Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تنقید کے چند بنیادی مسائل

ممتاز حسین

تنقید کے چند بنیادی مسائل

ممتاز حسین

MORE BYممتاز حسین

    ہر وہ شخص جسے شعروادب کا مذاق ہے، لازمی طور پر ناقد نہیں ہے کیونکہ تنقید کا تعلق صرف مذاق کی اصلاح سے نہیں بلکہ زندگی کی اقدار کی قیمت متعین کرنے اور اس کے بارے میں فیصلہ دینے سے بھی ہے۔ یہ جاننا یقیناً اہم ہے لیکن اس سے کم اہم یہ نہیں ہے کہ اس کارخانہ تغیر میں جسے دنیا کہتے ہیں، ہر چیز بدلتی رہتی ہے۔ یوں ہی کسی بے اصولی کے ماتحت نہیں بلکہ اصول کے ماتحت ہم ان اصولوں کو سمجھ سکتے ہیں، کیونکہ وہ اصول ہمارے ذہن اور ہماری قوت ارادی سے خارج میں عمل پیرا رہتے ہیں۔ تغیر کا یہ اصول جدلیاتی ہے۔ نیا مذاق سخن، پرانے مذاق سخن ہی کی گود سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کشمکش کے ماتحت جو کہ مواد اور فارم کے درمیان ایک مخصوص منزل کے بعد پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ مواد جس تیزی کے ساتھ خارج سے اثر قبول کرتا ہے، فارم اتنی تیزی کے ساتھ اپنے کو بدل نہیں پاتا ہے۔

    پیداوار کی مادی طاقتیں اپنی ترقی کی ایک مخصوص منزل میں پہنچ کر ان پیداواری رشتوں کے ساتھ کشمکش پیدا کر لیتی ہیں، جن میں رہ کر وہ پہلے عمل پیرا رہتی ہیں، وہ پیداواری رشتے پیداواری طاقتوں کو آگے بڑھانے کے بجائے ان کی راہ میں حائل ہو جاتے ہیں، اس وقت سماجی انقلاب کے ایک عہد کا آغاز ہوتا ہے۔ اقتصادی بنیاد کی تبدیلی کے ساتھ اس کے اوپر تمام بھاری بھرکم ڈھانچہ کم وبیش تیزی کے ساتھ بدل جاتا ہے لیکن اس قسم کی تبدیلی پر غور کرتے وقت پیداوار کے اقتصادی حالات کی مادی تبدیلی اور ایڈیالوجی کی مختلف صورتوں یعنی قانون، سیاست، مذہب اور جمالیات کی تبدیلی میں فرق کرنا چاہئے، پیداوار کے اقتصادی حالات کی مادی تبدیلی کا تعین علوم طبعی کی صحت کے ساتھ کیا جا سکتا ہے لیکن ایڈیالوجی کی مختلف صورتوں میں اس تبدیلی کا شعور پیدا ہوتا ہے جسے لڑبھڑ کر حل کرتے ہیں۔

    جس طرح ہم کسی فرد کے بارے میں اپنی رائے اس پر قائم نہیں کرتے کہ وہ اپنے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے، اسی طرح اس تبدیلی کے زمانے کو ہم اس کے اپنے شعور (یعنی اس کے آیڈیلوجیکل فارم) سے نہیں جانچتے بلکہ اس کے برعکس ہم اس شعور کو مادی زندگی کے تضاد، پیداوار کی سماجی طاقتوں اور پیداواری رشتوں کی کشمکش سے سمجھاتے ہیں۔ (کارل مارکس)

    میں نے یہ اقتباس صرف دو باتوں کی وضاحت کے لیے دیا ہے۔ حالیؔ کے کلام اور تنقید میں نئی اور پرانی شاعری کی کشمکش کا جو شعور ملتا ہے، اس کے آغاز کا تعین علوم طبعی کی صحت کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا، تاہم داخلی اور خارجی شواہد کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ اس کا آغاز حالیؔ کے عہد سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ عبدالقادر سروری، حالی کی خودنوشت سوانح عمر ی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ اردو کی مروجہ شاعری سے سخت بے زار تھے، مبالغہ اور بے سروپا باتیں انہیں سخت ناپسند تھیں، وہ شعر کا اصلی جو ہر سادگی اور اصلیت کو سمجھتے تھے لیکن مصطفیٰ خاں شیفتہ، ناقد نہ بن سکے کیونکہ ان کے پاس نئی اقدار کا کوئی ایسا سٹ نہ تھا جس سے وہ ان اقدار کی تنقید کر سکتے، جس سے وہ بیزار تھے۔ اس کے برعکس حالیؔ کے سامنے نئی اقدار کا ایک سٹ تھا، جس کی تشریح ہم آگے چل کر کریں گے۔

    دوسری اہم بات اس اقتباس کو پیش کرتے وقت میرے ذہن میں یہ تھی کہ ہم ادبی مسائل کو اس وقت تک نہیں سمجھاسکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کی سماجی بنیاد، پیداواری طاقتوں اور پیداواری رشتوں کے تضاد اور کشمکش کو نہ سمجھیں۔ آج مذاق سخن اور اقدار کی دنیا میں جو تنازع ہے، اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ کچھ لوگوں کو آم کی کھٹاس پسند ہے تو کچھ لوگوں کو املی کی، کیونکہ یہ تو ذوق کا انفرادی تنوع ہوا، جوکہ ہمیشہ پایا جائےگا، لیکن اس قدر مختلف نہیں ہو سکتا کہ وہ دو مختلف اصولوں کی حمایت میں تبدیل ہو جائے۔

    ٹی، ایس، ایلیٹؔ اور ہاورڈ فاسٹؔ کے درمیان ادبی مسائل کے بارے میں جو اختلاف ہے، اسے ذوق کے انفرادی تنوع سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا، وہ اختلاف اس کشمکش کا آئینہ ہے جو کہ سرمایہ دارانہ طریق پیدا وار اور اس کے پیداواری رشتوں کے درمیان ہے۔ ایلیٹؔ اشتراکی انقلاب کے خلاف ہیں اور ہاورڈ فارسٹؔ موید، ایلیٹؔ بورژوا طبقے کے ساتھ ہیں اور ہاورڈ فاسٹ مزدور طبقے کے ساتھ اور یہ لڑائی ایلیٹ اور ہاورڈ ؔفاسٹ آج سے نہیں بلکہ اس وقت سے لڑ رہے ہیں جب سے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے پیداواری رشتے سرمایہ دارانہ نظام کی پیداواری قوتوں کو آگے بڑھانے کے بجائے ان کی راہ میں حائل ہو گئے اور اس کشمکش نے ان کے ممالک میں ایک نئے سماجی انقلاب یعنی اشتراکی انقلاب کے عہد کا آغاز کیا۔

    اس طرح ہمارے یہاں بھی پیداواری طاقتوں اور پیداواری رشتوں میں کشمکش ہے اور ہم ایک نئے سماجی انقلابی عہد میں ہیں لیکن ہماری کشمکش اور ہمارے انقلاب کی نوعیت اتنی مختلف ہے کہ جب تک اس کی کچھ تاریخ بیان نہ کی جائے اس کا سمجھنا مشکل ہے، اکبر کے عہد سے لے کر اٹھارھویں صدی کے اختتام تک باوجود مغلیہ سلطنت کے زوال کے، ہندوستان دنیا کی نظر میں ایک صنعتی ملک تھا، چنانچہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی سب سے بڑی آرزو یہاں کی بیرونی تجارت کو اپنے ہاتھ میں لینے کی تھی تاکہ وہ کم سے کم دام اور محصول ادا کرکے یہاں کا سامان یورپ بھیج سکے، لیکن یہاں کی لوٹی ہوئی دولت سے انگلستان میں سرمایہ زیادہ اکھٹا ہوا، تجرباتی علوم اور ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی ہوئی اور صنعتی انقلاب آیا تو صنعتی سرمایہ داروں نے تاجرانہ سرمایہ داری یعنی ایسٹ انڈیا کمپنی کو بے دخل کرکے ہندوستان کی معاشیات کو اپنی ضرورت کے مطابق ڈھالا، یعنی یہاں کی صنعت کو تباہ کرکے اسے ایک خالصاً زرعی ملک میں تبدیل کر دیا۔

    اس کے یہ معنی ہوئے کہ جاگیردارانہ رشتوں کے حدود میں رہ کر ہم اکبر کے عہد سے جن سرمایہ دارانہ پیداواری قوتوں کو آگے بڑھا رہے تھے، وہ پیچھے ہٹ گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس زمانے کے دستکار طبقے کی ایڈیا لوجی جس کا اظہار تصوف اور بھگتی کی تحریک میں ہوا تھا، بے معنی سی ہوگئی۔ وہ رموز رند وزاہد کے جو کبھی حقیقی تھے کیونکہ وہ اصول کی وضاحت کرتے تھے، اب روایتیں ہو گئے، چنانچہ غالبؔ کے ایسے ولی کو بھی جو تقریباً آخری بڑے صوفی شاعر تھے اور جن کو مسائل تصوف پر اچھی خاصی دسترس تھی یہ کہنا پڑا کہ ’’تصوف نہ زییبد سخن پیشہ را۔‘‘ نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ جن کی تربیت صوفیانہ شاعری سے ہوئی تھی اسی باعث آزردہ تھے کہ اگر ایک طرف تصوف کی اصلیت نکل گئی تو دوسری طرف یا تو اس پر ملاؤں نے ہلہ بول دیا تھا یا پھر ہوس پرستی نے اور یہ دونوں چیزیں ایک محب وطن کے لینے کے لیے ناقابل قبول تھیں۔

    ۱۸۱۲ء سے لے کر ۱۸۵۸ء تک کا زمانہ جب کہ ہندوستان ولایت کے اک زرعی چک میں تبدیل ہو گیا تھا، ہندوستانی سماج کی شکست و ریخت کا زمانہ تھا۔ اس زمانہ میں نہ تو کوئی پرانا طبقہ اوپر آیا اور نہ نیا طبقہ پیدا ہوا۔ نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ کی ناقدانہ صلاحیتوں کو جوان ہونے کا موقع نہ ملا، اس کا یہی سبب تھا کہ ان کے پاس کسی طبقے کی ایسی نئی اقدار نہ تھیں جن کے نقطہ نگاہ سے وہ اپنے عہد کے ادب اور زندگی کی تنقید کر سکتے۔

    حالیؔ پیدا اسی پرآشوب زمانہ میں ہوئے لیکن وہ اپنے ادبی سن شعور کو ۱۸۷۵ء میں پہنچے جبکہ ملکہ وکٹوریہ کے اس امن و امان کے زیر سایہ ایک نیا متوسط طبقہ اس شکست و ریخت کے بعد ابھر رہا تھا، جس کے پاس انگلستان کے صنعتی انقلاب سے اکتساب کی ہوئی نئی قدریں تھیں۔ حالیؔ علی الاعلان اس نئے متوسط طبقے کے خیالات اور جذبات کے ترجمان تھے۔ جس حدتک وہ طبقہ تاریخی حدود میں رہ کر اپنے سماج کو زرعی حیثیت سے نکال کر صنعت و حرفت کی طرف لے جانا چاہتا تھا۔ حالی نے جاگیردارانہ دور کی ان ساری اقدار کی مذمت کی، جو مغرب کے صنعتی انقلاب کی قدروں کے مقابلے میں پوچ تھیں اور ہندوستان کی غلامی کا ایک سبب بنیں،

    یاد ہے ہم کو وہ عالم اپنا
    جب کہ ہم آپ تھے اپنے پہ فدا

    روم کی تھی نہ خبر شام کی تھی
    آگہی طوس نہ بسطام کی تھی

    تھے لڑکپن کے خیالات تمام
    دل میں اترے ہوئے شکل الہام

    فکر پرواز نہ ڈالا تھا کہیں
    ہوش ہم نے نہ سنبھالا تھا کہیں

    جوکہ تھا اپنی کتابوں میں لکھا
    کوئی حرف اس میں جز الہام نہ تھا

    نکلے سب پوچ خیالات اپنے
    ٹھہرے سب، ہیچ کمالات اپنے

    لیکن جس حدتک اس طبقہ میں برطانوی امپریلزم اور اس کی سماجی بنیادوں سے جو کہ ہندوستان کے جاگیری نظام میں تھیں، بھرپور طور سے ٹکر لینے کی قدرت نہ تھی۔ وہ درمیانی راستے آگے نہ بڑھ سکے۔ اگر آرنلڈؔ نے وکٹورین عہد کے مخصوص سماجی رشتوں کے ماتحت عقل پسندی اور مسیحی اخلاق کے درمیان سمجھوتہ نہ کیا تو حالیؔ نے مغرب کے بورژوا اقدار اور مشرق کے صالح اسلام کی قدروں کے درمیان سمجھوتہ کیا۔ نیچرل شاعری کو اسلامی اخلاق کا پابند کرنے کا یہی سبب تھا۔

    ہے عجب دنیا میں نعمت درمیانی زندگی
    فقر کی لذت سے اور ثروت کے فتنے سے بری

    لیکن جو ں جوں یہ درمیانی طبقہ تجارت اور صنعتی ترقی کے ذریعہ آگے بڑھتا گیا، اس کا تضاد نہ صرف بدیسی حکومت اور بدیسی سرمایہ کے ساتھ بڑھتا گیا بلکہ پرانے جاگیرداری رشتوں سے بھی، کیونکہ صنعتی ترقی کے لیے اچھی صنعتی فصل اور محنت کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حالیؔ کے نیچرلزم اور اخلاق کے درمیان کی خلیج بھی وسیع ہوتی گئی۔ آخر نیچرلزم کو اخلاق سے کیا واسطہ، کیونکہ روسوؔ کے خیال میں، جو نیچرلزم کا بہت بڑا حامی تھا، فطرت بذات خود ایک اخلاقی طاقت ہے نہ کہ شریعت موسوی۔ ایسی صورت میں یہ کہنا کہ رومانیت ہمارے یہاں بھی نیچرلزم ہی کا نام لے کر پیدا ہوئی، کچھ بےجا نہ ہوگا لیکن ہم حالیؔ کو رومانوی نہیں کہہ سکتے، کیونکہ انہوں نے ایک طرف فطرت کو اسلامی اخلاق سے متوازن نہیں کر لیا تھا تو دوسری طرف قوت ممیزہ یا عقل سے متوازن کر لیا تھا لیکن یہ بات بیسویں صدی کی رومانیت کی تحریک میں باقی نہ رہی اور رہتی بھی کیوں جب کہ متوسط طبقہ آگے بڑھ رہا تھا، خود اپنے طبقے کے تضاد اور دوسرے سماجی تضادوں کو آگے بڑھا رہا تھا۔

    اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب حالیؔ کی حب الوطنی نیشنلزم کی تحریک میں نمودار ہوئی تو اس کی بھی بنیاد رومانیت پر رہی۔ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا۔‘‘ اور پھر ’’مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا۔‘‘ یہ دونوں ہی مصرعے متحدہ قومیت اور علیحدہ قومیت کے جذبے کی رومانوی تصاویر ہیں اور اگر کسی کو اعتراض ہو تو اسے یہ نہ بھولنا چاہئے کہ باوجود حقیقت پر نظر رکھنے کے جس کے بارے میں قومی اشتباہ ہے، ڈاکٹر اقبالؔ نے ہمیشہ عشق یا جذبے ہی کو اولیت دی ہے عقل پر۔ یہ ناممکن تھا کہ ہمارا سماج متوسط طبقے کی قیادت میں بورژواڈیمو کریٹک انقلاب کی طرف بڑھتا اور جذبات پرستی کا شکار نہ ہوتا، نہ صرف اس وجہ سے کہ متوسط طبقے کے فلسفے میں عقلی فلسفے کے ساتھ غیر عقلی فلسفے کے بھی عناصر تھے بلکہ اس وجہ سے بھی کہ اس جاگیردارانہ نظام کے پس منظر میں جن نئے رشتوں نے ہمارے حواس کو نوازا، ہمیں خارجی حقیقت سے باخبر کیا، ان سے ہمارے جذبات کی نئی سے نئی تہیں کھل رہی تھیں، لیکن چونکہ انفرادیت اور آزادی کے تصورات سے رومانوی تھے وہ ہماری شخصیت کو متوازن نہ کر سکے۔ خارجی حقیقت کی ضرورتوں کے شعور سے البتہ باخبر کر دیا۔

    اگر آپ غور سے دیکھیں تو ماننا پڑےگا کہ رومانوی دور میں حالیؔ کی عقل پسندی کی تحریک جذبہ پرستی کی وجہ سے زیادہ آگے نہ بڑھ سکی، اور میں اس سلسلہ میں حالیؔ کو سبکدوش کرنا نہیں چاہتا۔ نیچرل وہ ہے جو اصول فطرت کا تابع ہو، ہابسؔ کے یہاں نیچرل کے یہی معنی ہیں، لیکن روسوؔ نے نیچرل کو اصول فطرت کا نہیں بلکہ محسوسات کا تابع بتایا۔ حالیؔ نے بھی یہی غلطی کی۔ انہوں نے جذبات اور محسوسات کی اہمیت پر زور دیا نہ کہ محسوسات کو کسی اصول کے ماتحت معقول بنانے پر اور جب معقولات کی طرف آئے تو انہوں نے اسے اخلاقیات کا پابند کیا نہ کہ علوم طبعی کا۔ اس طرح حالیؔ نے اپنی نیچرلزم میں مابعد طبعیات، سریت اور جذبہ پرستی کی راہ کو غیر ارادی طور پر کھولے رکھا۔ اس عہد کی رومانیت خواہ وہ عشق ومحبت کی ہو یا مظلوم انسانوں کے ساتھ ہمدردی کرنے کی، جس میں ہندوستانی سماج کے ہر طبقے یا گروہ کی عورتیں بھی شامل ہیں، یا پھر قومی آٓزادی سے پیار اور محبت کرنے کی روایت ابھی تک متوسط طبقے کے ادب میں قائم ہے۔

    ترقی پسند ادب اس متوسط طبقے کے ادب کی گود میں پپدا ہوا، یعنی رومانوی فضا اور اثرات میں پیدا ہوا اور کافی دنوں تک وہ اس کی گود میں اس طرح پروان چرھتا رہا کہ نہ ماں نے بچے کو اچھی طرح پہچانا اور نہ بچے نے ماں کو، ماں نے اسے اس لئے نہیں پہچانا کہ اس کی انقلابیت رومانوی تھی، وہ اشترکیت کا نام سن کر خفا ضرور ہوتی لیکن چونکہ اس انقلابیت میں اپنا ہی سامراج پاتی، اس لئے برداشت کرتی اور بچے نے ماں کو اس لئے نہیں پہچانا کہ اس کی رومانیت میں عمل وحرکت کے عناصر تھے۔ آخر ماں بھی تو جاگیر دارانہ اور سامراجی نظام کے خلاف رومانوی طور پر بغاوت کرتی رہی تھی۔ لیکن یہ جاننا کافی نہیں ہے، ترقی پسند ادب کی سماجی بنیاد ہندوستان کے اس مزدور طبقے کی اقتصادی اور سیاسی مانگوں پر ہے جسے ہندوستانی سرمایہ داری نے جنم دیا، اس کے یہ معنی ہوئے اس کی آزادی ہندوستانی سرمایہ داری کی غلامی کو ختم کرنے کے بعد ہی ممکن ہے اور چونکہ ہندوستانی سرمایہ داری کی غلامی بیرونی سرمایہ دار اور ملک کے جاگیر دارانہ نظام کے عناصر کے اتحاد کے باعث ہے، اس لئے کہ اس کی پہلی لڑائی بیرونی سرمائے اور جاگیر دارانہ نظام سے آزادی حاصل کرنے کی ہے نہ کہ ہندوستانی سرمایہ داری سے۔

    یہ ہے وہ سبب کہ ہمارا ترقی پسند ادب باوجود طبقاتی ہونے کے قومی بھی ہے یعنی وہ مختلف طبقات کے مفاد کا ترجمان ہے لیکن وہ متوسط طبقے کے قومی ادب سے مختلف بھی ہے، وہ اپنے اس قومی مفاد میں ان طبقات یا گروہ کے مفاد کا ترجمان نہیں ہے جو سامراجی اور جاگیر دانہ نظام سے مکمل طور پر ٹوٹنا نہیں چاہتے، ا س کے یہ معنی یہ ہوئے کہ آیڈیولوجی کے میدان میں جس حدتک متوسط طبقہ سامراجی اور جاگیردارانہ نظام کی قدروں سے سمجھوتہ کرتا یعنی عقلی فلسفے کی قدروں کے ساتھ غیر عقلی فلسفے، عشق، وجدان، سریت، جمال پرستی کی اقدار کو شریک کرتا، ترقی پسند ادب اس کی مخالفت کرتا، لیکن جس حدتک وہ مشرق اور مغرب کی رجعت پسندانہ اقدار کی مخالفت کرتا، وہ اس کے ساتھ ہوتا۔

    یہ تھی ۳۶ء کے متحدہ محاذ کے منشور کی اسپرٹ، یعنی اتحاد اور اختلافات دونوں ہی۔۔۔ چونکہ۳۶ء سے ۱۹۴۷ء تک متوسط طبقہ ہی (اس میں بورژ وا طبقہ شامل ہے) قومی سیاست کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا رہا اور ترقی پسندقوتوں کا شعور زیادہ واضح اور صاف نہ تھا، اس لئے اتحاد اور اختلاف کی نوعیت واضح نہ ہو سکی، حالانکہ اختلافات ابھرتے رہے جوکہ فطری تھا لیکن ۱۹۴۷ء کے بعد سے جب سے ہماری قومی سیاست اس منزل میں داخل ہوئی، جہاں متوسط طبقے کے سمجھوتے کی نفی ہوتی ہے کیونکہ اب یہ بات عوام پر ظاہر ہو چکی ہے کہ وہ اپنی دیرینہ غربت اور افلاس کو اس وقت تک ختم نہیں کر سکتے ہیں جب تک کہ وہ مزدوروں کی سیاسی پارٹی کی رہنمائی میں جاگیر دارانہ نظام کے زمینی رشتوں اور بدیسی سرمائے کے غارت گرانہ رشتوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ نہ کریں۔

    ہمارے سماجی انقلاب کے اس نئے موڑنے متوسط طبقے کے بیشتر دانشوروں کو حیص بیص میں ڈال رکھا ہے اگر چہ وہ پرانے رجعت پسند عناصر سے اور ان کی ملی جلی اڈیالوجی سے کٹ کر مزدوروں اور کسانوں کے ساتھ ملتے ہیں۔ مزدور طبقے کی ایڈیالوجی کو قبول کرتے ہیں تو انہیں زیادہ حقیقت نگر بننے اور عوام کی زندگی سے زیادہ قریب آنے کی ضرورت ہے، انہیں اپنی نئی نفسیاتی تنظیم کی ضرورت ہے اور اگر وہ پرانی ہی نفسیات اور پرانے ہی خیالات کی دنیا میں رہتے ہیں تو اپنے اقتصادی مسائل کو بھی حل نہیں کر پاتے ہیں۔ یہ ہے داخلی سبب جس کے باعث درمیانی طبقے کے ادب میں جمود ہے۔ اس کا خارجی سبب یہ ہے کہ جاگیر دارانہ اور سامراجی نظام کے متحدہ تسلط سے آزاد ہونے کی جنگ میں ہندوستانی معیشت اور ہندوستانی سماج کے بہت پرانے تضاد بھی ابھر آئے ہیں۔

    ہمارا دانشور طبقہ اس چیلنج کا بھرپور مقابلہ ابھی تک نہیں کرپایا ہے اور اگر ترقی پسند ادب بھی متوسط طبقے کے ادب سے ممتاز ہوکر اس عرصے میں کچھ زیادہ ابھر نہیں سکا ہے تو اس کا ایک سبب تو وہی ہے جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ ایک بحرانی دور سے گزر رہا ہے، اسے اس سماجی انقلاب کی قیادت سنبھالنے میں جو کہ اگر ایک طرف بورژوا ڈیموکریٹک انقلاب کا تکملہ ہے تو دوسری طرف اس سے مختلف بھی ہے، خارجی اور داخلی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس پر بھرپور طور سے وہ قابو ابھی تک حاصل نہیں کر سکا ہے۔ متوسط طبقے کے ادب یعنی رومانوی ادب کی شکست ادب کی موت نہیں ہے جیسا کہ حسن عسکری کا خیال ہے کیونکہ ہمارا قومی ادب آج ترقی پسند ادب کی شکل میں ترقی کر رہا ہے اور اگر وہ وقتی طور پر ایک بحرانی دور سے گزر رہا ہے جس پر وہ روز بروز سے زیادہ قابو پاتا جا رہا ہے تو اسے ترقی پسند ادب کی شکست تصور نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ ترقی پسند نیا ادب ہے، اس لئے وہ ناقابل شکست ہے، یعنی وہ جس طبقہ سے تعلق رکھتا ہے وہ ناقابل شکست ہے، وہ لامحدود امکانات اور مستقبل کا امین ہے۔

    لیکن ہم اس کے ان امکانات کو عملی جامہ اس وقت تک نہیں پہنا سکتے ہیں جب تک کہ ہم نظریاتی اعتبار سے صناف اور عملی اعتبار سے زندہ نہ ہوں، جس حدتک گزشتہ پندرہ سولہ سال کے عرصہ میں ترقی پسند ادب متوسط طبقے کے ادب کے ساتھ گڈمڈ رہا ہے (یہاں متوسط طبقے کے ادب اور متوسط طبقے کے ادیب کو ایک معنی میں نہ لینا چاہئے کیونکہ ہم ادب کو ادیب کے سماجی اصل سے نہیں بلکہ اس کے خیالات سے پہچانتے ہیں) ہماری تنقید بھی گڈمڈ ہی ہے۔ ہم نے اپنی تنقید میں حالیؔ کی روایات کو آگے بڑھایا جس میں ادب کی تنقید زندگی کے پس منظر میں کی گئی، اس میں شبہ نہیں کہ اس میں رومانوی عہد کے وہ تصورات بھی کارفرما رہے ہیں جس کا تعلق صورت پرستی اور جذبہ پرستی سے تھا، جسے دوسرے ا لفاظ میں تاثراتی تنقید کہتے ہیں لیکن جب کہ ہم ان حدود سے نکل رہے ہیں، اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہم اپنی تنقید کو غیر عقلی فلسفے کے اثرات سے آزاد کرائیں۔ ترقی پسند تنقید کو زیربحث لاتے وقت ہمیں سب سے پہلے اقدار کی تنقید پر زور دینا چاہئے۔ جیسا کہ حالیؔ نے کیا ہے اور یہ بتانا چاہئے کہ مذاق کا انفرادی تنوع اقدار کے اختلاف کو چھپا نہیں سکتا ہے۔

    ہماری تنقید جس بنیادی تصور کے گرد ۱۹۳۶ء سے گھوم رہی ہے وہ یہ ہے کہ ادب زندگی کا آئینہ ہے، یقیناً ادب عکس ہے اس زندگی کا جسے ہم گزار رہے ہیں، لیکن چونکہ ہماری حیثیت خارجی دنیا کے ساتھ صرف ایک مجہول حرف کی نہیں ہے بلکہ ایک فاعل کی ہے یعنی دنیا کو بدلنے کی بھی، اس لئے ادب میں ہماری زندگی کے ان دونوں پہلوؤں کی عکاسی ہوتی ہے، دردو غم اور اس قسم کے دوسرے جذبات کے ساتھ ہماری قوت ارادی اور عمل وحرکت دونوں ہی کی تصویر ہوتی ہے۔ پہلی صورت میں دنیا ہمیں اپنے مطابق ڈھالتی ہے دوسری صورت میں ہم دنیا کو اپنی ضرورتوں کے مطابق ڈھالتے ہیں، ظاہر ہے کہ دوسری صورت میں جب ہم دنیا کو اپنی ضرورتوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم صرف خارجی دنیا ہی کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ اپنی فطرت کو بھی، جو خارج سے متعین ہوتی ہے۔

    دوسرے الفاظ میں اسے یوں سمجھئے کہ دنیا کو بدلنے کی کوشش میں ہم اپنی فطرت کو بھی بدلتے ہیں۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ ادب زندگی کا کوئی مجہول آئینہ نہیں ہے، کیونکہ زندگی کو منعکس کرتے وقت شاعر یافنکار اپنے نقطہ نگاہ، قوت ارادی کے رجحانات اور عمل و حرکت کے پیغامات سے زندگی کو بدلنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ شاعر یا فنکار اقدار اس وقت تخلیق کرتا ہے جب کہ وہ خارجی حقیقت کے بارے میں اپنے ذہنی رجحان اور قوت ارادی کے میلانات کا اظہار کرتا ہے، خواہ وہ رجحان خارج کے مقابل جذبۂ سپردگی ہی کا کیوں نہ ہو، اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ تجربات کو خالص صورت میں نہیں دیکھا جا سکتا ہے، ان کی اہمیت صرف اس بات میں نہیں ہے کہ وہ کس حدتک محسوس ہیں، بلکہ اس بات میں بھی ہے کہ وہ کس حدتک معقول ہیں، یہ ہے وہ چیز جو ہماری تنقید کو تشریح محض یا اکتساب لذت کی خالص کوششوں سے دور رکھتی ہے، ادب کی تنقید ادبی تنقید ہوتے ہوئے زندگی کی تنقید بن جاتی ہے، ہمارے بعض نقادوں کے یہاں تشریحی میلان کچھ اس قسم کا ہے کہ وہ شاعر کے تجربات کی صرف اصلیت یعنی اس کے محسوس ہونے والی قدر ہی کو دیکھتے ہیں، اور خارجی حقیقت کو بدلنے والی یا اس کی معقولیت کی قدر کو نہیں دیکھتے ہیں۔

    وہ یہ کہہ کر اپنے کو مطمئن کر لیتے ہیں کہ میرؔ نے وہی سب کچھ کہا جو کہ ان پر گزری ہے اور جسے کہ انہوں نے اپنے ماحول میں دیکھا یا جھیلا لیکن اس وقت وہ فراموش کر دیتے ہیں کہ اگر ایک طرف میرؔ کی شاعری ان کے اپنے زمانہ کی حقیقت سے متعین ہوئی تھی تو دوسری طرف انہوں نے اپنے ذہنی اور ارادی میلانات سے اس حقیقت کو بدلنے کی بھی کوشش کی، خواہ وہ کوشش اپنے کو نفی ہی کرنے کی کیوں نہ ہو۔ جب میرؔ صاحب اپنے کو داخلی طور سے منعکس کرتے ہیں تو وہ صرف خود ہی اس تصویر سے اکتساب لذت نہیں کرتے ہیں بلکہ ہمیں بھی محظوظ کرتے ہیں،

    سرگزشت اپنی کس اندوہ سے شب کہتا تھا
    سوگئے تم نہ سنی آہ کہانی میری

    لیکن جب وہ اپنی قوت ارادی اور ذہنی میلانات کا اظہار کرتے ہیں، یہ حقیت ہے، وہ نہیں ہے، یہ کرو، وہ نہ کرو، یہ کرنا چاہئے، اسے نہ کرنا چاہئے، تو پھر اس کا انحصار ہماری اپنی اقدار پر ہے کہ آیا ہم اسے قبول کریں یا نہ کریں،

    چشم حق بیں سے کروٹک تم نظر
    دیکھتے جو کچھ ہو سب باطل ہے یاں

    اس قسم کے اشعار کے بارے میں یہ استدلال کہ وہ اپنے میلانات میں بھی اپنے زمانے سے متعین ہوئے تھے، ایک معذرت کی صورت اختیار کر لیتا ہے کیونکہ معقول دراصل وہ نہیں ہے جو کسی زمانے میں تھا بلکہ وہ ہے جو کہ آج بھی ہو۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ آرٹ محسوسات کی سطح پر بہ نسبت معقولات کی سطح کے ہے کیونکہ محسوسات کو معقول کرنے کا طریق کار کافی پیچیدہ اور مشکل ہے، اس میں نظریہ علم اور اس کی (Nethology) کے مسائل درمیان میں آ جاتے ہیں لیکن چونکہ زندگی انسان کی قوت ارادی، عمل اور نظریہ عمل ہی سے آگے بڑھی ہے نہ کہ زندگی کو صرف بے دست وپائی سے جھیل جانے کی صورت میں، اس لئے تنقید نہ صرف معاصر ادب کی بلکہ ماضی کے ادب کی بھی حیات حاضرہ ہی کی اقدار سے کرنی چاہئے۔

    مختلف طبقات ماضی کو مختلف ارادوں سے جگاتے ہیں، اور چونکہ طبقاتی سماج میں اقدار طبقاتی ہوتی ہیں، خواہ وہ ادب کی ہوں یا اقتصادیات کی، اس لئے نقاد کسی نہ کسی طبقے ہی کے اقدار کو سامنے رکھ کر ادب پر تنقید کر سکتا ہے۔ یہ بات دوسری ہے کہ تاریخ کے چند مخصوص عہد میں بعض نقادوں کا طبقاتی موقف ان طبقوں کا رہا ہے جو طبقاتی جنگ کو بے جان کرکے متضاد قدروں کے درمیان سمجھوتہ کرنا چاہتے تھے، مثلاً آرنلڈؔ کا طبقاتی موقف وکٹورین عہد کے اس بورژوا طبقے کا تھا جو کہ رؤسا یعنی اپنے حریف طبقے کے ساتھ سمجھوتہ کر چکا تھا، چنانچہ یہی سبب ہے کہ آرنلڈ عقل پسندی اور مسیحی اخلاق کے درمیان ایک توازن قائم رکھتے ہیں، اور جس حد تک رؤسا اور بورژوا طبقے کی طبقاتی جنگ بے جان ہو چکی تھی اور وہ اعلیٰ سنجیدگی پر زور دیتے ہیں، لیکن جب وہ بورژوا کی تاجرانہ دہنیت اور اس کی انسانیت کش اقدار کا جائزہ مسیحی اخلاق کے نقطہ نظر سے لیتے ہیں تو ان کی سنجیدگی ایک پرجوش مبلغ کی سنجیدگی سے زیادہ نہیں رہ جاتی ہے، لیکن آرنلڈؔ کی صحیح شخصیت وہیں اجاگر ہوئی ہے۔

    یہ ایک اشارہ ہے ہمارے ان نقادوں کے لئے جو اپنی تنقید کو غیر اساسی بنائے رکھنے کی کوشش میں متصادم اور متضاد قدروں کے درمیان توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے اعلیٰ سنجیدگی کا نام دیتے ہیں۔ اعلیٰ سنجیدگی ایک دوسرے کی نفی کرنے والی قدروں کے درمیان توازن قائم کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ اس بات میں ہے کہ ہم ان کے تضاد کو آگے بڑھاکر حل کریں اور اسے اس طرح آگے بڑھائیں کہ مخاصمت اور تشدد کم سے کم ہوتا جائے اور یہ عملی سنجیدگی ہم اسی وقت حاصل کر سکتے ہیں جب کہ ہم میں طبقاتی شعور ہو۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ ہماری تنقید کو سیاسی ہونا چاہئے، کیونکہ طبقاتی شعور ان دنوں تو بالکل ہی سیاسی ہے، اگلے وقتوں میں یقیناً اس کا ظہور مذہبی لباس میں ہوا کرتا تھا۔ یہ طبقاتی شعور ہی ہے جو ایک طرف ہم میں صحیح قومی آزادی کا شعور پیدا کرتا ہے تو دوسری طرف صحیح بین الاقوامی وحدت کا شعور پیدا کرتا ہے، اس لئے جب ہم طبقاتی جانب داری کی باتیں کرتے ہیں تو اس کے قومی اور بین الاقوامی پس منظر کو فراموش نہیں کرتے ہیں کیونکہ ہمارا آئیڈیل انسانیت کی فلاح وبہبود کا ہے۔ اس کرۂ ارض کے سارے انسانوں کو ایک خاندان میں تبدیل کرنے کا ہے۔

    مجھے امید ہے کہ جب میں یہ کہتا ہوں کہ ہماری تنقید کو سیاسی ہونا چاہئے تو آپ اس کا یہی مطلب نکالیں گے نہ کہ آپ ادب کو چھوڑکر سیاست کی تنقید کرنے لگیں۔ آپ مطمئن رہیں میں ایک دفعہ پھر یقین دلاتا ہوں کہ ادبی تنقید اصل میں ادب کی تنقید ہے لیکن چونکہ ادب بذات خود زندگی کی تنقید ہے ادب کے پس منظر میں، اس لئے ادبی تنقید لامحالہ زندگی کی تنقید بن جاتی ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تنقید کرتے وقت ہم اپنا سارا وقت خیالات ہی کے تجزیہ میں صرف کریں، یہی دیکھتے رہیں کہ آیا اس میں زندگی کا صحیح عکس اور قدروں کا صحیح احساس ہے کہ نہیں اور اس کی ہیئت، جمالیاتی جذبے، تخیل کی صورت آفرینی، جذبات کی دنیا، زبان کے حسن اور موسیقی کو نہ دیکھیں اور پرکھیں۔

    جن کا یہ خیال ہے کہ مارکسی تنقید میں ان چیزوں کو کم اہمیت دی جاتی ہے، انہیں مغالطہ ہوا ہے کیونکہ اگر ادب سے اس کا فارم جدا کر دیا جائے تو وہ ادب کیونکر رہےگا لیکن چونکہ ادب ایڈیالوجی کا ایک فارم ہے، اس لئے اس کو دیکھنے سے پہلے خیالات کو دیکھنا چاہئے، کیونکہ فارم خیال کی توضیح نہیں کر سکتا ہے بلکہ خیال ہی فارم کی نوعیت پر روشنی ڈال سکتا ہے، چونکہ ادب برائے ادب والے یا صورت پرست ادب کو صرف فارم سے پہچانتے ہیں اور اس کے خیال کو ادب کی تشکیل کا ایک بہانہ سمجھتے ہیں جوکہ کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں ہوتا، اس لئے وہ مارکسی تنقید کے بارے میں اس قسم کا خیال ظاہر کرتے ہیں نہ کہ اس وجہ سے کہ مارکسی تنقید فارم کو نظر انداز کرتی ہے۔ ممکن ہے صورت پرست نقاد اپنے مخصوص طریق کار سے جزوی صداقت تک پہنچتے بھی ہوں کیونکہ فارم کو سمجھنے کے لیے اسے اس کے معنی سے علیحدہ کرکے بھی دیکھنا چاہئے، بالکل اسی طرح جس طرح ادب کو سمجھنے کے لئے اسے ایڈیالوجی کے دوسرے فارم سے جدا کرکے دیکھنا چاہئے، لیکن علیحدہ کرنے کے بعد اسے دوسرے رشتوں کے ساتھ بھی دیکھنا چاہئے۔

    صورت پرست اس طریق کار کو نظرانداز کر دیتے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ فارم کی کلی حقیقت تک نہیں پہنچ پاتے ہیں، وہ کچھ محسوس یقیناً کرتے ہیں لیکن اپنے اظہار کو معقول نہیں کر پاتے۔ فارم کے حسن تک پہنچنے کا یہ طریقہ صحیح نہیں ہے کیونکہ فارم کسی بھی ذہنی تخلیق کا وہ پیکر ہے جو مواد کی اندرونی ضرورت سے متعین ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں جب تک مواد کا تجزیہ نہ کیا جائے، اس کی اندرونی ضرورت یا منطقی ارتقا کی صحت اور غلطی دریافت نہ کی جائے، اس کا تعین مشکل ہے کہ آیا فارم خیالات کے فطری ارتقا کا نتیجہ ہے یا تخلیقی کاوش کا نتیجہ ہے یا بس اسے یوں ہی اوپر سے مسلط کر دیا گیا ہے۔ لیکن چونکہ آئڈیلسٹک مفکرین کا یہی خیال ہے کہ فارم مواد پر اوپر سے مسلط کیا جاتا ہے، اس لئے وہ نہ صرف فارم کو ہی پہلے دیکھتے ہیں بلکہ فارم کی مدد سے مواد کو بھی سمجھاتے ہیں۔ انگریزی مثل کے مطابق یہ کوشش گاڑی کو گھوڑے کے آگے جوتنے کے برابر ہے۔

    ذہنی تخلیق ایک کمپوزیشن یا سالم تخلیق ہے جس کا ہر حصہ کل سے مربوط ہوتا ہے۔ اس پر مفکرین اختلاف رائے رکھ سکتے ہیں کہ جزو کل کے درمیان تناسب وتوافق پیدا کرنے کا کام قوت متخیلہ کا ہے یا قوت ممیزہ کا، لیکن اس سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ذہنی تخلیق کو بہ حیثیت مجموعی ایک سالم شے یا ایک نامیاتی وحدت کے تصور میں دیکھنے کا احساس فطرت کی نامیہ اشیا سے اخذ کیا گیا ہے اور چونکہ فطرت کی حسین ترین تخلیق انسان ہے اس لئے خوبصورتی کے بیشتر معیار انسان کی زندگی سے اخذ کئے گئے ہیں، جیسا کہ گوئٹے کا خیال، جس طرح شعر میں موسیقی انسان کے حسن عمل یا آہنگ عمل سے ماخوذ ہے، اسی طرح ڈرامے اور ناول کا فارم انسانی زندگی کی جدلیاتی عمل سے ماخوذ ہے۔

    آرٹ میں ہمیشہ ضدین کو کشمکش کی صورت میں دکھاتے ہوئے ایک نئی وحدت کی طرف لایا جاتا ہے لیکن چونکہ آرٹ زندگی کی باز آفرینی ہے، ایک آئیڈیل سطح پر جہاں وہ اہم کو غیر اہم سے جدا کرتا ہے اور کچھ مبالغہ سے بھی کام لیتا ہے، اس لئے اس کا فارم ادبی مواد کی اندرونی ضرورت یا منطق سے متعین ہوتا ہے نہ کہ خارج کی ضرورتوں سے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں آرٹ کی دنیا خارجی حقیقت کی دنیا سے جدا گانہ نظر آتی ہے کیونکہ اس کی اپنی تنظیم زندگی کی تنظیم سے مختلف ہوتی ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ان دونوں کے درمیان تضاد ہوتا ہے۔

    شعری صداقت خارجی صداقت سے متضاد نہیں ہوتی ہے بلکہ مختلف ہوتی ہے۔ اپنے طریق کار اور تنظیم کی وجہ سے فارم کے بارے میں ہماری یہ سمجھ بوجھ اس کے صرف ایک حصے، تعمیر، ڈیزائن، پیٹرن اور ہم آہنگی کی تشریح کرتا ہے۔ ابھی تک ہم نے قوت متخیلہ کو نہیں چھوا ہے کیونکہ میرے خیال میں تعمیر کا کام قوت ممیزہ بھی بخوبی انجام دے سکتی ہے، اگر ہم انسانی قوی کو خانوں ہی میں با نٹنے پر اتر آئیں۔ قوت متخیلہ کا عمل اصل میں اس جگہ سے شروع ہوتا ہے جیسا کہ وہ لفظ خود بتا تا ہے جب کہ خیال کو تخیل یعنی کسی حسیہ ذہنی تصور (Image) میں اس طرح ڈھالا جاتا ہے کہ وہ محسوس اور زندہ ہو جائے، اسے ایک ایسالباس پہنادے جو اس پر ایسا سجل ہوکہ آپ خیال کو بغیر اس لباس کے نہ تو دیکھ سکیں اور نہ محسوس کر سکیں۔ قوت متخیلہ کا یہ عمل تخلیقی ہے نہ کہ ادھر ادھر کی چیزوں کو جوڑ کر ترتیب دینے کا۔ کولرجؔ اسے ثانوی قوت متخیلہ کے نام سے یاد کرتا ہے، اس کے خیال میں یہ ذہنی نقوش کو پگھلاتا، بکھیرتا اور پھیلاتا ہے تاکہ اسے پھر سے تخلیق کر سکے، لیکن قوت متخیلہ اس میں کامیابی اس وقت تک حاصل نہیں کرتی ہے جب تک وہ اشیا کی بنیادی صفت تک نہ پہنچے، انہیں اجناس میں تقسیم کرکے ان کی مشترک قدروں کو نہ دیکھے اور پھر ایک ہی جنس کی مختلف اشیا کی مشترک اور انفرادی خصوصیت کو نہ دیکھے۔

    یہ کام تنہا قوت متخیلہ کا نہیں ہے تاوقتیکہ عقل رہنمائی نہ کرے۔ بہرحال جب کوئی (Image) یا تخیل اس طریق کار سے وجود میں آتی ہے جو یقیناً تخلیق ہے تو وہ بیک وقت ایک منفرد شے اور ایک ٹائپ دونوں ہی کی رہنمائی کرتی ہے۔ اگر شاعری انہیں تخیلات کے ذریعے سوچنے کا کا نام ہے تو فکشن کرداروں کے ذریعے، کیونکہ کردار بذات خود ایک تخیل ہے جس میں بہت سے چھوٹے چھوٹے تخیلات کو دباکر پیش کیا جاتا ہے۔ اردو شاعری میں شیخ و برہمن کے ایسے رموز کی یہی خوبی تھی کہ وہ ایک مفرد شئے سے ایک اصول کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔

    اب یہ دوسری بات ہے کہ بعض تلازمات کے ضائع ہونے کی وجہ سے وہ اپنی منفرد خصوصیات کو بالکل ہی ضائع کر چکے ہیں۔ خیر یہاں ہم کو اس سے بحث نہیں۔ یہاں تو صرف یہ کہنا ہے کہ تخیلات جس قدر زیادہ اس اصول پر کاربند ہوتے ہیں کہ وہ خاص سے عام کی طرف رہنمائی کر سکیں، اتنے ہی زیادہ وہ مجلی اور روشن ہوتے ہیں اور جس قدر زیادہ روشن اور صاف ہوتے ہیں، اشیا کی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اتناہی نہیں زیادہ سے زیادہ سامعین کے ہوش و گوش ان سے لذت حاصل کرتے ہیں، اگر شاعر نے اپنے تجربات کو وجود بالضد کی صورت میں نہیں دیکھا ہے تو وہ اس کی بنیادی خصوصیت کو ابھارنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا ہے،

    ہے دل شوریدۂ غالبؔ طلسم پیچ وتاب
    رحم کر اپنی تمنا پر کہ کس مشکل میں ہے

    اس شعر میں جس کیفیت کی ترجمانی کی گئی ہے اس کی نمائش ناممکن ہے لیکن جب شاعر اپنی کشمکش یا مشکل کو تقاضائے فطرت اور اس کی تکمیل کے محدود ذرائع کی کشمکش کی صورت میں پیش کرتا ہے تو وہ کیفیت خارجی صورت اختیار کر لیتی ہے کیونکہ وہ معقول بن چکتی ہے،

    وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناس خلق اے خضر
    نہ تم کہ چور بنے عمر جاوداں کے لئے

    اس شعر میں بھی اسی منطق کو سامنے رکھا گیا ہے۔ ’’وہ زندہ ہم ہیں‘‘ میں جو زور ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ خضر کی عمر جاوداں کے مقابل اپنے ہی کو لافانی بنانا چاہتا ہے، لیکن جب اس نے دونوں کی بنیادی خصوصیت، اپنی روشناس خلق اور خضر کی روپوشی کو مقابل میں رکھا، وہ اپنے اس دعوے کو کامیاب نہیں بنا سکا۔

    ان مثالوں کے ذریعہ میں جس نکتے کو ابھارنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اگر شاعر کا طریق فکر جدلیاتی نہیں ہے، مماثلت اور مغایرت کے ڈھونڈھنے اور تقابل وتخالف کا نہیں ہے تو وہ اپنے تجربے کی جامعیت پر قابو نہیں پا سکتا ہے۔ کسی بھی ذہنی تخلیق کا ایک متناسب پیکر جوکہ خیال کو منکشف کرتا ہے، اپنے وجود کو لطیف ترین اور شفاف ترین کرکے، نہ کہ جو خیال کو اپنی کثافت سے دھندلا دیتا ہے اسی جدلیاتی طریق فکر اور قوت متخیلہ کے اسی تخلیقی طرز عمل سے وجود میں آتا ہے، یہاں ہم مختلف رنگوں کے امتزاج، روشنی اور سایے کے تماشے اور موجہ ہائے رنگ و بو کے استعمال سے بحث نہیں کررہے ہیں، جس کا التزام یا تو آرائش سے ہے یا پھر انسانی توجہ کو کسی خاص نقطے پر مرتکز کرنے سے، بلکہ فارم کی اس نوعیت سے بحث کر رہے ہیں جو عقلی ہوتی ہے، جس سے معروض کی حقیقت عریاں صورت میں سامنے آتی ہے۔

    جس طرح کہ فلسفے میں وضعی منطق خیال کی ترسیل میں مددگار ہے، اسی طرح یہ فارم ادبی خیال کی ترسیل میں مددگار ہوتا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ وہ قوت مدرکہ سے آزاد ہوکر صرف رنگ وبو کی دنیا میں اپنے بال و پر پھڑپھڑاتی رہتی ہے اور شاعر کسی مبہم خیال کے تعاقب میں ان تخیلات سے کام لیتا ہے جو کہ اس کی شوریدگی اور آگہی کو سلا دیتے ہیں۔ اول الذکر صورت میں شاعر کے تجربے کا شخصی کردار ایک عالم گیر طور سے محسوس کئے ہوئے تجربے کی صورت اختیار کر لیتا ہے لیکن آخرالذکر صورت میں شاعر کے تجربے کا شخصی کردار اگر بالکل نامعقول نہیں تو دوسروں کے لئے غریب یقیناً ہوتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اگر آرٹ کی اصلاح یا تنقید معنوی اعتبار سے خارجی زندگی سے کرنی چاہئے تو صوری اعتبار سے منطق اور قوت متخیلہ کے تخلیقی طریق کار سے۔

    کسی بھی فن کار کا تجربہ ہر ایک قاری کے لئے مختلف نہیں ہو سکتا ہے۔ بشرطیکہ قاری ادب کا ذوق رکھتے ہوں، وہ مذاق سخن جو شعری صداقت کو حقیقت کے منافی بھی تصور کر سکتا ہے اور جو آرٹ کی وضعی تنظیم ہے، جوکہ دراصل جدلیاتی طریق فکر کا نتیجہ ہے، گریزاں ہے۔ وہ غیرعقلی اور غیر منطقی تخلیق کا حامی ہے نہ کہ صورت کے حسن کا شیدا۔ نیا آرٹ اپنے ساتھ نیا مذاق بھی لاتا ہے، لیکن وہ اس وقت کی سوسائٹی میں جگہ نہیں پاتا ہے، جب تک کہ نیا مواد پرانے فارم میں ترتیب پاتا رہتا ہے۔ اس کی اہمیت اس وقت محسوس کی جاتی ہے جب کہ وہ تمام ہوکر ایک نئے فارم کو بھی ساتھ لاتا ہے، یہ خدمت بڑے شعرا ہی انجام دیتے ہیں کیونکہ انہیں کے یہاں معنی اور صورت کا تضاد کم سے کم ہوتا ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ تضاد بالکل نہیں رہتا کیونکہ آرٹ تو اسی تضاد کو کہتے ہیں اور داخلی طریق سے حل کرنے ہی میں ترقی کرتا ہے۔

    صورت ومعنی میں مکمل ترین وحدت ایک حسن مستثنیٰ ہے نہ کہ عام اصول۔ یہ نظریہ اس خیال کی تردید کرتا ہے کہ ادب کی کوئی بھی قدر قائم بالذات پانا قابل غور ہے۔ جمالیات کی قدریں اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں ہیں کیونکہ جب ہماری جمالیاتی حس سماجی ترقی کے ساتھ گہری ہوتی جاتی ہے، اس کی توسیع نئی سے نئی مادی اور ذہنی تخلیق میں ہوتی ہے۔ یعنی وہ زبان ومکان بڑھتی اور پھیلتی ہے وہ تو اپنے نمود کی نئی صورتیں بھی وضع کرتی رہتی ہے، عدم محض سے نہیں بلکہ اسے وقتوں کے فارم کو یاتو مستعار لے کر یا ان سے اکتساب کرکے جمالیاتی اقدار کی یہ پوزیشن ماضی سے یقیناً ایک رشتہ رکھتی ہے جسے ہم نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ نئے فارم کو وجود میں لاتی ہے جوکہ پہلے کے مقابلے میں پیچیدہ اور اعلیٰ ہوتا لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس کا اظہار ہر ایک کی ذہنی تخلیق میں ہو۔

    اس کو تسلیم کرنے میں قباحت نہ ہونی چاہئے کہ بڑے فن کار چند ہی ہوتے ہیں لیکن اس سے کم اہم بات یہ نہیں ہے کہ ہزاروں فن کاروں کی چھوٹی چھوٹی کوششوں ہی سے کوئی بڑا فن کار پیدا ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں فارم کا ہوا کھڑا کر کے یا فارم کا کوئی مطلق معیار قرار دے کر نئے فنکاروں کی دل شکنی نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ زندگی عبارت ہے اگر ایک طر ف محنت کش عوام کی مادی اقدار کی تخلیقات سے تو دوسری طرف دانشوروں کی ذہنی تخلیقات سے۔ ماضی خواہ کتنا ہی حسین ہو، نہ تو واپس لوٹ سکتا ہے اور نہ ہماری معاصرانہ زندگی کی کسی بھی ضرورت کو پورا کر سکتا ہے۔ یہ نقطہ نگاہ اس بات کا ملتجی ہے کہ نئے فن کاروں کی طرف ہمارا رویہ ہمدردانہ ہو اور ہم ہر صورت میں خیال کو فارم پر مقدم سمجھیں اور اسے کبھی بھی نہ بھلائیں کہ شعروادب کی اصل روح اس کا خیال ہے، وہ خیال جو متحرک اور جاندار ہوتا ہے نہ کہ وہ جو غیر متحرک اور مردہ ہوتا ہے۔

    خیال میں وہ حرکت اور زندگی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کہ قوت متخیلہ ذہنی نقوش کو سینے کی آگ میں پگھلاتی ہے تاکہ اسے از سرنو تخلیق کر سکے۔ آرٹ کی تخلیق میں دل کو خون کرنے کا جو استعارہ ہے وہ اسی حقیقت کی غمازی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک خیالات یا تخیلات میں احساسات کی گرمی نہ پائی جائے، آپ اسے جاندار تصور نہیں کر سکتے ہیں۔ لیکن جس طرح کہ ہم روح کو قالب سے جدا کرکے نہیں دیکھ سکتے ہیں کیونکہ روح قالب میں باہر سے داخل نہیں کی جاتی ہے بلکہ نامیہ اور زندہ قالب کی ایک صفت ہے۔

    اسی طرح شاعری میں ہم احساسات کو خیال سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھ سکتے ہیں کیونکہ شعری خیال کی وہ ایک صفت ہے۔ اگر خیال اشیا کے رشتوں کا نام ہے تو احساسات انسانی رشتوں کا نام ہے، یعنی جب اشیا کو آپ اپنے حواس کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کا ادراک زندہ یا محسوس صورت اختیار کر لیتا ہے۔ لیکن خیال معمولی بھی ہو سکتا ہے اور بلند بھی، وہ رجعت پسند بھی ہو سکتا ہے اور ترقی پسند بھی، یعنی صحیح بھی اور غلط بھی۔ احساسات کو خیال سے علیحدہ کرکے وہی دیکھتے ہیں جو شاعری کو خیالات کی ترویج کا ذریعہ نہیں سمجھتے ہیں۔

    جہاں تک جذبات کا تعلق ہے اس کی نوعیت احساسات سے مختلف ہے، اس کا تعلق انسان کے باطنی ردعمل سے ہے جو کہ بدلتا رہتا ہے۔ خارجی دنیا کے رشتوں سے کل تک جن باتوں پر ہم حیرت کے جذبے کا اظہار کرتے تھے، آج نہیں کرتے ہیں۔ کل تک جس خیال کی گرفت میں مرمٹنے پر آمادہ ہو جاتے تھے آج ویسا نہیں کرتے ہیں، یہ جذبات کی دنیا میں تبدیلی نہیں ہے تو پھر کیا ہے، پھر یہ کہ جذبات انتشار پسند بھی ہو سکتے ہیں اور منظم بھی، جذبات معقول بھی ہو سکتے ہیں اور غیرمعقول بھی، اس لئے یہ تو کوئی بھی نہیں کہتا کہ انسان خارج سے متعلق اپنے داخلی برتاؤ یا جذباتی ردعمل کا اظہار نہ کرے کیونکہ یہ صرف فطری نہیں بلکہ ضروری بھی ہے کیونکہ انسان میں عمل کی قوت جذبات کو منظم کئے بغیر نہیں پیدا ہوتی ہے لیکن یہ ضرور کہنا چاہئے کہ جذبات کو معقول کرکے پیش نہ کرنا چاہئے، یعنی اس میں عرفان نفس شعوری اور خارجی ہونا چاہئے اور جب بھی شعور اپنے نفس کے رشتوں سے خارجی طور پر آگاہ ہوتا ہے تو جذبے کا اظہار خیال کی صورت اختیار کر لیتا ہے یا یوں کہئے کہ معقول ہو جاتا ہے۔ چنانچہ یہی سبب ہے کہ ہم جذبات کا بھی تجزیہ کرتے ہیں، آرٹ میں وہی جذبہ اہم صورت اختیار کرتا ہے جوکہ قابل فہم اور معقول ہوتا ہے نہ کہ وہ جو ناقابل فہم اور غیر معقول ہوتا ہے۔

    اور اگر نفس کا کچھ حصہ پر اسرار ہے، ناقابل بیان ہے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم اسے اور پراسرار بناکر پیش کریں، یہ کسی خرد آگاہ مادے کی خصوصیت نہ ٹھہری۔ اگلے وقتوں میں جبکہ انسان صرف اپنے وجود پر دہر کا قیاس کرتا تھا، تو وہ جس طرح اپنے اندر جان محسوس کرتا وہ دہر کو بھی ذی روح بتلاتا۔ یونانیوں کا یہی قدیم فلسفہ ہے جسے انگریزی میں (Animism) کہتے ہیں، مختلف صورتوں میں ہمارے یہاں بھی پایا جاتا ہے۔ چونکہ کائنات کا اصول جس میں انسانی زندگی بھی شامل ہے، عالمگیر ہے، اس لئے اس کے بعض نتائج صحیح بھی ہیں، لیکن چونکہ حقیقت کے مختلف آرڈر یا نظام کی خصوصیت مختلف ہوتی ہیں اس لئے اس کے اکثر نتائج غلط بھی ہیں۔ ہم اپنے نفس کو اس وقت زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں، جب کہ ہم اپنے ذہن سے باہر کی دنیا کو بھی جانیں، عقل اسی موقع پر ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ جذبہ جب ہوش وخرد پر شب خوں کرکے انسان کو آگے بڑھاتا ہے تو اسے جنون کہتے ہیں نہ کہ ہوش کا اقدام یا عمل۔

    چونکہ ہمارے اکثر شعرا نے جنون یا عشق ہی کو اپنی زندگی کا رہبر اور ہادی بنایا ہے، اس جذبے کے غلط اقدار ہمارے ذہنوں پر مسلط ہو گئے ہیں۔ عقل انسان کو جنون سے روکتی ہے نہ کہ عمل سے، کیونکہ وہ تو انسانی عمل ہی سے پیدا ہوئی ہے، جذبات کی گہرائی اس کا نام نہیں ہے کہ وہ ہم کو غلط اقدار پر جنون گرفت میں لائے بلکہ اسے کہیں گے جب کہ وہ صحیح اقدار کے گرد ہمارے جذبات کو منظم اور مستحکم کرے۔ میں نے اس توضیح کو اس لئے ضروری سمجھا کہ جب میں شعر و ادب کی اصل روح اس کے خیال کو بتاتا ہوں تو انہیں معنوں میں دیکھتا ہوں نہ کہ خشک فلسفیانہ خیالات کے معنوں میں۔

    صوفیانہ تجربات یا غیرمعمولی جذبات کی پسپائی ادبی تجربے یا شاعری کی موت نہیں کیونکہ عقل اور سائنس کی ترقی سے یہ چیزیں پیچھے ہٹیں گی ہی، لیکن چونکہ بہت سے نقادوں اور شاعروں کی ذوقی اور جمالیاتی تربیت اسی قسم کی شاعری سے ہوئی ہے جوکہ برگساںؔ کے الفاظ میں قارئین کے فاعلی اور حر کی عناصر کو سلا دیتی ہے اور جوکہ اس قسم کے سارے الفاظ سے پرہیز کرتی ہے جس کے اطراف و اکناف متعین ہوتے ہیں، وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سائنس شاعری کے حق میں سم قاتل ہے۔ یہ سوچ بالکل اسی قسم کی ہے کہ انسان کے احساسات کو سرمایہ دارانہ نظام کے رشتوں نے نہیں بلکہ آلات اور مشینوں نے کچل ڈالا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام، جس نے انسانی رشتوں کو پیسوں کے رشتہ میں تبدیل کر دیا ہے، جس نے انسان کو مشین کا آقا نہیں بلکہ غلام بنا رکھا ہے اور جس نے مارکیٹ کو ایک مہیب دیوتا کی طرح انسان کے مدمقابل کھڑا کر دیا ہے، کیونکر شاعری کے حق میں مضر ہے، اس کی وضاحت کارلؔ مارکس کے الفاظ میں سنئے،

    ’’انفرادی ملکیت نے ہمیں اس حدتک احمق اور بے ڈول بنا رکھا ہے کہ ہم کسی چیز کو اپنی اس وقت تک نہیں کہتے ہیں جب تک کہ وہ ہماری نہ ہو، یعنی یا تو بطور سرمایہ کے ہو یا استعمال کے لیے۔ فوری طور پر کھسوٹنے، کھاڈالنے، نگل جانے، پہننے اور استعمال کرکے ختم کر دینے کے لیے۔ پس انسان کے تمام حواس نے اس سے مغایرت اختیار کر لی ہے اور صرف ملکیت ہی کے احساس نے اس کے تمام جسمانی اور روحانی احساس کی جگہ لے لی ہے۔ انسانی زندگی کو اس افلاس تک گرنا تھا۔ قبل اس کے کہ وہ اپنی اندرونی پرمائیگی کو جنم دے سکے۔‘‘

    شعریت کش سرمایہ ادارانہ نظام کے رشتوں کو بخش کر یہ کہنا سائنس نے ہماری جذباتی زندگی کے توازن کو منتشر کر دیا ہے اور پھر اس خیال کا دعویدار ہونا کہ شاعری کا کام جھوٹے بیانات دینے کا ہے نہ کہ سائنٹفک، آئی، اے رچرڈسؔ ہی کو آتا ہے، کیوں نہ ہو آخر تنقید بھی تو ایڈیالوجی ہی کی ایک صورت ہے، اس کا بھی مقصد کسی نہ کسی طبقے کے اقتصادی بنیاد کو مضبوط کرنا ہے، شعور کی کشمکش کو صرف شعور سے سمجھنے کی کوشش بالآخر سماجی کشمکش کو اپنے منطقی حل کی طرف بڑھنے سے روکتی ہے۔ چنانچہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ بورژوا نقاد سرمایہ دارانہ نظام کی صورت حال کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، تو اس معنی میں کہا جاتا ہے نہ کہ کسی اور معنی میں، لیکن ٹی ایس ایلیٹؔ اور ان کے معتقدین تو اس سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ ان کی کوشش سرمایہ دارانہ نظام کو اس قدر پیچھے لے جانے کی ہے کہ اشتراکیت کا احتمال باقی نہ رہے، یعنی قرونِ وسطیٰ کی طرف۔

    ایلیٹؔ منطق کی مخالفت تو نہیں کر سکتے ہیں، کیونکہ ان کے الفاظ میں حال کو ماضی سے بدلنے کے لیے بہرحال منطق کی ضرورت تو ہوگی لیکن وہ تاریخی شعور کو مٹانے میں، اس تاریخ کو جو ناگزیر طور سے آگے کو بڑھتی رہتی ہے، سخت منہمک ہیں اور چونکہ وہ یہ خدمت اپنی شاعری کے علاوہ اپنی تنقیدوں میں بھی کررہے ہیں، اس لئے آج ان کا سارا زور قلم یوروپین تنقید کی اعلیٰ روایت یعنی وائیؔ کو، تینؔ، ہرڈرؔ، سینٹ بو، شیلرؔ اور آرنلڈؔ کی تاریخی تنقید کے خلاف صرف ہورہا ہے کیونکہ یہ تنقید لازمی طور سے انسان کو سماجی زندگی اور اس کے تغیرات کی طرف متوجہ کرتی رہتی ہے، پھر چونکہ ایلیٹؔ کو یہ بھی معلوم ہے کہ مارکسی تنقید نے اسی روایت کو آگے بڑھایا ہے، اس لئے وہ اس کی مخالفت کو اپنا جزو ایمان بھی سمجھتے ہیں، کیونکہ ان کے خیال میں تہذیب کی پایندہ بنیاد کلیسا کے اخلاقی اقدار ہی پر رکھی جا سکتی ہے، نہ اشتراکی نظام کی عقلی انسان دوستی کی اقدار پر۔

    ایلیٹؔ نے تنقید کے کچھ اصول بھی وضع کئے ہیں جس میں انہوں نے الفاظ کے تجزیے کے بعد (کیونکہ ان کے خیال میں شاعری بہترین الفاظ کو بہترین نظام میں رکھنے کا نام ہے) مقابلے اور موازنے کوبڑی اہمیت دی ہے۔ ہمیں تنقید کی اس شق سے اختلاف نہیں ہے لیکن مقابلے اور موازنے کی آڑ میں جس طرح وہ ماضی پرستی اور مردہ پروری کی تلقین کرتے ہیں، اس سے شدید اختلاف ہے۔ وہ لکھتے ہیں، کسی بھی شاعر، کسی بھی فن کار کا آرٹ یا ادب بذات خود اپنی جگہ پر تنہا طور سے بھرپور معنی کا حامل نہیں ہوا کرتا، اس کی اہمیت اور اس کی تحسین کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم ماضی کے شعراء اور فن کاروں کے آرٹ کی تحسین کس طرح کرتے ہیں، اس کے فن کی قدروقیمت کا اندازہ اس کے اپنے کارنامے سے تنہا طور پر نہیں کیا جا سکتا ہے، اس کے کلام کا مقابلہ اور موازنہ شہر خموشاں کے فنکاروں سے کرنا ہوگا اور وہ اس نکتے کو جمالیات کے ایک اصول کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں نہ کہ تاریخی تنقید کے ایک نکتہ کی حیثیت سے (انفرادی صلاحیت اور روایت۔)

    چونکہ ایلیٹؔ اس نکتہ کو جمالیات کے ایک اصول کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں نہ کہ تاریخی تنقید کے کسی نکتے کی حیثیت سے، کیونکہ تاریخی تنقیدتو ان کے مسلک کے خلاف ہے، اس لئے وہ مقابلے اور موازنہ کا کام اپنے لئے بہت ہی آسان کر لیتے ہیں۔ انہیں ایک سماجی عہد کے شاعر کا مقابلہ اور موازنہ، دوسرے سماجی عہد کے شاعر سے کرنے میں دشواری نہیں ہوتی ہے، کیونکہ مختلف عہد کی تاریخی حقیقت ان کے لیے اپنا وجود ہی نہیں رکھتی ہے۔ وہ یہ دیکھنے سے قاصر ہیں کہ غلامی کے عہد کی سماجی حقیقت جاگیردارانہ سماجی حقیقت سے اور جاگیردارانہ عہد کی سماجی حقیقت سرمایہ دارانہ نظام کی سماجی حقیقت سے کس قدر مختلف ہے، اس لئے وہ مقابلہ اور موازنہ صرف دو باتوں میں کیا کرتے ہیں، ایک تو یہ کہ ان میں سے کون اپنی زبان کا زیادہ وفادار غلام ہے اور دوسرے یہ کہ کس کے یہاں زیادہ جذبات کی گہرائی پائی جاتی ہے۔

    ہم آخرالذکر کی نوعیت پر روشنی ڈال چکے ہیں، رہ گیا زبان کا مسئلہ سواس کے بارے میں یہ عرض ہے کہ یقیناً یہ بھی ایک دیکھنے کی چیز ہے، بشرطیکہ ہم یہ نہ بھلادیں کہ زبان نئے سے نئے الفاظ قبول کرتی جاتی ہے اور بہت سے پرانے الفاظ کو ترک کرتی جاتی ہے تاہم اندازِ بیان میں زبان کو ایک جگہ حاصل ہے جسے نظرانداز نہیں کرنا چاہئے،

    کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالبؔ
    شرم تم کو مگر نہیں آتی

    یہاں مگر کا لفظ کافی اہم ہے، قطع نظر الفاظ کی صوتی خصوصیات کے، جس پر بحث کرنے کا اس وقت موقع نہیں، لیکن اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوپاتی کہ آپ ایک سماجی عہد کے شاعر کے کلام کی اہمیت اس بات میں ڈھونڈھیں کہ وہ اپنے عہد سے پہلے کے شعراء کے مقابلے میں اپنی زبان کا کس قدر وفادار غلام ہے، ذرا سوچئے تو سہی کیا اقبالؔ کے کلام کی اہمیت اور قدر و منزلت کا اندازہ خود ان کے کلام سے نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ صرف اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ وہ میر کے مقابلے میں اپنی زبان بلکہ اردو زبان کے کتنے باوفا غلام تھے، یا یہ ان کے جذبات میں میرؔ کے مقابلے میں کتنی گہرائی ہے۔ اور اگر بات اس پر آکر رک جائے تو پہلے ہمیں وفاداری اور گہرائی کا معیار قائم کرنا  پڑےگا۔

    فرض کیجئے کہ اگر میں یہ کہوں کہ شاعر کی وفاداری زبان کے ساتھ اس بات میں ہے کہ وہ ان سارے الفاظ کو بھی استعمال کرے جن کا ہماری زبان میں اضافہ ہوتا جاتا ہے تو پھر مقابلہ کیونکر ہوا۔ اس طرح اگر ہم جذبات کی گہرائی کا معیار قائم کریں کہ شاعر کو پرانی اقدار کے گرد منظم شدہ جذبات کی ترجمانی کرنی چاہئے جو نئے خیالات کی گرفت میں آنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں تو مقابلہ اور موازنہ کیسے ہو سکےگا کیونکہ جب جذبات مشترک نہیں ہیں تو آپ جذبات کی گہرائی کا مقابلہ ٹھوس (Concrete) طریقے سے کرنے سے قاصر رہیں گے اور مقابلہ اور موازنہ وہی ٹھیک ہوتا ہے جو ٹھوس ہو نہ کہ مجرد یا مبہم۔

    چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ موازنہ اور مقابلہ یا تو ایک ہی سماجی عہد کے شعرا کے درمیان ہو سکتا ہے یا پھر ان کے درمیان جو یہ کہتے آئے ہیں کہ دیکھئے اس خیال کو فلاں نے یوں باندھا ہے اور میں نے یوں۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ بحیثیت مجموعی مختلف عہد کے شعراء کو سامنے رکھ کر ہم اس کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ کون کس بلندی پر ہے، کس کے یہاں ان تمام عناصر کا اجتماع ہے جس سے شعر و ادب عبارت ہے اور کس کے یہاں ان عناصر میں سے کون سے عنصر کی کمی ہے۔ کولرجؔ نے ایک بات بڑے مزے کی کہی ہے، ’’میں یہ سوچنے سے قاصر ہوں کہ ایک شاعر بڑا کیونکر ہو سکتا ہے جب تک کہ وہ ایک بڑا فلسفی بھی نہ ہو۔‘‘ اور یہی بات اس نے ناقدوں کے بارے میں بھی کہی ہے۔

    چونکہ کولرجؔ پرکانٹؔ کے فلسفے کا گہرا اثر تھا، اس لئے وہ ایسا سوچنے پر مجبور تھا لیکن ایک چیز اہم ہے جو اس کے بیان سے ابھرتی ہے، وہ یہ ہے کہ بڑی شاعری نہ تو صرف زبان کے بل بوتے پر کی جا سکتی ہے اور نہ صرف قوت متخیلہ کے سہارے، اس کے لئے اگر ایک طرف وسیع تجربات، تیز مشاہدے، تیز احساسات کی ضرورت ہے تو دوسری طرف اس علم کی بھی ضرورت ہے جو اقدامات حواس، قوت متخیلہ، جذبات اور افکار سب کی صحت کرتی رہے، وہ اس علم کو کن ذرائع سے حاصل کرتا ہے، یہاں اس پر بحث کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔

    اسی طرح تنقید کے لئے صرف ادبی ذوق، ادبی مطالعہ یا تخلیقی جوہر کافی نہیں ہے، کیونکہ اقدار کی تنقید مختلف علم کا احاطہ کرتی ہے، جس میں معاصر زندگی کی قدروں کا زندہ رشتہ اور احساس سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس لئے ناقد کو اپنے عصر، اپنی سوسائٹی کی اقتصادی، سیاسی جدوجہد اور علوم متداولہ سے باخبر ہونا چاہئے۔ ناقد وہ ہے جو اپنے کونہ تو زبان میں کھوتا ہے اور نہ شاعر یا ادیب کے کلام میں۔ اس کی حیثیت اگر ایک طرف قاری اور ادب کے درمیان ترجمان ہے تو دوسری طرف وہ ان دونوں سے آزاد بھی ہے۔ وہ ادب اور زندگی دونوں ہی کی رہنمائی کرتا ہے۔

    اس موقع پر بغیر آپ کے ٹوکے ہوئے مجھ میں خود یہ جذبہ پیدا ہوا تھا کہ میں پندرہ سولہ سال کی تنقیدی ادب کا جائزہ لیتا، تاکہ انگلی رکھ کر یہ بتا سکتا کہ ہم کہاں ٹھیک رہے ہیں لیکن چونکہ اول تو میں نے اس مقصد کو اپنے ذہن میں رکھا ہی نہیں، دوسرے یہ کہ جب تک ہم اپنے نقادوں کو نظریاتی بحث کے لئے آمادہ نہ کریں، اس سے اتنا فائدہ پہنچے گا جتنا آپ سوچ رہے ہیں۔ گزشتہ پندرہ سولہ سال کے عرصہ میں ہماری تنقید کافی آگے بڑھی ہے اور میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ ہمارے نقادوں نے حالیؔ اور شبلیؔ سے آگے قدم نہیں اٹھایا ہے۔ اسلوب کی بات مختلف ہے۔

    لیکن ہماری تنقید نے ابھی اتنی ترقی نہیں کی ہے جتنی کہ اسے کرنی چاہئے تھی۔ ترقی پسند ادب کی رہنمائی کے لئے ادبی تعطل کا ایک سبب یہ ہے کہ ہماری تنقید پیچھے ہے، پیچھے نہ سہی ابھی تک ہم میں سے کوئی بھی اقبالؔ سے نپٹ نہیں پایا ہے، میرا مطلب تنقید سے ہے نہ کہ تشریح سے، ایسی صورت میں نظریات اور رجحانات کی چھان بین زیادہ اہم ہے کیونکہ تنقید کی ابتدا تو وہاں سے ہوتی ہے جب کہ ہم تنقید کے نظریے کی تنقید کریں، ورنہ اس دنیا میں اپنی رائے کون نہیں رکھتا اور ماشاءاللہ اب جب کہ ہماری سوسائٹی جملے بازی کی طرف زیادہ راغب ہے تو رائے زنی اور بھی زیادہ آسان ہو گئی ہے۔

    رہ گئی عملی تنقید تو اس کا تعلق صرف ادب ہی سے نہیں بلکہ اس بات سے بھی ہے کہ ہم اپنی سوسائٹی کی اقتصادی تشکیل کی تاریخ اور آرٹ، کلچر، فلسفے اور ادب کی تاریخ سے بھی واقف ہوں۔ جس ملک کے بچے اس قدر یتیم ہوں کہ انہیں صرف سکسینہؔ کی کتاب ’’اردو ادب کی تاریخ‘‘ پڑھنے کو ملتی ہو اور بقیہ علم و ادب کا سارا میدان انگریز مورخین ک غارت گری سے داغدار ہو، وہاں عملی تنقید کیونکر بلند ہو سکتی ہے۔ ہمارے نقادوں کا کام صرف یہی نہیں ہے کہ وہ شعرا کے لہجے کی تہیں ادھیڑتے رہیں بلکہ یہ ممکن ہے اور وہ اس سے بہت زیادہ اہم ہے کہ وہ اپنے ادب، آرٹ اور کلچر کی تاریخ کی طرف متوجہ ہوں۔

     
    نوٹ کہیں کہیں سے کچھ سطریں حذف کی گئی ہیں۔ (مرتب)

    مأخذ:

    تنقیدی نظریات (Pg. 222)

      • ناشر: اترپردیش اردو اکیڈمی، لکھنؤ
      • سن اشاعت: 2009

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے