Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو ہندی کا قضیہ

ماہر القادری

اردو ہندی کا قضیہ

ماہر القادری

MORE BYماہر القادری

     

    دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کسی فرماں روا کو ہندوستان جیسا بیوقوف اور ناسمجھ ملک حکومت کرنے کے لیے نہیں ملا۔ ناواقفیت اور کورچشمی کی حالت میں، کنوئیں میں گرجانا قابل اعتراض فعل نہیں، لیکن سب کچھ دیکھتے اور سمجھتے ہوئے کنوئیں میں گرپڑنا، یقیناً دماغ کی خرابی اور فہم کی کوتاہی کی دلیل ہے۔ 

    ابھی ہندو، مسلمان حقوق کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے اور یہ گتھی سلجھنے بھی نہ پائی تھی کہ زبان کااختلاف پیدا ہوگیا۔ جس نے رہے سہے اتحاد کا خاتمہ کردیا اور ہندو اور مسلمانوں کے درمیان افتراق و انشقاق کی گہری اور وسیع خلیج حائل ہوگئی۔ اگر مدبرین ملک نے مسئلہ کی نزاکت محسوس کرتے ہوئے، زبان کے اس اختلاف کو دور نہ کیا، تو یہ خلیج اور زیادہ وسیع و عمیق ہوجائے گی اور پھر اس کی پایابی کے امکانات شاید باقی نہ رہیں گے۔ 

    مولوی عبدالحق صاحب معتمد انجمن ترقی اردو نے جو بیان شائع کرایا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ برادرانِ وطن نے اس اکھاڑے میں کتنی پھرتی اور چالاکی کے ساتھ پینترے بدلے ہیں اور اردو کو مٹانے کے لیے کس قدر منظم کوشش کی جارہی ہے۔ نوعیت مسئلہ اب اس منزل میں پہنچ گئی ہے، جہاں خاموش رہنا گناہ نہیں کفر ہے۔ اردو کے جسم پر جب تک خراشیں پہنچائی جاتی رہیں، ہم خاموش رہے، مگر اب جب کہ گلے پر چھری رکھ دی گئی ہے، زبان فریاد کرنے سے کس طرح رک سکتی ہے 

    ہندولیڈروں میں تین اصحاب غیرمعمولی اثر و اقتدار رکھتے ہیں۔ مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو اور پنڈت مدن موہن مالویہ! ہندوستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ پنڈت مالویہ جی نے ہندو، مسلم اختلاف کی خلیج کو اپنے طرزِ عمل اور روش سے ہمیشہ وسیع کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے ہم ان سے قریب قریب مایوس ہیں۔ مہاتما گاندھی سے بہت کچھ امیدیں وابستہ تھیں مگرجب سے مہاتما جی ضمیر کی آواز سننے لگے ہیں، مذہبی تعصب نے ان کے دل و دماغ کو گھیر لیا ہے۔ انہوں نے سیاسیات سے علیحدگی اختیار کرکے، ہریجن تحریک شروع کردی، جو خالص مذہبی تحریک ہے۔ 

    مہاتما جی کو ہندومسلمان دونوں اعتماد کی نظر سے دیکھتے تھے مگر ان کی عجیب و غریب روش نے اس اعتماد کو زائل کردیا، جس کے وزن نے ان کو ’’مسٹر‘‘ سے ’’مہاتما‘‘ بنادیا تھا۔ اس حقیقت کو کون جھٹلاسکتا ہے کہ کئی برس سے مہاتماجی کا وجود ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے اور ان کے خیالات مذہبی تعصب کے تنگ دائرہ سے باہر نکل ہی نہیں سکتے۔ خیال تھا کہ کانگریس کے اجلاس کے بعد ہندو مسلمانوں میں اتفاق ہوجائے گا اور مہاتما جی اپنی روش بدل دیں گے مگر انہوں نے روش میں تبدیلی پیدا کرنے کے بجائے، ہندی اردو کا فتنہ کھڑا کردیا، جس نے دوقوموں کو اختلافات کی دلدل میں پھنسا دیا۔ 

    جب مہاتما جی ملک کے خیرخواہ تھے اور ان کے دائرۂ فکر و عمل میں مسلمانوں کے لیے بھی جگہ تھی، اس وقت انہوں نے اردو زبان سیکھی اور اپنے قلم سے مسیح الملک حکیم اجمل خاں مرحوم کو اردو میں خط لکھامگر آج وہی مہاتما جی اردو سے بیزاری ظاہر فرماتے ہوئے، سنسکرت کے ایسے کٹھن الفاظ استعمال فرمارہے ہیں، جن کو شاید ’’پاننی‘‘ سمجھ سکے تو سمجھ سکے! جو زبان گاندھی جی استعمال کر رہے ہیں وہ اردو کو کھلا چیلنج ہے۔ ان حالات کے تحت مہاتماجی سے بھی ہم مایوس ہی سے ہیں، کیونکہ وہ ارادے کے بہت پکے ہیں، اور ایسا ارادہ، جس کی دیواروں میں تعصب کا سیسہ پگھلایا گیا ہو، اس کو کون جنبش دے سکتا ہے۔ 

    پنڈت جواہر لال نہرو ایک معقول اور وسیع القلب رہنما ہیں، جن کا مسلمان بھی اب تک احترام کرتے ہیں لیکن مصیبت یہ ہے کہ پنڈت جی فکر ورائے کی اس آزادی کے باوجود، گاندھی جی سے بے حد متاثر ہیں اور بعض وقت گاندھی جی کے ایک انچھر میں پنڈت جی کچھ سے کچھ ہوجاتے ہیں۔ ہنڈت جواہر لال نہرو خود اچھی اردو بولتے ہیں اور ان کی خواتین بھی اردو کے میٹھے بولوں کے لیے مشہور ہیں مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ جواہرلال نہرو کی صاحب زادی کو خاص طو رپر ہندی کی تعلیم دی جارہی ہے۔ 

    ہم ہندی کے دشمن نہیں ہیں، اگر کوئی شخص ہندی سیکھتا ہے تو اس میں ہماراکیا جاتا ہے، مگر پنڈت جواہر لال نہرو کی اس منقلب ذہنیت کا اتا پتا پاکر، شبہ ہوتا ہے کہ کہیں سابرمتی آشرم کے جوگی نے کچھ پڑھ کر پھونک تو نہیں دیا۔ اردو، ہندی کے مسئلہ میں پنڈت جواہر لال نہرو مذبذب سے نظر آتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اردو سے بظاہر ان کو خاص لگاؤ اور رغبت نہیں رہی۔ لیکن اس تمام افسوس ناک صورتِ حال کے باوجود ہم پنڈت جواہرلال نہرو سے مایوس نہیں ہیں۔ پنڈت جی، ملک کے بہی خواہ ہیں اور جب وہ محسوس کریں گے کہ اس اختلاف کے سبب ملک تباہی کے گڑھے میں جارہا ہے تو وہ ضرور اس کوسنبھالنے کی کوشش کریں گے۔ یہ ہماراقیاس ہے، خدا کرے یہ قیاس صحیح ثابت ہو۔ 

    ایک طرف اردو کے خلاف مورچہ جما ہوا ہے اور دوسری طرف ہز ایکسیلنسی سر مہاراج کشن پرشاد بہادر یمین السطنت، سر تیجؔ بہادر سپرو، مسٹر اینؔ ہسکر، پنڈت برج موہنؔ دتاتریہ کیفی، رائے بہادر امرناتھ اٹل، مسٹر سروجنی نائیڈو وغیرہ جیسے بہی خواہانِ اردو بھی موجود ہیں، جو اس مسئلہ میں تعصب سے بالکل الگ تھلگ رہ کر، حق کی حمایت کر رہے ہیں۔ خدا کرے کہ حق کی یہ حمایت بدستور جاری رہے، اور ورغلانے والوں کے حربے کارگر ثابت نہ ہوں۔ 

    کانگریس سے 
    اس کے بعد ہم ہندوستان کی سب سے بڑی نمایندہ اور منظم جماعت کانگریس سے دو دو باتیں کرنا چاہتے ہیں، بشرطیکہ ہماری آواز سنی جائے۔ ہماری آواز یقیناً کمزور ہے مگر کانگریس تو کمزوروں کی حمایت کی دعویدار ہے، ہم بے سروسامانی کی حالت میں حق کا نعرہ بلند کر رہے ہیں لیکن سنا ہے کہ کانگریس تو حق پرست بے سروسامانوں کو ہی اپنے آغوشِ شفقت میں لینے کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ اگر یہ دعویٰ صحیح اور درست ہیں تو پھر ہم کو یقین رکھنا چاہیے کہ ہماری آواز نہ صرف سنی جائے گی بلکہ اس پر ٹھنڈے دل سے غور بھی کیا جائے گا۔ 

    کانگریس کا نصب العین آزادی ہے اور یہ امربالکل متحقق اور مسلم ہے کہ ہندو مسلم اتحاد کے بغیر اس مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ مسلمانوں نے کانگریس میں شامل ہوکر جو قربانیاں دی ہیں، ان کو کسی طرح بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ پشاور کے شہدا مسلمان ہی تھے، جنہوں نے کانگریس کے اصول کی کامیابی کے لیے اپنی چھاتیوں پر گولیاں کھائیں اور خاک و خون میں تڑپ کر جان دے دی۔ ان قربانیوں سے کانگریس کے وقار میں کس قدر اضافہ ہوا، اس کاجواب کانگریس ہی دے گی۔ 

    اسمبلی کے گزشتہ انتخاب میں مسلمانوں نے کانگریس کا بہت کچھ ساتھ دیا مگر اب کانگریس کی روش مشتبہ معلوم ہوتی ہے اور وہ شاید مسلمانوں سے اشتراکِ عمل کرنا نہیں چاہتی۔ کانگریس کے اکثر ہندو لیڈر اردو کے مخالف ہیں اور مسٹر پٹوردھن جیسے لوگ تو اردو کی بنیادیں کھوکھلی کردینا چاہتے ہیں۔ یہ بالکل ظاہر ہے کہ وہ زبان جس کو کروڑوں انسان بولتے ہیں، جو ہزاروں کتابوں کاسرمایہ رکھتی ہے، کسی طرح مٹائی نہیں جاسکتی۔ اس تخریبی کوشش کا ہاں یہ نتیجہ ضرور برآمد ہوگا کہ ہندو، مسلمانوں کے دل پھٹ جائیں گے اور کانگریس اپنے حصولِ آزادی کے مقصد میں کبھی کامیاب نہ ہوسکے گی۔ 

    اگر میرے پاس اطلاعات صحیح پہنچی ہیں، تو مجھے اس کا اظہار کرتے ہوئے بڑا دکھ ہوتا ہے کہ کانگریس کے اجلاسوں کی کارروائیاں خالص ہندی زبان اور ہندی رسم الخط میں چھپواکر تقسیم کی گئیں۔ خدا کرے یہ اطلاعات غلط ہوں، لیکن اگر صحیح ہیں تو پھر کانگریس کی اس غیر دانشمندانہ روش پر ماتم کرنا پڑے گا۔ 

    اس کے بعد کانگریس سے یہ عرض کرنا ہے کہ اردو رسم الخط اور اردو کا سرحد، کابل، بلوچستان، کاشغر، لداخ، ایران، عراق، شام، فلسطین، شرق اردن، حجاز، یمن، مصر، جنوبی افریقہ، جاوہ وغیرہ ممالک سے گہراتعلق ہے اور لسانی اعتبار سے ترکستان سے بھی شناسائی ہے، ان تمام ممالک میں اردو زبان کے بولنے اور سمجھنے والے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ان ممالک میں جہاں فارسی اور عربی بولی جاتی ہے، اردو جاننے والا کسی نہ کسی حدتک اپنا مافی الضمیر اداکرسکتا ہے۔۔۔ 

    اس اعتبار سے آزاد ہندوستان کروڑوں باشندوں سے اپنے تعلقات آسانی کے ساتھ قائم کرسکے گااور تجارتی اور سیاسی سہولتیں پیدا ہوجائیں گی۔ کیا کانگریس اردو کو ختم کرکے ان ممالک سے بیگانہ بننا چاہتی ہے جن سے ہمسایگی، قربت اور ایشیائی ثقافت کے باعث تعلقات قائم رکھنا پڑیں گے۔ اردو زبان میں بین الاقوامی شان پیدا ہوگئی ہے، اور دنیا اس کو قبول کرتی جارہی ہے، کانگریس کو تو اردو کے شیوع میں مدد دینی چاہیے تاکہ اردو کے ساتھ ساتھ ہندوستانیوں کے خیالات غیرلوگوں تک پہنچیں اور وہ ہمارا وزن محسوس کریں۔ 

    کانگریس اس حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہوگی کہ سول نافرمانی کے زمانے میں جن مقررین نے ملک میں آگ لگائی اور ملک میں بیداری پیدا کی، ان میں سے زیادہ تعداداردو بولنے والوں کی تھی۔ وہ قوت جو کانگریس کادست و بازو رہ چکی ہے، کیا کانگریس اس کو بیکارکردینا چاہتی ہے۔ یہ حقیقت اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ اردو زبان اپنے اندر خطابت کی بڑی گنجایش رکھتی ہے اور اس زبان کے ذریعہ ملک وقوم کی بہت کچھ خدمت کی جاسکتی ہے۔ 

    کیا کانگریس ہمارے اشارات پر غور کرے گی؟ 

    سنسکرت کا تجزیہ
    اس ضروری تمہید کے بعد اب ہم اردو، ہندی کے بنیادی موضوع پر آتے ہیں۔ جس ہندی زبان کے پرچار کی کوششیں کی جارہی ہیں، اس کی اصل سنسکرت اور پراکرت زبان ہے۔ پہلے ہم کو ہندی یا دیوناگری کے ماخذ (سنسکرت) پر نظر ڈالنی چاہیے کہ دنیا میں اس کا کیا درجہ رہاہے اور اس وقت اس کی کیا حیثیت ہے؟ بھارت ورش کی قدیم تاریخ ہم کو بتاتی ہے کہ بھارت باشیوں نے غیرملکوں سے تعلقات پیدا کرنے کی عام طور پر کوشش نہیں کی۔ 

    بھارت کے رہنے والے اپنے ملک کی چہاردیواری ہی میں امن و اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے، اپنے ملک سے باہر جانے کی انہوں نے یا تو ضرورت ہی محسوس نہیں کی اور ضرورت محسوس کی تو وہ وطن کی جدائی شاید گوارا نہ کرسکے۔ یہ تو معاشرتی اور تجارتی نوعیت تھی۔ اب مذہب باقی رہ جاتاہے۔ مذہب کی تبلیغ کے سلسلہ میں دوسری قوموں اورملکوں سے تعلقات قائم ہوجایا کرتے ہیں مگر ہندوؤں کا قدیم مذہب کسی ایسے شحص کو جو دھرم سماج گھرانے میں پیدا نہیں ہوا، اپنے اندر جذب کرنے سے صاف انکار کردیتا ہے۔۔۔ بھارت کے قدیم باشندوں (اہل ہنود) کے اسی طرزِ عمل کا یہ نتیجہ نکلا کہ ہندوستان کے علاوہ دنیا کے کسی خطہ پر نہ تو ہندو دھرم کا سایہ پڑ سکا اور نہ ہندو تہذیب کا کوئی نقش باقی رہ سکا۔ بھارت باشیوں نے اپنے کو دوسرے خطوں سے الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کی اور وہ بھارت ورش کے مرغزاروں میں ہی گھوما کیے۔ 

    سنسکرت ان لوگوں کی مادری زبان تھی، لہٰذا ان کی اس اجنبیت اور الگ تھلگ رہنے کا یہ اثر ہوا کہ ان کی زبان میں ’’بین الاقوامی‘‘ استعداد کبھی پیدا نہ ہوسکیاور شاید دنیا کے کسی لٹریچر کی ایک کتاب بھی سنسکرت میں منتقل نہیں ہوئی۔ ہم سنسکرت کے مصنفین کی علوِخیالی اور جادونگاری کے منکر نہیں ہیں لیکن ان کا طائرخیال ہمالیہ کی چوٹیوں سے آگے نہیں اڑسکتا اور ان کی جادونگاری کا چشمہ گنگا، جمنا میں گھل مل کر رہ جاتا ہے۔ اس زمانہ میں سنسکرت شباب پر تھی اور ہندو راجاؤں کے اقبال کاچراغ گنگا، جمنا کی لہروں پر جلتا تھا، اس زمانہ میں ہی جب سنسکرت کو وسعت دے کر ’’بین الاقوامی‘‘ زبان نہیں بنایا گیا، تو اس وقت کیا امید ہوسکتی تھی، جب کہ ان کے اقبال کا چراغ گل ہوچکاتھا۔ اس کے بعد ہندوستان نے بہت سے پلٹے کھائے، سنسکرت نے بھی بہت سے چولے بدلے اور آخر یہ زبان بالکل مردہ ہوگئی۔ 

    جس دریا کا منبع ہی خشک ہوگیا ہو، اس کے بہتے رہنے کی کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ جب ہندی زبان کا ماخذ ہی ’’بین الاقوامیت‘‘ پیدا نہ کرسکا اورآخر کار وہ مردہ ہوگیا، تو پھر ہندی زبان سے ہم اس کی توقع کس طرح کرسکتے ہیں کہ وہ اس زمانے میں جب کہ غیرممالک کے تعلقات ہندوستان سے قایم ہو رہے ہیں، افہام و تفہیم، رسل و رسائل اورنامہ و پیام کا ذریعہ بن سکے گی۔ 

    ہندی زبان کی ساخت کچھ اس نوعیت کی ہے کہ اس میں دوسری زبانوں کے لٹریچر منتقل کیے جانے کی صلاحیت ہی نہیں پائی جاتی۔۔۔ اس کے ثبوت کے لیے سنسکرت، پراکرت، برج بھاشا اور ہندی کی کتابیں اٹھاکر دیکھو تو معلوم ہوجائے گا کہ دوسری زبانوں کے لٹریچر سے یہ زبانیں یکسر خالی ہیں۔ ہندی میں خود کوئی جان اور وسعت نہیں ہے، اس کو دوسری زبانوں کے لٹریچر کے ترجمہ کے لیے سنسکرت کے الفاظ سے امداد لینا پڑے گی۔ لیکن اس معاملہ میں سنسکرت تو خود تہی مایہ اور کنگال ہے۔۔۔ برخلاف اس کے اردو زبان میں، دنیا کی مختلف زبانوں کی سیکڑوں کتابوں کاترجمہ ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ جب کبھی خاص اصطلاحات کے لیے جدید الفاظ کی ضرورت پڑتی ہے، تو اردو اپنی پشت پر فارسی، عربی کانامحدود سرمایہ پاتی ہے جواس کی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔۔۔ فارسی اور عربی زبان کی ’’بین الاقومیت‘‘ ظاہر ہے، ان ہی زبانوں کے اثر نے اردو میں بھی ’’بین الاقوای استعداد‘‘ پیدا کردی اور وہ دنیا کے ہر لٹریچر کے ہر مفہوم کو ادا کرسکتی ہے۔ 

    اردو کی مقبولیت
    اردو زبان میں اس قدر جاذبیت اور دلچسپی ہے کہ دوسرے ممالک کے لوگ جب ہندوستان میں آتے ہیں تو اردو بولتے اور لکھتے ہیں۔ عربوں اورایرانیوں کو چھوڑیے، شاید ہی کوئی ایسا انگریز ملے گا، جس نے ہندی زبان، اور ہندی رسم الخط اختیار کیا ہو، برخلاف اس کے اردو جاننے والے اور اردو لکھنے والے بہت سے انگریز ملیں گے، ایک دو انگریزوں نے تو اردو میں شعر بھی کہاہے۔ سب جانتے ہیں کہ ملکہ وکٹوریہ آنجہانی نے مولوی عبدالکریم صاحب اکبر آبادی کو اردو زبان سیکھنے کے لیے بلایا تھا۔ یہ اس زمانہ کاقصہ ہے جب کہ اردو لٹریچر کو زیادہ وسعت حاصل نہیں ہوئی تھی مگر زبان کی شیرینی، جامعیت اور بین الاقوامی شان تو اس وقت بھی موجود تھی۔ 

    ہندوستان میں ہندی کے بہت سے اخبار اوررسالے نکلتے تھے لیکن غیر ممالک میں شاید ہی کوئی ہندی رسالہ یا اخبار جاتا ہو، مگر اردو کے بہت سے رسالے اور اخبار، دوسرے ممالک میں جاتے ہیں اور ان کے پڑھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جنوبی افریقہ میں اردو کے مشاعرے ہوتے ہیں اور اردو لٹریچر کی وہاں بہت کچھ مانگ ہے۔ ایک افریقی صاحب نے ڈربن میں ہوٹل قائم کیا ہے، انہوں نے مجھ سے ایک قطعہ اور اردو تحریر کا ایک نمونہ طلب کیا ہے، جسے وہ ہوٹل میں آویزاں کرنا چاہتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ افریقہ میں اردو بولنے، سمجھنے اور پڑھنے والوں کی کافی تعداد ہے۔ میں اپنے متعلق اس قسم کی باتیں لکھنے کاعادی نہیں ہوں مگر ضرورت نے مجبور کردیا۔ 

    اردو کی ہمہ گیری
    اردو کو مٹاکر ہندی کو فروغ دینے کے یہ معنی ہیں کہ کروڑوں انسانوں کے حافظوں سے وہ الفاظ محو کردیے جائیں جو زبانوں پر چڑھ چکے ہیں اور خیالات میں سماچکے ہیں۔ کیایہ کوشش کسی طرح بھی تعمیری کہی جاسکتی ہے؟ کسی عمارت کو اسی وقت مسمار کیا جاتاہے، یا تو وہ کمزور ہوگئی ہو یا زمانے کے حسین ڈیزائنوں کے مقابلہ میں بھدی اور بدشکل ہو، مگر ایک مستحکم اور حسین عمارت کو مسمار کردینا تو ایک ایسی شدید حماقت ہے، جس پر انسانوں کو نہیں، بندروں کو ہنسی آنی چاہیے۔ 

    مگر ہم یہ بتادینا چاہتے ہیں کہ یہ کوشش کبھی بارآور نہیں ہوسکتی، کروڑوں انسانوں کی زبان کو مٹادینا ناممکن ہے۔ ہم ہندی کے پرستاروں کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ وہ تخریبی کارروائی کرنے سے قبل، دیہات اور قریوں میں جاکر اردو کی ہمہ گیری، جامعیت اور قبولیت کاپہلے اندازہ لگالیں، اس کے بعد وہ کوئی اقدام کریں۔ ہم یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ وہ دوگھروں کے کھیڑے میں بھی اردو زبان کے میٹھے بولوں کو سنیں گے۔ مثال کے طور پر ہم عرض کرتے ہیں، 

    کوئی چمار، بھنگی، لودہا، کھٹیک بھی، ’’مجھ کو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے‘‘ کی جگہ ’’مجھ کو کسی وستو کی آواشیکتا نہیں ہے‘‘ نہیں بولتا۔۔۔ اسی طرح مگر کو ’’پرنتو‘‘ ’’بعدازاں‘‘ یا ’’اس کے بعد‘‘ کو ’’تتھا پشچات‘‘، ’’خبر‘‘ کو ’’سماچار‘‘ نہیں کہتا۔ نمونے اور مثال کے طور پر یہ چند الفاظ پیش کیے گئے ہیں، ہزاروں الفاظ ایسے ملیں گے، جو خالص اردو (فارسی عربی سے مرکب) کے ہیں، اور وہ زبانوں پر چڑھے ہوئے ہیں۔ اب آپ ان الفاظ کی جگہ رسالہ ’’ہنس‘‘ کی ہندی رائج کرنا چاہتے ہیں، خود ہی سوچیے کہ یہ اقدام تباہ ناک اور مضحکہ خیز ہے۔ 

    اردو کی مقبولیت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اردو کے لفظ کے مقابلہ میں ہندی کا لفظ بھی موجود ہے۔ مگر عام طور پر اردو کا لفظ زیادہ بولاجاتا ہے۔ ’’رُت‘‘ بولنے والے کم ملیں گے اور ’’موسم‘‘ بولنے والے بہت زیادہ۔ ’’دیا‘‘ کے بجائے ’’چراغ‘‘ کثرت کے ساتھ بولاجاتا ہے، ’’شریر‘‘ بہت کم بولتے ہیں اور ’’جسم‘‘ اور ’’بدن‘‘ بہت زیادہ۔ یہی حال ’’آکاش اور آسمان‘‘، ’’زمین اور پرتھوی‘‘، ’’دل اور ہردے‘‘، ’’جیون اورزندگی‘‘ وغیرہ الفاظ کا ہے۔ کیا اردو کے بہی خواہوں نے ان کروڑوں ہندوؤں کو رشوت دے دی ہے کہ تم ہندی الفاظ کو چھوڑ کر اردو الفاظ بولاکرو۔۔۔ بات یہ ہے کہ اردو کی مٹھاس زبانوں کی رگوں میں اترگئی ہے اور جب تک زبانوں کی رگوں کا مُثلہ نہ کیا جائے، اس مٹھاس کااثر زایل نہیں ہوسکتا۔ 

    بہت سے اردوالفاظ ایسے بھی ہیں، جن کی جگہ ہندی لفظ بنارس کا پنڈت بھی نہیں بولتا۔ اردو کی قبولیت اور ہمہ گیری کا یہ ناقابلِ انکار ثبوت ہے۔ مضمون لکھتے وقت ایسے چند الفاظ ذہن میں آگئے ہیں جو درج ذیل کیے جاتے ہیں۔ غور کرنے پر پوری لغت مرتب کی جاسکتی ہے، 

    تخت، صراحی، قلم، کرسی، فرش، باغ، کاغذ، رومال، بستر، تکیہ، دوا، شیشہ، سرمہ، قرقی، بے دخلی، قبضہ، زمیندار، تحصیل وصول، رقم، رہن نامہ، تمسک، وکیل، مختار، منشی، شحنہ (مالِ مقروقہ کی جو شخص حفاظت کرتا ہے اسے شحنہ کہتے ہیں، اور گاؤں والے اس لفظ کو ’’سینا‘‘ بولتے ہیں) خزانہ، گلاب، روش (گاؤں والے ’’روس‘‘ کہتے ہیں) قمیص، (کمیز) کف، ناخن، تجربہ، وغیرہ۔۔۔ 

    بہ ہرحال اردو زبان، ہندوستان کی بڑی آبادی کی زبان بن چکی ہے۔ تلنگی، مرہٹی، گجراتی اور بنگالی میں بھی اردو زبان کے بہت سے الفاظ داخل ہوگئے ہیں۔ بنگالی شاعری میں تو ’’نازک‘‘ اور ’’نفیس‘‘ جیسے لفظ پائے جاتے ہیں۔ اس صورتِ حال کے مدنظر مخالفین اردو اگر اپنی ہٹ دھرمی سے باز آجائیں تو اچھا ہے، ابھی کچھ نہیں بگڑا۔ لیکن آگے چل کر سخت کشمکش ہوگی، یہ بالکل یقینی امر ہے کہ اردو زبان پر ہندی زبان غالب نہیں آسکتی، لیکن اس گتھم گتھا سے غیر کو فائدہ اٹھانے کا اچھاموقعہ ملے گااور ہندوستان آزادی کی منزل میں نہ معلوم کتنے کوس پیچھے پہنچ جائے گا۔ 

    فارسی، عربی الفاظ
    میں اس کا مخالف ہوں کہ اردو میں عربی، فارسی کے نامانوس، غریب اور ہمالیائی الفاظ داخل کیے جائیں۔ مگر فلسفہ، سائنس، معانی و بیان اور دوسرے شعبوں کی اصطلاحات کے لیے ہم مجبور ہیں اور فارسی، عربی الفاظ کے بغیر کسی طرح کام ہی نہیں چل سکتا۔ اس لیے وہ اصحاب جو اردو کے بہی خواہ ہیں مگر فارسی، عربی الفاظ کے داخلہ پرشددومد کے ساتھ اعتراض کرتے ہیں، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ مندرجہ ذیل قبیل کی اصطلاحات اور الفاظ کے لیے آخر کیا صورت اختیار کی جائے، ان کے بدل میں خاص اردو کے الفاظ بنادیجے تو ہم شوق سے ان الفاظ کو ترک کردیں گے۔۔۔ لیکن جب تک آپ الفاظ نہیں بناسکتے، اس وقت تک ہم مجبور ہیں۔ 

    مثبت و منفی، ایجاب و سلب، علت و معلول، عرض وجوہر، خرق و التیام، حدوث و قدم، استحالہ، استفادہ، جرح، تعدیل، افادیت، عناصر، کون و فساد، تجزیہ، وغیرہ۔ 

    اور میں تو ان الفاظ کو اردو الفاظ ہی سمجھتا ہوں جب کہ زبان میں یہ گھل مل گئے ہیں۔ 

    آخری گزارش
    بہی خواہانِ اردو کو مخالفین کی کوشش سے بے خبر نہیں رہناچاہیے۔ ایک مکمل تنظیم اور باضابطہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ زبان کا مسئلہ اس قدر عام ہے کہ ہر جماعت اپنے تمام مذہبی اور نسلی اختلافات کے باوجود اس مرکز پر متحد ہوسکتی ہے۔ اردو زبان کی موت ہماری اپنی موت ہے، اس لیے اپنی جان بچانے کے لیے ہم کو اپنا سب کچھ لٹادینا پڑے گا۔

     

    مأخذ:

    Saqui Jild-14 (Afsana Number) (Pg. 28)

      • ناشر: شاہد احمد دہلوی
      • سن اشاعت: 1936

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے