Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ستارہ یا بادبان

محمد حسن عسکری

ستارہ یا بادبان

محمد حسن عسکری

MORE BYمحمد حسن عسکری

    فرانس میں ایک بڈھے کرنل صاحب تھے جنہیں کچھ لکھنے پڑھنے کا شوق تھا۔ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہیں جاتا۔ عمر سپاہیوں کو لیفٹ رائٹ کراتے گزری تھی۔ فوج سے الگ ہوئے تو ادیبوں کو پریڈ کرانے کی سوجھی۔ چنانچہ ایک ادبی رسالہ نکال بیٹھ گئے اور ادیبوں کو بتانے لگے کہ فرانسیسی کس طرح لکھی جاتی ہے۔ نئے شاعروں سے انہیں بڑی شکایت تھی کہ یہ لوگ فرانسیسی بالکل نہیں جانتے۔ سادگی، سلاست، روانی کے ساتھ نہیں لکھتے، خواہ مخواہ بات الجھا کے کہتے ہیں۔ لہذا کرنل صاحب نے ہر مہینے نظموں کی اصلاح فرمانی شروع کر دی۔ چلتے چلاتے والیری کی نظم ’’سمندر کے کنارے ایک قبرستان‘‘ کا بھی نمبر آیا۔ والیری کی ایک لائن یوں تھی۔۔۔

    LE VENT SE LEVE! ILFANT TENTER DEVERVE

    ہوا سنکنے لگی! جینے کی کوشش کرنی چاہئے۔

    کرنل صاحب نے اسے ٹکسالی اور ٹھیٹ فرانسیسی میں یوں تبدیل کیا۔۔۔

    LE VENT LEVE! IL FANT VIVRE MAVIE

    کرنل صاحب کی اصلاح کے بعد زبان بامحاورہ ہوگئی یا نہیں، اس کا تو مجھے پتہ نہیں، اتنی فرانسیسی مجھے نہیں آتی۔ لیکن شاعری ضرور غائب ہوگئی۔ پہلے تو یہی دیکھئے کہ خیال کتنا بدل گیا۔ کرنل صاحب نے کہا ہے کہ مجھے جینا چاہئے۔ ایک انگریزی مترجم نے اسے یوں کر دیا ہے کہ تمہیں جینا چاہئے۔ اس کے برخلاف والیری نے اپنی اس خواہش کو ایک عام اصول کی حیثیت دی ہے۔ اس نے یہ جملہ کہا تو اپنے آپ سے ہی ہے، مگر اس طرح جیسے تمام دوسرے انسانوں سے کہا ہے۔ اسی طرح اس نے اپنی ایک اندرونی تحریک کو زندگی کے متعلق ایک رویے کی شکل دے دی ہے۔

    فلسفہ زیست والے کہا کرتے ہیں کہ جب آدمی اپنے لئے کوئی چیز انتخاب کرتا ہے تو در اصل ساری انسانیت کے لئے انتخاب کرتا ہے۔ والیری نے لفظ ہی ایسے چنے ہیں کہ انتخاب کی دونوں منزلیں ایک ہو کر رہ گئی ہیں، تخصیص اور عمومیت کا فرق مٹ گیا ہے۔ شاید کرنل صاحب الفاظ کا لباس یا زیور سمجھتے ہوں گے لیکن یہاں تو خیال بھی ان کے پلے نہیں پڑا۔

    اب شاعری کی بات لیجئے۔ سارتر نے کہا ہے کہ مصور ٹنٹوریٹو اپنی افسردگی کو زرد آسمان بنا دیتا ہے۔ یہی حال اس لائن کا ہے۔ والیری نے اپنی ایک اندرونی تحریک کو نغمہ بنا دیا ہے۔ یہ صرف جینے کی خواہش کا اظہار یا اعلان نہیں بلکہ یہ لائن بذات خود جینے کی کوشش ہے۔ اس لائن میں دو جملے ہیں۔ ایک فطرت کے بارے میں دوسرا انسان کے متعلق۔ افسوس یہ ہے کہ فرانسیسی کی آوازیں اردو رسم الخط میں منتقل نہیں ہو سکتیں۔ بہر حال شعروں پر غور کئے بغیر مضمون لکھنا حماقت ہے، گو یہ حماقت اردو میں ہمیشہ سرزد ہوتی رہتی ہے۔ خیر۔۔۔ VENT SELIVE DEیہ صرف ہوا کی صوتی عکاسی نہیں ہے۔ ان آوازوں میں فطرت پر انسان کا رشک اور فطرت کے متعلق ایک مستقل نظریہ بند ہے۔ فطرت کے لئے جینا کس قدر آسان ہے! اس کے برخلاف انسان کے لئے جینا ایک مستقل کاوش اور جدوجہد ہے، اسے خارجی اشیا سے بھی لڑنا پڑتا ہے اور اپنے آپ سے بھی۔ یہ ساری کشمکش اس فقرے میں آگئی ہے۔

    چنانچہ اس لائن میں جتنے بھی معنی ہیں وہ الفاظ کے اندر ہیں۔ الفاظ بدل دیجئےتو پورا تجربہ رخصت ہو جاتا ہے۔ والیری اور کرنل صاحب کے درمیان صرف اتنا ہی فرق نہیں تھا کہ والیری کو الفاظ کی نغمگی کا احساس کچھ زیادہ حاصل ہو۔ یہ احساس بھی زندگی اور فن کے بارے میں ایک خاص رویے سے پیدا ہوتا ہے۔ جب تک آدمی اپنی ایک ایک حس کو خارجی اشیا میں داخل نہ کردے اور خارجی اشیا کو اپنی ایک ایک حس میں جذب نہ کرے والیری کی سی شاعری نہیں ہوتی۔

    یہ رویہ کون سا ہے؟ فن کا خارجی اشیا سے، اپنے آپ سے، اور اپنے فن سے کیا رشتہ ہوتا ہے، یہ باتیں ایسی ہیں جن کے متعلق کچھ کہنے کا مجھے حق نہیں پہنچتا۔ ’’پھسلن‘‘ لکھنے کے بعد اگر میں یہ سمجھ بیٹھوں کہ شیکسپئر کے ذہنی عوامل بھی میری گرفت میں آگئے تو میری خود فریبی بلکہ جہالت ہوگی۔ لیکن ادب کے ایک معمولی طالب علم کی حیثیت سے اس قسم کے سوالات بھی ذہن میں پیدا ہونے لازمی ہیں۔ مجھے تو ادب کی تخلیق کا ذاتی تجربہ حاصل نہیں میں تو بس اتنا ہی کر سکتا ہوں کہ بڑے شاعروں نے اپنے کام کے متعلق جو کچھ کہا ہے اس کی مدد سے تخلیق کے اندرونی عوامل کو الٹا سیدھا سمجھنے کی کوشش کروں۔ اس کی حیثیت بالکل ایسی ہی ہوگی جیسے میں کسی کا سفر نامہ پڑھ کر قطب شمالی کا نقشہ کھینچنے بیٹھ جاؤں۔ خیر، دل لگی کی خاطر ہی سہی۔۔۔ جینے کی کوشش کرنی چاہئے!

    اس مقصد کے لئے میں نے دو چیزیں چھانٹی ہیں۔ ایک تومیلارمے کی نظم۔ دوسرے جرمن فلسفی ہائیڈیگر کا ایک مضمون جس میں اس نے ہیلڈرلن کے کلام سے شاعری کے متعلق پانچ بنیادی باتیں نکال کر پیش کی ہیں۔ میلارمے کی نظم فرانسیسی ہی میں نقل ہونی چاہئے تھی۔ کیونکہ جو باتیں باقی دو لوگوں نے فلسفیانہ انداز میں کہی ہیں وہ میلارمے نے اپنی تکنیک کے ذریعہ کہی ہیں۔ لیکن اردو میں تو زیادہ سے زیادہ انگریزی ترجمہ ہی دیا جا سکتا ہے۔ میرا جی تو جرأت رندانہ کر بیٹھے تھے، لیکن میرا عقیدہ ہے کہ اردو میں میلارمے کا ترجمہ نہیں ہو سکتا۔ بلکہ انگریزی میں بھی روجر فرائی کا ترجمہ جرأت رندانہ ہے زیادہ کچھ نہیں۔ جو شخص میلارمے کی نظمیں قافیوں کے بغیر ترجمہ کر ڈالے وہ نیک نیت تو ضرور ہے، میلارمے کی شاعری نہیں سمجھتا۔ اس ترجمے میں شعروں کا مطلب تو ضرور آ گیا ہے شاعری کو فرائی صاحب نے میلارمے کے پاس ہی رہنے دیا ہے۔ خیر یہاں انگریزی ترجمے کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا، اس لئے حاضر ہے۔ نظم کا نام ہے ’’سلام‘‘ یہ نظم ادیبوں کے ایک اجتماع کے موقع پر کہی گئی تھی،

    SULUTATION

    1 1 NOTHING! THIS FORM AND VIRGIN VERSE TO DESIGNATE NOUGHT BUT THE CUP, SUCH FAR OFF THERE PLUNGES A TROOPS OF MANY SIRENS UPSIDE DOWN.

    2 WE ARE NAVIGATING MY DIVERESE FRIENDS.

    3 ALREADY ON THE POOP YOU THE SPLENDID PROW WHICH CUTS THE MAIN OF THUNDERS AND OF WINTERS

    4 3 A FINE CLARITY CALLS ME WITHOUT FEAR OF ITS ROLLING TO CARRY UPRIGHT THIS TOAST

    5 4 SOLITUDE IT WAS THAT THE WORTH OUR SAILS,S WHITE SOLICITED

    میلارمے اس دعوت میں نوجوان ادیبوں کا جام صحت پینے کے لئے کھڑا ہوا ہے۔ یہ کوئی فلسفیانہ موشگافیوں کا وقت نہیں۔ ایک رسمی موقع ہے، اور اسے ہلکی پھلکی باتیں کرنی ہیں۔ اسی موقع کی مناسبت سے اس نے اپنی نظم کی پہلی سطر میں ہی کہہ دیا ہے کہ یہ تو کچھ بھی نہیں، پیالے جھاگ میں، اور ایسے ہی میرے یہ شعر ہیں۔ یعنی یہ ساری نظم ایک کھیل ہے۔ لیکن اس نظم کی طرح فنی تخلیق کا آغاز بھی اسی ’’کچھ بھی نہیں‘‘ اسی کھیل سے ہوتا ہے۔ آج کل کچھ نقاد ایسے بھی ہیں جو فن کے سلسلہ میں کھیل کا نام سن کر بگڑ جاتے ہیں اور فورا یہ سمجھانا شروع کر دیتے ہیں کہ کھیل کا نفسیاتی مطلب کیا ہے اور انسان کے لئے اس کی حیاتیاتی اہمیت کتنی ہے۔ لیکن فنکاریہ سوچ کر لکھنے نہیں بیٹھتا کہ اس وقت مجھے انسان کی ایک زبردست خدمت انجام دینی ہے۔ اس کی تخلیقی سرگرمی کے نتائج انسانیت کے لئے کتنے ہی اہم کیوں نہ ہوں، تخلیقی لمحے میں اسے نتائج سے سروکار نہیں ہوتا۔

    عشق کرنے سے پہلے آدمی یہ نہیں سوچا کرتا کہ نسل انسانی کی افزائش میرا فرض ہے۔ فنکار بھی ایک تخلیقی شہوت کے پنجے میں گرفتار ہوتا ہے وہ اس کھیل کے لطف کی خاطر اپنے آپ کو اس تحریک کے حوالے کر دیتا ہے۔ اس معاملے میں فنکار کی حیثیت کچھ عورت کی سی ہے۔ برسوں کے دکھ تخلیقی لمحے کی لذت میں تحلیل ہوکے رہ جاتے ہیں۔ اس کھیل کی مسرت میں فنکار کو یہ بھی یاد نہیں رہتا ہے کہ وہ کون سی اذیت اپنے سر لے رہا ہے۔

    ہربرٹ ریڈ صاحب کے دل پر کھیل کی حیاتیاتی عظمت جتنی چاہے نقش ہو، لیکن فنکار کے لئے تخلیقی منجملہ اور باتوں کے کھیل بھی ہے۔۔۔ اور انہیں معنوں میں جو معنی بچے اس لفظ کے سمجھتے ہیں۔۔۔ بیلڈرلن نے شعرگوئی کے متعلق سب سے پہلی بات یہی کہی ہے کہ یہ سب سے معصومانہ مشغلہ ہے۔ وہ اس لئے کہ بقول ہائیڈیگر شعر گوئی حقیقت پر براہ راست اثرانداز نہیں ہوتی۔ یہ عمل نہیں ہے۔ یہاں ہمیں فیصلے نہیں کرنے پڑتے، جن کے ذریعے جرم یا گناہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ بات پوری طرح درست نہیں، لیکن فنی تخلیق پر بظاہر کھیل ہی معلوم ہوتی ہے۔۔۔ خصوصا فنکار کو کم سے کم تخلیق کے وقت در اصل تخلیق اتنی دہشت ناک چیزہے کہ اگر یہ ایک بے ضرر کھیل نہ معلوم ہوتو فنکار، اس کے پاس نہ بھٹکے۔ چنانچہ کھیل بھی شاعری کا ایک بے ضرر حاشیہ بتایا ہے۔ یعنی جس طرح پہاڑ کے ساتھ وادی لگی رہتی ہے، فنکار کی شخصیت کا ایک عنصر دل لگی بازی بھی ہے۔ بلکہ ایزرا پاؤنڈ کے خیال میں تو ہربڑا شاعر کسی نہ کسی حد تک پھکڑ باز ہوتا ہے۔ خبر مجھے تو تخلیق کا پتہ ہی کیا ہے لیکن ٹامس مان جیسے بھاری بھرکم آدمی نے مجھے یہی بتایا ہے کہ غیرفنکاروں کو فنکار کی جو چیز سب سے زیادہ ڈراتی ہے وہ اس کا چلبلاپن ہے اوروں کو چھوڑیئے، نٹشے جیسا شخض ویگز سے اسی لئے بدک گیا۔

    بہرحال فنکار کےلئے تخلیق کا آغاز اسی طرح ہوتا ہے، جیسے میلارمے کی نظم شروع ہوئی ہے۔۔۔ ارے صاحب چھوڑیئے، یہ تو کچھ بھی نہیں، جھاگ ہے۔ جھاگ اٹھنا شروع ہوا تو میلارمے کو اس میں سب سے پہلے جل پریاں غوطے لگاتی نظر آئیں۔ یہ تخلیق کا دوسرا عنصر ہوا۔۔۔ خواب۔ اس لفظ کی نفسیاتی اور حیاتیاتی تفسیریں شروع نہ کیجئے۔ ابھی ہم انسانی زبان بول رہے ہیں اور فنکاروں کی توہین کرنا چاہتے ہیں۔ آگے چل کر چاہے ہمیں یہ ماننا پڑے کہ فن میں جو حقیقت ہے اس کے مقابلے میں اور حقیقتیں صرف ایک سایہ ہیں۔ لیکن چونکہ فن اس چیز سے علیحدہ ہے جسے ہم روز مرہ کی زندگی میں حقیقت کہتے ہیں۔ اس لئے ہمیں یہ پہلی نظر میں بے حقیقت اور بےاصل معلوم ہوتا ہے۔ فن انسانی ذہن کے کسی عمل کو رد کرنا جانتا ہی نہیں، یہ تو ساری سطحوں پر ایک ساتھ چلتا ہے۔ کولرج نقاد بن گیا۔ تو اس نے خیال آرائی اور تخیل کا فرق بتانے میں صفحے کے صفحے سیاہ کر ڈالے۔ مگر فنکار دیدہ و دانستہ اپنے آپ کو روز مرہ کی حقیقت سے الگ کرتا ہے۔ وہ جان بوجھ کر خواب دیکھنے بیٹھتا ہے۔ عام لوگوں کی طرح خواب دیکھنے سے جھینپتا نہیں۔ اسی خیال آرائی کے ذریعے اس کا فنی تخیل حرکت میں آتا ہے۔ میلارمے نے تو اسے ایک باقاعدہ ریاضت بنا دیا تھا۔ یہ خواب دیکھنے کا عمل بھی فنکار کے کھیل کا ایک حصہ ہے اور اس کے بغیر شعر و شاعری تو الگ رہی، زولا کا حقیقت پرستانہ قصہ بھی نہیں لکھا جا سکتا۔

    زولا نے روگوں ماکار خاندان کی کہانی نقل مطابق اصل لکھی، مگر خاتمہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ اتنے میں فرانس کو ۱۸۷۰ء میں جرمنی نے شکست دی۔ زولا نے کہا کہ ہاں، اب ہوا، مجھے ایسے ہی واقعہ کی ضرورت تھی۔ یہ جھاگ میں سے نکلنے والی جل پریاں نہیں تو اور کیا ہیں؟ یہ غیر حقیقی فضا بھی فن کے لئے اتنی ہی ضروری ہے جیسے پہاڑ کے لئے بادل۔ حقیقت میں ڈوب جانے کے لئے فنکار کو پہلے روزمرہ کی حقیقت سے قطع تعلق کرنا پڑتا ہے۔ میلارمے کی جل پریوں کے سلسلے میں ابھی آپ نے UP SIDE DOWN کا فقرہ پڑھا۔ اس کی فرانسیسی۔۔۔ AL ENVER میلارمے نے اس کا قافیہ رکھا ہے۔ VERS یعنی شعر۔ واقعی ان دونوں باتوں میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ شعر کے کہنے کے لئے شاعر کو یوں ہی کھڑا ہونا پڑتا ہے کہ سر نیچے، ٹانگیں اوپر۔ حقیقت کی اصلی شکل اس طرح نظر آتی ہے۔ فنکار اپنے کھیل کی دھن میں یہ بھی کر گزرتا ہے۔ حقیقت کی سرحد پھلانگ جانے کے بعد اس کے ساتھ کیا بات پیش آتی ہے؟

    میلارمے نے دوسرے بند کے شروع میں کہا ہے، ’’ہم سمندر میں چل رہے ہیں۔‘‘ جب تک شاعر اپنے خواب کو الگ رہ کر دیکھتا رہا، یہ ایک کھیل تھا لیکن جیسے ہی وہ اپنے خواب کے اندر داخل ہوا یہ کھیل مہم بن گیا۔۔۔ سمندر کے سفر کی طرح مشکل اور خطرناک۔ یہ مہم کیا ہے؟ اپنی اندرونی دنیا کی تفتیش؟ انسانی فطرت کے رازوں کی جستجو؟ حقیقت عظمی کی تلاش؟ جو چاہے کہہ لیجئے۔ اس سفر میں آدمی سبھی کچھ ڈھونڈتا ہے۔ لیکن اس مہم کا ایک اور بھی زیادہ بنیادی مطلب ہے۔ بیلڈرلن کہتا ہے کہ انسان کے پاس خدا کا سب سے خطرناک عطیہ زبان ہے۔ اور یہ تحفہ اس لئے دیا گیا ہے کہ وہ بتائے میں کیا ہوں۔ اگر پتھر ایک فلسفہ حیات گڑھنے بیٹھے تو پتہ نہیں وہ کیا کہے گا۔ بہر حال ہم اپنے نقطہ نظر سے دیکھیں توانسان اور پتھرمیں یہ فرق محسوس ہوتا ہے کہ انسان کے لئے وجود ایک اندرونی تجربہ ہے۔ پتھر کے لئے نہیں۔ انسان جو کچھ بھی ہے وہ اس وقت بنتا ہے جب اپنے ہونے کا اقرار کرے۔ اس اقرار کے بغیر انسان وجود میں نہیں آتا اور انسان کا سب سے پہلے اور بنیادی کام ہے وجود میں آنا۔ باقی سارے کام اس کے بعد آتے ہیں۔

    انسان اپنے جس وجود کا اقرار کرتا ہے وہ کیا چیز ہے؟ یہ ایک رشتہ ہے دوسری چیزوں کے ساتھ۔ جو اصول چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ اور ایک دوسرے سے منسلک رکھتا ہے، اسے بیلڈرلن نے ’’قربت‘‘ کا نام دیا ہے۔ انسان وجود میں آنے کے لئے یہ اقرار کرتا ہے کہ اس ’’قربت‘‘ کا ایک حصہ ہوں۔ یعنی انسان دوسری چیزوں کی مدد سے وجود میں آتا ہے۔ اس کا اعتراف اور اقرار ہی وجود ہے۔ اس اقرار کا ذریعہ انسان کے پاس زبان ہے۔ آسانی کے لئے میں نے ذریعہ کہہ دیا۔ زبان اس سے بھی زیادہ لازمی چیز ہے۔ لفظ صرف و محض چیزوں کا نام یا چیزوں کا بیان نہیں، چیزیں قلب ماہیت پاکر لفظ بن جاتی ہیں۔ یعنی زبان بھی اس ’’قربت‘‘ میں شامل ہے جس میں انسان شامل ہے۔

    انسان کا وجود اور زبان لازم و ملزوم ہیں۔ پھر زبان خطرناک کیوں ہے؟ کیونکہ زبان ہمیں چیزوں کے سامنے لاکھڑا کرتی ہے اور دوسری چیزوں کا وجود ہمیں اپنے وجود کے لئے خطرناک معلوم ہوتا ہے۔ انسان وحدہ لاشریک اور مطلق کل بننا چاہتا ہے، دوسری چیزیں اس کا یہ حق غصب کرنے پر تلی نظر آتی ہیں۔ انسان کی سب سے بڑی اندرونی کشمکش یہ ہے (رائخ نےتو ثابت کر دکھلایا ہے کہ یہ حیاتیاتی کشمکش ہے) کہ انسان چیزوں کی آگاہی کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا، لیکن اس آگاہی سے ڈرتا بھی ہے۔ یہی وہ ’’بارنشاط‘‘ ہے جس کے متعلق فراق صاحب نے کہا ہے۔ ’’بلائیں یہ بھی محبت کے سر گئی ہوں گی۔‘‘ یہ سرمستی ایسی ہے کہ بعض وقت انسان اس پر موت کو ترجیح دیتا ہے۔

    تمہیں تو اہل ہوس امتحاں سے بھاگ چلے

    یہ کیا ضرور کہ ہوتی تو موت ہی ہوتی

    لیکن فنکار جان بوجھ کر اس امتحان میں پڑ جاتا ہے۔۔۔ اور کھیل کے بہانے لفظوں سے کھیلنے میں موت کا سامنا ہوتا ہے۔ بیلڈر لن نے کہا ہے کہ شاعر کسی وقت بھی آسمانی بجلیوں کا شکار ہو سکتا ہے، لیکن فنکار کا تو کام ہی یہ ہے کہ وہ کھیل ہی کھیل میں موت کے منہ میں کود پڑے۔ یہی میلارمے کا بحری سفر ہے۔ دوسرے بند کی آخری لائن میں جس سمندر کا ذکر ہے، وہ یہی ’’قربت‘‘ ہے جس میں ڈوبے بغیر انسان کو وجود حاصل نہیں ہوتا۔ پھر یہ سمندر کبھی تو جاڑے میں منجمد ہو جاتا ہے کبھی اس میں بجلی کڑکنے لگتی ہے۔ جب آدمی چیزوں کی آگاہی سے ڈر کے اپنے اندر سکڑ جائے تو یہ وجود کا انجماد ہے۔ پھرجب آگاہی آتی ہے تو لرزہ براندام کر کے رکھ دیتی ہے۔ غرض انسان کے لئے فرقت لیلیٰ اور قربت لیلیٰ دونوں ہی عذاب جان ہیں۔ لیکن دل لگی باز فنکار دونوں ہی عذاب قبول کرتا ہے۔ وہ اپنے خوابوں کی جل پریوں کا تماشا دیکھتے دیکھتے ایک دم سے چونکتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ میں تو ایک ہولناک سمندر میں سفر کر رہا ہوں۔ جہاں دو زبردست خطرے ہیں۔۔۔ یا تو جہاز برف میں گڑ کر رہ جائے یا بجلی کا نشانہ بن جائے۔ لیکن اگر وہ سفر سے دست بردار ہو جائے تو فنکار کی حیثیت سے اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا۔ یہاں بھی اس کی دل لگی بازی کام آتی ہے اور وہ نہایت اطمینان سے کہہ دیتا ہے۔

    NOUS NAVIGUONS (ہم تو سفر کر رہے ہیں)

    لیکن اس سفر میں فنکار بالکل اکیلا بھی نہیں ہوتا۔ صرف اپنے ہم عصر ہی نہیں، بلکہ جوفنکار گزر چکے ہیں اور جو آنے والے ہیں وہ سب کے سب اس میں شریک ہیں۔ یوں کہئے کہ انفرادی طور سے فنکار نہیں بلکہ فنکار کے ذریعے اس کے فن کی پوری روایت سفر کرتی ہے۔ زنجیر اور کڑیوں کی تشبیہ یہاں مناسب نہیں رہے گی۔ شاعر ایک فرد کی حیثیت سے اپنی روایت سے الگ تو ہے لیکن یہ روایت اس کے اندر رہ کرعمل کرتی ہے اور وہ اس روایت کے اندر رہ کر۔ یہ ایک اورقسم کی ’’قربت‘‘ ہے جس کا اقرار فنکار کو کرنا پڑتا ہے۔ میلارمے نے اسے جس طرح ظاہر کیا ہے وہ بات انگریزی ترجمے میں نہیں آئی۔ انگریزی میں تو خالی خولی (DIVERSE FRIENDS) ہے۔ لیکن میلارمے کے یہاں دوسرے بند کی پہلی لائن (DUVERS) پر ختم ہوتی ہے اور دوسری (AMIS) شروع ہوتی ہے۔ فرانسیسی میں یہ دونوں لفظ ملا کر پڑھے جائیں گے۔ یعنی دونوں ایک بھی ہیں اور الگ الگ بھی۔ یہ تو خیر ایک فنکار کا دوسرے فنکاروں سے رشتہ ہوا۔ لیکن در اصل اس سفر میں فنکاروں کے ساتھ ساتھ سارے انسان بھی شامل ہیں۔ کیونکہ شاعر زبان استعمال کر رہا ہے، جو مشترکہ ملکیت ہے۔

    زبان اپنی جگہ خود ایک رشتہ ہے اور ایک تعلق ہے۔ زبان کا مفہوم ہی یہ ہے کہ ایک آدمی بول رہا ہے اور دوسرا سن رہا ہے۔ میلارمے نے تو اپنی ایک اور نظم میں اتنا ہی کہا تھا کہ شاعر قبیلے کے الفاظ کو خاص تر معنی عطا کرتا ہے۔ لیکن زبان چونکہ اصل میں گفتگو ہے، اس لئے شاعر زبان کو قبول کر کے اور اسے اپنے سفر کا ذریعہ بنا کے سارے انسانوں کو حرکت میں لاتا ہے۔ جب شاعر کے ذریعے زبان اپنا سفر شروع کرتی ہے تو جتنے لوگ یہ زبان بولتے ہیں وہ سب کے سب ساتھ گھسٹتے چلے آتے ہیں۔ یہ لوگ شاعر کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں اور شاعر ان لوگوں کے ساتھ۔

    اب میلارمے کا چوتھا بند لیجئے۔ شاعر کا کھیل ہمارے دیکھتے دیکھتے سفر بن گیا اور وہ اس کے خطرات سے آگاہ بھی ہو گیا۔ وہ چیزوں کے درمیان سفر کر رہا ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ میری ہستی کو ان سے خطرہ لاحق ہے۔ لیکن یہی چیزیں اس کے وجود کی خالق بھی ہیں۔ اب اس کے سامنے یہ سوال ہے کہ اپنے آپ کو ان چیزوں کے سپرد کروں مگر اس وقت تک ’’قربت‘‘ کے احساس کی سرمستی اس پر غالب آ چکی ہے۔ اب وہ خود فیصلہ نہیں کرتا، یہ سرمستی فیصلہ کرتی ہے۔ چیزیں اسے پکار رہی ہیں اور اس بلاوے میں جو نشاط ہے وہ اس کی رو میں بہہ گیا ہے۔ اب وہ لڑکھڑا کے گر پڑنے سے بھی نہیں ڈرتا۔ اس کی دل لگی بازی اسے کہاں لے آتی ہے!

    آخر اس سفرکا ماحصل کیا ہے؟ پہلے تو بیلڈرلن اور ہائیڈیگر کا نظریہ دیکھئے۔ انسان اس وقت تک وجود میں نہیں آتا جب تک کہ موجودات سے ’’قربت‘‘ کا اقرار نہ کرے۔ یہ اقرار زبان کے ذریعے ہوتا ہے اور اس طرح کہ چیزیں لفظ بن جاتی ہیں۔ چنانچہ ایک طرف تو زبان انسان کو وجود میں لاتی ہے، دوسری طرف چیزوں کو ثبات بخشتی ہے۔ اگر زبان نہ ہو تو انسان کے لئے دنیا نہ ہو۔ زبان در اصل گفتگو ہے۔ اس لئے انسان کی زندگی اور شعر، ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ لیکن شاعر کی کاوشوں کا ماحصل یہ ہے کہ انسان اور انسان کی زندگی وجود میں آئے۔

    میلارمے اس نظم میں تخلیقی فنکار کے نقطہ نظر سے سوچ رہا ہے، اس لئے اسے اپنے سفرکے ماحصل سے کوئی سر و کار نہیں۔ اگر فنکار اپنے کام کے فائدے گنوانے لگے اور اس کی سرمستی میں فرق آ جائے تو وہ تخلیق نہیں کر سکتا۔ اس کے لئے تو اپنی تخلیقی سرمستی ہی سب کچھ ہے۔ چنانچہ میلارمے نے اپنی جدوجہد کے تین بڑے پہلو بڑے لاابالی پن سے گنوا دیے ہیں۔۔۔ تنہائی، چٹان، ستارہ۔ ممکن ہے ان مسافروں کا جہاز سمندر کی ویرانیوں میں کھو جائے۔ ممکن ہے چٹان سے ٹکرا کے پاش پاش ہو جائے۔ ممکن ہے ستاروں تک جا پہنچے۔ فنکار ان امکانات سے واقف ہے، مگر ان سے بے نیاز بھی ہے، اسے تو بس یہ دھن ہے کہ سفر جاری رہے۔

    OUR SAILS WHITE (SOLICITUDE)

    انگریزی کے مترجم نے WHITE کہہ کے بات ٹلا دی ہے۔ فرانسیسی میں BLUNCE کے معنی سفید بھی ہیں، اور خالی بھی۔ خالی ہونے کا تصور میلارمے کے یہاں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ عدم کی بھی علامت ہے اور وجود کے مکمل ہو جانے کی بھی۔ پھر وجود بھی توعدم ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ شاعر کے بادبان جس تلاش میں سرگرداں ہیں وہ صرف مصفا و منزہ ہیں نہیں ’’خالی‘‘ بھی ہے۔ یعنی شاعر پہلے سے یہ طے کر کے نہیں چلا کہ مجھے ڈھونڈنا کیا ہے۔ یہ سرگردانی اسے کہیں بھی لے جاسکتی ہے۔۔۔ ستاروں تک بھی پہنچا سکتی ہے۔ موت کے گھاٹ بھی اتار سکتی ہے۔ اسے تلاش تخلیق کی ہے۔۔۔ اپنے اور دوسرے کے وجود کے اقرار کی ہے۔ فنکار کا کام بس اتنا ہی ہے۔ سچا فنکار ستارے ڈھونڈنے نہیں نکلتا۔ وہ بس نکل پڑتا ہے۔۔۔ اپنی خودی کی کوٹھری سے نکل کر دوسری چیزوں کی طرف چل دیتا ہے۔ چاہے اس شوق کا حشر کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ میلارمے نے اپنے قافیوں میں ساری بات کہہ دی ہے۔ آخری بند کی پہلی اور تیسری لائنیں ہم قافیہ ہیں ETOILE (ستارہ) کا جوا ب ہے۔ TOLIE (بادبان)۔ شاعر کے لئے اپنا بادبان ہی ستارہ ہے۔ اس کاسفر ہی اس کی منزل ہے۔

    باقی باتیں جرمن فلسفیوں سے پوچھئے۔

    مأخذ:

    مجموعہ محمد حسن عسکری (Pg. 176)

    • مصنف: محمد حسن عسکری
      • ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور
      • سن اشاعت: 2008

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے