aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو، ہندی، ہندوستانی (۱)

پریم چند

اردو، ہندی، ہندوستانی (۱)

پریم چند

MORE BYپریم چند

    یہ سبھی مانتے ہیں کہ قومی استحکام کے لئے معاشرتی اتحاد لازمی ہے اور کسی قوم کی زبان اور رسم الخط اس معاشرتی اتحاد کا ایک خاص جزو ہے، محترمہ خالدہ ادیب خانم نے اپنی ایک تقریر میں ترکی قوم کے اتحاد کو ترکی زبان سے منسوب کیا ہے اور یہ ایک امر مسلمہ ہے کہ قومی زبان کے بغیر کسی قوم کا وجود ہی ذہن میں نہیں آتا۔ جب تک ہندوستان کی کوئی قومی زبان نہیں ہے وہ قومیت کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ ممکن ہے کہ زمانہ قدیم میں ہندوستان ایک قوم رہا ہو، لیکن بودھوں کے زوال کے بعد اس کی قومیت بھی فنا ہوگئی اور حالانکہ معاشرتی یک رنگی موجود تھی، لیکن اختلاف زبان نے اس تفریق کے عمل کو اور بھی آسان کردیا۔

    اسلامی دور میں بھی جو کچھ ہوا، وہ مختلف صوبوں کا سیاسی اجتماع تھا۔ قومیت کا وجود نہ تھا۔ حق تو یہ ہے کہ قوم کا خیال مقابلتاً زمانہ حال کی ایجاد ہے جس کی عمر تقریباً ۲۰۰ سال سے زیادہ نہیں۔ ہندوستان میں قوم کی ابتداء انگریزی تسلط کے ساتھ شروع ہوئی اور اسی کے استحکام کے ساتھ اس کی ارتقا ہو رہی ہے لیکن اس وقت تک بجز سیاسی محکومیت کے ملک کے مختلف عناصر میں کوئی ایسا رشتہ نہیں ہے جو انھیں منظم کر کے ایک قوم بنادے۔ اگر آج انگریزی حکومت اٹھ جائے تو بہت ممکن ہے کہ ان عناصر میں جو اتحاد نظر آرہا ہے، وہ افتراق کی صورت اختیار کرے اور مختلف زبانوں کی بنا پر ایک نیا دستوری نظام پیدا ہو جائے، جس کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہ ہو، اور پھر وہی کشمکش شروع ہو جائے جو انگریزوں کے آنے سے پہلے تھی، اس لئے قوم کی بقا کے لئے لازمی ہے کہ ملک میں معاشرتی اتحاد ہو اور چونکہ زبان اس اتحاد کا ایک خاص رکن ہے، ضروری ہے کہ ہندوستان کی ایک قومی زبان ہو، جو ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بولی اور سمجھی جائے۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ کچھ دنوں میں قومی ادب کی تدوین بھی شروع ہو جائے گی اور ایک زمانہ وہ آئے گا جب اقوام کی ادبی مجلس میں ہندوستانی زبان مساویانہ حیثیت سے شریک ہونے کے قابل ہو جائے۔

    لیکن اس قومی زبان کی صورت کیا ہو، صوبہ جات کی مروجہ زبانوں میں تو قومی زبان بننے کی صلاحیت نہیں کیوں کہ ان کا دائرہ عمل محدود ہے، ایک ہی زبان ہے کہ جو ملک کے بڑے حصے میں بولی اور اس سے بڑے حصے میں سمجھی جاتی ہے اور اسی کو قومی زبان کا درجہ دیا جا سکتا ہے مگر اس وقت اس کی تین صورتیں ہیں۔ اردو، ہندی اور ہندوستانی اور ابھی تک قومی طورپر طے نہیں کیا جاسکا کہ ان میں کون سی صورت میں زیادہ مقبول اور زیادہ آسانی سے مروج ہو سکتی ہے؟ تینوں ہی صورتوں کے مؤید موجود ہیں اور ان میں کھینچا تانی ہوتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ اس اختلاف کو سیاسی رنگ دے دیا گیا ہے اور ہم اس مسئلہ پر ٹھنڈے دل اور دماغ سے غور کرنے کے ناقابل ہو گئے ہیں۔ لیکن ان رکاوٹوں کے باوجود ہمیں چاہئے کہ ہندوستانی قومیت کی منزل کو ناقابل حصول سمجھ کر ہمت نہ ہار بیٹھیں، ہمیں اس مسئلہ کو کسی نہ کسی طرح حل کرنا ہے۔

    ملک میں ایسے آدمیوں کی تعداد کم نہیں ہے جو اردو اور ہندی کی انفرادی نشو ونما میں حارج نہیں ہونا چاہتے، انہوں نے یہ مان لیا ہے کہ ابتداء میں ان دونوں صورتوں میں جو کچھ یکسانیت رہی ہو، لیکن اس وقت دونوں کی دونوں جس راستے پر جا رہی ہیں اس میں اتصال ہونا غیر ممکن ہے۔ ہر ایک زبان میں ایک فطری رجحان ہوتا ہے۔ اردو کو فارسی اور عربی سے فطری مناسبت ہے۔ ہندی کو سنسکرت اور پراکرت سے، اس رجحان کو ہم کسی طاقت سے بھی روک نہیں سکتے، پھر ان دونوں کو باہم ملانے کی کوشش میں کیوں ان دونوں کو نقصان پہنچائیں۔

    اگر اردو اور ہندی دونوں اپنے کو اپنے مولد و مسکن تک ہی محدود رکھیں تو ہمیں ان کی فطری نشو ونما سے کوئی اعتراض نہ ہو،۔ بنگالی، مرہٹھی، گجراتی، تامل، تلنگی، کنڑی وغیرہ،۔ ان صوبہ جاتی زبانوں کے متعلق، میں کوئی پریشانی نہیں، انہیں اختیار ہے اپنے اندر چاہے جتنی سنسکرت، عربی یا لاطینی بھریں، ان کے اہل قلم خود اس کا فیصلہ کرسکتے ہیں لیکن اردو اور ہندی کی نوعیت جدا ہے۔ یہاں تو دونوں ہی ہندوستانی قومی زبان کہلانے کی مدعی ہیں، مگر چونکہ اپنی انفرادی صورت میں وہ قومی ضرورتوں کی تکمیل نہ کر سکیں، اس لئے اضطراری طور پر خود بہ خود ان کے اتصال کا عمل شروع ہوگیا اور وہ متحدہ صورت پیدا ہوگئی، جسے ہم ہندوستانی زبان کہنے میں حق بہ جانب ہیں۔

    حقیقت تو یہ ہے کہ ہندوستان کی قومی زبان نہ تو وہ اردو ہوسکتی ہے جو عربی اور فارسی کے غیرمانوس الفاظ سے گراں بار ہے اور نہ وہ ہندی جو سنسکرت کے ثقیل الفاظ سے لدی ہوئی ہے۔ اگر آج دونوں مسلکوں کے وکیل آمنے سامنے کھڑے ہوکر اپنی اپنی تحریری زبان میں باتیں کریں تو شاید ایک دوسرے کا مفہوم مطلق نہ سمجھیں۔ ہماری قومی زبان تو وہی ہوسکتی ہے جس کی بنیاد عمومیت پر قائم ہو۔ وہ اس کی پرواہ کیوں کرنے لگی کہ فلاں لفظ سے اس لئے احتراز کیا جائے کہ وہ فارسی ہے یا عربی یا سنسکرت۔ وہ صرف یہ معیار اپنے سامنے رکھتی ہے کہ اس لفظ کو عوام سمجھ سکتے ہیں یا نہیں اور عوام میں ہندو مسلمان، پنجابی، بنگالی، مرہٹی، گجراتی سب ہی شامل ہیں۔ اگر کوئی لفظ یا محاورہ یا اصطلاح مروج عام ہے تو وہ اس کے متخرج اور مولد کی پرواہ نہیں کرتی۔ یہی ہندوستانی ہے اور جس طرح انگریزوں کی زبان انگریزی، جاپان کی جاپانی، ایران کی ایرانی، چین کی چینی ہے، اسی طرح ہندوستان کی قومی زبان کو اسی وزن پر ہندوستانی کہنا مناسب ہی نہیں بلکہ لازمی ہے۔

    اگر اس ملک کو ہندوستان نہ کہہ کر صرف ہند کہیں تو اس کی زبان کو ہندی کہہ سکتے ہیں لیکن اس کی زبان کو اردو تو نہیں کہا جاسکتا، تاوقتیکہ ہم ہندوستان کو اردوستان نہ کہنے لگ جائیں، جواب ممکنات سے خارج ہے۔ قدما یہاں کی زبان کو ہندی ہی کہتے ہیں اور خسرو نے خالق باری تصنیف کرکے ہندوستانی کی بنیاد ڈالی، ان کا منشا اس تصنیف سے غالباً یہی ہوگا کہ عام صورت کے الفاظ دونوں صورتوں میں عوام کو سکھلا دیے جائیں تاکہ انھیں اپنے روز مرہ کے تعلقات میں سہولت ہو جائے۔

    اردو کی تخلیق کب اور کہاں ہوئی ہے؟ اس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا۔ بہرحال ہندوستان کی قومی زبان نہ اردو ہے، نہ ہندی، بلکہ ہندوستانی ہے۔ جو سارے ہندوستان میں سمجھی جاتی ہے اور بڑے حصے میں بولی جاتی ہے لیکن لکھی کہیں نہیں جاتی اور اگر کوئی لکھنے کی کوشش کرتا ہے تو اردو اور ہندی کے ادیب اسے ٹاٹ باہر کر دیتے ہیں۔ در اصل اردو اور ہندی کی ترقی میں جو چیز سد راہ ہے، وہ ان کی خواص پسندی ہے۔ ہم اردو لکھیں یا ہندی، عوام کے لئے نہیں لکھتے، بلکہ ایک محدود طبقہ کے لئے لکھتے ہیں، یہی وجہ ہےکہ ہماری ادبی تصانیف کو حسن قبول نہیں حاصل ہوتا۔ یہ بالکل درست ہے کہ ملک میں بھی تحریری اور تقریری زبانیں ایک نہیں ہوتیں جو انگریزی ہم کتابوں اور اخباروں میں پڑھتے ہیں وہ کہیں بھی نہیں بولی جاتی۔ پڑھے لکھے لوگ بھی تحریری زبان میں گفتگو نہیں کرتے اور عوام کی زبان تو بالکل الگ ہوتی ہے لیکن انگلینڈ کے ہر ایک پڑھے لکھے آدمی سے یہ توقع ضرور کی جاتی ہے کہ وہ تحریری زبان سمجھے اور موقع پڑنے پر اس کا استعمال بھی کر سکے۔ یہی ہم ہندوستان میں بھی چاہتے ہیں۔

    مگر آج کیا کیفیت ہے؟ ہمارا ہندی اسکول تلا ہوا ہے کہ وہ غیرہندی الفاظ کو ہندی میں کسی طرح داخل نہ ہونے دے گا، اسے ’’منشیۃ‘‘ سے محبت ہے مگر آدمی سے قطعی نفرت، درخواست مروج عام ہونے کے باوجود اس کے یہاں ممنوع ہے، اس کے بجائے وہ ’’پرارتھنا‘‘ کا قائل ہے، حالانکہ عوام اس کا مفہوم بالکل نہیں سمجھتے، ’’استعفیٰ‘‘ کو وہ کسی طرح قبول نہیں کر سکتا۔ اس کے بجائے وہ ’’تیاگ پتر‘‘ چاہتا ہے۔ ہوائی جہاز کتنا ہی عام فہم ہو، لیکن اسے، دایویان کی سیر ہی پسند ہے۔ اردو اسکول اس سے بھی زیادہ چھوت چھات کا دلدادہ ہے۔ وہ خدا کا تو معتقد ہے مگر ’’ایشور‘‘ سے منکر ’’قصور‘‘ تو وہ کتنے ہی کرتا ہے، مگر اپرادھ کبھی نہیں کر سکتا۔ خدمت تو اسے بہت پسند ہے مگر ’’سیوا‘‘ ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اس طرح ہم نے اردو اور ہندی کے دو الگ الگ کیمپ بنالئے ہیں اور مجال نہیں کہ ایک کا کوئی فرد دوسرے کے حدود میں داخل ہو سکے۔ اس اعتبار سے اردو مقابلتاً ہندی سے کہیں زیادہ سخت گیر واقع ہوئی ہے۔ ہندوستانی اس چار دیواری کو توڑ کر دونوں میں ربط ضبط پیدا کردینا چاہتی ہے تاکہ دونوں ایک دوسرے کے گھر بے تکلف آ جا سکیں۔ محض مہمان کی حیثیت سے نہیں بلکہ گھر کے آدمی کی طرح۔

    گارسن ڈی ٹاسی کے الفاظ میں اردو اور ہندی کے درمیان کوئی ایسی حد فاصل نہیں کھینچی جا سکتی، جہاں ایک کو مخصوص طورپر ہندی اور دوسرے کو اردو کہا جا سکے۔ انگریزی زبان کے مختلف رنگ ہیں، کہیں لاطینی اور یونانی الفاظ کی کثرت ہوتی ہے، کہیں اینگلو سیکسن الفاظ کی، مگر ہیں دونوں انگریزی، اسی طرح اردو یا ہندی الفاظ کے اختلاف کے باعث دو مختلف زبانیں نہیں ہو سکتیں، جو لوگ ہندوستانی قومیت کا خواب دیکھتے ہیں جو اس میں معاشرتی اتحاد کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں، ان سے ہماری التجا ہے کہ وہ ہندوستانی کی دعوت قبول کریں جو کوئی نئی زبان نہیں ہے بلکہ اردو اور ہندی کی قومی صورت ہے۔

    صوبہ متحدہ کے اپر پرائمری اسکولوں میں درجہ چہارم تک مشترکہ زبان یعنی ہندوستانی کی ریڈریں پڑھائی جاتی ہیں، صرف رسم الخط جدا ہوتا ہے، زبان میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ صیغہ تعلیم کا منشا یہ ہوگا کہ اس طرح سے طلباء میں چین سے ہندوستانی کی بنیاد پڑ جائے گی اور وہ عام ہندی اردو الفاظ سے مانوس ہو جائیں گے۔ دوسرا فائدہ یہ تھا کہ ایک ہی مدرس تعلیم دے سکتا تھا۔ اس وقت بھی یہی نصاب نافذ ہے، لیکن ہندی اور اردو کے حامیوں کی جانب سے شکایتیں شروع ہوگئی ہیں کہ مشترکہ زبان کی تعلیم سے طلباء کی ادبی استعداد کچھ نہیں ہونے پاتی اور وہ اپر پرائمری کے بعد بھی معمولی کتابیں تک نہیں سمجھتے۔ چنانچہ اس شکایت کو رفع کرنے کے لئے ان عام ریڈروں کے علاوہ اپر پرائمری درجوں کے لئے ایک ادبی ریڈر بھی مقرر ہوئی۔ ہمارے رسالے اور اخبارات اور کتابیں خالص اردو یا خالص ہندی میں شائع ہوتے ہیں۔ اس لئے جب تک اردو لڑکوں کے پاس فارسی اور عربی الفاظ کا اور ہندی لڑکوں کے پاس سنسکرت الفاظ کا کافی ذخیرہ نہ موجود ہو، وہ کوئی اردو یا ہندی کی کتاب نہیں سمجھ سکتے، اس طرح بچپن ہی سے ہمارے یہاں اردو ہندی کی تفریق شروع ہو جاتی ہے، کیا اس تفریق کو مٹانے کوئی ترکیب نہیں ہے۔

    جو لوگ تفریق کے حامی ہیں، ان کے پاس اپنے اپنے دعوے کی دلیلیں موجود ہیں، مثلاً خالص ہندی کے وکیل کہتے ہیں کہ سنسکرت کی طرف جھکنے سے ہندی زبان ہندوستان کی دوسری صوبہ جاتی زبانوں کے قریب ہو جاتی ہے۔ اپنے خیالات کے اظہار کے لئے اسے بنے بنائے الفاظ مل جاتے ہیں، تحریر میں ادبیت آجاتی ہے وغیرہ۔ علی ہذا اردو کے عَلم بردار کہتے ہیں کہ فارسی عربی کی طرف جھکنے سے ایشیا کی دوسری زبانیں مثلاً فارسی، عربی اردو کے قریب آ جاتی ہیں۔ اپنے خیالات کے اظہار کے لئے اسے عربی کا علمی خزانہ معلوم ہو جاتا ہے، جس سے زیادہ علمی زبان دوسری نہیں اور طرز انشاء میں متانت اور شکوہ پیدا ہو جاتا ہے وغیرہ۔ اس لئے کیوں نہ ان دونوں کو اپنے ڈھنگ پر چلنے دیا جائے؟ اور انہیں با ہم ملا کر کیوں دونوں کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کی جائیں۔ اگر سبھی اس استدلال سے متفق ہو جائیں تو اس کے معنی یہی ہوں گے کہ ہندوستان میں کبھی قومی زبان کا ارتقا نہ ہوگا۔ اس لئے ہمیں لازم ہے کہ حتی الامکان اس ذہنیت کو دور کر کے ایسی فضا پیدا کریں جس سے ہم روز بہ روز قومی زبان کے قریب تر پہنچتے جائیں اور ممکن ہے دس بیس سال کے بعد ہمارا خواب حقیقت میں تبدیل ہو جائے۔

    ہندوستان کے ہر ایک صوبہ میں مسلمانوں کی کم و بیش تعداد موجود ہے، صوبہ متحدہ کے علاوہ اور بھی شہروں میں مسلمانوں نے ہر ایک صوبہ کی زبان اختیار کرلی ہے۔ بنگال کا مسلمان بنگلہ بولتا ہے اور لکھتا ہے، گجرات کا گجراتی، میسور کا کناری، مدراس کا تامل، پنجاب کا پنجابی وغیرہ، یہاں تک اس نے اپنے صوبہ کا رسم الخط بھی اختیار کر لیا ہے۔ اردو خط اور زبان سے اسے عقیدت ہو سکتی ہے لیکن روز مرہ کی زندگی میں اسے اردو کی ضرورت ابھی نہیں پڑی۔ اگر دیگر صوبہ جات کے مسلمان ان صوبوں کی زبانیں بے تکلف سیکھ سکتے ہیں اور اسے یہاں تک اپنی بنا سکتے ہیں کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کی زبان میں مطلق امتیاز نہیں رہتا، تو صوبہ متحدہ اور پنجاب کے مسلمان کیوں ہندی سے اس قدر متنفر ہیں۔

    ہمارے صوبے کے دیہاتوں میں رہنے والے مسلمان بالعموم دیہاتیوں کی زبان بولتے ہیں، بہت سے مسلمان جو دیہاتوں سے آکر شہروں میں آباد ہوگئے، وہ بھی گھروں میں دیہاتی زبان ہی استعمال کرتے ہیں، بول چال کی ہندی سمجھنے میں نہ عام مسلمانوں کو کوئی دقت ہوتی ہے، نہ بول چال کی اردو سمجھنے میں عام ہندوؤں کو۔ بول چال کی ہندی اور اردو قریب قریب یکساں ہیں۔ ہندی کے ان الفاظ کی تعداد جو عام کتابوں اور اخباروں میں مروج ہیں اور کبھی کبھی پنڈتوں کی تقریروں میں بھی آجاتے ہیں دوہزار سے زیادہ نہ ہوگی۔ علی ہٰذا فارسی کے عام الفاظ بھی اس سے زیادہ نہ ہوں گے۔ کیا اردو کے موجودہ لغات میں دو ہزار ہندی الفاظ کا اضافہ اور ہندی کے لغات میں دو ہزار اردو الفاظ کا اضافہ نہیں کیا جا سکتا اور اس طرح ہم ایک مشترکہ لغت کی تدوین نہیں کر سکتے؟ کیا ہمارے حافظہ پر یہ بار ناقابل برداشت ہوگا؟ ہم انگریزی کے بے شمار الفاظ یاد کر سکتے ہیں، محض ایک عارضی غرض کی تکمیل کے لئے۔ کیا ہم ایک دیر پا مقصد کے لئے تھوڑے سے الفاظ بھی نہیں یاد کر سکتے؟ اردو اور ہندی زبانوں میں ابھی نہ وسعت ہے نہ پختگی۔ ان کے الفاظ کی تعداد محدود ہے۔ اکثر معمولی مطالب ادا کرنے کے لئے موزوں الفاظ نہیں ملتے، اس اضافہ سے یہ شکایت دور ہو سکتی ہے۔

    ہندوستان کی سبھی زبانیں بے واسطہ یا بالواسطہ سنسکرت سے نکلی ہیں، گجراتی، مرہٹھی، بنگالی میں تو رسم الخط بھی ہندی سے ملتا جلتا ہے، دکھن کی زبانوں میں بھی رسم الخط کے بالکل جدا ہوتے ہوئے سنسکرت الفاظ کی آمیزش بہت زیادہ ہے، عربی اور فارسی کے الفاظ سبھی صوبہ جاتی زبانوں میں کچھ نہ کچھ ملتے ہیں، لیکن اتنی کثرت سے نہیں جتنی کہ ہندی میں، اس لئے یہ بالکل درست ہے کہ ایسی ہندی جس میں سنسکرت الفاظ زیادہ ہوں، ہندوستان میں میں آسانی سے مقبول ہو سکتی ہے۔ دیگر صوبوں کے مسلمان بھی اس قسم کی ہندی کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں، فارسی اور عربی کے گراں بار اردو کے لئے صوبہ متحدہ اور پنجاب کے شہروں اور قصبوں اور حیدرآباد کے بڑے شہروں کے سوا اور کوئی دائرہ نہیں۔

    مسلمان تعداد میں ضرور آٹھ کروڑ ہیں لیکن اردو بولنے والے مسلمان اس کے ایک چوتھائی سے زیادہ نہ ہوں گے تو کیا اعلیٰ قومیت کا تقاضہ یہ نہیں ہے کہ اردو میں کچھ ضروری ترمیم اور اضافہ کر کے اسے ہندی سے متصل کر لیں، اور ہندی میں اسی طرح کے اضافے کر کے اسے اردو سے ملا دیں اور اس مشترکہ زبان کو مستحکم کر دیں جو سارے ہندوستان میں سمجھی اور بولی جائے اور ہمارے مصنفین، جو کچھ لکھیں وہ ایک مخصوص طبقہ کے لئے نہیں بلکہ سارے ہندوستان کے لئے ہو۔۔۔ زبان اس قسم کی آمیزش کی بہت اچھی مثال ہے۔ سندھی رسم الخط میں عربی ہے، حالانکہ اس میں ہندی کے سبھی اصوات شامل کرلئے گئے ہیں اور الفاظ میں بھی سنسکرت، عربی اور فارسی کچھ اس طرح خلط ملط ہوگئے ہیں کہ کہیں بھونڈا پن یا ثقالت کا احساس نہیں ہوتا۔ ہندوستانی کے لئے بھی کچھ اسی طرح کی آمیزش کی ضرورت ہے۔

    تفریق کے حامیوں کی یہ دلیل بڑی حد تک صحیح ہے کہ مشترکہ زبان میں قصے کہانیاں اور ڈرامے تو لکھے جا سکتے ہیں، لیکن علمی مضامین اس زبان میں نہیں ادا کئے جا سکتے۔ وہاں تو مجبوراً مفرس اور معرب اردو اور سنسکرت آمیز ہندی کا استعمال ضروری ہو جائے گا۔ علمی مضامین کے ادا کرنے میں سب سے بڑی ضرورت موزوں اصطلاحات کی ہوتی ہے اور اصطلاحات کے لئے ہمیں مجبوراً عربی اور سنسکرت کے لامحدود ذخائر کے سامنے دست سوال پھیلانا ہوگا۔ اس وقت ہر ایک صوبہ جاتی زبان علیحدہ علیحدہ اپنی اپنی اصطلاحیں مرتب کر رہی ہے۔ اردو میں بھی علمی اصطلاحات بنائی گئی ہیں اور ابھی یہ عمل جاری ہے۔ کیا یہ کہیں بہتر نہ ہوگا کہ مختلف صوبہ جاتی انجمنیں مجموعی مشورے اور امداد سے اس اہم کام کو سر انجام دیں۔ اس سے فرداً فرداً جو کاوش اور دماغ ریزی اور وقت صرف کرنا پڑ رہا ہے، اس میں بہت کچھ بچت ہو سکتی ہے۔

    ہمارے خیال میں تو بجائے اس کے کہ نئے سرے سے اصطلاحات بنائی جائیں یہ کہیں بہتر ہے کہ انگریزی کی مروجہ اصطلاحیں ضروری ترمیم کے ساتھ لے لی جائیں۔ یہ اصطلاحیں محض انگریزی میں مروج نہیں ہیں، بلکہ قریب قریب سبھی ترقی یافتہ زبانوں میں ان سے ملتی جلتی اصطلاحیں پائی جاتی ہیں، کہتے ہیں کہ جاپانیوں نے یہی طرز عمل اختیار کیا ہے اور مصر میں بھی خفیف ترمیموں کے ساتھ انھیں لے لیا گیا ہے۔ اگر بٹن اور لالٹین اور بائیسکل اور دیگر صدہا غیر ملکی الفاظ ہماری زبان میں کھپ سکتے ہیں تو اصطلاحوں کو لینے میں کون سا امر مانع ہو سکتا ہے۔ اگر ہر ایک صوبہ نے اپنی اپنی اصطلاحیں علیحدہ بنائیں تو ہندوستان کی کوئی قومی علمی زبان نہ بن سکے گی۔ بنگلہ، مرہٹھی، گجراتی، کناری وغیرہ زبانیں سنسکرت کی مدد سے اس مشکل کو حل کر سکتی ہیں۔ اردو بھی عربی اور فارسی کی مدد سے اپنی اصطلاحی ضرورتیں پوری کر سکتی ہے لیکن ایسے الفاظ ہمارے لئے مروجہ انگریزی اصطلاحوں سے بھی زیادہ غیر مانوس ہوں گے۔

    آئین اکبری نے ہند و فلسفہ اور موسیقی اور عروض کے لئے سنسکرت کی مروجہ اصطلاحوں کو اختیار کر کے اس کی مثال قائم کردی ہے۔ اسلامی فلسفہ اور دینیات اور عروض میں ہم موجودہ عربی اصطلاحوں کو اختیار کر سکتے ہیں۔ جو علوم مغرب سے اپنی اپنی اصطلاحیں لے کر آئے ہیں، انھیں بھی ہم قبول کرلیں تو ہماری تاریخی روایات سے بعید نہ ہوگا۔

    یہ کہا جا سکتا ہے کہ مخلوط ہندوستانی اتنی فصیح اور لطیف نہ ہوگی لیکن لطافت اور فصاحت کا معیار ہمیشہ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ اچکن پر انگریزی ٹوپی کئی سال پہلے بے جوڑ اور مضحکہ انگیز معلوم ہوتی تھی لیکن اب وہ معمولی نظارہ ہے۔ عورت کے لئے گیسو حسن کے ایک خاص رکن ہیں لیکن اب تراشے ہوئے بال مقبول ہو رہے ہیں پھر کسی زبان کی صفت محض اس کی فصاحت نہیں ہے بلکہ مطالب ادا کرنے کے قابلیت ہے۔ لطافت اور فصاحت کی قربانی کر کے بھی اگر ہم اپنی قومی زبان کا دائرہ وسیع کر سکیں تو ہمیں اس میں تامل نہ ہونا چاہئے۔

    جب سیاسی دنیا میں فیڈریشن کی بنیاد ڈالی جا رہی ہے، تو کیوں نہ ہم ادبی دنیا میں ایک فیڈریشن قائم کریں، جس میں ہر ایک پردانش زبان کے نمائندے سال میں ایک بار ایک ہفتہ کے لئے کسی مرکزی مقام پر جمع ہو کر قومی زبان کے مسئلہ پر تبادلۂ خیالات کریں اور تجربہ کی روشنی میں سامنے آنے والی مشکلات کو حل کر سکیں۔ جب ہماری زندگی کے ہر ایک شعبہ میں تبدیلیاں ہوتی جا رہی ہیں اور اکثر ہماری مرضی کے خلاف، تو زبان کے معاملے میں ہم کیوں ایک سو سال قبل کے خیالات اور نظریات پر قائم رہیں؟ اب موقع ہے کہ ایک آل انڈیا ہندوستانی زبان اور ادب کی انجمن قائم کی جائے، جس کا کام ہندوستانی زبان کا وہ ارتقا ہو جس سے وہ ہر ایک صوبہ میں مقبول ہو سکے۔ اس انجمن کے فرائض اور مقاصد کیا ہوں گے؟ اس پر یہاں لکھنے کی ضرورت نہیں، یہ اس انجمن کا کام ہے کہ وہ اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے اپنا پروگرام مرتب کرے۔ ہماری تو یہی گزارش ہے کہ اب اس کار خیر میں تاخیر کی گنجائش نہیں ہے۔

    مأخذ:

    مضامین پریم چند (Pg. 189)

    • مصنف: پریم چند
      • ناشر: انجمن ترقی اردو، پاکستان
      • سن اشاعت: 1981

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے