aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

یوپی کے ایک نوجوان ہندو شاعر فراق گورکھپوری

نیاز فتح پوری

یوپی کے ایک نوجوان ہندو شاعر فراق گورکھپوری

نیاز فتح پوری

MORE BYنیاز فتح پوری

    ایک زمانہ تھا کہ میری زندگی کی تنہائیوں کا دلچسپ ترین مشغلہ صر ف شعر پڑھنا تھا، اس کے بعد شعر کہنے کا دور آیا اور کافی عرصہ تک مجھ پر مسلط رہا، لیکن ان دونوں زمانوں میں کوئی زمانہ اس احساس سے خالی نہ گزرا کہ اگر شاعر ی ہماری حیات دنیوی کو کامیاب بنانے کے لئے ضروری نہیں تو کم از کم اسے ایک نوع کی وجدانی تسکین کا ذریعہ یقیناً ہونا چاہئے اور اگر یہ بات بھی اسے حاصل نہ ہو تو پھر ’’ایں دفتر بے معنی غرق مے ناب اولی۔‘‘

    یہ تھا وہ احساس جو شاعری ترک کراکے آہستہ آہستہ مجھے ’’ا نتقاد شاعری‘‘ کی طرف لے گیا اور اسی کا ہوکر رہ گیا۔ یہاں تک کہ آج اکثر حضرات خیال کرتے ہیں کہ شاید میں اپنے سوا کسی کو شاعر سمجھتا ہی نہیں، حالانکہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس یہ ہے کہ میں سوائے اپنے ساری دنیا کو شاعر سمجھنے کے لئے تیار ہوں، بشرط آنکہ میں دنیا کی شاعری میں وہ چیز نہ پاؤں جس نے مجھ سے میری شاعری ترک کرائی۔

    میں شاعری میں کیا چاہتا ہوں؟ اس کا جواب بہت مشکل ہے اور اگر اسے شاعری نہ سمجھا جائے تو میں کہوں گا کہ میں اس میں ’’وہ کچھ چاہتا ہوں جسے میں بتا نہیں سکتا۔‘‘ شاعری ’’دل کامعاملہ‘‘ ہے اور دنیا میں اتنے مختلف ’’دل‘‘ اور ان کے اتنے مختلف جذبات ہیں کہ ان کے متعلق کوئی نظریہ مسلمات کی حیثیت سے پیش کرنا تو ممکن نہیں لیکن اس سے شاید کسی کو انکارنہ ہوکہ شاعری صرف تاثرات کی زبان ہے اور اس کے بعد پھر یہ گفتگو کوئی معنی نہیں رکھتی کہ ان تاثرات کی نوعیت کیا ہے، چہ جائے کہ ’’اخلاقیات‘‘ و مذہبیات‘‘ وغیرہ کی بحث چھیڑنا کہ اسے تو شاید کوئی پیغمبر بھی گوارا نہ کرے، اگر وہ شعر کہنے پر آ جائے۔

    بعض کا خیال ہے کہ شاعری اور آرٹ دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں۔ میں یہاں آرٹ اور ان کی ہمہ گیری کے متعلق اظہار خیال کرنا غیر ضروری سمجھتا ہوں۔ لیکن اس قدر عرض کرنا ضروری ہے کہ آرٹ تو خیر بہت لطیف چیز ہے، شاعری ’’مادیات‘‘ سے جدا بھی ہو کر زندہ نہیں رہ سکتی۔ انسان کے لطیف ترین’زائید ہائے خیال‘ وہ ہیں جو اس نے فلسفہ حیات و فلسفہ مذہب کے متعلق پیش کئے ہیں، علی الخصوص ہندو مذہب اور ہندو فلسفہ حیات لیکن اس کا کیا علاج کہ دنیا میں ’’بت پرستی‘‘ رواج پا کر رہی اور خدا کا تصور بغیر ’’عرش و کرسی‘‘ کے ذکر کے ممکن نہ ہوا۔ شاید یہی وہ نقطہ نظر تھا جس کو غالب نے یوں ظاہر کیا ہے،

    مقصد ہے ناز و غمزہ و لے گفتگو میں کام

    چلتا نہیں ہے دشنہ و خنجر کہے بغیر

    سو دیکھنے کی چیز یہی ہے کہ ’’دشنہ و خنجر‘‘ کے الفاظ سے واقعی ناز و غمزہ کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے یا نہیں اور اسی کا نام شاعری ہے جسے اگر ’’آرٹ‘‘ سے علیحدہ کر دیا جائے تو اس کے ’’تصوف‘‘ ہو جانے میں تو شک ہی نہیں، اگر بد قسمتی سے وہ ’’مجذوب کی بڑ‘‘ کا مرتبہ نہ پا سکی۔

    الغرض شاعری کی اصل روح چاہے کچھ ہو، لیکن اس کی روح کو ہم جس جسم کے اندر دیکھتے ہیں وہ میری رائے میں صرف الفاظ کا ’’رکھ رکھاؤ‘‘ ہے۔ یہاں اس منطقی بحث کی ضرورت نہیں کہ جس چیز کا نام ’’رکھ رکھاؤ‘‘ ہے وہ خود الفاظ سے علیحدہ ایک چیز ہے اور اسی لئے جب میں کسی شاعر کے کلام پر انتقادی نگاہ ڈالتا ہوں تو اس سے بحث نہیں کرتا کہ اس کے جذبات کیسے ہیں بلکہ صرف یہ کہ اس نے ان کے ظاہر کرنے میں کیا اسلوب اختیار کیا اور وہ ذہن سامع تک ان کو پہنچانے میں کامیاب ہوا ہے یا نہیں۔ بیان خواہ حسن و عشق کا ہو یا ’’نہر کی پن چکی‘‘ کا، اس سے غرض نہیں۔ دیکھنے کی چیز صرف یہ ہے کہ شاعر جو کچھ کہنا چاہتا ہے، وہ واقعی الفاظ سے ادا ہوتا بھی ہے یا نہیں اور پھر چونکہ میں اسی دنیا کا آدمی ہوں جہاں الفاظ کا ’’شرمندہ معنی‘‘ ہو نا ضروری سمجھا جاتا ہے اور اس دنیا کے علاوہ میں کسی اور ایسی دنیا کا قائل نہیں ہوں جہاں ’’معنی‘‘ شرمندہ الفاظ نہیں ہوتے۔ اس لئے میں یہی چاہتا ہوں کہ کم از کم شاعری اسی ’’پر معصیت‘‘ دنیا کی کی جائے کیونکہ ’’معصومیت‘‘ کا تصور محض ’’لڑکپن‘‘ ہے اور شعر نام ہے ’’جوانی‘‘ کا۔

    یہاں ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ میرے ایک دوست ہیں جو کسی وقت شعر کا نہایت اچھا ذوق رکھتے تھے لیکن اب تصوف کی طرف مائل ہو گئے ہیں اور مجھ سے بہت خفا رہتے ہیں کیونکہ میرے نزدیک شاعری کو تصوف سے متعلق کر دینا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی خوبصورت عورت سے شادی کر لی جائے کہ اس کے بعد ’’حسن و عشق‘‘ دونوں کا ’’صفایا‘‘ ہے۔ نہ عورت عورت رہ جاتی ہے، نہ مرد مرد۔ ایک دن فرمانے لگے کہ ’’تم نہیں سمجھ سکتے تصوف اور اس کی شاعری کتنی بلند چیز ہے۔ اس کی ابتدائی منزل ’’ترک دنیا‘‘ ہے اور پھر ترک عقبیٰ‘‘ جو ’’ترک مولیٰ‘‘ سے گزر کر ’’ترک ترک‘‘ کے مرتبہ تک پہنچ جاتی ہے۔ تمہاری شاعری تو ’’ترک دنیا‘‘ سے بھی نیچے ہے اور تصوف کی شاعری کی ابتدا ’’ترک ترک‘‘ سے ہوتی ہے، جہاں ’’خیال ترک‘‘ بھی ترک ہو جاتا ہے۔ یہ ہے وہ ’’دل بے مدعا‘‘ جس پر شاعری نے ہمیشہ سر دھنا لیکن پایا نہیں اور صوفی شاعر نے اسے پہلے ہی قدم پر پا لیا۔‘‘

    میں نے کہا کہ میرے نزدیک شاعری کی ایک منزل اور اس سے بھی بلند ہے۔ پوچھا، ’’وہ کیا؟‘‘ میں نے کہا کہ نام تو اس کا مجھے معلوم نہیں لیکن نمونے ایک دو ضرور پیش کر سکتا ہوں۔

    ٹوٹی دریا کی کلائی زلف الجھی بام میں

    فرمانے لگے، ’’یہ تو بالکل مہمل ہے۔‘‘ میں نے کہا کہ آپ کا ’’ترک ترک‘‘ اس سے زیادہ مہمل ہے۔ اس رنگ کے شاعر کو ہم زیادہ سے زیادہ مسخرا کہہ سکتے ہیں لیکن آپ کی اس ’’ترکیات‘‘ والی شاعری کو تو سوائے حماقت کے ا ور کچھ کہہ ہی نہیں سکتے۔ رہ گیا دل بے مدعا، سو حضرت وہ آپ ہی کو مبارک رہے۔ مجھے تو ایسا دل دیجئے جس میں سوائے مدعا کے کچھ نہ ہو اور اسی کے ساتھ معشوقہ پر ی تمثال کو سامنے بیٹھا کر چلے جائیے پھر دیکھئے کہ ’’وصل وصل‘‘ کا رنگ زیادہ چوکھا رہتا ہے یا ’’ترک ترک‘‘ کا۔ اس میں شک نہیں کہ ’’ذہن رسا‘‘ فطرت کی بڑی پاکیزہ ودیعت ہے جو انسان کو عطا ہوئی ہے لیکن اگر اس میں بے اعتدالی پیدا ہو جائے تو پھر انسان، انسان تو رہتا نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ صوفی ہو جائے یا اس سے بھی بڑھ کر خدا بن بیٹھے۔

    ایک صاحب نے مجھ پر اعتراض کیا کہ با وصف تصوف سے اس قدر بےگانہ ہونے کے میں بیدل کی شاعری کا کیوں دلدادہ ہوں جو یکسر تصوف ہے۔ میں خاموش رہا کیونکہ ان کویہ سمجھانا بہت مشکل تھا کہ بیدل کی شاعری تو ایک خاص قسم کی شاعری ہے اور اسی لئے جو کچھ وہ کہنا چاہتا ہے اس کے لئے الفاظ وہ ایسے استعمال کرتا ہے کہ یا تو وہ خود ہمیں اس فضا میں لے جاتے ہیں، جہاں کے وہ الفاظ ہیں یا پھر خود اس فضا میں آ کر ہمارے ذہن کو متاثر کرتے ہیں جہاں کی باتیں ہماری سمجھ میں آ جاتی ہیں۔ مجاز کو بےدھڑک ’’حقیقت‘‘ کہہ دینا اتنا مرغوب نہیں جتنا ’’حقیقت‘‘ کو بھی مجاز کے رنگ میں ظاہر کرنا۔

    سو یہ بالکل غلط ہے کہ میں تصوف کے رنگ سے متنفر ہوں۔ یہ ضرور ہے کہ شاعری کا خون تصوف کے ہاتھ سے مجھے پسند نہیں اور میرا ہر شاعر سے خواہ وہ کسی رنگ کا ہو، صرف ایک مطالبہ ہے کہ وہ جو خیال چاہے ظاہر کرے لیکن یہ دیکھ کے کہ الفاظ سے وہ پوری طرح ادا بھی ہوتا ہے یا نہیں، اس کے بعد مرتبہ اسلوب بیان کا ہے، جس کی بلندی و نزاکت کے لحاظ سے شعر ان خصوصیات کی حدود میں آتا ہے جو ہم کو اس بات کے سمجھنے میں مدد دیتی ہیں کہ یہ شعر میر کا ہے یا سودا کا، مومنؔ کا ہے یا غالبؔ کا اور جن سے ہم شعر کے خوب اور خوب تر ہونے پر حکم لگاتے ہیں۔

    دور حاضر اس میں شک نہیں کہ ترقی سخن کا دور ہے اور مغربی تعلیم نے ذہنیت انسانی کو اتنا وسیع و بلند کر دیا ہے کہ ہم کو ہر جگہ اچھے اچھے سخن گو نظر آ رہے ہیں لیکن اگر مجھ سے یہ سوال کیا جائے کہ ان میں کتنے ایسے ہیں جن کے شاندار مستقبل کا پتہ ان کے حال سے چلتا ہے تو یہ فہرست بہت مختصر ہو جائےگی۔ اتنی مختصر کہ اگر مجھ سے کہا جائے کہ بلا تامل ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کر دوں تو میری زبان سے فوراً فراق گورکھپوری کا نام نکل جائےگا۔ فراق، جن کا نام رگھو پتی سہائے ہے، گورکھپور کے رہنے والے ہیں اور ہرچند اردو شاعری کا ذوق انہیں وراثتاً ملا ہے لیکن ان کا مخصوص ’’رنگ سخن‘‘ خود انہیں کی ذاتی چیز ہے، جس کے ابتدائی نشوونمایا تدریجی ارتقا پر میں کوئی روشنی نہیں ڈال سکتا، کیونکہ میں ان کے ابتدائی حالات سے بالکل نا واقف ہوں۔

    میں نے اول اول ان کو یہیں لکھنؤمیں دیکھا تھا، جبکہ وہ گریجویٹ ہو چکے تھے۔ اس کے بعد کانپور کے سناتن دھرم کالج سے تعلق پید ا کر لیا اور وہیں سے وہ انگریزی ادب میں ایم اے کی سند حاصل کر کے الہ آباد یونیور سٹی چلے گئے، جہاں اب بھی وہ زبان انگریزی کے استاد کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ لکھنؤ کی متعدد ملاقاتوں میں، میں نے یہ اندازہ تو کر لیا تھا کہ یہ شخص غیرمعمولی ذہین ہے لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی محسوس کرتا تھا کہ اس کا ایک قدم نہایت مضبوط پتھر پر قائم ہے اور دوسرا ایسی متزلزل چٹان پر کہ ذرا سا اشارہ گرا دینے کے لئے کافی ہے لیکن چونکہ یہ خوش قسمتی سے ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے تھے، اس لئے اس مہلک لغزش سے بچ گئے اور اب انہیں نہایت استحکام کے ساتھ بلندچوٹی پر چڑھتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔

    لکھنؤ میں جب کبھی مجھے ان کے اشعار سے لطف اندوز ہونے کا موقعہ ملا، میں نے ان کے ذوق کی پاکیزگی کو بین طور پر محسوس کیا۔ لیکن یہ بات کبھی میرے ذہن میں نہ آئی تھی کہ وہ مستقبل میں اس فن کو کس حیثیت سے اختیار کر یں گے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے فراق کو کسی سے تلمذ حاصل نہیں ہے اور ایسا شخص جو ہر رنگ میں کہنے کی صلاحیت رکھتا ہے حقیقتاً کسی کا شاگرد ہو بھی نہیں سکتا اور غالباً یہی وجہ ہے کہ اگر ہم اس وقت یہ معلوم کرنا چاہیں کہ فراق کا اصلی رنگ کیا ہے تو ہم کسی صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے۔

    ان کا میلان وہی ہے جو مصحفی کا تھا۔ جس رنگ کو لیا، اپنا بنا لیا اور ذہین و بے قرار طبیعت رکھنے والے شاعروں کو اکثر و بیشتر اسی نیرنگی میں مبتلا پایا گیا ہے، علی الخصوص اس وقت جب فطرت کے ساتھ ساتھ ان کا اکتساب بھی کام کرنے لگتا ہے۔ تا ہم بہ لحاظ انداز بیان اگر ان کو ’’مومن اسکول‘‘ میں شامل کیا جائے تو شاید زیادہ موزوں ہوگا۔ میں پہلے ہی ظاہر کرچکا ہوں کہ شاعری کے لئے الفاظ کا انتخاب اور طرز ادا دو نہایت ضروری چیزیں ہیں لیکن اگر اسی کے ساتھ خیال بھی پاکیزہ ہو تو کیا کہنا۔ اس کو دو آتشہ، سہ آتشہ جو کچھ کہئے کم ہے۔ پھر چونکہ فراق کے کلام میں ان تینوں کا اجتماع ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں ہے کہ اسے ’’قدر اول‘‘ کامرتبہ نہ دیا جائے۔

    یہ بالکل درست ہے کہ فراق کے کلام میں اسقام بھی پائے جاتے ہیں۔ یعنی نہ وہ فنی غلطیوں سے یکسر پاک ہے اور نہ بیان کی ژولیدگیوں سے، لیکن اس سے انکار ممکن نہیں کہ شاعرانہ روح ان کے ہر ہر شعر سے ظاہر ہوتی ہے اور وہ مخصوص والہانہ انداز جو غزل کی جان ہے، کسی جگہ ہاتھ سے چھٹنے نہیں پاتا۔ فراق اب شاید مشاعروں کی طرحوں پر بھی غزلیں لکھتے ہیں اور ’’فرمائشی شعر گوئی‘‘ کے لئے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ مشق سخن کے لئے یہ طریقہ کار مفید ہو لیکن شاید ’’پاکیزگی سخن‘‘ کا اقتضا کچھ اور ہے۔ چنانچہ جس وقت ہم فراق کی طرحی و غیر طرحی غزلوں کا مقابلہ کرتے ہیں تو ہم کو دونوں میں بین فرق محسوس ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مغنی کی وہ حیثیت، جب وہ تنہائی میں بیٹھ کر صرف اپنے آپ کو خوش کرنے کے لئے گنگناتا ہے، اس حیثیت سے بہت مختلف ہوتی ہے جب اس کا مقصود صرف دوسروں کو خوش کرنا ہوتا ہے۔

    میں نے ابھی ظاہر کیا کہ فراق کی شاعری میں مومن کا رنگ غالب ہے لیکن قبل اس کے کہ میں فراق کا کلام پیش کر کے اس کی وضاحت کروں، خصوصیات مومن کا مختصراً ظاہر کر دینا ضروری ہے۔ مومن کی تنہا وہ خصوصیت جس میں اس کا کوئی شریک و سہیم نہیں، اس کے انداز بیان کی بلاغت ہے۔ جس طرح ایک مصور کے حسن ذوق کا پتہ چلانے کے لئے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ا س نے کس زاویہ سے تصویر لی ہے، ا سی طرح ایک شاعر کے حسن بیان پر حکم لگانے کے لے ہم کو یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ اس خیال کا ’’خط رفتار‘‘ کیا ہے اور اس نے اپنا تیر کس گوشہ سے چلایا ہے۔ اور اسی کی جدت و ندرت پر کلام کی خوبی کا انحصار ہے، جو مومن کاحصہ کہلاتی ہے۔

    انداز بیان کی ندرت غالب کے یہاں بھی ہے اور کبھی کبھی یہ دونوں ایک دوسرے سے اس قدر مل جاتے ہیں کہ امتیاز دشوار ہو جاتا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ مومن جو کچھ کہتا ہے وہ بہت ڈوب کر کہتا ہے ا ور غالب کی حیثیت صرف ’’گاہ گاہ غوطہ زنی‘‘ کی حد سے آگے نہیں بڑھتی۔ دوسری خصوصیت مومن کی اس کی فارسی ترکیبوں کی حلاوت ہے اور تیسری یہ کہ اس کی شاعری اس دنیا کی ہے، اسی دنیا کے انسانوں کی ہے اور اسی ’’عالم آب و گل‘‘ کے جذبات و احساسات سے تعلق رکھتی ہے اور غالباً یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فراق کی شاعری میں یہ تینوں باتیں پائی جاتی ہیں، یعنی انداز بیان میں بھی ندرت ہے اور فارسی ترکیبیں بھی وہ بہت شگفتہ استعمال کرتے ہیں اور سب سے بڑی بات کہ کار زمیں سے ہٹ کر وہ ’’آسماں پر وازی‘‘ میں مبتلا نہیں ہوتے۔ ایک شعر ملاحظہ ہو،

    سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں

    لیکن اس ترک محبت کا بھروسہ بھی نہیں

    مضمون نیا نہیں، لیکن سلاست الفاظ اور سادگی بیان کے ساتھ محبت کی اس خاص کیفیت کو جس سے ہر شخص واقف ہے، لیکن ادا نہیں کر سکتا، ایسے سہل ممتنع انداز میں ظاہر کر دینا۔ یہ ہے اس شعر کی جان، جس سے سننے والا فوراً متاثر ہو جاتا ہے۔ اسی زمین کا دوسرا شعر ملاحظہ ہو۔

    مدتیں گزریں تری یاد بھی آئی نہ ہمیں

    اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

    دوسرے مصرعہ کے بے ساختہ پن اور ردیف و قافیہ کے خوبصورت صرف نے شعر کے مفہوم کو حد درجہ دل نشیں بنا دیا ہے۔ محبوب کے یاد آنے اور نہ آنے سے متعلق حسرت موہانی کا مشہور شعر ہے،

    نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی

    مگر جب آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

    حقیقت یہ ہے کہ اس پر ترقی بہت دشوار تھی لیکن فراق نے زاویہ بیان بدل کر اس میں ایک نئی کیفیت پیدا کر دی۔ اسی غزل کا ایک شعر خالص مومن کے رنگ کا دیکھئے۔

    مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست

    آہ اب مجھ سے تجھے رنجش بے جا بھی نہیں

    مہربانی اور محبت کے نازک فرق کو ’’رنجش بے جا‘‘ کے ذکر کے بعد اس انداز سے بیان کر جانا شاعری کا کمال ہے اور فراق کا صرف یہ ایک شعر ان کے نیرنگی ذوق کی اتنی زبر دست شہادت ہے کہ اس کے بعد کسی اور استدلال کی ضرور ت باقی نہیں رہتی۔ بڑی ضرورت اس امر کی ہے کہ فطرت انسانی اور اس کے مختلف مظاہر کا وسیع مطالعہ کیا جائے۔ تعبیرات میں دلکشی پیدا کرنے کے لئے فراق کی کامیابیاں اس باب میں ملاحظہ ہوں۔

    نہ سمجھنے کی ہیں باتیں نہ یہ سمجھانے کی

    زندگی اچٹی ہوئی نیند ہے دیوانے کی

    بیان زندگی کے سلسلہ میں دیوانے کی اچٹی ہوئی نیند کی طرف ذہن کا منتقل ہونا اور پھر اس کی توضیح کرتے ہوئے یہ کہہ جانا کہ ’’نہ سمجھنے کی یہ باتیں ہیں نہ سمجھانے کی۔‘‘ انتہائے بلاغت ہے۔ چند اور تعبیرات ملاحظہ ہوں۔

    قید کیا رہائی کیا، ہے ہمیں میں ہر عالم

    چل پڑے تو صحرا ہے رک گئے تو زنداں ہے

    اللہ رے اضطراب کہ جس اضطراب کا

    موج فنا میں اک اثر نا تمام ہو

    اس بحر محبت میں اے دل ڈوبنے والے بچتے ہیں

    پانی کو گزر نے دے سر سے پھر دیکھ کہ بیڑا پار بھی ہے

    اپنے چل پڑنے کو صحرا اور ٹھہر جانے کو زنداں قرار دینا۔ اسی طرح فنا کو ’’اضطراب ناتمام‘‘ سے تعبیر کرنا اور سر سے پانی گزر جانے کو بیڑا پار ہو جانا کہنا معمولی متخیلہ کا کام نہیں۔ ایک اور لطیف شعر اسی رنگ کا دیکھئے۔

    خواب گاہ میں تری ہم ہیں نیند کے جھونکے

    اک سکون بے پایاں ہستی پریشاں ہے

    فراقؔ کی ایک بالکل نئی تخئیل ملاحظہ ہو۔

    کہاں کا وصل، تنہائی نے شاید بھیس بدلا ہے

    ترے دم بھر کے آ جانے کو ہم بھی کیا سمجھتے ہیں

    محبوب کے دم بھر آ جانے کی یہ تعبیر کہ شاید تنہائی نے بھیس بدلا ہے، ہندی شاعری کی چیز ہے اور اردو شاعری میں میری نگاہ سے کہیں نہیں گزری۔ خالص واردات محبت اور کیفیات حسن و عشق کے بعد بھی چند اشعار سن لیجئے۔

    غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست

    وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں

    نثار پرسش غم کے میں کیا کہوں آخر

    کہ تجھ سے اب وہ مری سر گرانیاں نہ رہیں

    تو نہ چاہے تو تجھے پا کے بھی نا کام رہیں

    تو جو چاہے تو غم ہجر بھی آساں ہو جائے

    پردۂ یاس میں امیدنے کروٹ بدلی

    شب غم تجھ میں کمی تھی اسی افسانے کی

    پہلا شعر میر کے رنگ کا ہے اور ان تمام خصوصیات کا حامل ہے جو عشق بلند کام کے سوز و گداز میں پائی جاتی ہیں۔ دوسرے شعر میں صرف ’’پرسش غم‘‘ کو سر گرانیوں کے دور ہو جانے کا باعث قرار دینا ان تاثرات سے متعلق ہے جو ’’کاروبار محبت‘‘ میں غریب عاشق کو ہمیشہ پیش آتے رہتے ہیں۔ تیسرے شعر میں فلسفہ ہجر و وصال پر بالکل نئے انداز سے روشنی ڈالی گئی ہے اور چوتھا شعر اپنے مفہوم کے لحاظ سے بہت بلند ہے۔ غم کے بقا کا تعلق حقیقتاً امید سے ہے نہ کہ یاس سے۔ کیونکہ یاس کی انتہا سکون ہے اور غم کے منافی۔ انداز بیان نے اس خیال کو بہت زیادہ لطیف صورت دے کر پیش کیا ہے۔ محبت کی بےقراری بڑی پر لطف چیز ہوتی ہے اور عاشق ہمیشہ اس کے قیام کی کوشش کرتا رہتا ہے لیکن اسی کے ساتھ کبھی کبھی گھبراکر وہ ضبط و غم کے متاع کی طرف بھی ہاتھ بڑھا دیا جاتا ہے، جس کا رد عمل اور زیادہ تباہ کن ہوتا ہے۔ اس خیال کو فراق نے جس خوبصورتی سے ادا کیا ہے وہ شاذونادر ہی کہیں نظر آتی ہے۔ لکھتے ہیں۔

    فریب صبر کھا کر موت کو ہستی سمجھ بیٹھے

    نہ آیا بے قراری کو حیات جاوداں ہونا

    اسی غزل میں ایک نہایت نازک تخئیل ملاحظہ کیجئے۔

    ہر آواز جرس پر اک صدائے باز گشت آئی

    بہت ہے اس قدر بھی، خیر یاد رفتگاں ہونا

    آواز جرس کی صدائے باز گشت کو ’’یاد رفتگاں‘‘ کہنا بڑا سماوی (Ethentic) تخیل ہے۔ ایک اور شعر اسی زمین کا یہ ہے،

    ابھی اک پر تو حسن خیال یار باقی ہے

    ابھی آیا نہیں فرقت کو در درائیگاں ہونا

    پہلا مصرعہ فراق کا نہیں ہے بلکہ یہ ادنیٰ تغیر غالب کا ہے۔ لیکن فراق نے دوسرا مصرعہ لگا کر اسے بالکل اپنا بنا لیا اور غالب سے زیادہ حسن کے ساتھ فرقت کو صرف اس لئے ’درد رائیگاں‘ نہ کہہ سکنا کہ پر تو حسن خیال یار ہنوز باقی ہے، نہایت لطیف بات ہے۔ شعرا نے ’’حسن مجرد‘‘ کے خیال کو مختلف پیرایوں سے ظاہر کیا ہے لیکن فراق کا انداز بیان ملاحظہ ہو،

    بہار چند روزہ کو بہار جاوداں کر دے

    قیود رنگ و بو سے کچھ الگ کر دے گلستاں کو

    تکرار الفاظ سے معنی میں حسن پیدا کرنا بہت کافی مشق چاہتا ہے، فراق کے کلام میں بعض نمونے اس رنگ کے نہایت پاکیزہ پائے جاتے ہیں۔

    ایک کو ایک کی خبر منزل عشق میں نہ تھی

    کوئی بھی اہل کار واں شاملِ کارواں نہ تھا

    بےخبری ظاہر کرنے کی یہ تعبیر کرنا کہ گویا ’’اہل کارواں‘‘ کا رواں میں شامل نہ تھے، بڑا لطیف انداز بیان ہے۔ اسی غزل کا مقطع ہے،

    پھر بھی سکون عشق پر آنکھ بھر آئی بار ہا

    کچھ غم ہجر بھی فراق کچھ غم جاوداں نہ تھا

    دوسرے مصرعہ میں فراق کا (ق) تقطیع سے گرتا ہے لیکن شعر اپنے مفہوم کے لحاظ سے بہت بلند ہے۔ فراق نے بعض غزلیں ایسی لکھی ہیں جو شروع سے اخیر تک مرصع ہیں۔ مثلاً ایک غزل ملاحظہ ہو۔

    یہ کہہ کے کل کوئی بے اختیار روتا تھا

    وہ اک نگاہ سہی، کیوں کسی کو دیکھا تھا

    کسی کے ہاتھ نہ آیا سو اے غفلت ہوش

    ہر اک کو اپنے سے بیگانہ وار جینا تھا

    کچھ ایسی بات نہ تھی تجھ سے دور ہو جانا

    یہ بات الگ ہے کہ رہ رہ کے درد ہوتا تھا

    نہ پوچھ سود زیاں کاروبار الفت کے

    وگر نہ یوں تو نہ کھونا تھا کچھ نہ پانا تھا

    لگاوٹیں وہ ترے حسن بےنیاز کی آہ

    میں تیری بزم سے جب نا امید اٹھا تھا

    ہر ایک سانس ہے تجدید ’’یاد ایامے‘‘

    گزر گیا وہ زمانہ جسے گذرنا تھا

    کہاں یہ چوک ہوئی تیرے بے قراروں سے

    زمانہ دوسری کروٹ بدلنے والا تھا

    نہ کوئی وعدہ نہ کوئی یقیں نہ کوئی امید

    مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا

    غالباً یہ ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں کہ رنجوری محبت کے بیان میں جس کیفیت و سادگی، جس سلاست و حلاوت کی ضرورت ہے، وہ پوری تکمیل کے ساتھ ان شعروں میں پائی جاتی ہے۔ اب اور چند متفرق اشعار سن لیجئے،

    اب ماورائے وہم و گماں ہے سکوت ناز

    وہ سن چکے فسانہ غم ہم سنا چکے

    گزرےگا ہو کے شہر خموشاں سے آج کون

    سو مرتبہ چراغ لحد جھلملا چکے

    دل چاہتا ہے وعدۂ جاناں کو استوار

    اے وائے عشق میں بھی اگر انتظار ہو

    گردش آسماں سے ڈرتاہوں

    بڑھ چلا تیرا اعتبار بہت

    کھلے راز دل تو یہ دیکھنا کہ دہن سے شعلے بھڑک اٹھے

    نہ یہ پوچھ پھوٹ کے ہوں گے کیا جو فراق چھالے زباں کے ہیں

    آتش عشق بھڑکتی ہے ہوا سے بہت

    ہونٹ چلتے ہیں محبت میں دعا سے پہلے

    اے فراق انہیں پا کے ہم یہ دل میں کہتے ہیں

    سوچیئے تو مشکل ہے دیکھئے تو آساں ہے

    جلوۂ حسن نثار غم پنہا کر دے

    عشق توفیق جو دے وصل کو ہجراں کر دے

    ہستی کو تیرے درد نے کچھ اور کر دیا

    یہ فرق مرگ و زیست تو کہنے کی بات ہے

    یوں تو ہزار درد سے روتے ہیں بد نصیب

    تم دل دکھاؤ وقت مصیبت تو بات ہے

    ہاں بتا دے مجھے اے رابطہ ترک طلب

    جس سے آ جائے مجھے تیری تمنا کرنا

    یہ ایسے اشعار ہیں کہ اگر کسی خوش ذوق انسان کے سامنے پڑ ھ دیے جائیں اور اس کویہ نہ بتایا جائے کہ ان کا کہنے والا کون ہے تو وہ انہیں دہلی کے دور متاخر کے کسی شاعر کا کلام سمجھےگا، جبکہ غزل گوئی صرف جذبات و تاثرات کے اظہار کا نام تھی۔ ہر چند موجودہ دور بھی بڑی حد تک اسی اصول کا پابند ہے لیکن انداز بیان اس کا کچھ اور ہے۔ پہلے معنی آفرینی کی طرف اتنی زیادہ توجہ نہ کی جاتی تھی اور اس کا سبب صرف یہ تھا کہ احساسات محبت، صنعت سے بیگانہ تھے۔ اب لوگوں میں ’’احساس محبت‘‘ بجائے ’’وقوف احساس‘‘ زیادہ ہے۔ اس لئے اس کی باریکیاں تو کامیابی کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں لیکن ’’کیفیت‘‘ پیدا کرنے میں اس قدر کامیاب نہیں ہوتے۔ فراق کی شاعری میں ’’احساس‘‘ و ’’وقوف احساس‘‘ دونوں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ اس لئے ان کے یہاں معنی آفرینی کے ساتھ ساتھ کیفیت و حلاوت کی بھی کمی نہیں اور وہ فتادگی و والہانہ ادا بھی ہر جگہ موجود ہے جو محبت کا لازمی نتیجہ اور غزل کی جان ہے۔

    فراق نے اپنے ایک خط میں خود اپنی غزل گوئی کے متعلق عجیب و غریب گفتگو کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں، ’’جس طرح رونے سے کچھ نہیں ہوتا اور پھر بھی آنسو نکل ہی آتے ہیں، اسی طرح غزل سے ہوتا کیا ہے مگر مجبوریاں اور مایوسیاں جھک مارنے پر آمادہ کر ہی دیتی ہیں۔‘‘ سو آپ فراق کا سارا کلام پڑھ جائیے، یہ محبت کی ’’مجبوری و مایوسی‘‘ بقدر مشترک ان کے ہر ہر شعر میں نظر آئےگی اور یہی وہ چیز ہے جس نے ان کی غزل گوئی کو دوسرے نوجوان شعرا کے تغزل سے متمائز کر دیا ہے۔

    فراقؔ کے کلام میں جا بجا ندرت بیان اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ وہ کچھ اچٹتی ہوئی سی چیز نظر آتی ہے۔ اس کا سبب مغربی لٹریچر کی وسعت مطالعہ ہے جس سے فراق کا متخیلہ متاثر ہو کر بغیر کسی قصد و ارادہ کے بعض بعض جگہ انداز بیان کی بالکل نئی راہیں اختیار کر لیتا ہے، لیکن کمال یہ ہے کہ اجنبیت کسی جگہ پیدا ہونے نہیں پاتی اور سوائے اس کے کہ ذہن انسانی مطالعہ عمیق کی طرف مجبور ہو، کوئی ناگوار الجھن پیدا نہیں ہوتی۔

    الغرض فراق کی غزل گوئی کا مستقبل مجھے بہت درخشاں نظر آتا ہے اور اگر انہوں نے اپنے اس فطری ذوق کے ساتھ تھوڑی سی توجہ فن کی طرف بھی صرف کر دی تو اس دور کے با کمال شعرا کی صف میں نمایاں جگہ حاصل کر لینا بالکل یقینی ہے۔ میں یہاں تک لکھ چکا تھا کہ ان کی ایک بالکل تازہ غزل موصول ہوئی، جسے میں اپنے انتقاد پر مہر توثیق کی صورت سے یہاں درج کئے دیتا ہوں۔

    نیرنگ حسن یار ترے بس میں کیا نہیں

    لطف و کرم تو مانع جو رو جفا نہیں

    جن کی صدائے درد سے نیندیں حرام تھیں

    نالے اب ان کے بند ہیں تونے سنا نہیں

    کس درجہ پردہ دار طلسم نگاہ ہے

    اس بزم میں کسی کو کسی کا پتا نہیں

    میرے سکوت یاس پہ اتنا نہ ہو ملول

    مجھ کو خدانخواستہ تجھ سے گلا نہیں

    نیرنگی امید کرم ان سے پوچھئے

    جن کو جفائے یار کا بھی آسرا نہیں

    تھا حاصل پیام ترا اے نگاہ ناز

    وہ راز عاشقی جسے تونے کہا نہیں

    اللہ رے درد عشق کی غیرت کو کیا ہوا

    اتنا بھی بےنیاز و ہ جان وفا نہیں

    میں شاد کام دید بھی محروم دید بھی

    ہوتا ہے جب وہ سامنے کچھ سو جھتا نہیں

    ہر گردش نگاہ ہے دور حیات نو

    دنیا کو جو بدل نہ دے وہ میکدہ نہیں

    اس رہ گذار پر ہے رواں کاروان عشق

    کوسوں جہاں کسی کو خود اپنا پتا نہیں

    بس اک پیام نرگس مستانہ ہے فراق

    مجھ کو دماغ کاوش لطف وجفا نہیں

    مأخذ:

    انتقادیات (Pg. 339)

    • مصنف: نیاز فتح پوری
      • ناشر: عبدالحق اکیڈمی، حیدرآباد
      • سن اشاعت: 1944

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے