Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تخلیق و تنقید

مجنوں گورکھپوری

تخلیق و تنقید

مجنوں گورکھپوری

MORE BYمجنوں گورکھپوری

    تنقید کیا ہے یا وہ کون سا مرکزی لازمی عنصر ہے جس کے بغیر تنقید تنقید نہیں ہو سکتی۔ اب سے ایک دو نسل پہلے یہ سوال کبھی اٹھایا نہیں گیا۔ اس لئے کہ اب تک فنکار اور نقاد کے درمیان کوئی محسوس فرق نہیں تھا۔ دونوں کا تصور ایک ساتھ ذہن میں آتا تھا۔ تخلیق اور تنقید دونوں کو ایک ہی قوت کے دو مظاہرے سمجھا جاتا تھا۔ شاعری کے دائرہ میں اگر بحث کو محدود رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ شاعر کا نقاد اونقاد کا شاعر ہونا لازمی تھا۔ جب شاعر ’’تحسین ناشناس‘‘اور’’سکوت سخن شناس‘‘ کا ذکر کرتا تھا تو اس کا صاف مطلب یہی ہوتا تھا کہ اصلی نقاد خود بھی شاعر ہوتا ہے یہ دوسری بات ہے کہ وہ شعر نہ کہتا ہو۔

    یہ سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں کہ کوئی ایسا شخص شاعری پر صحیح تنقید نہیں کر سکتا جو خود فن شاعری میں پورا درک اور اس کے اصول اور اسالیب سے پوری آگاہی نہ رکھتا ہو، بالکل اسی طرح جس طرح کہ فن تعمیر کے نقاد کے لئے کم سے کم اصولی اور نظری طور پر پر فن تعمیر کا ماہر ہونا ضروری ہے۔ شاعر بھی اس وقت تک بڑا شاعر نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے اندر نہایت کھری اور کارگر قسم کی تنقیدی صلاحیت موجود نہ ہو۔ تخلیق بغیر تنقید کے ممکن نہیں۔ ایک شاعر کے لئے بہت ضروری ہے کہ وہ اساتذہ کے کلام کے بہترین نمونوں سے پوری واقفیت رکھتا ہو اور فن شاعری کے اصول اور روایات کو اچھی طرح سمجھنے اور پرکھنے کے قابل ہو۔

    شعرائے ماسلف میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ شاعر اصول فن سے نابلد ہو، یا اسلاف کے کلام کا قابل لحاظ حصہ اس کے مطالعہ سے نہ گزر چکا ہو۔ بہت سی مثالیں تو ایسی ملیں گی کہ شاعر نقاد بھی ہے اور نقاد شاعر بھی۔ فارسی میں رودکی سے لے کر متاخرین تک اور اردو میں سراج اور ولی سے لے کر امیر مینائی اور ان کے متبعین تک ایسے شعراء کی کمی نہیں ہے جنہوں نے اچھے شعر بھی کہے ہیں اور ایسے تذکرے بھی لکھے ہیں جن سے آج بھی ہم بے نیازی نہیں برت سکتے۔

    اردو میں میر، سودا، قائم چاند پوری، لچھمی نارائن صاحب و شفیق، مصحفی، میر حسن اور بہت سے بعدکے شعراء صف اول کے تذکرہ نگار بھی رہے ہیں۔ انگریزی ادب کی تواریخ میں سرفلپ سڈنی، ڈرائڈن، کولرج، ورڈس ورتھ، شیلی، میتھو آرنلڈ، رابرٹ برجزاورٹی ایس ایلیٹ ہمارے اس دعوے کے ثبوت میں پیش کئے جا سکتے ہیں کہ ماہیت کے اعتبار سے شاعر اور نقاد دونوں ایک ہیں۔ جرمنی کا مشہور شاعر اور تمثیل نگار گوئتے دنیا کے زبردست مفکروں اور نقادوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ نقاد اور شاعر میں ایک ظاہری فرق ضرور ہے اور وہ یہ کہ نقاد عملاً تجزیہ اور تبصرہ کا زیادہ ماہر ہوتا ہے۔ شاعر عموماً اپنے فن کے اصول اور اسالیب کا غیرشعوری احساس رکھتا ہے جو اس کی تخلیقی کوششوں میں بلا ارادہ کام کرتا رہتا ہے۔

    شاعری یا ادب کی کسی دوسری صنف کے لئے کم سے کم دو ہستیوں کا ہونا لازمی ہے، ایک تو وہ جو شاعریا ادیب ہے اور دوسرا وہ جو اس کی تصنیف کو سنے یا پڑھے اور سمجھے۔ بقول اسکاٹ جیمس گویا ایک سرے پر ایک آواز ہوتی ہے اور دوسرے سرے پر ایک سننے والا۔ سننے والا نقاد ہے جو سنی ہوئی بات کے کسی جزو کو چھوڑتا نہیں اور اس کے معنی کی تمام گہرائیوں سے لے کر الفاظ اور لب ولہجہ کی تمام نزاکتوں اور بلاغتوں کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔

    نقاد کا پہلا کام یہ ہے کہ اس نے جو کچھ سنا ہے اس کو بغیر بدلے ہوئے اس کی ترکیب کا تجزیہ کر سکے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ سننے والے کے اندر ایسا جامع اور محیط تخیل ہوکہ وہ کہنے والے کی نفسیات کو اپنے ذاتی تجربات کی طرح سمجھ سکتا ہو۔ اصلی کارنامہ تو شاعر کا ہے جس نے شعر کی تشکیل کی۔ لیکن اگر نقادمیں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ اس شعر کی اندرونی کائنات اور بیرونی ہیئت کا تجزیہ کرکے اس کو ازسر نوویسی ہی شکل دے سکے جیسی کہ شاعر نے دی تھی تو وہ نقاد کا اصلی فرض ادا کرنے سے قاصر رہ جائے گا۔

    لیکن عملاً نقاد کے کام کا آغاز وہاں سے نہیں ہوتا، جہاں سے شاعر کی تخلیق شروع ہوتی ہے۔ شاعر واقعی زندگی یا اس کے کسی ایک جزو پر اپنے کلام کی بنیاد رکھتا ہے۔ خارجی عالم اسباب سے جو تاثرات اس کے اندرپیدا ہوتے ہیں وہ ان کو نظم و تربیت کے ساتھ ایک صورت دیتا ہے اور اپنی تخیل سے اس صورت میں رنگ آمیزیاں کرتا ہے، یعنی شاعر اپنے تجربات اور ذہنی نقوش کو الفاظ کا جامہ پہناکر ایک مکمل ہیئت میں پیش کرتا ہے۔ نقاد کا نقطہ آٓغاز یہی مکمل ہیئت ہے، لیکن جیسا کہ اسکاٹ جیمس نے اپنی کتاب ’’ادب کی تشکیل‘‘ The Making of Literatureمیں واضح کر دیا ہے، نقاد کو اس قابل ہونا چاہئے کہ وہ شاعریا ادیب کے کسی کارنامہ پر تبصرہ کرتے ہوئے الٹے پاؤں واپس جا سکے تاکہ وہ خود اپنے تخلیقی تخیل سے کام لے کر آغاز سے نقطہ تکمیل تک اس کارنامہ کا تجزیہ کرکے اس کو سمجھ اور سمجھا سکے۔

    نقاد کے لئے بھی کائنات اور انسانی زندگی کامطالعہ اور مشاہدہ اتناہی ضروری ہے جتنا شاعر کے لئے، ورنہ وہ یہ نہ سمجھ سکے گا کہ شاعرنے اپنی تخلیق کے لیے مواد کہاں سے حاصل کیا ہے او ران مواد کو اس نے جو صورت دی ہے وہ کس حد تک موزوں اور ناگزیر ہے۔ نقاد کو زندگی کے خارجی اور داخلی واقعات و واردات کا ویسا ہی حقیقی اور بھرپور شعور ہونا چاہئے جیسا کہ فنکار کے لئے ضروری ہے، نہیں تو فنکاری میں زندگی کی جو نمائندگی کی جائے گی نقاد اس کا احاطہ نہ کر سکےگا۔

    اس علم کائنات یا شعور زندگی سے آخر کیا مراد ہے؟ محض واقعات یا حالات کے اضطراری نقوش اور ارتسامات کو کائنات کاعلم یا زندگی کا شعور نہیں کہتے۔ شاعر اور نقاد دونوں کے لئے کائنات اور زندگی کے ارتقا اور تواریخ کا منضبط اور مدلل علم ضروری ہے۔ ماضی کی زندہ یاد، حال کے تمام اکتسابات پر جامع اور ہمہ گیر نظر اور مستقبل کے ارتقائی امکانات کا نہایت واضح اور صحیح تصور فنکار اور نقاد دونوں کے لئے لازمی ہے اور شاعر ہو یا نقاد، زندگی کایہ درک اور شعور اس کے اندر اس وقت تک نہیں پیدا ہو سکتا جب تک کہ وہ زندگی کو متحرک اور ترقی پذیر نہ سمجھے۔ زندگی کو اگر ساکت اور صامت مان لیا گیا تو تواریخ کے کوئی معنی نہ ہوں گے۔

    زندگی اگر تواریخ ہے، اگر اس میں ماضی، حال اور مستقبل اصل وجود رکھتے ہیں تو یقیناً وہ ایک متحرک حقیقت ہے جو عہد بہ عہد بدلتی جاتی ہے اور بہتر سے بہتر ہوتی رہتی ہے۔ یہ محض مارکس اور لینن کے خیالات نہیں ہیں، بلکہ بیرگساں (BERGSON) رودلف آئیکن (Rudolph Eucken) اور کروچ (Croce) جیسے متصورین کے بھی نظریات یہی ہیں۔ یہ سب زندگی کی قوت کو متحرک اور مسلسل یعنی تواریخی مانتے ہیں۔

    فنکاری اگر زندگی کی نقل یا تخلیق جدید ہے تو وہ اس بنیادی تصور سے انحراف نہیں کر سکتی۔ زندگی کے اس تصور میں ماضی، حال اور مستقبل یعنی روایات اور انقلابات ترکیبی عناصر کی طرح داخل ہیں اور ایک دوسرے سے جدا نہیں کئے جا سکتے۔ بقول ٹی ایس ایلیٹ حال کے شعو رمیں ماضی کی پوری آگاہی کام کرتی ہوتی ہے اور مستقبل کا تصور حال کے شدیدا حساس سے بے تعلق نہیں رہ سکتا۔

    اگر فنکاری یا شاعری کا موضوع قدماء کے خیال کے مطابق محض حسن قرار دیا جائے تو پھر حسن کو ایک نہایت وسیع اور خلاق قوت ماننا پڑےگا۔ جس کا شعوری یا غیرشعوری احساس خواص اور عوام سب میں موجود ہوتا ہے۔ جو حسن صرف چند چیدہ اور برگزیدہ ہستیوں کے شعور میں آ سکے اور جس کی قدر عام بنی نوع انسان نہ کر سکیں اس کا اصلی وجود کہیں نہیں ہے۔ حسن کے اس غیرحقیقی تصور سے اب دنیا بہت آگے بڑھ گئی ہے۔

    اب ہم حسن اور اس کے شعور اور اس کی قدر کو سارے بندگان خدا کا حق سمجھتے ہیں۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ شاعر اور عوام میں کوئی فرق نہیں۔ اختلاف مراتب کا کسی نہ کسی حد تک بہرحال قائل ہونا پڑےگا۔ کسی میں یہ شعور زیادہ واضح، زیادہ شدید اور زیادہ توانا ہوتا ہے اور وہ اس قابل ہوتا ہے کہ اس شعور کو ذریعہ اظہار دوسروں تک بھی پہنچا سکے، لیکن جب تک دوسروں میں بھی کم و بیش یہ شعور موجود نہ ہو، اس وقت تک دوسرے شاعر یا فنکار کی کوششوں سے کوئی اثر قبول نہیں کر سکتے۔

    شاعر کا کام محض عوام کے خوابیدہ یا نیم خوابیدہ شعور کو جگا کر ہشیار کر دینا ہے۔ نقاد میں، جیسا کہ بتایا جا چکا ہے وہی شعور ضروری ہے جو شاعر کے اندر کارفرما ہوتا ہے ورنہ وہ شاعر کی تخلیقی کوششوں پر صحیح تنقیدی حکم نہ لگا سکےگا۔ نقاد شاعر کا ہم شعور اور رفیق کار ہوتا ہے۔ شاعر کو نقاد سے ملتی ہے۔ وہ خود جس کام کو نہیں کر سکتا وہ نقاد اس کے لئے کرتا ہے۔ شاعر کو اپنی کوشش اتنی عزیز ہوتی ہے کہ وہ اس کی اچھائی یا برائی کو پرکھنے میں دھوکا کھا سکتا ہے جس سے نقاد اس کو بچاتا ہے۔ تنقید نئی تخلیق کے لئے شمع راہ بنتی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک شاعر کے اختراعات فائقہ کی صحیح قدر متعین کرنا کسی دوسرے شاعر ہی کا کام ہے۔ یہ دوسرا شاعر نقاد ہے۔

    مختصر طور پر اشارتاً جو کچھ میں نے کہا ہے اس سے اتنا تو واضح ہی ہو گیا ہوگا کہ بغیر ماضی کے مطالعہ، حال کے مشاہدے اور مستقبل کے تصور کے نہ کوئی صحیح معنوں میں فنکار ہو سکتا ہے نہ نقاد۔ اس لئے کہ ان تینوں اجزا کے امتزاج کے بغیر ہمارے اندر تواریخی بصیرت نہیں پیدا ہو سکتی اور تواریخی بصیرت کے بغیر نئی تخلیق ایک اسقاطی کوشش سے زیادہ قابل قدر نہیں ہو سکتی۔ ہمارے نوجوان فنکاروں کو یہ راز سمجھنا ہے۔

    مأخذ:

    ادب اور زندگی (Pg. 28)

    • مصنف: مجنوں گورکھپوری
      • ناشر: اردو گھر، علی گڑھ
      • سن اشاعت: 1984

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے