاننے کھنگالنے کے لیے اتنی تنقیدی موشگافیوں کی کیا ضرورت تھی؟ بس یہی کہہ دیتے کہ شعر وہی ہے جو نثر ہے۔ وہی فتنہ ہے لیکن یاں ذرا سانچے میں ڈھلتا ہے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔

    لیکن ظاہر ہے کہ ایسا نہیں۔ یقیناً شعر میں ایسے خصائص ہیں جو نثر میں نہیں پائے جاتے۔ اور اگر شعر کی تعریف یا تحسین ان اصطلاحوں کے ذریعہ کی جاتی ہے یا کی جائے جن کا اطلاق نثر پر بھی ہو سکتا ہے، تو یہ تنقید کی کم زوری ہے۔ اب اسے کیا کیجیے کہ نہ صرف اردو تنقید، بلکہ بیش تر تنقید، شعر کے گرد طواف تو کرتی رہی ہے، لیکن اسے چھونے، ٹٹولنے اور اس کے جسم کے خطوط کی حد بندی اور پیمائش کرنے سے ڈرتی رہی ہے۔ آخر تھک ہار کر یہ بھی کہہ دیا گیا کہ ساری تشریح و تجزیہ کے بعد جو چیز بچ رہے وہ شعر ہے۔ ماورائے سخن بھی ہے اک بات کا مفروضہ مشرق و مغرب دونوں میں عام رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ انتہائی مابعد الطبیعیاتی سطح پر شعر کی معنویت اور حسن کا تجزیہ یا اس کے بارے میں کوئی کلیہ طرازی ممکن نہیں، کیوں کہ ہر شخص کے لیے شعر اپنا الگ وجود، الگ معنویت اور اہمیت رکھتا ہے۔

    ہم دراصل میر یا غالب کا نہیں بلکہ اپنا شعر پڑھتے ہیں، جس طرح جانسن نے کہا تھا کہ شعر میں بہت ساری موسیقی ایسی ہوتی ہے جسے ہم اور صرف ہم خلق کرتے ہیں۔ لیکن ایک عمومی سطح پر افہام وتفہیم کے لیے اور شعر کے طالب علم کو تقدیر شعر کی (کم سے کم) وسطی منزل تک پہنچانے کے لیے یقیناً ایسی نشانیاں ڈھونڈی جا سکتی ہیں جو شعر میں شاعری کے عنصر کو پہچاننے میں مدد دے سکیں اور ہمیں یہ بتا سکیں کہ کون سا شعر شاعری ہے اور کون سا نہیں۔ یہیں پر دوسرا مسئلہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر ہم شعر کی پہچان ایسی وضع کریں یا مرتب کریں جو موضوعی ہو تو ساری محنت بےکار ہے۔ کیوں کہ جس طرح ایسی پہچان فضول ہے جو نثر اور شعر میں مشترک ہو، اسی طرح ایسی پہچان بھی لاحاصل ہے جسے دیکھنے کے لیے ہمیں موضوعی معیار یا نقطۂ نظر کو کام میں لانا پڑے۔

     موضوعی طرز فکر کے خطرات کی وضاحت چنداں ضروری نہیں۔ چوں کہ موضوعی منطق ہر فرد کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہے، اس لیے عین ممکن ہے کہ میں کسی چیز کو شعر میں ’’شاعری‘‘ کا نام دوں اور دلیل یہ دوں کہ میں ایسا محسوس کرتا ہوں تو جواب یہ ملے کہ آپ محسوس کرتے ہوں گے، ہم تو نہیں کرتے۔ اگر میں یہ کہوں کہ غالب کا یہ شعر،

    محفلیں برہم کرے ہے گنجفہ باز خیال
    ہیں ورق گردانی نیرنگ یک بت خانہ ہم

    اس لیے خوب صورت ہے یا شاعری ہے کہ اس کا آہنگ بہت دل فریب ہے تو جواب یہ ہو سکتا ہے کہ ہم تو اس کے آہنگ میں کوئی دل فریبی نہیں دیکھتے۔ آپ دکھائیے، کہاں ہے۔ اگر میں جواب میں کہوں کہ اس شعر میں جو خیال نظم ہوا ہے اس کو انتہائی مناسب آہنگ مل گیا ہے، یہی اس کا حسن ہے۔ تو جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں تو یہ آہنگ اس خیال کے لیے قطعاً نامناسب معلوم ہوتا ہے اور اگر بہ فرض محال ایسا ہو بھی، تو یہ آہنگ مندرجہ ذیل شعر میں اتنا مناسب کیوں نہیں ہے جب کہ بحر ایک ہی بلکہ ردیف وقافیہ بھی ایک ہے،

    ہم گئے تھے شہر دلی ہم کو اک لڑکی ملی
    دیکھتے ہی اس کو فوراً ہو گئے دیوانہ ہم

    اب اگر میں یہ کہوں کہ بحر اور ردیف وقافیہ تو ایک ہے، لیکن اس شعر میں جو خیال نظم کیا گیا ہے وہ مضحک ہے، اس وجہ سے آہنگ مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ آپ جواب میں کہہ سکتے ہیں کہ اولاً تو ہمیں یہ خیال مضحک نہیں معلوم ہوتا لیکن اگر مضحک خیال کے لیے یہ آہنگ ناموزوں ہے تو اس شعر کے بارے میں کیا خیال ہے،

    اپنی غفلت کی یہی حالت اگر قائم رہی
    آئیں گے غسال کابل سے کفن جاپان سے

    یہاں آہنگ متناسب کیوں محسوس ہوتا ہے؟ اب میں جواب میں کہہ سکتا ہوں، مجھے تو نہیں محسوس ہوتا۔ اس پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اچھا یہ بتائیے کہ مندرجہ ذیل آہنگ سنجیدہ ہے کہ مضحک،

    فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
    فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

    میں اگر یہ کہوں کہ نہ سنجیدہ ہے نہ مضحک بلکہ بے معنی ہے تو سوال ہو سکتا ہے کہ پھر اقبال کے شعر کے لیے نامناسب کیوں ہوا؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح ہمارا آپ کا جھگڑا تاقیامت چلتا رہےگا، کبھی کوئی فیصلہ نہ ہو پائے گا۔ بہت سے سنجیدہ اور معتبر نقادوں نے تو یہی کہہ کر بحث بند کر دی ہے کہ اگر آپ میں شعر شناسی کا ملکہ نہیں ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ چنانچہ پرانی تنقید کے اہم ترین نقاد مسعود حسن رضوی ادیب جو اپنے وقت میں جدید تھے، اور آج بھی ان کی تحریریں بعض جدید نظریات کی بیش بینی کرتی نظر آتی ہیں 2 کہتے ہیں،

    ’’جن چیزوں سے کلام میں اثر پیدا ہوتا ہے، وہ شعر میں علیحدہ علیحدہ موجود نہیں ہوتیں، بلکہ وہ سب یا ان میں چند، ترکیبی حالت میں پائی جاتی ہیں۔ ان کی ترکیب سے شعر میں جو کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اس کا اظہار لفظوں میں بہت مشکل ہے اور وہی کیفیت شعر کی روح ہوتی ہے۔۔۔ جو لوگ اس (یعنی شعر سے لطف اندوزی) کی صلاحیت سے فطرتاً محروم ہیں، ان کے لیے شعر کے اثر کی تحلیل و توضیح بےسود ہے۔‘‘ 

    یہاں پر یہ غلط فہمی بھی کار فرما ہو گئی ہے کہ شعر کی خوبیاں پرکھنا اور اس سے لطف اندوز ہونا ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ ممکن ہے کہ مجھے تاج محل دیکھ کر کوئی لطف نہ آئے، لیکن اگر میں فن تعمیرات کی باریکیوں کا نکتہ شناس ہوں تو میں اس کے حسن قبح کو تو پہچان ہی سکتا ہوں۔ موضوعی تاثر پر اتنا زور دراصل اسی وجہ سے دیا گیا ہے کہ نقاد کو شعر کی پراسرار قوتوں کا شدید احساس ہے لیکن مشکل یہ آ پڑی ہے کہ کم سے کم ایک حد تک تو ان مشینی عوامل کو پہچانا جائے جن کی وجہ سے وہ پراسرار قوتیں شعر میں درآئی ہیں۔ اگر ایسا کرنے کی کوئی صورت نہیں ہے تو یہ واقعی ایک بڑا لمیہ ہے کہ شاعری جو ذہن انسان کی بہترین اور اعلیٰ ترین تخلیق ہے، اس کو جاننے، پہچاننے اور پرکھنے کے لیے موضوعی اور داخلی معیاروں کا سہارا لینا پڑے جو ناقابل اعتبار نہیں بھی ہیں تو کم سے کم پایۂ ثبوت سے یقیناً ساقط ہیں۔

    لیکن اس کو کیا کیا جائے کہ حقیقت حال یہی ہے۔ مشرقی تنقید نے شعر کے محاسن (اور اس طرح اس کی پہچان) متعین کرنے کی کوشش ضرور کی ہے، اور اس سلسلے میں وہ مغرب سے آگے بھی رہی ہے، کیوں کہ مغرب نے تو ایک طرف وجدان اور ذوق کا سہارا لیا، دوسری طرف ایسے خواص متعین کیے جو فی نفسہٖ اہم ہیں، لیکن ان کا اطلاق نثر پر بھی ہو سکتا ہے۔ مشرق میں وجدان پر اتنا زور نہیں دیا گیا بلکہ یہاں یہ ہوا کہ وجدانی علم کے ذریعہ جو خواص پہچانے جا سکے، ان کو معروضی اصطلاحوں کے ذریعہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی، یا پھر ایسے خواص طے کر دیے گئے جن کا اطلاق تمام شاعری پر نہیں ہو سکتا، بلکہ ان کی حیثیت کسی شخص واحد کی پسند یا انفرادی (اور اکثر) غیرمنطقی، بے اصول Arbitrary فیصلے کی تھی۔ تیسری صورت یہ ہوئی کہ شعر کی جو خوبیاں بیان کی گئیں وہ یا تو تمام شاعری پر حاوی نہیں ہوتیں، یا ایسی تھیں جو نثر اور شعر میں مشترک تھیں۔

    وجدانی معیار کی ایک قدیم مثال خواجہ قطب الدین بختیار کا کی کے اس سوال کا جواب ہے جو انھوں نے شاہ عبدالرحیم کے سامنے پیش کیا تھا۔ جب خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے ان سے شعر کی تعریف پوچھی تو انھوں نے جواب میں کہا، کلام حسنہ، حسن و قبیحۃ، قبح۔ یعنی ایسا کلام جس کی خوب صورتی حسن ہے اور جس کی بدصورتی قبح ہے۔ ظاہر ہے کہ شاہ عبدالرحیم نے حسن اور قبح کی اصطلاحیں مطلق حسن اور مطلق قبح کے معنی میں استعمال کی تھیں، لیکن پھر بھی اس سے سائل کا مسئلہ حل نہیں ہوتا، کیوں کہ خوب صورتی اور بدصورتی کی تعریف نہیں کی گئی ہے۔ ہمارے زمانے سے قریب تر مثال غالب کی ہے جنھوں نے شعر کی تعریف کرتے ہوئے بہترین طرز شعر کو ’’شیوابیانی‘‘ اور شیوا بیانی کو سخن عشق وعشق سخن، کلام حسن وحسن کلام، سے تعبیر کیا تھا۔

     ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ مہمل تعریف ممکن ہی نہیں، کیوں کہ ان چار میں سے ایک شرط بھی ایسی نہیں ہے جسے معروضی طور پر تو کجا، موضوعی طور پر بھی سمجھا جا سکے۔ لیکن، جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں، مشرق میں زیادہ تر زور اس بات پر رہا ہے کہ موضوعی علم کو معروضی بیان میں ادا کیا جائے، مثلاً عربی شاعر کا یہ قول کہ بہترین شعر وہ ہے کہ جب پڑھا جائے تو لوگ کہیں کہ سچ کہا ہے۔ یا ابن رشیق کا یہ کہنا کہ بہترین شعر وہ ہے کہ جب پڑھا جائے تو لوگ یہ سمجھیں کہ ہم بھی ایسا کہہ سکتے ہیں لیکن کوئی دراصل ایسا کہہ نہ پائے (غالب نے یہی تعریف سہل ممتنع کی لکھی ہے۔) یا یہ کہنا کہ اچھا شعر وہ ہے جس کے معنی مکمل شعر سننے سے پہلے ذہن میں آ جائیں۔

     یہ سب تعریفیں اور اس طرح کی بہت سی اور، جن کے حوالوں سے مقدمہ شعروشاعری بھرا پڑا ہے، موضوعی فکر کی ناکامی کی نشان دہی کرتی ہیں، کیوں کہ موضوع کو معروض میں اس طرح بدلنا کہ اس کی سچائی پوری پوری برقرار رہے، ممکن نہیں ہے۔ عربوں کی طرح شیکسپیئر نے بھی کہا تھا کہ سب سے سچی شاعری سب سے زیادہ جھوٹی ہوتی ہے (احسن الشعراکذبہ۔) اس کا مفہوم حالی نے یہ نکالا ہے کہ ایسی شاعری اصلیت اور جوش دونوں سے عاری ہوگی، جب کہ اصلیت اور جوش اچھی شاعری کی پہچان ہیں۔ جب حالی جیسے سمجھ دار لوگ بھی موضوع سے معروض میں آکر اتنی بڑی غلطی کر سکتے ہیں تو ہمارا آپ کا پوچھنا ہی کیا ہے۔

    خود حالی کی یہ اصول بندی کہ شاعری اصلیت، سادگی اور جوش سے عبارت ہے، ملٹن کو غلط سمجھنے کا نتیجہ تو ہے ہی، لیکن اس غیر منطقی بے اصول Arbitrary تعین کی بھی مثال ہے جس کا الزام انھوں نے خلیل بن احمد پر رکھا تھا۔ خلیل بن احمد کا یہ قول نقل کر کے کہ اچھا شعر وہ ہےجس کا قافیہ شعر پورا ہونے کے پہلے سامع کے ذہن میں آ جائے، وہ کہتے ہیں، ’’یہ تعریف نہ جامع ہے اور نہ مانع۔ ممکن ہے شعر ادنیٰ درجے کا ہو اور اس میں یہ بات پائی جائے، اور ممکن ہے شعر اعلیٰ درجے کا ہو اور اس میں یہ بات نہ پائی جائے۔‘‘ بالکل درست، لیکن یہی بات سادگی، اصلیت اور جوش پر بھی صادق آتی ہے، اور بھی کہ ان میں سے کوئی صفت ایسی نہیں ہے جو صرف شعر سے مختص ہو۔ مثلاً ہر زور ظلم کی ٹکر میں ہڑتال ہمارا نعرہ ہے، کی قسم کے سیاسی نعروں میں سادگی، اصلیت اور جوش سب ہیں، لیکن ان میں شاعری بھی ہے، شاید حالی بھی اسے تسلیم نہ کرتے۔

    شعر کی عملی تنقید کرتے وقت مشرقی تنقید نے جو اصطلاحیں وضع کیں ان میں بڑا عیب یہ رہا کہ وہ نثر اور نظم دونوں پر منطبق ہو سکتی ہیں۔ ابن خلدون کا یہ قول کہ نثر ہو یا نظم، الفاظ ہی سب کچھ ہوتے ہیں، خیال الفاظ کا پابند ہوتا ہے، حالی جس کا مذاق اڑاتے ہیں اور جو آج مغربی تنقید میں ہاتھوں ہاتھ لیا جا رہا ہے، اور جسے ملا رمے اور ڈیگا کے مشہور مکالمے کے برابر اہمیت دی جا رہی ہے (جب ملارمے نے ڈیگا سے کہا تھا کہ میاں شاعری خیالات سے نہیں الفاظ سے ہوتی ہے۔) اگر سامنے رکھا جاتا تو لفظ کے سطحی محاسن (صنائع بدائع) کے بالوں کی اتنی کھالیں نہ نکالی جاتیں۔

    بہرحال معنوی محاسن کے لئے جو اصطلاحی زبان استعمال کی گئی ہے اس کے لیے دو تین مثالیں کافی ہیں۔ امداد امام اثر کاشف الحقائق میں لکھتے ہیں کہ فارسی کی کوئی مثنوی ایسی نہیں ہے جو دل کشی فطرت نگاری میں اسکاٹ کی The Lady Of The Lake کا مقابلہ کر سکے! آگے چل کر وہ ہدایت نامہ غزل گوئی کا عنوان قائم کرکے بیس ہدایتیں رقم کرتے ہیں، ان میں سے چند حسب ذیل ہیں،

     (۱) ادائے مطلب کے لیے غزل گو کی زبان کو سلیس ہونا چاہیے کس واسطے کہ واردات قلبیہ کے بیانات مغلقات سے بے تاثیر ہو جاتے ہیں۔

     (۲) جس قدر ممکن ہو زبان کی سادگی ملحوظ رہے۔ غزل گوئی کو صنائع بدائع کی حاجت نہیں ہوتی۔

     (۳) حتیٰ الامکان تشبیہ استعارہ دخل نہ پائیں۔ یہ چیزیں شاعر کی عجز طبیعت کا پتہ دیتی ہیں۔

     (۸) غزل کے جتنے مضامین ہوں داخلی ہوں۔۔۔

     (۱۲) بندشیں ایسی نہ ہوں کہ مذاق صحیح سے خارج پائی جائیں (مذاق صحیح عبارت ہے تبعیت فطرت سے۔) 

    (۲۰) غزل گو کا فرض منصبی ہے کہ قرب سلطانی سے تاحد امکان کنارہ کش رہے۔۔۔

    اس بات کی وضاحت غالباً غیر ضروری ہے کہ نہ تو یہ شرائط تمام غزل کی شاعری پر منطبق ہو سکتے ہیں، نہ ان کی معروضی تفہیم ممکن ہے اور نہ انھیں شعر سے مختص سمجھا جا سکتا ہے۔ شبلی امداد امام اثر سے زیادہ محتاط تھے۔ شعر العجم جلد پنجم میں کہتے ہیں، ’’سب سے بڑی چیز جو خواجہ حافظ کے کلام میں ہے حسن بیان، خوبی ادا اور لطافت ہے۔ لیکن یہ ذوقی چیز ہے جو کسی قاعدہ اور قانون کی پابند نہیں۔ فصاحت وبلاغت کے تمام اصول اس کے احاطے سے عاجز ہیں۔ ایک ہی مضمون ہے، سو سو طرح سے لوگ کہتے ہیں، وہ بات نہیں پیدا ہوتی۔ ایک شخص اسی خیال کو معلوم نہیں کن لفظوں میں ادا کر دیتا ہے کہ جادو بن جاتا ہے۔۔۔ غزل کی ایک خاص زبان ہے، جس میں نزاکت، لطافت اور لوچ ہوتا ہے، اس قسم کی زبان کے لیے خیالات بھی خاص ہوتے ہیں۔‘‘

    اس تمام تنقیدی محاکمے میں یہ تو محسوس ہوتا ہے کہ سخن فہمی اس شخص میں زیادہ ہے، لیکن جن الفاظ میں وہ اس کا اظہار کر رہا ہے ان سے قدم قدم پر اختلاف ہو سکتا ہے۔ اس نے اختلاف کا دروازہ ہی یہ کہہ کر بند کر دیا ہے کہ یہ ذوقی چیز ہے، کسی قاعدہ قانون کی پابند نہیں۔ لیکن اس تعمیم کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہی حسن بیان، خوبی ادا، لطافت اور جادو نگاری لوگوں نے انیس کے کلام میں بھی ڈھونڈ لی۔ چنانچہ نوبت رائے نظر لکھتے ہیں کہ انیس کے یہاں، ’’مضمون کی تازگی، جدت خیال، الفاظ کی برجستگی، تسلسل بیان اور زور نظم کے ساتھ بیان کی گھلاوٹ ایک ایسا لطف رکھتی ہے جو بیان سے باہر ہے۔‘‘ یہ بات تو نوبت رائے نظر کو بھی معلوم ہوگی کہ حافظ اور انیس میں بعد المشرقین ہے، لیکن اس کو وہ ظاہر کس طرح کریں گے، یہ سمجھ میں نہیں آتا۔

    اس طرح دراصل نقد شعر کے دو مسائل ہیں، ایک تو یہ کہ شاعری کو کیوں کر پہچانا جائے اور دوسرے یہ کہ دو شاعریوں میں تفریق کیوں کر ہو۔ مغربی تنقید پہلے سوال میں بہت زیادہ منہمک رہی ہے۔ لیکن وہاں بھی یہی مسئلہ تھا کہ شاعری ایک خوب صورت چیز ہے، لیکن خوب صورتی کو ناپنے یا گرفت میں لانے کا وسیلہ کیا ہو؟ اس کے جواب میں یا تو وجدانی ٹامک ٹوئیاں ہوتی رہیں یا نفسیاتی جمالیات کا سہارا لیا گیا۔ وجدانیوں نے یہ طے کیا کہ خوب صورتی کو گرفت میں لانے کے لیے ذوق Taste اصل چیز ہے۔ لہٰذا ایڈیسن نے کہا کہ،

    ’’ذوق، روح (لفظ روح توجہ طلب ہے) کی وہ صلاحیت ہے جو کسی مصنف کے محاسن کو لطف کے ساتھ اور معائب کو ناپسندیدگی کے ساتھ پہچانتی ہے۔۔۔ جس قسم کے ذوق کی میں بات کر رہا ہوں اس کے لیے قانون قاعدے بنانا بہت مشکل ہے۔ یہ ضروری ہے کہ یہ صلاحیت کسی نہ کسی حد تک وہبی ہو اور ایسا اکثر ہوا ہے کہ بہت سے لوگ جو دوسرے خواص کے بدرجۂ اتم حامل تھے، ذوق سے قطعاً عاری نکلے ہیں۔‘‘ 

    خیر ایڈیسن کی بساط ہی کیا تھی، برک نے پوری کتاب اسی موضوع پر لکھی ہے کہ خوب صورتی کو کیسے پہچانیں۔ وہ خود کہتا ہے کہ ’’میری اس چھان بین کا مقصد یہ پتہ لگانا ہے کہ کیا ایسے کوئی اصول ہیں جو انسانی تخئیل پر یک ساں طریقے سے اثر انداز ہوتے ہیں، اور اس طرح ذوق کی تدوین کرتے ہیں۔‘‘ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہاں، ہیں۔ لیکن دلیل میں کہتا ہے، ’’جہاں تک کہ ذوق کو تخئیل کا پابند کہا جا سکتا ہے، اس کا اصول تمام لوگوں میں ایک ہی ہے۔۔۔ ان کے متاثر ہونے کے درجات میں فرق ہو سکتا ہے۔ یہ فرق خصوصاً دو و جوہ سے ہوتا ہے، یا تو فطری حسیت کی کثرت سے، یا شے موضوعہ پر زیادہ دیر تک اور کثیر توجہ صرف کرنے سے۔۔۔ کیوں کہ حسیت اور قوت فیصلہ (جن دو خواص پر ہم ذوق کو منحصر سمجھ سکتے ہیں) مختلف لوگوں میں بہت زیادہ فرق کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔‘‘ 

    لہٰذا ثابت ہوا کہ ذوق ایک نا قابل اعتبار چیز ہے، کیوں کہ ہر شخص اپنے اپنے تجربے، حسیت اور قوت فیصلہ سے مجبور ہے۔ کوئی ضروری نہیں کہ میرا ذوق صحیح ہی ہو۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ غلط ہو، لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ غلط نہ ہوگا۔ عقلی دلائل سے قطع نظر، اگر ذوق یا ذوق سلیم اتنا ہی معتمد ہوتا کہ شاعری کو پہچاننے میں ہمیشہ نہ سہی، اکثر صحیح ثابت ہوتا، تو غالب کو ایسے سیکڑوں شعر دیوان سے نہ خارج کرنے پڑتے جو اردو کیا، تمام شاعری کا طرۂ امتیاز ہیں۔ لوگ امیرو داغ و حسرت کی غزلوں پر برسوں سر نہ دھنتے۔ آج یگانہ کی غزل گوئی کا اتنا غلغلہ نہ ہوتا اور پوکے اس دعوے کے باوجود کہ ’’ذوق ہمیں حسن کا علم بخشتا ہے یا حسن کے بارے میں ہمیں مطلع کرتا ہے، اسی طرح، جس طرح عقل ہمیں سچائی کے بارے میں مطلع کرتی ہے۔‘‘ ہم روزانہ ذوق کی غلطیوں کے شکار ہو کر رابرٹ برجز کی طرح ہاپکنز کی بہترین شاعری پر ناک بھوں نہ چڑھاتے۔ اس سلسلے میں کولرج اور ورڈز ورتھ کا احتجاج قابل لحاظ ہے۔ کولرج نے تو یہ کہہ کر بس کیا کہ،

    ’’عظیم اذہان اپنے عہد کا ذوق پیدا کر سکتے اور کرتے ہیں، اور قوموں اور ادوار کے ذوق کو بگاڑنے والی وجوہ میں ایک یہ بھی ہے کہ جینئس کے حامل لوگ کچھ حد تک تو ذوق عام کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں اور کچھ حد تک اس سے متاثر ہو جاتے ہیں۔‘‘ (اس طرح اپنا ذوق بگاڑ لیتے ہیں۔) 

    لیکن ورڈزورتھ نے ۱۸۱۵ء کے دیباچے میں صاف صاف کہہ دیا، ’’ہر مصنف، جس حد تک وہ عظیم اور اوریجنل ہے، کے ذمہ یہ بھی فرض رہا ہے کہ وہ اس ذوق کو پیدا کرے جس کے ذریعہ اس سے لطف اندوز ہونا ممکن ہے۔ ایسا ہی ہوا ہے اور ہوتا رہےگا۔ جینئس ذہن کا کائنات میں ایک نئے عنصر کے وخول کا نام ہے۔‘‘ 

    اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہر نئے اور اہم شاعر کے پیدا ہونے کے ساتھ ہی ہم نیا ذوق بھی حاصل کریں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ ہمیں کون بتائےگا کہ کون سا شاعر نیا اور اہم ہے؟ اگر ذوق کی غلامی صحیح ہے تو یہ دوہری غلامی ہے۔ جب تک ہم ذوق پیدا نہ کریں نئے اور اہم شاعر سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔ لیکن جب تک ہم میں ذوق نہیں ہے، ہم یہ جان ہی نہیں سکتے کہ فلاں شاعر نیا اور اہم ہے اور ہمیں اس کے حسب حال ذوق اپنے اندر پیدا کرنا ہے۔ کولرج نے یہ کہہ کر بات تو تمام کر دی کہ بڑا شاعر، مذاق عام کو بناتا بھی اور خود اس سے بگڑتا بھی ہے۔ لیکن مسئلہ جوں کا توں رہا کہ وہ خوب صورتی جسے ذوق کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے، کیا ہے۔ دیکھیں اس سلسلے میں کولرج کیا کہتا ہے۔

    سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ ہئیت کو حسن سے الگ نہیں کرتا، بلکہ ایک طرح سے ہئیت ہی کو حسن مانتا ہے۔ لیکن مشکل یہ کہ ان تمام صفات کو شعر میں کس طرح منعکس دیکھا جائے، یہ بات نہیں کھلتی۔ پہلے تو ہم یہ جانیں کہ شاعری کیا ہے، پھر دیکھیں اس میں وہ چیزیں ہیں کہ نہیں جو کولرج نے بتائی ہیں۔ صرف ایک بات ایسی ہے جو شاعرانہ حسن کی مجردتعریف میں کہی گئی ہے، یعنی خوش ہیئتی کا زندگی سے امتزاج۔ اس تعریف کی موضوعیت ظاہر ہے۔ دراصل، کولرج جن مسائل پر گفتگو کر رہا ہے وہ ابھی ہماری دست رس سے بہت دور ہیں۔ ہم تو ہنوز روز اول میں ہیں۔ یہ اقتباسات ملاحظہ ہوں۔ میں نے تاریخیں بھی دے دی ہیں تاکہ اس کے فکری ارتقا کا اندازہ ہو سکے،

    ’’حسن کیا ہے؟ تجریدی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ کثیرالجہت کی وحدت ہے۔ مختلف النوع کا ادغام ہے ٹھوس شکل میں، یہ ہیئتی اعتبار سے متناسب کا زندگی Vital سے امتزاج ہے۔‘‘ (باقیات، مطبوعہ ۱۸۳۶/۱۸۳۹)

    ’’ایک زندہ وجود کے لیے ضروری ہے کہ وہ منظم بھی ہو اور تنظیم، اجزا کے اس باہمی توافق کا نام ہے جس میں ہر جز، کل کا حصہ بھی ہے اور کل کی تعمیر بھی کرتا ہے، حتی کہ ہر جزبہ یک وقت مقصد بھی ہوتا ہے اور ذریعہ بھی۔۔۔ جب ہم کسی مقررہ مواد پر کوئی پہلے سے طے شدہ ہیئت مسلط کرتے ہیں تو مشینی ہئیت وجود میں آتی ہے۔۔۔ (اصل) ہئیت وہی ہے جو زندگی ہے۔‘‘ (لکچر، ۱۸۱۸)

    ’’موسیقی کے انبساط کا احساس اور اس احساس کو خلق کرنے کی قوت، یہ تخئیل کا عطیہ ہوتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ، کثرت کو تاثر کی وحدت میں ڈھالنے کی قوت بھی۔‘‘ (تخئیل کا عطیہ ہوتی ہے۔)، (باقیات، مطبوعہ ۱۸۳۶/۱۸۳۹)

    گویا اپنی فکری زندگی کے شباب سے لے کر اس کی تکمیل تک کولرج مختلف النوع کی وحدت میں ادغام، زندہ ہئیت اور تخئیلی قوت کو شعر کی اساس بتاتا رہا۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ شعر کی اعلیٰ عملیات کو سمجھنے اور اس کی گہرائیوں میں اترنے کے لیے کولرج، اور اس کے شاگرد رچرڈس سے بڑھ کر کوئی رہ نما نہیں۔ ان کو ساتھ لے چلیے تو خوف گم راہی نہیں، کیوں کہ ان کا قلم بھی دشت سخن میں عصا کی طرح سہارا دیتا ہے۔ لیکن ان کے ساتھ چلنے کے لیے جس تیاری کی ضرورت ہے وہ ان سے نہیں مل سکتی۔ قدم قدم پر سوال اٹھتا ہے، ہئیتی اعتبار سے متناسب کیا ہے اور کیا نہیں؟ زندگی یا زندہ وجود سے جب اس کا امتزاج ہوتا ہے تو کیا شکل ہوتی ہے؟ اس شکل کے بنیادی خواص کیا ہیں؟ جز کس طرح کل کا حصہ بھی ہو سکتا ہے اور اس کی تعمیر بھی کر سکتا ہے؟ ان سوالوں کا جواب دینے سے خود کولرج کو بھی گریز ہے کیوں کہ آخری اقتباس یوں ختم ہوتا ہے،

    ’’(یہ صلاحیتیں) مشق ومزاولت کے ذریعہ آہستہ آہستہ اگائی جا سکتی ہیں یا ترقی دی جا سکتی ہیں اور انھیں جلا دی جا سکتی ہے، لیکن انھیں سیکھا کبھی نہیں جا سکتا۔‘‘ 

    کولرج نے کانٹ سے بہت کچھ سیکھا تھا اور اس کے مابعد الطبیعیاتی تصورات کو شعر پر منطبق کرنے کی کوشش کی تھی۔ لہٰذا کانٹ سے بھی رجوع کر لیا جائے کہ وہ حسن کی تعریف و تعیین کس طرح کرتا ہے۔ میرے خیال میں کانٹ پہلا اور آخری مغربی فلسفی ہے جس نے حسن کی معروضی تعریف ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی۔ لیکن اس معروضیت تک پہنچنے کے لیے اس نے جو شرائط بیان کیے ہیں وہ کولرج کے اتنے پیچیدہ نہ سہی، لیکن اس سے کم نا ممکن العمل نہیں ہیں۔ وہ سب سے پہلے تو حسن کی ’’بے مقصدیت‘‘ پرزور دیتا ہے، یعنی حسن مقصود بالذات ہے۔ یہاں تک تو خیر غنیمت ہے۔

     لیکن جب وہ یہ کہتا ہے کہ جمالیاتی تجربے کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اس کا تجربہ کرنے والا ’’بے غرض‘‘ ہوتا ہے، یعنی اس کے احساس مسرت میں ثئے مشہودہ کو حاصل کرنے، اس پر قبضہ کرنے، اس کو استعمال کرنے کاجذبہ نہیں ہوتا، تو بڑی مشکل آ پڑتی ہے، کیوں کہ ہم روزانہ اس اصول کا ابطال کرتے اور دیکھتے رہتے ہیں۔ لیکن اس پر بھی بس نہ کر کے وہ یہ کہتا ہے، چوں کہ ہر شخص جمالیاتی تجربے پر قادر ہے (یعنی حسین چیز کو حسین سمجھتا ہے) اور اگرچہ یہ تجربہ اصلاً موضوعی ہے، لیکن چوں کہ اس کی حیثیت آفاقی ہے، اس لیے اس آفاقیت کی بنا پر ہی اس کی موضوعیت، معروضی تجربے کے برابر ہے۔

    یعنی وہ انتہائی دیدہ دلیری سے آفاقی موضوعیت کی اصطلاح تراش کر کے اسے معروضیت کا ہم پلہ قرار دیتا ہے۔ لیکن حسن کا موضوعی تجربہ اگر اتنا ہی معروضی ہوتا تو پھر یہ روز روز کے جھگڑے کیوں ہوتے کہ فلاں شاعر اچھا ہے یا برا ہے؟ نئی شاعری پر اتنا لعن طعن کیوں ہوتا؟ کسی شاعر کو ایک عہد میں مطعون اور دوسرے میں محترم کیوں ٹھہرایا جاتا؟ کانٹ ذاتی پسند ناپسند کی بات بھی کرتا ہے، لیکن پھر بھی کہتا ہے کہ بنیادی طور پر کسی شے (مثلاً بنفشئی رنگ) کے حسن کا احساس کسی موضوعی تحریم Inhibition کا پابند نہیں۔ خود اس کے الفاظ میں سنیے،

    ’’کوئی ایسا توازن، ایسی ہم آہنگی ضرور ہوگی جس میں داخلی تناسب (یعنی موضوعی تجربہ) علم بالادراک Cognition کے مقصد کے لیے ذہنی قوتوں کو جگانے کے واسطے موزوں ترین ہو۔۔۔ (اگر ایسا ہے) تو ایسا توازن اور ہم آہنگی یقیناً سب کے حصے کی شے ہوگی۔۔۔ اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ عقل عمومی Common Sense کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے مضبوط دلائل موجود ہیں۔‘‘ اس سے پہلے وہ یہ بھی کہہ چکا ہے، ’’اگر کوئی شخص کسی چیز کو خوب صورت گردانتا ہے۔۔ تو وہ صرف اپنی طرف سے اور اپنے لیے یہ فیصلہ نہیں کرتا، بلکہ سب کے لیے کرتا ہے، اور تب حسن کی بات یوں کرتا ہے جیسے کہ وہ اس شے کا وصف ذاتی ہو۔ اس لیے وہ کہتا ہے، یہ شے خوبصورت ہے۔‘‘ 

    حسن اشیاء کا وصف ذاتی ہے، یہ تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن اس آفاقی موضوعی اعتباریت Validity کو کس خانے میں رکھا جائے جس کی رو سے ایک شخص سب کے لیے فیصلہ کر دیتا ہے؟ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے کانٹ علم بالادراک کا سہارا لے کر کہتا ہے کہ جس چیز کا ادراک نہ ہو سکے وہ معروضی نہیں ہو سکتی۔ یہ بھی سمجھ میں آتا ہے، لیکن ادراک ہمیشہ یک ساں کب اور کیوں رہتا ہے؟ اس کا کوئی جواب نہیں۔

    کانٹ کو اپنی تعبیروں پر اس قدر اعتماد ہے کہ انھیں نفسیات کی بھی رو سے ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرتا، لیکن در حقیقت اس کے نظریات افلاطون کی خیالی عینیت Ideal Idealism سے کسی درجہ متاثر ہیں، اس کے اظہار کی ضرورت نہیں۔ بہ قول کنتھ برک، بس اس بات کی ضرورت ہے کہ ’’ہم افلاطون کے آفاقی مسلمات کو آسمان سے اتار کر انسانی ذہن میں بٹھا دیں اور اس طرح انھیں مابعد الطبیعیاتی نہ بنا کر نفسیاتی بنا دیں۔ اب عینی ہئیتوں کی جگہ ’’اثر انداز ہونے کی شرائط‘‘ نے لے لی ہے۔ اب آسمان میں کسی عینی الوہی تضاد کی ضرورت نہیں ہے تاکہ جس کے انعکاس کے طور پر میں تضاد کا احساس کر سکوں، اب صرف میری ذہن میں تضاد کا شعور ہونا ضروری ہے۔‘‘ 

    بہت سے پڑھے لکھے لوگ (جن میں محمد حسن عسکری بھی شامل ہیں) کہتے ہیں کہ مغرب میں منطقی اثباتیت کو شکست ہو رہی ہے، اور جو لوگ کہتے تھے کہ منطقی اثباتیت امر ہے، فلسفہ مر چکا ہے، اب ہیگل کی مابعدالطبیعیات کی طرف دنیا کا رجحان دیکھ کر حیران ہو رہے ہیں۔ ممکن ہے یہ بات صحیح ہو، خود کنتھ برک کا مندرجہ بالا بیان، جو افلاطون کے دفاع میں ہے، اس بات کا ثبوت ہے۔ لیکن مابعد الطبیعیات اعلیٰ سطح پر چاہے کتنی ہی کارآمد، معنی خیز اور اسرار کی نقاب کشا ہو، لیکن روز مرہ زندگی کے مسائل حل کرنے میں کسی کام کی نہیں (یہ میں مابعد الطبیعیات کی تحقیر میں نہیں کہہ رہا ہوں، کیوں کہ میں خود بھی اصل الاصول قسم کے حقائق کی مابعدالطبیعیاتی تعبیر کا قائل ہوں، مسئلہ صرف مختلف طرز علم اور اس کی افادیت کا ہے۔) 

    اس سوال کے جواب کے لیے کہ، کیا میں اس وقت شمس الرحمٰن فاروقی کا مضمون پڑھ رہا ہوں؟ اگر آپ مابعد الطبیعیات سے رجوع کریں تو ایک وقت وہ آئےگا جب آپ کو معلوم ہوگا کہ مضمون کجا اور شمس الرحمٰن فاروقی کہاں، خود آپ کا وجود بھی مشتبہ ہے۔ ایسے سوالوں کے جواب تو منطقی اثباتیت یعنی Logical Positivism سے ہی مل سکتے ہیں۔ اس لیے کانٹ کے مفروضات پر اس صدی کے سب سے بڑے منطقی اثبات پر ست برٹر نڈرسل کی راے سنیے،

    ’’ہیوم پرکانٹ کی تفکیر کے پہلے بارہ سال قانون اسباب وعلل پر غور کرنے میں صرف ہوئے۔ پایان کار اس نے ایک قابل لحاظ حل ڈھونڈ نکالا، اس نے کہا یہ ٹھیک ہے کہ واقعی د نیا (Real World) میں اسباب پائے جاتے ہیں۔ لیکن ہم واقعی دنیا کے بارے میں کچھ بھی نہیں جان سکتے۔ ظواہر کی دنیا کہ بس اسی کا تجربہ ہم کر سکتے ہیں، طرح طرح کے خواص کی حامل ہے، جو دراصل ہمارے ہی عطا کردہ (یعنی تصور کردہ) ہیں، ٹھیک اسی طرح، جس طرح وہ شخص جو ایک ہری عینک لگائے ہوئے ہے اور جسے وہ اتار نہیں سکتا، سمجھتا ہے کہ ہر چیز ہری ہے۔ جن مدرکات Phenomenon کا تجربہ ہم کو ہوتا ہے، ان کے اسباب ہوتے ہیں، وہ اسباب کچھ اور مدرکات ہیں۔

     ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہ ہوئی چاہیے کہ مدرکات کے پیچھے جو حقیقت ہے اس میں اسباب وعلل ہوتے ہیں کہ نہیں، کیوں کہ ہم اس کا تجربہ نہیں کر سکتے۔ کانٹ روزانہ ایک مقررہ وقت پر ٹہلنے جایا کرتا تھا۔ اس کے پیچھے پیچھے اس کا نوکر چھتری لیے چلتا تھا۔ وہ بارہ سال جو بڑے میاں نے ’’عقل خالص کی تنقید‘‘ لکھنے میں لگائے، انھیں اس بات کا یقین دلانے میں کام یاب ہو گئے کہ اگر پانی برسا تو بارش کے واقعی قطروں کے بارے میں ہیوم کچھ بھی کہے لیکن اس کی چھتری اسے یہ محسوس کرنے سے بچا لے گی کہ وہ بھیگ رہا ہے۔۔۔ اس طرح کانٹ دل شکستہ نہیں بلکہ مطمئن مرا۔ اس کی توقیر ہمیشہ ہوتی رہی، یہاں تک کہ ناتسی حکومت نے اس کے نظریات کو اپنے سرکاری فلسفے کا عہدہ دے دیا ہے۔‘‘ 

    رسل کی طنزیات سے قطع نظر، یہ بات واضح ہے کہ چھتری کے نیچے کھڑا کانٹ جو یہ محسوس کر رہا ہے کہ وہ بھیگ نہیں رہا ہے، اس فرضی شخص سے مختلف نہیں ہے جو اگر کسی چیز کو حسین کہتا ہے تو گویا سب کے لیے یہ فیصلہ کرتا ہے، کیوں علم بالادراک میں سب کا حصہ ہے۔ وہ علم بالادراک جو کانٹ کو بتاتا ہے کہ وہ بھیگ نہیں رہا ہے۔ میں نے کانٹ کی جمالیات کو ذرا تفصیلی جگہ اس لیے دے دی ہے کہ اس کی بھی تہہ میں ذوق اور وجدان کا وہی پرانا ڈھانچہ دانت نکالے ہنس رہا ہے، مشرق ومغرب کی تنقید جس کے سحر میں گرفتار رہی ہے۔

    میرا مقصد صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ ذوق، چاہے وہ بڑے سے بڑے نقاد کا کیوں نہ ہو، پہچان اور نشانی کا بدل نہیں ہو سکتا۔ اور موضوعی تجربہ معروضی زبان میں نہیں بیان ہو سکتا۔ چنانچہ کانٹ کے جدید ترین شاگردوں، مثلاً مرے کریگر اور ای۔ ڈی۔ 3 ہرش نے تھک ہارکر کہہ دیا ہے کہ ’’کسی ادبی تحریر کی تشریح (بیان) ان موضوعی رویوں سے بالضرورت اضافی تعلق رکھتی ہے جن پر اس کے معنی مشتمل ہیں۔‘‘ یہ جملہ ہرش کا ہے۔ کریگر کا اقبال اور بھی واضح ہے،

    ’’ادبی شے کے وجودی مرتبے، اس کے وجود، عدم وجود، معنی اور قدر کے بارے میں جو بھی فیصلہ ہم نے اس کے اور اپنے ٹکراؤ کے پہلے کیا ہو، لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہم اس کے بارے میں گفتگو صرف اس گرد کی حدوں میں کر سکتے ہیں جو اس ٹکراؤ سے پیدا ہوئی ہے۔ ہم اٹھ کھڑے تو ہوتے ہیں، لیکن ہم ہو بہو وہی نہیں ہوتے جو پہلے تھے، اور قطعیت کے ساتھ یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم کس قوت سے ٹکرائے تھے۔۔۔ کوئی نہ کوئی طریقہ، دوسروں کے بیانات اور تصورات کا تقابل کر کے تو ضرور ہوگا جس کے ذریعہ ہم اس قوت تک پہنچ سکیں۔۔ یہ ایک غیر قطعی اور نا فیصل راستہ ہے، اگر چہ شاید یہی ایک راستہ ہمارے پاس ہے۔‘‘ 

    کریگر کا یہ نظریہ اس حد تک تو بالکل درست ہے کہ شعر کی معنویت ہر شخص کے لیے الگ الگ ہوتی ہے۔ ہر شخص اپنا شعر خود بناتا ہے۔ اسی وجہ سے اچھے شعر میں تشریح و تفہیم کی راہیں نکلتی رہتی ہیں۔ لیکن خدا کے لیے کوئی تو ایسا اصول ہوگا جس کی روشنی میں ہم غالب اور عزیز لکھنوی میں فرق کر سکیں؟ آخر وہ کون سا حسن ہے جو غالب کی تمام شعوری نقل کے باوجود عزیز لکھنوی میں نہیں ہے؟ اگر کوئی صاحب یہ کہیں کہ ہم عزیز لکھنوی کا شعر پڑھ کر خود کو اسی قوت سے دوچار ہوتے ہوئے محسوس کرتے ہیں جس کی طرف کریگر نے اشارہ کیا ہے اور غالب کا شعر ہمیں سرد چھوڑ دیتا ہے تو ہم ان کو کیا جواب دیں گے؟ مسعود حسن رضوی ادیب،

    لٹھے کو کھڑا کیا کھڑا ہے
    ہاتھی کو بڑا کیا بڑا ہے

    کی مثال دے کر کہتے ہیں، ’’موزونیت سے کلام میں اثر پیدا ہونا تو مسلم ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ کسی کلام میں کوئی ایسی بات ہو جو موزونیت کے اثر کو زائل کر دے۔ مثلاً (محولہ بالاشعر) یہ کلام بھی موزوں ہے، مگر اس میں اثر نام کو نہیں۔‘‘ 

    مگر کیوں؟ اس کلام میں کون سی ایسی بات ہے جو موزونیت کے اثر کو زائل کر دیتی ہے؟ اگر کوئی شخص اس شعر سے حد درجہ متاثر ہو اور کہے کہ یہ حمد کا نہایت عمدہ شعر ہے تو اس کو کس طرح سمجھایا جائے کہ آپ غلط کہتے ہیں۔ تو کیا ہم گھوم پھر کر کانٹ کے تیسرے شاگرد ایلیزیووالئو اس تک آ جائیں، جو کہتا ہے کہ جمالیاتی تجربہ ایک خود کفیل تجربہ ہے اور اس خصوصیت کو وہ اس کی ’’لازمیت‘‘ Intransitiveness سے تعبیر کرتا ہے؟ یہ لازمیت، یعنی حسن کا آزاد وجود کیا ہے؟

    ’’کچھ اشیاء کا کردار اصلی ہوتا ہے، اور ان میں موجود ہوتا ہے، لیکن صرف انھیں لوگوں کے لیے جن میں مناسب مشق وصلاحیت ہے کہ صرف اسی کے ذریعہ سے اس کو دیکھاجا سکتا ہے۔‘‘ چلیے صاحب ہم سب اندھے ہیں۔

    اس نظریے کو رد کرتے ہوئے کہ ہر وہ چیز جو مسرت بخشی ہے، خوب صورت ہے، رچرڈس وغیرہ نے لکھا تھا کہ اس کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ یہ ایک بہت ہی محدود تنقیدی زبان کا متحمل ہو سکتا ہے۔ کانٹ کا انکار کرتے ہوئے رچرڈس نے یہ لکھا کہ اس کا نظریہ ذوق کا تعین کرنے کے لیے ایک بے غرض (یعنی جذبے سے عاری) اور غیردانش ورانہ قسم کے ذوق کا استحکام کرتا ہے، جسے اس لطف سے کوئی علاقہ نہیں جو حواس خمسہ یا جذبات سے متعلق ہے۔

     لیکن خود رچرڈس کا نظریۂ استحالہ Synesthesis عقلی ذوق پر زیادہ مبنی ہے، معروضی فکر پر کم۔ مثلاً وہ اس قوت یا شے کو حسن گردانتا ہے جو استحالاتی متوازنیت Synesthetic Equilibrium کو راہ دے۔ اگر چہ یہ اصطلاح خود بھی بہت غیر قطعی ہے، لیکن سوال جوں کا توں رہتا ہے کہ اگر ہاتھی کو بڑا کیا بڑا ہے، پڑھ کر مجھے اس قسم کی متوازنیت نصیب ہو جائے جس میں تمام جذبات و محسوسات اور لطف اندوزی کی تمام قوتیں اپنے اپنے مناسب اجزاء اور صحیح مقدار میں مل کر استحالہ پیدا کر لیں تو کیا ہم اس شعر کو خوب صورت مان لیں گے؟

    اور اگرر چرڈس کی اصطلاح سازی کو کالنگ وڈ کے سیاق وسباق میں رکھ کر پڑھا جائے تو شعر کا آزاد وجود اور مستحکم ہو جاتا ہے، لیکن بات آگے بڑھتی نہیں۔ یا یوں کہیں کہ ان لوگوں کی بات اتنی آگے بڑھی ہوئی ہے کہ شروع کی منزلیں سب گرد تفکر سے دھندلی یا معدوم ہو چکی ہیں۔ ہمارے استاد پروفیسر ایس۔ سی۔ دیب نے ایک بار ہمارے ایک ساتھی کو پونا الس فرمر کی کتاب (سترہویں صدی کا ڈراما) پڑھتے ہوئے دیکھ کر سخت سرزنش کی تھی اور کہا تھا کہ میاں ابھی الف بے پڑھنا سیکھو، تب بعد میں مربوط عبارت پڑھنا۔

     میری مشکل یہ ہے کہ میں تنقید کی الف بے لکھنا چاہتا ہوں، اور میرے راہ بر مربوط تو کیا مغلق زبان سے کم میں بات نہیں کرتے۔ شعری تنقید میں دراصل سب سے بڑی دشواری یہ رہی ہے کہ بہت سے مسائل جو پہلے سے طے شدہ ہیں، وہ اس قدر طے شدہ ہو چکے ہیں کہ کوئی ان کے بارے میں لکھنا پسند نہیں کرتا۔ سبھی یہ سوچ کر چپ ہیں کہ ان باتوں کو کہنا کیا ضرور ہے۔

    نئی شاعری کے حامیوں سے بار بار کہا جاتا ہے کہ آپ بتاتے کیوں نہیں اس شاعری سے آپ کیا سمجھتے ہیں۔ ہمارا جواب یہ ہونا چاہیے کہ ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ ہم شاعری سے کیا مراد لیتے ہیں، آپ اس کی روشنی میں نئی شاعری کے نقوش ٹٹول لیجیے۔ لیکن رفت گیا اور بود تھا کا سبق، کیا مشرق، کیا مغرب، سب بھول چکے ہیں۔ اسی لیے جمع وخرچ زباں ہائے لال کی فردیں ہر طرف کھلی ہوئی ہیں۔ ایمان کی بات یہ ہے کہ شعر کے داخل و باطن کو پہچاننے کے لیے مشرق ومغرب میں دو بنیادی اور اصلی باتیں کہہ دی گئی ہیں۔ مشرق میں تو ابن خلدون، جس نے یہ کہا کہ اشعار الفاظ کا مجموعہ ہوتے ہیں اور خیالات، الفاط کے پابند ہوتے ہیں، 4 دوسرے جدید نقاد جنھوں نے کولرج اور رچرڈس کے زیر اثر یہ کہا کہ شعر، ادراک کا ایک مخصوص اور مختلف طریقہ ہے اور الگ ہی طرح کا علم عطا کرتا ہے۔

     حالاں کہ یہ بات بھی جدید نقادوں کی اپنی نہیں ہے، کولرج کے علاوہ شیلی نے بھی شعر کے ذریعہ حاصل ہونے والے علم کو اور طرح کے علم سے مختلف ٹھہرایا ہے۔ کولرج کا نظریہ تو مشہور عام ہے، جہاں وہ سائنس کا مقصد اطلاع بہم پہنچانا اور شعر کا مقصد مسرت بہم پہنچانا بتاتا ہے۔ لیکن شیلی پر، جس کا مضمون A Defence Of Poetry شعر کے بارے میں کہیں کہیں الہامی حد تک باریک بینی سے مملو ہے، زیادہ لوگوں کی نظر نہیں گئی ہے۔ وہ کہتا ہے، ’’شاعرانہ صلاحیت کے دو تفاعل ہیں۔ ایک کے ذریعہ یہ علم، قوت اور لطف کے نئے نئے مواد پیدا کرتی ہے، اور دوسری کے ذریعہ یہ ذہن میں خواہش پیدا کرتی ہیں کہ اس نئے مواد کو ایک مخصوص آہنگ اور ترتیب سے خلق کیا جائے اور منظم کیا جائے، جسے حسن The Beautiful، خوبی The Good کہا جا سکتا ہے۔‘‘ 

    لہٰذا اگر ہم یہ طے کر لیں کہ شعر میں استعمال ہونے والے الفاظ کس مخصوص عمل یا ترتیب کے زیر اثر ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ خوب صورت ہو جاتے ہیں اور وہ کون سا علم ہے جو شعر سے حاصل ہوتا ہے، اور وہ علم کس طرح حاصل ہوتا ہے تو ہم شعر کی ایسی عمومی پہچان مرتب کر سکیں گے جو بہت باریک نہ سہی، لیکن تفہیم وافہام کے لیے کافی ہوگی۔ اس پہچان کو وضع کرنے کے لیے چار میں سے ایک طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔

    (۱) یا تو ہم کوئی چند نشانیاں گڑھ لیں یا فرض کر لیں اور پھر یہ ثابت کریں کہ جس منظومے میں یہ پائی جائیں وہ شاعری ہوگا۔ ثبوت ہم اس طرح دیں کہ جن اشعار کو عام طور پر اچھا سمجھا جاتا ہے، ہم ان میں یہ خوبیاں یا خواص موجود دکھائیں، اور اگر ان میں یہ خواص نہ ہوں تو انھیں شاعری سے عاری قرار دیں،

    (۲) جن اشعار کو عام طور پر اچھا سمجھا جاتا ہے ان کو پڑھ کر ہم ان میں چند مشترک خواص تلاش کریں اور دکھائیں کہ یہ خواص تمام شاعری میں پائے جائیں گے۔

    (۳) ہم چند شعروں کو اپنی مرضی سے اچھا قرار دیں، پھر ان کے مشترک خواص کی نشان دہی کریں، پھر کہیں کہ تجربہ کر کے دیکھ لیجیے، یہ خواص سب اچھے شعروں میں ہوں گے، اور جن میں نہ ہوں گے وہ شعر آپ کی نظروں میں بھی برے ہوں گے،

    (۴) ہم آپ سے کہیں کہ اپنے پسند کے اچھے شعر سنائیے، پھر آپ کے پسندیدہ شعروں میں سے جن کو ہم شاعری کا حامل سمجھیں ان کی تفصیل بیان کریں اور کہیں کہ باقی شعر خراب ہیں۔

    ظاہر ہے کہ چوتھا طریقہ نہ ممکن العمل ہے نہ مستحن۔ تیسرا طریقہ سب سے بہتر ہے کیوں کہ سب سے زیادہ منطقی ہے۔ پہلا طریقہ استعمال کرنے میں کوئی ہرج نہیں، دوسرا یقیناً تیسرے کے ساتھ ساتھ آزادی سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اب ایک شرط بھی ہے۔ وہ یہ کہ ہم جو بھی نشانیاں بتائیں وہ ایسی ہوں کہ ایسے اشعار کی زیادہ سے زیادہ تعداد میں تلاش کی جا سکیں جنھیں عام طور پر اچھا سمجھا جاتا رہا ہے یا جن کے بارے میں ہم یہ توقع کر سکتے ہیں کہ انھیں اچھا کہا جائےگا۔ یعنی یہ بات مناسب نہیں ہے کہ ہم اپنی بیان کردہ نشانیاں سو پچاس، ہزار دو ہزار اشعار پر منطبق کر کے دکھا دیں اور بقیہ شعروں کو، جو ان کے دائرے میں نہ آسکیں، خراب کہہ کر برادری سے باہر کر دیں۔

     ہماری کوشش اس صورت میں کامیاب سمجھی جا سکتی ہے جب ہم متفق علیہ اچھے شعروں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو اپنے دائرے میں لے سکیں تاکہ تھوڑے بہت جو بچ رہیں، انھیں استثنائی درجہ دیا جا سکے۔ دوسرے الفاظ میں، ہمارا طریق کار لال بجھکڑوں کا نہ ہو جنھوں نے سائل سے کہا کہ آسمان میں اتنے ہی تارے ہیں جتنے تمھارے سر میں بال ہیں، اور جب ان سے ثبوت مانگا گیا تو انھوں نے کہا کہ گن کر دیکھ لو۔

    چوں کہ شرط متفق علیہ اچھے اشعار کی ہے، اس لیے ہمیں اپنے مطالعے کو زیادہ تر انھیں شعرا کے کلام کا پابند رکھنا ہوگا، جیسے غالب، درد، میر، سودا، انیس، اقبال، فیض، راشد، میرا جی جن کے بارے میں عمومی اتفاق ہے کہ یہ اچھے شاعر تھے، اس لیے ان کے کلام میں شاعری زیادہ ہوگی اور ان شعرا کے بھی انھیں اشعار سے ہمارا واسطہ زیادہ ہوگا جن کی عمدگی کے بارے میں اختلاف رائے یا تو نہیں یا بہت کم ہے۔ ایک شرط میں پہلے ہی لگا چکا ہوں، کہ تلاش ان نشانیوں کی نہ ہوگی جو نثر اور شعر میں مشترک ہیں، بلکہ ان کی جو شعر سے مختص ہیں، اور اگر نثر میں پائی جائیں تو نثر کو خراب کر دیں یا اجنبی اور غیر متناسب معلوم ہوں، یا اگر نثر میں موجود ہی ہوں تو خال خال ہوں۔

    اب ایک شرط آپ پر بھی ہے، آپ میری تلاش کردہ نشانیوں کو جھوٹی یا غیر معروضی یا ناقابل عمل قرار دے سکتے ہیں۔ لیکن میں جواب میں آپ سے کہنے کا مجاز ہوں گا کہ اچھا آپ ہی اپنی نشانیاں بیان کیجیے جو معروضی ہوں اور متذکرہ بالا دوشرطوں پر پوری اترتی ہوں۔ ہاں، اس کے جواب میں آپ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ایسی پہچان ممکن نہیں ہے، ہم اپنی عاجزی کا اقرار کرتے ہیں، تم سرکش ہو، اس لیے نہیں کرتے۔ اس خطرے کو قبول کرتے ہوئے میں آپ کی خدمت میں والیری کا یہ قول پیش کرتا ہوں، ’’ہر وہ بات جس کا کہا جانا اشد ضروری ہو، شاعری میں نہیں کہی جا سکتی۔ 5 والیری نے تو یہ بات شعر کی بےمقصدیت کے سیاق و سباق میں کہی تھی۔ لیکن اس سے ایک اور نکتہ بھی برآمد ہوتا ہے کہ شعر ان تمام تفصیلات کو چھانٹ دیتا ہے جن کے بغیر نثر کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔

    تفصیل کا اخراج شعر کا بنیادی عمل ہے، میں اسے اجمال کا نام دیتا ہوں۔ اجمال سے میری مراد وہ اختصار یا ایجاز نہیں ہے جس کے بارے میں شیکسپیئر نے اور دوسروں نے کہا ہے کہ حسن کلام کی جان ہے۔ ایسا ایجاز تو نثر میں بھی ہو سکتا ہے بلکہ ہونا چاہیے۔ اجمال سے میں وہ بلاغت بھی نہیں مراد لیتا کہ آدھی بات کہی جائے اور پوری سمجھ میں آ جائے۔ نہ اس سے میرا مطلب یہ ہے کہ اچھے شعر میں حشو قبیح قسم کے الفاظ نہیں ہوتے۔ دراصل حشو قبیح اور حشو ملیح کی پوری بحث ہی مہمل ہے۔

     علمائے بلاغت نے اس میں بڑی موشگافیاں کی ہیں لیکن یہ نکتہ نظر انداز کر گئے ہیں کہ اگر کوئی لفظ یا فقرہ شعر میں ایک سے زیادہ بار لایا گیا ہے، یا ہم معنی الفاظ یا فقرے شعر میں ایک سے زیادہ بار لائے گئے ہیں، لیکن معنی میں اضافہ کر رہے ہیں یا اضافہ نہ بھی کر رہے ہوں، لیکن کسی اور قسم کی معنویت کے حامل ہوں تو حشو کہاں رہ گئے؟ حشو کی شرط تو یہ ہے کہ بات پوری ہو جائے لیکن کچھ الفاظ بچ رہیں جن کا کوئی مصرف نہ ہو۔ لہٰذا حشو ملیح کی اصطلاح اجتماع ضدین کا نمونہ ہے اور حشو متوسط (یعنی ایسا حشو جو نہ معنی میں اضافہ کرے نہ برا معلوم ہو) تو بالکل ہی مہمل تصور ہے۔ میر کے اس شعر میں اساتذہ کی رو سے حشو ملیح ہے،

    اے آہوان کعبہ نہ اینڈ وحرم کے گرد
    کھاؤ کسی کا تیر کسی کے شکار ہو

    کیوں کہ کھاؤ کسی کا تیر اور کسی کے شکار ہو، ہم معنی ہیں لیکن چوں کہ اس تکرار سے کلام میں لطف پیدا ہو رہا ہے لہٰذا خوب ہے۔ حالاں کہ ہم معنی ہونے کے باوجود دونوں فقروں کے انسلاکات مختلف ہیں۔ تیر کھانا زخمی ہونے کے طبیعی اور جسمانی عمل کی طرف اشارہ کرتا ہے اور شکار ہونا گرفتار ہونے یا بے بس ہو جانے یا محکوم ہونے کا تاثر بھی رکھتا ہے۔ ’’حالات کا شکار ہوتے ہیں‘‘ کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ’’بے وقوف لوگ عقل مندوں کا تیر کھاتے ہیں۔‘‘ اس طرح دو بہ ظاہر ہم معنی فقرے الگ الگ عمل کر رہے ہیں، ان کو حشو کہا ہی نہیں جا سکتا، نہ قبیح نہ ملیح نہ متوسط۔ کلام میں یا تو حشو ہوگا یا نہ ہوگا۔

    میں نے حشو پر اتنی توجہ اس لیے صرف کی ہے کہ یہ بات بالکل واضح ہو جائے کہ اجمال سے میرا مطلب شعر کی وہ خوبی نہیں ہے جو ایجاز یا اخراج حشو سے پیدا ہوتی ہے اور نہ وہ خوبی ہے جسے تقلیل الفاظ کہا جا سکتا ہے، یعنی جس تاثر یا صورت حال کو ظاہر کرنے کے لیے کثرت الفاظ یا تکرار الفاظ کی ضرورت ہو، اس کو بھی کم الفاظ میں ظاہر کیا جائے۔ کیوں کہ جس طرح ’’حشو ملیح‘‘ تحریر کی خوبی ہے اسی طرح کثرت الفاظ یا تکرار الفاظ یا تقلیل الفاظ بھی تحریر کی خوبیاں ہیں اور مختلف تحریروں میں ان کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہر شاعری میں ایجاز، یا کثرت الفاظ یا تقلیل الفاظ ہوتی ہے۔ ہزاروں اچھے شعر ہیں جن میں یہ خوبیاں بالکل نہیں ہیں۔ ’’اجمال‘‘ کہہ کر میں شعر کے اس مشینی عمل کو ظاہر کرنا چاہتا ہوں جس کی پیدا کردہ خودکار مجبوری کے تحت وہ الفاظ شعر سے چھٹ جاتے ہیں جن کے بغیر نثر مکمل نہیں ہو سکتی۔ میر کا وہی شعر پھر دیکھیے،

    اے آہوان کعبہ نہ اینڈو حرم کے گرد
    کھاؤ کسی کا تیر کسی کے شکار ہو

    یہ شعر مثال کے طور پر اس لیے بھی مناسب ہے کہ اس کی ترتیب الفاظ تقریباً نثر کی سی ہے۔ اب میں اس کی باقاعدہ نثر کرتا ہوں، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ کوئی لفظ کم یا زیادہ نہ کروں گا۔ اے آہوان کعبہ حرم کے گرد نہ اینڈو۔ کسی کا تیر کھاؤ کسی کے شکار ہو۔ یہ عبارت جو شعر میں بالکل مکمل تھی، نثر میں آتے ہی نا مکمل ہو گئی ہے۔ اگر اس طرح کا اکا دکا جملہ کسی کی نثر میں آپ کو مل جائے تو آپ شاید در گذر کر جائیں، لیکن اگر ساری عبارت ایسی ہی ہوگی تو آپ مصنف کو زمرۂ مصنفین سے خارج کر دینے میں ذرا بھی تامل نہ کریں گے۔ اس نثر کو یوں لکھا جائے تو بات پوری ہوتی ہے۔ اے آہوان کعبہ حرم کے گرد نہ اینڈو۔ (بلکہ) کسی کا تیر کھاؤ (یا) کسی کے شکار ہو۔

    اب دونوں جملے مربوط معلوم ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی دوسرا جملہ کچھ اور الفاظ کا متقاضی ہے۔ مندرجہ بالا جملہ اگر آپ کو کہیں نظر پڑے تو آپ یہ توقع کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اب آہوان کعبہ سے کچھ یہ بھی کہا جائےگا کہ جب تم تیر کھا چکو گے یا شکار ہو لو گے تب تم پر کوئی حقیقت آشکار ہوگی۔ مثلاً عبارت پوری کرنے کے لیے ہم کچھ اس طرح کے فقروں کے متوقع ہوں گے۔

     (۱) بلکہ کسی کا تیر کھاؤ یا کسی کے شکار ہو تب تم کو معلوم ہوگا کہ عشق کیا چیز ہے۔

     (۲) بلکہ کسی کا تیر کھاؤ یا کسی کے شکار ہو تب تم واقعی کسی قابل بن سکوگے۔

     (۳) بلکہ کسی کا تیر کھاؤ یا کسی کے شکار ہو تب تمہیں خبر لگے گی کہ زندگی کیا ہے۔

    وغیرہ۔ آپ نے غور کیا کہ ہم جب اس شعر کا مطلب نثر میں بیان کرنے بیٹھیں گے تو ہمیں کوئی ایسی بات کہنی ہوگی جس سے تیر کھانے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر روشنی پڑ سکے۔ اچھا فرض کیجیے اس کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم نثری جملہ مکمل کرنے کے لیے مابعد کی صورت حال بھی واضح کریں۔ لیکن نثر میں یہ جملہ نظر پڑتے ہی سیاق وسباق میں ہم یہ ڈھونڈنا شروع کر دیں گے کہ یہ بات کس نے کہی۔ مثلاً نثر کی عبارت یوں ہوگی، فلاں نے فلاں سے کہا کہ اے آہوان کعبہ حرم کے گرد نہ اینڈو، بلکہ کسی کا تیر کھاؤ یا کسی کے شکار ہو۔

    اس کے باوجود یہ بات بدیہی ہے کہ شعر کو ان چیزوں کی ضرورت نہیں، اور نہ ہمیں کوئی تکلیف ہی ہوتی ہے کہ یہ باتیں کیوں نہیں کہی گئیں۔ اگر ہم یہ کہیں کہ شعر میں ہم متکلم اور مخاطب کا وجود فرض کر لیتے ہیں، یہ اس کا ایک Convention ہے، تو میری بات اور بھی مسلم ہو جاتی ہے کہ نثر میں اس قسم کا Convention نہیں ہوتا، اس لیے ہم نثر میں ان تمام الفاظ کے متوقع رہتے ہیں جن کی کمی ہمیں شعر میں نہیں کھٹکتی۔ میر کا ایک اور شعر دیکھیے، جس کے بارے میں حالی کی روایت کے مطابق صدرالدین خاں آزردہ نے کہا تھا کہ قل ہو اللہ کا جواب لکھ رہا ہوں۔

    اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے
    دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں

    اس بات سے قطع نظر کہ ہم جب اس شعر کو منثور شکل میں دیکھیں گے تو متکلم کا سوال بھی اٹھائیں گے، شاید یہ بھی پوچھ دیں کہ پچھلی بار جنوں میں کیا صورت حال رہی تھی اور اس بات سے بھی قطع نظر کہ پہلے مصرعے کی نشست الفاظ نے شعر میں خاصا ابہام پیدا کر دیا ہے، اس کی بے کم وکاست نثر یوں ہوگی، شاید اب کے جنوں میں دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں کچھ فاصلہ نہ رہے۔ مجبوراً ہمیں اس میں اضافہ کر کے یوں لکھنا ہوگا، شاید اب کے (فصل) جنوں میں دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں کچھ فاصلہ (بھی) نہ رہے۔ یا کچھ فاصلہ (بھی) نہ رہے۔ شعر تو پورا ہو جاتا ہے لیکن نثر ان دو الفاظ کے بغیر ادھوری رہتی ہے۔ ایک شعر اقبال کا دیکھیے،

    ٹوٹ کر خورشید کی کشتی ہوئی غرقاب نیل
    ایک ٹکڑا تیرتا پھرتا ہے روئے آب نیل

    اس شعر کی سالمیت میں کیا کلام ہو سکتا ہے، لیکن نثر یوں ہوگی، خورشید کی کشتی ٹوٹ کر غرقاب نیل ہوئی (لیکن، پھر بھی، صرف) ایک ٹکڑا (اب تک) روئے آب نیل پر تیرتا پھرتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ متفرق اشعار یا غزل کے اشعار میں تو یہ کیفیت لازمی ہے، کیوں کہ ہر شعر الگ الگ ہوتا ہے، اور بہت سی باتیں فرض کرنی پڑتی ہیں، تو میں یہ کہوں گا کہ یہ خصوصیت مربوط اشعار یا نظم کے مصرعوں میں اور زیادہ پائی جاتی ہے۔ مثنوی سحر البیان کے یہ مشہور ترین اشعار ملاحظہ ہوں۔ چاندنی کا بیان ہے، جس کے بارے میں تب سے اب تک کوئی اختلاف رائے نہیں ہوا ہے کہ چاندنی کی اس سے بہتر منظر کشی شعر میں مشکل سے ہوئی ہوگی۔ یہاں تو یہ عالم ہے زبان کے ساتھ جبر کیے بغیر ان شعروں کی نثر نہیں ہو سکتی۔

    وہ سنسان جنگل وہ نور قمر
    وہ براق سا ہر طرف دشت و در

    وہ اجلا سا میداں چمکتی سی ریت
    اگا نور سے چاند تاروں کا کھیت

    درختوں کے پتے چمکتے ہوئے
    خس و خار سارے جھمکتے ہوئے

    درختوں کے سائے سے مہ کا ظہور
    گرے جیسے چھلنی سے چھن چھن کے نور

    دیا یہ کہ جوگن کا منھ دیکھ کر
    ہوا نور سائے کا ٹکڑے جگر

    یہاں سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ شروع کے تین مصرعے لفظ ’’وہ‘‘ سے شروع ہوتے ہیں، کوئی فعل نہیں ہے، ’’وہ‘‘ کے ایسے استعمال کے بعد کچھ نہیں تو کاف بیانیہ ہی لگا کر کچھ اور بات کہی جاتی، میر حسن نے وہ ساری باتیں ہم پر چھوڑ دی ہیں۔ بہر حال نثر یوں ہوگی، وہ سنسان جنگل میں نور قمر، وہ براق سادشت ودر، وہ اجلا سا میداں، (وہ) چمکتی سی ریت، (کہ بس نہ پوچھیے، یا اس قدر پر اثر تھے کہ بس، وغیرہ) چاند تاروں سے نور کا کھیت اگا (ہوا تھا۔) درختوں کے پتے چمکتے ہوئے (تھے، یعنی چمک رہے تھے۔) سارے خس و خار جھمکتے ہوئے (تھے، یعنی جھمک رہے تھے۔) درختوں کے سائے سے مہ کا ظہور (اس طرح تھا) جیسے چھلنی سے چھن چھن کر نور گرے (یعنی گر رہا ہو۔) و (اور) یا یہ کہ جوگن کا منھ دیکھ کر نور (اور) سائے کا جگر ٹکڑے ہوا (تھا یا ہو۔) اگر یہ کہا جائے کہ میں نے اوپر کا شعر چھوڑ دیا ہے جو ’’وہ‘‘ کا جواز پیدا کرتا ہے، تو وہ شعر بھی حاضر ہے،

    بندھا اس جگہ اس طرح کا سماں
    صبا بھی لگی رقص کرنے وہاں

    نثر یہ ہوگی، اس جگہ (کچھ) اس طرح کا سماں بندھا (کہ) صبا بھی وہاں رقص کرنے لگی۔ (اور، وہ سماں کچھ اس طرح کا تھا۔) اب اوپر کے پانچ شعروں کی نثر پڑھیے، لیکن اس میں سے ’’چمکتی سی ریت‘‘ کے بعد قوسین میں لکھے ہوئے فقرے حذف کر دیجیے۔ پھر سوال یہ ہوگا کہ پھر بار بار ’’وہ‘‘ کی تکرار کیوں؟ تب تو مصرعے یوں ہونا تھے،

    تھا سنسان جنگل تھا نور قمر
    تھا براق سا ہر طرف دشت ودر

    وغیرہ۔ ’’وہ‘‘ کے معنی ہی یہ ہیں کہ اس کے بعد استعجابیہ یا بیانیہ بیان متوقع ہے۔ نثر کرتے وقت آپ کو ایجاد بندہ سے کام لینا پڑےگا۔ اب فیض کے یہ چار مصرعے لیجیے،

    رات باقی تھی ابھی جب سربالیں آکر
    چاند نے مجھ سے کہا جاگ سحر آئی ہے

    جاگ اس شب جو مئے خواب ترا حصہ تھی
    جام کے لب سے تہ جام اتر آئی ہے

    یہاں بھی میں نے جان بوجھ کر ایسے مصرعے لیے ہیں جن میں ترتیب الفاظ نثر سے بہت قریب ہے، پھر بھی باقاعدہ نثر یوں ہوگی، رات ابھی باقی جب (میرے) سربالیں آکر مجھ سے چاند نے کہا (کہ) جاگ سحر آئی ہے۔ جاگ، اس شب جو مئے خواب ترا حصہ تھی (دو) جام کے لب سے اتر (کر) دو جام (تک) آئی ہے (آگئی ہے)

    آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس عبارت میں لفظ ’’میرے‘‘ کا اضافہ فضول ہے۔ میرا جواب یہ ہے کہ شعر کو نظر انداز کر کے اس طرح کی نثر لکھنے کی کوشش کیجیے، دیکھیے لفظ ’’میرے‘‘ خود بہ خود قلم پر آتا ہے یا نہیں۔ ’’جاگ‘‘ کے پہلے ’’کہ‘‘ کا اضافہ فضول کہا جا سکتا ہے، لیکن اس صورت میں آپ کو عبارت پر واوین لگانے پڑیں گے، مصرعوں میں واوین کی ضرورت نہیں ہے۔ نثر میں آپ کبھی کبھی علامات اوقاف سے لفظ کا کام لیتے ہیں تو کبھی کبھی لفظ سے بھی اوقاف کا کام لیتے ہیں۔ آخری مصرعے کی نثر کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ جام کے لب سے تہ جام اتر آئی ہے خود ہی نثر ہے، اس میں ’’اتر‘‘ کے بعد ’’کر‘‘ لگا کر زبردستی مصرع بگاڑا گیا ہے۔

     حالانکہ بات سامنے کی ہے ’’تہ جام‘‘ اگر بہ معنی ’’جام کے نیچے‘‘ ہے (جو ظاہر ہے کہ نہیں ہے، جیسے تہ دام، تہ بام وغیرہ) بلکہ ’’جام کے آخر حصے‘‘ کے معنی میں ہے (جو ظاہر ہے کہ ہے) تو پھر ’’تہ جام‘‘ کے بعد ’’تک‘‘ لگانا ضروری ہے اور اگر ’’تک‘‘ لگانا ہے تو مجبوراً ’’اتر‘‘ کے بعد ’’کر‘‘ لگانا ضروری ہے۔ اگر نثر یوں کی جائے، جام کے لب سے تہ جام تک اتر آئی ہے تو معنی نکلتے ہیں کہ لب سے لے کر تہ تک سرایت کر گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی غلط ہوگا، لہٰذا مندرجہ نثر ہی درست ہے۔

    ان مثالوں سے یہ بات کھل گئی ہوگی کہ شعر کا اجمال دراصل ان الفاظ کا اخراج ہے جن کے بغیر نثر کا تصور ناممکن ہے۔ یہ کلیہ اسی قدر مسلم اور اجمال کی کیفیت تقریباً اتنی ہی آفاقی ہے جتنی شعر میں وزن کے وجود کی ہے۔ میں نے تقریباً کا لفظ اس لیے لگایا ہے کہ میں وزن کو ہر قسم کے شعر کے لیے ضروری سمجھتا ہوں، چاہے اس میں شاعری ہو یا نہ ہو، لیکن شاعری کی پہلی پہچان یہ ہے کہ اس میں اجمال ہوتا ہے۔ ایسے شعر جن میں شاعری نہ ہوگی، یا کم ہوگی، بہت ممکن ہے کہ اجمال سے بھی عاری ہوں۔ بہرحال، شاعری کے حامل، یعنی اچھے شعروں میں اجمال ضرور ہوگا۔

    اب یہیں ٹھہر کر نثری نظموں اور تخلیقی نثر کی بات بھی کر لی جائے۔ کچھ ایسی نثریں ہیں جو یقیناً شاعری ہیں مثلاً ٹیگور کی انگریزی گیتانجلی، انجیل کے بہت سے حصے، جدید شعرا کی کچھ نظمیں، وغیرہ۔ ان کو تخلیقی نثر میں کیوں نہ رکھا جائے، یا تخلیقی نثر کو شاعری میں کیوں نہ رکھا جائے۔ میرے اس خیال پر کہ نثر میں تشبیہ، استعارہ، پیکر وغیرہ کم سے کم استعمال ہونا چاہئے۔ اور شعریت سے بوجھل نثر، خراب نثر ہوتی ہے۔ محمود ہاشمی نے ایک بہت اچھا سوال اٹھایا تھا کہ ایسے نثر پاروں کو شعر کیوں نہ کہا جائے؟

    نثری نظموں کا معاملہ تو آسان ہے۔ اول تو یہ اتنی کم تعداد میں ہیں کہ ان کو استثنائی کہا جا سکتا ہے لیکن اس جواب پر قناعت نہ کر کے میں یہ کہوں گا کہ نثری نظم اور نثر میں بنیادی فرق اجمال کی موجودگی ہے۔ نثری نظم اجمال کا اسی طرح استعمال کرتی ہیں جس طرح شاعری کرتی ہے، اس طرح اس میں شاعری کی پہلی پہچان موجود ہوتی ہے۔ شاعری کی جن نشانیوں کا ذکر میں بعد میں کروں گا، یعنی ابہام، الفاظ کا جدلیاتی استعمال، نثری نظم ان سے بھی عاری نہیں ہوتی۔ لیکن آخری بات یہ ہے کہ میں نے شروع میں ناموزونیت کو نثر کی شرط ٹھہرایا تھا اور موزونیت کی مثال رباعی کے حوالے سے دی تھی کہ اگرچہ رباعی کے چاروں مصرعے مختلف الوزن ہو سکتے ہیں لیکن ان میں ایک ہم آہنگی ہوتی ہے جو التزام کا بدل ہوتی ہے۔

    بعینہٖ یہی بات نثری نظم میں پائی جاتی ہے، فرق یہ ہے کہ باقاعدہ لیکن مختلف وزن رکھنے والی رباعی میں دہرائے جانے کے قابل رکن ایک مصرع ہوتا ہے جس کی دوگن تگن چوگن مختلف لیکن ہم آہنگ اوزان میں کی جاتی ہے، یہ تو نثری نظم کا پیراگراف دہرائے جانے والے رکن (یعنی آہنگ کی اکائی) کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے بھی آہنگ کے دوگن، تگن، چوگن وغیرہ ہو سکتی ہے، یعنی نثری نظم کے ایک پیراگراف میں جو آہنگ ہوتا ہے وہ دوسرے پیراگراف میں بھی دہرایا جا سکتا بلکہ دہرایا جاتا ہے اگر نظم میں دوسرا پیراگراف بھی ہو۔

     نثر پارے میں یہ بات ناممکن ہے کہ جو آہنگ ایک پیراگراف میں ہو اسے ہو بہو دوسرے میں بھی دہرا لیا جائے۔ مثال کے طور پر میں احمد ہمیش کی ’’تجدید‘‘ نامی نظموں کا ذکر کر سکتا ہوں۔ بہت دن ہوئے اس سلسلے کی ایک نظم (جو بعد میں کچھ تبدیلی کے بعد نئے نام میں شائع ہوئی) میرے پاس تجزیے کے لیے آئی۔ شاعر کا نام مخفی رکھا گیا تھا، لیکن چوں کہ میں ’’تجدید‘‘ سلسلے کی ایک نظم پہلے پڑھ چکا تھا، اور دونوں نظموں کے آہنگ میں حیرت انگیز مماثلت تھی، اس لیے مجھے یہ پہچاننے میں کوئی دقت نہ ہوئی کہ یہ نطم احمد ہمیش کی ہے اور ’’تجدید‘‘ سلسلے کی ہے،

    آج رات کے ٹھیک آٹھ بجھے ایک آدمی اپنے ایوانی خاک داں میں صفر صفر گر رہا ہے وہ ان تمام ناتمام ایوانوں میں بسر ہو رہا ہے

    جن میں ہم سب کو بسر ہونا ہے اور یہ ایک عجیب اتفاق ہے
     (تجدید۲)

    اس آہنگ کو مندرجہ ذیل آہنگ کے سامنے رکھیے،

    وہ کیسے بستر ہیں، جن پر عورتیں کبھی نہیں سوئیں
    جن کی تربیت محض ایک کھونٹی ہے
    جن پر دماغ اور جسم سبھی ٹنگے ہیں
     (تجدید ۱)

    اس کا صوتی تجزیہ کرنے کی ضرورت نہیں، اس کے بغیر ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ دونوں کے آہنگ ایک ہیں اور ان نظموں میں مصرعے یا رکن کی اکائی کے بجائے پیراگراف یا ٹکڑے کی اکائی کا اصول کارفرما ہے۔ شہریار کی نثری نظمیں ابھی شائع نہیں ہوئی ہیں، لیکن ان میں بھی یہی صورت نظر آتی ہے، بلکہ زیادہ وضاحت سے دیکھی جا سکتی ہے، کیوں کہ اختصار کی وجہ سے ان کی اکائی زیادہ گٹھی ہوئی اور آسانی سے پہچان میں آ جانے والی ہے۔

    اس طرح نثری نظم میں شاعری کے دوسرے خواص کے ساتھ موزونیت بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا اسے نثری نطم کہنا ایک طرح کا قول محال استعمال کرنا ہے، اسے نظم ہی کہنا چاہیے۔ لیکن تخلیقی نثر (یعنی وہ نثر جو افسانے، ناول وغیرہ میں استعمال ہوتی ہے۔) کا معاملہ بہت زیادہ ٹیڑھا ہے۔ تخلیقی نثر میں اجمال اور موزونیت کو چھوڑ کر شعر کے دوسرے خواص موجود ہوتے ہیں۔ لیکن اجمال کی عدم موجودگی استعارے، پیکر، اور تشبیہ کو پوری طرح پھیلنے نہیں دیتی۔ اگر ان عناصر کے ساتھ زبردستی کر کے نثر نگار انھیں اپنی عبارت Over Work کرے تو ان مل بے جوڑ ہونے کی کیفیت نمایاں ہونے لگتی ہے۔

     یہ یقیناً ممکن ہے کہ کسی نسبتاً طویل تخلیقی نثر پارے میں جگہ جگہ اجمال کا بھی عمل دخل ہو (جیسا کہ جدید افسانے میں ہوتا ہے) اور نثر پارے کے وہ ٹکڑے شعر کے قریب آ جائیں، لیکن ان کے آس پاس پر محیط عدم اجمال اور نوموزونیت انھیں پوری طرح شاعری نہیں بننے دیتیں۔ اس طرح محمود ہاشمی کے سوال کے جواب میں کہ شاعرانہ وسائل استعمال کرنے والی نثر کو شعر کیوں نہ کہا جائے، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اول تو شاعرانہ وسائل استعمال کرنے والی نثر، بہر حال نثر رہتی ہے اور بالفرض وہ شعر بن بھی جائے تو وہی الجھاوے پیدا ہوں گے جن کی طرف میں نے شروع میں اشارہ کیا ہے یعنی ہمیں یہ کہنا پڑےگا ’’آگ کا دریا‘‘ تیس فی صدی شاعری اور ستر فی صدی نثر ہے۔

    میں نے اشعار کی جو نثریں اوپر لکھی ہیں ان کا مطالعہ ایک لمحے میں واضح کر دےگا کہ تخلیقی نثر جب شاعرانہ وسائل کثرت سے استعمال کرتی ہے تو اسے کس قدر خطرے لاحق ہو جاتے ہیں۔ میر حسن کے اشعار ہر معیار سے شاعری ہے، لیکن جب میں نے ان کی نثر کی تو وہ شاعری تو نہ رہ گئے، لیکن ایک عجیب لنگری لولی نثر بن گئے۔ جدید افسانے میں انھیں لوگوں کی تخلیقی نثر کامیاب ہے جنھوں نے شاعرانہ وسائل کو استعمال کرنے والی زبان کے ساتھ ساتھ ایسی زبان کثرت سے استعمال کی ہے جس میں نثر کا عدم اجمال پوری طرح نمایاں ہے۔ انور سجاد کی یہ عبارات ملاحظہ ہوں،

    (۱) پرندے ان گنت پرندے آسمان کی تمام سمتوں سے اڑتے ہوئے سیاہ غبار کے بارڈروں پر اپنے پروں کے بند باندھنے کی کوشش میں غبار کی قوت اور رفتار کے سامنے خس وخاشاک، طوفان ہے کہ امڈا ہی چلا آتا ہے۔

    یہ انور سجاد کے افسانے ’’کارڈ لیک دمہ‘‘ کا آغاز ہے۔ شعرکی طرح اجمال پیدا کرنے کی کوشش نمایاں ہے (بند باندھنے کی کوشش میں [ہیں لیکن] غبار کی قوت اور رفتار کے سامنے خس وخاشاک [کی طرح ہیں۔ ] لیکن یہ انداز مسلسل برقرار نہیں رہتا۔

    (۲) پرندے، (ان گنت پرندے) اپنی اپنی بولیوں (اپنی اپنی آوازوں) میں صدائے احتجاج بلند کرنے کا تہیہ کرتے ہیں سیا ہ غبار (میں اڑتی) منوں (کالی) مٹی کے (کروڑوں) ذرات (ان کی) جھکی چونچوں سے داخل ہو کر (ان کے) پھیپھڑوں پر جم جاتے ہیں۔

    یہ عبارت نمبر ایک کے فوراً بعد اگلے پیراگراف کا آغاز کرتی ہے۔ قوسین میں رکھے ہوئے الفاظ انور سجاد کے ہیں، شاعری انھیں بہ خوشی حذف کر سکتی ہے۔ لیکن یہ عبارت پھر بھی شعر کے بہت نزدیک ہے۔ افسانے کے وسط میں یہ عبارت دیکھیے، وہ ہانپتا کانپتا پنڈال میں پہنچتا ہے۔ لوگوں پر سکوت طاری ہو جاتا ہے۔ وہ مائیکرو فون کے سامنے آتا ہے۔ سب ہمہ تن گوش ہو جاتے ہیں۔ وہ پھولے ہوئے سانس کو قابو میں لانا چاہتا ہے۔

    یہ تخلیقی نثر ہے، لیکن صرف نثر ہے۔ شاعرانہ وسائل کا کہیں پتہ نہیں۔ پورے افسانے میں نثر کا توازن اسی طرح برقرار رکھا گیا ہے۔ میں نے جان بوجھ کر ایسا افسانہ منتخب کیا ہے جس میں مکالمہ بالکل نہیں ہے اور بیانیہ بھی بہت کم ہے۔ اس کے باوجود نثر کی تخلیقی نوعیت شاعر ی سے مختلف رہتی ہے، یہ نثر نگار کی بہت بڑی خوبی ہے۔ ورنہ مکالمہ اور بیانیہ ہی نثر کے شعری کردار کو منقلب کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ اسی لیے میں ایسی تخلیقی نثر کو ناکام اور جھوٹے گوٹے ٹھپے والی نثر کہتا ہوں جس کا شعری کردار اتنا جامد اور برف زدہ ہو کہ مکالمہ اور بیانیہ کی تیز رفتاری بھی اسے پگھلانے میں ناکام رہے، اور اسی لیے میں محمد حسین آزاد کو اردو کا سب بڑا تخلیقی نثر نگار سمجھتا ہوں۔ انھوں نے اجمال کو بالکل پس پشت ڈال دیا ہے، شعری وسائل بھی وہ استعمال کیے ہیں جو اپنے کردار وتفاعل کے اعتبار سے ’’بے جنس‘‘ بمعنی Neutral ہیں۔ یعنی اگر وہ شعر میں بھی آئیں تو اجنبی نہیں معلوم ہوتے۔ ان بے جنس وسائل کا ذکر میں آگے بھی کروں گا۔ فی الحال ’’آب حیات‘‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو،

    ’’میر حسن مرحوم نے اسے لکھا اور ایسی صاف زبان، فصیح محاورے اور میٹھی گفتگو میں اور اس کیفیت کے ساتھ ادا کیا جیسے آب رواں۔ اصل واقعہ کا نقشہ آنکھوں میں کھنچ گیا اور ان ہی باتوں کی آوازیں کانوں میں آنے لگیں جو اس وقت وہاں ہو رہی تھیں۔ باوجود اس کے اصول فن سے بال برابر ادھر یا ادھر نہ گرے۔ قبول عام نے اسے ہاتھوں میں لے کر آنکھوں پر رکھا۔ اور آنکھوں نے دل وزبان کے حوالے کیا۔ اس نے خواص اہل سخن کی تعریف پر قناعت نہ کی بلکہ عوام جو حرف بھی نہ پہچانتے تھے وظیفوں کی طرح حفظ کرنے لگے۔‘‘ 

    نثر کی سب سے بڑی مشکل یا خوبی یہ ہے کہ اس کا چھوٹا سا اقتباس اس کی تعیین قدر کے لیے ناکافی ہوتا ہے۔ شعر کا ایک مصرع بھی بڑی شاعری کے زمرہ میں آ سکتا ہے، (آخر آرنالڈ نے بڑی شاعری کی پہچان انھیں مصرعوں پر مقرر کی تھی۔ شاعری کی یہ پہچان غلط سہی لیکن شعر کی بنیادی فطرت کو ضرور واضح کرتی ہے۔) لیکن نثر کا ایک جملہ بلکہ ایک پیراگراف بھی اس مقصد کے لیے کافی نہیں ہوتا۔ آب حیات ہو یا انور سجاد کا افسانہ، اس کی نثر کا لطف حاصل کرنے کے لیے خاصا طویل اقتباس ضروری ہے۔ پھر بھی، میں حتی الامکان واضح کرنے کی کوشش کروں گا کہ آزاد نے اس عبارت میں کیا جادو جگائے ہیں۔

    سب سے پہلے تو یہ غور کیجیے کہ اگرچہ میں نے بہت تلاش کے بعد ایسی عبارت ڈھونڈی ہے جس میں (ادوار کی تمہید عبارت کے علاوہ) تشبیہ و استعارے کی کارفرمائی نسبتاً زیادہ ہے، یعنی میں نے بیانیہ عبارت منتخب کرنے سے گریز کیا ہے۔ پھر بھی، اس تحریر میں صرف چند ہی استعارے یا تشبیہیں یعنی جدلیاتی عمل کرنے والے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، جو درج ذیل ہیں (اس فہرست سے میں نے محاوروں مثلاً ’’میٹھی گفتگو‘‘ کو خارج کر دیا ہے اگر چہ وہ بھی اصلاً استعارے ہیں۔) 

    (۱) آب رواں (۲) قبول عام نے اسے ہاتھوں میں لے کر آنکھوں پر رکھا (۳) آنکھوں نے دل وزبان کے حوالے کیا (۴) وظیفوں کی طرح حفظ کرنے لگے۔

    آپ نے دیکھا جدلیاتی الفاظ کی تعداد انور سجاد کی عبارت سے نہ صرف بہت کم ہے، بلکہ ان کی نوعیت بھی ایسی ہے کہ اگر وہ کسی عبارت میں تنہا آ پڑیں تو ان پر شاید کسی کی نظر نہ پڑے۔ یعنی جدلیاتی لفظ یہاں اپنی کم ترین شدت کی سطح پر استعمال ہوا ہے۔ اضافتوں کا کھیل بہت کم ہے، غیرہندوستانی الفاظ پر ہندوستانی الفاظ کو جگہ جگہ ترجیح دی گئی ہے (’’میٹھی گفتگو‘‘ بجائے ’’شیریں گفتگو۔‘‘، ’’ان ہی باتوں کی آوازیں کانوں میں آنے لگیں جو اس وقت وہاں ہو رہی تھیں۔‘‘ بجائے ’’ان ہی مکالموں یا گفتگوؤں کی آوازیں گوش تخئیل میں آنے لگیں جو وقت متذکرہ میں وہاں ہو رہی تھیں۔‘‘، ’’بال برابر ادھر یا ادھر نہ گرے۔‘‘ بجائے ’’سر موتجاوز نہ کیا۔‘‘) لیکن اس کے باوجود ایسے الفاظ نہیں استعمال ہوئے ہیں جو اردو میں مستعمل نہیں ہیں اگر چہ سمجھ لیے جاتے ہیں۔

     ہمارے بعض نثر نگار دل کی جگہ من، وقت کی جگہ سمے، شرم کی جگہ لاج، زمین کی جگہ دھرتی وغیرہ لکھ کر سمجھتے ہیں کہ ’’غیرمعمولی لطیف‘‘ زبان استعمال کر رہے ہیں، حالاں کہ کوئی لفظ نہ لطیف ہوتا ہے نہ کثیف، وہ یا تو زبان کے مزاج میں کھپتا ہے یا نہیں کھپتا۔ آزاد اگرچہ غیر ہندوستانی الفاظ اور اضافتوں کا استعمال کم کم کرتے ہیں لیکن اردو میں غیر مستعمل ہندوستانی الفاظ سے بھی گریز کرتے ہیں۔ لہٰذا عبارت میں وہ تصنع نہیں پیدا ہوتا جو بڑی بوڑھیوں کے غمزے میں ہوتا ہے۔ اب یہاں ایک اور اقتباس دینا ہی پڑےگا،

    ’’سید انشا ہمیشہ قواعد کے رستے سے ترچھے ہو کر چلتے ہیں، مگر وہ ان کا ترچھا پن بھی عجب بانک پن دکھاتا ہے۔ یہ [مصحفی] بھی مطلب کو خوبی اور خوش اسلوبی سے ادا کرتے ہیں مگر کیا کریں کہ وہ امروہہ پن نہیں جاتا۔ ذرا اکڑ کر چلتے ہیں تو ان کی شوخی بڑھاپے کا ناز بےنمک معلوم ہوتا ہے۔ سید انشا سیدھی سادی باتیں بھی کہتے ہیں تو اس انداز سے ادا کرتے ہیں کہ کہتا اور سنتا گھڑیوں رقص کرتا ہے۔‘‘ 

    اس عبارت میں جدید فیشن کی ’’شاعرانہ‘‘ نثر لکھنے والے ’’رستے‘‘ کی جگہ ’’ڈگر‘‘، ’’عجب‘‘ کی جگہ ’’انیلا‘‘، ’’خوش اسلوبی‘‘ کی جگہ ’’سجل پن‘‘ یا ’’سجلتا‘‘، انداز‘‘ کی جگہ ’’بھاؤ‘‘ وغیرہ استعمال کریں گے اور اردو نثر کا خون کر دیں گے۔ لیکن بات پہلے اقتباس کی ہو رہی تھی۔ ہر جملے کے آخری لفظ پر غور کیجیے۔ قافیہ شعر میں حسن ہے، نثر میں قابل برداشت ہے، لیکن نثر کے ایسے جملے جو افعال پر ختم ہوں اور سارے افعال ایک ہی زمانہ Tense کو ظاہر کریں، مثلاً تھا، تھی، تھے، آیا، گیا، ہوا وغیرہ تو ایک بدمزہ ذہنی قسم کا قافیہ پیدا ہو جاتا ہے جو نثر کے آہنگ کو بگاڑ دیتا ہے۔ میں نے اپنے ایک مضمون میں ’’آگ کا دریا‘‘ کی ایک عبارت کے بارے میں لکھا تھا کہ بہت سے جملوں کے ماضی مطلق اور ماضی استمراری پر ختم ہونے کی وجہ سے آہنگ میں سانس پھولنے کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔

    اس کو کیا کیا جائے کہ بیانیہ میں ایسی مجبوری آ ہی جاتی ہے، لیکن دیکھیے آزاد نے شعوری یا غیر شعوری طور پر جملوں کے اختتام سے کتنی ہوشیاری سے کام لیا ہے۔ جیسے (۱) آب رواں (۲) کھنچ گیا (۳) ہو رہی تھیں (۴) نہ گرے (بمعنی نہ گرنے پائے)، (۵) پر رکھا (۶) حوالے کیا 6 کرنے لگے۔ میں نے جملوں کے ان فقروں کو چھوڑ دیا ہے جہاں بات پوری نہیں ہوئی۔ ’’قناعت نہ کی‘‘ کے بعد ’’بلکہ‘‘ لگا کر آہنگ کے دوسرے فقرے میں Over Flow کر دیا ہے۔ دوسرے اقتباس میں بھی یہی التزام رکھا گیا ہے۔ خاص کر اس جملے پر غور کیجیے، ’’سیدھی سادی باتیں بھی کہتے ہیں تو اس انداز سے ادا کرتے ہیں۔‘‘ 

    اس جملے کو ختم نہ کر کے ’’کہ‘‘ کے ذریعہ اگلے سے ملایا تو گیا ہی ہے، لیکن ’’باتیں بھی کہتے ہیں‘‘ کے بعد ’’اس انداز سے کہتے ہیں‘‘ کی تکرار سے بچ کر ’’انداز سے ادا کرتے ہیں‘‘ کہہ دیا ہے۔ ’’ادا کرتے ہیں‘‘ کو حذف کر کے جملہ یوں بھی بن سکتا تھا کہ ’’اس انداز سے، کہ کہتا اور سنتا۔۔۔‘‘ لیکن ’’کہ کہتا‘‘ کے تنافر کے علاوہ ’’کہتے‘‘ اور ’’کرتے‘‘ کے تضاد اور اس کے بعد ’’کہ‘‘ کے ذریعہ آہنگ کے Over Flow سے ہاتھ دھونا پڑتا۔

    چنانچہ اچھی تخلیقی نثر اگر چہ شاعرانہ وسائل استعمال کر لیتی ہے، لیکن اس کی خوبی کا اصل راز کچھ دوسری ہی چیزوں میں ہوتا ہے اور جو چیز اسے بنیادی طور پر شاعری سے الگ کرتی ہے وہ اجمال ہے۔ میں نے موزونیت کو شعر کی پہچان بتایا تھا، اجمال کو بھی شعر کی پہچان بتاتا ہوں، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ جس شعر میں شاعری ہوگی اس میں اجمال یقیناً ہوگا، اور اس اجمال کی خصوصی اہمیت ہوگی۔ جس شعر میں شاعری نہ ہوگی ممکن ہے اس میں اجمال نہ ہو، لیکن یہ یقینی ہے کہ اس میں اجمال اگر ہوگا بھی تو اس میں شعر کے بقیہ خواص نہ ہوں گے۔ مثلاً مسعود حسن رضوی ادیب کے تصنیف کردہ مثالی بے اثر شعر،

    ہاتھی کو بڑا کیا بڑا ہے
    لٹھے کو کھڑا کیا کھڑا ہے

    میں بھی اجمال ہے، کیوں کہ اس کی بھی نثر یوں ہوگی، (اس نے) ہاتھی کو بڑا کیا، (اس لیے وہ) بڑا ہے۔ (اس نے) لٹھے کو کھڑا کیا (اس لیے وہ) کھڑا ہے۔ ممکن ہے آپ کو یہ خیال ہو کہ میں نے اب تک جن شعروں میں اجمال ڈھونڈا ہے وہ نسبتہ ً پیچیدہ صرف ونحو کے حامل تھے، اور مثنوی کے شعر اگر پیچیدہ نہیں تھے تو تسلسل قائم رکھنے کی ضرورت کے باعث ان کی بھی نثر کرتے وقت الفاظ بڑھانے کی ضرورت پیش آئی تھی، لہٰذا میں کچھ سہل ممتنع قسم کے شعر بھی اٹھاتا ہوں،

    اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
    رنج راحت فزا نہیں ہوتا

    تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
    ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا 
    مومن

    ہستی اپنی حباب کی سی ہے
    یہ نمائش سراب کی سی ہے

    چشم دل کھول اس بھی عالم پر
    یاں کی اوقات خواب سی ہے 
    میر

    کعبہ کے سفر میں کیا ہے زاہد
    بن جائے تو آپ سے سفر کر

    یہ دہر ہے کارگاہ مینا
    جو پاؤں رکھے تو یاں سو ڈر کر 
    قائم

    ان اشعار کی نثر بالترتیب یوں ہوگی،

    مومن، اس کو ذرا (بھی) اثر نہیں ہوتا۔ (اور کیوں ہو؟ جب کہ) رنج راحت فزا نہیں ہوتا۔ تم (ہی) کسی طرح ہمارے نہ ہوئے، یا (بس) تم کسی طرح ہمارے نہ ہوئے ورنہ (ہونے کو) دنیا میں کیا نہیں ہوتا۔

    میر، اپنی ہستی (بس) حباب کی سی ہے، (اور اس کی) یہ نمائش سراب کی ہے۔ (اے شخص!) اس عالم پر بھی چشم دل کھول، (کیوں کہ) یہاں کی اوقات (تو) خواب کی سی ہے۔

    قائم، (اے) زاہد! کعبے کے سفر میں کیا (رکھا) ہے، جو (تجھ سے) بن جائے (یعنی بن پڑے) تو (اپنے) آپ سے سفر کر۔ یہ دہر (کیا ہے) کارگاہ مینا ہے، جو (بھی) یہاں پاؤں رکھے (ہے) سوڈر کر (رکھے ہے) یا جو (بھی) یہاں پاؤں (رکھے) سو ڈر کر رکھے۔

    اجمال کی شرط یہ ہے کہ شعر سے ایسے الفاظ کا اخراج کر دیا جائے جن کے بغیر اس شعر کی نثر نا مکمل یا خلاف محاورہ رہے یا نا مانوس معلوم ہو اور توضیحی نثر کے توازن سے عاری معلوم ہو۔ افتخار جالب کی نثر میں جو اجنبیت محسوس ہوتی ہے اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ لکھتے تو خالص نثر ہیں، یعنی ایسی نثر جو توضیح، تفہیم اور تنقیح کے لیے استعمال کی جائے (مثلاً تنقید یا تاریخ کی نثر) لیکن جگہ جگہ اس پر اجمال کا عمل کر دیتے ہیں۔

    (اور) گنجائش بھی کیسی؟ معمولی (گنجائش) نہیں، (بلکہ) عین ترقی پسند نظریے کی ضد۔ پھر (ہمیں اس بات پر) حیرت ہوتی ہے (کہ) ترجیحات کا فیصلہ کون کرے گا؟ (کیا) ترقی پسند ادیب (کریں گے؟) شاید ہاں، (شاید) نہیں۔ (شاید) ترقی پسند ادیب کے موضوعات پا بہ جولاں (ہوکر) پڑھنے والوں کے پاس پہنچیں اور (تب ہی) وہ اہم غیر اہم کا انداز لگا سکیں تو (لگا سکیں اور اگر) نہیں تو نہیں۔ پھر اس سے (بھی) کیا فرق پڑتا ہے۔ ترقی پسند ادیب اپنی ترجیحات کا فیصلہ کرے (یا) نہ کرے۔ (اصل) معاملہ تو قاری کے ہاتھ میں ہے۔ (افتخار جالب، فی بطن شاعر)

    قوسین کے الفاظ اصل عبارت میں نہیں ہیں، میں نے بڑھائے ہیں۔ اس پیوند کاری کے باوجود دو باتیں رہ گئیں ہیں۔ ’’پابہ جولاں‘‘ کو ’’پڑھنے والوں‘‘ کی بھی صفت بنایا جا سکتا ہے۔ اور ’’پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے‘‘ والے فقرے میں ’’اس‘‘ کی ضمیر ترقی پسند ادیب کے فیصلے کی طرف راجع ہوتی ہے، جس کا ذکر بہت پہلے آیا تھا۔ اگر افتخار جالب کی نثر، خالص نثر پر اجمال کا عمل کرکے انفرادیت حاصل کرتی ہے تو آل احمد سرور کی نثر، خالص کے تنے میں تخلیق کا پیوند لگاتی ہے، اس طرح توضیحی نثر میں بھی تخلیقی نثر سے ملتا جلتا آہنگ پیدا ہو جاتا ہے۔ ہمارے بیش تر بڑے نقادوں کی تحریر اس اضافی حسن سے خالی ہے۔

    ’’مشرقی فلسفے میں روحانیت اور مغربی فلسفے میں مادیت کی جلوہ گری ہے۔ روحانیت کے خیال کے مطابق مادے کی کثافتوں کو دور کر کے روح کے جلوے کو جلا دینا عین مقصد زندگی ہے مگر اس وجہ سے کائنات ایک بے مقصد وجود اور زندگی ایک بے سود مظاہرہ نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ وہ پردۂ ظلمات ہے جس سے گزر کر آب حیات ملتا ہے۔ مغرب میں قنوطیت فطرت انسانی کو ایک اندھی مشیت کا کھلونا سمجھتی ہے۔ مشرق میں جبریت اور بے ثباتئ دنیا کی تعلیم دنیا کو مقصود بالذات سمجھنے سے روکتی ہے اور اس کی نیرنگیوں سے نگاہوں کو خیرہ نہیں ہونے دیتی۔‘‘ (آل احمد سرور، میر کے مطالعہ کی اہمیت)

    اس عبارت پر اجمال کا عمل کیجیے تو افتخار جالب کا سا آہنگ نہ پیدا ہوگا، نہ اس کے ارتکاز میں اضافہ ہوگا کیوں کہ اچھی نثر میں عدم اجمال کی خاصیت پڑھنے والے کی فکر کو واضح راستوں پر چلاتی رہتی ہے۔ اس وضاحت کے لیے جتنا ارتکاز ضروری ہے، نثر اس سے زیادہ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ محمد حسین آزاد کی طرح یہاں بھی جدلیاتی الفاظ کم ہیں، لیکن جہاں آزاد کے یہاں تنوع کا توازن تھا، یہاں تقابل کا توازن ہے، روحانیت کی جلوہ گری، مادیت کی جلوہ گری، جلوے کو جلا دینا، کائنات ایک بے مقصد وجود اور زندگی ایک بے سود مظاہرہ۔ قنوطیت، مشیت کا کھلونا۔ سمجھتی ہے، روکتی ہے۔ نیرنگیوں سے نگاہوں۔ ایک آدھ قافیہ بھی موجود ہے، جلوہ گری ہے، مقصد زندگی ہے، کائنات ایک بے مقصد وجود اور زندگی ایک بے سود مظاہرہ۔

    ہمارے 7 عہد میں سب سے اچھی توضیحی نثر شاید محمد حسن عسکری نے لکھی ہے۔ ان کے یہاں آزاد سے بہ ظاہر بے ارادہ اور بے ساختہ لیکن دراصل ارادی استہزا کی وجہ سے برتری کی شان پیدا ہو گئی ہے جو بہترین توضیحی نثر کا طرۂ امتیاز ہے۔

    ’’اس جدیدیت کا آغاز تھا مروجہ انداز سے انحراف۔ اگر اس ذہنیت کو منطقی طور پر نشوونما پانے دیا جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ مذہب، اخلاقیات، معاشیات، سیاسیات، پھر اس کے بعد مروجہ علوم صحیحہ تک بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی قدر کو غلط اور ناکارہ ثابت کیا جائے۔ مگر کسی چیز کو غلط یا ناکارہ کہنے کے لیے لازمی ہے کہ آپ کے پاس فیصلے کے لیے کوئی معیار بھی ہو۔ ایک معیار تو یہ ہو سکتا ہے کہ آپ مروجہ اقدار میں سے چند کو تسلیم کر لیں اور اس کسوٹی پر کس کس کر باقی تمام اقدار کو کھوٹا ثابت کر دیں۔ مگر اس طرح مکمل انحراف ممکن نہ ہوگا۔ اس لیے جدیدیت کا سب سے بڑا معیار ذاتی پسند یا انفرادیت قرار پایا۔‘‘ (محمد حسن عسکری، میر اور نئی غزل)

    عبارت میں کوئی استعارہ، تشبیہ، پیکر نہیں ہے۔ فارسی کی صرف ایک اضافت ہے (علوم صحیحہ۔) لفظ ’’مروجہ‘‘ کو تین بار دہرایا گیا ہے، قانون کی زبان بھی، جو انتہائی قطعیت اور وضاحت کو اپنی مقصد سمجھتی ہے، تکرار پسند ہے۔ آل احمد سرور کے برخلاف تقابل کے توازن اور مابعد الطبیعیاتی مفہوم رکھنے والے الفاظ (روح کے جلوہ کو جلا دینا، پردۂ ظلمات، جلوہ گری، اندھی مشیت، نیرنگیوں) کا کہیں پتہ نہیں۔ پہلا ہی جملہ توضیحی ہے۔ محمد حسن عسکری مغرب کی جدیدیت کے مخالف نظریہ بنا رہے ہیں۔ ابھی ان کا مسلک واضح نہیں ہوا ہے، لیکن اس جدیدیت کے بارے میں وہ ایسے الفاظ استعمال کر رہے ہیں جن کی تہہ میں تحقیر کا جذبہ (بلکہ ’’میرے پاس ان فضولیات کے لیے وقت نہیں‘‘ کا سا رویہ) دکھائی دیتا ہے۔

    ’’ذہنیت‘‘ (یہ لفظ عام طور پر برے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔) ’’لازمی نتیجہ یہ ہے کہ۔۔۔ ناکارہ ثابت کیا جائے۔‘‘، ’’آپ کے پاس کوئی معیار بھی ہو۔‘‘، ’’کسوٹی پر کس کر۔۔۔ کھوٹا ثابت کر دیں۔‘‘، (’’کس‘‘ کی تکرار اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ مصنف اس عمل کو احمقانہ سمجھتا ہے۔) لفظ ’’ضروری‘‘ کی جگہ دونوں جگہ ’’لازمی‘‘ لایا گیا ہے تاکہ حتمیت اور قطعیت کی برتری کا احساس مضبوط ہو جائے۔ ’’غلط اور ناکارہ‘‘ میں تکرار اس غرض سے ہے کہ یہ واضح ہو جائے کہ ممکن ہے کوئی قدر ناکارہ ہو لیکن غلط نہ ہو یا غلط ہو لیکن ناکارہ نہ ہو۔ مقصود یہ دکھانا ہے کہ غلط پن اور ناکارگی الگ الگ صورتیں ہیں۔ پہلے توضیحی جملے کے بعد جملہ ’’اگر‘‘ سے شروع ہوتا ہے اور منطقی استدلال کی تکمیل کے بعد آخری جملہ ’’اس لیے‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔ (یہی ثابت کرنا تھا۔) 

    نثر کی اتنی ساری مثالوں کا تجزیہ کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ اجمال شعر کا وصف ہوتا ہے، نثر کا نہیں۔ لیکن اجمال، شاعری کی تنہا پہچان نہیں ہے۔ یعنی کسی شعر میں صرف اجمال کا وجود اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ اس میں شاعری بھی ہے۔ شعر کو شاعری بننے کے لیے کچھ اور خواص کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ جس شعر میں شاعری ہوگی اس میں شاعری کی اور نشانیوں کے ساتھ ساتھ اجمال بھی ہوگا۔ اس طرح اجمال کی ایک منفی حیثیت ہے، یعنی جس تحریر میں شاعری کے اوصاف ہوں، لیکن اجمال نہ ہو وہ شاعری نہ ہوگی، لیکن مجرو اجمال شعر کو شاعری میں تبدیل نہیں کر دیتا۔

    میں نے اس مضمون میں جگہ جگہ ’’جدلیاتی لفظ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے اور اس کی تشریح بھی کر دی ہے کہ میں تشبیہ استعارہ یا پیکر کے حامل الفاظ کو جدلیاتی کہتا ہوں۔ وہ اس لیے کہ ایسے الفاظ اپنے انسلاکات کی وجہ سے ہمہ وقت معنی کے حامل رہتے ہیں۔ اگر شاعرانہ زبان کا استعمال برا نہ سمجھا جائے تو میں یہ کہوں گا کہ ایسے الفاظ میں ہر وقت کن فیکون کی کیفیت رہتی ہے، کیوں کہ جدلیاتی عمل کرنے یا رکھنے والا لفظ اپنے معنی میں خود کفیل ہوتا ہے، اسے کسی خارجی حوالے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اور جب وہ خارجی حوالے کا پابند نہیں تو اس میں معنی کی کوئی حد نہیں۔ کیوں کہ اس میں ایک آزا دنامیاتی زندگی ہوتی ہے۔ (معنی میں یہاں کولرج کی اصطلاح کے طور پر استعمال کر رہا ہوں۔) 

     استعارہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہیں لکھا ہے، اس حقیقت سے بڑا ہوتا ہے جس کے لیے وہ لایا گیا ہوتا ہے۔ تشبیہ اور استعارے میں صرف تکنیکی فرق ہے، لہٰذا یہ بات تشبیہ کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ پیکر، (یعنی حواس خمسہ میں سے ایک یا ایک سے زیادہ کو متحرک کرنے والا لفظ) جیسا کہ رچرڈس نے بڑی خوبی سے واضح کیا ہے، صرف اس تمثال یا صورت کا نام نہیں جو اس کے ذریعہ ابھرتی ہے، اور پیکر کی اثریت، بہ حیثیت پیکر اس کی وضاحت اور صاف دکھائی دے سکنے کی صلاحیت میں اتنی نہیں ہے جتنی اس وجہ سے ہے کہ پیکر ایک ذہنی واقعی یعنی Mental Event ہے جو ان محسوسات کے ساتھ ایک مخصوص ڈھنگ سے منسلک ہے جن کو پیکر نے جنم دیا ہے۔

     استعارے اور پیکر کی اثریت کو ان مثالوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔ مندرجہ ذیل جملے پر غور کیجیے، میں گھر پہنچ گیا۔ اب اگر گھر غیراستعاراتی یا روز مرہ کی معنی میں ہے، جسے رچرڈس حوالہ جاتی یعنی Referential کہتا ہے تو اس جملے میں صرف اتنی معنویت ہے کہ متکلم اس جگہ پر یا عمارت میں گیا جہاں وہ رہتا ہے۔ لیکن اگر ’’گھر‘‘ کو استعارہ فرض کیا جائے تو اس میں ایک جذباتی (بلکہ ذہنی بھی) تاثر پیدا ہو جاتا ہے۔

    فرض کیجیے کوئی شخص لمبے سفر کے بعد منزل مقصود پر پہنچتا ہے یا کوئی شخص راہی ملک عدم ہوتا ہے۔ یا کوئی شخص اجنبیوں میں پہنچتا ہے لیکن ان کو احساس یگانگت سے معمور پاتا ہے۔ کوئی شخص کسی دوست کے یہاں جاتا ہے۔ کوئی شخص کسی مسئلے کا حل تلاش کر لیتا ہے۔ کوئی شخص نقصان کے اندیشے میں گرفتار تھا لیکن پایان کار وہ بچ نکلتا ہے۔ کوئی شخص اپنے حسب طبیعت روزگار تلاش کر لیتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب اور اس طرح کی صدہا صورت حالات اس جملے سے پیدا ہو سکتی ہے اگر لفظ ’’گھر‘‘ کو استعارہ فرض کر لیا جائے۔ اب یہ جملے دیکھیے،

     (۱) ہوائی جہاز تیزی سے گزر گیا۔
     (۲) ہوائی جہاز دندناتا ہوا گزر گیا۔
     (۳) طیارہ دندناتا ہوا گزر گیا۔
     (۴) طیارہ سروں پر سے دندناتا گزر گیا۔

    پہلے جملے میں لفظ ’’تیزی‘‘ نے خفیف سا پیکر بنایا ہے، لیکن جیسے ہی ’’دندناتا‘‘ کا لفظ رکھا گیا، صورت حال کی تصویر نہ صرف اور زیادہ واضح ہو گئی بلکہ شور اور گرج اور لاپروائی کا تاثر بھی پیدا ہو گیا۔ تیسرے جملے میں ’’ہوائی جہاز‘‘ کی جگہ ’’طیارہ‘‘ یعنی مانوس کی جگہ نامانوس لفظ رکھ دینے سے ہوائی جہاز کی لا انسانیت اور واضح ہو گئی جب کہ لفظ ’’طیارہ‘‘ کا آہنگ دندنانے کے تصور کو بھی مستحکم کر رہا ہے۔ اس کے اجنبی یا لاپروا ہونے کا جو احساس اس تیزئ رفتار نے پیدا کیا تھا، وہ اور قوی ہو گیا۔ چوتھے جملے میں سروں پر سے گزرتا ہوا طیارہ، آسمان کی طرف اٹھے ہوئے چہروں، ان کے خوف، یاس، امید، بےچارگی کی طرف مزید اشارہ کرتا ہے۔ ’’سروں پر سے‘‘ کا فقرہ یہاں استعاراتی ہے، کیوں کہ طیارہ تو بہت اوپر تھا، نہ کہ سروں پر۔

    میرا کہنا یہ کہ جدلیاتی لفظ شاعری کی ایک مخصوص اور معروضی پہچان ہے، اگر وہ اجمال کے پہلو بہ پہلو آئے۔ جدلیاتی لفظ اصلاً شاعری کا وصف ہے۔ تخلیقی نثر میں بدرجۂ مجبوری اور اسفل سطح پر استعمال ہوتا ہے، لیکن نثر چاہے جیسی بھی ہو، توضیحی یا تخلیقی، چوں کہ وہ اجمال اور موزونیت سے عاری ہوتی ہے، اس لیے شاعری نہیں بن سکتی۔ اگر موزوں کلام میں جدلیاتی لفظ اجمال کے پہلو بہ پہلو استعمال ہو تو وہ شاعری ہے۔ یہاں اس بات کا اعادہ کردوں کہ جدلیاتی لفظ سے میری مراد تشبیہ، استعارہ یا پیکر کا حامل لفظ ہے۔ ان تین میں سے کوئی عنصر ایسا نہیں جسے معروضی طور پر پہچاننا ممکن نہ ہو۔ بے صبر پڑھنے والوں کے لیے اس بات کی بھی وضاحت ضروری ہے کہ جدلیاتی لفظ کی ایک اور قسم، یعنی علامت کا ذکر میں بعد میں ابہام کے تحت کروں گا۔ استعارہ بھی اکثر مبہم ہوتا ہے، یا ابہام کو راہ دیتا ہے، اس لیے اس ضمن میں بھی ابہام کا تذکرہ ہوگا۔

    لہٰذا میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ شاعری کی تیسری اور آخری پہچان ابہام ہے۔ جدلیاتی لفظ یا ابہام، ان میں سے ایک کا ہونا ضروری ہے۔ یہ ہمیشہ خیال رہے کہ موزونیت اور جمال کی شرطیں جزومستقل یعنی Constant Factor کی حیثیت رکھتی ہیں۔ (بہ قول شخصے وہ تو ردیف ہیں، آئیں گی ہی۔) ان اجزاء مستقلہ کے علاوہ شاعری میں یا تو جدلیاتی لفظ ہوگا یا ابہام، یا دونوں۔ میں کسی ایسے شعر کا تصور نہیں کر سکتا جس میں ان دو میں سے ایک بھی نشانی نہ ہو اور پھر بھی وہ شاعری ہو۔ صرف ایک صورت حال ایسی ہو سکتی ہے جب موزونیت اور اجمال کے پہلو بہ پہلو کسی شعر میں وہ خواص پائے جائیں جن کو برجستگی، سلاست، بندش کی چستی، بے تکلفی، خوش طبعی، مزاح، طنز (بمعنی Satire) رعایت لفظی کا پیدا کردہ لطف، وغیرہ کہا جاتا ہے۔

     لیکن چوں کہ یہ خواص نثر میں بھی پائے جاتے ہیں (علاوہ اس کے کہ ان میں سے کچھ موضوعی بھی ہیں) بلکہ اصلاً نثر کے ہی خواص ہیں، اس لیے یہ کلام موزوں و مجمل کو شاعری تو نہیں بنا سکتے، لیکن اسے نثر سے ممتاز ضرور کر دیتے ہیں۔ ایسی تحریر کو حوالے اور افہام کی غرض سے تو میں شاعری کا نام دے سکتا ہوں، لیکن تنقید کی زبان میں میں اسے غیرشعر کہوں گا۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ کسی کلام میں شاعری بھی ہو (یعنی موزونیت، اجمال، جدلیاتی لفظ، ابہام ہو) اور ساتھ متذکرہ بالانثری خواص میں سے بھی کچھ خواص موجود ہوں۔ اگر ایسا ہے تو یہ اس شاعری کا وصف اضافی ہوگا، وصف ذاتی نہ ہوگا۔ اور اس وصف اضافی کا وجود یا عدم وجود، شعر کی قیمت بہ حیثیت شاعری نہ گھٹائے گا نہ بڑھائےگا۔ کیوں کہ شاعری کی حیثیت سے شعر کی قیمت صرف ان چار خواص کے تابع ہے جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے۔

    یہاں پر یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ میں نے موزونیت کا ذکر ایک قطعی شرط کے طور پر تو جگہ جگہ کیا ہے، لیکن یہ کہیں واضح نہیں کیا کہ موزونیت میں آہنگ کی حیثیت اور قدروقیمت کیا ہے۔ اگر شاعری کی قیمت صرف ان چار چیزوں کے تابع ہے جس میں سے ایک (یعنی اجمال) کی جمالیاتی قدر بھی واضح نہیں ہے اور موزونیت وزن کے صرف التزام کا نام ہے تو ہم یہ کیوں کہتے ہیں فلاں شاعر کا آہنگ بہتر یا زیادہ لطف انگیز یا زیادہ بلند ہے؟ اگر ہم یہ غلط کہتے ہیں کہ فلاں شاعر کا آہنگ بہتر ہے تو کیا آہنگ کی کوئی قیمت نہیں ہے؟ اگر ایسا ہے تو ایک ہی بحرووزن میں کہی ہوئی دو نظموں کا آہنگ بالکل یک ساں کیوں نہیں ہوتا؟

     ان سوالوں پر میں آگے چل کر گفتگو کروں گا۔ فی الحال صرف تین باتیں کہنا مقصود ہیں۔ ایک تو یہ کہ مجرد آہنگ کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ یعنی کوئی شعر محض اس وجہ سے شاعری نہیں بن جاتا کہ اس کا آہنگ غیر معمولی طور پر خوب صورت یا پراثر ہے۔ آہنگ کی قیمت معنی کی تابع ہوتی ہے اور معنی جدلیاتی لفظ اور ابہام کے تابع ہوتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ آہنگ کی خوبی کو شعر کی نشانی نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیوں کہ اس خوبی کو محسوس اور بیان کرنے کے معروض طریقے ناقص ہیں، اور ہماری بحث معروضی طریقوں تک محدود ہے۔ تیسرے یہ کہ آہنگ کا سارا اسرار اسی مسئلہ میں مضمر ہے کہ ایک ہی بحر ووزن میں کہے ہوئے دو شعر مختلف آہنگ کے حامل ہوتے ہیں۔ جدلیاتی لفظ کی کارفرمائی ان اشعار میں دیکھیے،

    نہ سنبھلا آسماں سے عشق کا بوجھ
    ہمیں ہیں جو یہ مگدر بھانتے ہیں 
    قائم

    آسماں بار امانت نہ تو انست کشید
    قرعۂ فال بنام من دیوانہ زدند (۷)  
    حافظ

    کامل اس فرقہ زہاد سے اٹھا نہ کوئی
    کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح خوار ہوئے 
    آزردہ

    اس شعر کے بارے میں شبلی نے لکھا ہے کہ قرآن کی آیت کو حافظ سے بڑھ کر کسی اور نے نہیں بیان کیا۔ اور یہ اس حد تک تو درست ہے ہی کہ قائم نے اگرچہ حافظ کے پہلے مصرعے کا ترجمہ کر دیا ہے اور تشبیہ بھی استعمال کی ہے، لیکن ان کا شعر حافظ سے بہت کم ہے۔ میں اس کی وجہ بیان کرتا ہوں۔ قائم نے ’’عشق کا بوجھ‘‘ لکھا ہے، اس کی جگہ حافظ نے ’’بارامانت‘‘ کا استعارہ رکھا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ استعارہ قرآن میں بھی موجود ہے، اس سے اس کی قدر کم نہیں ہوتی۔ ’’عشق‘‘ کا لفظ صرف دو مفہوموں کا حامل ہے۔ عشق حقیقی یا عشق مجازی۔ حافظ نے امانت کو عشق کا استعارہ بنا کر کم سے کم اتنے معنی پیدا کیے ہیں۔ (۱) عشق حقیقی (۲) عشق مجازی (۳) معرفت الہٰی (۴) خود آگہی (جو اللہ کی صفت ہے)، (۵) تکلفات شرعیہ و احکام الہٰی (۶) زندگی اور اس کے آلام (۷) عقل۔ لہٰذا اس ایک استعارے نے حافظ کے مصرعے کو زیادہ شاعری کا حامل کر دیا۔

    دوسرے مصرعے میں قرعۂ فال زدن کا محاورہ (یعنی استعارہ) ہے، جو مجبوری کو بھی ظاہر کرتا ہے اس طرح یہ شعر تبخترکے علاوہ طنز کے بھی مضمون کا حامل ہو جاتا ہے کہ لیجیے مجھ دیوانے کو پکڑا، جو کہ مجبور تھا، اس کے نام قرعہ آہی گیا تھا تو وہ کیا کرتا۔ اس نے اپنی مرضی سے تو یہ بار قبول نہ کیا تھا۔ ’’من دیوانہ‘‘ سے طنز کا پہلو اور بھی واضح ہوتا ہے کہ کمال گیر منصفی ہے، جو بوجھ آسمان سے نہ اٹھ پایا وہ مجھ دیوانے پر لاد دیا! لیکن ’’من دیوانہ‘‘ بھی استعارہ ہے، کیوں کہ ’’من دیوانہ‘‘ سے صرف حافظ مراد نہیں ہیں (اس کے برخلاف قائم کے ’’ہمیں‘‘ سے صرف قائم مراد ہیں، یا زیادہ سے زیادہ نوع انسانی) اور نہ صرف تمام نوع انسانی مراد ہے، بلکہ دیوانہ بہ معنی عارف سے چند مخصوص صلاحیتوں اور کیفیت کے لوگ بھی مراد ہیں۔

     یہی نہیں، بلکہ دیوانہ سے مراد دیوانۂ عشق بھی ہے اور خود شاعر بھی (یعنی شاعر بحیثیت ایک فرقۂ انسانی کے) جس کے بارے میں مشرق و مغرب دونوں میں کہا جاتا رہا ہے کہ وہ ’’جاننے والا‘‘ یعنی محرم راز ہوتا ہے۔ منٹگمری واٹ نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ قدیم عربی میں لفظ ’’شاعر‘‘ کے معنی ہی تھے، ’’جاننے والا۔‘‘ The Knower اور ’’کاہن‘‘ Priest گویا شاعر کا وہی درجہ تھا جو کاہن کا تھا، کاہن جو محرم اسرار تھا اور دوسروں پر ان اسرار کی نقاب کشائی بھی کرتا تھا۔ اس طرح حافظ نے بار امانت، قرعۂ فال زدن اور من دیوانہ کے استعارے استعمال کرکے شعر میں معنی کی ایک نئی دنیا آباد کر دی ہے۔ حافظ کا شعر قائم کے شعر سے یقیناً بہت زیادہ بہتر ہے یعنی بہت زیادہ شاعری ہے۔

    لیکن قائم کا شعر بھی شاعری تو ہے ہی، کیوں کہ اس میں ہزار مریل سہی، لیکن ’’عشق‘‘ کا استعارہ تو استعمال ہی کیا گیا ہے، اور دوسرے مصرعے میں عشق کا استعارہ ’’مگدر‘‘ ٹھہرایا گیا ہے۔ تو ہم نے یہ کیسے فرض کیا کہ قائم کا شعر خراب ہے اور حافظ کا شعر اچھا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر آپ حساب کتاب کے قائل ہیں تو یوں سمجھیے کہ قائم نے صرف دو استعارے استعمال کیے ہیں، وہ بھی کم زور، اور حافظ نے تین استعارے استعمال کیے ہیں، تینوں نہایت مضبوط۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ قائم کا پہلا استعارہ (عشق) تو اس لیے کم زور ہے کہ اس کیے صرف دو معنی نکلتے ہیں اور وہ بھی بہت سامنے کے، اس قدر سامنے کے کہ ’’عشق‘‘ کو محض مروتاً ہی استعارہ کہا جا سکتا ہے، لیکن ’’مگدر‘‘ میں کیا برائی ہے؟ آپ اسے کیوں خراب کہتے ہیں، وہ تو استعارے کا استعارہ ہے، ظاہر ہے کہ اس میں دوہری قوت ہوگی۔

    میں جواب دوں گا کہ بالکل درست۔ آپ نے اتنا تو مان لیا کہ وہ استعارہ زیادہ زور دار ہوتا ہے جس میں زیادہ معنی ہوں، لیکن استعارے (اور تشبیہ) کی خرابی کی ایک اور وجہ بھی ہوتی ہے، وہ بھی میں بیان کروں گا اور دکھاؤں گا کہ جس طرح جدلیاتی لفظ کا وقوع شاعری کی پہچان کراتا ہے اسی طرح اچھے یا پرقوت جدلیاتی لفظ کا وجود اچھی شاعری کی پہچان کراتا ہے، اور خراب یا کم زور جدلیاتی لفظ کا وقوع خراب یا کم اچھی شاعری کو پہچاننا سکھاتا ہے اور اچھے اور خراب جدلیاتی لفظ کا معیار بھی قطعاً معروضی ہے۔

    مشرق و مغرب میں لوگوں نے تشبیہ و استعارے کی تعیین قدر میں بڑی موشگافیاں کی ہیں۔ مثلاً ندرت کو ان کی بڑی خوبی بتایا گیا ہے۔ لیکن ندرت ایک اضافی اصطلاح ہے۔ جو چیز میرے لیے بڑی نادر ہے ممکن ہے وہ آپ کے لیے نہایت معمولی ہو۔ کسی ایسے شخص کا تصور کیجیے جس نے شاعری بالکل نہ پڑھی ہو اور وہ شاعری شروع کرے۔ ظاہر ہے کہ اس کی نظر میں معشوق کے چہرے کے لیے چاند کی تشبیہ انتہائی نادر ہوگی، لیکن ہم آپ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کے بھی روادار نہ ہوں گے۔

     علاوہ بریں نادر تشبیہ یا استعارہ لازم نہیں ہے کہ اچھا ہی ہو۔ عشق کے بوجھ کے لیے مگدر کا استعارہ خاصا نادر ہے، لیکن میں اسے بالکل معمولی کہہ رہا ہوں۔ اگر یہ کہا جائے کہ مگدر نادر تو ہے لیکن موضوع (مستعارلہ، یعنی عشق کے بوجھ) کا اظہار کرنے کے لیے کافی نہیں ہے تو میں کہہ سکتا ہوں کہ میرے خیال میں تو کافی ہے۔ اسی طرح اگریہ کہا جائے کہ یہ استعارہ مضحک ہے یا متناسب نہیں ہے تو میں کہہ سکتا ہوں کہ مجھے تو قطعاً مضحک نہیں لگتا، یا میرے خیال میں تو یہ قطعاً متناسب ہے۔ تو پھر آپ کیا کہیں گے؟

    دراصل یہ سارا جھگڑا تشبیہ اور استعارے کی اصل حقیقت کو نظر انداز کر دینے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ میں ’’مگدر‘‘ کو خراب استعارہ جانتے ہوئے بھی خراب ثابت نہیں کر پا رہا ہوں۔ حالاں کہ بات بالکل سامنے کی ہے۔ ان دونوں میں بنیادی شرط یہ ہے کہ دو مختلف اشیاء میں مشترکہ صفات یا خواص تلاش کیے جائیں۔ بس تو پھر وہی تشبیہ/استعارہ خوب صورت ہے جس میں مختلف ترین اشیاء کے مشترکات بیان ہوئے ہوں۔ مشبہ اور مشبہ بہ، مستعارمنہ، اور مستعارلہ، ایک دوسرے سے جس قدر مختلف ہوں گے، تشبیہ و استعارہ اتنے ہی اچھے ہوں گے۔ چہرے کو آفتاب سے تعبیر کیا تو کیا کمال کیا دونوں کی مماثلت (چمک اور تمازت) بالکل سامنے کی چیز ہے۔ استعارے کی شرط مغائرت ہے نہ کہ مماثلت۔

    بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا
    نہنگ و اژدہا وشیر نر مارا تو کیا مارا 
    ذوق

    نہایت پوچ شعر ہے، کیوں کہ، نفس امارہ،، کو ’’بڑے‘‘ موذی سے استعارہ کیا گیا ہے، اور تین جانوروں کو چھوٹا موذی کہا ہے، مناسبت بالکل سامنے کی ہے، مغائرت بہت کم۔ صرف ہلکا سا مبالغہ ہے لیکن

    یارو یہ ابن ملجم پیدا ہوا دوبارہ
    شیر خدا کو جس نے بھیلوں کے بن میں مارا
    سودا

    مستعارمنہ (ابن ملجم اور شیر خدا) اور مستعارلہ (آصف الدولہ اور شیر صحرا) میں مماثلت کے قطعی عدم وجود کی وجہ سے اچھا شعر ہے۔ اگرچہ اپنے ممدوح ومحسن کو ابن ملجم ٹھہرانا اخلاقی حیثیت سے قبیح ہے، لیکن اس سے شعر کے حسن پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ممکن ہے آپ کی طبیعت میں اس شعر سے کراہت پیدا ہو اور سودا کی بدتہذیبی پرغصہ آئے (جیسا کہ میرے ساتھ ہوا ہے) لیکن یہ ذاتی پسند ناپسند کا معاملہ ہے۔ بہ قول افتخار جالب ہر ایک کو اپنا اپنا مرکب پسند کرنے کا اختیار ہے۔

    اب قائم کے ’’مگدر‘‘ کو دیکھیے۔ مگدر بھاری ہوتا ہے۔ عشق کا بوجھ دنیا جانتی ہے۔ اس طرح مستعارلہ اور مستعارمنہ میں بہت معمولی اختلاف ہے، لہٰذا یہ استعارہ خراب ہے۔ اب آپ کہیں یہ نہ کہہ دیجیےگا کہ ہمیں تو عشق اور مگدر میں بہت بڑا اختلاف نظر آتا ہے، کیوں کہ پھر مجھے یہ بھی بتانا پڑےگا کہ عشق اور مگدر میں بڑا اختلاف ہو تو ہو، لیکن عشق کے بوجھ اور مگدر کے بوجھ میں زیادہ اختلاف نہیں ہے۔ یہاں پر عشق کے بوجھ کا ذکر ہے، جس کے لیے مگدر جیسی بھاری چیز سے استعارہ کیا گیا ہے۔

     بات تو جب بنتی جب اس بوجھ کے لیے کسی انتہائی ہلکی چیز مثلاً امانت (جو ایک لفظ، ایک علم، ایک پیغام کی حیثیت سے غیرطبیعی، یعنی بوجھ سے قطعاً عاری بھی ہو سکتی ہے) کا استعارہ تلاش کیا جاتا۔ ’’خندۂ گل‘‘ کا استعارہ معمولی ہے (اگرچہ پیکر اچھا ہے) کیوں کہ خندہ اور گل کی مناسبت سامنے کی چیز ہے، لیکن ’’خندۂ زخم‘‘ کا استعارہ زوردار ہے، کیوں کہ خندہ اور زخم بادی النظر میں ایک دوسرے کے بالکل بر عکس ہیں۔ مناسبت کے ان نکات کو ان اشعار میں بھی دیکھیے،

    میر ان نیم باز آنکھوں میں
    ساری مستی شراب کی سی ہے

    ہے چشم نیم باز عجب خوب ناز ہے
    فتنہ تو سو رہا ہے درفتنہ باز ہے

    پہلا شعر، ظاہر ہے کہ میر کا ہے۔ دوسرے شعر کا پہلا مصرع ناسخ نے کہا تھا جس پر خواجہ وزیر نے فی البدیہہ مصرع لگایا۔ مناسبت کے اعتبار سے نہ میر کی تشبیہ میں کوئی خاص بات ہے نہ ناسخ و وزیر کے استعارے میں۔ آنکھوں کو شراپ کے پیالے بھی اکثر کہا گیا ہے اور فتنہ بھی۔ مگر دوسرے شعر میں پپوٹوں کو ’’درفتنہ‘‘ کہہ کر صاحب خانہ کے سوتے ہونے لیکن دروازہ کھلا ہونے کا ذکر کے ایک مکمل بصری پیکر خلق کیا گیا ہے۔ اسی طرح میر کے شعر میں اصل خوبی تشبیہ میں نہیں ہے۔ بلکہ لفظ ’’میر‘‘ میں ہے۔ مثلاً اس مصرعے سے تخلص نکال کر اسے یوں کر دیا جائے،

    تیری ان نیم باز آنکھوں میں
    آج ان نیم باز آنکھوں میں
    ہائے ان نیم باز آنکھوں میں

    وغیرہ، تو شاعری فوراً غائب ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ دراصل، یہ شعر لفظ ’’میر‘‘ کے استعمال سے انکشاف اور تحیر کا پیکر بن گیا ہے۔ ’’میر! ان نیم باز آنکھوں‘‘ کہنے سے پیکر یہ بنتا ہے کہ کسی شخص نے اچانک یہ محسوس کیا ہے کہ ارے، ان نیم باز آنکھوں کا راز یہ ہے کہ ان کی ساری مستی شراب کی سی ہے۔ لہٰذا یہ شعر یا تو محبوب کا سامنا ہونے پر انکشاف کی صورت حال بیان کر رہا ہے، یا سامنا ہونے کے بعد تنہائی میں زیر لب کہی ہوئی بات ہے جس میں ایک رنجیدہ تمنائیت ہے یا اس اچانک احساس کا نقشہ کھینچ رہا ہے کہ کسی شخص نے دفعۃً یہ محسوس کیا کہ اس کے اوپر جو نشہ کی سی کیفیت طاری تھی (یا ہے) وہ ان نیم باز آنکھوں کی وجہ سے تھی (یا ہے۔) 

     اگر ’’ان‘‘ کو ’’اِن‘‘ پڑھا جائے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شعر تنبیہ کی صورت حال کا بیان ہے کہ میر، تو اس طرف مت دیکھ، یہ نیم باز آنکھیں شراب کا سانشہ رکھتی ہیں، تو انھیں دیکھ کر اپنے ہوش کھو دےگا۔ (یا ان کی مستی شراب کا سا اثر رکھتی ہے، شراب حرام ہے، تو کیوں ان کی طرف دیکھ کر شراب کا نشہ اپنے رگ وپے میں سرایت کرنے کا گناہ مول لیتا ہے۔) آخری صورت یہ ہے کہ اے میر، تو ان نیم باز آنکھوں کی مستی سے دھوکا نہ کھانا۔ یہ اصل مستی نہیں ہے، بلکہ شراب کی آوردہ مصنوعی اور کم تر درجے کی مستی ہے۔ (دل میں ایک چور بھی ہے کہ معشوق نے غیر کے ساتھ شراب تو نہیں پی ہے؟) علاوہ بریں لفظ ’’ساری‘‘ بھی تحیر اور انکشاف کی پشت پناہی کرتا ہے۔

    اس تجزیے کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں اگرچہ ناسخ و وزیر کے شعر کا حسن بھی پیکر کا خلق کردہ ہے، لیکن میر سے کم تر درجے کا ہے، کیوں کہ اگرچہ میر کا شعر بھی پیکر ہی کا مرہون منت ہے، لیکن (رچرڈس کی زبان میں) اس پیکر کے خلق کردہ محسوسات سے متعلق جو ذہنی واقعات منسلک ہیں وہ زیادہ متنوع ہیں۔ اس لیے میر کے جدلیاتی الفاظ میں نامیاتی زندگی زیادہ ہے، اس لیے میر کا شعر بہتر ہے۔ اسی تجزیے کی روشنی میں پیکر کی تعیین قدر کا اصول بھی طے ہو جاتا ہے۔ پیکر جس حد تک اور حواس خمسہ میں جتنے زیادہ حواسوں کو متحرک کرے گا، اتنا ہی اچھا ہوگا۔ اس کی مثال میں ہوائی جہاز والے جملوں کے ذریعہ دے چکا ہوں، لہٰذا اعادے کی ضرورت نہیں ہے۔

    اتنا لمبا سفر کرنے کے بعد ہم اپنے نقطۂ آغاز یعنی قائم، حافظ اور آزردہ کے اشعار پر واپس آتے ہیں۔ قائم اور حافظ کے اشعار کی روشنی میں آزردہ کا شعر پھر پڑھیے،

    کامل اس فرقۂ زہاد سے اٹھا نہ کوئی
    کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح خوار ہوئے

    حافظ کا شعر استعاروں سے مملو ہے، لیکن وہ استعارے مستعارمنہ، سے منسلک ہیں۔ آزردہ کے استعارے حافظ کے استعاروں کا استعارہ ہے۔ حافط کا آسمان، آزردہ کا فرقۂ زہاد، حافظ کا بار امانت، آزردہ کا کمال، حافظ کا بار امانت کش، آزردہ کا کامل۔ حافظ کا من دیوانہ، آزردہ کے رند، جن کے ساتھ قدح خوار کا استعارہ مضاعف ہے۔ صرف زدن کا کوئی استعارہ آزردہ کے یہاں نہیں ہے، یہاں اس کی کمی ہے۔ جیسا کہ میں اوپر دکھا چکا ہوں، قرعۂ فال زدن کا استعمال کرکے حافظ نے معنی کے چند نئے پہلو نکالے ہیں جو قرآن کی آیت سے بالکل الگ ہیں۔ لیکن استعارہ در استعارہ ہونے کی وجہ سے آزردہ کا شعر ایک استعارے (اور اس کی مخفی معنویتوں) کی کمی کے باوجود اسی درجہ شاعری کا حامل ہے جتنا حافظ کا۔

     کیوں کہ آزردہ کے استعارے حافظ کے استعاروں کو محیط ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے معنی بھی رکھتے ہیں۔ یعنی یہ کہ رند مشرب لوگ ہی دراصل درجہ کمال کو پہنچتے ہیں، زاہد وعابد لوگوں کے بس کا یہ روگ نہیں۔ اب یہاں ابہام بھی داخل ہو جاتا ہے، کیوں کہ فرقۂ زہاد کی ناکامی کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں (گرمئ عشق کا فقدان اور ظواہر پر زور، ریا کاری، دون ہمتی، معرفت کا فقدان، کیوں کہ معرفت اسی کو ملتی ہے جو پابندئ رسوم سے انکار کرے وغیرہ) لیکن بیان نہیں کیے گیے ہیں۔ اسی طرح رندان قدح خوار، صوفی صافی لوگوں کا بھی استعارہ ہیں اور مردان آزاد مشرب کا بھی وغیرہ۔ حافظ کے شعر میں ابہام استعاروں کا پیدا کردہ ہے، آزردہ کا شعر اصلاً مبہم ہے، اس لیے شعر فہمی کے لیے زیادہ راہیں فراہم کرتا ہے۔ ان مزید توضیحات کی روشنی میں اگر یہ کہا جائے کہ آزردہ حافظ سے چھوٹے شاعر سہی، لیکن ان کا یہ شعر حافظ سے بڑھا ہوا ہے، تو چنداں غلط نہ ہوگا۔ بہر حال یہ بات تو پوری طرح ثابت ہو ہی چکی ہے کہ قائم کا شعر ان دونوں سے بہت نیچے ہے۔

    تشبیہ/استعارے کی ایک معروضی خوبی یہ بھی ہوتی ہے (جو متذکرہ خوبی کا دوسرا رخ ہے) کہ اگر چہ طرفین میں بہت زیادہ مغائرت نہ ہو لیکن مماثلت کا جو پہلو ڈھونڈا جائے وہ بہ آسانی نظر نہ آ سکتا ہو یا جس پر دوسروں کی نظر نہ گئی ہو۔ اس سے یہ نتیجہ لازم ہے کہ اگر طرفین میں مغائرت بھی بہت زیادہ ہو اور مماثلت کا جو پہلو ڈھونڈا جائے وہ آسانی سے نظر نہ آ سکتا ہو یا اس پر دوسروں کی نظر نہ گئی ہو تو اس سے بہتر تشبیہ یا استعارہ ممکن نہیں۔ جدید استعارے کی قوت کا راز یہی ہے۔ لیکن فی الحال میر انیس کے اس بند کا مطالعہ مقصود ہے۔

    وہ روئے دل فروز وہ زلفوں کا پیچ وتاب
    گویا کہ نصف شب میں نمایاں ہے آفتاب

    ابرو کی ذوالفقار سے زہرہ قدح کا آب
    آنکھیں وہ جن سے نرگس فردوس کو حجاب

    پتلی کا رعب سب پہ عیاں ہے خدائی میں
    بیٹھا ہے شیر پنجوں کو ٹیکے ترائی میں

    دوسرے مصرعے کا پیکر بھی توجہ طلب ہے، لیکن ابھی آنکھوں کا ذکر ہو رہا تھا، اس نئے بیت کے استعارے کو اٹھائیے۔ آنکھ کی پتلی اور شیر میں نمایاں مغائرت ہے۔ اس استعارے میں وجدانی منطق کچھ یوں کار فرما ہوگی۔

    (۱) ممدوح کا چہرہ پر جلال ہے، شیر کی صورت پر بھی جلال برستا ہے۔ جلال کا اظہار آنکھوں سے ہوتا ہے اس لیے آنکھیں شیر کی طرح ہیں۔

    (۲) امام حسین کو شہ والا بھی کہا جاتا ہے، شیر بھی جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے۔ بادشاں پر جلال ہوتا ہے، آنکھیں اس جلال کا مطلع و مظہر ہوتی ہیں۔

    (۳) شیر جنگل میں رہتا ہے، میر انیس کے ذہن میں جنگل کا تصور ترائی ہی سے منسلک ہے، کہ ان کے زمانے میں پیلی بھیت، گونڈہ، سیتاپور سب ترائی کے جنگلوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ آنکھیں سیاہ پلکوں سے اور اپنی فطری نمی کی وجہ سے ترائی کے جنگل سے مشابہ ہیں۔

    (۴) اگر آنکھیں جنگل ہیں تو پتلیاں، کہ تاثر وجذبہ کا اظہار انھیں کے ذریعہ ہوتا ہے، اس جنگل کی سب سے ممتاز شے ہوئیں۔ جنگل کی سب سے ممتاز شے شیر ہوتا ہے، اس لیے پتلیاں شیر ہیں۔

    (۵) آنکھیں ہر وقت جلال کا مظہر نہیں ہوتیں، جلال ان میں خوابیدہ رہتا ہے، جو ذرا سی تحریک پر بپھر سکتا ہے، لیکن خوابیدگی کے عالم میں بھی ان کی ہیبت کی خلق کردہ نفسیاتی فضا جاگتی رہتی ہے۔

    (۶) آنکھیں بہ ظاہر پر سکون اور خواب ناک ہیں لیکن پھر بھی چاق و چوبند اور چوکس نظر آتی ہیں۔ جس طرح شیر جب پنجے اندر کی طرف موڑ کر آرام کے آسن بیٹھتا ہے تو بھی خبرداری اور چوکسی کا تاثر قائم رکھتا ہے۔ یعنی وہ بہ یک وقت بدن کو ڈھیلا چھوڑے ہوئے آرام کرتا ہوا پھر بھی چوکنا دکھائی دیتا ہے اور ذرا سی آہٹ پاکر مستعد ہو جاتا ہے، اسی طرح شہ والا کی پتلیاں بھی ہیں، جو بہ یک وقت پر سکون اور پر جلال تاثر کی حامل ہیں۔ بیٹھا ہے شیر پنجوں کو ٹیکے ترائی میں۔


    وجدانی منطق کی ان منازل کو واضح کرنے کے باوجود ابھی بہت سے پہلو باقی ہیں۔ علامتی مفہوم بھی دور نہیں ہے۔ استعارہ در استعارہ کے ساتھ ساتھ ہیبت ناک سکون اور پر اسرار بے تعلقی لیکن بے پایاں قوت و خود اعتمادی کا اتنا مکمل پیکر شاعری میں کم ملےگا۔ دراصل اس استعارے کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اس کی پشت پناہی ایک غیرمعمولی پیکر (پنجوں کو ٹیکے ہوئے ترائی میں بیٹھا ہوا شیر) کے ذریعہ ہو رہی ہے۔ اور یہ پشت پناہی اس قدر لازم و ملزوم کا حکم رکھتی ہے اور یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ استعارہ کہاں شروع اور پیکر کہاں ختم ہوتا ہے۔ پورا پیکر استعارہ بھی ہے اور پورا استعارہ پیکر بھی۔ لہٰذا جب استعارہ اور پیکر کا انضمام ہو جائے تو اعلیٰ ترین جدلیاتی لفظ جنم لیتا ہے، کیوں کہ پھر وہ علامتی استعارہ بن جاتا ہے۔ علامتی استعارے کا غیاب اور وجود مندرجہ ذیل اشعار میں دیکھیے،

    بوئے یارمن ازیں سست وفامی آید
    گلم ازدست بگیرید کہ ازکار شدم 
    نظیری

    تمام از گردش چشم تو شدکار من اے ساقی
    زدست من بگیرایں جام را از خویشتن رفتم 
    صائب

    کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا
    ساغر کو مرے ہاتھ سے لیجو کہ چلا میں 
    سودا

    حالی، سودا اور نظیری کے شعروں پر یوں اظہار خیال کرتے ہیں، ’’ازکارشدم‘‘ میں وہ تعمیم نہیں ہے جو اس میں ہے کہ ’’چلا میں۔‘‘ نہیں معلوم کہ آپے سے چلا یا دین ودنیا سے چلا، یا جگہ سے چلا یا کہاں سے چلا۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ’’چلا میں‘‘ ہمیشہ ایسے موقع پر بولا جاتا ہے جب آدمی مدہوش و بدحواس ہو کر گرنے کو ہوتا ہے۔ اور ’’ازکارشدن‘‘ میں یہ بات نہیں ہے۔ معطل ہونے، معذور ہونے، اپاہج اور نکمے ہونے کو بھی ’’ازکارشدن‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔‘‘ 

    تعجب ہے کہ اس درجہ شعر فہمی پر قادر شخص کے بارے میں کلیم الدین احمد لکھتے ہیں کہ ’’خیالات ماخوذ، شخصیت معمولی، نظر سطحی۔‘‘ سطحی نظر والے ’’چلا میں‘‘ اور ’’ازکارشدم‘‘ کے فرق کو کہاں محسوس کرتے ہیں اور ’’چلا میں‘‘ کو اس کے پیکری کردار اور ابہام (جس کوحالی نے ’’تعمیم‘‘ کہا ہے) کی بنا پر ’’ازکارشدم‘‘ سے کہاں بہتر کہہ سکتے ہیں؟ حالی نے بالکل صحیح سمجھا ہے کہ سودا نے ’’چلا میں‘‘ کہہ کر پیکر کی وضاحت اور استعارے کے ابہام کو یک جا کر دیا ہے۔ پیکر اور استعارے کے اس ادغام کی وجہ سے سودا کا شعر نظیری سے بہت بہتر ہے، اگرچہ یہاں بھی آنکھوں کے نشیلے پن کی بات ہے جو ایک معمولی استعارہ ہے۔ شعر کی خوبی ’’کیفیت چشم‘‘ میں نہیں ہے، جو ایک عمومی اور سطحی بیان ہے، بلکہ ’’چلا میں‘‘ کے علامتی استعارے میں ہے۔ حالی کے اسی اصول پر صائب کا شعر پرکھا جائے تو یہی بات پھر سامنے آتی ہے۔ بہ ظاہر تو سودا نے صائب کا ترجمہ ہی کر ڈالا ہے۔

     لیکن ’’ازخویشتن رفتم‘‘ میں بھی وہی محدود معنویت ہے جو ’’ازکارشدم‘‘ میں ہے، بلکہ اس سے کم ہی ہے، کیوں کہ بہر حال ’’ازکارشدن‘‘ کے اور معنی بھی ہوتے ہیں، چاہے سیاق وسباق میں وہ بہت زیادہ مناسب نہ ہوں، لیکن ’’ازخویشتن رفتن‘‘ کے معنی محض ’’ہوش کھو دینے‘‘ کے ہیں، یہاں ’’مدہوش و بدحواس‘‘ ہونے تک کی بات تو ہے، لیکن مدہوش ہو کر گرنے کا پیکر موجود نہیں ہے، اور نہ وہ امکانات ہیں جن کی طرف حالی نے اشارہ کیا ہے۔ اسی طرح صائب نے ساقی سے خطاب کرکے اپنی مدہوشی کو ایک شخص موجود سے متعلق کر دیا ہے۔

     سودا کا ’’اس‘‘ کسی شخص موجود کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ یہ بھی کہنا مشکل ہے کہ کسی شخص واقعی ہی کے بارے میں ہے۔ ’’اس‘‘ کی تخصیص نہ ہونے کی وجہ سے ہم اسے خواب میں دیکھا ہوا کوئی پیکر، نشے میں سوجھی ہوئی کسی پری کی شبیہ، خیال میں جھلکی ہوئی کسی حسینہ، حتی کہ کسی فینٹسی زدہ منظر سے بھی متعلق کر سکتے ہیں جس میں مسحور کن آنکھیں افق تا افق چھائی ہوئی ہیں۔

     لہٰذا لفظ ’’اس‘‘ کا ابہام اسے استعارے کے قریب لے آتا ہے۔ پھر ’’گردش چشم‘‘ اور ’’کیفیت چشم‘‘ کے فرق پر غور کیجیے۔ اگرچہ آنکھوں کے نشیلے پن کا استعارہ پیش پا افتادہ ہے، لیکن پھر بھی ’’گردش چشم‘‘ کی طرح واضح بیان نہیں ہے۔ سودا جس چیز سے متاثر ہوئے ہیں وہ آنکھوں کا نشیلا پن، ان کی گردش، ان کی لگاوٹ ان میں سے کوئی بھی ایک چیز یا یہ سب چیزیں ہو سکتی ہیں (علاوہ بریں اور بھی بہت سی کیفیات ہیں جن کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔) ’’گردش‘‘ کا لفظ صرف ایک کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔ پھر ’’ایں جام‘‘ کی جگہ صرف ’’ساغر‘‘ کہہ کر سودا نے صورت حال کی غیرقطعیت یعنی اس کی معنویت اور بڑھا دی ہے۔

     پیکر کا ایک لازمہ یہ بھی ہے کہ اس میں الفاظ جس قدر کم استعمال ہوں گے، اس کی وضاحت زیادہ ہوگی (وضاحت سے معنی کی وضاحت نہیں، بلکہ پیکری Imagistic وضاحت مراد ہے۔) مثلاً پرندہ اپنے پر پھڑپھڑاتا ہوا اڑ گیا، میں وہ وضاحت نہیں ہے جو ’’پرندہ پر پھڑپھڑا کر اڑ گیا‘‘ میں ہے۔ سودا نے ایں (یعنی اس) کا غیر ضروری لفظ خارج کرکے مصرع ثانی کی پیکریت میں اضافہ کر دیا ہے۔ آخر میں ’’مجھے یاد ہے‘‘ کی مختلف معنویتوں پر بھی غور کیجیے۔ ممکن ہے ساغر اس لیے ناقابل قبول ہو کہ کیفیت چشم میں جو سکر تھا وہ ساغر میں نہیں ہے۔

    اب بذات خود مبہم پیکر کا نمونہ دیکھیے، جس میں علامتی استعارے کی کیفیت یہ ہے کہ پیکر ہی استعارے کا کام کر رہا ہے۔ میر انیس کے دوسرے مصرعے، گویا کہ نصف شب میں نمایاں ہے آفتاب، میں پیکر مجرو اور غیرمنسلک ہے۔ بیت کے مصرعے، بیٹھا ہے شیر پنجوں کو ٹیکے ترائی میں، کا پیکر ہی استعارہ بھی ہے۔ سودا کا پیکر ’’کہ چلا میں‘‘ بھی استعارہ اور پیکر کا بہ یک وقت عمل کر رہا ہے۔ اب جس شعر کا مطالعہ مقصود ہے اس میں محض پیکر ہے، استعارہ بالکل نہیں ہے لیکن پیکر کے ساتھ جس قسم کے ذہنی واقعات وابستہ ہیں وہ استعارے کی تاثیر پیکر میں پیدا کر دیتے ہیں،

    غم کا نہ دل میں ہو گزر وصل کی شب ہو یوں بسر
    سب یہ قبول ہے مگر خوف سحر کو کیا کروں 
    حسرت

    تنہا نہ روز، ہجر ہے سودا پہ یہ ستم
    پروانہ ساں وصال کی ہر شب جلا کرے 
    سودا

    شام شب وصال ہوئی یاں کہ اس طرف
    ہونے لگا طلوع ہی خورشید رو سیاہ 
    میر

    میر انیس کا آفتاب تینوں شعروں میں نمایاں ہے۔ لیکن سودا کا شعر حسرت سے بہت بہتر ہے۔ میں اس پر غور کرتا ہوں تو وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ تو معلوم ہو جاتا ہے کہ حسرت کے شعر میں خرابی کی مشینی وجہیں کیا ہیں، لیکن حسرت کی کمزوری جان لینے سے سودا کی مضبوطی نہیں ثابت ہوتی۔ سودا کے یہاں پیکر بھی کوئی خاص نہیں ہے، اگرچہ برجستگی یا بندش کی چستی موجود ہے لیکن برجستگی اور بندش کی چستی کو ہم نثر کی خوبیاں کہتے ہیں اور شاعری کے ٹاٹ سے باہر کر چکے ہیں، علاوہ بریں میں جس معروض کی تلاش میں ہوں، وہ برجستگی اور بندش کی چستی سے نہیں ادا ہوتا۔ حسرت کا مشینی عیب واضح ہے۔ دوسرے مصرع میں ’’سب یہ قبول ہے مگر‘‘ غیر ضروری ہے یا زیادہ سے زیادہ رعایت کر کے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ لفظ ’’مگر‘‘ کافی ہے۔ نثر یوں ہوگی، وصل کی شب یوں بسر ہو (کہ) غم کا دل میں گزر نہ ہو، مگر خوف سحر کو کیا کروں۔

    ’’سب یہ قبول ہے‘‘ کا ٹکڑا اس لیے بھی نادرست ہے کہ شرط صرف ایک بیان کی گئی ہے، غم کا دل میں گزر نہ ہو، لیکن صفت جمع ’’سب‘‘ رکھی ہے، جو بول چال کی ڈھیلی ڈھالی زبان میں تو در گزر کیا جا سکتا ہے، لیکن شعر کی ٹھساٹھس بھری ہوئی دنیا میں اس کی جگہ کہاں۔ بہر حال، اگر ’’سب یہ قبول ہے‘‘ کا ٹکڑا حذف کر کے کچھ اور الفاظ رکھ دیے جائیں جو اس کی طرح نادرست اور غیر ضروری نہ ہوں تو کیا یہ شعر سودا کا ہم پلہ ہو سکتا ہے؟ مثلاً اگر یہ شعر یوں کہا گیا ہوتا،

    غم کا نہ دل میں ہو گزر وصل کی شب ہو یوں بسر
    مجھ کو قبول ہے مگر خوف سحر کو کیا کروں
    بات تو ٹھیک ہے مگر خوف سحر کو کیا کروں
    کہنا ترا بجا مگر خوف سحر کو کیا کروں
    مجھ کو بھی ہے خبر مگر خوف سحر کو کیا کروں

    تو کیا صورت حال ہوتی؟ یہ تو مانی ہوئی بات ہے کہ میرے خودساختہ مصرعوں میں اصل مصرعے کا عیب نہیں ہے، اس لیے اس حد تک تو یقیناً شعر بہتر ہوا ہے، اور اب اس میں وہی خوبی ہے، یعنی برجستگی اور غیر ضروری الفاظ کا عدم وجو، د جو سودا کے شعر میں ہے لیکن پھر بھی سودا کا شعر بہتر ہے۔ تو کیا اس وجہ سے کہ سودا کے یہاں جدلیاتی لفظ (یعنی تشبیہ، پروانہ ساں) استعمال ہوا ہے؟ لیکن تشبیہ کے بارے میں میں دعوا کر چکا ہوں کہ طرفین میں جتنی مغائرت ہوگی، تشبیہ اتنی ہی اچھی ہوگی۔ یہاں مغائرت کچھ نہیں، مماثلت بالکل سامنے کی ہے۔ میں اس طرح جل رہا ہوں جس طرح پروانہ جلتا ہے۔ نہایت معمولہ تشبیہ ہے۔

    تو کیا سودا کے شعر کا آہنگ بہتر ہے؟ لیکن سطح پر دکھائی دینے والے آہنگ کی حد تک تو حسرت کا شعر زیادہ مترنم ہے۔ اندرونی قافیہ بھی ہے (گزر، بسر، مگر) بحر بھی ایسی ہے کہ اسے ہمارے نقاد عروضی اور مترنم کہتے آئے ہیں۔ سودا کے یہاں تو ایسی کوئی بات نہیں۔ ذرا اور گہرے اتریے۔ عروض کی زبان میں کہا جائے تو حسرت کے مصرعوں کا وزن مفتعلن مفاعلن مفتعلن مفاعلن ٹھہرتا ہے۔ مفتعلن مفاعلن کو اکائی فرض کیجیے تو ایک اکائی میں چار بڑی آوازیں (مف، لن، فا، لن) اور چار چھوٹی آوازیں (ت، ع، م، ع) سنائی دیتی ہیں۔ بڑی آوازوں کی ترتیب یہ ہے کہ مفتعلن کی دونوں بڑی آوازیں دائروی ہیں، کسی مصوتے پر ختم نہیں ہوتی۔ یعنی ’’مف‘‘ اور ’’لن‘‘ میں وہ طوالت نہیں ہے جو ’’مو‘‘ اور ’’لو‘‘ میں ہے۔

    مفاعلن کی پہلی بڑی آواز (فا) منحنی ہے، کیوں کہ مصوتے پر ختم ہوتی ہے اور لمبی ہے مگر دوسری بڑی آواز ’’مف‘‘ کی طرح دائروی یعنی ’’لن‘‘ ہے۔ ظاہر کے مصوتی اور مصمتی آوازوں کی یہ ترتیب اس وزن کے لیے بہترین یعنی عینی Ideal ہوگی، کیوں کہ بہ صورت دیگر علمائے عروض پر آسانی مفتعلن مفاعلن کی فاع لتا فعالتا وغیرہ کچھ اور ارکان رکھ دیتے جو بہترین ترتیب کے حامل ہوتے۔ لہٰذا اگر اس وزن میں کہے گئے کسی شعر کی آوزیں اسی ترتیب سے آئیں جس ترتیب سے اصل وزن میں واقع ہوئی ہیں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس شعر نے آہنگ کی عینی ترتیب کو حاصل کر لیا ہے۔ اب حسرت کا شعر دوبارہ پڑھیے،

    غم کا نہ دل میں ہو گزر مفتعلن مفاعلن
    وصل کی شب ہوں یوں بسر مفتعلن مفاعلن

    سب یہ قبول ہے مگر مفتعلن مفاعلن
    خوف سحر کو کیا کروں مفتعلن مفاعلن

    آپ نے دیکھا کہ آوازوں کی ترتیب عینی وزن کی بالکل نقل ہے۔ ’’سب یہ قبول‘‘ میں ’’بو‘‘ اور ’’خوف سحر‘‘ میں ’’خو‘‘ اگرچہ مصوتے پر ختم ہوئے ہیں، لیکن چوں کہ لام اور فے ساکن دونوں کے فوراً بعد ان سے جڑے ہوئے ہیں، اس لیے آپ نہ ’’بو‘‘ کو بہت زیادہ طویل کر سکتے ہیں نہ ’’خو‘‘ کو۔ لہٰذا حسرت کا شعر عینی آہنگ کا حامل ہے۔ تین اندرونی قافیے بھی موجود ہیں، ردیف وقافیہ میں کاف کی تکرار نے آہنگ اور بھی مرتعش ومتحرک کر دیا ہے، جس میں گزر، بسر اور مگر کے آخر میں آنے والی رائے مہملہ نے بھی اپنا کام کیا ہے۔ ثابت ہوا کہ حسرت کا شعر ظاہری آہنگ کے اعتبار سے سودا سے بڑھا ہوا نہیں تو برابر تو ہے ہی۔ اب اسی وزن میں اقبال کے شعر دیکھیے،

    گیسوئے تاب دارکو اور بھی تاب دار کر
    ہوش و خرد شکار کر قلب ونظر شکار کر

    آپ کہیں گے یہ مطلع ہے، مطلعے کا مقابلہ شعر سے کرنا زیادتی ہے لیکن یہ تو میرے دل کی بات ہوئی۔ شعر لیجیے،

    حسن بھی ہو حجاب میں عشق بھی ہو حجاب میں
    یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر

    وہ شب درد و سوز وغم کہتے ہیں زندگی جسے
    اس کی سحر ہے تو کہ میں اس کی اذاں ہے تو کہ میں

    میں نے حسرت کا صوتی تجزیہ کرتے وقت یہ بات نہیں کہی تھی کہ حسرت کے یہاں ترصیع کا حسن بھی ہے، اور حرف دبتے بھی نہیں ہیں۔ غم کا نہ دل مفتعلن ہو گزر مفاعلن۔ اقبال کے دوسرے مصرعے میں ترصیع بالکل نہیں ہے، ’’آشکار‘‘ دو ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ یا تو خود آمفتعلن شکار ہو مفاعلن یا مجھے آ مفتعلن شکار کر مفاعلن۔ ’’کہتے ہیں زندگی جسے‘‘ میں ترصیع بھی غائب ہے، اور ’’کہتے‘‘ کی یائے مجہول دبتی بھی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اقبال کے شعر بہتر آہنگ کے حامل ہیں۔ حسرت کی طرح یہاں رائے مہملہ یا اس طرح کی کسی مرتعش آواز کی کثرت بھی نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ ’’آشکار کر‘‘ میں کاف عربی اور رائے مہملہ کی اور ’’اذاں ہے تو کہ میں‘‘ میں نون غنہ طویل کی تکرار ہے، کوئی ظاہری کرتب نہیں استعمال کیا گیا ہے۔

     اب میں آپ کو اپنے پچھلے تجربے کی یاد دلاؤں گا جہاں میں نے غالب کا ہم وزن وہم زمین شعر کہا تھا اور پوچھا تھا کہ اس میں غالب کا سا آہنگ کیوں نہیں ہے۔ اس سوال کو یوں بھی پوچھ سکتے ہیں کہ میرے گڑھے ہوئے شعر میں آہنگ اس قدر و قیمت کا حامل کیوں نہیں تھا جو غالب کے آہنگ میں ہے؟ اگر یہ کہا جائے کہ غالب کے شعر میں آوازوں کی جو ترتیب تھی، مصوتوں اور مصمتوں کا جو نظام تھا، وہ میرے خودساختہ شعر میں نہیں تھا اور ہر برٹ ریڈکی زبان میں جواب دیا جائے کہ کلام اس وقت شاعری بن جاتا ہے جب موضوع کو آہنگ کے مناسب ہئیت مل جاتی ہے، تو میں کولرج کی اصطلاح میں یہ نہ کہوں گا (اگرچہ کہہ سکتا ہوں) کہ ہر موضوع کی ہئیت (جس میں آہنگ شامل ہے) اس کے ساتھ ہی پیدا ہوتی ہے، بلکہ رچرڈس کی مثال دے کر اپنے موقف کو واضح کروں گا۔

    رچرڈس نے ملٹن کی نظم ’’صبح مولود مسیح‘‘ On the morning of Christ’s Nativity سے ہو بہو ملتے ہوئے ظاہری آہنگ میں ایک مہمل نظم کہہ کر پوچھا ہے کہ اس نظم میں ملٹن کی سی خوب صورتی کیوں نہیں ہے؟ اگر خوب صورتی آہنگ کا ایک جز تھی تو آہنگ تو موجود ہے، پھر خوبصورتی کیوں نہیں؟ میں بھی اقبال کی ہو بہو نقل میں ایک شعر کہتا ہوں،

    جرم بھی ہو نقاب میں، برق بھی ہو نقاب میں
    یاتو سلا کے وار ہو یا اسے آکے وار کر

    رچرڈس کی اصلاح کرنے کی کوشش چھوٹا منھ بڑی بات سہی، لیکن چھوٹے منھ کا کچھ تو حق ہے۔ اس لیے میں یہ کہتا ہوں کہ کسی شعر کے ظاہری آہنگ کی ہوبہو نقل صرف وہ شعر ہی ہو سکتا ہے، کیوں کہ ہر مصمتے اور مصوتے کا اپنا آہنگ ہوتا ہے۔ ’’حسن‘‘ کا جو آہنگ ہے وہ ’’جرم‘‘ کا نہیں ہے، جو ’’حجاب‘‘ کا ہے وہ ’’نقاب‘‘ کا نہیں ہے۔ مگر اس باریک فرق کے علاوہ اقبال اور میرے خود ساختہ مہمل، ملٹن اور رچرڈس کے خود ساختہ مہمل میں کوئی فرق نہیں۔

    ظاہر ہے کہ اقبال اور ملٹن کے آہنگ کی ساری قدروقیمت مجرد مصوتوں اور مصمتوں میں نہیں ہے، بلکہ اس کا بہت بڑا حصہ اس ترتیب ونظم اور طوالت و اختصار میں ہے جو ان آوازوں کے مجموعوں کا خاصہ ہے، جیسا کہ میں اوپر دکھا چکا ہوں۔ لہٰذا میرے خودساختہ شعر نے مشینی طور پر اقبال کے آہنگ کا بہت بڑا حصہ ضرور حاصل کر لیا ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ خودساختہ مہمل کے آہنگ میں وہ حسن نہیں ہے جو اقبال میں ہے۔ رچرڈس کہتا ہے، ’’اس مزکی اور مطہر بے جان مورتی اور اصل (نظم) کے آہنگ میں جو فرق ہے وہی بے جان مورتی کو شاعرانہ خوبی سے عاری کر دیتا ہے۔‘‘ 

    الفاظ کے ’’نیم جادوئی غلبے‘‘ کا اقرار کرتے ہوئے بھی اسے اصرار ہے کہ جس قوت کے ذریعہ شعر ہمارے ذہنوں پر حکم رانی کرتے ہیں، وہ ان ’’جذباتی تاثیروں Influences کے باہم دگر اور بہ یک وقت عمل کی بنا پر ہے۔‘‘ جو ان کے ابہام اور غیرقطعیت ہی کے ذریعہ برپا ہوتا ہے۔

    ایسا نہیں ہے کہ آہنگ شعری حسن کا حصہ نہیں ہوتا۔ لیکن اپنے مشینی ڈھانچے کے علاوہ بقیہ سارا آہنگ معنی کا محکوم اور مرہون منت ہوتا ہے۔ اس مشینی ڈھانچے کی بھی اہمیت ہے، بلکہ بعض اوقات تو مشینی ڈھانچے کو ہی زیادہ اہمیت دینی ہوتی ہے، جیسا کہ میں نے اپنے ایک مضمون میں ظاہر کیا ہے۔ مشینی ڈھانچے میں تنوع بالآخر معنی میں تنوع کو راہ دیتا ہے۔ بہت سے الفاظ ایسے بھی ہیں جو شعر میں صرف اس وجہ سے نہیں استعمال ہوتے کہ ان کا وزن، شعر کے وزن میں نہیں کھپتا۔ ظاہر ہے کہ اس حد تک تو آپ کا شعر معنی سے محروم رہ ہی گیا۔ اس لیے متنوع مشینی ڈھانچوں کے استعمال کے ذریعہ متنوع الفاظ شعر میں داخل ہوتے رہتے ہیں۔

    ظاہری آہنگ وہ باطنی حد ہے، شعر جس سے باہر نہیں نکل سکتا۔ لہٰذا نہ صرف یہ کہ اس کا اپنا مستقل وجود ہے بلکہ یہ بھی کہ وہ اس حد تک معنی پر حکومت بھی کرتا ہے۔ ڈرائڈن نے قافیہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اچھا قافیہ وہ ہے جو خود مضمون سے پیدا ہوتا ہے نہ کہ وہ جو مضمون کو پیدا کرے۔ حالاں کہ حقیقت اس کے برعکس بھی ہو سکتی ہے، اکثر مضامین صرف اسی لیے سوجھتے ہیں کہ قافیہ ان کی طرف رہ نمائی کرتا ہے۔ رعایت لفظی کی بے مثال خوبی کے حامل شاہ نصیر کے اس مطلع کو دیکھیے،

    خیال زلف دوتا میں نصیر پیٹا کر
    گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر

    ناسخ نے اس کے بارے میں بہت عمدہ بات کہی ہے کہ اگر نصیر تخلص نہ ہوتا تو یہ مطلع ذہن میں نہ آتا۔ شیلی نے بھی اپنی مشہور نظم Epipsycbidiom کا جو پہلا مسودہ چھوڑا ہے اس میں جگہ جگہ صرف قافیے لکھے ہوئے ہیں، مصرعوں کا پتہ نہیں ہے۔ یہی معاملہ ظاہری یا مشینی آہنگ کے ساتھ بھی ہے، کبھی کبھی خیال ظاہری آہنگ کو جنم دیتا ہے تو کبھی کبھی ظاہری آہنگ بھی خیال کو خلق کرتا ہے۔

    لیکن مشینی آہنگ کی یہ اہمیت صرف مبادی Preliminary حیثیت رکھتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اقبال کے شعر حسرت اور میرے شعروں سے اچھے نہ ہوتے۔ مشینی آہنگ نے تو اپنا کام کر دیا۔ حسرت کے شعر میں جتنی خوبی ممکن تھی، آگئی، لیکن معنی کے پیدا کردہ آہنگ کا کہیں پتہ نہیں۔ میں نے جو آہنگ کی خوبی کو شعر کی پہچان نہیں قرار دیا ہے تو وہ اسی لیے کہ معنی کی خوبی اور پیچیدگی جہاں ہوگی وہاں آہنگ کی خوبی اور پیچیدگی بھی ہوگی۔ اور اس لیے بھی کہ معنی اور آہنگ کی اس تقریباً مکمل وحدت کی وجہ سے آہنگ کا آزاد اور معنی سے ماورا وجود معروضی طور پر ثابت نہیں ہو سکتا۔

     جب غالب چراغان شبستان دل پروانہ کہتے ہیں تو آہنگ کی خوبی صرف حرف نون و الف کی تکرار میں نہیں ہے، بلکہ الگ الگ الفاظ کا آہنگ مرکب اضافی کی شکل میں آکر کچھ اور ہی صورت اختیار کرتا ہے، اور مرکب پیکر کی شکل میں آکر ایک اور بعد Dimension کا حامل ہو جاتا ہے۔ اس پیکر کی معنوی دنیا آزاد ہے اور اس صوتی نظام سے منسلک ہونے کے باوجود جو مرکب اضافی میں مضمر ہے، یہ دنیا اس مرکب اضافی کے حدود کی پابند نہیں ہے، اگرچہ اس کے بغیر وجود میں نہ آتی۔

    اس کو یوں دیکھیے، چراغاں، شبستاں، دل، پرانہ۔ یہ سب الفاظ اپنا اپنا آہنگ رکھتے ہیں۔ جب یہ مرکب اضافی بنتے ہیں تو اپنے اپنے آہنگوں کو ساتھ لاتے ہیں۔ ان کے ٹکراؤ، اتصال اور امتزاج سے ایک نیا آہنگ خلق ہوتا ہے۔ لیکن یہ مرکب پیکر بھی ہے اور پیکر کی حیثیت سے آہنگ کی ایک اور جہت رکھتا ہے جو اس تصویر یا تاثر یا انسلاک سے متعلق ہے جو کہ پیکر نے خلق کی ہے، یعنی اس معنوی فضا سے متعلق ہے جو کہ پیکر نے بنائی ہے۔ چراغان شبستاں کا ایک معنوی تاثر ہے جو خیابان زمستاں کا نہیں ہے۔ یہ معنوی تاثر اس آہنگ سے بھی پیدا ہوا ہے جو چراغان شبستاں میں ہے، کیوں کہ اس مرکب کے آہنگ میں ایک گرمی اور بےقراری ہے جس کا تاثر اس گرمی سے مربوط ہے جس کا ہیولی چراغاں اور شبستاں کے معنوی پہلو کا مرہون منت ہے۔

     اس طرح آہنگ کی تیسری منزل آتی ہے، جس میں الگ الگ الفاظ مرکب اضافی سے ٹکرا رہے ہیں۔ گویا تین منزلیں یہ ہوئیں، لفظ واحد، لفظ مرکب (جس میں مرکب کے الفاظ ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔) اور پیکر، جس میں لفظ واحد، لفظ مرکب سے ٹکراتا ہے۔ غالب کے متنوع آہنگ کی اصل وجہ ان کے مرکبات اضافی میں نہیں ہے۔ بلکہ اس بات میں ہے کہ ان کے اکثر مرکبات پیکر بھی ہوتے ہیں۔ پیکر کی شکل میں آکر مرکب کے معنی بدل جاتے ہیں اور یہ معنی آہنگ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ میر کے یہاں متنوع آہنگ کی کمی اسی وجہ سے ہے کہ ان کے پیکر مرکب کی شکل میں بہت کم آئے ہیں۔ شبلی نے اسی حقیقت کی طرف یوں اشارہ کیا ہے کہ میر انیس کی بہت سی تشبیہوں میں ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ مرکب ہیں۔

    حاصل کلام یہ کہ حسرت کا شعر ظاہری آہنگ کے اعتبار سے سودا کے شعر سے کچھ بڑھا ہی ہوا ہے، لیکن اس کا معنوی آہنگ سودا سے بہت کم ہے، اس لیے وہ کم تر درجے کا شعر ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو میرا خود ساختہ مہمل بھی اقبال کے شعر سے بہت فروتر نہ ہوتا، تھوڑا ہی کم ہوتا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ معنوی آہنگ، (یا اس موضوعی اصطلاح کو ترک کر کے صرف معنویت پر اکتفا کی جائے) یہ معنویت کہاں سے آئی ہے؟ یہاں حالی کا فارمولا پوری طرح منطبق نہیں ہوتا، کیوں کہ اس شعر میں جدلیاتی لفظ تو ہے نہیں۔ اور ابہام اس طرح کا نہیں ہے کہ بہت سے معنی پیدا ہوں۔ یہ درست ہے کہ اس شعر میں ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کی طرح کا ابہام نہیں ہے، لیکن ایک دوسری طرح کا ابہام ہے جس پر گفتگو بعد میں ہوگی۔

     اس وقت رچرڈس کے اس دعوے کا ثبوت فراہم کرنا مقصود تھا کہ آہنگ محض چند لفظی کرتبوں کا نام نہیں بلکہ پوری شخصیت کا اظہار ہے۔ اسی شخصیت کا ایک اظہار یہ بھی ہے کہ جہاں حسرت وصل کی شب کہتے ہیں وہاں سودا روز ہجر سے بات شروع کرتے ہیں۔ حسرت نے خوف سحر کا اظہار کر دیا ہے اور اپنے جذباتی عدم توازن کی وجہ بیان کر دی ہے۔ سودا نہ سحر کا ذکر کرتے ہیں اور نہ خوف کا، وہ صرف جلنے کا ذکر کرتے ہیں۔ اس جلنے کی وجہ خوف سحر بھی ہو سکتی ہے، رشک بھی ہو سکتا ہے، انتہائے شوق بھی ہو سکتا ہے۔ (کیوں کہ پروانہ انتہائے شوق میں جل مرتا ہے۔) 

    حسرت کا خوف ایک مادی، جسمانی اور خودغرضانہ جذبہ ہے، وہ صرف اپنی غرض کی وجہ سے رات کی طوالت کے متمنی ہیں، سودا کے یہاں رات کی طوالت کا ذکر نہیں ہے، کیوں کہ ان کا جلنا اصلاً سپردگی کا جلنا ہے۔ روز ہجران کو دوری کی وجہ سے جلاتا ہے اور شب وصال قرب کی وجہ سے خاک کرتی ہے۔ اس شعر کا ابہام یہ ہے کہ بہ ظاہر یہ شعر رات کے اختصار کا ماتم کرتا ہے، لیکن دراصل یہ ایک مابعد الطبیعیاتی تجربے کا اظہار ہے، شعر جس کے لیے صرف بہانہ ہے اور بس۔ اب میر کا شعر پھر پڑھیے،

    شام شب وصال ہوئی یاں کہ اس طرف
    ہونے لگا طلوع ہی خورشید روسیاہ

    فنی نقطۂ نطر سے یہ شعر سودا سے کم تر ہے، کیوں کہ دوسرے مصرع میں بہ ظاہر لفظ ’’ہی‘‘ زائد ہے، لہٰذا اس میں وہی عیب ہے، اگرچہ اس درجے کا نہیں، جیسا حسرت کے یہاں ہے۔ جس تجربے کا اظہار کیا گیا ہے وہ بھی بہ ظاہر حسرت سے قریب تر ہے، کیوں کہ یہاں بھی خودغرضی کا رونا ہے کہ رات بہت چھوٹی ہے۔ لیکن پھر بھی یہ سودا سے آگے کی شعری منزل ہے، کیوں کہ اس کا ابہام طے نہیں ہو سکتا۔ شام ہوتے ہی سورج نکلنے لگتا ہے یعنی صبح ہونے لگتی ہے۔ میر نے رات کی طوالت کو موضوعی تجربے کی مدد سے ایک لمحے میں سمٹا دیا ہے۔ یعنی رات اتنی چھوٹی معلوم ہوتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے آئی ہی نہیں، شام ہوئی نہیں کہ سویرا بھی آ گیا۔

     لیکن کیا یہ محض ایک موضوعی اور داخلی تجربہ ہے، یعنی یہ صرف محسوس ہوا ہے کہ شام اور صبح کے درمیان کوئی فصل نہیں، یا واقعی ایسا ہوا ہے؟ ممکن ہے صبح کا دھوکا ہوا ہو۔ چاند کی روشنی سورج کی چمک کے سامنے اس قدر ماند ہے (ماند کے اصل معنی کالے کے ہیں) کہ اسے ایک سیاہ سورج کہا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے چاند کو دیکھ کر دھوکا ہوا ہو کہ سورج طلوع ہو رہا ہے۔ سورج کے طلوع ہونے پر دل میں غصہ ہے کہ کم بخت کیوں آ گیا، محسوس ہوا کہ وہ روسیاہ (بمعنی منحوس) ہے۔ اس داخلی روسیاہی نے اس کے چہرے پر بھی کالک پھیر دی۔ چاند نکلتے دیکھ کر دھوکا ہوا کہ کالا سورج طلوع ہو رہا ہے۔

    یہ بھی ممکن ہے کہ سورج اصلی اور واقعی سورج ہو، وہ اس طرح کہ پہلے مصرعے میں استفہام فرض کیجیے۔ سورج کو اسی صورت میں طلوع ہونا چاہیے تھا کہ شام شب وصال ہو چکی ہوتی۔ شب وصال نہیں تو دن کا پیمانہ فضول ہے۔ سورج نکلنا اس بات کی علامت ہونا چاہیے کہ شب وصل بھی ہوتی ہے، ورنہ دن بھی رات ہے اور رات تو رات ہے ہی۔ سورج (جو بہر حال منحوس ہے کہ رات کے خاتمے کا اعلان کرتا ہے) کو نکلتے دیکھ کر استفہام ہے کہ شام شب وصال ہوئی بھی ہے کہ اس طرف خورشید روسیاہ طلوع ہی ہو رہا ہے؟ طلوع ہی ہو رہا ہے، اس محاورے کی طرح ہے، سمجھ بھی رہے ہو کہ پڑھ ہی رہے ہو؟ شام شب وصال ہوئی بھی ہے کہ بس طلوع خورشید ہی ہے؟ یعنی طلوع مہر کا جز ولازم (شب وصال) کہاں ہے؟

    ان تمام صورتوں میں ’’خورشید روسیاہ‘‘ ایک داخلی منظر بھی ہے، سورج نکلتے دیکھ کر جو غصہ آیا ہے اس کا تبادلہ بھی ہے (جس چیز پر غصہ ہوتا ہے اس کے ظاہر پر داخلی خواص چسپاں کر دیے جاتے ہیں۔ یہ گالی کی استعاراتی جہت کا خاصہ ہے۔) ایک پیکر بھی ہے جو قول محال کا حکم رکھتا ہے۔ سورج سے زیادہ چمک دار چیز دنیا میں کوئی نہیں ہے، لیکن اس کی نامقبولیت اور ناخواندگی اور بے ضرورتی کے اظہار کے لیے اسے روسیاہ کہا گیا ہے۔ سورج کی چمک اور چہرے کی سیاہی کا تضاد مجتمع ہو کر ایک علامتی استعارے کی طرح ڈالتے ہیں۔ خورشید چمک دار نہیں ہے، یہ بھی نہیں کہ شعر کے جذباتی سیاق وسباق میں اپنی چمک کھو کر سیاہ ہو گیا ہو، بلکہ ہمیشہ رو سیاہ ہے۔ خورشید روسیاہ مرکب توصیفی بن جاتا ہے اور وقت کا پیمانہ ہونے کی حیثیت سے وقت کے گزرنے، اس کے مختصر ہونے، پھر واپس نہ آنے، سنگ دل ہونے اور لاپروا ہونے کی علامت کہا جا سکتا ہے۔ اس طرح میر کا شعر سودا سے بھی بہتر ہے، کیوں کہ علامتی اظہار کی بنا پر اس کے معنی کی حدوں کا تعین نہیں ہو سکتا۔

    رابرٹ گریوز کہتا ہے کہ انگریزی شاعری کے سب سے نمایاں پیکر وہ ہیں جو لامسہ، ذائقہ اور شامہ کو متحرک کرتے ہیں۔ اردو میں زیادہ تر پیکری اظہار بصری اور صوتی رہا ہے۔ اگرچہ نئے شاعروں کے یہاں مذوقات اور ملموسات کا بھی استعمال ہوا ہے۔ لیکن گریوز کی نظر میں پیکر کی اہمیت صرف زمینی ہے، وہ مجبور بھی ہے کیوں کہ اس کی زبان میں مرکبات نہیں پائے جاتے جو پیکر کو ورائے زمین کر دیتے ہیں۔ مرکبات کے علاوہ اردو کی نئی شاعری میں ایک اور حسن یہ بھی ہے کہ پیکر اور استعارے کا امتزاج اس طرح ہے کہ ایک ہی لفظ بہ یک وقت استعارہ بھی ہے اور پیکر بھی۔ میں نے اوپر جو مثالیں دی ہیں ان سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ جدلیاتی الفاظ کا یہ بہترین استعمال ہے۔

     راشد کے یہاں استعارہ زیادہ ہے، پیکر کم، جب کہ فیض نے پیکر کا استعمال زیادہ کیا ہے، مرکبات کی کمی ان کے آہنگ کو پیچیدہ نہیں ہونے دیتی۔ میراجی کے یہاں بھی فیض کی طرح مرکبات کم ہیں، لیکن جب کہ فیض کے پیکر داخلی منظر کو ابھارتے ہیں، اس لیے زیادہ تر بصری ہیں، میراجی واحد شاعر ہیں جو پانچوں حواس پر قادر ہیں۔ نئی شاعری جو میرا جی کی طرف بار بار جھکتی ہے اور ان کے یہاں سے اپنا جواز ڈھونڈتی ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔ ورنہ مایوسیاں، محرومیاں، الجھنیں، جنسی جذبے کے متعلق کرید، یہ چیزیں بذات خود شاعری نہیں بناتیں۔ ہم شاعری سے صرف اس لیے متاثر ہوتے ہیں کہ وہ شاعری ہے، متاثر ہو لینے کے بعد اس میں اقدار ڈھونڈتے ہیں۔ اگر شاعری اچھی نہ ہوگی تو اقدار سے کس کا پیٹ بھرےگا۔

     یہ الگ بات ہے کہ جس کے یہاں جتنی اچھی شاعری ہوگی اسی تناسب سے تجربات کی بھی کثرت ہوگی۔ واضح رہے کہ میں تجربات ہی کو قدر سمجھتا ہوں، موعظت اور محسنت کو نہیں۔ الیٹ کا یہ قول نہایت جانب داری پر مبنی ہے کہ ہم یہ فیصلہ ادبی معیاروں ہی کے ذریعہ کر سکتے ہیں کہ کوئی تحریر ادب ہے کہ نہیں۔ لیکن یہ طے کرنے کے لیے کہ کوئی ادب بڑا ادب ہے کہ نہیں، ہمیں غیر ادبی معیارروں سے رجوع کرنا ہوگا۔ اس مضمون کو ذرا پھیلائیے تو منطق یوں چلتی ہے، فرض کیا وہ غیرادبی معیار جس کی کسوٹی پر ہم ادب کی عظمت کو پرکھیں گے، اخلاق ہے۔ اب سوال یہ ہوگا کہ کس کا وضع کیا ہوا قانون اخلاق؟ ظاہر ہے کہ جواب یہی ہوگا کہ وہی قانون بہترین ہے جس کے ہم پابند ہیں۔ فرض کیا کہ ہم قانون الف کے پابند ہیں، لہٰذا جس ادب میں قانون الف کی کارفرمائی ہے وہ بڑا ادب ہے۔

    لیکن ہمارا پڑوسی تو قانون جیم کو مانتا ہے، اس لیے اس کی نظر میں وہی ادب عظیم ہے جس میں قانون جیم کی کارفرمائی ہے۔ اب فرض کیا کہ قانون الف اور قانون جیم کے ماننے والوں میں اختلاف رائے ہوا۔ اختلاف بڑھتے بڑھتے جنگ تک پہنچا، جنگ میں قتل وخون ہوتا ہی ہے، الف کو شکست ہوئی۔ اب جیم نے ہر جگہ یہ حکم نافذ کر دیا کہ وہی ادب پڑھا اور لکھا جائےگا میں قانون جیم کی کارفرمائی ہو۔ بعینہ یہی اصول افلاطون کا تھا اور اسی وجہ سے رسل نے کہا تھا کہ ہٹلر اور لینن کی حکومتیں افلاطون کی عینی ریاست کی یاد دلاتی ہیں۔ اسی لیے الیٹ نے بھی اپنے اس مضمون میں، جس کا جملہ میں نے اوپر لکھا ہے، تلقین کی ہے کہ سب لوگوں کی عیسائی ادب پڑھنا اور لکھنا چاہیے۔

    شاعری کے شاعرانہ معیاروں پر ان اقتباسات کو رکھیے،

    کبھی دیکھی ہیں آتش دان کی چنگاریاں تم نے؟
    ہنسی میں گل زدہ رخسار کو سہلا کے ہرا نگشت رستی ہے
    کسی نازک رسیلے پھل کی پتلی قاش سے میری زباں چھونے لگی، دیکھو
    سفیدی صاف، سادہ پیراہن کے سوکھے پتوں کو مسلتی ہے یوں ہی لپٹی ہوئی رہیو ذرا میں سونچ لوں ایک گھونٹ تیرے گرم بازو سے
    میرے دل کو سبک سر کر سکےگا، یا میں پھر گہرے اندھیرے کے خلا میں جھولتے ہی
    جھولتے نم ناک آنکھیں بند کر لوں گا؟
    (میراجی، آبگینے کے اس پار کی ایک شام)

    چمپئی رنگ کبھی، راحت دیدار کا رنگ
    سرمئ رنگ کہ ہے ساعت بے زار کا رنگ
    زرد پتوں کا خس و خار کا رنگ
    سرخ پھولوں کا دہکتے ہوئے گلزار کا رنگ
    زہر کا رنگ، لہو رنگ، شب تار کا رنگ
    آسماں، راہ گزر، شیشۂ مے
    کوئی بھیگا ہوا دامن،
    کوئی دکھتی ہوئی رگ
    کوئی ہر لحظہ بدلتا ہوا آئینہ ہے
    (فیض، رنگ ہے دل کا مرے)

    اے سمندر میں گنوں گا دانہ دانہ تیرے آنسو
    جن میں آنے والا جشن وصل نا آسودہ ہے
    جن میں فردائے عروسی کے لیے کرنوں کا ہار
    شہر آئندہ کی روح بے زماں چنتی رہی
    میں ہی دوں گا اے سمندر جشن میں دعوت تجھے
    استراحت تیری لہروں کے سوا کس شے میں ہے؟
    اسے سمندر! ابر کے اوراق کہنہ
    بازوئے دیرینۂ امید پر اڑتے ہوئے
    دور سے لائے ہیں کیسی داستاں!
     (ن۔ م۔ راشد، اے سمندر)

    میرا جی نے جگہ جگہ استعارہ ترک کر کے پیکر منتخب کیے ہیں جو استعارے بھی ہیں وہ پیکر آمیز ہیں (گل زدہ رخسار، گرم بازو کا گھونٹ) لیکن ملموسات اور مذوقات کی وہ کثرت ہے کہ مصرعے ہر قسم کے اسلوب اظہارے سے مستغنی ہو گئے ہیں۔ گل زدہ رخسار کو سہلا کے ہر انگشت رستی ہے (لمسی، بصری) نازک رسیلے پھل کی پتلی قاش (مذوقی) زباں چھونے لگی (مذوقی، لمسی) سفیدی صاف سادہ پیرہن کی (بصری) سوکھے پتوں کو مسلتی ہے (لمسی، صوتی) اک گھونٹ تیرے گرم بازو سے (مذوقی، لمسی) جھولتے ہی جھولتے (حرکی) نم ناک آنکھیں (لمسی) یہ اقتباس اس بات کا ثبوت ہے کہ متنوع الاثر پیکر شعر کو استعارہ اور علامت سے بھی بےنیاز کر دیتے ہیں، اور کسی کلام موزوں و مجمل کو شاعری بننے کے لیے صرف پیکر کافی ہیں۔

     فیض کے یہاں ہاپکنزکی زبان میں ’’داخلی منظر‘‘ Inscape نمایاں ہے۔ استعارے کی کارفرمائی بھی اگر ہے توریں بوکے داخلی منظر کی طرح ہے جہاں تجریدی تجربہ بصری پیکر میں ڈھل جاتا ہے۔ اس اقتباس کی غیرارضیت اور میرا جی کے مقابلے میں لاغری اسی وجہ سے ہے کہ داخلی منظر علامت سے عاری ہے، ورنہ علامت یا علامتی استعارہ فربہ پیکروں کی جگہ لے لیتے ہیں۔ اس نظر کی خوب صورتی بصری پیکروں میں ہے جن سے آخر میں بالکل غیر متوقع طور پر دو لمسی پیکر ٹکرا دیے گئے ہیں (بھیگا ہوا دامن، دکھتی ہوئی رگ۔) میرا جی کے یہاں پیکر خود منظر ہیں، فیض نے پیکروں سے منظروں کو بیان کرنے کا کام لیا ہے۔

     تکنیکی چابک دستی اور آہنگ کے خارجی ظواہر کے مکمل استعمال کی سب سے اچھی مثال راشد کا اقتباس ہے۔ مرکب اضافی نے آہنگ بھی خلق کیا ہے اور ابہام بھی۔ ناآسودہ جشن وصل، فردائے عروسی، شہر آئندہ، روح بے زماں، اوراق کہنہ، بازوئے دیرینۂ امید، ان کی اصل قدر قیمت ان کے معنی کی وجہ سے نہیں بلکہ مرکبات کی پیچیدہ آہنگی کے سبب سے ہے، یعنی راشد کے یہاں غالب کے چراغان شبستان دل پروانہ کی دوسری منزل کا سراغ ملتا ہے۔ تیسری منزل (جب پیکر آہنگ سے متاثر ہوتا ہے اور خود آہنگ خلق کرتا ہے) یہاں مفقود ہے، کیوں کہ پیکر ہی مفقود ہے۔ بازوئے دیرینۂ امید پر اڑتے ہوئے بادل کے ٹکڑے شاید پیکر بن جاتے، لیکن بازوئے امید کے تجریدی مرکب نے انھیں بیچ ہی میں روک دیا ہے۔

    جدلیاتی لفظ کے مطالعہ کے دوران ابہام کا ذکر اکثر آیا ہے، یہ اس وجہ سے کہ جدلیاتی لفظ اکثر از خود مبہم ہوتا ہے اور اس وجہ سے بھی کہ بقول ہارڈنگ ’’جو کچھ معنی کھلے ڈلے انداز میں بیان کیا گیا ہے، اس سے زیادہ معنی کی ترسیل کا عمل کسی نہ کسی شکل میں اظہار کا فطری طریقہ ہے۔‘‘ دوسرے الفاظ میں، ابہام ترسیل کے عمل کا ہی خاصہ ہے، جب آپ کچھ کہتے ہیں تو جو کچھ آپ نے کہا ہوتا ہے، اس سے کچھ زیادہ ہی کہتے ہیں، اس معنی میں کہ ہر گفتگو میں کچھ نہ کچھ نکتے مقدر چھوڑ ہی دیے جاتے ہیں۔ اس لیے آڈن کہتا ہے کہ انتہائی غیرشخصی اور محدود گفتگو کے علاوہ (مثلاً اسٹیشن کا راستہ کدھر سے ہے؟) ہماری ساری گفتگو اور خاص کر وہ گفتگو جو شخصی اور ذاتی ہوتی ہے، ترسیل کے مسائل میں گرفتار رہتی ہے۔ شاعری چوں کہ انتہائی ذاتی گفتگو ہے، اس لیے اس میں ابہام کی مجروقدر ہونا کوئی حیرت خیز بات نہیں۔ ’’ذاتی گفتگو‘‘ کے ضمن میں وہ کہتا ہے،

    ’’زبان کی ماہیت پر کوئی غور و فکر اس فرق کو سامنے رکھے بغیر نہیں شروع کیا جا سکتا، جو الفاظ کے اس طریقۂ استعمال میں ہے، جب ہم انھیں افراد کے درمیان بات چیت کے کوڈ کی طرح استعمال کرتے ہیں، اور اسی طریقۂ استعمال میں، جب ہم انھیں ذاتی گفتگو کے لیے کام میں لاتے ہیں۔۔۔ جب ہم واقعی گفتگو کرتے ہیں تو ہمارے پاس ہمارا حکم بجا لانے پر تیار الفاظ موجود پہلے سے نہیں ہوتے، بلکہ ہمیں انھیں ڈھونڈنا پڑتا ہے اور جب تک ہم بات کہہ نہیں لیتے ہمیں ٹھیک ٹھیک پتہ نہیں ہوتا کہ ہمیں کیا کہنا ہے۔‘‘ 

    ابہام پرچیں بہ جبیں ہونے والے حضرات اکثر یہ پوچھتے ہیں کہ آخر اس نظم میں کیا کہا گیا ہے؟ اگر ابہام شعر کا حسن ہے تو بچوں کی بے ربط بولی اور شاعری میں کیوں کر فرق کیا جا سکےگا؟ شاعر کے پاس کون سا خیال تھا جو اس نظم میں باندھا گیا ہے؟ اگر شاعر یہ کہتا ہے کہ مجھے خود نہیں معلوم تھا کہ مجھے کیا کہنا تھا، میں نظم اسی لیے تو کہتا ہوں کہ جو حقائق مجھ پر پہلے سے ظاہر نہیں تھے، منکشف ہو جائیں، تو لوگ ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ شاعری کیا ہوئی خود نویسی Automatic Writing ہو گئی کہ بےہوشی کے عالم میں قلم چلا رہے ہیں۔ 8

    حالاں کہ شاعری کو انکشاف نہ ماننے سے وہی جھگڑے پڑیں گے جن کی طرف میں الف اور جیم کی حکایت میں اشارہ کر چکا ہوں۔ اگر شاعر کو معلوم ہے کہ اسے کیا کہنا ہے تو یہ علم اسے کسی خارجی وسیلہ سے ملا ہوگا۔ اپولو ۱۲ چاند تک پہنچ گیا، حکومت کی طرف سے مجھے ہدایت ملی ہے کہ میں مدحیہ نظم کہوں۔ اب مجھے معلوم ہے کہ مجھے کیا کہنا ہے۔ (حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ علم بھی محدود ہے، کیوں کہ مجھے اب بھی نہیں معلوم کہ میں مدحیہ نظم کا کیا ڈھب اختیار کروں گا۔ لیکن خیر۔) بھلا شاعر کو اپنے شعر کا علم شعر کہنے سے پہلے کس طرح ہو سکتا ہے؟ مجھے کیا معلوم ہو سکتا ہے کہ جو نطفہ میر ے صلب میں ہے ماں کے پیٹ میں کب جائےگا اور جب جائےگا تو کیا شکل اختیار کرےگا؟ شاعری انکشاف ہے، اسی لیے مبہم بھی ہے۔

     رچرڈس نے اس سلسلے میں بڑی گہری بات کہی ہے کہ شاعری ان تجربات کے اظہار کا وسیلہ ہے جو شعر کے بغیر شاعر پر منکشف ہی نہ ہوتے۔ اسی حقیقت کو شیخ صاحب نے شاہ نصیر کے حوالے سے بیان کیا تھا۔ الیٹ جیسے مختلف الخیال نقاد نے بھی اس بات سے انکار نہیں کیا ہے اور ایک بار نہیں، جگہ جگہ، ’’کسی نظم یا نظم کے ٹکڑے میں اس رجحان کا بھی امکان ہے کہ وہ لفظی اظہار کی منزل پر پہنچنے کے پہلے (شاعر کے ذہن میں) ایک مخصوص آہنگ کی شکل میں رونما ہو۔ اور پھر یہ آہنگ (نظم کے) خیال (یعنی موضوع) اور پیکر کو معرض وجود میں لائے۔‘‘ (ٹی۔ ایس۔ الیٹ، شعر کا آہنگ)

    ’’تاہم، جس چیز کی ترسیل کرنی ہے وہ خود نظم ہی تو ہے، اور صرف ضمنی طور پر وہ تجربہ یا فکر ہے جس کا اس نظم میں نفوذ ہوا ہے۔‘‘ (ٹی۔ ایس۔ الیٹ، والیری کا دیباچہ)

    ہارڈنگ نے اس کی نفسیاتی توضیح یوں کی ہے، ’’اگر شاعر سے یہ پوچھتے ہیں کہ وہ کس شے کی ترسیل کر رہا ہے تو گویا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے پاس پہلے سے کوئی خیال یا معنی تھا جس کو اس نے نظم کے الفاظ میں ترجمہ کر دیا۔ حالانکہ جو بات اسے کہنا تھی اس کا وجود ہی اس وقت تک نہ تھا جب تک وہ کہی نہیں گئی تھی۔ کوئی سوچا ہوا خیال جو خود نظم نہ ہو، لیکن ہو بہ ہو نظم کی طرح ہو، ناممکن تھا۔۔۔ ایک ہی خیال کے لیے ایک سے زیادہ لسانی اسلوب نہیں ہو سکتا۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسی عینی لسانی شکل Ideal Phrasing ہو جو درستی اور کفایت کے ساتھ اس سب کو ظاہر کر دے جو خیال کے اندر چھپا ہوا ہے۔‘‘ 

    آخری جملہ میں نے جان بوجھ کر نقل کیا ہے تاکہ خوف زدہ لوگوں کو اطمینان ہو جائے کہ عینی حیثیت سے مبہم ترین شاعری کی بھی لسانی توضیح ممکن ہے۔ ہم ہمیشہ Ideal تک پہنچنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، اگر نہ پہنچ سکیں تو ہماری کوتاہی ہے، شاعری کی نہیں۔ مہمل کی اور بات ہے، لیکن لوگوں میں شاعری کی طرف سے خدا جانے کیوں برتری کا رویہ جاگزیں رہتا ہے۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ شاعری کو ایک ہی ہلے میں زیر کر لیں، اور جب وہ زیر نہیں ہوتی تو ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ حالانکہ شاعری کی طرف ہمارا رویہ ہمیشہ انکسار اور حلم کا ہونا چاہیے، رعونت کا نہیں۔ ذاتی طور پر میں کسی شاعری کو مہمل کہنے سے اتنا ہی ڈرتا ہوں جتنا کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو کافر کہنے سے ڈرتا ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کفر کا فتویٰ ہمیشہ سے بہت سستا رہا ہے اور آج بھی ہے۔

    میرا کہنا یہ ہے کہ اجمال اور جدلیاتی لفظ کے بعد ابہام شاعری کی تیسری اور آخری معروضی پہچان ہے۔ (موزونیت اور اجمال کی موجودگی ہمیشہ فرض کرتے ہوئے) ہم یہ کہہ سکتے ہیں اگر کسی شعر میں صرف ابہام ہی ہے تو بھی وہ شاعری ہے۔ عام طور پر جدلیاتی لفظ اور ابہام ساتھ ساتھ آتے ہیں، لیکن جس طرح تنہا جدلیاتی لفظ شعر کو شاعری میں بدل دیتا ہے، اسی طرح تنہا ابہام بھی شعر کو شاعری بنا دیتا ہے۔ شعر میں ابہام یا تو علامت سے پیدا ہوتا ہے یا ایسے الفاظ کے استعمال سے جن سے سوالات کے چشمے پھوٹ سکیں۔ جتنے سوالات اٹھیں گے، شعر اتنا ہی مبہم ہوگا اور اتنا ہی اچھا ہوگا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ سوالوں کے جو بھی جواب ملیں، وہ شعر زیر بحث کے تعلق سے ہمارے تجربے کو وسیع کریں، اور جیسے بھی جواب ملیں، لیکن شعر زیر بحث ہی سے برآمد ہوں۔

     علامت کی تفصیل میں اپنے ایک مضمون میں بیان کر چکا ہوں، وزیر آغا نے بھی اس موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے۔ اس لیے دوسری طرح سے پیدا ہونے والے ابہام کو کچھ مثالوں سے واضح کروں گا۔ اس سلسلے میں علامت پر بھی کچھ باتیں ہو جائیں تو کچھ ہرج نہیں۔ فی الحال مندرجہ ذیل ہم معنی اشعار کا مطالعہ مطلوب ہے،

    جوتو اے مصحفی راتوں کو اس شدت سے رووےگا
    تو میری جان پھر کیوں کر کوئی ہم سا یہ سووےگا 
    مصحفی 9

    جو اس شور سے میر روتا رہےگا
    تو ہم سایہ کا ہے کو سوتا رہےگا 
    میر

    پھر چھیڑا حسن نے اپنا قصہ
    بس آج کی شب بھی سو چکے ہم 
    میر حسن

    ہم سایہ شنید نالہ ام گفت
    خاقانی را دگر شب آمد 
    خاقانی

    چاروں شعروں میں مبالغہ کی وہ صورت ہے جسے اغراق کہتے ہیں۔ اغراق وہ مبالغہ ہے جو عادتاً تو ممکن نہ ہو لیکن عقلاً ممکن ہو۔ ان شعروں کے لکھنے والے جس طرح کی آبادیوں میں رہتے تھے ان میں پڑوسی کے گھر کا نالہ وشیون سنائی دینا ممکن تھا، کیوں کہ گھر بہت پاس پاس تھے۔ فراق محبوب میں دھاڑ مار مار کر رونا عادتاً ممکن نہیں ہے لیکن عقلاً ممکن ہے اور اگر عادتاً ممکن بھی ہو تو ایسا واقعہ ایک ہی دو بار پیش آ سکتا ہے، نہ کہ مسلسل، جب کہ ان اشعار میں مسلسل رونے کا ذکر ہے۔ مبالغہ استعارے کی ایک شکل ہے۔ لہٰذا ان شعروں میں شاعری کا عنصر تو ہے ہی، چاہے بہت کم زور ہو۔ میں نے یہ چار شعر ترجیحی ترتیب سے رکھے ہیں یعنی بہترین شعر سب سے آخر میں ہے اور کم ترین شعر سب سے پہلے۔ اب اس کے وجوہ ملاحظہ ہوں۔

    مشینی اعتبار سے مصحفی کے شعر میں وہی عیب ہے جو حسرت کے یہاں تھا، یعنی بہت سے الفاظ غیر ضروری ہیں۔ میر نے وہی بات اس سے بہت کم لفظوں میں ادا کی ہے۔ ’’راتوں‘‘ کا ذکر ضروری نہیں ہے، کیوں کہ ’’سوتا رہےگا‘‘ رات کی طرف اشارہ کر ہی دیتا ہے۔ ’’اے مصحفی‘‘ کی جگہ صرف ’’مصحفی‘‘ کافی تھا۔ ’’میری جان پھر کوئی‘‘ یہ الفاظ فضول ہیں۔ ’’میری جان‘‘ کے بارے میں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ متکلم نے سمجھانے اور چمکارنے کا انداز اختیار کیا ہے۔ لیکن چمکارنے اور سمجھانے کے لیے یہ دلیل دینا کہ ہم سائے سو نہ پائیں گے، بہت مشکل ہی سے سمجھ میں آتی ہے۔ یوں تو کہہ سکتے ہیں کہ ’’اپنا نہ خیال کرو، پڑوسیوں کا تو لحاظ رکھو۔‘‘ لیکن جب تک ’’اپنا نہ خیال کرو‘‘ یا اسی طرح کی کوئی اور شرط پہلے نہ لگائی جائے۔ ’’ہم سایہ کیوں کر سودےگا‘‘ میں سرزنش کا لہجہ نمایاں رہتا ہے، التجا کا نہیں۔

    میر کا شعر مصحفی سے اس لیے بہتر ہے کہ بالکل وہی بات بہت کم لفظوں میں کہہ دی گئی ہے۔ اور ایک مزید بات یہ ہے کہ ’’سوتا رہےگا‘‘ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ میر اپنا نالہ اس وقت شروع کرتے ہیں جب لوگ سو چکے ہوتے ہیں، اور آواز سن کر چونک پڑتے ہیں لیکن اس مزید اشارے کے علاوہ شعر ہمارے ذہن میں کوئی کرید نہیں پیدا کرتا کیوں کہ اس سے جو سوالات اٹھتے ہیں وہ صرف ان لوگوں کے لیے معنی خیز ہیں جو ہماری شاعری کے Convention سے واقف نہیں ہیں۔ یعنی یہ سوالات اس طرح کے ہیں، میر کون ہے؟ وہ کیوں رو رہا ہے؟ وغیرہ۔

    میر کے شعر میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ لہجہ نہ سرزنش کا ہے نہ التجا کا۔ بلکہ صرف رائےزنی کا ہے، اور رائےزنی بھی کسی ایسے شخص کی معلوم ہوتی ہے جو صورت حال سے باخبر تو ہے لیکن اس میں الجھا ہوا نہیں ہے۔ اس لاتعلقی کی بنا شعر میں شخصی ضمائر سے احتراز پر ہے۔ میر حسن کے شعر میں میر حسن اور ان کے سننے والے دو واضح فریق نظر آتے ہیں۔ رونے کا ذکر نہیں ہے بلکہ ’’قصہ‘‘ چھڑنے کی بات ہے، جس کی وجہ سے کچھ لوگ جو ’’ہم‘‘ سے تعبیر کیے گئے ہیں، سونے سے معذور ہیں۔ یہ دو لفظ شعر میں ایسے ہیں جو اسے میر کے شعر سے بڑھا دیتے ہیں، کیوں کہ ان سے جو سوالات اٹھتے ہیں، ان کے جوابات ہمیں اس شعر کے بارے میں مختلف تجربات سے دوچار کرتے ہیں۔

     ’’قصہ‘‘ کیا ہے؟ بادی النظر میں یہ داستان ہجر ہے۔ یہ نالہ بھی ہو سکتا ہے، کوئی دل چسپ کہانی بھی ہو سکتی ہے، کوئی ایسا جابر واقعاتی بیان، کوئی تقریر بھی ہو سکتا ہے، جو سننے والوں کی نیند حرام کر دے۔ کوئی لرزہ خیز عمل، مثلاً سینہ زنی یا پتھر پر سر مارنا بھی ہو سکتا ہے جو پڑوسیوں کو جذباتی طور پر اس قدر متحرک اور متلاطم کر دے کہ وہ سو نہ پائیں۔ ’’ہم‘‘ کون ہیں؟ یہ پڑوسی بھی ہو سکتے ہیں، گھر والے بھی ہو سکتے ہیں، بزرگ اور بہی خواہ بھی ہو سکتے ہیں، خود شاعر بھی ہو سکتا ہے جو میر حسن کی شخصیت سے مختلف ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ’’ہم‘‘ اور ’’حسن‘‘ ایک ہی شخصیت کے دو نام ہوں۔ ایک نالہ کرنے پر مجبور ہے اور ایک کی تنقیدی اور خود احتساب نظر اس نالہ زنی سے بے زار بھی ہے۔

     شعر میں رائے زنی کا جو انداز ہے وہ میر کی طرح لا تعلق نہیں ہے، بلکہ جو لوگ بھی رائے زنی کر رہے ہیں وہ نالہ زن میں الجھے ہوئے ہیں، اس سے اکتا بھی چکے ہیں۔ یہ روز روز کا رونا کب تک؟ ’’پھر‘‘ اور ’’بس‘‘ کے الفاظ اکتاہٹ ظاہر کرتے ہیں۔ میر کے شعر میں مزاولت کا پہلو واضح نہیں ہے، حالانکہ تسلسل کا ہے، ’’روتا رہےگا۔‘‘ یہاں ’’پھر‘‘، ’’بس‘‘، ’’آج‘‘، ’’ابھی‘‘ جیسے دو حرفی الفاظ اکتاہٹ کے احساس کے ذریعہ بھی، اور خود بھی، یہ تاثر خلق کرتے ہیں کہ رونا تو روز کا دھندا ہے۔

    اس طرح میر حسن کا شعر میر سے زیادہ مبہم ہے، اس لیے بہتر ہے۔ خاقانی کے شعر میں ’’گفت‘‘ کا لفظ سوالات اٹھاتا ہے۔ ’’گفت‘‘ یعنی کہا، لیکن کس لہجے میں کہا؟ خاقانی پر ایک رات اور آ گئی۔ ممکن ہے اکتا کر کہا ہو، گھبرا کر کہا ہو، جھنجھلا کر کہا ہو، حیرت میں کہا ہو کہ ہیں، اس شخص پر تو پچھلی رات بھاری تھی، پھر بھی مرا نہیں۔ یہ حیرت، سخت جانی کی تحسین بھی ہو سکتی ہے، کہ واہ کیا مرد میدان ہے، یا غیرمتوقع بات کے واقع ہو جانے پر خالص حیرت بھی ہو سکتی ہے، کہ ارے، یہ تو بچ نکلا، یہ بھی ممکن ہے کہ انتہائی صبر و مجبوری کے لہجے میں کہا ہو، کہ بھئ اس شخص پر ایک کٹھن رات اور آ گئی۔ شعر کا ابہام اس لیے اور بڑھ گیا ہے کہ ممکن ہے خاقانی خود اپنے بارے میں یہ خیال رکھتا ہو، لیکن اس نے انھیں دوسروں کے وسیلے سے ظاہر کیا ہے اور اس طرح کہ بادی النظر میں یہ بات کھلتی نہیں کہ دراصل خاقانی اپنے اوپر خود رائے زنی کر رہا ہے۔

     میر حسن بھی یہی کہہ رہے تھے لیکن انھوں نے ’’حسن‘‘ اور ’’ہم‘‘ کی ثنویت کو برقرار رکھا تھا۔ یہاں صرف ’’ہم سایہ‘‘ ہے، لیکن وہی خاقانی بھی ہے، کیوں کہ خاقانی اس کی زبان سے وہ کہلا رہا ہے جو اسے خود کہنا منظور تھا۔ آخری صورت یہ بھی ہے کہ پچھلی رات وصل و مسرت کی تھی، اس کا رنگ اور تھا، آج کی رات ہجر کی ہے، اس کا رنگ دگر ہے۔ اب ’’دگرشب‘‘ کے معنی ’’دوسری رات‘‘ نہیں بلکہ ’’دوسری طرح کی رات‘‘ کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب معنوی اور تاثراتی ابعاد لفظ ’’گفت‘‘ کو تنہا استعمال کرنے سے پہلے پیدا ہوئے ہیں۔ اگر ’’گفت‘‘ کا لہجہ بھی بیان کر دیا جاتا، جیسا میر حسن نے کیا ہے، تو شاعری بہت کم ہو جاتی۔ ابہام نے شعر کے معنوی تجربات کا رنگ متلون المزاج کر دیا ہے۔ ایک لمحے میں کچھ ہے، ایک لمحے میں کچھ۔ ابہام کی معنی خیزی کو میر اور غالب کے بعض ہم مضمون اشعار کا مطالعہ اچھی طرح واضح کرتا ہے،

    ہمیں تو باغ کی تکلیف سے معاف رکھو
    کہ سیر وگشت نہیں رسم اہل ماتم کی 
    میر

    غم فراق میں تکلیف سیر باغ نہ دو
    مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے بے جا کا 
    غالب

    ہیں مستحیل خاک میں اجزائے نو خطاں
    کیا سہل ہے زمیں سے نکلنا نبات کا 
    میر

    سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
    خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں 
    غالب

    چشم دل کھول اس بھی عالم پر
    یاں کی اوقات خواب کی سی ہے 
    میر

    بزم ہستی وہ تماشا ہے جس کو ہم اسد
    دیکھتے ہی چشم از خواب عدم نکشادہ سے 
    غالب

    گرمئ عشق مانع نشو ونما ہوئی
    میں وہ نہال تھا کہ اگا اور جل گیا 
    میر

    مری تعمیر میں مضمر ہے ایک صورت خرابی کی
    ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا 
    غالب

    موند رکھنا چشم کا ہستی میں عین دید ہے
    کچھ نظر آتا نہیں جب آنکھ کھولے ہے حباب 
    میر

    تاکجا اے آگہی رنگ تماشا باختن
    چشم و اگر دیدہ آغوش و داع جلوہ ہے 
    غالب

    واں تم تو بناتے ہی رہے زلف
    عاشق کی بھی یاں گئی گزر رات 
    میر

    تو اور آرائش خم کاکل
    میں اور اندیشہ ہائے دور دراز 
    غالب

    کوئی تو آبلہ پا دشت جنوں سے گزرا
    ڈوبا ہی جائے ہے لو ہو میں سرخار ہنوز 
    میر

    یک قلم کاغذ آتش زدہ ہے صفحۂ دشت
    نقش پا میں ہے تب گرمئی رفتار ہنوز 
    غالب

    کریں ہیں حادثے ہر روز وار آخر تو
    سنان آہ دل شب کے ہم بھی پار کریں 
    میر

    بس کہ سودائے خیال زلف وحشت ناک ہے
    تا دل شب آبنوسی شانہ آسا چاک ہے 

    غالب

    ان اشعار کا تفصیلی جائزہ بحث کو بہت طویل کر دےگا، لیکن دو چار اہم نکات کی طرف توجہ مبذول کرنا ضروری ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ میر کے کئی شعر غالب سے کم تر ہیں، نہ صرف آہنگ کے لحاظ سے، جس میں مرکبات اضافی و توصیفی، پیکر اور استعارے کے ادغام کا جادو ہے، بلکہ اس وجہ سے بھی کہ میر نے توضیحات کے انبار لگا دیے ہیں، سوال کرنے کی جگہ کم چھوڑی ہے۔ پہلی مثال کے ساتھ میر ہی کا یہ شعر بھی رکھ لیجیے،

    اچھی لگے ہے تجھ بن گل گشت باغ کس کو
    صحبت رکھے گلوں سے اتنا دماغ کس کو

    غالب کا پہلا مصرع میر کے پہلے مصرعے سے کس قدر نزدیک ہے (باغ کی تکلیف) اس کی وضاحت غیر ضروری ہے۔ غالب کا ابہام میر کی توضیح کے مقابل رکھیے۔ دونوں شعروں میں میر نے سیر وتفریح کی ناپسندیدگی کا ذکر کیا ہے۔ غالب ’’خندہ ہائے بے جا‘‘ کی بات کرتے ہیں۔ پھولوں کو خنداں کہتے ہیں، ان کا خندہ (یعنی کھلنا) طبیعت پر بار ہے، اس لیے بے جا لگتا ہے۔ میر کے دوسرے شعر کا مصرع ثانی بھی لفظ ’’دماغ‘‘ کا استعمال کرتا ہے، لیکن بے دماغی کی وجہ سے گلوں کی صحبت کو ناگوار بتاتا ہے، یہ ایک توضیحی بیان ہے، جب کہ غالب نے خندہ ہائے بے جا کی وجہ اس طرح رکھی ہے کہ بے دماغی کی بھی اصلیت واضح ہو گئی ہے، یعنی یہ غم فراق کی پیدا کردہ آشفتہ مزاجی کی وجہ سے پھولوں کی ہنسی ناگوار ہے۔ بے دماغی میں گلوں کی صحبت کیوں ناگوار ہے، اس کا ذکر میر نے نہیں کیا، لہٰذا بے دماغی کی اصل منزل اور کیفیت کا کوئی بیان نہیں ہے۔

    غالب کا ابہام صورت حال کو حیرت انگیز طور پر واضح کر دیتا ہے، یہی ابہام کا حسن ہے۔ لیکن ایک نکتہ اور بھی ہے۔ ’’خندہ ہائے بے جا‘‘ کھلے ہوئے پھولوں کا استعارہ ہونے کے ساتھ کچھ اور باتوں کی بھی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اولاً یہ کہ یہ بے جا ہنسی ان لوگوں کی بھی ہو سکتی ہے جو گل گشت چمن کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ میں رنجیدہ و محزوں ہوں، مجھے دوسروں کی ہنسی زہر لگتی ہے۔ باغ میں جاتا ہوں تو ہنستے کھیلتے لوگ نظر آتے ہیں، یہ مجھ سے برداشت کب ہو سکتا ہے۔ دوئماً یہ خندۂ بےجا ان حسینوں کا بھی ہو سکتا ہے جن کے چہرے پھولوں کی طرح کھلے ہوئے ہیں (یعنی خنداں ہیں۔) یہ حسین لوگ جو باغوں میں سیر کر رہے ہیں، میں ان کا نظارہ کیسے برداشت کر سکتا ہوں جب خود مہجور ہوں۔

    سوئماً یہ کہ باغ میں خوش وخرم لوگ مجھے دیکھ دیکھ کر ہنستے ہیں، گویا میری درماندہ حالی پر طنز کرتے ہیں، یہ مجھے کب گوارا ہے۔ چہارماً یہ کہ پھول مجھے اس طرح ہنستے ہوئے نظر آتے ہیں جس طرح محبوب ہنستا تھا۔ (شگفتہ تھا) محبوب کی ہنسی کے سامنے یہ ہنسی بےجا اور زہر معلوم ہوتی ہے۔ پنجماً یہ کہ محبوب بھی مجھ پر طنز کرتا ہے، پھول بھی کھل کھل کر میرے اوپر طنز کرتے سے معلوم ہوتے ہیں (کیوں کہ وہ بھی محبوب کی طرح شگفتہ، تروتازہ، شاداب اور حسین ہیں۔) میں محبوب کا طنز تو برداشت کر لیتا، لیکن پھولوں کی ہنسی کیوں گوارا کروں؟

    آپ نے ملاحظہ کیا کہ یہ سب امکانات صرف اس سوال سے پیدا ہوئے ہیں، خندہ کو بے جا کیوں کہا؟ اور یہ کس کا خندہ ہے؟ میر کے یہاں ان سوالوں کی گنجائش نہیں۔ لہٰذا یہ امکانات بھی مفقود ہیں۔ اگلی مثال کے ساتھ ناسخ کا یہ شعر بھی رکھا جا سکتا ہے،

    ہو گئے دن ہزاروں ہی گل اندم اس میں
    اس لیے خاک سے ہوتے ہیں گلستاں پیدا

    اس طرح کی تمثیلی شاعری غالب نے بھی بہت کی ہے۔ لیکن وہ دعوے اور ثبوت، بیان اور مثال میں ایک وقفہ رکھتے ہیں، جس میں قاری کے ذہن کو تگ وتاز کی پوری آزادی ہوتی ہے۔ ناسخ کے شعر میں وضاحت کے چکر نے اہمال کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ اس لیے خاک سے ہوتے ہیں گلستاں پیدا چہ معنی دارو۔ گلستاں اور کہاں پیدا ہوتے ہیں؟ یہ آسمان اور سمندر سے تو اگتے نہیں۔ اور اگر خاک سے اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ اس میں گل اندام دفن ہیں تو سمندر میں ہزاروں گل اندام دفن ہیں، تو سمندر سے بھی گلستاں کیوں نہیں پیدا ہوتے؟

    پھر ہو گئے دن سے کیا مراد ہے، کیا اب دن نہیں ہو رہے ہیں؟ کیا بس ایک بار ہزاروں گل انداموں کو دفن کر کے ناسخ نے ابدالآباد تک گلستاں پیدا کرنے کا اجارہ لے لیا ہے؟ جو حضرات ابہام میں اہمال کا شکوہ کرتے ہیں وہ یہاں وضاحت میں لغویت کی جلوہ گری دیکھیں۔ اہمال نہ وضاحت کا غلام ہے نہ ابہام کا۔ مہمل بات کہیےگا تو مہمل شعر بنےگا، بلکہ ابہام میں تو اہمال کا خطرہ کم ہوتا ہے، کیوں کہ کچھ نہ کچھ تو بات بن ہی جاتی ہے۔

    میر کے شعر میں ’’مستحیل‘‘ کے معنی ’’استحالہ کا اسم فاعل‘‘ اگر معلوم ہوں تو شعر مشکل نہیں رہ جاتا، اگرچہ ابہام باقی ہے۔ میر نے ایک پہلو پیدا کیا ہے جو ناسخ کے یہاں نہیں ہے۔ ’’کیا سہل ہے‘‘ پر غور کیجیے۔ مقصود یہ ہے کہ جب نوخطوں کے اجزائے جسم خاک میں مل کر ایک ہو جاتے ہیں تب جاکر نبات اگتی ہے، انسان اور وہ بھی حسین انسان جب خاک میں مل چکتے ہیں تو سبزہ اپنا سر نکالتا ہے۔ ’’کیا سہل ہے‘‘ کی وجہ سے اصل مفہوم، جو انسانی زندگی کے رائیگاں اور کم قیمت ہونے کا ہے، اس کاسراغ ملتا ہے، یہی اس شعر کا ابہام ہے۔

     ناسخ کے مہملات یہاں نہیں ہیں ’’ہو گئے دفن اس میں‘‘ کی جگہ ’’ہیں مستحیل خاک میں‘‘ کہہ کر اس پر اسرار عمل کی طرف اشارہ کیا ہے جس کے ذریعہ نامیاتی مادہ Organic matter آہستہ آہستہ گل سڑ کر غیرنامیاتی بن جاتا ہے، اس حد تک کہ بالکل مٹی ہو جاتا ہے۔ (اس زراعتی استعارے کو بھی ذہن میں رکھیے کہ مردہ جسم کی ہڈی اور گوشت پوست کی کھاد نہایت عمدہ ہوتی ہے۔ خدا جانے میر کا یہ علم وجدانی تھا یا اکتسابی۔) یہ مٹی جب مردہ مٹی میں جذب ہو جاتی ہے تو ایک اور طرح کا نامیاتی وجود (نبات) جنم لیتا ہے۔ اس طرح یہ شعر موت وزیست کی سائیکل کی علامت بھی بن جاتا ہے۔

     ’’نکلتا‘‘ اگنے کا بھی استعارہ ہے اور غیب سے ظہور میں آنے کا بھی۔ سرسری طور پر پڑھا جائے تو اس شعر میں کوئی نکتہ نظر نہیں آتا، بلکہ لفظ ’’مستحیل‘‘ سے طبیعت متوحش ہوتی ہے۔ (خود مجھ پر اس شعر کے اسرارا سی وقت منکشف ہوئے جب میں نے اس بات کی وجہ ڈھونڈنی شروع کی کہ یہ شعر ناسخ سے کیوں بہتر معلوم ہوتا ہے۔) اب غالب کو دیکھیے، حسینوں کے لیے ناسخ نے گل اندام کا سطحی استعارہ یا پیکر استعمال کیا تھا۔ میر نے ’’نوخطاں‘‘ کہہ کر نوجوانی اور کم عمری پر بھی دلالت کی۔ غالب نے ’’کیا صورتیں‘‘ کہہ کر سب کچھ آپ پر چھوڑ دیا ہے۔ ’’کیا صورتیں‘‘ یعنی وہ کیا صورتیں ہوں گی (تجسس، استفہام) کیا صورتیں ہوں گی کہ جن کا بدل حسین پھول ہیں (تحیر) کیا کیا صورتیں ہوں گی (تحسین) کیا صورتیں ہوں گی (کون سی، کن لوگوں کی)۔ بھلا کیا صورتیں ہوں گی (کس طرح کی ہوں گی، لاعلمی) جانے کیا کیا صورتیں ہوں گی (تفکر) کی پنہاں ہو گئیں۔

    اب صرف ونحو پر آئیے۔ دونوں مصرعوں میں تعقید کی وجہ سے ان کی نثر دو طرح سے ہو سکتی ہے، اور مفہوم، ظاہر ہے کہ کچھ مختلف ہو جاتا ہے۔

     (۱) سب کہاں نمایاں ہوئیں، صرف کچھ ہی صورتیں لالۂ وگل کی شکل میں نمایاں ہو سکیں۔
     (۲) کچھ ہی لالۂ وگل میں سب صورتیں کہاں نمایاں ہو گئیں (یعنی ہو سکیں۔) 
     (۱) کیا صورتیں ہوں گی کہ خاک میں پنہاں ہو گئیں۔
     (۲) خاک میں کیا صورتیں ہوں گی جو کہ پنہاں ہو گئیں۔

    مصرع ثانی کی دوسری قرأت کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ خاک بھی اپنی صورتیں رکھتی ہے، کچھ صورتیں تو لالہ وگل کی شکل میں نمایاں ہو گئیں، لیکن خدا جانے کتنی صورتیں اور ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں، (بہ معنی چھپ گئیں، ہم پر کبھی ظاہر نہ ہوئیں) گویا اس صورت میں مدعا یہ نکلا کہ خاک، جو بہ ظاہر مردہ ہے دراصل ایک نامیاتی وجود ہے۔ لالہ و گل اس کے مظاہر ہیں، ایسے ہی ہزاروں مظاہر اور بھی ہوں گے جو ہم پر ظاہر نہ ہوئے۔ میر کے شعر کی طرح موت و زیست کی جھلک یہاں بھی موجود ہے، لیکن مستعمل مفہومی حوالے کے علاوہ جو اور حوالے اس شعر میں ہیں وہ اس کے ابہام کی وجہ سے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ شعر ناسخ اور میر دونوں سے بہتر ہے۔

    تیسری مثال لیجیے۔ میں اسے میر کے بہترین شعروں میں گنتا ہوں۔ شیکسپیئر کے پراسپرو کا مکالمہ جن لوگوں کے ذہن میں ہے وہ جانتے ہوں گے کہ میر نے ’’اوقات‘‘ کا محاورہ نما استعارہ رکھ کر رویے کا جو ابہام پیدا کیا ہے اس کی وجہ سے شیکسپیئر کی رائے زنی سے بہتر صورت پیدا ہو گئی ہے۔ ’’اوقات‘‘ بہ معنی حیثیت ہے۔ اس کی اوقات ہی کیا ہے، تحقیراً بولا جاتا ہے، لیکن یہ بھی کہہ دیتے ہیں، میں اپنی اوقات پر قائم ہوں، یعنی اپنی حد سے تجاوز نہیں کر رہا ہوں۔ ’’اوقات‘‘ بہ معنی بساط بھی ہے، جس سے پھیلاؤ کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ ’’اوقات‘‘ وقت کی جمع بھی ہے، ’’اوقات بسر کرنا‘‘، ’’بہ معنی زندگی گزارنا۔‘‘، ’’اوقات‘‘ سے روزی روٹی کا تصور بھی منسلک ہے۔ گزر اوقات ہو جاتی ہے۔ ’’اوقات‘‘ کو محض زمانے کا مفہوم بھی دیا جا سکتا ہے۔ تنگئی اوقات۔ خوش اوقاتی وغیرہ۔

     ان سب مفہوموں کے ساتھ ’’خواب‘‘ کا مفہوم بدلتا رہتا ہے۔ اس عالم کی حیثیت کیا ہے، خواب کی طرح ہلکا ہے، بےمعنی ہے، غیر حقیقی ہے، خواب کی سی بساط رکھتا ہے، بہت طویل، پیچیدہ لیکن ذات کے اندر محدود (آپ کے خواب آپ کی ذات کے آگے نہیں جا سکتے۔ آپ دوسروں کے Behalf پر خواب نہیں دیکھ سکتے۔) اس کی حدیں خواب کی طرح مبہم، نیم روشن اور غیر قطعی ہیں۔ اس میں زندگی گزارنا خواب دیکھنا ہے۔ اس کی اوقات (جمع جتھا۔ روزی روٹی) خواب کی طرح فرضی یا کم قیمت ہے۔ یہاں جو وقت گزرتا ہے وہ اس طرح کہ گویا ہم خواب میں ہیں۔

    یہاں کہ وقت کی مثال خواب کے وقت کی سی ہے۔ طویل ترین خواب بھی چند ہی لمحوں پر محیط ہوتا ہے اور خواب دیکھنے والا چشم زدن ہی میں برسوں کی منزل طے کر لیتا ہے، وقت کو آگے پیچھے کر لیتا ہے۔ بچہ خواب دیکھتا ہے کہ میں بڈھا ہو گیا ہوں، بڈھا خواب دیکھتا ہے کہ میں بچہ ہوں وغیرہ۔ گویا خواب میں وقت کی نوعیت Unreal Time ہوتی ہے۔ اس دنیا میں وقت Unreal ہے۔ اصل اور حقیقی زماں تو اس عالم میں ہے۔ اس طرح محض ایک لفظ کے ابہام نے شعر کو معنی کی ان دنیاؤں سے ہم کنار کر دیا جو واضح لفظ استعمال کرنے سے ہم پر بند رہتے۔ مثلاً مصرع یوں ہوتا،

     (۱) یاں کی ہستی تو خواب کی سی ہے
     (۲) یہ جو دنیا ہے خواب کی سی ہے
     (۳) زندگی یہ تو خواب کی سی ہے

    وغیرہ، تو شعر دو کوڑی کا نہ رہتا۔ موجودہ صورت میں اس شعر کا جواب ممکن نہیں تھا، سوائے اس کے کہ اور ابہام پیدا کیا جاتا۔ ابہام کی کاٹ توضیح سے نہیں ہو سکتی، اس کی ایک مثال اور بھی پیش کروں گا۔ لیکن اس وقت غالب کے شعر تک خود کو محدود رکھتا ہوں۔ دونوں اشعار میں عالم ہست و بود کی کم حقیقتی کا تذکرہ ہے، اور اس کے مقابلے میں کسی اور عالم کا ذکر ہے جو زیادہ واقعی اور اصلی ہے۔ میر نے اس نکتہ کو واضح کرنے لیے زمان و مکان کے ادغام سے ایک استعارہ تراشا ہے لیکن زیادہ زور زماں پر ہے۔ یہی ثابت کرنا مقصود ہی تھا کہ عالم آب وگل میں زمان غیرحقیقی ہے۔ غالب نے زمان کے لیے مکان کا استعارہ تلاش کر کے ابہام کو مبہم تر کر دیا ہے۔ میر کے یہاں عالم مثل خواب تھا۔ غالب خود خواب میں ہیں، اور خواب بھی وہ جو وجود کی نفی کرتا ہے یعنی خواب عدم۔

     جو شخص عدم میں ہے اس کا وجود کیوں کر ممکن ہے؟ لیکن غالب نے عدم میں ہونے ہی کوو جود پر دال کیا ہے۔ جو آنکھ بند ہو وہ دیکھ نہیں سکتی۔ لیکن غالب کی بند آنکھ ہی اس کی تماشائیت کی دلیل ہے۔ چشم از خواب عدم نکشادہ، یعنی وہ آنکھ جو خواب عدم سے بیدار نہیں ہوئی ہے، یعنی جو ابھی عدم میں ہے لیکن ’’خواب‘‘ بہ معنی ’’رویا‘‘ بھی ہے۔ یعنی وہ آنکھ جو عدم کا خواب دیکھ رہی ہے۔ تماشا اصل چیز کا نظارہ بھی ہو سکتا ہے اور اصل چیز کا پرفریب دھوکا بھی۔ ہم بولتے ہیں، اس نے محبت کا تماشا کیا۔ یعنی فریب دیا۔ بزم ہستی ایک تماشا ہے، تماشا اصلی ہو یا فریب، لیکن اس کے لیے تماشائی ضروری ہے۔ تماشائی وہ آنکھ ہے جو خواب عدم سے بیدار ہی نہیں ہوئی ہے۔ جو آنکھ بیدار نہیں ہے وہ کیا دیکھ سکتی ہے؟ یا تو خواب یا کچھ بھی نہیں۔ اور جو آنکھ خواب عدم میں ہے وہ کیا دیکھ سکتی ہے، یا تو عدم کا خواب (یعنی عدم کے مناظر) یا عدم وجود کے مناظر، یعنی کچھ بھی نہیں۔

    وہ تماشا جو خواب عدم میں مصروف آنکھ سے دیکھا جائے یا تو اپنا وجود، عدم میں مثل خواب رکھتا ہے یا رکھتا ہی نہیں۔ اگر خواب ہے تو فریب ہے، اگر خواب نہیں ہے تو عدم وجود ہے۔ اس طرح بزم ہستی کا وجود نہیں ہے۔ تماشا کی صفت مکان ہے، غالب نے اس مکان کو ظاہر کرنے کے یا اس کی اصلیت بیان کرنے کے لیے زمان کا استعارہ تراشا ہے، کیوں کہ عدم وجود کا کوئی مکان Space نہیں ہوتا، عدم وجود صرف وقت میں ہو سکتا ہے۔ لہٰذا غالب نے یہ نہ کہہ کر کہ بزم ہستی کا وجود مثل خواب ہے، یہ کہا ہے کہ اس کا وجود اگر ہے تو خواب میں ہے (بے اصل ہے) یا عدم میں ہے (یعنی نہیں ہے۔) بزم ہستی کا وجود اس لیے ہے کہ بزم ہستی ہے ہی نہیں۔

    اس طلسمی ماحول میں بھی میر کا شعر اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے، کیوں کہ اس کے ابہام کا حوالہ واقعی دنیا کے خواص سے بنتا ہے۔ مجرد ابہام کی بنا پر میر اور غالب کے شعر ہم پلہ ہیں۔ لیکن غالب نے مرکب کو پیکر اور استعارے میں بند کر کے جو دنیا خلق کی ہے وہ میر سے بالاتر ہے۔ چشم از خواب عدم نکشادہ کا پیکر کس قدر لرزہ خیز پراسراریت کا حامل ہے، جس کے سامنے ہاتھارن کا ’’عظیم سنگین چہرہ‘‘ بھی یک رنگ معلوم ہوتا ہے۔ بیدل کا شعر دیکھیے،

    دیگر نقش نامۂ اعمال مامپرس
    نظارۂ بہ لوح تماشا نوشتہ ایم

    چوتھی مثال میں میر نے اسے روشنی طبع تو برمن بلاشدی کا غیر شعوری یا شعوری تتبع کر کے شعر کی مت بگاڑ دی ہے۔ دوسرا مصرعہ اپنی جگہ پر مکمل تھا۔ میں وہ نہال تھا کہ اگا اور جل گیا۔ ’’نہال‘‘ بہ معنی خوش بھی صادق آتا ہے۔ خوشی کی علامت ہنسی ہے اور ہنسی کی علامت برق وشرر۔ اس طرح یہ معنی بھی نکلتے ہیں کہ زندگی غیر معمولی مسرت کو برداشت نہیں کر سکتی۔ ’’اگا اور جل گیا‘‘ کا پیکر بھی مکمل تھا۔ ’’اور‘‘ کے لفظ نے غیر معمولی تیزئ رفتاری کا تصور جس طرح پیدا کیا ہے وہ کسی اور لفظ سے ممکن نہ تھا۔ مثلاً یہ مصرع اگر یوں ہوتا، میں وہ نہال تھا کہ بس اگتے ہی جل گیا۔۔۔ تو ’’اگا‘‘ کے بعد ڈرامائی وقفہ ’’گا۔ اور جل گیا‘‘ غائب ہو جاتا۔

     جلنے کی وجہ بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی، کیوں کہ اس کے ذریعہ شعر عشق اور اس کے تلازمات تک محدود ہو کر رک گیا ہے۔ کوئی ایسا سوال نہیں جس کا جواب شعر کی سطح پر موجود نہ ہو۔ غالب نے بھی وجہ بیان کی ہے، لیکن وہ اگتے ہی جل جانے کے پراسرار عمل ہی کی طرح مبہم ہے۔ مری تعمیر میں مضمر ہے ایک صورت خرابی کی۔ کیوں؟ اس لیے کہ زندگی، موت کی ایک شکل ہے۔ اس لیے کہ تخلیق کا مقصد حیات ہی یہ ہے کہ وہ تخریب کو دعوت دے۔ اس لیے کہ ہم ایک جابر وقادر قوت کے محکوم ہیں، جب ہم بن چکتے ہیں تو وہ بگاڑنے میں لطف حاصل کرتی ہے۔ (شیکسپیئرکا مشہور جملہ اگر آپ کو یاد ہو تو اس جواب کی معنویت دو چند ہو جائےگی۔) 10

    اس لیے کہ تخریب کے لیے بھی دنیا میں کچھ کام ہونا چاہیے، ورنہ اس کا مقصد تخلیق کیا ہے؟ اس لیے کہ تعمیر میں خرابی کی صورت نہ ہو تو نئی تعمیر کیسے ہو؟ اس لیے کی تعمیر کی قدر معلوم ہو۔ اس لیے کہ تعمیر، تخریب کو دعوت مبازرت دیتی ہے اور زندگی ان دونوں کی عربدہ جوئی سے عبارت ہے وغیرہ۔ پھر خون گرم دہقاں جو کشت ریزی کے لیے دھوپ میں تپ کر برق خرمن کی شکل اختیار کرتا ہے، اس نہال سے زیادہ پر اسرار اور پرقوت ہے جو اگتے ہی جل جاتا ہے۔ کیوں کہ نورستہ نہال کو جلانے والی کوئی اور قوت ہے جو اس کے باہر ہے، لیکن خون گرم دہقاں تو دہقاں کے ہی رگ وپے میں رواں وجو لاں ہے۔ میر کے شعر میں داخل، خارج سے متحارب ہے۔ غالب کے یہاں داخل ہی خارج بھی ہے۔ وہ بجلی جو خرمن پر گرتی ہے اور وہ خون جو زندگی دیتا ہے۔ ایک ہی ہیں۔ میر کا شعر ان ہلاکت خیزیوں سے عاری ہے، کیوں کہ مبہم نہیں ہے۔

    پانچویں مثال کو تیسری کے سامنے رکھیے۔ دونوں شعروں میں دونوں شاعروں نے تمثیلی انداز بیان اختیار کیا ہے۔ میر کا مصرع موند رکھنا چشم کا ہستی میں عین دید ہے، بہ ظاہر تو چشم و اگر دیدہ آغوش وداع جلوہ ہے کا آسان Version ہے۔ لیکن میر کا اپنا دوسرا مصرع قابل لحاظ ہے۔ بلبلہ جب پھوٹتا ہے (یعنی جب اس کی آنکھ کھلتی ہے) تو اسے کچھ بھی نہیں نظر آتا۔ یا جب اس کی آنکھ کھلتی ہے تو بلبلہ کچھ بھی نہیں نظر آتا (ختم ہو جاتا ہے) دوسرا مفہوم مصرعۂ اولیٰ سے متصادم ہے، اس لیے کہ اس میں عین دید کی بات کی جار ہی ہے، جس میں معلوم ہوتا ہے کہ بلبلہ کو کوری زیر بحث ہے، نہ کہ اس کا وجود۔

    اس کو اگر یوں کہا جائے کہ بلبلہ جب آنکھ کھولتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں نظر آتا (یعنی وہ دیکھ لیتا ہے کہ دنیا مایا ہے، موہوم ہے، ہے ہی نہیں۔) تو مشکل یہ آ پڑتی ہے کہ جب وہ آنکھ بند کیے ہوئے تھا اور سمجھ رہا تھا کہ دنیا اصلی اور واقعی ہے تو مبتلائے فریب تھا۔ کیا میر کا مدعا یہ ہے کہ وجود ہستی کے فریب میں مبتلا رہنا ہی عین دید ہے؟ اگر یہ مفہوم ہے تو کوئی جھگڑا نہیں۔ لیکن شعر میں صرف دو ہی مفہوم نظر آتے ہیں، پہلا اور تیسرا۔ دوسرا مفہوم اس طرح کھینچ تان کر لایا جا سکتا ہے کہ آنکھ کھلتے ہی بلبلے کی زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ اگر وہ آنکھ بند رکھتا تو زندہ رہتا۔ دیکھنا زندہ رہنے کی علامت ہے، لہٰذا جب وہ زندہ تھا تو دیکھ رہا تھا، اگر چہ اس کی آنکھ بند تھی۔ ان تمام صورتوں میں بلبلے کا استعارہ ناموزوں رہتا ہے، کیوں کہ بلبلے تو بہر حال بصارت سے عاری ہیں۔

     پھر بھی یہ ماننا پڑتا ہے کہ بلبلے کا استعارہ (آدمی بلبلا پانی کا، دریا بہ معنی دریائے حیات، بلبلے کی کم ثباتی اور بے معنویت کا تصور) اپنے مابعد المعنی معانی کی وجہ سے بھلا معلوم ہوتا ہے۔ غالب نے ’’جلوہ‘‘ کا لفظ رکھا ہے، بجائے ’’عین دید‘‘ کے جو یک معنی ہے۔ جلوہ موضوعی منظر کو کہتے ہیں جو غیر حقیقی ہوتا ہے۔ جلوہ کسی شے کے معروضی ظہور کو بھی کہتے ہیں۔ ’’رنگ باختن‘‘ بمعنی ضائع کرنا، آگہی بمعنی عقل وہوش۔ آگہی مجھ سے کہہ رہی ہے کہ یہ دنیا تو دھوکا ہے۔ اس کا تماشا کیا دیکھتا ہے۔ کھلی آنکھ کو وہم ہے کہ وہ دیکھ رہی ہے، حالانکہ دراصل وہ کچھ دیکھتی نہیں۔ اصل تماشا تو بند آنکھیں دیکھتی ہیں۔ یہ کہہ کر آگہی میرے تماشے کو ضائع کر رہی ہے (مجھے دیکھنے نہیں دیتی۔) حالاں کہ مجھے معلوم ہے کہ جب میں آنکھ کھولوں گا (واقعی دیکھنا شروع کروں گا) تو جلوہ (موضوعی منظر) رخصت ہو جائےگا، اور میں وہ شے دیکھ لوں گا جو اس جلوے کی اصل ہے۔ اس طرح شعر کچھ نو افلاطونی سا معلوم ہوتا ہے۔ 11

    لیکن ’’تماشا باختن‘‘ بمعنی تماشے کا کھیل کھیلنا، یعنی سوانگ رچانا بھی ہو سکتا ہے۔ اس طرح مطلب بہ ظاہر الٹا نکلتا ہے۔ جلوہ بہ معنی معروضی منظر ہو جاتا ہے۔ آگہی (بہ معنی عقل یا Reason) میرے سامنے تماشے کا سوانگ رچا رہی ہے۔ اصل تماشا تو آنکھ بند کر کے ہی نظر آ سکتا ہے۔ آنکھ کھلی نہیں کہ منظر غائب ہوا۔ لیکن ’’چشم وا گردیدہ‘‘ کے معنی وہ آنکھ بھی لیے جا سکتے ہیں جو پہلے بند تھی لیکن اب کھل گئی ہے۔ اگر ایسا ہے تو مفہوم یہ بھی نکل سکتا ہے جو آنکھ بند تھی اسے بند ہی رہنا چاہیے، لیکن جو پہلے سے کھلی ہوئی تھی، وہ کچھ اور منظر دیکھ رہی تھی۔ اس منظر کا یہاں ذکر نہیں، اسے متصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ وہ آنکھ جو بند تھی (چشم از خواب نکشادہ) اس کا بند رہنا بہتر تھا، کیوں کہ اس طرح وہ خواب عدم کے تماشے میں محو تھی۔ جو آنکھ پہلے سے کھلی ہوئی ہے (ممکن ہے وہ خدا کی آنکھ ہو جو ازل سے واہے، ممکن ہے وہ عارف کامل کی آنکھ ہو، جو خواب عدم میں بھی وجود کا تماشا دیکھتی تھی، اب وجود میں آئی ہے تو آگہی سے بے نیاز ومبرا ہے۔) اس کو کچھ مشکل نہیں۔

    لیکن جب خواب عدم میں مصروف آنکھ، یا کسی بھی بند آنکھ کو (جو مشاہدۂ باطن میں مصروف ہے) آگہی کا روگ لگ جاتا ہے تو اسے یہ دھوکا ہونے لگتا ہے کہ اصل مشاہدہ تو مشاہدۂ خارج ہے، اس لیے وہ کھل جاتی ہے، جب کھلتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ جلوہ باقی ہی نہیں ہے، یا کبھی تھا ہی نہیں۔ اس تشریح کی روشنی میں آگہی، ذاتی آگہی نہیں بلکہ آگہی کا مابعد الطبیعیاتی تصور بن جاتی ہے جو روز ازل سے انسان کو یہ فریب دیتا رہا ہے کہ کچھ حقائق معروضی بھی ہوتے ہیں۔ ممکن ہے آپ اس پیچیدہ خیالی کا جواز بھی طلب کریں۔ میرا کہنا یہ ہے کہ پیچیدہ خیالی خود اپنا جواز ہوتی ہے اور اپنی قیمت رکھتی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح سادہ خیالی بھی اپنا جواز خود ہوتی ہے، لیکن اس کو کیا کیا جائے کہ شاعری اکثر یہی کہتی ہے کہ نکتۂ چندزپیچیدہ بیانے بہ من آر۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ شاعری اگر صرف ان حقائق کے اظہار وعرفان کا نام ہے جن تک ہماری آپ کی د ست رس پہلے سے ہے تو مجرد خوبی اظہار کے فرضی تصور سے آپ اپنے کو کب تک خوش رکھ سکیں گے؟ ایک بار چبایا ہوا نوالہ سو بار چبایا جا سکتا ہے، پتھر تو تھوکنا ہی پڑےگا۔ ژاک ماری تین کو سنیے، اگرچہ اس کا تعصب یہ تھا کہ افلاطونی عینیت کو رومن کیتھلک تصوف سے ہم آہنگ ثابت کر دیا جائے، لیکن شعر کی مابعد الطبیعیاتی پیچیدگیوں کے بارے میں اس نے خوب کہا ہے،

    ’’[فن] جو کچھ بتاتا ہے اسے اشیاء کی مادی صورت سے نہیں بلکہ اس مخفی معنویت اور قدروقیمت سے مشابہ ہونا چاہیے جس کے چہرۂ زیبا پر چمکتی ہوئی آنکھ صرف خدا کو نظر آتی ہے۔۔۔ آپ چاہیں تو اسے واقعیت کہہ لیں، لیکن یہ واقعیت ماوارئی ہوگی، مادی نہیں۔‘‘ 

    اگر مجھے یہ معلوم ہو کہ لفظ کے علامتی کردار کے بارے میں کیسیرر نے اپنے افکار میں ماری تین سے استفادہ کیا ہے تو مجھے حیرت نہ ہوگی۔ کیوں کہ کیسیرر نے لفظ کا تفاعل یہی قرار دیا ہے کہ وہ قبل از لفظی Preverbal فکر کا انعکاس ہوتا ہے۔ بہر حال میں نے ابھی تک غالب کے شعر زیر بحث میں جو باتیں ڈھونڈی ہیں وہ غالب نے ارادۃ ً رکھی تھیں یا غیرشعوری طور پر پیدا ہو گئی ہیں، اس بحث میں الجھنے کی ضرورت یوں نہیں ہے کہ اس کا شعر فہمی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

     بنیادی بات یہ ہے کہ جب کوئی بھی شاعر شعر کہتے وقت پوری طرح اس بات سے باخبر نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیوں کہہ رہا ہے، تو یہ فرض کرنا غلط ہوگا کہ شعر سے وہی نکات برآمد ہو سکتے ہیں جو شاعر کے شعور میں تھے۔ ابہام شعر کی ذاتی اور فطری صفت ہوتا ہے۔ اگر آپ کے الفاظ ابہام کے حامل ہیں تو وہ اکثر آپ کی وجہ سے نہیں، بلکہ آپ کے باوجود ایسے ہوتے ہیں۔ ان سے اس بات پر جھگڑنا گویا اپنی قبل از لفظ فکر سے جھگڑنا ہے۔

    غالب کے چھٹے اور ساتویں شعروں پر اظہار خیال میں اور موقعوں پر کر چکا ہوں۔ یہاں اعادے کی ضرورت نہیں۔ اس کے علاوہ اوپر کی بحثوں سے اگر آپ کچھ مطمئن ہوئے ہیں تو دیکھ ہی لیں گے کہ میر کے مصرعے عاشق کی بھی یاں گزر گئی رات/ اور کوئی تو آبلہ پادشت جنوں سے گزرا یا توضیحی عمل کرتے ہیں (کوئی تو آبلہ پاگزرا) یا معنی کو محدود کرتے ہیں (عاشق کی بھی یاں گزر گئی رات) اس کے برخلاف غالب نے پہلے شعر میں اندیش ہائے دور دراز کو آزاد چھوڑ کر معنی کو تقریباً لا محدود کر دیا ہے اور دوسرے شعر میں گزرنے کے عمل کا نتیجہ تو ظاہر کر دیا ہے۔ لیکن کون گزرا ہے، یہ نہیں کھلتا۔ غالب کے دونوں مصرعے گرمی اور روشنی کے پیکروں کے حامل ہیں، میر کا پہلا مصرع پیکر سے عاری ہے۔

    غالب کا آٹھواں شعر ایک مخصوص ابہام کا حامل ہے جو مراعات النظیر سے پیدا ہوا ہے۔ سودا، زلف، وحشت، شب، آبنوسی، چاک۔ اس شعر میں یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ ’’سودا‘‘ بہ معنی سیاہی ہے یا بہ معنی جنوں۔ ’’سودائے خیال زلف‘‘ بہ معنی خیال زلف کا سودا (جنون) ہے، یا زلف کا خیال سودا (سیاہ خیال) ہے۔ ’’دل شب، آبنوسی شانہ آسا‘‘ پڑھیں یا ’’دل شب آبنوسی‘‘ (یعنی رات کا آبنوسی دل) کہیں؟ ’’تادل شب‘‘ کے معنی ’’رات کے دل تک‘‘ سمجھیں یا ’’اس حد تک کہ رات کا دل‘‘ نکالیں؟ یہ سب الجھاوے صرف قرأت کے نہیں ہیں، ان کو مناسب الفاظ نے شہ دی ہے۔ سارے شعر پر سیاہی کا منظر چھایا ہوا ہے۔ لیکن کسی ارادے کا اظہار نہیں ہے۔ اس وجہ سے شعر میں وہ غیر ضروری ارادیت نہیں ہے جو میر کے یہاں ہے۔

    سنان آہ کو دل شب کے پار کر دینا بہ طور جوابی کارروائی کے ہے۔ اس لیے کہ شب ہی ان حادثات کا سبب بنتی ہے جو میر پر ہر روز وار کرتے ہیں۔ یا شاید دن پر اختیار نہیں ہے اس لیے رات کو کمزور سمجھ کر اس سے بدلہ لیا جا رہا ہے۔ ابہام کی یہ کیفیت خوب ہے، لیکن ارادے کا اظہار شعر کو ایک مخصوص سیاق وسباق دے دیتا ہے۔ ہم پر ایسا ہو رہا ہے اس لیے ہم ویسا کریں گے کے بجائے ہم پر ایسا ہو رہا ہے، ہم ایسا کر رہے ہیں، کہا جائے تو مفہوم کو آزاد ہونے میں مدد ملتی ہے۔ کیوں کہ پھر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہماری کارروائی بدلے کے طور پر ہے یا شکریے کے طور پر یا دونوں میں کوئی ربط ہے بھی یا نہیں۔

    جیسا کہ اب تک کی گفتگو سے واضح ہوا ہوگا، شعر میں ابہام کئی وجہوں سے آ سکتا ہے۔ ان میں تعقید لفظی یا نشست الفاظ کی طرف لوگوں کا دھیان کم گیا ہے۔ غالب کے کلام نے جدید شارحین کی وجہ اس نکتہ پر منعطف کی ہے۔ لیکن ابہام کی سب سے بڑی پہچان علامت ہے۔ کیوں کہ علامت کا وصف ہی یہی ہے کہ وہ مبہم تصورات کو نام دے دیتی ہے۔ شاعر کی آنکھ کے اس عمل کا استناد اگر درکار ہو تو شیکسپیئر سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ 12

     علامت کی اسمیت اور شیئت اسے استعارے سے ممتاز کرتی ہے، جو مشاہدے پر مبنی ہوتا ہے اور بیان پر اکتفا کرتا ہے۔ گویا علامت وہبی علم کا اظہار کرتی ہے اور استعارہ اکتسابی علم کا۔ میر کے یہاں ’’میں‘‘ اور ’’ہم‘‘ اس کلیہ کی اچھی مثال ہیں۔ کیوں کہ میر کے کلام میں یہ ضمائر شخص واحد (چاہے وہ میر ہوں یا کوئی اور) کے بدل کی طرح نہیں استعمال ہوئے ہیں، بلکہ اس غیر مرئی انسانیت کا بدل ہیں جو خود کو ایک بے گانہ کائنات سے (جو اصلاً غیر انسانی) متصادم پاتی ہے۔

     ’’میں‘‘ اور ’’ہم‘‘ کا یہ تصور میر کی شاعری کی مسلسل کامیابی اور قوت کا راز ہے۔ ورنہ اگر سطحی مماثلتوں کو دیکھیے تو محمد حسین آزاد سے لے کر آج تک تمام نقاد قائم اور درد کی بہترین غزلوں کو میر کے بہترین کلام کا ہم پلہ بتاتے رہے ہیں۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انفرادی طور پر درد اور قائم دونوں کے یہاں فرد فرد اشعار میر سے بہتر نکل سکتے ہیں۔ بلکہ بعض پہلو تو ایسے ہیں (مثلاً درد کے ہاں تشکیک کی کسک اور قائم کے یہاں مرکب اضافی کا آہنگ) جو میر کی پہنچ سے عام طور پر دور رہے ہیں۔

     لیکن اس ننھی سی علامت کی کارفرمائی نے میر کو جو معنوی وسعت دے دی ہے وہ درد اور قائم کے حصے میں نہیں ہے۔ کہا گیا ہے کہ میر نے اپنے عہد کے انتشار، افراتفری، بے اطمینانی اور اقدار کی شکست و ریخت کا درد اپنے کلام میں بھر لیا ہے۔ ممکن ہے درست ہو لیکن سودا، سوز، قائم، درد کے یہاں یہ بات کیوں نہیں؟ یہ لوگ بھی تو اسی زمانے میں تھے اور میر ہی کی طرح آشفتہ حال رہے۔ اگر یہ سب صرف ان کے ماحول اور وقت کا کھیل ہے تو کیا وجہ ہے کہ میر کو ہی یہ بات نصیب ہوئی؟ ظاہر ہے کہ ایک ہی عہد میں مختلف شاعروں کا وجود اس بات کی دلیل ہے کہ ہر شخص کا شاعرانہ اظہار اس کا اپنا ہوتا ہے۔ میر نے اپنے لیے یہ علامتیں ڈھونڈ لیں، لہٰذا رطب و یابس (بلکہ رطب کم اور یابس زیادہ) کے ہوتے ہوئے بھی ان کے کلام میں شاعری کا عنصر زیادہ زیادہ رہا۔

     اگر یہ سوال اٹھے کہ ’’ہم‘‘ اور ’’میں‘‘ کو علامت کیوں فرض کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ان ضمائر کی جو غیرمعمولی تکرار میر کے یہاں ملتی ہے اور جس طرح سے وہ ہر سبب و علت کو ’’میں‘‘ اور ’’ہم‘‘ کے حوالے سے پرکھتے ہیں، وہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ الفاظ کسی ایک شخص کی صورت حال سے بہت زیادہ وسیع صورت حال کی نشان دہی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر غالب کے یہاں یہ الفاظ اس قدر خال خال کیوں ملتے ہیں؟ خود درد، سودا، قائم اور میر کی ہم طرح غزلوں کا مطالعہ اس سلسلے میں دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ ہمارے عہد میں خلیل الرحمٰن اعظمی کی غزل بھی ’’میں‘‘ اور ’’ہم‘‘ کو علامتی انداز میں استعمال کرتی ہے، اور یہی خصوصیت، نہ کہ ان کاا سلوب، ان کو میر کے نزدیک لاتی ہے۔

    اوپر جو مثالیں زیر بحث آئیں ان کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالنا بہت آسان ہو گیا ہوگا کہ صرف وہی شعر مبہم نہیں ہے جس کو سمجھنے کے لیے معمول سے زیادہ غور و فکر کی ضرورت پڑے۔ یہ ملحوظ خاطر رہے کہ سمجھنے سے میری مراد شاعر کاعندیہ سمجھنا نہیں ہے، بلکہ خود اپنے جمالیاتی تجربے کا تجزیہ اور تفسیر ہے۔ ممکن ہے کہ جو مطلب میں نے نکالا ہو وہ شاعر کا نہ ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر میرا مطلب الفاظ میں موجود ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اسی شعر کا ہے، کوئی میرا ایجاد کیا ہوا نہیں ہے۔

     ایک صاحب نے ابہام کی مخالفت کرتے ہوئے یہ مثال دی کہ ایک جدید شاعر کے کسی شعر کا وہ نہایت پیچیدہ مفہوم نکال رہے تھے لیکن خود شاعر سے رجوع کیا تو اس نے نہایت سامنے کے اور سادہ معنی بیان کیے۔ ان صاحب کو یہ مثال اپنی سخن فہمی کی دلیل کے طور پر دینی چاہیے تھی، نہ کہ ابہام کی مخالفت میں۔ بہ قول افتخار جالب، ’’اگر ہر کوئی نظم میں اپنی پسند کے مفاہیم انڈیلنے لگے تو آپ احتجاج بھی نہیں کر سکتے کہ سخن فہمی کی روش بھی یہی ہے۔ ایسے ایک سے زائد معنی میں سے کوئی معنی حقیقی و واقعی ہونے کی سند لے سکتا ہے نہ مصنوعی قرار دیا جا سکتا ہے۔ بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ان معنوں میں شعر کے کوئی معنی ہوتے ہی نہیں۔‘‘ 

    گیان چند جین لکھتے ہیں کہ سوغات کے جدید نظم نمبر کی نظمیں پڑھ کر انھیں محسوس تو ہوا کہ کوئی بات ہے لیکن اہمیت روشن نہ ہوئی۔ اسی پرچے میں بعض نظموں کی تشریحیں بھی تھیں، جب ان کی روشنی میں پڑھا تو انوکھا لطف محسوس ہوا اور یہ بھی خیال آیا کہ یہی باتیں اگر وضاحت سے کہہ دی جاتیں تو وہ بات نہ رہتی۔ یہ تاثر ادب کے ایک ایسے طالب علم کا ہے جو نئی شاعری نہ پڑھے تو اس کا کچھ بگڑتا نہیں، کیوں کہ اس کا میدان کچھ اور ہے اور اس کا وہ مرد ہے۔ تو پھر ہم آپ جو ابھی طفل مکتب ہیں کیا اتنی بھی ایمان داری نہیں برت سکتے؟ بہر حال ابہام کا مسئلہ اشکال سے مختلف ہے۔ اشکال کا حل لغت، حوالے کی کتابوں، پس منظری معلومات وغیرہ کی مدد سے ہو سکتا ہے لیکن شعر جو لغت کی مدد سے نہ سمجھا جا سکے، مبہم ہوگا۔

    اسی لیے میں کہتا ہوں کہ سہل ممتنع کا شعر بھی مبہم ہو سکتا ہے اور نہایت فارسی عربی آمیز شعر (جیسے انشا کا قصیدہ) بھی ابہام سے عاری ہو سکتا ہے۔ ایسے ہزاروں شعر ہیں جن کو دیکھ کر ہم سرسری گزر جاتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ان میں کہا گیا ہے، سامنے ہے۔ لیکن جب ان سے سوال جواب شروع ہوتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ شعر میں تو بہت کچھ تھا۔ خاقانی، میر حسن اور میر کے جو شعر میں نے نقل کیے ہیں، اس اصول کو اچھی طرح ثابت کرتے ہیں۔ میر اور درد کے یہاں تو ابہام کی یہ کیفیت قدم قدم پر مل جائےگی۔

    ابہام کی دوسری شکل یہ ہوتی ہے کہ شعر پہلی نظر میں ایسے مطالب کا حامل نظر آئے جو نیم روشن ہوں، لیکن غوروفکر اور ہر لفظ کے تفاعل کو جانچنے پرکھنے کے بعد اس کے تمام نکات واضح ہو جائیں، اور یہ محسوس ہو کہ ہم اس شعر سے اس سے زیادہ حاصل نہیں کر سکتے، ہم نے ہر لفظ کی توجیہہ و تشریح اپنے اطمینان کی حد تک کر لی ہے۔ غالب کے یہاں اکثر اور میر کے یہاں وافر تعداد میں ایسے شعر ملتے ہیں۔ اوپر کی مثالیں بھی اس کو واضح کرتی ہیں۔ ابہام کی آخری منزل یہ ہے کہ پورے غور وفکر اور تمام الفاظ کی توجیہہ کے بعد بھی یہ محسوس ہو کہ ابھی اس کنویں کو کھنگالیں تو کئی ڈوول پانی ہے۔ ایسا ابہام زیادہ تر علامتی استعارے اور علامت کا مرہون منت ہوتا ہے۔ اس کی بہترین مثال خود غالب کا شعر ہے جس میں انھوں نے شاعری کے پردے میں گویا شاعرانہ ابہام کی تعریف کی ہے،

    شوخئ اظہار غیر از وحشت مجنوں نہیں
    لیلئ معنی اسد محمل نشین راز ہے

    بیدل کا ایک شعر میں ایک اور موقعے پر نقل کر چکا ہوں،

    اے بسا معنی کہ از نا محری ہائے زباں
    باہمہ شوخی مقیم پردہ ہائے راز ماند

    ان دونوں اشعار کے بعد ابہام کی توضیح و تحمید میں صفحے سیاہ کرنا کا غذ کا منہ پر کالک ملنا ہے۔

    تو کیا اہمال کوئی چیز نہیں؟ کیا یہ شعر بھی مہمل نہیں ہے جسے ناسخ نافہموں کے امتحان کے لیے سنایا کرتے تھے؟

    ٹوٹی دریا کی کلائی زلف الجھی بام میں
    مورچہ مخمل میں دیکھا آدمی بادام میں

    اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے کسی مخصوص سیاق وسباق میں یہ شعر بھی مہمل نہ رہ جائے۔ فرض کیجیے میں کسی خواب کا منظر بیان کر رہا ہوں۔ خواب ہماری آپ کی عقل کا تو پابند ہوتا نہیں، لوگ بے مفہوم مناظر خواب میں دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ اگر شعر ایسی صورت حال کا اظہار کر رہا ہے تو قطعاً با معنی ہے، کیوں کہ اس کا اہمال ہی اس کی معنویت کی دلیل ہے، بہ صورت دیگر ظاہر ہے کہ یہ شعر مہمل ہے۔

    ابہام کی تعریف میں نے یوں کی تھی کہ ایسی صورت جو سوال کی متقاضی ہو اور ان سوالوں کے جو بھی جواب ملیں وہ شعر کے ہی محاذ سے اٹھیں اور شعر کی بابت ہمارے تجربے کو وسیع کریں، مبہم صورت ہے۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس صورت میں سے ایسے سوال اٹھیں جس کا جواب شعر میں نہ ہو، مہمل ہے۔ میں کسی شعر کو اس وقت تک مہمل نہیں کہتا جب تک یہ اطمینان نہ ہو جائے کہ جواب ڈھونڈنے میں ناکامی میری اپنی کوتاہی کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ شعر جوابوں سے واقعی عاری ہے۔ میں زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ شعر یا نظم میرے لیے معنی خیز نہیں ہے لیکن ایسے لوگوں کا جواب میرے پاس نہیں ہے جو شعر میں صرف موٹے موٹے اشارے ڈھونڈتے ہیں۔ بہت سے لوگ عینک لگا کر بھی چالیس فیٹ لمبا سائن بورڈ نہیں دیکھ پاتے اور بہت سے لوگ چاندنی میں بھی بلا عینک لگائے باریک حرف پڑھ لیتے ہیں، اس کو کیا کیا جائے، یہ دنیا کا دستور ہے، ایسی اونچ نیچ ہوتی ہی رہتی ہے۔

    کیا شعر میں ایسی خوبیاں نہیں ہوتیں جو نثر میں بھی ہو سکتی ہیں؟ یقیناً ایسا ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے۔ آخر رعایت لفظی، قول محال، ضلع، طنز، ہجو ملیح برجستگی، صفائی، بلاغت (بہ معنی اختصار الفاظ) شعر کی ملکیت تو ہیں نہیں، اصلاً یہ نثر کی مملکت ہیں لیکن شعر میں بھی در آئی ہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر کسی کلام میں موزونیت اور اجمال کے سوا کچھ نہ ہو لیکن کوئی نثری خوبی مثلاً طنز ہو، تو اسے کیا کہا جائے گا؟ میں چوں کہ ’’خالص شاعری‘‘ کی تعریف متعین کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، اس لیے ایسے کلام کو شاعری کا درجہ (درجہ ’’بلندی‘‘ اور ’’پستی‘‘ کے معنی میں نہیں ہے بلکہ Category کے معنی میں) نہیں دیتا۔ میں اسے غیر شعر کہتا ہوں، لیکن یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ میری تعریف پر پورے اترنے والے غیراشعار سے دنیا کی شاعری اور علی الخصوص اردو فارسی شاعر بھری پڑی ہے۔

    میں ایسے کلام سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔ اسے نثر سے الگ اور مختلف سمجھتا ہوں۔ یہ بھی نہیں کہ اسے مستحسن نہیں سمجھتا، لیکن نظریۂ شعر کو افراتفری، گھس پیٹھیوں اور ذمیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اسے غیر شعر ہی کی کا بک سے غٹرغوں کرتا ہوا سننا پسند کرتا ہوں۔ مادۂ تاریخ ہزار برجستہ سہی لیکن محض برجستگی اسے شاعری نہیں بناتی، اور نہ تاریخ گو کو آپ شاعر مانتے ہیں۔ حالی (جو بہت ساری جدید تنقید کے پیش امام ہیں، خاص کر جہاں شعر فہمی کا معاملہ ہے) بھی اس حقیقت سے باخبر تھے۔ لیکن وہ استعارے 13 اور پیکر کی گہرائیوں میں نہ اترنے کی وجہ سے مضمون کی خوبی کے الجھاوے میں پڑ گئے ہیں۔ کہتے ہیں،

    ’’بعض مضامین فی نفسہ ایسے دل چسپ اور دل کش ہوتے ہیں کہ ان کا محض صفائی اور سادگی کے لحاظ سے بیان کر دینا کافی ہوتا ہے۔ مگر بہت سے خیالات ایسے ہوتے ہیں کہ معمولی زبان ان کو ادا کرتے وقت رو دیتی ہے اور معمولی اسلوب ان میں اثر پیدا کرنے قاصر ہوتے ہیں۔ ایسے مقام پر اگر استعارہ اور کنایہ تمثیل وغیرہ سے مدد نہ لی جائے تو شعر شعر نہیں رہتا بلکہ معمولی بات چیت ہو جاتی ہے۔ مثلاً داغ کہتے ہیں،

    گیا تھا کہہ کے اب آتا ہوں قاصد کو تو موت آئی
    دل بے تاب واں جا کر کہیں تو بھی نہ مر جانا

    اس شعر میں دیر لگانے کو موت آنے اور مر رہنے سے تعبیر کیا ہے۔ اگر یہ دونوں لفظ نہ ہوں بلکہ اس طرح بیان کیا جائے کہ قاصد نے تو بہت دیر لگائی، اے دل کہیں تو بھی دیر نہ لگا دینا تو شعر میں کچھ جان باقی نہیں رہتی۔‘‘ 

    اس میں کوئی شک نہیں کہ معمولی خیال، معمولی زبان میں اور غیرمعمولی خیال، غیرمعمولی زبان ہی میں ادا ہو سکتا ہے، لیکن حالی نے داغ کے شعر کی مثال غلط دی ہے، کیوں کہ دونوں مصرعوں میں خفیف سا استعارہ (موت آئی اور مر رہنا) موجود ہے۔ مگر بات اصولاً صحیح ہے کہ سادہ روز مرہ میں کام آنے والا خیال اگر موزوں زبان میں نثر کی سی خوبی سے بیان کیا جائے تو جمالیاتی تجربہ بن جاتا ہے، کیوں کہ اس میں اجمال کے علاوہ کولرج کی زبان میں ’’موسیقیت‘‘ کا انبساط بھی شامل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد حالی نے اچھی مثال دی ہے۔ غالب کے شعر میں طنزیہ استعارے کا ذکر کرکے میر کا شعر نقل کیا ہے،

    کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو
    ہاں کہو اعتماد ہے ہم کو

    اور لکھا ہے، ’’یہاں بھی اعتماد نہیں ہے، کی جگہ طنزاً اعتماد ہے کہا گیا ہے۔‘‘ چند صفحے بعد پھر میر کا شعر نقل کیا ہے،

    یہ جو چشم پر آب ہیں دونوں
    ایک خانہ خراب ہیں دونوں

    لکھتے ہیں، اس میں ’’ایک‘‘ کا لفظ ایسا بے ساختہ اور بےتکلف واقع ہوا ہے کہ گویا شاعر نے اس کا قصد ہی نہیں کیا۔۔۔ ’’دونوں‘‘ کے مقابلے میں ’’ایک‘‘ کے لفظ نے آکر شعر کو نہایت بلند کر دیا ہے، ورنہ نفس مضمون کے لحاظ سے اس کی کچھ بھی حقیقت نہ تھی۔‘‘ بات بالکل صحیح ہے لیکن اس رعایت کے ساتھ کہ شعر نہایت بلند ہو گیا ہوگا، لیکن شاعری نہیں ہوئی ہے۔ بے ساختگی اور بےتکلفی (اگرچہ ان اصطلاحوں کی کوئی معروضی حیثیت نہیں ہے) شاعری کی خوبیاں نہیں ہیں، کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو جہاں جہاں وارد ہوتیں شعر کو بلند کر دیتیں (یعنی شاعری بنا دیتیں) اور ان کی بر عکس اشیاء (مثلاً تعقید اور استعارہ) جہاں جہاں وارد ہوتیں شعر کو پست کر دیتیں۔ اگر بےساختگی، بے تکلفی، سلاست، صفائی، سادگی وغیرہ کا یہی عمل ہے تو مندرجہ ذیل شعر کیا برے ہیں،

    تجاہل تغافل تبسم تکلم
    یہاں تک وہ پہنچے ہیں مجبور ہو کر 
    جگر

    وہاں دیکھے کئی طفل پری رو
    ارے رے رے ارے رے رے ارے رے 
    سوز

    لڑکپن میں الفت کا ہم کھیل کھیلے
    وہ بتلا کے کہنا الے لے الے لے 
    محذوب

    سرسری ان سے ملاقات ہے گاہے گاہے
    صحبت غیر میں گاہے سر راہے گاہے 
    جرأت

    یارگر صاحب وفا ہوتا 
    کیوں میاں جان کیا مزا ہوتا 
    سوز

    جرم ہے اس کی جفا کا کہ وفا کی تقصیر
    کوئی تو بولو میاں منہ میں زباں ہے کہ نہیں  
    سودا

    زور زر کچھ نہ تھا تو بارے میر
    کس بھروسے پہ آشنائی کی 
    میر

    غیر اس کے کہ خوب روئے اور
    غم دل کا کوئی علاج نہیں  
    قائم

    جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں، اردو شاعری ایسے کلام سے بھری ہوئی ہے۔ 14 ان کے غیر شعر ہونے کی آخری دلیل میں یہ دے سکتا ہوں کہ ان پر آپ چاہے کتنا ہی سر دھن لیں، واہ واہ کر لیں، موقعے موقعے سے تحریر میں لکھ دیں، گفتگو میں پڑھ لیں، نوجوان انھیں محبوباؤں کے نام خطوں میں درج کریں، لیکن ان کی طرح کے گیارہ شعروں کی غزل یا بائیس مصرعوں کی نظم معنوی دنیا میں اتنی دور تک آپ کا ساتھ نہیں دے سکتی جتنی دور تک غالب کا ایک خط آپ کے ہم راہ چل سکتا ہے اور اسی لیے ان کی طرح کے اشعار کی ایک عمر میر کے اس شعر کے برابر نہیں ہو سکتی،

    یک بیاباں بہ رنگ صوت جرس
    مجھ پہ ہے بے کسی و تنہائی

    اس ساری بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاعری کی معروضی پہچان ممکن ہے اور یہی پہچان اچھی شاعری اور خراب شاعری (یا کم شاعری اور زیادہ شاعری) نثر اور شعر اور غیرشعر، تخلیقی نثر اور شعر، بامعنی اور مہمل میں فرق کرنے میں ہمارے کام آ سکتی ہے۔ صاحبان ذوق و وجدان کچھ بھی کہیں لیکن جس تحریر میں موزونیت اور اجمال کے ساتھ ساتھ جدلیاتی لفظ اور یا ابہام ہوگا، وہی شاعری ہوگی۔ موزونیت اور جمال منفی لیکن مستقل خواص ہیں، یعنی ان کا نہ ہونا شاعری کے عدم وجود کی دلیل ہے، لیکن صرف انھیں کا ہونا شاعری کے وجود کی دلیل نہیں۔ کوئی تحریر شاعری اسی وقت بن سکتی ہے جب اس میں موزونیت اور اجمال کے ساتھ ساتھ جدلیاتی لفظ ہو یا ابہام، یا دونوں ہوں۔

    آخری نتیجہ یہ ہے کہ وہ خواص جو نثر کے ہیں، یعنی بندش کی چستی، برجستگی، سلاست، روانی، ایجاز، زور بیان، وضاحت وغیرہ، وہ اپنی جگہ پر نہایت مستحسن ہیں لیکن وہ شاعری کے خواص نہیں ہیں، اور ان کا ہونا کسی موزوں و مجمل تحریر کو شاعری نہیں بنا سکتا، اسے نثر سے ممتاز اور برتر ضرور بنا سکتا ہے۔ شاعری یا تو شاعری ہوگی یا نہ ہوگی۔ وہ بہ یک وقت شاعری اور نثر نہیں ہو سکتی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم نثری خواص والی شاعری پر ایمان لانے سے انکار اور شعر کی سالمیت کا اعلان کریں۔

    شاعری کے خواص کا بیان آپ نے پڑھ لیا۔ جہاں جہاں آپ متفق نہ ہوں، ان شعروں سے بحث کریں۔ ہمارا آپ کا سفر شروع ہوتا ہے، زاد راہ کے طور پر کولرج کا یہ قول ساتھ لیتے چلیں، ’’ہر وہ شخص جو حق کی بہ نسبت اپنے ہی مسلک ومذہب کے ساتھ زیادہ محبت رکھتے ہوئے آغاز کار کرتا ہے، آگے بڑھ کر اپنے مذہب سے زیادہ اپنے فرقے یا جماعت سے محبت کرنے لگتا ہے، اور انجام کار اسے اپنے علاوہ کسی اور سے محبت نہیں رہ جاتی۔‘‘ 


    حاشیے
    (۱) یہ ملحوظ رہے کہ خودساختہ بے معنی مصرع اس وجہ سے بھی بے معنی ہے کہ اکیلا ہے۔ ورنہ اگر یہ کسی نظم میں آئے تو ممکن ہے کہ سیاق وسباق کی روشنی اسے کوئی تمثیلی (Emblematic) یا استعاراتی Metaphorical یا علامتی Symbolical معنی بخش دے، جیسے شاہ لیئر اور مسخرے کی گفتگو۔ یا اگر پوری نظم یا نظم کا بیش تر حصہ اسی طرح کے الفاظ پر مشتمل ہو تو ممکن ہے کہ شاعر نے ایسے الفاظ کے ذریعہ کوئی مخصوص آہنگ اور اس آہنگ کے ذریعہ کوئی مخصوص نفسیاتی تاثر خلق کرنا چاہا ہو۔ ویچل لنڈسے Vachel Lindsay کی مذہبی نظموں کا مطالعہ اس سلسلے میں دل چسپی سے خالی نہ ہوگا۔ لیکن یہ بھی ملحوظ رہے کہ ایسے الفاظ گڑھنا جو قطعاً بے معنی ہوں، تقریباً نا ممکن ہے۔
    (۲) مثلاً وہ شعر کے ساتھ ارادے کی شرط کے منکر ہیں۔
    (۳) کانٹ کے مباحث میں میں نے ان دونوں کے مضامین سے بھی تفصیلی استفادہ کیا ہے۔
    (۴) خیال الفاظ میں بند ہوتا ہے، آپ جتنے لفظ جانتے ہیں، اتنے ہی خیالات آپ کے پاس ہیں۔ یہ نظریہ مغرب میں وٹ گنسٹائن نے پیش کیا ہے اور چند دوسروں نے بھی، مثلاً کارل کراس، ’’گفتگو فکر کی ماں ہے، اس کی خادمہ ہے۔‘‘ اور لشتن برگ، ’’میں نے زبان کے کنویں سے ایسے بہت سے خیالات نکالے ہیں جو میرے پاس نہیں تھے اور جنھیں میں الفاظ میں ادا نہیں کر سکتا تھا۔‘‘ رچرڈس نے بھی اس حقیقت کی طرف ہلکا سا اشارہ کیا ہے۔
    (۵) That which must be said cannot be said in poetry یہ قول آڈن نے نقل کیا ہے۔
    (۶) اور پچھلے عہد میں حالی نے، ہمارے عہد میں سلیم احمد، وارث علوی، وزیر آغا اور محمود ہاشمی نے تخلیقی اور توضیحی نثر کے امتزاج کے اچھے نمونے پیش کیے ہیں۔
    (۷) حافظ کا شعر نقل کر کے اپنی ’’فارسی دانی کا مظاہرہ نہیں بلکہ صرف مجبوری کا اظہار مقصود ہے کہ اردو کے شعر نہیں مل سکے۔ یوں بھی فارسی کے کئی شعر، جن کا ذکر میں نے کیا ہے نیر مسعود کے عطا کردہ ہیں، بلکہ اس پوری کاوش میں ان کا بڑا حصہ ہے، کیوں کہ ان سوالوں پر میں اور وہ مدتوں بحث کرتے رہے ہیں اور جو نتائج میں نے نکالے ہیں ان میں سے بیش تر ہم دونوں میں اتفاق رائے ہے۔
    (۸) حالاں کہ خودنویسی کے بارے میں ہر برٹ ریڈ کہتا ہے، خودنویسی اور اتفاق ایک ہی چیز نہیں ہے۔ الہام کوئی اندھا تحرک نہیں ہو سکتا۔
    (۹) مصحفی کے شعر کی نشان دہی مسعود حسن رضوی ادیب نے کی ہے۔ حسن اتفاق ہے کہ چاروں شعرا (یا خاقانی کے تینوں خوشہ چینوں) نے خاقانی کی طرح یہ خیال مقطعے میں ہی باندھا۔
    (۱۰) We are such stuff as dreams are made on and our little life is rounded with a sleep… The Tempest
    (۱۱) As flies to wanton boys are we to Gods, They kill us for their sport.
    (۱۲)  اس کے بر عکس بھی ہو سکتا ہے، غالب، عالم آئینہ رازست، چہ پیدا چہ نہاں تاب اندیشہ نہ واری بہ نگا ہے۔
    (۱۳) شاعر کی آنکھ۔۔۔ ان چیزوں کو بھی ایک مقامی اتاپتا اور نام عطا کر دیتی ہے جو ہوا کی طرح بے وجود ہوتی ہیں۔ A Midsummer Night’s Dream
    (۱۴) دن ڈھلتے ڈھلتے سہی لیکن اس بات کی وضاحت کر دوں کہ میں تمثیل Allegory آیت Emblem نشانی Sign کو استعارے ہی کا تابع موزوں مانتا ہوں، اس لیے ان میں بہ طور جدلیاتی لفظ کے کوئی فرق نہیں کرتا۔ سوائے اس کے کہ اپنے تفاعل کے لحاط سے استعارہ ان سب سے زیادہ تیر ومند ہوتا ہے۔
    (۱۵) جدید امریکن نقادوں نے طنز Irony قول محال داخلی کشا کش وغیرہ پر جو بحثیں کی ہیں وہ انتہائی قابل قدر اور شعر فہمی میں بہت معاون ہیں لیکن ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ چوں کہ ان تحریروں میں یہ کیفیات (طنز وغیرہ) پائے جاتے ہیں اس لیے یہ شعر ہیں۔

     

    مأخذ:

    شعر، غیر شعر اور نثر (Pg. 24)

    • مصنف: شمس الرحمن فاروقی
      • ناشر: ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے