Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو ادب میں اتحاد پسندی کے رجحانات (۱)

گوپی چند نارنگ

اردو ادب میں اتحاد پسندی کے رجحانات (۱)

گوپی چند نارنگ

MORE BYگوپی چند نارنگ

     

    اردو زبان اسلامی اور ہندوستانی تہذیبوں کے سنگم کا وہ نقطۂ اتصال ہے، جہاں سے ان دونوں تہذیبوں کے دھارے ایک نئے لسانی دھارے کے بطور ایک ہوکر بہنے لگتے ہیں۔ اردو کے چمن زار میں جہاں لالہ وگل، نسرین وسمن نظر آتے ہیں، وہاں سرس اور ٹیسو کے پھول بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کی آبیاری کسی ایک مذہب کی مرہون منت نہیں بلکہ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں نے اسے اپنے خون جگر سے سینچا ہے۔


    اردو ادب میں رواداری، محبت اور اخوت کاجذبہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ خود ہندؤں اور مسلمانوں کا سابقہ۔ اردو ادب میں اتحاد اور یگانگت کی روایت کسی دباؤ کی پیداوار نہیں ہے۔اس کی پشت پر ایک ہزار سال کے ارتقا کی تاریخ ہے۔ اس نے باہمی علاحدگی اور دوری کی خلیج کو پر کرنےکی ہمیشہ کوشش کی ہے۔ یہ وہ رشتہ ہے جو کعبے کو شوالے سے اور ہندو کو مسلمان سے جوڑے رہا ہے اور جوڑے ہوئے ہے۔ زیر نظر مضمون میں اردو ادب کے انہی رجحانات کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

    جس ملواں یا سدھکڑی بولی کے سانچے میں اردو ادب نے ڈھلنا شروع کیا تھا، اس کا خمیر پنجاب و ملتان کی سرزمین میں تیار ہوا تھا۔ تاریخ ادب اردو کا یہ حصہ ابھی تاریکی میں ہے لیکن جو حقائق دستیاب ہوئے ہیں، ان سے ثابت ہوتا ہے کہ اردو ادب کے اس ابتدائی دور میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو اہل قلم بھی موجود تھے۔ ان میں چندر بھان برہمن، منشی ولی رام ولی، بدھ سنگھ اور رام کشن کے نام دستیاب ہوتے ہیں۔ یہ اس عہد سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ ولی دکنی کا دیوان ابھی دہلی میں نہیں پہنچا تھا۔ ولی رام ولی شاہجہاں کے بیٹے دار شکوہ کے مشیر خاص تھے۔ ان کی مثنوی شش وزن مطبع نادر العلوم میں چھپ چکی ہے۔ 1 بدھ سنگھ کا زمانہ اٹھارویں صدی کے نصف اول سے تعلق رکھتا ہے۔

    دکن میں بھی نظامی، سلطان محمد قلی قطب شاہ، وجہی، غواصی اور ولی کے زمانے میں کئی ہندو شاعر بھی موجود تھے لیکن صرف تین کے نام ہم تک پہنچتے ہیں۔ سیوک، رام راؤ اور جسونت سنگھ منشی۔ سیوک نے جنگ نامہ لکھا، رام راؤ نے واقعات شہادت حسینؑ پر ایک کتاب قلم بند کی۔ منشی اورنگ زیب کے گورنر سعادت اللہ خاں کے دربار میں ایک معزز عہدے پر فائز تھے اور ان کی تصنیفات اردو، فارسی دونوں میں ملتی ہیں۔

    محمد شاہ کے عہد سے شمالی ہندوستان میں بھی اردو شعر وشاعری کا چرچا ہونے لگا تھا، خواص فارسی سے ہٹ کر اردو کی طرف رجوع کرنے لگے تھے اور آنے والے پچاس سال میں زیادہ تر شمالی ہندوستان کے ہندو ومسلمان اس زبان میں داد سخن دینے لگے۔ اردو ادب کے اس تکوینی دور میں ٹیک چند بہار، آنند رام مخلص، بندرا بن راقم، آفتاب رائے رسوا، خوش وقت رائے شاداں، عجائب رام منشی، بدھ سنگھ، قلندر، بھکاری داس عزیز، راجہ رام ذرہ، بال مکند حضور، ماسٹر رام چندر، رائے سرب سنگھ دیوانہ، جسونت سنگھ پروانہ اور راجہ رام نرائن موزوں، ان ہندو اہل قلم حضرات سے ہیں جنھوں نے اردو ادب کی بیش بہا خدمت کی ہے۔

    اردو کی قدیم ادبی روایات میں سب سے اہم مشاعروں کا رواج ہے۔ مشاعرے ہند ایرانی تہذیب کا وہ ورثہ ہیں جو مسلمانوں کے ہاتھوں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو منتقل ہوا اور ہندوستان کی اپنی چیز بن کے رہ گیا۔ مشاعروں کا رواج اردو ادب میں اتحاد پسندی کے رجحانات کا اولین مظہر ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا مشاعرہ منعقد ہوا ہو جس میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو شریک نہ ہوئے ہوں۔ شعروشاعری کی یہ مجلسیں ہر زمانے میں عام رہی ہیں۔ ان کے چند در چند رسوم وآداب مقرر تھے، جن کا احترام ہندو ومسلم دونوں کےلیے واجب سمجھا جاتا تھا۔ ایک دوسرے کے زانو بہ زانو بیٹھ کر ہندو ومسلم اپنا اپنا کلام سناتے تھے۔

    مشاعروں کا انعقاد عموماً کسی صاحب حیثیت کے گھر پر ہوتا تھا۔ اردو کے قدیم مشاعروں کی تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ میزبان کبھی کبھی ہندو بھی ہوتے تھے۔ بعض اوقات مشاعروں کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا تھا کہ دونوں فرقوں کو ایک دوسرے سےقریب تر لایا جائے۔ ایسی ہی ایک کوشش لکھنؤ کا وہ مشاعرہ 2 تھا جو ’’آئینہ ہندوستان‘‘ کے نام سے مشتہر ہوا۔ یہ مشاعرہ ہری سرن داس کے دولت خانہ پر منعقد ہوا تھا۔ اس کے علاوہ منشی لچھمن پرشاد صدر اور رنگ بہاری لال سوسن کے ہاں لکھنؤ میں برسوں مشاعرے ہوتے رہے۔ دہلی میں ایسے مشاعرے امرناتھ ساحر، پیارے لال رونق اور چندی پرشاد شیدا کے زیر اہتمام ۱۹۲۰ء تک ہوتے رہے۔ کنور بدری کرشن فروغ سکندرآباد کے رئیس ان مشاعروں کے بانی تھے۔ 3 اس طرح مسلمانوں کے گھر ہندوؤں اور ہندوؤں کے گھر مسلمانوں کی نشستیں ہوا کرتی تھیں اور اس وقت کی سوسائٹی ان تعلقات میں کسی تفاوت کو روا نہ رکھتی تھی۔

    استادی اور شاگردی کی روایت بھی اردو میں فارسی اثر سے آئی۔ ہر استاد کے بے شمار شاگرد ہوتے تھے جو ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے، حتی کہ ادبی مناظروں میں اگر کوئی ایسی نوبت آتی تو اپنے ہم مذہبوں سے مقابلہ کرنے میں بھی عار نہیں سمجھتے تھے۔ یہاں اردو کے چند ان ہندو شاعروں کا ذکر بے جا نہ ہوگا جنھوں نے مسلمان شاعروں کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا۔ ذیل میں ہر استاد شاعر کے سامنے ان کے ہندو شاگردوں کے نام درج کیے جاتے ہیں، 

    مرزا جان جاناں مظہر کشن چند مجروح

    خان آرزو ٹیک چند بہار اور آنند رام مخلص

    میر تقی میر بندرا بن راقم، جسونت سنگھ دیوانہ، شیو کمار وفا اور منور لال صفا

    مرزا قتیل خیالی رام خیالی اور لال چند انس

    شاہ حاتم خوش وقت رائے شاداں، اور مکند سنگھ فارغ

    سودا لچھمی رام فدا

    شاہ نصیر خوب چند ذکا، منو لال پریشاں، رام پرشاد شاد، چنڈو لال شاداں، گنگا داس ضمیر، دھومی لال طرب، موتی لال طرب، رام سکھ عاشق، عزت سنگھ عیش، موہن لال منعم، گھنشام رائے عاصی، دولت رام عبرت، خیالی رام عیاش، مہتاب سنگھ غم، دولت سنگھ لطیف، مول چند منشی، مٹھن لال نامی، صاحب رام راقم، گوبند رائے نصرت اور مہاراج سنگھ عزیز، جس نے بعد وفات شاہ نصیر، ان کے کلام کو جمع کیا تھا۔

    انعام اللہ خاں یقین شیو سنگھ ظہور اور چنتا رام عمدہ۔

    میر درد نرائن داس بیخود، جھمن ناتھ جھمن، بال مکند حضور اور بھکاری لال عزیز۔

    غالب دیبی دیال نامی، شوجی رام مونس، ہرگوپال تفتہ، لچھمی نرائن مفتوں اور بال مکند بے صبر۔

    مومن منو لال شاد اور بشن پرشاد فرحت

    ذوق بال مکند بے صبر، پیارے لال ظہیر، بہاری لال مشتاق، دولت رام شفق، کنور سین عزیز اور موہن لال موہن۔

    امام بخش صہبائی درگا پرشاد نادر

    ناسخ رام سہائے رونق، فتح چند شائق، جواہر سنگھ جوہر، رام دیال سخن، سندر لال بسمل اور چھنو لال طرب۔ دوارکا پرشاد افق بھی ناسخ سے عقیدت رکھتے تھے۔

    آتش جیا لال بہادر، کنور گوپال سہائے صور، دیا شنکر نسیم اور جگل کشور ظہور۔

    مصحفی کانجی مل صبا، بینی پرشاد ظریف، ٹیکا رام تسلی، کنور سین مصحفی اور موجی رام موجی۔

    انشا اسیری سنگھ نشاط، مکھن لال آرام۔

    میر حسن گنگا سنگھ قادر۔

    جرأت منگل سین الفت، گنگا پرشاد رند اور اجودھیا پرشاد حسرت۔

    امانت بھگونت رائے امانت، دینا ناتھ جوہر، گنگا پرشاد رحمت، کدار ناتھ فرحت، نالنہوجی مروت اور شیو پرشاد ناظم۔

    وزیر دھنپت رائے راز۔

    سعادت یار خاں رنگین پورن سنگھ پورن

    قدرت اللہ خاں قدرت عجائب رام منشی

    میر سوز موتی لال حیف

    محمد حسین آزاد کشن لال طالب اور کیسرا سنگھ جہانگیر

    داغ برج نرائن کشمیری، رام چندر بیتاب، راجہ ہرکشن سنگھ، دیبی پرشاد مائل، شیو نندن بہار، نرائن پرشاد مہر اور تربھون ناتھ زار

    امیر مینائی جوالا پرشاد برق

    ریاض خیر آبادی شام سندر لال برق، مولا رام بسمل اور ہری روت سنگھ خوشتر

    سید کرامت حسین سرور جہاں آبادی

    آزاد بلگرامی دیا رام پنڈت

    جلال لکھنوی میکو لال عشرت

    نوح ناروی درباری سنگھ شاطر، اودھ پرشاد کشتہ، سکھ دیو پرشاد بسمل، بیلی رام، مہیش پرشاد سوگ

    عزیز لکھنوی جگت موہن لال رواں، شیر سنگھ شمیم

    تاجور نجیب آبادی کیشو داس عاقل

    برکت اللہ رضا آنند نرائن ملا

    اسی طرح کئی مسلمان شاعر بھی ہندو استادوں کے خوشہ چین رہے۔ جعفر علی حسرت، جو قلندر بخش جرأت کے استاد تھے، رائے سرب سنگھ دیوانہ کے شاگرد تھے۔ میاں بسمل، میاں مشکل، میر تراب علی عادل اور میر حیدر علی خزاں کا شمار تلامذہ بختاور سنگھ غافل میں ہوتا ہے۔ کھیم نرائن رند، مولوی حفیظ الدین شہید کے اور بنسی دھرہمت، باقر علی کے استاد تھے۔

    اردو ادب میں اتحاد پسندی کے جو رجحانات پائے جاتے ہیں، یہ اس کا عملی پہلو تھا۔ اب اردو کے ادبی مواد سے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ اردو کے اصناف سخن میں غزل سب سے اہم ہے۔ غزل میں ہندو مسلم رواداری کی جو فضا پائی جاتی ہے اس کا اندازہ ذیل کے اشعار میں لگایا جاسکتا ہے، 

    میں نہ جانوں کعبہ وبت خانہ و میخانہ کوں
    دیکھیا ہوں ہر کہاں دستا ہے تجھ مکھ کا فضا
    قلی قطب شاہ

    مشرب عشق میں ہیں شیخ و برہمن یکساں
    رشتہ سبحہ و زنار کوئی کیا جانے
    سراج دکنی

    کوئی تسبیح اور زنار کے جھگڑے میں مت بولو
    یہ دونوں ایک ہیں ان کے بیچ رشتہ ہے
    آبرو

    میر کے دین و مذہب کو کیا پوچھو ہو ان نے تو
    قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا
    میر

    رام و رحیم کی سمرن ہے شیخ و ہندو کو
    دل اس کے نام کی رٹنارٹے ہے کیا کیجئے
    ولی اللہ شاگرد سودا

    کیسا مومن، کیسا کافر، کون ہے صوفی، کیسا رند
    بشر ہیں سارے بندے حق کے سارے جھگڑے شر کے ہیں
    ذوق

    مشرب صلح کل ہے اے زاہد
    دیر بھی اک حرم کا سایہ ہے
    امیر مینائی

    سر نیاز سلامت رہے پئے تسلیم
    نہیں تمیز ہمیں دیر کیا حرم کیا ہے
    داغ

    کعبہ و دیر میں دوڑاتے ہو دھوکے دے کر
    کیا کہیں گے تمھیں سب گبرومسلماں دل میں
    جلیل

    تمھارا بول بالا ہر جگہ ہے اللہ والوں میں
    یہی ہو حق حرم میں ہے یہی جپ تپ شوالوں میں
    ثاقب بدایونی

    ہندو غزل گو شاعروں کے ہاں بھی ایسے جذبات تلاش کیے جا سکتے ہیں اور حق تو یہ ہے کہ یک جہتی کا یہ ترنم غزل کے زیر وبم میں ہمیشہ موجود رہا ہے، 

    وہی یک ریسماں ہے جس کو ہم تم تار کہتے ہیں
    کہیں تسبیح کا رشتہ کہیں زنار کہتے ہیں
    ٹیک چند بہار

    اصل مطلب ایک ہے آگاہ نا آگاہ کا
    ہے الک کا ترجمہ عربی میں لفظ اللہ کا
    جواہر سنگھ جوہر

    دیر و مسجد پہ نہیں موقوف کچھ اے غافلو
    یار کو سجدہ سے مطلب ہے کہیں سجدہ کیا
    ماھو رام جوہر

    دل بدل آئینہ ہے دیر و حرم
    حق جو پوچھو ایک در ہے دو طرف
    دیا شنکر نسیم

    دیروحرم میں شیخ و برہمن کے واسطے
    ہم جن کو پوجتے ہیں وہ پتھر ہی اور ہیں
    کیسرا سنگھ جہانگیر

    دیر و حرم میں جلوۂ قدرت ہے آشکار
    زنار و سبحہ میں نہیں فرق ایک تار کا
    راجہ کشن کمار وفا

    اپنا تو سر جھکے ہے دونوں طرف کہ اس کی
    تصویر بتکدے میں اور ہے حرم میں خاکا
    پیارے لال آشوب

    جس گوشۂ دنیا میں پرستش ہو وفا کی
    کعبہ ہے وہی اور وہی بت خانہ ہے میرا
    چکبست

    ایک ہی جلوہ میانِ دیروکعبہ ہے مگر
    اتفاق رائے شیخ و برہمن میں کیوں نہیں
    شیر پرشاد دیبی

    یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہو جاتا، ایسی کئی مثالیں اردو نظم سے بھی پیش کی جا سکتی ہیں۔ اردو کے شاعروں نے مذہب کے ظاہر لوازمات کی جو خلوص سے عاری ہوں، ہمیشہ مخالفت کی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ وہ دیواریں ہیں جو ہندو کو مسلمان سے اور مسلمان کو ہندو سے جدا رکھتی ہیں۔

    یہاں تسبیح کا حلقہ وہاں زنار کا پھندا
    اسیری لازمی ہے مذہب شیخ و برہمن میں
    چکبست

    اور چونکہ مذہب کی یہ روایتی بندشیں فاصلہ پیدا کرتی ہیں، وہ دل حق بیں کو ان سے آزادی حاصل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، 

    بلائے جان ہیں یہ تسبیح اور زنار کے جھگڑے
    دل حق بیں کو ہم اس قید سے آزاد کرتے ہیں

    اذاں دیتے ہیں بت خانے میں جاکر شانِ مومن سے
    حرم میں نعرہ ناقوس ہم ایجاد کرتے ہیں
    چکبست

    اقبال نے ببانگ دہل کہا تھا کہ ہم سب ہندی ہیں اور مذہب ہمیں آپس میں بیر نہیں سکھاتا۔ اردو کے شاعر اسی ہندوستانی جذبے کے پیام بر ہیں۔ وہ قوم کی شیرازہ بندی کے آرزو مند ہیں، خارجی عوامل نے جب کبھی ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان چپقلش پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، اردو شاعروں نے اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا، 

    قوم کی شیرازہ بندی کا گلہ بےکار ہے
    طرز ہندو دیکھ کر طرز مسلماں دیکھ کر
    چکبست

    اور وہ ان عوامل کو کفر کے حملوں سے تعبیر کرتے ہیں، کیونکہ فتنہ وفساد نہ تو اسلام میں جائز ہے نہ ہندو ازم میں، 

    رک اگر کفر کے حملوں سے نہ ایماں پائے
    سرگ ہندو کو ملے خلد مسلماں پائے
    دواکا پرشاد افق

    ہندوؤں اور مسلمانوں میں بعد پیدا کرنے کی جو کوششیں اب سے قبل پوری ایک صدی جاری رہی ہیں، اردو کے اہل قلم انھیں ہمیشہ ناکام بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ حادثہ کان پور ۱۹۳۱ء میں منور لکھنوی نے لکھا تھا، 

    پھرا ہے کس لیے سر ہندو و مسلماں کا
    لگا ہے خون یہ انساں کے منھ کو انساں کا

    جنونِ قتل کے قبضہ میں زندگی آ جائے
    ہزار حیف کہ غالب درندگی آ جائے

    اس کے باوجود وہ ناامید نہیں ہوتے کیونکہ وطن کے سینے میں جب شہادت کی شمع جاگ اٹھتی ہے تو اس کی آنچ میں دل موم کی طرح پگھل جاتے ہیں، 

    یہ خون دلِ غمزدہ کو بھردےگا
    یہ خون ہندو ومسلم کو ایک کر دےگا
    منور

    اردو کے شاعر مجموعی طور پر اتحاد کی مشعل کو روشن رکھنے کی تلقین کرتے ہیں کیونکہ جب اس کے نور سے کعبہ دل جگمگا اٹھتا ہے تو منافرت کی دھند خود بخود چھٹ جاتی ہے۔

    آندھیوں کے جھگڑے یکدم سبھی بھلا دیں
    آ دل سے امتیازِ دیر وحرم مٹا دیں

    کرکے چراغ روشن پھر اتحاد کا ہم
    جنت سے بڑھ کر دل کے کعبے کو جگمگا دیں
    لال چند فلک

    اسلام اور ہندو مذہب میں جو بھی صداقتیں ہیں، اردو کے شاعر ان کے عاشق و دلدادہ ہیں، وہ انھیں سمیٹ لینے کی تلقین کرتے ہیں، 

    حرم کو جاؤ تو رستے سے دیر کے جاؤ
    دعائیں لے کے بتوں کی خدا کے گھر کو چلو

    اور وہ مذہب کے اس نظام کہنہ کو بدلنے کی دعوت دیتے ہیں جو عصبیت سکھاتا ہے۔ وہ اس بےجان، فرسودہ اور روایتی رسم ورواج کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں جو دل کو دل اور انسان کو انسان سے دور رکھتا ہے، 

    آغیرت کے پردے اک بار پھر اٹھا دیں
    بچھڑوں کو پھر ملادیں نقش دوئی مٹادیں

    سونی پڑی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی
    آ اک نیا شوالہ اس دیس میں بنادیں
    اقبال

    اس نئے شوالے کا ایمان شاعری کی سطح پر ایمان اتحاد ہے، جس کے لیے وہ یوں دست بدعا ہیں، 

    باقی رہے نہ ہندو و مسلم میں کچھ بھی فرق
    ہو جائیں ایک مثل دل وجاں خدا کرے

    ایمان اتحاد پہ لائے ہر اک نفس
    قائم ہو اتحاد کا ایماں خدا کرے

    عیسائی ہوں، ہنود ہوں، مسلم ہوں خواہ سکھ
    سب نام پہ ہو ں صلح کے قرباں خدا کرے
    منور

    تخلص رکھنے کا رواج ہندوؤں نے مسلمانوں سے لیا، جہاں سے یہ ہندوستان کی تمام زبانوں میں پھیل چکا ہے۔ اردو کے ہندو شاعروں کے نام سے اگر ان کا اصلی نام ہٹا لیا جائے اور صرف تخلص رہنے دیا جائے تو بعض اوقات یہ شک ہی نہیں گزرتا کہ وہ ہندو ہیں۔ قدیم ہندو شاعروں میں کئی ایسے تخلص ملتے ہیں جو خالص اسلامی ہیں، مثلاً رام ولی، رام دین، اکبر، نہال سنگھ طوبیٰ، رگھبیر دیال آثم، یا جوالا پرشاد آذر وغیرہ وغیرہ۔

    باہمی رواداری اور مذہبی فراخدلی کا رنگ قدیم اردو ادب میں اتنا گہرا رہا ہے کہ اس زمانے کے مسلمان مصنفین اپنی کتابوں کی ابتدا سری گنیش یا سرسوتی کی مدح سے کرتے، اور ہندو، بسم اللہ الرحمن الرحیم، یا ایسے دوسرے متبرک کلموں کا ذکر اپنی تالیف کے آغاز میں ضروری سمجھتے تھے، ایک دوسرے کے مذہبی القاب کا استعمال اس سے پیشتر ہندوستان کے فارسی ادب میں پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر تارا چند راقم طراز ہیں، 

    ’’رحیم نے ’’مدناستکا‘‘ سری گنیش نامہ لکھ کر شروع کیا۔ جہانگیر کے عہد کے ہندی مصنف احمد نے بھی اپنی تالیف ’’سامدریکا‘‘ میں یہی کیا ہے۔ احمد اللہ دکشنا نے اپنی تصنیف ’’نیا کا بھید‘‘ میں سری رام جی سہائے، سرسوتی اور گنیش کا نام لیا ہے۔ یعقوب نے ’’راشا بھوشن‘‘ لکھی تو سری گنیش جی، سری سرسوتی جی، سری رادھا کرشن جی اور سری گوری شنکر جی کے فضل ورحمت کا طالب ہوا ہے۔ غلام نبی رسلین نے اپنی دو کتابوں ’’نگادرپنا‘‘، ’’راسا پربودھ‘‘ کا آغاز سری گنیش نامہ لکھ کر کیا ہے۔ ’’اعظم خاں‘‘ نے محمد شاہ کے حکم سے سنگار درپن لکھی تو رامانج کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ لقمان نامی ایک مؤلف نے طب پر کوئی رسالہ لکھا ہے۔ اس کا آغاز بھی گنیش جی کی مدح سے ہوا ہے۔ سید پوہر کی طبی کتاب ’’رس رتناکر‘‘ میں بھی گنیش جی کے ساتھ نیاز مندی دکھائی گئی ہے۔‘‘ 4

    قدیم اردو ادب میں بھی یہ روایت برابر قائم رہی ہے۔ دکن کے ابتدائی مسلمان شاعروں نے جہاں جہاں بھی کوئی حمد لکھی ہے، اس میں کرتار، آدھار، ستگورہ، نرنکار، پیتم اور شیام موہن کے الفاظ کو عموماً استعمال کیا ہے۔ شمالی ہندوستان میں بھی یہ رواج عام تھا۔ اہل ہندو کی لکھی ہوئی اس زمانے کی شاید ہی کوئی تصنیف ہوگی جو اسلامی القاب سے شروع نہ کی گئی ہو۔ آنند نرائن مخلص نے اپنا سفر نامہ، شیو پرشاد وہبی نے اپنا کلیات مسمی مرقع ارژنگ، دیبی پرشاد بشاش نے اپنا تذکرہ شعرائے ہندو، فراقی نے وقائع عالم شاہی، دیبی پرشاد سحر بدایونی اور برج باشی لال عاصی نے اپنا دیوان بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کیا ہے۔منشی بال مکند بے صبر نے اپنے دیوان خاص کی ابتدا اس شعر سے کی ہے، 

    سر دیوان پہ گر حرف توحید وحید آیا
    تو سب اپنا سخن تفسیر قرآن مجید آیا

    اور دیوان عام یوں شروع ہوتا ہے۔

    جبکہ بسم اللہ وصف عارض جاناں ہوا
    مطلع خورشید اپنا مطلع دیواں ہوا

    جگن ناتھ خوشتر نے واجد علی شاہ کے عہد میں بھاگوت منظوم لکھی تھی، اس کا ابتدائیہ ہے، 

    گل افشاں حمد باری میں قلم ہے
    بیاضِ نامہ گلزار ارم ہے

    منشی چمن لال نے سنگاسن بتیسی کو نظم کیا تھا، اس کے دیباچہ میں لکھا ہے، 

    الٰہی سبز کر میرے سخن کو
    بہار بے خزاں دے اس چمن کو

    اس کے علاوہ ایک دوسرے کی مذہبیات سے تشبیہات استعمال کرنا تو عام سی بات تھی۔ ہندو حضرات قرآن کی تلمیحات اور مسلم اہل قلم ہندوؤں کی قدیم حکایات کو اپنے کلام میں استعمال کرتے تھے۔ اس سلسلہ میں اردو غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں، 

    پریم کی رمبھا 5 اربسی 6 ہنس ہنس
    کلیاں نیہہ کی سب کھلاتے ہیں

    مدن 7 بان ساندے ہے پاکاں تھے چھندسوں
    کہ جیواں ہرن پہ سرک زلف کھا لی
    محمدقلی قطب شاہ

    جودھا جگت کے کیوں نہ ڈریں تجھ سوں اے صنم
    ترکش میں تجھ نین کے ہیں ارجن کے بان آج

    تب کا مشتاق جی ہے لھمن سوں
    کشن سوں جب کہ نام نامی ہے

    ولی تجھ زلف کی گر ساحری کا بیاں بولے
    چلے پاتال سوں باسک 8 سو پیچ و تاب سوں اٹھ کر
    ولی

    بحری کو دکھن یوں ہے کہ جیوں نل کو دمن ہے
    بس نل کوں ہے لازم جو دمن چھوڑ نہ جانا
    بحری

    آتش عشق نے راون کو جلاکر مارا
    گرچہ لنکا سا تھا اس دیو کا گھر پانی میں
    میر

    سانولے پن پہ غضب دھج ہے بسنتی شال کی
    جی میں ہے کہہ بیٹھیے اب جے کنہیا لال کی
    انشا

    ایک ایک نقطے پر موئے لڑتے ہیں مردوے
    محفل مشاعروں کی اکھاڑہ ہے بھیم کا
    جان صاحب

    سانولے تن پہ قبا ہے جو تیرے بھاری ہے
    لالہ کہتا ہے چمن میں یہ گردھاری ہے
    امانت

    ڈر کے میری شب جدائی سے
    کالکا رام رام کرتی ہے
    امیر

    سانولی دیکھ کے صورت کسی متوالی کی
    ہوں مسلماں مگر بول اٹھوں جے کالی کی
    امیر

    محسن کاکوروی کی وہ نعت جس میں تمام ہندو تشبہیات استعمال کی گئی ہیں، اس قدر عام ہے کہ اس کا صرف ذکر کر دینا ہی کافی ہوگا۔ اسی طرح اردو کے ہندو شاعروں کو بھی الٰہیات سے استعارے اور تشبیہیں اخذ کرنے میں کوئی باک نہ تھا۔ قرآن، کلمہ، کعبہ، رسول، نوح، خضر اور جبرئیل، زکوٰۃ اور سورۂ اخلاص کا ذکر اس انداز سے کرتے ہیں جیسے یہ سب کچھ خود ان کے مذہب سے متعلق ہوں۔ ذیل میں چند ایسی مثالیں پیش کی جاتی ہیں، 

    یم اشک رواں میں ڈوبتا ہےمردم دیدہ
    مدد یا خضر دوڑو نوح کی کشتی ہے طوفاں میں
    دوارکا پرشاد افق

    بھلا نسبت ہے کیا ہندستاں سے مصر و کنعاں کو
    کہ یہاں ہر ہر گلی میں جلوہ یوسف نمایاں ہے

    جو تیرے مصحف رخ پہ لکھا یہ خطِ ریحاں ہے
    پڑھا جاتا نہیں اک حرف بھی یہ کیسا قرآں ہے

    کبھی نہ سجدہ کیا بدگماں نے میرے ساتھ
    قیام اس نے کیا میں نے جب رکوع کیا
    دیبی پرشاد بشاش

    کرتے کرتے ذکر اس کے مصحف رخسار کا
    خود بخود مجھ کو کلام اللہ ازبر ہو گیا
    بال مکند بے صبر

    میں بھی رکھتا ہوں یونہی نامہ جاناں سر پر
    جس طرح رکھتے ہیں مصحف کو مسلماں سر پر
    جواہر سنگھ جوہر

    صنم کے کعبہ رخ پر جو تل ہے چوم لے زاہد
    کہ بوسہ سنگ اسود کا یہی فرض مسلماں ہے
    لالتا پرشاد شفق

    فکر جب مصحف رخسار کا ہم کرتے ہیں
    دمبدم سورۂ اخلاص کو دم کرتے ہیں
    رام سیوک برہمن شگرفی

    سنگِ اسود کا ہوا تل پہ گماں اے فرحت
    رخ کو کعبہ دہن یار کو زمزم سمجھے
    شنکر دیال فرحت

    بوسہ صنم کا نہ لیں بے وضو کبھی
    قرآں کا پاس چاہیے ہم پارسا کریں
    راجہ کشن کمار وفا

    تارا چند لاہوری نے ایک خمسہ شیوجی مہاراج کی صفت میں لکھا تھا، اس کا ایک شعر ہے، 

    جہاں میں دیوتا جتنے ہیں ان میں نامور شیو ہیں
    سبھوں کے قبلہ و کعبہ اور سب کے پدر شیوہیں

    ہندو اور مسلمانوں کے تعلقات کی تاریخ جب بھی لکھی جائےگی، ایسے کئی مسلمان ولیوں اور مرشدوں کا ذکر کیا جائےگا جن کے پیروؤں میں ہندو بھی شامل ہوتے تھے۔ منشی کوڑے سنگھ صفی پچھلی صدی کے ایک ہندو شاعر تھے، صوفی شام نجم دین میرٹھی سے درس حقیقت لیتے تھے، ان کا ایک شعر ہے، 

    بفیض حضرت مرشد کہ کہیے نجم دیں ان کو
    صفی طینت میں تیری پارسائی ہوتی جاتی ہے

    اردو میں اتحاد پسندی کے رجحانات کا ایک رخ یہ ہے کہ دونوں مذہبوں کے شاعر ایک دوسرے کے پیغمبروں اور بزرگوں کا ذکر عجز وعقیدت کے ساتھ کرتے ہیں، وہ پیغمبر اسلام اور کرشن، گوتم یا نانک کا دل سے احترام کرتے ہیں۔ مرزا جان جاناں مظہر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گیتا کو صحیفۂ مقدس سے کم نہیں سمجھتے تھے، اور ہندوؤں کو اہل کتاب کا درجہ دیتے تھے۔ یعنی مذہبی نقطۂ نگاہ سے بھی مسلمانوں کا ہندوؤں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، میل جول رکھنا اور شادی بیاہ رچانا جائز تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسا کرنا تعجب خیز بھی نہیں، کیونکہ یہ اس زمانے کی تہذیب کا رنگ تھا۔

    نظیر اکبرآبادی جنم اشٹمی کے موقعہ پر براندا بن اور متھرا جایا کرتے تھے۔ اپنی نظموں میں انھوں نے ان میلوں کے نہایت دلکش مرقعے کھینچے ہیں۔ جھانکیوں کے جھانکنے تاکنے، کبت کتھا سننے اور پالکیوں، ہاتھیوں، اور جوڑوں کے ذکر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نظیر خود ان میلوں میں ’’جے مہاراج رام رام بھجو‘‘ کا کیرتن کرنے والے جوگیوں میں شامل ہو جایا کرتے ہوں گے۔ نظیر کے ایک ایک شعر سے ان کی روح کی وہ پکار سنی جا سکتی ہے جو رام وحیم یا کرشن وکریم کو ایک ہی ذات باری کا پرتو سمجھتی تھی۔

    نظیر نے کرشن کی عقیدت سے سرشار ہوکر جو نظمیں لکھی ہیں، ان کے نام یہ ہیں، جنم کنہیا جی، بالپن بنسری بجیا، لہو ولعب کنہیا، بانسری، کنہیا جی کی شادی، دسم کتھا، ہر کی تعریف میں، بیان سری کشن اور نرسی اوتار۔ نظیر کے پاکیزگی خلوص کے ثبوت میں صرف ایک شعر پیش کر دینا ہی کافی ہوگا۔ اپنے جوگی بھیا سے وہ یوں مخاطب ہوتے ہیں، 

    گھنشام مراری گردھاری، بنواری سندر شیام برن
    پربھو ناتھ بہاری کان للاسکھدائی جگ کے دکھ بھنجن

    اس کے علاوہ کرشن کو انھوں نے ان مختلف ناموں سے پکارا ہے، کانھ جھنڈولے، دودھ کے لٹیا، بدھ پوری کے بسیا، گون چریا، جوتی سروپ، مدن موہن، من ہرن، نند لال، گردھاری، گووردھن، نول کشور، ماکھن اچکے، گوبند چھیل کنج، بانسری بجیا، برج راج، مدن گوپال وغیرہ وغیرہ۔ہندو مذہبیات میں شری کرشن کے متعلق شاید ہی ایسی کوئی حکایت ہو، جس کا نظیر کو علم نہ ہو۔جمنا کنارے کی لیلا، رتھ کے جھلکتے ہوئے کلس کا اور دوارکا پوری کے موج میلوں کا ذکر نظیر جس اعتماد سے کرتے ہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھاگوت پر ان کی ایک ایک کتھا، قصے کہانیوں اور لوک روایتوں سے انھیں پوری واقفیت حاصل کی تھی۔ کنہیا کی راس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں، 

    سکھیاں پھرے ہیں ایسی کہ جوں حور اور پری
    سن سن کے اس ہجوم میں موہن کی بانسری

    کرتے ہیں نرت کنج بہاری بصد برن
    اور گھنگھروؤں کی سن کے صدائیں چھنن چھنن

    حلقہ بنا کے کشن جوناچیں ہیں ہاتھ جوڑ
    پھرتے ہیں اس مزے سے کہ لیتے ہیں دل مروڑ

    ناچیں ہیں اس بہار سے بن ٹھن کے نند لال
    سر پر مکٹ براجے ہے پوشاک تن میں لال

    ہے روپ کشن جی کا تو دیکھو عجب انوپ
    اور ان کے ساتھ چمکے ہے سب گوپیوں کا روپ

    خاطر نشان رہے کہ نظیر کی نظمیں تہذیبی نظمیں ہیں، ان میں ایک عجیب سرمستی، سرشاری اور وارفتگی کی کیفیت ہے اور کرشن بھگتی کی تہذیبی نشاط آفریں فضا ہے۔ یہ بیانیہ نظمیں اکثر و بیشتر لوک گیتوں کا سا لطف رکھتی ہیں، 

    جب ساعت پر گھٹ ہونے کی واں آئی کمٹ دھریا کی
    اب آگے بات جنم کی ہے جے بولو کشن کنہیا کی

    کرشن سے عقیدت کی اس روایت کو اردو کے مسلمان اہل قلم نے موجودہ زمانے تک قائم رکھا ہے۔ حسرت موہانی کا شمار کرشن کے سچے پرستاروں میں کیا جا سکتا ہے۔ کرشن سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے وہ ہندی شاعروں کا پیرایہ بیان اختیار کرتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں، 

    تم بن کون سنے مہراج
    راکھو بانھ گہے کی لاج

    برج موہن جب سے من بسے
    ہم بھولن سب کام کاج

    نردئی شیام پردیس سدھارے
    ہم دکھیارن چھوڑ چھاڑ

    من موہن شیام سے نینن لاگ
    نسدن سلگ رہی تن آگ

    کہاں چھائے رہے گردھاری
    اورن مل سُدھ بھول ہماری

    کوئی جتن جیا دھیر نہ دھارے
    نیند نہ آوے نینن، گردھاری بنا

    حسرت کرشن کے دلدادہ ہی نہیں بلکہ ان کی محبت ہندوستانیت کے اس جذبے کی ترجمان ہے جس کا راز کرشن کے کردار میں کھلتا ہے۔ حسرت کی ایک غزل کے چند اشعار کا ذکر یہاں بےجا نہ ہوگا۔

    متھرا کہ نگر ہے عاشقی کا
    دم بھرتی ہے آرزو اسی کا

    ہر ذرہ سرزمین گوکل
    دارا ہے جمالِ دلبری کا

    برسا نہ و نند گاؤں میں بھی
    دیکھ آئے ہیں جلوہ ہم کسی کا

    پیغامِ حیات جاوداں تھا
    ہر نغمہ کرشن بانسری کا

    وہ نورِ سیاہ تھا کہ حسرت
    سر چشمہ فروغِ آگہی کا

    سیماب اکبرآبادی نے اپنی نظم ’’تیرا انتظار‘‘ میں کرشن کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں، 

    کشش ہے برج کی یا جذب برج والے کا
    خمیدہ ہیں شجر سایہ دار ایک طرف

    طلوع ہو کہ درخشاں ہو مطلع متھرا
    پہنچ رہی ہے نظر بار بار ایک طرف

    نصیب کاش ہو سیماب کو بھی جلوہ تیرا
    پڑا ہے وہ بھی سر رہ گزار ایک طرف

    خواجہ حسن نظامی کو کرشن سے جو محبت و لگاؤ ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، ان کی کتاب ’’کرشن بانسری‘‘ مشہور ہے۔ ہمیں ان کا ایک مضمون دستیاب ہوا ہے جس میں انھوں نے کنس کا فرعون سے مقابلہ کرتے ہوئے کرشن کو موسیٰ کا ہم رتبہ قرار دیا ہے۔

    غرض یہ کہ ایسے کئی مسلمان مصنفین اور شاعروں کے نام گنوائے جا سکتے ہیں جنھوں نے کرشن کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار نہایت احترام سے کیا ہے۔ مجموعی طور پر ایسے شاعروں کے چند اشعار کو دیکھ لینا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا، 

    سچ بتا اے میری جمنا کیا وہی جمنا ہے تو
    کرشن کی بنسی کا ایک بہتا ہوا نغمہ ہے تو
    ساغر نظامی

    بنسی دھر اس بنسی کے پھر بول سنادے متوالے
    پھر برکھا رُت گھر آئی ہے پھر بادل ہیں کالے کالے
    آغا شاعر قزلباش

    سری کرشن کا میں احترام کرتا ہوں
    اور اس میں روز نیا اہتمام کرتا ہوں

    وہ جور و ظلم کی بنیاد ڈھانے آیا تھا
    میں اس کی رسم کو دنیا میں عام کرتا ہوں
    ظفر علی خاں

    متھرا تجھ سے ہے نامور بھگوان
    بندرا بن تجھ سے پُر اثر بھگوان

    دل کی دنیا کا تو سویدا ہے
    گھر خدا کا ہے تیرا گھر بھگوان
    نواب سراج الدین خاں سائلؔ

    چارہ سازی کیجئے مرلی منوہر آپ ہی
    سینۂ بسمل کا اک اک زخم کاری دیکھیے
    بسمل الہ آبادی

    تصویر اس سانولی صورت کی کھچ آئی دل کے شیشے پر
    اب تو اپنے من موہن کو میں آئینہ دکھلاتا ہوں
    ابن الحسن فکر

    کاش پھر تاریخ الٹ دیتی ذرا اپنے ورق
    کشا ہم پھر معرفت کے تجھ سے سن سکتے سبق
    سعید احمد سعید

    اس کے علاوہ کرشن کے مسلمان مداحوں میں حفیظ جالندھری، ابن حسن قیصر، مرتضیٰ احمد خاں میکش، مظہر علی، منظر صدیقی، ابن سیماب، عشرت رحمانی، مظفر حسن، دائرہ شارفی، محمد امین شرقپوری اور محمد عباس حسن کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

    اردو کے مسلمان اہل قلم کرشن کی طرح ہندوؤں کے دیگر مذہبی اکابرین کا بھی احترام کرتے ہیں۔ نظیر اکبرآبادی نے گرونانک کی مدح ان الفاظ میں کی ہے، 

    جو لطف و عنایت ان میں ہیں کب وصف کسی سے ان کا ہو
    وہ لطف و کرم جو کرتے ہیں ہر چار طرف ہیں ظاہر وہ

    اس بخشش کے اس عظمت کے ہیں بابا نانک شاہ گرو
    سب سیس نوار ارداس کرو اورہر دم بولو واہ گرو

    علامہ اقبال بھی نانک کی عظمت کے معتقد تھے، 

    پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
    ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے

    گوتم اور رام کا ذکر کرتے ہوئے علامہ اقبال نے لکھا ہے، 

    قوم نے پیغام گوتم کی ذرا پروا نہ کی
    قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی

    برہمن سرشار ہے اب تک مئے پندار میں
    شمع گوتم جل رہی ہے محفلِ اغیار میں

    ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
    اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند

    تلوار کا دھنی تھا شجاعت میں فرد تھا
    پاکیزگی میں جوش محبت میں فرد تھا

    ہندوؤں کی کئی مذہبی کتب کے تراجم بھی مسلمانوں کے مرہون منت ہیں۔ ان میں خواجہ دل محمد کی گیتا اور سکھ منی صاحب ہندوؤں میں بہت ہی مقبول ہیں۔ اثر لکھنوی نے بھگوت گیتا کو نظم کیا ہے۔ نفیس خلیلی نے بھی گیتا کو شعر کا جامہ پہنایا ہے۔ غلام الحسنین کے ہندو مذہب پر دیے گئے لکچروں کا مجموعہ ’’ہندو مذہبی معلومات‘‘ کے نام سے چھپ چکا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور اجمل خاں صاحب کے اسمائے گرامی بھی اس زمرے میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔

    جہاں تک مذہبیات کا تعلق ہے، اردو ادب میں اتحاد پسندی کے رجحانات کا یہ ایک رخ تھا۔ ہندوؤں نے بھی اسی گرم جوشی سے مسلمانوں کے جذبات کا جواب دیا ہے۔ منشی کنہیا لال شاد نے، جو انیسویں صدی کے نصف آخر سے تعلق رکھتے ہیں، ایک رسالہ علم تصوف پر تالیف کیا تھا۔ لکھنؤ کے منشی بھیروں پرشاد وکیل اور منشی اودھ بہاری لال ثمر نے ایک کتاب ’’منتخب مناجات‘‘ کو مرتب کیا تھا۔ منشی پریم چند کا ناول کربلا اور گوردت سنگھ دارا کی کتاب ’’محمد کی سرکار‘‘ بھی اسی سلسلے کی اہم کڑیاں ہیں۔

    سرور جہان آبادی کی نعت کا ذکر کرتے ہوئے علامہ کیفی نے لکھا ہے کہ وہ مولود شریف کے جلسوں میں پڑھی جاتی ہے۔ منور لکھنوی نے قرآن پاک کے کچھ حصص کو اردو نظم میں منتقل کیا ہے۔ یہ حصے رسالہ ادب کراچی میں چھپ چکے ہیں۔منشی روپ چند نامی تلمیذ ساقی سکندرآبادی کا ذکر کرتے ہوئے عشرت لکھنوی نےلکھا ہے 9 کہ ان کی غزلوں میں ایک شعر نعتیہ ضرور ہوتا تھا۔ مثال کے طور پر یہ شعر درج کیا گیا ہے، 

    آیا جو نام پاک محمد زبان پر
    صل علیٰ کا شور ہوا آسمان پر

    اردو کے ہندو شاعروں میں ا ن گنت ایسے کئی نام پیش کیے جا سکتے ہیں جنھوں نے پیشوائے اسلام کی بارگاہ میں زانوئے عقیدت تہہ کیا ہے۔ ان میں ہرگوپال تفتہ، بندرابن عاصی، بال مکند بے صبر، دلو رام کوثر اور شیو پرشاد وہبی کے نام قابل ذکر ہیں۔ 10

    اردو ادب میں ہندو شاعروں سے منسوب جو نعتیہ کلام موجود ہے، اس بات کا شاہد ہے کہ اردو کے ہندو ادیب ہندو ہوتے ہوئے بھی ’’قائل اسلام‘‘ ہیں۔ یگانگت اور اتحاد پسندی کی اس سے بڑی اور کیا دلیل پیش کی جا سکتی ہے۔ منور لکھنوی حضرت محمد ؐ کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہاران الفاظ میں کرتے ہیں، 

    آپ پر نازل خدائے پاک نے قرآں کیا
    سرمۂ توحید سے وا دیدۂ عرفاں کیا

    آشکارا زندگی کا جوہر پنہاں کیا
    پیکر اقدس کو رشک کعبۂ ایماں کیا

    جو نہ سمجھیں آپ کا رتبہ وہ اہل دل نہیں
    اور کوئی جادۂ تسلیم کی منزل نہیں

    شیر خدا حضرت علیؓ کی صداقت اور تقدس کا اعتراف انھوں نے یوں کیا ہے، 

    ایسا مطیع اہل کلام اور کون تھا
    ایسا شہ عرب کا غلام اور کون تھا

    فرش زمیں پہ عرش مقام اور کون تھا
    تسبیح مصطفےٰ کا امام اور کون تھا

    پیدا دلاوری سے تھی صدق و صفا کی شان
    شیرِ خدا کی شان تھی شیر خدا کی شان

    لیکن اس سلسلے میں ہندو ادیبوں کا اہم کام وہ مرثیے اور سلام ہیں جو انھوں نے شہیدانِ کربلا کی نوحہ گری میں لکھے ہیں۔ دکنی شاعر رام راؤ جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے، وہ اولیں ہندو شاعر ہے جس نے شہادت امام حسینؓ پر ایک کتاب قلمبند کی تھی جو آج ناپید ہے۔ لکھنؤ میں مرثیے کی ابتدا ایک ہندو شاعر چھنو لال طرب سے ہوئی جو بعد میں مسلمان ہو گئے اور دلگیر تخلص کرتے تھے۔ اردو کے جن قدیم ہندو شاعروں نےمرثیے اور سلام لکھے ہیں، ان میں سے چند کے نام یہ ہیں۔ منشی دوارکا پرشاد افق، چھنو لال طرب، گردھاری پرشاد باقی، سرکشن پرشاد شاد، پیارے لال رونق، چھیدی پرشاد شید اور راجا الفت رائے الفت کے نام قابل ذکر ہیں۔ تاج بہادر غریب کے بارے میں کہا جاتاہے کہ ہمیشہ عشرہ محرم میں تعزیہ رکھتے تھے اور لالہ خدا بخش کہلواتے تھے۔ ان کے والد منشی عالم چند بھی امام حسینؓ کے شیدائی تھے اور اسی رعایت سے لالہ حسین بخش پکارے جاتے تھے۔

    عہد حاضر کے جن ہندو شاعروں نے مرثیے اور سلام کہے ہیں، یہاں ان میں سے چند کا ذکر اجمالاً کیا جاتا ہے، 

    نانک چند نانک شاگر دپیارے صاحب رشید بھی مرثیہ کہتے ہیں۔ ان کو یہ فخر حاصل رہا ہے کہ شیعہ حضرات ان کو منبر پر بٹھا کر مرثیہ پڑھواتے تھے۔ گوپی ناتھ امن بھی شیعہ حضرات کی طرح محرم کو پورے احترام کے ساتھ مناتے ہیں، ان کی نظم ’’حسینؓ‘‘ کا ایک شعر ملاحظہ ہو، 

    رنگ بدلیں ہندو ومسلم وطن میں کتنے ہی
    امن کو رہنا ہے آخر تک پرستار حسینؓ

    حضرت امام حسینؓ کی خدمت میں اردو کے ہندو شاعر اپنی عقیدت کو یوں پیش کرتے ہیں، 

    اف رے قربانی عظیم اس کی
    مرد میدانِ کربلا کو سلام

    بندگی جس پہ ناز کرتی ہے
    دل سے اس بندۂ خدا کو سلام
    منور

    فطرت کی مصلحت کا اشارہ حسینؓ تھا
    قربانیوں کی آنکھ کا تارا حسینؓ تھا

    وہ اس لیے مٹا کہ ستم کو مٹا سکے
    پھر کیوں نہ یہ کہوں کہ ہمارا حسینؓ تھا
    قمر جلال آبادی

    ہندوؤں کے اس جذبۂ غم کی بنیاد انسانیت کے وسیع تر مفہوم پر ہے، 

    غیرمسلم ہیں شریک غم مسلمانوں کے ساتھ
    آج ہمدردی ہے انسانوں کو انسانوں کے ساتھ
    کرشن گوپال مغموم

    ہے حق و صداقت مرا مسلک ساحر
    ہندو بھی ہوں شبیرؓ کا شیدائی بھی
    رام پرکاش ساحر

    کافر کوئی کہے تو کہے امن کو مگر
    اس کے دل و جگر میں قیام حسینؓ ہے
    گوپی ناتھ امن

    آتی ہے بام عرش سے لب پر مرے صدا
    دل سے جگر بھی آل نبیؐ کا غلام ہے
    رام نرائن جگر

    یہ کفر سے بدتر ہے اگر اے منصور
    اس زندۂ جاوید کا ماتم نہ کروں
    گیان چند منصور

    حضرت امام حسینؓ کا پیغام صرف مسلمانوں یا ہندوؤں کے لیے نہیں، وہ جہاں بھر کے لیے ہے اور ہر انسان کے لیے اس کی تعظیم واجب ہے، 

    تخصیص نہ ہندو کی نہ مسلم کی ہے اس میں
    شبیرؓ کا پیغام جہاں بھر کے لیے ہے
    دگمبر پرشاد گوہر

    درس آموز جہاں ہے اب بھی تعلیم حسینؓ
    سب کریں جامِ شہادت پی کے تعظیم حسینؓ
    کرشن گوپال مغموم

    شیش چندر طالب دہلوی نے ایک کتاب ’’ہمارے حسین‘‘ مرتب کی ہے۔ یہ کتاب محرم ۱۹۴۵ء میں ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں کو پیش کی گئی تھی۔ اس میں موجودہ ہندو شاعروں کے کہے ہوئے مرثیے اور سلام یکجا کر دیے گئے ہیں۔ اوپر جن شاعروں کاذکر کیا جا چکا ہے، ان کے علاوہ اس کتاب میں جن شاعروں کا کلام درج ہے، ان کے نام یہ ہیں، جوش ملسیانی، عرش ملسیانی، راجندر ناتھ شیدا، ضیا فتح آبادی، نرائن داس طالب، گرسرن لال ادیب، پریم چند پریم، چند بہاری لال ماتھر صبا، جگدیش سہائے سکسینہ، گلشن جلال آبادی، شنکر سروپ مفتوں، شگن چند روشن، امر چند قیس، بلونت کمار ساگر، رام پرتاپ اکمل اور رام لال ورما۔
    (باقی دوسری قسط میں)

    حواشی
    (۱) پنجاب میں اردو، ص، ۳۰۶
    (۲) ضمیمہ اخبار دربار لکھنؤ، یکم جون ۱۹۲۷
    (۳) بہ حوالہ منور لکھنوی۔
    (۴) ڈاکٹر تارا چند، معارف نمبر، ۳، جلد، ۴۵، ص، ۲۳۱
    (۵) رمبھا، اندر لوک کی پری۔
    (۶) اروشی، اندرلوک کی پری۔
    (۷) مدن، کام دیو (cupid) کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
    (۸) ہندو میتھولوجی میں چار اہم ناگوں کا ذکر آتا ہے، کالی ناگ، شیش ناگ، تکشک اور باسک۔ ولی کے شعر میں باسک مراد ہے۔
    (۹) ہندو شعرا، ص، ۱۱۴۔
    (۱۰) بعد کے شعرا میں شاید ہی کوئی ہندو شاعر ہوگا جس نے نعتیہ کلام نہ کہا ہو۔ کنور مہندر سنگھ بیدی کا مشہور شعر ہے۔
    صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں
    عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
    اسی طرح چندر بھان خیال کی پندرہ سو مصرعوں پر مشتمل طویل نظم ’’لولاک‘‘ سیرت نبوی پر اپنی نوعیت کی منفرد نظم ہے جس میں سوانح اور سیرت دونوں کی مرقع کشی تخلیقی محویت کے ساتھ کی گئی ہے۔

     

    مأخذ:

    کاغذ آتش زدہ (Pg. 94)

    • مصنف: گوپی چند نارنگ
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2011

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے