Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تہذیب سے تمدن تک

سید سبط حسن

تہذیب سے تمدن تک

سید سبط حسن

MORE BYسید سبط حسن

     

    تب انو نے پاکیزہ مقامات پر پانچ شہر بسائے اور ان کو نام دیے اور وہاں عبادت کے مرکز قائم کئے۔ ان میں پہلا شہر اریدو تھا۔ 

    اسے پانی کے دیوتا اِن کی کے حوالے کیا گیا۔ 
    لوح نیفر، سیلاب عظیم

    ہر تہذیب اپنے تمدن کی پیش رو ہوتی ہے۔ تہذیب کے لئے شہر، دیہات، صحرا اور کوہستان کی کوئی قید نہیں۔ کیونکہ تہذیب معاشرے کی اجتماعی تخلیقات، اور اقدار کا نچوڑ ہوتی ہے۔ اسی لئے تہذیب کے آثار ہر معاشرے میں ملتے ہیں۔ خواہ وہ غاروں میں رہنے والے نیم وحشی قبیلوں کا معاشرہ ہو یا صحراؤں میں مار مارے پھرنے والے خانہ بدوشوں کا معاشرہ ہو۔ چنانچہ تہذیب اس زمانے میں موجود تھی جب انسان پتھر کے آلات و اوزار استعمال کرتا تھا اور جنگلی پھلوں اور جنگلی جانوروں کے شکار پر زندگی بسرکرتا تھا۔ اسپین اور فرانس کے غاروں کی رنگین تصویریں اور مجسمے اب سے چالیس پچاس ہزار برس پیشتر کے انسان کے حسن عمل اور حسن کا نادر نمونہ ہیں۔ 

    لیکن تمدن کی بنیادی شرط شہری زندگی ہے۔ تمدن اسی وقت وجود میں آتا ہے جب شہر آباد ہوتے ہیں۔ در اصل تمدن نام ہی ان رشتوں کی تنظیم کا ہے جو شہری زندگی اپنے ساتھ لاتی ہے۔ خواہ یہ تنظیم انسان کے باہمی رشتوں سے تعلق رکھتی ہو یا انسان اور مادی چیزوں کے باہمی ربط سے وابستہ ہو۔ یہی تنظیم آگے چل کر ریاستی نظام کی اساس بنتی ہے۔ تحریر کا رواج بھی تمدن ہی کا مظہر ہے کیونکہ وہ معاشرہ جو فن تحریر سے ناواقف ہو مہذب کہا جا سکتا ہے لیکن متمدن نہیں کہا جا سکتا۔ 

    پرانے زمانے میں یوں تو شہر ہر جگہ دیہات ہی کی ترقی یافتہ شکل ہوتے تھے۔ لیکن شہر اور دیہات میں آبادی کی کمی بیشی کے علاوہ کیفیتی فرق بھی پایا جاتا تھا۔ ان دونوں انسانی تنظیموں کے سماجی تقاضے اور ترکیبی عناصر جدا جدا اور ان کے ماحول و مشاغل ایک دوسرے سے مختلف ہوتے تھے۔ زراعت زمین چاہتی ہے۔ وسیع اور کشادہ زمین۔ فصلوں اور درختوں کو جھولا جھلانے والی زمین۔ کھیتوں سے سونا اگلنے والی زمین۔ چرواہوں کے بانسر کے گیتوں اور پرندوں کی چہچہاوٹوں سے شاد کام اور مسرور زمین۔ اس کے برعکس شہر زراعت کا دشمن ہوتا ہے۔ وہ زمین کے سینے پر پتھر اور اینٹوں کا انبار رکھ دیتا ہے اور سڑکیں اس کے بدن میں لوہے کی گرم سلاخیں بن کر پیوست ہو جاتی ہیں۔ زراعت زمین کو پھلوں پھولوں اور پتیوں کے رنگ برنگے زیوروں سے سجاتی سنوارتی ہے۔ شہر زمین کا زیور اتار لیتا ہے۔ اس کا سہاگ لوٹ لیتا ہے۔ 

    اس کے باوجود شہر انسانی ہنرمندی کا شاہکار ہے۔ شہر میں انسان کی روح تخلیق نئے رنگ میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ شہر علم  و حکمت کا، صنعت وحرفت کا، تجارت اور سیاست کا مرکز ہوتا ہے۔ شہر انسان کے عقل و شعور کا افق وسیع کرتا ہے، اسے جینے کے قرینے اور زندگی سے لطف اندوز ہونے کے سلیقے سکھاتا ہے۔ 

    شہر کی ابتدا 
    ابتدا میں شہر تجارتی مرکز ہوتے تھے یا مذہبی زیارت گاہیں یا دونوں۔ ان کی جائے وقوع عام طور پر کوئی اہم گزرگاہ ہوتی تھی۔ مثلا کوئی بستی کسی دریا کے کنارے یا کسی شاہراہ پرآباد ہے۔ اب اس راہ سے آنے جانے والے قافلے لامحالہ وہاں پڑاؤ ڈالیں گے یا کشتی کے مسافر وہاں اتریں گے۔ گاؤں والوں سے خوراک کا سامان خریدیں گے اور مبادلے میں اپنا مال ان کے ہاتھ فروخت کریں گے۔ اس آمد و رفت اور خرید و فروخت کے باعث گاؤں میں باقاعدہ تجارت کا آغاز ہوگا۔ دکانیں کھلیں گی۔ بازار قائم ہوں گے۔ یہ دیکھ کر آس پاس کے ہنرمند، صناع اور بیوپاری وہاں آکر آباد ہوں گے۔ 

    قرب و جوار کی مصنوعات سے تجارتی قافلے ترتیب دیئے جائیں گے اورسوداگر دور دراز کا سفر کریں گے۔ آبادی بڑھے گی تو گاؤں کی آس پاس کی زمینوں پر نئی بستیاں بس جائیں گی۔ جلاہوں کی بستیاں، رنگریزوں کی بستیاں، ٹھٹھیروں کی بستیاں، سوناروں کی بستیاں، معماروں کی بستیاں، موچیوں کی بستیاں، سوداگرو ں کی بستیاں۔ اس طرح گاؤں پھیلتے پھیلتے شہر بن جائے گا اور یہ بستیاں شہر کے محلوں میں تبدیل ہو جائیں گی۔ 

    کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کوئی قبیلہ کسی دریا کے کنارے آباد ہوا۔ قبیلے کے پروہت نے جوعام طور پر قبیلے کا سب سے بزرگ آدمی ہوتا تھا اپنے دیوتا کے لئے گھاس پھوس کا ایک مندر بنایا۔ حسن اتفاق سے عقیدت مندوں کی مرادیں پوری ہونے لگیں اور دیوتا کی شہرت قرب و جوار میں پھیل گئی۔ جاتریوں کی آمد و رفت بڑھی تو سودا بیچنے والوں نے مندر کے آس پاس چھوٹی چھوٹی دکانیں کھول لیں۔ تیوہاروں اور میلوں پرہزاروں مردعورتیں اور بچے وہاں جمع ہو گئے۔ پروہت کا کاروبار چمکا۔ قربانی اورچڑھاوے میں اسے دنیا بھر کی چیزیں مفت ملنے لگیں۔ غلہ، تیل، گھی، گائے، بیل، بھیڑ، بکری، کپڑے، زیو ر غرض کہ مندرمیں چیزوں کا ڈھیر لگ گیا۔ 

    سامان پروہت اور اس کے چیلوں چانٹوں کے استعمال سے کہیں زیادہ ہوتا تھا لہذا پروہت نے ان چیزوں کا کاروبار شروع کر دیا۔ جس دیوتا کے طفیل یہ دولت مفت ہاتھ آئی تھی اس کےرہنے کے لئے مندر کی نئی عمارت بنوائی۔ رفتہ رفتہ آس پاس کی زمینیں بھی پروہت کے قبضے میں آگئیں۔ مندر کا اثر و اقتدار بہت بڑھ گیا اور دیوتا کا مندر اپنے علاقے کا سب سے بڑا زمیندار اور سب سے اہم تجارتی، سیاسی اور مذہبی مرکز بن گیا۔ وادی دجلہ و فرات کے اکثر پرانے شہر اسی طرح وجود میں آئے۔ وہاں کے مندروں کے کاروبار کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سومیر میں اب تک مٹی کی جتنی لوحیں کھدائی میں نکلی ہیں (ڈھائی لاکھ) ان میں سے ۹۵ فیصد مندروں کے حساب کتاب سے متعلق ہیں۔ فقط پانچ فیصد ایسی لوحیں ہیں جن پر گیت، دعائیں اور داستانیں تحریر کی گئی ہیں۔ 

    وادی دجلہ و فرات کے تمام قابل ذکرشہر اور ان کے مضافات کسی نہ کسی دیوتا کی ملکیت ہوتے تھے۔ مثلا اریدو میٹھے پانی کے دیوتا انکی کی ملکیت تھا۔ اریک سب سے بڑے دیوتا انو کی ملکیت تھا۔ نیفر ان لیل (ہوا کا دیوتا) کی ملکیت تھا۔ لگاش ان لیل کے بیٹے نن گرسو کی ملکیت تھا۔ اور ارچاند دیوتا ننا کی ملکیت تھا۔ انو، ان لیل، ان کی اور نن ہورسگ نے جب کالے بالوں والوں کی تشکیل کرلی تو ہریالی زمین سے پھوٹ نکلی۔ ان شہروں کے دیوتا کی ملکیت ہونے کے معنی در اصل دیوتا کے مندر یعنی پروہتوں کی ملکیت کے تھے۔ شہری زندگی کا مرکز اور محور یہی مندر تھے۔ 

    شہرکی سب سے بڑی اور سب سے شاندار عمارت مندر ہی کی ہوتی تھی۔ مندرکے خزانے میں سونے چاندی اور قیمتی پتھروں کے علاوہ ضروریات زندگی کا وافر ذخیرہ جمع رہتا تھا۔ مثلا اناج، روغنیات، شراب، کھجور، خشک مچھلی، اون، کھال، تارکول کے پیپے، نجور، آلات زراعت و صنعت اور بیج۔ ان سب چیزوں کا باقاعدہ حساب رکھا جاتا تھا اوران کے الگ الگ شعبے قائم تھے۔ رقص و سرود کے مذہبی مناسک کی ادائیگی کی خاطر دیوداسیاں مقرر تھیں۔ مندر کے باورچی خانے، لنگرخانے اور شراب کی بھٹیوں کی دیکھ بھال بھی دیوداسیوں ہی کے سپرد تھی۔ 

    عراق کے قدیم شہر 
    علماء آثار کو عراق میں اب تک درجنوں قدیم شہروں کے سراغ مل چکے ہیں۔ ان میں بعض اہم شہریہ ہیں۔ اریدو، (ابوشہرین) اُر، (مقیر) لارسا (سن کرہ) اریک (درکا) بادطبرا (تل المدائن) لگاش (تلو) امہ (جوخہ) راب (بسایا) نیفر، اکشاک، کیش (الاحمر) سیپر (ابوحبہ) شروپک (فارا) کرک (تل دلایہ) اور اسین (الجریات) عکاد کا سب سے بڑا شہر بابل تھا جو وادی دجلہ و فرات کی پہلی عظیم سلطنت کے صدر مقام کی حیثیت سے اقصائے عالم میں مشہور ہوا۔ اسور کے اہم شہر اشور، نینو اور نمرود (کالح) تھے۔ 

    ان شہروں میں عام طور پر تین طبقے آباد تھے۔ سب سے اونچا طبقہ عمیلو کہلاتا تھا (شاید عامل اسی سے مشتق ہے) اس طبقے میں امراء، مندر کے پروہت اور نویسندے شامل تھے۔ نویسندوں کو نظم و نسق میں بڑا دخل تھا کیونکہ تحریر کا فن اس وقت تک بہت کم لوگوں کو آتا تھا۔ عدالتوں کے حاکم اور فوج کے افسر بھی عمیلو طبقے ہی سے تعلق رکھتے تھے۔ 

    دوسرا طبقہ مشکینو کہلاتا تھا۔ یہی لفظ عربی زبان میں منتقل ہوکر مسکین بن گیا۔ اس طبقے میں بیوپاری، کاریگر اور دستکار شامل تھے۔ ان کو اسلحہ رکھنے کی ہدایت نہ تھی۔ اور نہ یہ لوگ فوج میں بھرتی ہو سکتے تھے۔ 

    تیسرا طبقہ غلاموں کا تھا جن کے ’’حقوق و فرائض‘‘ پرہم حمورابی کے قانون کے سلسلے میں تفصیل سے بحث کریں گے۔ 

    گاؤں میں بھی تین طبقے تھے۔ اول شرفاء کا جن کا امتیازی نشان رتھ تھا۔ دوسرا طبقہ مالیوں، چرواہوں اور سائیسوں کا تھا اور تیسرا کاشتکاروں اور کھیت مزدوروں کا۔ فوجی سپاہی عام طور پر اسی تیسرے طبقے سے بھرتی کئے جاتے تھے۔ زمین کا لگان جنس میں وصول کیا جاتا تھا۔ اس کے لئے ہر گاؤں میں پیدائش اور موت کا ایک رجسٹر ہوتا تھا۔ چنانچہ ۱۵ ویں صدی قبل مسیح کا ایسا ہی ایک رجسٹرال عیلاخ کی کھدائی میں دستیاب ہوا ہے۔ اس رجسٹر میں ان سب دیہاتیوں کی تفصیلات درج ہیں جو شہر ال عیلاخ کے ماتحت تھے بعض رجسٹر ایسے بھی ہیں جن میں ہر گاؤں کے مکان کا نمبر شمار اور مالک مکان کا سماجی رتبہ اور پیشہ بھی درج ہے۔ 

    سومیر کی زمین معدنیات سے خالی تھی۔ وہاں نہ تانبا ہوتا تھا نہ ٹن نہ سونا نہ چاندی حتی کہ کھجور کے علاوہ کوئی لکڑی بھی میسرنہ تھی مگر اہل سومیر کے پاس اناج کی افراط تھی اور اناج ایسا مال تھا جس کے عو ض وہ ہر قسم کی دھات اور لکڑی دوسرے ملکوں سے درآمد کر سکتے تھے۔ چنانچہ تانبہ اناطولیہ اور آرمینا اور آذربائیجان سے، کانسہ عمان سے، ٹن ایران اور افغانستان سے، چاندی کوہ تاؤراس (اناطولیہ) سے، سونا ہاتھی دانت اور قیمتی لکڑی وادی سندھ سے اور دیودار کی لکڑی لبنان سے آتی تھی۔ اہل سومیران خام اشیا سے نہایت عمدہ قسم کی مصنوعات تیار کرتے تھے۔ اور پھر انہیں دوسرے ملکوں کے ہاتھ فروخت کر دیتے تھے۔ سومیر در اصل اپنے زمانے کا برطانیہ یا جاپان تھا۔ 

    دراصل اشیا خام کی قلت کسی محنتی اورہوشیار قوم کے لئے کبھی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ بلکہ حوصلہ اورہمت کی آزمائش انہیں نامساعد حالات ہی میں ہوتی ہے۔ جن لوگوں کے قوی کمزور اوردل ودماغ ضعیف ہوتے ہیں وہ حالات کی سخت گیریوں اورجفاطلبیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور جمود کا شکارہوجاتے ہیں۔ البتہ جوقومیں کارزارہستی میں جہد اور جفاکشی کواپناشعار بناتی ہیں وہ ترقی کی دوڑ میں دوسرے پرسبقت لے جاتی ہیں۔ سومیرایسے ہی جیالوں کی بستی تھی۔ چنانچہ محل اورمعبد کی سخت گیریاں بھی اہل سومیر کی تخلیقی اورصنعتی صلاحیتوں کوکچل نہ سکیں۔ اسی بنا پر پروفیسر وولی کویہ اعتراف کرناپڑا کہ’’مقامی حالات ہی نے اہل سومیر کومہذب بننے پرمجبورکردیا۔ وہ برآمدکے لئے مصنوعات تیارکرتے تھے تاکہ اپنی ملکی ضروریات کے لئے خام مال حاصل کرسکیں۔ وہ دھاتوں کے سب سے اچھے کاریگرتھے۔ حالانکہ ان کے ملک میں دھاتیں ناپید تھیں۔‘‘ 

    سومیر کے شہرتجارتی اورصنعتی شہرتھے۔ ہرپیشے کی اپنی ایک برادری (گلڈ) ہوتی تھی اور اس برادری میں کوئی باہر والا داخل نہیں ہوسکتاتھا۔ پیشے آبائی ہوتے تھے۔ اورنسلا بعدنسل اولاد میں منتقل ہوتے رہتے تھے۔ اس لئے سونار کا بیٹا عام طور پر سوناراوربڑھئی کا بیٹا بڑھئی ہوتا تھا۔ بعض ایسے پیشے تھے جن کے لئے چھوٹی دکانیں یاکوٹھریاں بھی ہوتی تھیں۔ مثلا ٹھٹھیرے یادرزی کاپیشہ لیکن بعض پیشوں کے لئے زیادہ جگہ درکارہوتی ہے۔ مثلا جلاہوں کا پیشہ، چنانچہ کپڑا بننے کے عام طور پرکارگاہوں میں کام کرتے تھے۔ اکثر وبیشتر کارگاہیں تو مندر کی ملکیت ہوتی تھیں لیکن بعض بیوپاریوں کی اپنی نجی کارگاہیں بھی تھیں۔ مندرکی کارگاہوں میں مردوں کے دوش بدوش عورتیں بھی کام کرتی تھیں۔ کاریگروں کو اجرت چاندی میں ادا کی جاتی تھی۔ گواس وقت تک سکے ایجاد نہیں ہوئے تھے لیکن چاندی کا ایک خاص وزن جس پر ٹھپہ لگاہوتا تھا بطورسکہ استعمال ہوتا تھا۔ 

    وادی دجلہ وفرات کے قدیم باشندوں کے آلات اور اوزار عام طورپرکانسے کے ہوتے تھے۔ کانسہ تانبے لوہےیا سونے چاندی کی مانند کوئی منفرد دھات نہیں ہے بلکہ ٹن اورتانبے کا مرکب ہے۔ کانسے کی خوبی یہ ہے کہ وہ ٹن اور تانبے سے زیادہ سخت، مضبوط اورپائیدار ہوتاہے اور اس کا رنگ بھی جلدی خراب نہیں ہوتا۔ پھر کانسے کا نقطہ تحلیل (MELTING POINT) تانبے سے کم ہوتاہے۔ مگراس مرکب کی تیاری ایک کیمیاوی عمل ہے۔ اورجب تک تانبے اورٹن کو آٹھ اور ایک کی نسبت سے پگھلاکر آپس میں ملایانہ جائے کانسہ نہیں بن سکتا۔ کانسے کا استعمال اس بات کاثبوت ہے کہ وادی کے لوگوں نے تجربے کرکے کانسہ بنانے کا کیمیاوی طریقہ معلوم کرلیاتھا۔ چنانچہ ان کے ہل، ہنسئے، ہتھوڑے اور کدال، نیزے اور کٹارسب کانسے کے ہوتے تھے۔ اسی لئے وادی دجلہ و فرات کی تہذیب کو ہم کانسے کی تہذیب کہتے ہیں۔ بعد میں یہی کانسے کی تہذیب مصر، ایران، چین اور وادی سندھ میں بھی رائج ہوئی۔ 

    عجیب بات ہے کہ لوہے کا زمانہ دنیا میں ساتویں یا چھٹیں صدی قبل مسیح میں شروع ہوا یعنی امن و جنگ کے اکثر آلات و اوزار لوہے کے بننے لگے لیکن ان کی ٹیکنک بدستور جاری رہی جو کانسے کے زمانے میں ایجاد ہوئی تھی۔ چنانچہ تین ہزار قبل مسیح سے اٹھارہویں صدی عیسوی تک یعنی تقریبا پانچ ہزار برس تک انسانی معاشرے نے تکنیکی اعتبار سے کوئی بنیادی ترقی نہیں کی۔ گو کانسے کی جگہ لوہے نے لے لی لیکن جو آَلات و اوزار شروقین اورحمورابی کے زمانے میں استعمال ہوتے تھے وہی ۱۸ویں صدی عیسوی تک استعمال ہوتے رہے۔ تب یورپ میں صنعتی انقلاب آیا اور انسانی معاشرہ ایک نئے تہذیبی دور میں داخل ہوا۔ 

    سومیر اور بابل کے لوگ بین الاقوامی تجارت میں بڑے ماہر تھے۔ اس زمانے میں جب آئے دن حملے ہوتے رہتے تھے، راستے نہایت خطرناک تھے اور کوئی بین ا لاقوامی قانون یا ادارہ تاجروں کے جان اور مال کے تحفظ کی ضمانت کے لئے موجود نہ تھا دور دراز ملکوں کے ساتھ کاروبار کرنا بہت خطرناک تھا لیکن سومیر اور بابل کے بیوپاریوں نے ان خطرات کی پرواہ نہ کی اور اناطولیہ، سندھ، کنعان، مصر اور ایران مختصر یہ کہ اس وقت کی پوری مہذب دنیا کا سفرکرتے رہے۔ خام مال کی خریداری اور مصنوعات کی فروخت ان کا بنیادی مقصد ہوتا تھا۔ 

    دنیا کی اہم تجارتی منڈیوں میں ان کی تو آبادیاں قائم تھیں اور ان کے گماشتے خرید و فروخت کی نگرانی کرتے تھے۔ مثلا شام میں ان کی مشہور نوآبادی قطنہ تھی۔ رفتہ رفتہ اس نوآبادی نے اتنا فروغ پایا کہ ڈھائی ہزار قبل مسیح میں وہاں اُر کے تاجروں نے اپنے ہم قوموں کی عبادت کے لئے اُر کی دیوی نن ایگل (NINE EGAL) کا مندر بھی تعمیرکر لیا۔ لکڑی کے تاجروں نے ایسی ہی ایک نوآبادی لبنان میں دریائے فرات کے کنارے ال عیلاخ (ALALAKH) کے مقام پر بسائی تھی۔ یہاں سے دیوار کی لکڑی دریا کی راہ سے بابا اور سومیر لائی جاتی تھی۔ 

    اشور بابل اور سومیر کے فرماں رواؤں کو کبھی کبھی اپنے تاجروں کے معاشی مفاد کی خاطر فوجی مہمیں بھی بھیجنی پڑتی تھیں جس طرح حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کو سندھ بھیجا یا ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہد میں برطانوی فوجیں تجارتی منڈیوں کی حفاظت کی خاطر ہر جگہ دھاو ے کیا کرتی تھیں۔ 

    چنانچہ شروقین اول نے عکادی تاجروں کے تحفظ کی خاطر اپنا لشکر ایک بار اناطولیہ بھیجا تھا۔ اناطولیہ کی کھدائیوں میں کل تیپ اور بوگاز کوئی کے مقام پر شہر پناہ کے باہر عکادی اور سومیری تاجروں کی بستیوں کے بھی آثار ملے ہیں۔ ان کے محلے کو قروم کہتے تھے۔ 

    اس قسم کے قروم وادی کے شہروں میں بھی ہوتے تھے جہاں بیرونی تاجر آکر قیام کرتے تھے چنانچہ اُر کے قروم اور مقبروں کی کھدائی میں موہن جودڑو کے زمانے کی سندھی مصنوعات برآمد ہوئی ہیں۔ مثلا بادشاہ میں گلم ڈگ (۲۷۵۰ق۔ م) کی قبر میں سونے کی ایک پن ملی ہے جس کے ایک سرے پر بندر بنا ہے اور پتھر کے کندہ شدہ مرتبان بھی نکلے ہیں جو کولی (بلوچستان) کے بنے ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ اُر اور دوسرے مقامات پر ۲۴ ویں صدی قبل مسیح کی بہ کثرت منقش اور مصور مہریں دستیاب ہوئی ہیں جو وادی سندھ کے تاجراپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ لیکن وادی سندھ سے تجارت اور آمدورفت کا یہ سلسلہ سولہویں صدی قبل مسیح میں اچانک ختم ہوگیا۔ یہی وہ زمانہ ہے جب دجلہ و فرات کی وادی پر کسدیوں کا غلبہ ہوا تھا۔ غالبا اسی زمانے میں آریاؤں نے وادی سندھ کی تہذیب کو پامال کیا تھا۔ جس کے باعث وادی سندھ اور وادی فرات کے تجارت تعلقات منقطع ہوگئے تھے۔ 

    وادی دجلہ و فرات کے لوگوں نے کانسہ، سونا، چاندی اور ادنی مصنوعات کے علاوہ فن تعمیرمیں بھی بڑی ایجادیں کیں۔ حالانکہ ان کو نہ پتھر میسر تھا اور نہ ان کے ملک میں عمدہ لکڑی ہوتی تھی۔ جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں ابتدا میں ان کے جھونپڑے نرسل کی چٹائیوں ہی سے بنتے تھے۔ بلکہ جنوبی عراق میں دیہاتیوں کے گھر اب تک چٹائیوں ہی کے ہوتے ہیں۔ در اصل کھجور اور نرسل کو ان کی گھریلو زندگی میں وہی حیثیت حاصل ہے جو بانس اور ناریل کو مشرقی پاکستان میں حاصل ہے۔ جنوبی عراقیوں کا طریقہ خانہ سازی یہ ہے کہ وہ پہلے نرسل کی بہت سی شاخوں کو جوڑ کر ان کے گٹھے بناتے تھے۔ یہ گٹھے مخروطی ہوتے تھے۔ پھر دو گٹھوں کو آمنے سامنے زمین میں گاڑ کر ان کے مخروطی سروں کو آپس میں باندھ دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے کمان کی شکل محرابی ہو جاتی ہے۔ جتنی لمبی جھونپڑی بنانی ہو اسی لحاظ سے تھوڑے تھوڑے فاصلے پرکئی محرابی گٹھے گاڑ دیئے جاتے ہیں۔ پھر نرسل کے پتلے پتلے گٹھوں کو محرابی گٹھوں سے افقا باندھ دیا جاتا ہے۔ اس طرح ایک سرنگ نما ڈھانچہ تیار ہو جاتا ہے۔ تب اس ڈھانچے کو نرسل کی چٹائیو سے منڈھ دیتے ہیں۔ 

    لندن کے برٹش میوزیم میں ہم نے پتھرکی ایک سل پرایسے ہی ایک مکان کا نقش کندہ دیکھا۔ یہ نقش تقریبا چھ ہزاربرس پرانا ہے۔ اس میں کئی جانور مکان کے دونوں سمت کھڑے ہیں۔ 

    اہل عراق نے فن تعمیر میں جو کمال حاصل کیا اس کی نظیر مشکل سے ملے گی۔ مثلا محراب، گنبد اورستون جن کے سہارے متمدن دنیا نے اپنے قصر و ایوان تعمیر کئے۔ قدیم عراقیوں ہی کی ایجاد ہیں۔ اور لطف یہ ہے کہ ان سب کی بنیاد وہی نرسل کا جھونپڑا ہے جسے فن تعمیر کے اصول سے ناواقف خانہ بدوشوں نے ہزاروں سال پیشتر اپنا سرچھپانے کے لئے بنایا تھا۔ بات در اصل یہ ہے کہ نرسل کے گٹھوں، کھچیوں اور چٹائیوں کی قدرتی ساخت ہی ایسی ہوتی ہے کہ اس سے محراب، گنبد اور ستون خود بخود بن جاتے ہیں۔ نرسل کی کمانیوں کو جھکاؤ تو محراب بن جاتی ہے اور جھونپڑی محراب دار سرنگ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ محرابی ہونے کی وجہ سے چھت پر پانی بھی نہیں ٹھہر سکتا۔ اس طرح ابتدا میں محراب کی ایجاد ہوئی۔ 

    چنانچہ سب سے قدیم محرابیں عراق کے پرانے کھنڈروں ہی میں ملی ہیں۔ مثلا شہر نیفر کی زمین دوز نالی کی محراب جو کچی اینٹوں سے بنی ہے۔ شہر اُر کے ایک شاہی مقبرے کا دروازہ بھی محرابی ہے۔ اس محراب کی جڑائی پکی اینٹوں سے ہوئی ہے۔ شہر لارسا کے ایک مکان میں بھی ایک محرابی دروازہ ملا ہے جو پکی اینٹوں سے بنا ہے اور اُر میں کسدی دور کے ایک معبد میں پندرہویں صدی قبل مسیح کی ایک پکی محراب موجود ہے اس محراب کی جڑائی رال سے ہوئی ہے۔ 

    گنبد کی ایجاد کے محرک بھی عراق کے قدرتی حالات تھے۔ مکان بنانے کے لئے جس قسم کی لکڑی درکار ہوتی ہے دجلہ وفرات کی وادی اس سے خالی ہے۔ لامحالہ وہاں کے باشندوں کو چھت کی ساخت ایسی بنانی پڑی جس میں لکڑی بالکل استعمال نہ ہوتی ہو۔ اس کے علاوہ گنبد چونکہ اندر سے کھوکھلا اور اونچا ہوتا ہے اس لئے گنبد دار عمارت گرمیوں میں ٹھنڈی رہتی ہے اوردیکھنے میں بھی اچھی معلوم ہوتی ہے۔ ارکی کھدائی میں ۲۷ سو قبل مسیح ایک شاہی مقبرہ ملا ہے جس میں ایک گنبد اب تک صحیح سلامت ہے۔ غالبا یہ دنیا کا سب سے پرانا گنبد ہے۔ اس گنبد کو پتھر کے ٹکڑوں اور مٹی کے گارے سے بھرا گیا ہے۔ اسی طرح اُر کے زیگورات کی چھت پر ایک گنبد دارحوض ملا ہے۔ یہ گنبد سلطان ارنمو (۱۲۵۰ ق۔ م) نے بنوایا تھا۔ اس گنبد کی جڑائی اینٹوں سے ہوئی ہے۔ 

    کچھ عرصے پہلے تک ماہرین آثار کا خیال تھا کہ وادی دجلہ و فرات کے قدیم باشندے ستون بنانا نہیں جانتے تھے۔ یہ خیال اتنا پختہ ہوگیا تھا کہ جب کسی ماہر آثار نے نیفر کے مقام پر پندرہویں صدی قبل مسیح کی ایک ایسی عمارت دریافت کی جس کے بڑے کمرے میں ستونوں کی دو رویہ قطار کھڑی تھی تو علماء آثار نے اس کے دعوے کی تردید کردی اور اس کا خوب خوب مذاق اڑایا۔ ان کی کتابوں میں یہی لکھا تھا کہ اس خطے میں ستونوں کا رواج تیسری صدی قبل مسیح میں یونانی فتوحات کے بعد شروع ہوا۔ حالانکہ جس ملک میں قدرت خود کھجور کے سڈول ستون فراہم کرتی ہو وہاں ستونوں کا استعمال حیرت انگیز بات نہیں۔ 

    پھرایسا ہوا کہ اسی قسم کے ستون مختلف مقامات پر برآمد ہونے لگے۔ مثلا ارک میں تین ہزار قبل مسیح کے کئی بڑے بڑے ستون دریافت ہوئے۔ ان ستونوں کی موٹائی سات آٹھ فٹ تھی۔ یہ ستون کچی اینٹوں کے تھے اور ان پر کاشی کے نہایت خوبصورت نقش و نگار بنے تھے۔ ایسے ہی کئی ستون کیش میں بھی برآمد ہوئے اور پھرایک وقت وہ آیا کہ العبید کے چھوٹے معبد میں کھجور کے تنوں کے قدرتی ستون پائے گئے۔ ان ستونوں پر تانبے کی چادر چڑھی ہوئی تھی۔ ان ستونوں کو بادشاہ آنی یاددا نے ۲۷ سو قبل مسیح میں بنوایا تھا۔ تب دنیا کو معلوم ہوا کہ ستون در اصل کھجور کے تنوں کی نقل ہیں اور ستون کا استعمال سب سے پہلے عراق ہی میں ہوا تھا نہ کہ یونان میں۔ 

    جس قوم نے گنبد، محراب اور ستون ایجاد کئے اس کے لئے شاہی محلات اورعالیشان عمارتیں بنانا دشوار نہ تھا۔ چنانچہ ماری، خورسا آباد اور بابل کے شاہی محلوں کے کھنڈران کی ہنرمندی کے شاہد ہیں۔ مگر ان کا سب سے حیرت انگیز اور یادگار تعمیری کارنامہ زیگورات ہیں۔ اس تعمیری کارنامے پر ہم مینار بابل کے ضمن میں مفصل بحث کریں گے۔ 

    شہری ریاستیں
    اپنی تہذیبی وحدت کے باوجود وادی دجلہ و فرات کا خطہ بہت سی شہری ریاستوں میں بٹا ہوا تھا ان میں بعض چھوٹی تھیں اور بعض بڑی۔ مثلا لگاش کی ریاست کا رقبہ فقط ۱۸ سو مربع میل تھا۔ اور آبادی ۳۰ ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ اس کے برعکس ایرک اور اُر کی شہری ریاستیں اپنے عہد عروج میں پورے سومیر پر حاوی تھیں۔ ہر شہری ریاست ایک مرکزی شہر اور گرد و نواح کے دیہات اور قصبوں پر مشتمل تھی۔ 

    شہری ریاست اہل سومیر کی بڑی تاریخی اورعہد آفریں ایجاد ہے۔ یہ شہری ریاستیں تقریبا تین ہزار قبل مسیح میں وجود میں آئیں جبکہ یونانی تہذیب کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔ اس کے باوجود مغربی مورخ اب تک یہی دعوی کرتے ہیں کہ شہری ریاست کا تصور دنیا کو اہل یونان نے عطا کیا ہے۔ حالانکہ شہری ریاستیں سومیر میں یونان سے ۲ ہزار قبل قائم ہو چکی تھی۔ یہی وہ سیاسی ادارہ تھا جس نے آگے چل کر ریاست اور سلطنت کی شکل اختیار کرلی۔ 

    شہری ریاست کے قیام کے متعدد عوامل اور محرکات تھے۔ اول شہری مندر کی مرکزیت۔ دوم سومیری سماج میں طبقات کا پیدا ہوجانا۔ سوئم شہروں کی باہمی رقابتیں اور دشمنیاں اور چہارم سومیر میں نہروں کا نظام۔ 

    ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ سومیر کے مندر کس طرح آہستہ آہستہ اپنے علاقے کے سب سے دولت مند اور بااثر ادارے بن گئے۔ یہ مندر اپنے قرب وجوار کے سب سے بڑے زمیندار اور سب سے بڑے بیوپاری ہوتے تھے۔ اس لئے مندر کا اور مندر کے ساتھ شہر کا فروغ خود اس بات کی علامت ہے کہ سماج کی ’’یک حجری وحدت‘‘ یا اکائی ختم ہو چکی تھی۔ اب وہاں دیہات کے اس پنچایتی نظام کی گنجائش باقی نہیں تھی جس میں آراضیان اور ذرائع آفرینی کے دیگرذرائع لوگوں کی مشترکہ ملکیت ہوتے تھے اور ان کی ضروریات پوری کرنا سب کا مشترکہ فرض ہوتا تھا۔ 

    اب معاشرے کا طبقاتی دور شروع ہو چکا تھا۔ ایک طرف کاشتکاروں، کاریگروں اورغلاموں کا طبقہ تھا اور دوسری طرف پروہتوں، بیوپاریوں اور زمینداروں کا طبقہ۔ ان دونوں طبقوں کے مفاد آپس میں ٹکراتے تھے۔ کیونکہ ان کے رشتے کی نوعیت حاکم اور محکوم کی ہوگئی تھی۔ حاکم طبقے کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ پیداوار کے زیادہ سے زیادہ حصے پر قابض ہو جائیں اور محکوم طبقوں کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ جو دولت انہوں نے خون پسینہ ایک کر کے پیدا کی ہے اس کو اپنے تصرف میں لائیں۔ 

    ظاہر ہے کہ ان طبقاتی رشتوں کو برقرار رکھنے اور مستحکم کرنے کے لئے طاقت درکار تھی۔ یہ طاقت دو قسم کی تھی ایک ذہنی اور روحانی طاقت دوسرے فوجی طاقت۔ روحانی اور ذہنی طاقت کا سرچشمہ مندر تھا۔ چنانچہ پروہت حضرات ایسی ایسی دعائیں، گیت، روایتیں اور داستانیں وضع کرتے رہتے تھے۔ جن سے عقیدت مندوں کو یقین آجائے کہ دیوتاؤں نے انہیں پیداہی اس لئے کیا ہے کہ وہ دن رات ان کی خدمت کرتے رہیں۔ اور جو کام ان کے سپرد کیا جائے اسے پوری تن دہی اور دیانتداری سے سرانجام دیتے رہیں۔ دھن دولت کا لالچ نہ کریں کیونکہ یہ دنیا چند روزہ ہے بلکہ جو کچھ پیدا کریں اس دیوتا کی امانت سمجھ کر مندر کے حوالے کر دیں۔ اسی روحانی تعلیم کا کرشمہ ہے کہ سومیر کی شہری ریاستیں دیوتا ہی کی ملکیت سمجھی جاتی تھیں۔ ابتدا کے جمہوری زمانے میں بھی اور اس زمانے میں بھی جبکہ یہ شہری ریاستیں موروثی بادشاہوں میں تبدیل ہوگئی تھیں۔ 

    چنانچہ سومیر کا ہر بادشاہ خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہوتا، اپنے آپ کو دیوتا کا نائب اور خادم ہی خیال کرتا تھا۔ بادشاہوں کی رسم تاجپوشی مندروں ہی میں ادا کی جاتی تھی اور ان کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی تھی کہ مندر سے تعلقات خوشگوار رہیں۔ مال غنیمت میں جو زر و جواہر اور غلام ہاتھ آتے تھے ان کا بڑا حصہ مندر کو بطور نذر پیش کر دیا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ مندروں کے خزانے اتنے وافر ہو گئے کہ بعض اوقات بادشاہ مہم پر جانے سے پہلے مندروں سے جنگی قرضے حاصل کرتے تھے۔ لیکن عوام کو مطیع وفرماں بردار بنانے کے لئے مندر کی روحانی طاقت کافی نہ تھی بلکہ فوج کی مادی قوت بھی درکار ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ سومیر کے شہر برابر آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ کبھی سرحدی کھیتوں کی ملکیت پر تلواریں کھنچتی تھیں۔ کبھی نہری پانی پر خون خرابہ ہوتا تھا۔ کبھی مندروں کی اندوخت دولت پیکار کا باعث بنتی تھی۔ کبھی مال غنیمت کی خواہش مہم جوئی پر اکساتی تھی اور کبھی غلاموں کی ضرورت ہمسایہ خطوں پر حملہ کرنے کا تقاضا کرتی تھی۔ 

    ایسی ہی ایک جنگ ۲۵۵۰ ق۔ م میں سومیر کی دوہمسایہ ریاستوں لگاش اورامہ کے درمیان ہوئی۔ نزاع کا سبب ایک سرحدی اراضی تھی جس کا نام گوعدین تھا۔ عدین سومیری زبان میں چراگاہ کو کہتے ہیں۔ باغ عدن کا تصور غالبا یہیں سے آیا ہے۔ کیونکہ انجیل کے مطابق باغ عدن دجلہ و فرات کی وادی ہی میں واقع تھا۔ گوعدین در اصل لگاش کی ملکیت تھی امہ کے انیسی (بادشادہ) نے اپنے دیوتا کے حکم سے دھاوا کیا اور گوعدین کو ہضم کر لیا۔ نہری زمین کو۔ نن گرسو کی دل پسند زمین کو۔ اس نے سرحد کا پتھر بھی اکھاڑ کر پھینک دیا اور لگاش میں داخل ہو گیا۔ لگاش کی فوج نے جو ’’نیزوں اوربھاری ڈھالوں سے مسلح تھی‘‘ امہ کی فوج کا مقابلہ کیا اور حملہ آوروں کو شکست دے دی۔ 

    ’’ان لیل کے حکم سے بادشاہ انا توم نے اپنا جال ان پر پھینکا اور میدان کارزار ان کی لاشوں سے بھر گیا۔ جو بچ رہے اپنی جان بچانے کی خاطر انا قوم کے روبرو زمین پر لیٹ گئے اور زار و قطار روئے۔‘‘ 

    اس واقعے کی یادگار وہ منقوش پتھر ہے جس میں گدھ لاشوں کو کھاتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ 

    مگر شہری ریاستوں کے قیام کا بنیادی سبب اور تعین حدود کا اصل محرک سومیر کا نہری نظام تھا۔ یہ شہری ریاستیں در اصل نہروں کی وجہ سے قائم ہوئیں نہر میں جو اہل سومیر کی معاشرتی زندگی کی شہ رگ تھیں ان نہروں کی بدولت وہ لوگ اتنا غلہ پیدا کر لیتے تھے کہ سال بھر آرام سے کھاتے۔ اور فاضل پیداوار سے برآمدی تجارت کی ضرورتیں پوری کرتے تھے۔ 

    نہروں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سومیری بادشاہ جنگی فتوحات کی مانند نئی نہر نکالنے پر بہت فخر کرتے تھے۔ اور تھا بھی یہ بہت عظیم کارنامہ۔ کیونکہ کسی زرعی ملک میں جہاں بارش بہت کم ہوتی ہو زندگی کا انحصار نہروں پر ہی ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ وادی دجلہ و فرات میں اسی فرماں روا کو کامیابی اور مقبولیت نصیب ہوئی جس نے نہروں کی تعمیر اور مرمت کو اپنا فرض سمجھا اور جس نے نہروں کی طرف سے غفلت برتی وہ ناکام ہو گیا۔ چنانچہ سومیری عہد کے کئی یادگاری پتھر ملے ہیں جن پر نہروں کی کھدائی کا منظر کندہ ہے اور بادشاہ سر پر مٹی کا ٹوکرا اٹھائے اس قومی کام میں شریک ہے۔ 

    نہروں کی تعمیر، مرمت اور نگرانی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لئے مزدوروں کاریگروں اور انجینئروں کی پوری فوج درکار ہوتی ہے۔ نہر کا کھودنا۔ نہر کے بند کی مرمت کرنا، نہر کی وقتا فوقتا صفائی کرنا تاکہ تہہ میں مٹی جمنے کی وجہ سے نہر پایاب نہ ہو جائے۔ پانی کی مقدار اور مناسب تقسیم کی نگرانی کرنا اور پھر مصارف کا حساب کتاب رکھنا تاکہ آبیانے کی وصولی میں سہولت ہو، غرض کہ نہروں کو خوش اسلوبی سے چلانے کے لئے بہت بڑی تنظیم کی ضرورت پڑتی ہے۔ ظاہر ہے سومیر کے دس پانچ گاؤں آپس میں مل کر بھی ان ذمہ داریوں سے عہد برا نہیں ہو سکتے تھے۔ یہ کام تو گاؤں سے بڑی طاقت ہی سر انجام دے سکتی ہے۔ شہری ریاستیں اسی وجہ سے قائم ہوئیں۔ چنانچہ سرلیونارڈوولی لکھتا ہے، 

    ’’ملک اور دریا (فرات) کی نوعیت ہی ایسی تھی کہ ایک مخصوص علاقے میں جس کا رقبہ نہروں کے نظام سے متعین ہوتا تھا۔ باشندے ایک مشترکہ سیاسی وحدت کی شکل اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ان نہروں کی منصوبہ بندی اور نگہداشت کا تقاضا یہی تھا کہ کوئی علاقائی طاقت اس کام کی دیکھ بھال کرے۔ اور یہ علاقائی طاقت تمام اختیارات کی مالک ہو۔ حالات کی منطق ہی نے دریائے فرات کے ڈیلٹا کو نہروں سے سیراب ہونے والی ایسی زرعی وحدتوں میں تقسیم کر دیا جن کے نظم و نسق کے اپنے اپنے مرکز ہوتے تھے۔ چنانچہ شہری ریاستوں کی ترقی کا سبب سو میریوں کی مخصوص ذہنیت نہ تھی بلکہ سومیر کا طبعی کردار تھا۔‘‘ (صفحہ ۴۱۹) 

    ابتدا میں شہری ریاستیں جمہوری بنیادوں پر قائم ہوتی تھیں۔ ہر شہری ریاست کے نظم و نسق کے لئے ایک مجلس شوری ہوتی تھی لیکن اس مجلس شوری میں فقط عمائدین شہر شریک ہو سکتے تھے۔ نہروں اور تجارتی راستوں کی نگرانی کرنا، ریاست کے اندرامن و امان قائم رکھنا۔ شہریوں کے باہمی اختلافات اور مقدمات کا تصفیہ کرنا مجلس شوری کے فرائض میں داخل تھا۔ مجلس شوری کے علاوہ روز مرہ کے کاموں کے لئے بزرگان شہر کی ایک مجلس اعلیٰ ہوتی تھی۔ ان دونوں ایوانوں میں فیصلے کثرت رائے کی بجائے اتفاق رائے سے ہوتے تھے۔ 

    یہ محدود جمہوریت زیادہ دن نہ چل سکی۔ دولت اور دولت آفرینی کے ذرائع جب چند ہاتھو ں میں سمٹنے لگے تو جمہوری نظام کی بنیاد کمزور ہوگئی۔ شہری ریاستوں کی باہمی آویزشوں نے بھی شخصی حکومت کے قیام میں مدد دی۔ کیونکہ جنگ کے موقع پر تمام اختیارات لامحالہ سپہ سالار فوج کے سپرد کرنے پڑتے تھے۔ سومیری زبان میں اس شخص کو لوگل یعنی ’’بڑا آدمی‘‘ کہتے تھے۔ ابتدا میں لوگل کا عہدہ ’’باندہ‘‘ یعنی عارضی ہوتا تھا اور جنگ کے ہنگامی حالات گزر جانے پر تمام اختیارات مجلس شوری کو منتقل ہو جاتے تھے مگر ہنگامی حالات کے اختتام کا فیصلہ لوگل باندہ ہی کرتا تھا۔ چنانچہ یہ ہنگامی حالات رفتہ رفتہ عارضی سے مستقل ہونے لگے۔ کیونکہ لوگل باندہ کا فائدہ اسی میں تھا اور بالآٓخر یہی لوگل باندہ بادشاہ بن گئے لیکن شخصی حکومتیں قائم ہونے کے بہت دن بعد تک مجلس شوری کا نظام قائم رہا اور قیاس یہی کہتا ہے کہ بادشاہ کے لئے مجلس شوری کے فیصلوں کی خلاف ورزی کرنا آسان نہ ہوتا ہوگا۔ چنانچہ گل گامش کی داستان میں گل گامش کے اس طرزعمل کی مذمت کی گئی ہے کہ وہ مجلس شوری کو خاطر میں نہیں لاتا۔ 

    ’’گل گامش ایوان شوری میں زبردستی گھس آیا ہے۔ حالانکہ یہ عمارت شہریوں کی ملکیت ہے۔‘‘ 

    بعض دستاویزوں سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ابتدا میں مندر کا پروہت بادشاہ کے فرائض بھی انجام دیتا تھا۔ یہ مہاپروہت سنگایا ہسنگو کہلاتا تھا اور اس کے نائب یا وزیر کا لقب نوباندہ تھا۔ سنگا جو لگل (بادشاہ) بھی تھا۔ مندرہی کے احاطے میں رہتا تھا۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ عرصے بعد لوگل اور سنگاک عہدے الگ الگ ہوگئے۔ سنگا نے مندر اور اس کی املاک کا نظم و نسق سنبھال لیا اور لوگل نے شہری ریاست کے نظم و نسق کی ذمہ داریاں قبول کر لیں۔ لوگل اپنے خاندان کے ساتھ مندر سے الگ ایک محل میں رہتا تھا۔ اس عمارت کوایگل (بیت عظیم) کہتے تھے۔ چنانچہ کیش اور اریدو میں ایسے محل برآمد ہوئے ہیں جن کے گردموٹی موٹی چہاردیواریاں کھنچی ہیں۔ 

    بادشاہ ریاستی فوج کا سپہ سالار، عدالت عالیہ کا سربراہ اور پروہتوں کا نگران اعلیٰ ہوتا تھا۔ مندر کی عمارت کی مرمت اس کا سب سے مقدس فریضہ سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ سومیر، عکاد، اور اسور کے ایسی لاتعداد تحریریں اورمنقوش مناظر برآمد ہوئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ بادشاہ مندر کی عمارتوں کی تعمیر اور مرمت کے کاموں میں برابر شریک ہوتے تھے۔ اورمندر کی آرائش و زیبائش میں اضافہ کرنا اپنے لئے باعث برکت و افتخار سمجھتے تھے۔ اس طریقہ کار کی سیاسی مصلحت اندیشیاں بالکل واضح ہیں۔ 

    عراق کے قدیم مورخہ اپنے ملک کی تاریخ کو دو ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ ان کے بیان کے مطابق پہلا دور سیلاب عظیم پرختم ہوا اور دوسرا دور سیلاب عظیم کے بعد شروع ہوا۔ یہ وہی سیلاب عظیم ہے جو ساری روایتوں میں منتقل ہوکر طوفان نوح بن گیا۔ خوش قسمی سے عراق کی کھدائی میں لوحوں پر کندہ کی ہوئی ایک ’’فہرست شاہان‘‘ ملی ہے۔ یہ فہرست اریک کے فرماں روا تو ہیگل (۲۱۲۰۔ ۲۱۱۴ق۔ م) نے مرتب کروائی تھی۔ اس نوشتے میں سومیر میں پرانی داستانوں اور روایتوں کے علاوہ سورماؤں اوربادشاہوں کے حقیقی اور افسانوی کارنامے سن وار درج ہیں۔ 

    فہرست شاہان کے مطابق ’’آسمان سے پہلی بادشاہت شہر اریدو میں اتاری گئی۔‘‘ اس حقیقت کے پیش نظر کہ اریدو اہل سومیر کی سب سے پرانی بستی ہے۔ 

    فہرست نویس کا بیان حیرت انگریز حد تک درست نظر آتا ہے۔ البتہ اس نے اریدو کی بادشاہت کی مدت میں بڑے مبالغہ سے کام لیا ہے۔ اس کا دعوی ہے کہ یہ بادشاہت 64 ہزار 8 سو برس قبل قائم رہی۔ اوراس طویل عرصے میں فقط دو بادشاہوں نے حکومت کی۔ پھر کسی نامعلوم سبب کی بنا پر آسمان کی بادشاہت باد طبرا میں منتقل ہوگئی وہاں تین بادشاہوں نے ایک لاکھ ۸ ہزار برس حکومت کی۔ 

    ’’میں اس موضوع کو ترک کرتا ہوں کیوں کہ بادشاہت لرک منتقل ہوگئی اوروہاں ایک بادشاہ نے ۲۸ ہزار ۸ سوسال حکومت کی۔ میں اس موضوع کو ترک کرتا ہوں کیونکہ بادشاہت سیپر میں منتقل ہوگئی۔ اور وہاں ایک بادشاہ نے اکیس ہزار برس حکومت کی۔ میں اس موضوع کو ترک کرتا ہوں کیوں کہ بادشاہت شروپک میں منتقل ہو گئی۔ جہاں ایک بادشاہ ادبار توتو نے ۱۸ہزار چھ سوبرس حکومت کی۔ یہ پانچ شہر ہیں جہاں آٹھ بادشاہوں نے ۲ لاکھ ۴۱ ہزار برس حکومت کی۔ اور تب زمین پر سیلاب آگیا۔‘‘ 

    فہرست شاہان کی روایت کے مطابق سیلاب کے بعد بادشاہت دوبارہ ’’آسمان کے نیچے اتاری گئی‘‘ لیکن اب کے شہر کیش میں جو سومیر کی شمالی سرحدپر واقع تھا کیش میں ۲۳ بادشاہ ہوئے جنہوں نے ساڑھے ۲۴ ہزار برس حکومت کی۔ فہرست شاہان میں ان بادشاہوں کے نام درج ہیں۔ مگر بارہ کے نام یا لقب سامی ہیں۔ مثلا کلبون (کتا) قلومو (بھیڑ) زوقاقیق (بچھو) چھ نام سومیری ہیں اور چار کسی نامعلوم زبان کے ہیں تب فہرست شاہان کے مطابق ’’کیش کو جنگی اسلحوں نے کاٹ کھایا‘‘ اور بادشاہت ایانا (اریک کا مقدس معبد) منتقل کر دی گئی۔‘‘ 

    اریک کا پہلا بادشاہ میس کیاگ گاشرخداوند اتو (سورج) کا بیٹا تھا۔ وہ مندرکا مہاپروہت بھی تھا۔ اس نے ۳۲۴ برس حکومت کی، تب اس کا بیٹا ان میکر بادشاہ ہوا۔ ’’وہ جس نے اریک کی تعمیر کی‘‘ ان میکر نے ۴۲۰ برس حکومت کی۔ تب لوگل باندہ بادشاہ ہوا۔ جو گدڑیا تھا۔ اس نے ۱۲ سو سال حکومت کی چوتھا بادشاہ رموزی تھا اور پانچواں بادشاہ گل گامش تھا جس کے رزمیہ کارنامے بہت مشہور ہوئے۔ گل گامش کلاب (اریک کی ایک مضافاتی بستی) کے ایک پروہت کا لڑکا تھا۔ اس نے ۱۲۶ برس حکومت کی۔ گل گامش کے بعد اریک میں سات اور بادشاہ ہوئے مگر ان کی بادشاہت کی عمریں طبعی تھیں۔ چنانچہ کسی نے تیس سال حکومت کی۔ کسی نے ۳۶ سال اور کسی نے فقط چھ سال۔ تب بادشاہت اُر میں منتقل ہوگئی جہاں چار بادشاہوں نے ۱۷۷ سال حکومت کی۔ 

    اس فہرست میں لکھا ہے کہ کیش کا آخری بادشاہ اکا تھا اور اس کو اریک کے پہلے بادشاہ نے شکست دی تھی۔ مگر عراق کی دوسری پرانی لوحوں سے یہ بات اب پایہ تحقیق کو پہنچ گئی ہے کہ اکا کو اریک کے پہلے بادشاہ نے شکست نہیں دی تھی۔ بلکہ پانچویں بادشاہ گل گامش نے شکست دی تھی۔ یہاں پہنچ کر ہم عراق کے تاریخی دور میں داخل ہو جاتے ہیں۔ 

     

    مأخذ:

    ماضی کے مزار (Pg. 24)

    • مصنف: سید سبط حسن
      • ناشر: ملک نورانی
      • سن اشاعت: 1984

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے