Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو لغات اور لغت نگاری

شمس الرحمن فاروقی

اردو لغات اور لغت نگاری

شمس الرحمن فاروقی

MORE BYشمس الرحمن فاروقی

    عسکری صاحب مرحوم نے ایک بار مجھ کو لکھا تھا بعض اوقات ہمیں ڈرامے سے لے کر آڈن (W.H.Auden) تک دس کے دس پرچے ایم۔ اے کے درجوں کو پڑھانے پڑتے ہیں۔ یہ پڑھ کر مجھے ان کے اور ان کے مرحوم استاد پروفیسر ایس۔ سی۔ دیب (S.C.Deb) یا د آئے جو ہر وہ مضمون پڑھا دیا کرتے تھے جن کا استاد کسی وجہ سے لمبے عرصے کے لیے غیرحاضر ہو۔ چنانچہ مجھے ان سے تاریخ ادب، علم اللسان، شیکسپیئر، تنقید ہر موضوع پر ایک دو لکچر سننے کا اتفاق ہوا ہے۔

    علمیت کے اعتبار سے پروفیسر صاحب (جو عسکری صاحب کو بہت عزیز رکھتے تھے او ر جن کے نام عسکری صاحب نے اپنی کتاب ’’جزیرے‘‘ معنون کی ہے) عسکری صاحب سے کچھ زیادہ ہی تھے، اورمیں ان دونوں حضرات کا پاسنگ بھی نہیں ہوں، لیکن بعض اوقات مجھ پر وہی آزمائشی وقت آ پڑتا ہے، جو ان مرحومین کا مقدر تھا۔ یعنی مجھے ایسے موضوعات پر لکھنے کی سوجھتی ہے یا لکھنا پڑتا ہے، جو میرا میدان نہیں ہیں۔ لغت نگاری ایسا ہی ایک موضوع ہے۔ ان دنوں ہمارے یہاں لغت نگاری میں غیر معمولی دلچسپی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہ انتہائی خوش آئند اور مبارک فال ہے، کیونکہ اعلیٰ درجے کے لغات کے بغیر زبان کی بنیادیں مضبوط نہیں ہوتیں۔ ہمارے یہاں اچھے لغات کی سخت کمی ہے اور جو لغات ہیں بھی وہ یا تو ناقص ہیں، یا کم یاب، بلکہ نایاب ہیں۔

    ’’فرہنگ آصفیہ‘‘ کچھ عرصہ ہوا ترقی اردو بیورو حکومت ہند (اب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان) نے دوبارہ شائع کی، ورنہ پہلے یہ بالکل ناپید تھی، ’’نوراللغات‘‘ آنکھوں سے لگانے کے لیے بھی نہیں ملتی۔ پاکستان میں کچھ دن ہوئے چھپی تھی، لیکن اب وہاں بھی بازار میں نہیں ملتی۔ ’’امیر اللغات‘‘ نامکمل رہ گئی لیکن جیسی بھی ہے، کہیں نہیں ملتی۔ پلیٹس (Platts) او رڈنکن فوربس (Duncan Forbes) کے اردو انگریزی لغات دوبارہ بازار میں آ گئے ہیں، لیکن یہ بےحد مہنگے ہیں، پرانے بھی ہیں اور اردو سے انگریزی میں ہونے کی بنا پر اردو کے عام طالب علم کے لیے پوری طرح کارآمد بھی نہیں۔ ترقی اردو بیورو حکومت ہند نے ’’نور اللغات‘‘ کو دوبارہ شائع کر دیا۔ پلیٹس کے لغت پر خورشید الاسلام اور رالف رسل صاحبان کی نگرانی میں نظر ثانی ہو رہی ہے، لیکن ابھی اس کے مکمل ہونے میں دیر ہے۔ اشاعت میں اور بھی تاخیر ہوگی۔ یہ لغت عام آدمی کی دسترس سے بہرحال دور ہوگا۔

    غرض کہ زبان کا مکمل احاطہ کرنے والا اس وقت کوئی مکمل لغت بازار میں نہیں ہے۔ ’’مہذب اللغات‘‘ ابھی تشنۂ تکمیل ہے۔ ترقی اردو بیورو حکومت ہند کی پنج جلدی لغت بھی ابھی تکمیل کی منزل سے بہت دور ہے، اور پاکستان کے ترقی اردو بورڈ کا عظیم الشان لغت، جو تاریخی اصول پر ہے، ابھی پورا چھپ نہیں سکا ہے۔ اس کی صرف دو جلدیں سامنے آئی ہیں۔ اردو انگریزی کا ایک نیا لغت بھی ترقی اردو بیورو حکومت ہند کے زیر اہتمام تیار ہو رہا ہے۔ لغت نگاری کے میدان میں اس غیرمعمولی سرگرمی کی وجہ سے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس فن کے اصولوں سے متعلق بنیادی سوالات اٹھائے جائیں اور بعض اہم لغات کا مختصر جائز ہ بھی لیا جائے۔

    بنیادی سوالات اٹھانے کی ضرورت اس وجہ سے بھی ہے کہ کوئی بھی علمی کارروائی کسی فلسفیانہ یا نظریاتی اساس (یا اگر واضح اساس نہیں تو مضمر تصورات) کے بغیر کارگر نہیں ہو سکتی۔ چونکہ ہر نظریہ یا فلسفہ اصلاً او ر اصولاً، ’’کیوں‘‘ اور’’کس لیے‘‘ سے بحث کرتا ہے، اس لیے لغت نگار کے سامنے بھی سب سے پہلا سوال یہ ہونا چاہیے کہ وہ لغت کیوں اور کس لیے لکھ رہا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کا آسان جواب تو یہ ہے کہ میں لغت اس لیے لکھ رہا ہوں کہ خود کو اس کام کا اہل سمجھتا ہوں، اور میرا خیال یہ ہے کہ اس وقت بازار میں جتنے لغات ہیں، وہ لغت نگاری کے تمام تقاضوں کو پورا نہیں کرتے۔

    لیکن اس جواب پر دوسرا سوال فوراً اٹھےگا کہ لغت نگاری کے تقاضے ہیں کیا؟ کیا قدیم لغت نگاروں نے ان تقاضوں کی چھان بین نہیں کی اور کیا انہوں نے ترجیحات مقرر نہیں کر دی ہیں؟ اگر جواب ’’ہاں‘‘ میں ہے تو کیا ان کی وہ چھان بین کافی وشافی ہے اور کیا وہ ترجیحات درست ہیں؟ اگر نہیں، تو آپ کے سامنے کیا تقاضے ہیں؟ اور اگر ان تقاضوں کا واضح تصور آپ کے ذہن میں نہ ہو، تو کم ازکم تصور تو ضرور ہوگا کہ لغت نگار میں کیسی لیاقت و قابلیت کا ہونا ضروری ہے؟

    جہاں تک قدیم لغت نگاروں کا سوال ہے، انہوں نے لغت نگاری کے تقاضوں سے کوئی بحث نہیں کی ہے۔ میر علی اوسط رشک کی’’نفس اللغۃ‘‘ میں اردو الفاظ کے معنی فارسی میں اور اوحدالدین بلگرامی کی ’’نفائس اللغات‘‘ میں اردو الفاظ کے فارسی اور عربی مرادفات بیان کئے گئے ہیں۔ یعنی اگر کوئی اردو داں شخص ان سے استفادہ کرنا چاہے تو پہلے فارسی، عربی پڑھے۔ ہاں، کوئی فارسی؍ عربی بولنے والا شخص ان سے استفادہ کرنا چاہے تو بہت خوب۔

    لیکن ہمارے ملک میں پہلے بھی اکثر اور آج بھی تو بالکل یہی ہوتا ہے کہ کچھ اردو دانوں نے تو فارسی سیکھی ہے، لیکن فارسی دانوں نے اردو نہیں سیکھی۔ جو فارسی بولنے والے یہاں آکر رہ بس گئے، انہوں نے آہستہ آہستہ فارسی ترک کرکے اردو کو مادری زبان کے طور پر اختیار کر لیا اور اردو کے فارسی لغت سے بے نیاز ہو گئے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ جو ایرانی یہاں رہ بس گئے، وہ زیادہ تر ایسے زمانے میں آئے تھے، جب اردو کا وجود مشتبہ اور چلن معدوم تھا اور یہ لغات لکھے گئے ہیں انیسویں صدی میں، لہٰذا ان کی افادیت معلوم۔

    امیر مینائی نے ’’امیر اللغات‘‘ (۱۸۹۱؍۱۸۹۲) میں کوشش کی کہ اصطلاحات، مشہور شعرا کے مختصر حالات، مشہور چیزوں اور اشخاص کے مختصر تذکرے، فقیروں کی صدائیں، بولیاں ٹھولیاں، سب شامل کر لی جائیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امیر مینائی کے نزدیک لغت اگر بالکل قاموس نہیں، توقاموس نما ضرور ہونا چاہیے۔ یعنی ایسی کتاب جس میں الفاظ کے علاوہ کئی اور چیزوں کے بارے میں بھی معلومات یک جاہوں۔ ’’فرہنگ آصفیہ‘‘ میں بھی مصنف نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی فرہنگ دراصل ’’انسائی کلو پیڈیا ان اردو‘‘ کا حکم رکھتی ہے۔ ’’امیر اللغات‘‘ کا تو حال معلوم نہیں لیکن ’’آصفیہ‘‘ میں دعویٰ ہے کہ اگر کچھ چھوڑا ہے تو محض’’مغلظات اور فحش‘‘ چھوڑا ہے۔ یعنی دونوں صاحبان کے نزدیک لغت دراصل تمام معلومات کا مجموعہ ہوتا ہے۔

    صاحب ’’آصفیہ‘‘ نے اپنی کتاب کو’’فرہنگ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ (جیسا کہ قاضی عبدالودود نے بھی لکھا ہے) خود انہوں نے دوسروں کے اردو لغات کو ’’فرہنگ‘‘ کہنے پر اعتراض کیا ہے اور اپنی کتاب میں ’’فرہنگ‘‘ کے معنی دیے ہیں۔ ’’کتاب لغات فارسی۔‘‘ لہٰذا ان کے قول اور فعل میں اور بھی تضاد نظر آتا ہے۔ جب مصنف کو اپنی کتاب کی اصل صنف ہی نہیں معلوم تواس کتاب کی تصنیف کے لیے انہوں نے کوئی نظریاتی اساس کیا مرتب کی ہوگی؟ ۱،

    صاحب’’امیر اللغات‘‘ اور صاحب ’’آصفیہ‘‘ دونوں ان سوالات سے بے نیاز ہیں کہ الفاظ کے معنی، مرادف، تعریف ان چیزوں میں کوئی فرق ہے کہ نہیں۔ صاحب ’’امیر اللغات‘‘ لغات کے حقیقی اور مجازی معنوں کی تعبیریں اور ان کا محل استعمال، زبان اردو یا کسی مانوس زبان میں اس کے مستعمل مروجہ مترادفات اور متضاد لفظ جمع کر دینے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یعنی ان کے نزدیک لغت کا کام یہ بھی ہے کہ الفاظ کے متضادات اور محل استعمال بھی بیان کرے۔ صاحب ’’آصفیہ‘‘ مترادف، ہم معنی، ہم پہلو الفاظ یکجا کرنے کا بیڑا اٹھاتے ہیں۔ ’’متروک اور غیر متروک‘‘ الفاظ کی تمیز، اور فصیح غیر فصیح کا تصفیہ بھی کرنے کا کام اپنے ذمہ لیتے ہیں۔

    ’’لفظ‘‘ سے ان کی کیا مراد ہے؟ یعنی حروف کے وہ کون سے مجموعے ہیں جن پر اصطلاح’’لفظ‘‘ کا اطلاق ہو سکتا ہے، اس باب میں صاحب ’’امیراللغات‘‘ اور صاحب ’’ آصفیہ‘‘ دونوں کا ذہن صاف نہیں ہے۔ صاحب ’’نور اللغات‘‘ نے اپنی بنیادوں میں کچھ منطق، یا کچھ فکر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لغت وہ کتاب ہے جس کے ذریعہ ہم یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ ’’زبان اردو کے وسیع باغ میں جو پھولوں سے بھرا پرا کیسامہک رہا ہے کہ شاید ہندوستان کا کوئی دماغ ایسا نہ ہو جس میں اس کی خوشبو کی لپٹیں نہ پہنچی ہوں، یہ مختلف پھول کہاں سے آئے ہیں، جڑ کہاں سے پھوٹی اور اختلاف آب وہوا نے رنگت پر کیا اثر کیا۔ ہر ایک پھول میں کئی طرح کی خوشبو موجود ہے، جس کا امتیاز آسان نہیں۔‘‘ 

    گویا ان کے نزدیک لغت کا اصل کام یہ ہے کہ وہ الفاظ کی اصل معلوم کرے اور ان کے معانی کے مختلف پہلوؤں کو وضاحت سے بیان کرے۔ لیکن الفاظ کی اصل بیان کرنے میں کس حد تک تفصیل سے کام لیا جائے اور معانی بیان کرنے سے کیا مراد ہے، اس باب میں وہ خاموش ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں بتاتے کہ جن الفاظ کے معانی مختلف پہلو نہیں رکھتے، ان کے معانی مرادف کے ذریعہ بیان کیے جائیں یا تعریف کے ذریعہ، یا دونوں طرح؟

    یہ تو رہا قدما کاحال، اب معاصرین کو دیکھئے۔ مولوی عبدالحق کو لغت نگاری سے خاص دل چسپی تھی۔ انہوں نے اس سلسلے میں کئی مفید کام کیے اور بعض نظریاتی مباحث بھی اٹھائے۔ مثلاً انہوں نے لکھا، ’’ایک کامل لغت میں ہر لفظ کے متعلق یہ بتانا ضروری ہوگا کہ وہ کب، کس طرح، کس شکل میں اردو زبان میں آیا، اور اس کے بعد سے اور اس وقت سے تاحال اس کی شکل وصورت اور معانی میں کیا کیا تغیر ہوئے۔۔۔ ہماری لغات میں عموماً لفظ کی تعریف نہیں دی جاتی، بلکہ اکثر ہر لفظ کے سامنے اس کے کئی کئی مرادفات لکھ دیے جاتے ہیں۔۔۔ ایک ناواقف شحص کے لیے یہ معلوم کرنا دشوار ہوتا ہے کہ ان میں سے مترادف کہاں تک اس لفظ کا ہم معنی ہے یا سیاق وسباق کی رو سے ان معانی میں کون سا ٹھیک بیٹھتا ہے اور جو شخص مترادف کے معنی نہیں سمجھتا وہ اس لفظ کے مفہوم کو بھی نہ سمجھےگا۔۔۔

    لغت میں سب لفظ ہونے چاہئیں خواہ وہ رائج ہوں یا متروک اور ان کے تمام معانی اور استعمال درج کرنے لازم ہیں۔۔۔ عامیانہ اور سوقیانہ میں بھی فرق کرنا ضروری ہے۔۔۔ اجنبی زبانوں کے الفاظ ہیں، جو اردو میں داخل ہو چکے ہیں یا داخل ہو رہے ہیں، ان کا شمار بھی الفاظ میں ہونا چاہیے۔ پھر اعلام ہیں، جن کا اگرچہ ایک عام لغت سے کوئی تعلق نہیں لیکن کچھ ان میں ایسے ہیں کہ جن سے ادب میں جگہ جگہ مڈبھیڑ ہوتی ہے۔ لہٰذا لغت نویس کو ان کا خیال رکھنا پڑےگا۔۔۔ انسائیکلو پیڈیا اورلغات میں حدود قائم کرنا بہت دشوار ہے۔ بعض الفاظ ایسے ہیں کہ ان کی تشریح کامل طور پر اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک ان اشیا کا، جن کا مفہوم وہ ادا کرتے ہیں کچھ نہ کچھ ذکر نہ کیا جائے۔

    علاوہ اس کے اشیا کا بیان، اسما کی تعریف میں مضمر ہوتا ہے۔ اس لیے ڈکشنری کے صحیح طور پر مرتب کرنے کے لیے ان دونوں طریقوں کا امتزاج خاص کر اردو لغت میں ضروری ہے۔۔۔ حال کے زمانے میں بہت سے الفاظ بنے اور بنتے جاتے ہیں اور آئندہ بنیں گے۔۔۔ ان میں سے بعض دیر سویر عام گفتگو میں اور گفتگو سے اخبار ات تک آپہنچتے ہیں اور اخبارات سے انشا اور ادب میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اردو کا لغت نویس ان الفاظ کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔‘‘ 

    مولوی عبدالحق کا یہ دیباچہ (جس کے اقتباس اوپر نقل ہوئے) بےخوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ فلسفۂ لغت نگاری پر اردو میں پہلا اور آخری بیان ہے۔ مولوی صاحب نے تقریباً تمام ضروری باتوں کا ذکر اشارتاً یا صراحتاً کر دیا ہے۔ لیکن لغت نگاری سے غیر معمولی دلچسپی کے باوجود مولوی صاحب باقاعدہ لغت نگار نہیں تھے۔ ان کا ذہن بھی منطقی نہ تھا۔ اس لیے مندرجہ بالا اقتباسات میں بعض ناقابل قبول تصورات کے علاوہ بہت سے منطقی مسامحے اور فروگذاشتیں بھی ہیں۔ ان کا تفصیلی تجزیہ ضروری ہے، اس لیے بھی کہ اس تجزیے کی روشنی میں لغت نگار کے فلسفے اور منطق کے بارے میں بعض بنیادی مباحث بھی سامنے آ جائیں۔

    (۱) مولوی صاحب نے اس بات کا تصفیہ کہیں نہیں کیا کہ لفظ ہوتا کیا ہے؟ لفظ بطور لفظ اور لفظ بطور اصطلاح کے فرق کا وہ احسا س کرتے ہیں لیکن حروف کے کن مجموعوں یا تراکیب کو ہم لفظ کہیں گے اور کن کو نہیں، اس بارے میں وہ خاموش ہیں۔ تابع مہمل الفاظ لفظ ہیں کہ نہیں، اس کے بارے میں بھی انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ حیرت یا استعجاب یا تکلیف یا خوشی یا نفرت کے عالم میں یا ان جذبات کا اظہار کرنے کے لیے، جو آوازیں بے ارادہ یا ارادتاً ہمارے منہ سے نکل جاتی ہیں، وہ لفظ ہیں یانہیں؟ لفظ بامعنی ہی ہوتے ہیں، یا بے معنی بھی؟ اس باب میں بھی وہ خاموش ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ماہرین لسانیات اب تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ ’’لفظ‘‘ کسے کہتے ہیں؟ لیکن اگر اس فیصلے کا انتظار کرنا ہے تو لغت لکھنے کی کھکھیڑ کیوں اٹھائی جائے؟ ظاہر ہے کہ کوئی نہ کوئی تعریف تو متعین کرنا ہی ہوگی۔

    (۲) لفظ کی تعریف متعین کرنے سے پہلو تہی کرنے کے علاوہ مولوی صاحب نے لغات کے املا کے بارے میں بھی کچھ کہنے سے گریز کیا ہے۔ وہ یہ تو کہتے ہیں کہ لغت نگارکو ضرور ہے کہ اس بات کی وضاحت کرے کہ کوئی لفظ کس شکل میں زبان میں داخل ہوا اور تاحال اس کی شکل وصورت میں کیا کیا تغیر ہوئے؟ لیکن لفظ کی’’شکل وصورت‘‘ کی اصطلاح گمراہ کن ہے۔ اس لیے کہ بہت سے الفاظ پہلے زبانوں پر رواں ہوتے ہیں، پھر تحریر میں آتے ہیں۔ بہت سے الفاظ تحریر میں پہلے آتے ہیں اور زبانوں پر بعد میں رواں ہوتے ہیں۔ (اگر ہوتے ہیں۔) 

    بہت سے الفاظ تحریر میں کسی طرح رائج ہیں اور زبانوں پر کسی اور طرح۔ بہت سے الفاظ کے بارے میں یہ فیصلہ ہی ناممکن ہے کہ وہ کسی طرح رائج ہوئے۔ (مثلاً یہی دیکھئے کہ ہزاروں دیسی الفاظ میں ہمزہ کہاں سے آیا؟ اور ہزاروں الفاظ میں عربی فارسی آوازوں کے ساتھ وہ آوازیں کہاں سے داخل ہوئیں جو ان زبانوں میں ہیں ہی نہیں؟) لہٰذا’’ شکل وصورت‘‘ کا چکر چلانا بے معنی ہے۔ ہر لفظ کا صحیح املا درج کرنا ضروری ہے۔

    (۳) اور جب صحیح املا کا جھگڑا اٹھےگا تو درجنوں طرح کی ترجیحات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ کیا املا مروج تلفظ کے مطابق ہو، یا اصل تلفظ کے مطابق ہو؟ کیا املا مروج املا کے موافق ہو، یااصل املا کے موافق ہو؟ ’’جمع‘‘ کو ’’جما‘‘ یا’’جمہ‘‘ لکھیں کہ نہیں؟ یانہ بھی لکھیں تو کیا اس بات کا اظہار کر دیں کہ اصل املا اور تلفظ میں ’’جما‘‘ یا ’’جمہ‘‘ ہے، لیکن تحریر اور شاعری میں اصل املا اور اصل تلفظ کا خیال رکھتے ہیں؟ ’’شکوہ‘‘ کو ’’شکویٰ‘‘ ہی لکھیں یا ’’شکوہ‘‘ اور ’’شکویٰ‘‘ دونوں ہی درج کریں؟

    ’’یورش کو درج کریں یا محض’’یرش‘‘ لکھ کر چھوڑ دیں؟ اور ہمزہ والے دیسی الفاظ میں کیا کریں؟ ’’کرئیے‘‘ میں ہمزہ اور یے کے دو نقطے ہوں یا نہیں؟ اور اگر ہوں تو ’’کیجیے‘‘ میں کیوں نہ ہوں؟ مرکب الفاظ مثلاً ’’خوب صورت‘‘، ’’گلرو‘‘ کو توڑ کر لکھا جائے یا ملا کر؟ الف مقصورہ والے الفاظ (متوفیٰ وغیرہ) کو پورے الف سے لکھا جائے کہ نہیں؟ دیسی الفاظ جو ہاے ہوز پر ختم ہوتے ہیں (جیسے ’’پیسہ‘‘) ان کو الف سے لکھا جائے یا نہیں؟ مولوی عبدالحق کو ان تمام معاملات سے دل چسپی نہیں معلوم ہوتی۔

    (۴) مولوی صاحب نے تلفظ کی صحت پر اصرار کیا ہے، لیکن صحیح تلفظ کی تعریف متعین نہیں کی ہے۔ کم استعمال الفاظ مثلاً’’مورد‘‘ (’’میم‘‘ پر زبر’’رے‘‘ کے نیچے زیر) ہو یا ’’خودرد‘‘ (رے پر پیش) کو تو چھوڑ دیجیے، عام الفاظ کا صحیح تلفظ کیوں کر متعین ہو؟ ’’حماقت‘‘ کو اکثر لکھنؤ والے ’’ح‘‘ پر زیر سے بولتے ہیں۔ دلّی والے ۹۹ کا تلفظ نون ثانی کی تشدید اور اس کے بعد یاے مجہول لگا کر ادا کرتے ہیں۔ اچھا، ان کو بھی چھوڑیے۔ وہ الفاظ جو عام پڑھے لکھے بولتے کسی طرح ہیں، لیکن لکھتے کسی اور طرح ہیں (مثلاً ’’شہر‘‘، ’’شرح‘‘ وغیرہ) ان کا تلفظ کس طرح بیان کیا جائے؟ مولوی صاحب اس بحث میں اترتے ہی نہیں۔

    (۵) مولوی صاحب چاہتے ہیں کہ ہر لفظ کے بارے میں بتایا جائے کہ وہ کب اور کس طرح اور کس شکل میں اردو زبان پر آیا۔ یہ تینوں باتیں بے اصول ہیں۔ ’’کب‘‘ کا تو معاملہ یہ ہے کہ اردو کے ہزارہا الفاظ اور سابقے لاحقے ہیں جن کے بارے میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ کب آئے اور کس طرح آئے، یہ تو کسی بھی لفظ کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ لفظ کوئی چیز نہیں ہوتا جسے اٹھاکر لے جایا جا سکے اور جس کا اندراج کسی امپورٹ فہرست میں ہو۔

    زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلاں لفظ شاید فلاں لفظ سے یا اس کے تشابہ سے بنا ہو اور یہ بھی سب لفظوں کے بارے میں ہم نہیں کہہ سکتے۔ ’’کس شکل‘‘ کا جھگڑا ہم اوپر دیکھ چکے ہیں۔ جو لفظ زبان پر پہلے رواں ہوا، اس کی شکل کوئی کیا بتائے اور جو لفظ پہلے تحریر میں آیا اس کے بارے میں کون طے کرے کہ یہ لفظ سب سے پہلے تحریر میں کب آیا؟ اور یہی معاملہ کون سا طے ہو گیا ہے کہ کون سا لفظ زبان پر پہلے رواں ہوا اور کون سا لفظ تحریر میں پہلے مروج ہوا؟

    اصل میں یہ معاملات علم اللسان (Philology) سے تعلق رکھتے ہیں۔ لغت نگاری سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔ لغت نگار کاکام صرف یہ ہے کہ ہر ممکن حد تک ہر لفظ کی اصل، یعنی وہ جس زبان سے آیا ہے (یا شاید آیا ہے) اس کی نشان دہی کر دے اور اگر اس کی جڑ سلسلہ بہ سلسلہ کئی زبانوں سے ہوتی آئی ہے، تو اس کی بھی نشان دہی کر دے۔ ممکن ہو تو یہ بھی بتادے کہ زبان میں اس کی قدیم ترین اور جدید ترین مثالیں اور کہاں ہیں۔ باقی سب ڈھکوسلا ہے۔

    (۶) لفظ کی شکل وصورت میں (یعنی غالباً املا میں) کیا کیا تغیر ہوئے، اس کا تصفیہ صرف اس تاریخ کی حد تک ہو سکتا ہے، جس تاریخ سے اس کی تحریری شکل ہمارے پاس موجود ہے۔ لیکن یہاں مولوی عبدالحق صاحب نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ تغیری شکلوں کا الگ اندراج کیا جائے یا ان سب کو ایک ہی جگہ لکھ دیا جائے۔ آکسفرڈ ڈکشنری (O.E.D) نے تو سب کچھ ایک ہی جگہ لکھ دیا ہے۔ کیونکہ قدیم زبان کے لغات الگ سے موجود ہیں اور تمام قدیم ادیبوں کی نگارشات جدید املا میں بھی چھاپ دی گئی ہیں۔ اردو میں ایسا نہیں ہوا۔ لہٰذا مشکل یہ ہے کہ اگر ان سب کو ایک ہی جگہ لکھ دیا جائے تو بعض الفاظ ڈھونڈے نہ ملیں گے۔

    مثلاً دو لفظ بالکل سامنے کے لیجیے۔ ’’سے‘‘ کی شکلیں ’’سوں‘‘، ’’سیں‘‘، ’’ستی‘‘ اور ’’سیتی‘‘ بھی ہیں۔ اگر ان سب کو ’’سے‘‘ کے تحت درج کر دیا جائے تو دکنی یا اوائل اٹھارہویں صدی کی دہلوی تحریریں پڑھنے والا مرتا مر جائے، وہ ’’سیتی‘‘ کے معنی نہیں معلوم کر سکےگا۔ ایک اور لفظ لیجیے، ’’اور۔‘‘ اس کی ایک شکل ’’ہور‘‘ ہے اور ایک تلفظ ’’ار‘‘ (سبب خفیف) ہے، ان دونوں کا اندراج ضروری ہے۔ ’’آصفیہ‘‘، ’’نوراللغات‘‘ اور کراچی کے ’’اردو لغت‘‘ کسی میں بھی’’ار‘‘ درج نہیں ہے، حالانکہ شاعری میں ہزاروں جگہ ’’اور‘‘ لکھ کر ’’ار‘‘ پڑھا جاتا ہے۔ ’’نوراللغات‘‘ میں اتنا تو لکھا ہے کہ بعض جگہ ’’اور‘‘ بروزن ’’فع‘‘ بھی آتا ہے۔ ’’آصفیہ‘‘ اور ’’اردو لغت‘‘ (کراچی) نے اتنا بھی نہ کیا۔

    (۷) مولوی صاحب معانی کے تغیرات کی صراحت بھی ضروری سمجھتے ہیں، (اور یہ ہے بھی بہت ضروری) لیکن اگلے سانس میں وہ مرادف اور تعریف میں فرق کا ذکر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہر لفظ کی تعریف دی جائے ؛ مرادف سے کام نہیں چلےگا۔ اس میں گھپلا یہ ہے کہ وہ معنی، مرادف اور تعریف کے الگ الگ تفاعل کو نہیں سمجھتے۔

    (۸) ’’لفظ‘‘ کی تعریف متعین کیے بغیر وہ چاہتے ہیں کہ لغت میں سب لفظ درج کیے جائیں۔ لیکن پھر گھبراکر یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ عامیانہ اور سوقیانہ میں فرق ضروری ہے، یعنی ان کے نزدیک عامیانہ لفظ تو شامل ہونا چاہیے، لیکن سوقیانہ لفظ شامل نہ ہونا چاہیے۔ پھر وہ دعویٰ کہاں رہا کہ لغت میں سب لفظ درج ہوں؟ اصل میں یہ مشکل اس وجہ سے آپڑی ہے کہ مولوی صاحب (بلکہ ہمارے تمام لغت نگاروں) کے ذہن میں یہ بات صاف نہیں ہے کہ ان کا لغت کس پڑھنے والے کے لیے ہے؟ بچوں کے لیے، نوتعلیم بالغوں کے لیے، غیر ملکیوں کے لیے، ادب کا تاریخی مطالعہ کرنے والوں کے لیے، اخبار پڑھنے والوں کے لیے، آخر کس کے لیے؟ اور لغت مرتب کرنے کا مقصد کیا ہے؟ الفاظ کو محفوظ کردینا، مروج الفاظ کو جمع کر دینا، ان الفاظ کو چھوڑ دینا جن کے معنی شاید ہی کبھی کسی کو درکار ہوں۔ (مثلاً’’میسم‘‘ یاے معروف، سین مکسور، بہ معنی خوب صورت۔) 

    ان الفاظ کو ترک کر دینا جن کے معنی سب کو معلوم ہیں، (مثلاً’’گھر‘‘)، ان الفاظ کو داخل کرنا جو کسی مصنف نے کہیں بھی استعمال کیے ہوں؟ آخر آپ کے لغت کا مفروضہ قاری کون ہے اور آپ کے لغت کا مقصد کیا ہے؟ مولوی صاحب کہہ چکے ہیں کہ وہ’’کامل لغت‘‘ کے تقاضے بیان کر رہے ہیں۔ لہٰذا ایسا لغت سب لوگوں کے لیے ان کے حسب توفیق کارآمد ہوگا۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ ایسے لغت میں تمام الفاظ لیے جائیں گے۔ وہ سوقیانہ ہوں یا عامیانہ، عالمانہ یا صحافیانہ (ہاں ’’لفظ‘‘ کی تعریف ضرور متعین کرنا ہوگی۔) 

    (۹) مولوی صاحب چاہتے ہیں کہ اجنبی زبانوں کے جو لفظ اردو میں داخل ہو چکے ہیں یاہورہے ہیں، ان کو بھی درج کیا جائے۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جو لفظ اردو میں داخل ہو چکے وہ اجنبی زبان کے نہیں، اردو کے لفظ ہو گئے، اور وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ان لفظوں کی تعریف یا تعین ناممکن ہے جو زبان میں داخل ’’ہو رہے ہیں۔‘‘ 

    (۱۰) اعلام کے بارے میں ان کا نظریہ کم وبیش درست ہے، لیکن وہ یہ بات خواہ مخواہ کہتے ہیں کہ وہی اعلام شامل کیے جائیں جن سے ہماری ’’مڈبھیڑ‘‘ ادب میں جگہ جگہ ہوتی ہے۔ معلوم نہیں ’’ادب‘‘ سے ان کی کیا مراد ہے؟ وہ زبان کالغت مرتب کرنا چاہتے ہیں یا ’’ادب‘‘ میں استعمال ہونے والے الفاظ واعلام کی فرہنگ؟ جو اعلام اپنے اصل معنی (یعنی بہ طور حکم) کے علاوہ کسی بھی مجازی معنی میں مستعمل ہیں، ان سب کو لغت میں آنا چاہیے، ان میں ادب اور غیرادب کی تخصیص کیا معنی رکھتی ہے؟

    (۱۱) ان کا کہنا ہے کہ بہت سے الفاظ بنتے جاتے ہیں اور گفتگو سے اخبارات، اخبارات سے ادب وانشا میں داخل ہوتے جاتے ہیں، اور ایسے تمام الفاظ کو لغت میں آنا چاہیے۔ بالکل درست۔ لیکن کس وقت؟ کیا جب وہ انشا وادب کاحصہ بن جائیں؟ اگر ہاں تو پھر وہی مشکل آ پڑتی ہے کہ آپ ادب میں استعمال ہونے والے الفاظ کی فرہنگ لکھ رہے ہیں، یا زبان کا لغت مرتب کر رہے ہیں؟

    (۱۲) تفصیلات میں تمام تر دلچسپی کے باوجود مولوی صاحب اس بنیادی بات کو بھی نظرانداز کر گئے ہیں کہ لغت نگار کا پہلا فرض یہ ہے کہ زبان کے حروف تہجی اور ان کی ترتیب کو واضح کرے اور الفاظ کو اس ترتیب سے درج کرے جو اس کے خیال میں صحیح ترین اور زبان میں مروج ہے۔

    (۱۳) مولوی صاحب اردو کا لغت مرتب کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ اردو میں افعال کی تصریفی شکلوں میں بڑی پیچیدگیاں ہیں۔ اہل زبان ہو یا غیر اہل زبان، اس کو یہ مشکل پیش آ سکتی ہے کہ کسی فعل کا ماضی مطلق کیا ہے اور وہ کس طرح لکھا جائےگا۔ انگریزی میں ایسے افعال بہت نہیں ہیں، لیکن جتنے بھی ہیں، ان کاماضی مطلق اور ماضی بعید مع تلفظ کے بیان کرنا ہر انگریزی لغت نگار اپنا فرض جانتا ہے۔

    یہاں تو عالم یہ ہے کہ ’’آصفیہ‘‘، ’’نوراللغات‘‘ کراچی کا’’اردو لغت‘‘ کسی میں بھی اس کی صراحت نہیں کہ’’آنا‘‘ کا ماضی ’’آیا‘‘ ہے محض ’’آ‘‘ یا ’’آ آ‘‘ نہیں۔ ورنہ ’’لکھنا‘‘ کاماضی ’’لکھا‘‘ اور ’’مرنا‘‘ کا ماضی’’مرا‘‘ کی سند پر کوئی طالب علم یہ فرض کر سکتا ہے کہ ’’آنا‘‘ کا ماضی بھی اسی طرح ہوگا اور’’جانا‘‘ کا ماضی بھی اسی طرح ہوگا۔ علیٰ ہذاالقیاس، جمع کی’’بے قاعدہ‘‘ شکلیں بھی اسم واحد کے ساتھ درج ہونا چاہیے۔ مثلاً ’’چڑیا‘‘ کی جمع’’چڑیوں‘‘ اور ’’چڑیاں‘‘، لیکن’’دنیا‘‘ کی جمع’’دنیاؤں‘‘ اور’’دنیا ئیں۔‘‘ 

    (۱۴) لہٰذا قواعد کی وہ تمام معلومات جو لفظ کو پہچاننے اور سمجھنے میں مدد دیں، لغت کا حصہ ہیں۔ یعنی کامل لغت وہ ہے جس سے ہر شخص استفادہ کر سکے، جو زبان کے تمام الفاظ کو تمام ضروری معلومات کے ساتھ درج کرے۔ مولوی صاحب کا ذہن ضروری معلومات کے باب میں واضح نہیں تھا۔

    اس تمہید کے بعد لغت نگاری کے بنیادی مسائل کی فہرست حسب ذیل بن سکتی ہے،

    (۱) لفظ کی تعریف متعین کرنا ضروری ہے۔ ’’لفظ‘‘ اور ’’اصطلاح‘‘ میں فرق کرنا ضروری ہے؛ لیکن کامل لغت میں وہ تمام اصطلاحات شامل ہو نا ضروری ہیں جو زبان میں رائج ہیں۔ لسانیاتی طور پر لفظ کی تعریف ممکن نہیں، لیکن عملی طور پر ’’لفظ‘‘ کا اطلاق آوازوں کے ہر اس مجموعے پر ہوگا جو کسی زبان کے حروف کے ذریعہ ظاہر کیا جا سکے اور جو اس زبان پر مستعمل ہو (خواہ وہ بے معنی یامہمل ہی کیوں نہ ہو) اور جس کی یا تو آزاد حیثیت ہو یا جو کسی اور لفظ کے ساتھ سابقہ یالاحقہ کے طور پر استعمال ہوتا ہو۔

    (۲) یہ فیصلہ ضروری ہے کہ ان الفاظ کو کن حروف کی مدد سے ظاہر کیا جائے۔ یعنی الفاظ کے املا، تلفظ اور ان حروف کی شکلیں (کہاں پر ہائے مخلوط ہو، کہاں نہیں۔ کہاں ہمزہ ہو کہاں نہ ہو، وغیرہ) متعین کی جائیں۔ اگر ایک سے زیادہ تلفظ یا املا ہوتو ان میں ترجیحات واضح کرنا ہوں گی۔

    (۳) الفاظ کس ترتیب سے درج کیے جائیں؟ کن حروف کو حروف تہجی قرار دیا جائے، کن کو نہیں؟ ان مسائل کا تصفیہ زبان کی بناوٹ، رواج عام، منطق اور لسانیاتی پس منظر کو سامنے رکھ کر کیا جائے۔

    (۴) الفاظ کے معنی، مرادف اور تعریف میں فرق کیا ہے۔

    (۵) بعض الفاظ کے لیے تعریف ضروری ہے۔ مرادف غیر ضروری بلکہ نقصان دہ ہے۔ ایسے الفاظ کا تعین کرکے ان کی تعریف صحت سے کی جائے اور ان کاتعین کرنے میں غیرمعمولی تفحص کیا جائے۔

    (۶) بعض الفاظ کی تعریف ممکن نہیں، ان کے لیے معنی ضروری ہیں، بعض کے لیے معنی اور مرادف دونوں کی ضرورت ہوگی۔

    (۷) بعض الفاظ کے لیے تعریف، مرادف اور معنی تینوں ضروری ہوں گے۔ ایسے الفاظ کا تعین بھی غیر معمولی تفحص کا تقاضا کرتا ہے۔

    (۸) معنی بیان کرتے وقت مندرجہ ذیل صورتوں پر غور کرکے کسی ایک کو اختیار کرنا ہوگا،

    (الف) صحیح ترین معنی سب سے پہلے لکھے جائیں، چاہے وہ مروج نہ ہوں۔ (ب) قدیم ترین معنی سب سے پہلے لکھے جائیں۔ (ج) مروج معنی سب سے پہلے لکھے جائیں۔ (د) اگر کسی لفظ کے ایک سے زیادہ معنی مروج ہوں تو (۱) قدیم ترین مروج معنی سب سے پہلے درج ہو۔ (۲) جو معنی سب سے زیادہ مروج ہوں، وہ سب سے پہلے لکھے جائیں۔ (۳) سب سے کم مروج معنی سب سے پہلے درج ہوں۔ (۴) فصیح ترین مروج معنی سب سے پہلے درج ہوں۔ (ہ) صحیح ترین معنی بالکل نظر انداز کر دیے جائیں اگر وہ مروج نہیں ہیں۔ (د) صحیح ترین معنی اگر مروج نہیں ہیں تو ان کو ’’شاذ‘‘ کے ذیل میں درج کیا جائے۔

    (۹) مرادفات بیان کرتے وقت مندرجہ ذیل باتوں کا لحاظ کرنا ہوگا،

    (الف) ایک لفظ کا ایک ہی مرادف لکھا جائے۔ (ب) اگر ایک لفظ کے کئی مرادف لکھنا ضروری ہیں تو بہترین یا قریب ترین مرادف پہلے لکھا جائے۔ (ج) اگر کسی مرادف کی کئی شکلیں (یعنی املا یا تلفظ) ہیں، تو ان کا بھی اندراج ضروری ہے۔

    (۱۰) محاورات، ضرب المثل اور فقرے میں فرق کرنا ہوگا۔ لغت کو محاوروں اور ضرب الامثال کا احاطہ کرنا چاہیے، فقروں کا نہیں۔

    (۱۱) الفاظ کے فصیح یا غیرفصیح ہونے کا معیار متعین کرنا ہوگا (’’مہذب اللغات‘‘ کی طرح تمام ’’فحش‘‘ الفاظ کو غیرفصیح قرار دینا نادانی ہے۔) 

    (۱۲) تذکیر یا تانیث ظاہر کرنے کے لیے جو مثالیں لائی جائیں وہ بالکل بین اور واضح ہوں۔ اگر کسی لفظ کو مختلف فیہ لکھنا ہے، تو دونوں طرح کی سند ضروری ہے۔

    (۱۳) افعال واسما جن کی تصریفی شکلیں، قاعدۂ عام کی پابندی نہیں کرتیں، ان کی تصریفی شکلیں بیان کی جائیں، لیکن صرف اسی حد تک جس کے بغیر کام نہ چل سکے۔ (کام نہ چل سکنے سے مراد یہ ہے کہ ماضی اور جمع کی معروف اور کثیر الاستعمال شکلوں کو جانے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ نہ دیسی طالب علم کا نہ بدیسی طالب علم کا۔) 

    (۱۴) جن الفاظ کی عربی، فارسی، دیسی تینوں یا ان تینوں میں سے دو طرح کی جمعیں مروج ہیں، ان سب کی ایسی جمعیں ترجیحی ترتیب سے لکھی جائیں۔ (مثلاً یہ بیان کیا جائے کہ ’’خاتون‘‘ کی جمع ’’خواتین‘‘ اور ’’خاتونوں‘‘ دونوں مروج ہیں لیکن ’’خواتین‘‘ مرجح ہے۔) 

    (۱۵) لاحقوں اور سابقوں کے اندراج کے مسئلے پر غور کرکے مندرجہ ذیل میں سے ایک شکل اختیار کرنا ہوگی،

    (الف) ہر لاحقے اور سابقے کا اندراج ایک بار مناسب جگہ پر کیا جائے جو الفاظ ان سے بنتے ہیں وہ اپنی اپنی جگہ درج کیے جائیں۔

    (ب) ہر لاحقے اور سابقے کا اندراج کرکے اس کے تحت جتنے لفظ بنتے ہیں، سب کو ایک جگہ درج کر دیا جائے۔

    (ج) ہر لاحقے اور سابقے کا اندراج کرکے اس کے تحت جو مستقل لفظ بنتے ہوں، وہ لکھ دیے جائیں، باقی کونظر انداز کر دیا جائے۔ (مثلاً ’’بے‘‘ کے تحت’’بے چین‘‘، ’’بے فیض‘‘، ’’بے ضغطہ زبان‘‘، ’’بےکار‘‘ تو درج ہوں، لیکن ’’بے پیے‘‘ کو نظرانداز کر دیا جائے اور’’بے خواہش‘‘ جیسے مرکبات کے بارے میں جو درست ہیں لیکن مروج نہیں ہیں، اصولی فیصلہ، کہ انہیں لکھنا ہے کہ نہیں۔ آکسفرڈ انگلش ڈکشنری نے اس طرح کے تمام انگریزی تراکیب ؍فقروں (Phrases) کو جمع کرنے کا التزام نہیں کیا ہے، لیکن اکثر کو لے لیا ہے۔) 

    (۱۶) حروف کے معنی اور ان کے تفاعل میں فرق کیا جائے۔ اگر کوئی حرف کسی مستقل لاحقے یا سابقے کے طور پر آتا ہے تو اس کا اندراج سابقے لاحقے کے تحت ہو، لیکن اگر کوئی حرف بعض الفاظ میں کوئی خاص تفاعل انجام دیتا ہے، تو اس کا ذکر غیر ضروری ہے۔ اور اگر ذکر کرنا ہی ہے، تو ایسے تمام حروف کا تفاعل مناسب جگہ پر بیان کرنا ہوگا لیکن بہتر یہی ہے کہ حروف کے وہ تفاعل جو لسانیاتی اہمیت کے ہیں (معنوی نوعیت کے نہیں) ان کو نظرانداز کیا جائے۔ مثلاً ’’اہٹ‘‘ میں ’’الف‘‘ اور’’بخدمت‘‘ میں ’’بے‘‘ کا تفاعل معنوی نہیں، بلکہ لسانیاتی ہے۔ یہاں نہ تو ’’الف‘‘ کے معنی نافیہ ہیں اور نہ ’’بے‘‘ کے معنی جاریہ۔ یہ ان حروف کے تفاعل ہیں۔

    (۱۷) غیر زبانوں کے الفاظ جو زبان کا حصہ بن گئے ہیں (یعنی بول چال میں آ گئے ہیں) انہیں لغت میں درج کرنا ہوگا، لیکن جو الفاظ حصہ نہیں ہیں (یعنی بول چال میں نہیں آئے ہیں اگرچہ ممکن ہے بعض مصنفوں نے انہیں استعمال کیا ہو) لغت میں درج نہیں ہوں گے۔

    (۱۸) کون سے الفاظ زبان کا حصہ بن گئے ہیں (متروک، غیر متروک کی بحث نہیں۔ متروک الفاظ بھی زبان کا حصہ ہیں) ان کا تعین محض گزشتہ لغات، کتابوں، رسالوں، اخباروں کے ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ ان چیزوں کے علاوہ زبان بولنے والوں کی کثیر تعداد کی بول چال ریکارڈ کرنی ہوگی پھر تمام کو کمپیوٹر کے ذریعے سے مرتب کرنا ہوگا۔ اگر کمپیوٹر میسر نہ ہوتو تمام الفاظ کے کارڈ بناکر ان کے گریڈ اور کثرت استعمال کا تعین کیا جائے۔

    (۱۹) اگر لغت تاریخی اصول پر مرتب کیا جا رہا ہے، تو جن الفاظ میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے، ان کی کثیر مثالیں مہیا کرنا فضول ہے۔ ایسی صورت میں قدیم ترین اور جدید ترین مثال کافی ہوگی۔

    (۲۰) تاریخی اصول پر مرتب کیے ہوئے لغت میں لفظ کی قدیم ترین شکل کا تعین کرنے کے لیے پوری تحقیق سے کام لینا ہوگا۔

    (۲۱) ہر اندراج اپنی جگہ پر ممکن حد تک مکمل ہونا چاہیے۔ ’’رجوع کیجیے‘‘، ’’دیکھیے‘‘ وغیرہ ہر اس جگہ لکھنا چاہیے، جہاں اس کی ضرورت ہو۔ اگر ایک لفظ کے دوروپ ہیں اور اندراج الگ الگ ہے، تو دونوں اندراجات کے ساتھ ’’رجوع کیجیے‘‘ وغیرہ لکھنا ضروری ہے تاکہ ایک اندراج سے دوسرے کا تعلق فوراً واضح ہو جائے۔

    (۲۲) بنیادی اندراج اور ذیلی اندراج کے بارے میں تصفیہ کر لینا چاہیے کہ کس طرح کے لفظ ذیلی اندراج میں ہوں گے۔

    (۲۳) کسی لفظ کے معنی کا تعین کرنے کے لیے کسی ایک لغت پر کبھی اعتبار نہ کرنا چاہیے۔

    (۲۴) لغت نگار اہل زبان ہو یا نہ ہو، جس زبان کا لغت وہ مرتب کر رہا ہے، اس کو اس زبان کے ساتھ ذہنی مناسبت، طویل مزاولت اور وسیع واقفیت ضرور ہونا چاہیے۔ بہت سے ’’اہل زبان‘‘ ان خصوصیات سے عاری دیکھے گئے ہیں۔ بلکہ ’’اہل زبان‘‘ تو اکثر ہمہ دانی کے مغالطے یالالچ یا معصوم دھوکے میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ (’’مہذب اللغات‘‘ اور’’فرہنگ اثر‘‘ کی مثال سامنے ہے) لغت نگار کو علم اللسان (Philology) لسانیات (Linguistics) اور جس زبان کا لغت وہ مرتب کر رہا ہے، اس کی قریب ترین زبانوں سے واقف ہونا چاہیے۔

    اردو کی حد تک یہ زبانیں ہیں، جدید ہند آریائی اپ بھرنش بولیاں، خاص کر برج، اودھی، ہریانی اور راجستھانی؛ پھر فارسی، عربی، سنسکرت اور پنجابی۔ انگریزی کی واقفیت بھی ضروری ہے، کم سے کم اتنی کہ گلکرسٹ، فیلن، ڈنکن فوربس، شیکسپئر اور پلیٹس کے اردو۔ انگریزی لغات اور اسٹائینگاس (Steingass) اور حیم وغیرہ کے فارسی انگریزی لغات سے پورا استفادہ ممکن ہو۔

    (۲۵) ذہنی مناسبت کی پہچان یہ ہے کہ لغت نگار اصلی اور نقلی محاورے میں فرق کر سکے اور الفاظ  و محاورات کے معنی کی صحت اور رواج کے ترجیحی مدارج کے بارے میں جبلی احساس رکھتا ہو۔ ’’مستند‘‘ اور’’غیر مستند‘‘ استعمال یا معنی کے تعین کے لیے اس کا طرزعمل وفکر تخلیقی ہو، تقلیدی اور مدرسانہ نہ ہو۔ وہ اصلی اور فرضی معنی میں فرق کر سکتا ہو اور محض ظاہری مشابہت یا اختلاف سے دھوکا نہ کھا جائے۔

    مندرجہ بالا خیالات کے پس منظر میں اردو کے تین اہم ترین لغات ’’آصفیہ‘‘، ’’نور اللغات‘‘ او ر ترقی اردو بورڈ پاکستان کا تاریخی اصول پر مرتب کیا ہوا ’’اردو لغت‘‘ کا ایک بہت سرسری جائزہ پیش کرتا ہوں۔ چونکہ ہنوز کراچی لغت کی صرف دوجلدیں (جو’’الف‘‘ اور ’’بے‘‘ کو محیط ہیں) دستیاب ہیں، اس لیے دوسرے دونوں لغات کے بھی صرف وہی حصے سامنے رکھتا ہوں جو ’’الف‘‘ اور ’’بے‘‘ سے متعلق ہیں۔ میں نے اختصار کے لیے فرہنگ آصفیہ کی جگہ ’’آصفیہ‘‘، ’’نور اللغات‘‘ کی جگہ ’’نور‘‘، ’’اردو لغت، تاریخی اصول پر‘‘ کی جگہ صرف ’’لغت‘‘ لکھ کر کام چلایا ہے۔

    جیسا کہ پہلے کہہ چکا ہوں کہ ’’آصفیہ‘‘ اور ’’نور‘‘ میں لفظ کی کوئی تعریف متعین نہیں کی گئی ہے یا اگر کوئی تعریف ان کے مصنفین کے ذہن میں تھی تو کہیں اس کی وضاحت نہیں ہے۔ ’’لغت‘‘ نے اس سلسلے میں یوں لکھا ہے، ’’اس لغت میں اردو کے تمام متداول، متروک، نادرالاستعمال، مفرد اور مرکب الفاظ، محاورات اور امثال درج کیے گئے ہیں، جن کا مآخذ اردو تصانیف کے علاوہ بعض دوسری زبانوں (مثلاً فارسی وغیرہ) کی کتابیں بھی ہیں۔ ان الفاظ میں وہ مفردات ومرکبات بھی شامل ہیں جن میں حسب ذیل خصوصیات میں سے کوئی خصوصیت پائی جاتی ہے، دوسری زبانوں کے ایسے دخیل الفاظ جو اردو بول چال میں رائج ہیں یا رائج تھے، یا کم سے کم دو مصنفین نے اپنی تصانیف میں استعمال کیے ہیں۔‘‘ 

    مندرجہ بالا اقتباس شق’’الف‘‘ ہے۔ چونکہ شق ’’ب‘‘، ’’ج‘‘ اور’’د‘‘ سے مجھے کوئی اختلاف نہیں۔ اس لیے ان کو چھوڑ کر شق ’’ہ‘‘ نقل کرتا ہوں، ’’لگی بندھی ترکیبیں جن سے مفردات کے معنی میں اضافہ ہوتا ہے، یا جن کے اجزائے ترکیب کا مفہوم علیحدہ علیحدہ مبہم یا ناقص ہے۔ انہیں اصل لفظ کے بعد تابعات کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ جیسے ’’اب‘‘ کے تحت ’’اب کے‘‘، ’’اب تک’’،‘‘ اب جب‘‘، ’’اب تب‘‘ یا ’’اب آؤ تو جاؤ کہاں۔‘‘ 

    ان عبارتوں کو پڑھ کر ناطقہ سربہ گریباں ہوتا ہے۔ تعین لغت کے یہ نادر طریقے زبان پر کیا ستم ڈھا رہے ہیں، ان کی وضاحت مثالوں کے بغیر بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ اگر ’’آصفیہ‘‘ اور ’’نور‘‘ تعین لغت میں بےحد محتاط ہیں تو ’’لغت‘‘ بے حد غیر محتاط ہے۔ اس کے باوجود تینوں نے بعض اہم الفاظ چھوڑ دیے ہیں، اور ’’لغت‘‘ نے غیر ضروری الفاظ کی (یعنی ایسے الفاظ کی جو اردو کے لفظ ہی نہیں ہیں، یا لغت میں مستقل اندراج کے لائق نہیں ہے) بھر مار کر دی ہے۔

    ’’الف‘‘ کے ذیل میں ’’آصفیہ‘‘ نے عربی، فارسی میں الف کے تفاعل کی تفصیل مزا لے لے کر بیان کی ہے۔ بعد میں ’’الف‘‘ کے ان تمام تفاعلات کا ذکر کیا ہے جو دیسی الفاظ میں وارد ہوتے ہیں۔ وہ خود لکھتے ہیں، ’’جس طرح عربی فارسی کا الف مختلف مقاموں پر مختلف کام دیتا ہے، اس طرح یہ بھی کبھی نفی کے لیے آتا ہے۔‘‘ اور ’’نور‘‘ نے بھی ان کے اتباع میں تقریباً وہی تفصیلات بیان کی ہیں اور لکھا ہے، ’’یہ الف مختلف مقامات پر مختلف کام دیتا ہے۔‘‘ دونوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ کسی حرف کا کوئی کام دینا اس کو بامعنی (یابے معنی) لفظ کا (یعنی ایسے لفظ کا جسے لغت کا درجہ دیا جا سکے) مقام نہیں دے سکتا۔ مگر انہوں نے اتنی احتیاط سے کام ضرور لیا کہ ’’کام دیتا ہے‘‘ کا فقرہ استعمال کیا۔

    ’’لغت‘‘ میں درج ہے کہ یہ ’’حرف علت‘‘ (مصوتہ) ہے۔ کبھی الفاظ کے شروع میں جیسے اب، ادھر، اُدھر، اولاد، اوگھڑ، اوپر، ایمن، ایمان، افادہ، کبھی درمیان یا آخر میں، جیسے کار، جا۔ البتہ عربی سے ماخوذ الفاظ میں درمیان کلمہ تلفظ مختلف ہوتا ہے، جیسے جرأت، تاثر، تامل۔‘‘ اس عجیب وغریب تحریر کا تجزیہ میرے بس کا نہیں۔ میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ الفاظ کے شروع، درمیان اورآخر کے علاوہ اور کون سی جگہ ہے جہاں ’’الف‘‘ یاکوئی اور حرف وارد ہوتا ہے؟ اس تفصیل کی کیا ضرورت تھی؟ ’’ڑ‘‘ کے علاوہ اردو کا کون سا ایسا حرف ہے جو شروع، درمیان اور آخر تینوں جگہ نہیں آتا؟

    لغت کے مرتبین نے اپنی فہرست حروف تہجی میں لھ، مھ، نھ، وغیرہ کو شامل کیا ہے کہ اگرچہ یہ لفظ کے شروع میں نہیں آتے، لیکن ان کی اپنی مستقل صوتی حیثیت ہے۔ ہوگی۔ لیکن اردو کے حروف تہجی میں انہیں شامل کرنے کا کون ساجواز ہے؟ ہر زبان میں ایسی آوازیں ہیں جو صوتی شخصیت رکھتی ہیں، لیکن لفظ کے شروع میں نہیں آتیں۔ یا لفظ کے شروع میں آتی بھی ہیں تو اس آواز کے ساتھ نہیں جو تہجی کے حیثیت سے ان کی آواز ہے۔ پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ حروف تہجی کی تعداد کو زیادہ کرنا الجھنوں کو اور الجھانا ہے۔ حرف تہجی کی پہچان یہی ہے کہ لفظ کے شروع، وسط، آخر کہیں بھی آ سکتا ہے۔ غیر ضروری تفصیلات بیان کرکے ضخامت میں اضافہ کرنا تو ممکن ہے، لیکن علم میں اضافہ نہیں ہوتا۔

    پھر لفظ کے شروع میں آنے والے ’’الف‘‘ کی مثال میں تو کئی لفظ دیے گئے ہیں، درمیان اور آخر کے لیے ایک ہی ایک لفظ پر اکتفا کی گئی ہے۔ یہ اشرفیوں کی لوٹ اور کوئلوں پر مہر کیوں؟ اور’’ایمان‘‘، ’’افادہ‘‘ میں تو الف بیچ میں بھی آتا ہے۔ ان الفاظ کو محض آغازی ’’الف‘‘ کی مثال میں رکھ کر الجھن پیدا کرنا کیا ضروری تھا؟ ان سب پر یہ طرہ کہ ’’عربی سے ماخوذ بعض الفاظ میں درمیان کلمہ تلفظ مختلف ہوتا ہے۔‘‘ اس عبارت میں ’’کلمہ‘‘ کا لفظ لاکر ایک اور الجھن ڈال دی کہ بات تو الفاظ کی ہو رہی تھی، یہ ’’کلمہ‘‘ کہاں سے آپڑا؟ اور ’’جرأت‘‘، ’’تامل‘‘، ’’تاثر‘‘ وغیرہ میں ’’الف‘‘ کا لفظ ’’اب‘‘، ’’اگر‘‘، ’’الم‘‘ جیسے الفاظ کے ’’الف‘‘ سے کس طرح مختلف ہے؟ ’’لغت‘‘ کے مرتبین نے ’’تامل‘‘ اور’’تاثر‘‘ پر ہمزہ نہ دے کر اور’’جرأت‘‘ پر ہمزہ دے کر اور ستم کیا ہے۔

    بےچارہ پڑھنے والا سمجھےگا کہ ’’جرأت‘‘ کے ’’الف‘‘ کا تلفظ کچھ اور ہوگا، ’’تامل‘‘ اور’’تاثر‘‘ کے الف کا تلفظ کچھ اور۔ لیکن اسے یہ اطلاع کہیں نہیں دی گئی کہ ’’جرأت‘‘، ’’تامل‘‘، ’’تاثر‘‘ وغیرہ میں ’’الف‘‘ کا تلفظ کس طرح کیا جائے؟ ایک ظلم تو یہ کیا کہ جہاں اختلاف نہیں تھا، وہاں اختلاف کا تذکرہ کیا؛ پھر گھپلا یہ کر دیا کہ اس اختلاف کی تفصیل بھی نہیں بیان کی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ’’الف‘‘ کا اندراج الگ کیا ہے اور تقریباً تین کالم میں بہ طورسابقہ یا لاحقہ اس کے تفاعل بیان کیے ہیں۔ زیادتی کے لیے سنسکرت کا اور تفصیل کے لیے عربی کا ’’الف‘‘ سب الف زبر کے معنی کے ذیل میں لکھے گئے ہیں۔ اور اگر یہ تمام تفصیل بیان کرنا تھی تو ’’الف‘‘ کا سب سے زیادہ پریشان کن تفاعل (یا ان تینوں کے نزدیک ’’الف‘‘ کے معنی) ’’الف زائدہ‘‘ کو کیوں نظر انداز کر دیا؟

    ’’آصفیہ‘‘ نے اس پر مفصل نقشے بنائے ہیں، لیکن مشہور اور اکثر استعمال ہونے والے الفاظ مثلاً ’’افسوں‘‘، ’’افسانہ‘‘، ’’اشتر‘‘، ’’اگر‘‘ وغیرہ کو بھول گئے ہیں۔ ’’نور‘‘ نے صرف ’’اگر‘‘ اور ’’اشتر‘‘ پر اکتفا کی ہے لیکن اتنا لکھ دیا ہے کہ اردو میں ’’اگر‘‘ فصیح ہے۔ ’’لغت‘‘ بے چاری ’’الف زائد‘‘ کے باب میں بالکل خاموش ہے۔ ’’افسانہ‘‘، ’’افسوں‘‘، ’’اشتر‘‘، ’’اگر‘‘، ’’افغاں‘‘، ’’افگار‘‘، ’’اسکندر‘‘، ’’اشکم‘‘ جیسے درجنوں الفاظ اردو کے طالب علم کے لیے پریشانی پیدا کرتے ہیں۔ جہاں ارباب ’’لغت‘‘ نے ’’الف‘‘ کے تفاعل (یا ان کے خیال میں معنی) کی بعض نہایت نادر مثالیں درج کی ہیں۔ (مثلاً’’الف تشدیدی‘‘ سنسکرت الفاظ میں جیسے ’’چپل‘‘ سے ’’اچپل‘‘ یعنی ’’بہت شوخ‘‘، وہیں ’’الف زائد‘‘ کا ذکر بھی کر دیتے تو ان کا کیا بگڑتا، بلکہ سینکڑوں کا بھلا ہوتا۔

    ’’اچپل‘‘ کے ’’الف‘‘ کا اندراج کرکے انہوں نے مزید غلط فہمی یہ پھیلائی ہے کہ اس طرح کے الفاظ بہت سے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے الفاظ بہت ہی کم ہیں، اور ’’افسانہ‘‘، ’’افسوں‘‘ کے الفاظ کے مقابلے میں تو معدوم ہیں۔ (اب یہ الگ بحث ہے کہ ’’افسانہ‘‘ وغیرہ میں ’’الف‘‘ زائد ہے، یا اصل لفظ ’’افسانہ‘‘ وغیرہ ہی ہیں اور ’’الف‘‘ ان کا ساقط ہو گیا ہے۔ اصلیت یہ ہے کہ الگ الگ الفاظ میں الگ الگ صورتیں ہیں اور بعض ہم معنی اصلی لفظ مع الف اور بے الف بھی ہیں مثلاً’’سوار‘‘ اور’’اسورا۔‘‘ 

    ’’نور‘‘ نے ’’اسورا‘‘ کا مخفف ’’سوار‘‘ لکھا ہے جو بالکل غلط ہے۔ ’’آصفیہ‘‘ نے ’’اسوار‘‘ درج کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ ’’لغت‘‘ نے ’’اسوار‘‘ کا الگ لغت قائم کرکے معنی ’’سوار‘‘ دیے ہیں، لیکن اس کی اصل بیان کی ہے کہ یہ ’’اشو‘‘ اور’’ار‘‘ کا مرکب ہے۔ ’’بہار عجم‘‘ میں لکھا ہے کہ یہ لفظ دراصل ہندی (یعنی سنسکرت) ’’اسوارودھ‘‘ سے بنا ہے۔ ’’برہان قاطع‘‘ اس کو ’’سوار‘‘ کے معنی میں کم وبیش اصطلاحی لفظ بھی بتاتی ہے۔ ارباب ’’لغت‘‘ کو مزید تحقیق ضروری تھی۔) 

    حرفوں کو لفظ فرض کرنے کا یہ شوق صاحبان ’’لغت‘‘ کو اس قدر ہے کہ ’’بہ خدا‘‘، ’’بہ ایں لحاظ‘‘، ’’بہ اجلاس‘‘، ’’بہ خیریت‘‘، ’’بہ اقسام‘‘ جیسے الفاظ کو ’’بخدا‘‘، ’’بایں ہمہ‘‘ وغیرہ لکھ کر ’’ب‘‘ کے معنی بیان کیے ہیں کہ یہ فارسی حرف اردو میں ’’ساتھ میں‘‘، ’’جانب‘‘ وغیرہ کے معنی میں مستعمل ہے۔ صاحبان ’’ لغت‘‘ کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ ان سب الفاظ میں ’’ب‘‘ بے معنی ہے۔ یہ دراصل ’’با‘‘ یا’’بہ‘‘ کا مخفف ہے۔ ’’بہار عجم‘‘ نے باے موحدہ اور ’’با‘‘ دونوں کو ایک ہی بتایا ہے۔ لیکن اردو میں یہ صورت نہیں۔ خود انہوں نے ’’باعلان‘‘ کی سند میں مونس کا جو شعر دیاہے اس میں بھی’’بہ اعلان‘‘ الگ الگ لکھا ہوا ہے۔ (جلد دوم صفحہ ۴۸۰)

    یہ بات اس شقی نے بہ اعلان جب کہی
    ابن حسن میں تاب خموشی نہ پھر رہی

    حدیہ ہے کہ’’بپا‘‘ کا اندراج بھی کر دیا ہے اور یہ بھی لکھ دیا ہے کہ یہ دراصل ’’برپا‘‘ ہے۔ اب بے چارہ طالب علم کہاں جائے؟ اس کو بتارہے ہیں کہ ’’ب‘‘ مجرد اتنے بہت سے معنی دیتی ہے اور مثال میں ’’بپا‘‘ بھی ڈال کر لکھ رہے ہیں کہ یہ’’ب‘‘ مجرد والی نہیں ہے۔ اور یہ لکھنا کہ یہ ’’ب‘‘ فارسی’’حرف‘‘ ہے لیکن ’’اردو‘‘ میں فلاں فلاں معنی دیتا ہے، عجیب وغریب بات ہے۔ یعنی ’’ب‘‘ اردو کا حرف ہے بھی اور نہیں بھی۔ یا حرف تو فارسی کا ہے لیکن اردو میں اس کے فلاں فلاں معنی ہیں۔

     اس پر طرہ یہ کہ باے قسم کو بھی فارسی حرف بنا دیا۔ خدا معلوم’’باللہ‘‘ اور’’برب کعبہ‘‘ کی’’ب‘‘ فارسی کب سے ہو گئی! اگر لکھنے ہی کا شوق تھا تو لکھ دیتے کہ بہت سے الفاظ میں فارسی ’’با‘‘ یا’’بہ‘‘ کی جگہ محض ’’ب‘‘ اردو فارسی میں آئی ہے ؛ اور بہت سے الفاظ فارسی میں غیرٹکسالی ہیں، لیکن اردو میں ’’با‘‘ یا’’بہ‘‘ یا’’بر‘‘ کو مخفف کرکے محض ’’ب‘‘ کے ساتھ بنا لیے گئے ہیں۔ ان کے اندراجات مناسب جگہ پر مل جائیں گے۔

    حروف کو لفظ فرض کرنے کا شوق ایسا ہی رہا، تو مجھے یقین ہے ارباب ’’لغت‘‘، ’’نکہو‘‘، ’’نچھوڑو‘‘، ’’نکرو‘‘، ’’نگشتہ‘‘ میں بھی’’ن‘‘ کو لفظ فرض کرلیں گے اور کہیں گے کہ یہ حرف فارسی کا ہے لیکن اردو میں اس کے معنی نفی کے ہوتے ہیں۔ ’’نور‘‘ اور’’آصفیہ‘‘ نے الفاظ کو لغت کیوں قرار دیا ہے اس کی وضاحت انہوں نے نہیں کی ہے۔ لیکن جو لغات انہوں نے درج نہیں کیے ہیں (تقطیع’’ب‘‘) ان میں سے چند حسب ذیل ہیں،

    آصفیہ، اب تب کرنا، اب تک لگنا، اب نہ تب، اب کا، اب نہیں، اب اب کرنا، اب کیا پوچھنا ہے۔

    نور، اب تب لگنا، اب اب کرنا، اب کیا پوچھنا۔

    ان کے برخلاف ارباب ’’لغت‘‘، ’’اب‘‘ کی تقطیع میں لفظ نافہمی کے وہ ثبوت دیے ہیں کہ باید وشاید۔ اب کے چند معنی ملاحظہ ہوں،

    (۱) ان دنوں، آج کل، اس دور میں، اس زمانے میں، اس زندگی میں۔ ’’ان دنوں‘‘ اور’’آج کل‘‘ بالکل ہم معنی ہیں۔ اسی طرح ’’اس دور میں‘‘ اور’’اس زمانے میں‘‘ بالکل ہم معنی ہیں۔ ان اندراج کی کیا ضرورت تھی؟ ’’اس زندگی میں‘‘ کا مفہوم ’’اب‘‘ سے کس طرح برآمد ہوتا ہے، اس کے لیے ذوق کا یہ شعرنقل ہے، اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے (الخ) اگر یہاں ’’ب‘‘ کے معنی’’اس زندگی میں‘‘ ہیں تو میر کے اس شعر میں بھی ہونا چاہیے، جو’’اس نوبت‘‘، ’’اس مرحلے پر‘‘ کے تحت نقل کیا گیا ہے۔

    زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
    اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا

    ظاہر ہے کہ دونوں جگہ’’اب‘‘ کے معنی متحد ہیں۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ یہاں اس کے معنی ہیں ’’اس حالت میں‘‘، ’’اس صورت میں‘‘، یہاں نہ مرحلے کا چکر ہے، نہ زندگی کا۔ اگر اس کا ثبوت دیکھنا ہو تو میر کے یہاں بھی ’’اب‘‘ کے بعد’’تو‘‘ لگا کر دیکھ لیجیے۔ ’’نور‘‘ میں بالکل ٹھیک لکھا ہے کہ کبھی کبھی ’’اب‘‘ کے بعد ’’تو‘‘ زائد اور حسن کلام کے لیے آتا ہے، مطلب ’’اب‘‘ سے ادا ہو جاتا ہے۔ ذوق اور میر کے یہاں بھی یہی صورت ہے۔ مفہوم نہ ’’زندگی‘‘ کا ہے نہ ’’نوبت‘‘ وغیرہ کا۔ محض ’’اس صورت میں‘‘، ’’اس حالت میں‘‘ کا مفہوم ہے۔ لیکن ارباب’’لغت‘‘ کو تو فہرست معانی میں اضافہ کرنے سے غرض ہے اور فہرست الفاظ میں کثرت کا شوق اور دیکھیے،

    (۲) آئندہ، مستقبل میں، صاف ظاہر ہے کہ ’’آئندہ‘‘ اور چیز ہے اور ’’مستقبل‘‘ اور چیز ہے۔ کیونکہ ’’آئندہ‘‘ کے اور معنی بھی ہیں، جو ’’مستقبل‘‘ کے نہیں ہیں (مثلاً آپ کہتے ہیں، (’’آئندہ اوراق میں اس کی تفصیل ملے گی‘‘) یہ بھی ظاہر ہے کہ ’’اب‘‘ کے معنی میں ’’آئندہ‘‘ کے یہ معنی شامل نہیں ہیں۔ یہاں ’’آئندہ‘‘ لکھ کر ارباب لغت نے طالب علم پر ظلم شدید کیا ہے۔ پھر مومن کا شعر نقل کرتے ہیں،

    اب اور سے لو لگائیں گے ہم
    جوں شمع تجھے جلائیں گے ہم

    تعجب ہے کہ ارباب ’’لغت‘‘ نے یہ نہ دیکھا کہ یہاں ’’اب‘‘ کے معنی ’’آئندہ‘‘ یا ’’مستقبل‘‘ میں نہیں ہیں بلکہ ’’اس وقت سے‘‘ کے ہیں۔ ’’مستقبل میں‘‘، ’’اب‘‘ کے لیے مومن ہی کا ایک شعر ارباب’’لغت‘‘ نے نقل کیا ہے لیکن معنی یوں لکھے ہیں،

    (۳) دوبارہ، مکرر، یہاں بھی وہی گھپلا ہے۔ ’’دوبارہ‘‘ یا’’مکرر‘‘ میں سے ایک کافی تھا۔ شعر ہے،

    بت خانۂ چیں سہی ترا گھر
    مومن ہیں تو اب نہ آئیں گے ہم

    ’’نور نے اس شعر کو’’آئندہ‘‘ کے معنی کی سند کے طور پر پیش کیا ہے اور صحیح کیا ہے۔ ’’دوبارہ‘‘ کے معنی میں ’’اب‘‘ قطعی غلط ہے۔ زیادہ سے زیادہ اسے ’’پھر کبھی‘‘ کے معنی میں لیا جا سکتا ہے۔ ’’نور‘‘ نے یہ معنی درج بھی کیے ہیں لیکن ’’لغت‘‘ میں ’’پھر کبھی‘‘ کا ذکر نہیں۔

    اگر ’’آصفیہ‘‘ کو لغات ترک کرنے کا شوق ہے تو ’’نور‘‘ کو کثرت کی تلاش ہے۔ انصاف کی کہیے تو’’نور‘‘ نے بیش تر وہی الفاظ درج کیے ہیں جو واقعی لغت کا درجہ پانے کے مستحق ہیں۔ لیکن کثرت کا شوق قلت کے شوق سے کم معیوب نہیں، بلکہ زیادہ ہی ہے کیونکہ اس سے زبان کے بارے میں بالکل غلط اور لاحاصل تصورات کو راہ ملتی ہے۔ چنانچہ ’’نور‘‘ نے ’’اب جاگے‘‘ کا لغت قائم کرکے معنی بیان کیے ہیں، ’’اب ہوش میں آئے، بہت دیر بعد چیتے۔‘‘ حالانکہ ظاہر ہے کہ اس محاورے میں ’’اب‘‘ کے کوئی خاص معنی نہیں ہے، محاورہ ’’جاگے‘‘ کے استعاراتی معنی پر قائم ہے۔ ’’اب جاگے‘‘ میں ’’اب‘‘ کی جگہ ’’تب‘‘ پھر’’کب‘‘ رکھ دیجیے، ’’جاگے‘‘ کا مفہوم وہی رہتا ہے یعنی ’’ہوش میں آئے۔‘‘، ’’اب‘‘ کے بجائے اس محاورہ کو’’جاگے‘‘ کی تقطیع میں آنا چاہیے تھا۔

    اسی طرح ’’اب پھنسے‘‘ کا لغت قائم کرکے ’’نور‘‘ میں معنی درج ہیں، ’’عن قریب دام میں پھنسےگا۔‘‘ یہاں بھی ظاہر ہے کہ ’’اب‘‘ کے معنی معمولہ ہیں یعنی ’’تھوڑی ہی دیر میں۔‘‘ لیکن ’’پھنسے‘‘ میں محض مضارع کا مفہوم ہے۔ اس جگہ کچھ بھی رکھ دیجیے! ’’اب مرا‘‘، ’’اب گرا‘‘، ’’اب گیا‘‘ وغیرہ تو بھی ’’اب‘‘ کا مفہوم قائم رہتا ہے۔ ’’نور‘‘ کو چاہیے تھا کہ ’’اب‘‘ معنی ’’عن قریب‘‘ درج کرکے داغ کا وہ شعر لکھتے جو انہوں نے ’’اب پھنسے‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا ہے۔ ’’لغت‘‘ میں ’’اب‘‘ کے معنی ’’عنقریب‘‘ بالکل صحیح درج ہیں۔ لیکن کثرت الفاظ کا ہوکا ویسا ہی ہے۔

    (۴) اگلے ہی لمحے (یا لمحات) میں، بہت جلد، عنقریب۔ بس’’عنقریب‘‘ کافی تھا۔ لیکن ارباب ’’لغت‘‘ کی ایک لفظ سے تسلی کہاں ہوتی ہے اور یہ بھی نہیں کہ مرادفات کے اس ڈھیر میں کوئی ترجیحی درجہ بندی بھی ہو۔ بس یوں ہی لکھ دیا ہے۔ لغت نگاری آخر الفاظ ہی کو تو جمع کرنے کا نام ہے۔

    ارباب’’لغت‘‘ نے کہا ہے کہ انہوں نے کوئی لفظ خود سے ایجاد نہیں کیا، کیونکہ لغت نگار کا منصب وضع الفاظ نہیں ہے۔ یہ بہت احسن اصول ہے لیکن وضع الفاظ سے پرہیز کرنے کے ساتھ لغت نگار کو صحت الفاظ کا بھی لحاظ رکھنا چاہیے۔ ارباب ’’لغت‘‘ کا یہ عالم ہے کہ تحقیق کی جگہ حسن اعتقاد سے کام لیتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے مندرجہ ذیل لغت بھی قائم کیا ہے۔

    اب جب، تامل، التوا، ٹال مٹول

    اول تو اسی پر حیرت ہے کہ کیا کسی لفظ کے معنی ’’تامل‘‘ اور’’التوا‘‘ دونوں ہو سکتے ہیں؟ خیر، ممکن ہے۔ لیکن سند میں جو کچھ پیش کیا گیا ہے وہ حسب ذیل ہے۔

    (۱) 
    شاعر ہو، مت چپکے رہو، اب جب میں جانیں جاتی ہیں
    بات کرو، ابیات پڑھو، کچھ بیتیں ہم کو بتاتے رہو
    میر

    (۲) 
    اب جب سب واہیات، لڑنے کے لیے کوئی ساعت
    نکلوائی جاتی ہے۔
    (افسانچے)

    میر کا یہ شعر دیوان پنجم میں ہے۔ ارباب ’’لغت‘‘ نے کلیات کے کسی ایڈیشن کے صفحہ ۸۰۵ کا حوالہ دے کر نقل کیا ہے۔ ۱۸۱۱ کے کلیات صفحہ ۶۸۱ اور ظل عباس عباسی کے کلیات (دہلی ۱۹۶۸) میں، جو۱۸۱۱ پر مبنی ہے، شعریوں درج ہے۔ (۷۴۸)

    شاعر ہو، مت چپکے رہو، اب چپ میں جانیں جاتی ہیں۔۔۔ الخ

    نول کشور کا۱۸۶۸ بھی میرے سامنے ہے۔ اس میں بھی (صفحہ ۷۴۵) ’’اب جب میں‘‘ کی جگہ ’’اب چپ میں‘‘ بالکل صاف لکھا ہے۔ ’’اب جب‘‘ کی جگہ ’’اب چپ‘‘ کس قدر مناسب ہے، یہ کہنے کی حاجت نہیں۔ ’’اب جب‘‘ سے تو کوئی مطلب نہیں نکلتا، لیکن اگر ’’التوا‘‘، ’’ٹال مٹول‘‘ ہی کا مفہوم شاعر کے مد نظر ہوتا تو وہ آسانی سے ’’اب تب‘‘ کہہ سکتا تھا۔ خود’’لغت‘‘ نے شاید جلدی میں ’’چپ‘‘ کو’’جب‘‘ پڑھ لیا۔ پھر مزید تحقیق کی، اور ’’افسانچے‘‘ سے ایک جملہ برآمد کیاجس کا مطلب میری سمجھ سے باہر ہے۔ (’’اب جب، سب واہیات‘‘ خدا جانے اس کا کیا مطلب ہے؟ کتاب میرے سامنے نہیں لیکن میر کی سند غلط ثابت ہونے کے بعد ’’اب جب‘‘ بہ معنی ’’تامل‘‘ وغیرہ میں مجھے سخت تامل ہے۔

    اردو الفاظ کو لغت قرار دینے میں ’’آصفیہ‘‘ خاصی کنجوس ہے، لیکن انگریزی الفاظ میں اتنا تکلف نہیں برتا گیا ہے۔ اس سے زیادہ بے اصولاپن کیا ہوگا کہ ’’اہا‘‘ کی دوسری اور اتنی ہی معروف شکل’’آہا‘‘ نہ دی جائے، لیکن ’’اسکالر شپ‘‘، ’’اسکول ماسٹر‘‘، ’’اسپرٹ‘‘ (بہ معنی ’’جوش، ولولہ‘‘، ’’جوہر‘‘ یہ سب معنی اردو میں نہیں ہیں) ’’اسٹوڈنٹ‘‘ وغیرہ دھڑلے سے درج ہوں۔ ’’اسکالرشپ‘‘ کی جگہ’’وظیفہ‘‘ عرصے سے مستعمل ہے، ممکن ہے ’’آصفیہ‘‘ کے زمانے میں نہ رہا ہو۔ لیکن ’’اسکول ماسٹر‘‘ کبھی اردو نہیں مانا گیا۔ ’’ماسٹر صاحب‘‘ البتہ اردو ہے، ’’ماسٹر جی‘‘ بھی اردو ہے۔ ’’اسپرٹ‘‘ اور’’اسپیکر‘‘ مخصوص معنوں میں اردو ہیں۔ (’’اسپرٹ‘‘ بہ معنی الکوہل یا الکہل اور’’اسپیکر‘‘ بہ معنی اسمبلی یا پارلیمنٹ کا اسپیکر) ان کے علاوہ کوئی اور معنی دینا زیادتی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ’’اسٹاف‘‘ نہیں درج کیا، جو’’اسکول ماسٹر‘‘ کے مقابلے میں بہت زیادہ اردو ہے۔

    ’’آصفیہ‘‘ نے ’’آزمائش‘‘ لکھا ہے (مع ہمزہ اور یاے تحتانی) لیکن ’’آزمائشی‘‘ چھوڑ دیا ہے۔ اس کو اردو الفاظ سے زیادہ غیر اردو الفاظ بہت پسند ہیں۔ چنانچہ ہندی الفاظ بھی خوب درج کیے گئے ہیں۔ (مثلاً’’برکھ‘‘ بہ معنی’’بیل‘‘، ’’مرگا‘‘، ’’بھجا‘‘ بہ معنی ’’بازو‘‘، ’’مثلث‘‘ کا ضلع، ’’برہسپت‘‘ بہ معنی ’’عالم فاضل‘‘ وغیرہ۔) ’’نور‘‘ میں ’’اہا‘‘ اور ’’آہا‘‘ دونوں درج ہیں۔ لیکن ’’آہا‘‘ بہ معنی کلمۂ ماتم نہیں دیا ہے۔

    ہندی اور انگریزی الفاظ کے سلسے میں ’’نور‘‘ زیادہ محتاط ہے۔ اگرچہ اس میں ’’اسپیکر‘‘ (بہ معنی ’’تقریر کرنے والے‘‘، جو بالکل غلط ہے) درج ہے۔ (’’آصفیہ‘‘ نے کم سے کم ایک معنی تو صحیح لکھے تھے، یعنی’’پارلیمنٹ کا اسپیکر‘‘ لیکن’’اسکالر شپ‘‘، ’’اسکول ماسٹر‘‘، ’’اسٹوڈنٹ‘‘ وغیرہ درج نہیں ہیں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ اس احتیاط میں ’’اسٹیشن ماسٹر‘‘ بھی نظرانداز ہو گیا ہے۔ ’’برکھ‘‘، ’’برہسپت‘‘ (بہ معنی’’عالم، فاضل‘‘) درج نہیں ہیں، لیکن ’’بھجا‘‘ بہ معنی ’’مثلث کا ضلع‘‘ (جو اردو میں قطعی نہیں ہے) لکھا ہوا ہے۔

    القصہ تعین لغت میں ’’آصفیہ‘‘ اور’’نور‘‘ دونوں جگہ جگہ بے اصولے پن سے کام لیتے ہیں۔ ارباب ’’لغت‘‘ نے اصول قائم کیے ہیں، لیکن ان کے اصول ’’آصفیہ‘‘ اور’’نور‘‘ کے بے اصولے پن سے بدتر ہیں۔ جیسا کہ میں اوپر اقتباس میں درج کر چکا ہوں، وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اردو کے تمام متداول اور نادر الفاظ شامل کیے ہیں، وہ الفاظ بھی شامل کیے ہیں جو دوسری زبانوں سے آئے ہیں، لیکن رائج تھے، یا رائج ہیں، یا کم سے کم دو مصنفوں نے استعمال کیے ہیں۔

    مآخذ میں اردو کے علاوہ دوسری زبانوں کو بھی سامنے رکھا گیا ہے۔ (چنانچہ بعض الفاظ کی سند ابوالفضل وغیرہ سے دی گئی ہے۔) اس کارروائی کو دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ ایں چہ بوالعجبیت! اگر اردو کا لفظ ہے، تو اردو میں کہیں تو استعمال ہوا ہوگا، اگر نہیں تو اس کا اردو ہونا مشکوک ہے۔ یہ تو یوں ہوا کہ انگریزی کے لغت میں لفظ’’غزل‘‘ درج کیا جائے او ر سند دی جائے کسی ایسے مصنف کی جس نے غزل پر انگریزی میں مضمون لکھا ہو۔

    متبادل اورنادر الفاظ بالکل ٹھیک، لیکن لفظ کی تعریف واضح نہیں ہوئی۔ اور یہ ڈنڈا چلا کر کہ کسی لفظ کو کم سے کم دو مصنفوں نے استعمال کیا ہو، تب ہم غیر زبان کا لفظ اردو میں لغت کے طور پر قائم کریں گے، وہ دھاندلی کی ہے کہ توبہ ہی بھلی۔ مثالیں ملاحظہ ہوں، ’’ان ورسری۔‘‘ (یہ انگریزی لفظ ’’اینی ورسری‘‘ Anniversary کا غلط تلفظ ہے) سند صرف ایک لائے ہیں، ’’سیرۃ النبی‘‘ کی۔ ’’ایوننگ پارٹی۔‘‘ یہاں بھی سند ایک ہی ہے۔ کسی کتاب بنام ’’آواز‘‘ کی، جس کی تاریخ ۱۹۶۷ء درج ہے۔

    ’’ایمری‘‘ (یہ انگریزی لفظ Emery کا غلط تلفظ ہے) معنی بھی درست نہیں لکھے ہیں۔ فرماتے ہیں، ’’ایک سخت دھات جو پالش کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔‘‘ سبحان اللہ! حقیقت یہ ہے کہ ایک طرح کا پتھر ہوتا ہے مانک سے مشابہ، اسے ہندی اور اردو میں ’’کرنڈ‘‘ کہتے ہیں۔ Emery اس کی ایک قسم ہے۔ امری یا ایمری اردو میں کبھی دخیل نہیں ہوا۔ سند صرف ایک دی ہے، ۱۹۳۳ کی۔ ’’امری‘‘ کے معنی’’ریگ مال‘‘ یعنی Sand Paper بھی غلط درج ہیں۔

    ارباب ’’لغت‘‘ نے معمولی تحقیق بھی گوارا نہیں کی۔ ارباب ’’لغت‘‘ کی ذہنیت کہیں تو اس قدر معصوم ہے کہ وہ کسی لفظ کو کہیں دیکھ لیتے ہیں تو اسے جھٹ اپنے لغت میں درج کر لیتے ہیں اور کہیں اس قدر محتاط کہ اصلی اور واقعی لغات کو نظرانداز کر جاتے ہیں۔ چنانچہ الفاظ کے سلسلے میں یہ دونوں طرح کی حرکتیں ان سے جابہ جا ہوتی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ’’آل رائٹ‘‘ جیسا انگریزی لفظ بھی اردو فرض کر لیا ہے او ر سندکے لیے جو عبارت لائے ہیں وہ مکالمہ ہے،

    آل رائٹ، ٹھیک ہے، بہت ٹھیک، بہت خوب
    بلمپ بولا۔ آل رائٹ۔ تم ایک پلس ہو گئے تو لائم جوس پی سکتے ہو۔
    ۱۹۵۵ (بسلامت رومی)

    ان کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ مکالمہ میں بولنے والے کے اصل لفظ درج کرنے کی روایت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مکالمے میں آنے والا لفظ خودبہ خود لغت بن جاتا ہے۔ انگریزوں کی زبان سے جو مکالمے کہلائے جاتے ہیں، ان میں اکثر ہمارے مصنفوں نے ’’ویل‘‘ (Well)، ’’ٹم‘‘ (تم)، ’’مانگٹا‘‘ (مانگتا)، ’’ام‘‘ (ہم)، ’’ڈیم فول‘‘ (Damned Fool) وغیرہ، اور دیہاتیوں کی زبان سے جو مکالمے ادا کرائے جاتے ہیں ان میں ’’اجت‘‘ (عزت)، ’’ہجور‘‘ (حضور)، ’’پھائدہ‘‘ (فائدہ) وغیرہ الفاظ بھی ہیں۔

    یقین ہے کہ ارباب ’’لغت‘‘ ان کو بھی اپنی کتاب میں جگہ دے کر اس کی زینت بڑھائیں گے۔ ’’بسلامت روی‘‘ کا اقتباس جو انہوں نے نقل کیا ہے، صاف صاف مکالمہ ہے۔ (بلمپ بولا، آل رائٹ) اس کو لغت بنانا انتہائی درجہ کی معصومیت ہے۔ تعجب ہے انہوں نے ’’ام‘‘ کی تقطیع میں اس کے معنی ’’ہم‘‘ نہیں درج کیے۔ (ناول نگاروں کے یہاں درجنوں انگریزوں کی زبان سے ’’ہم‘‘ کی جگہ ’’ام‘‘ کہلایا گیا ہے۔) انگریزی لفظ ناشناسی کی ایسی ہی مثال ارباب ’’لغت‘‘ نے لفظ ’’بابا‘‘ کے تحت بھی پیش کی ہے۔ ایک معنی یوں بیان کیے ہیں،

    (۳) وہ لفظ جس سے انگریزی راج میں انگریزوں کے شاگرد پیشہ اپنے آقاؤں کے بچوں کو مخاطب کرتے ہیں۔
    کلکٹر۔۔۔ میم صاحب وبابا صاحب
    ۱۸۵۸ (سرکشی ضلع بجنور)

    لیکن آگے یہ بھی ہے،
    بیٹا، بیٹی یا خود سے (باپ کسی بزرگ کا حرف خطاب)
    باپ نے کہا، اے بابا مجھے تیری قدرت کا حال بخوبی معلوم ہے
    ۱۸۲۸ (بستان حکمت)

    انہوں نے یہاں بھی وہی گھپلا کیا۔ ’’بابا‘‘ مجرد طور پر انگریزی راج میں۔۔۔ آقاؤں کے بچوں کے لیے نہیں آتا۔ ’’نور‘‘ نے لکھا ہے کہ انگریزوں کے بچوں کے لیے لفظ’’بابا لوگ‘‘ استعمال ہوتا ہے اور اس معنی میں یہ انگریزی لفظ Baby کا مہند ہے۔ ’’نور‘‘ کے زمانے میں تو انگریز حاکم موجود تھے، لہٰذا انہوں نے انگریزوں کے بچوں کا ذکر کیا تو غلط نہ کیا۔ ’’لغت‘‘ کے زمانے میں انگریز ہندوستان میں حاکم ہیں نہ پاکستان میں، لیکن یہ لفظ نیچے طبقے کے لوگوں کی زبانوں پر اب بھی اس معنی میں (یعنی آقاؤں یا افسروں کے بچوں کے معنی میں) مروج ہے۔ پھر ارباب ’’لغت‘‘ اسے ’’انگریزی راج میں انگریزوں کے شاگرد پیشہ‘‘ سے کیوں مختص کرتے ہیں؟ غیاث احمد گدی کا مشہور افسانہ ’’بابا لوگ‘‘ تو انگریزی راج کے مٹنے کے بہت بعد کا ہے، اسی کا حوالہ کافی تھا۔ پھر’’بابا‘‘ بہ طور حرف خطاب کے لیے ’’بستان حکمت‘‘ سے بہت پہلے کی سند میر کے یہاں موجود ہے،

    میر فقیر ہوئے تو اک دن کہتے ہیں بیٹے سے
    عمر رہی ہے تھوڑی اسے اب کیوں کر کاٹیں بابا ہم
    (دیوان چہارم، کلیات ۵۷۷ فورٹ ولیم ۱۸۱۱)

    میر کا یہ دیوان یقینا ۱۸۰۰ سے پہلے مرتب ہو چکا تھا، لیکن ان کی تاریخ وفات (۱۸۱۰) ہی سے استناد کیا جائے تو بھی اس لفظ کی قدامت اٹھارہ سال زیادہ ہو جاتی ہے۔ جو معنی ارباب’’لغت‘‘ نے درج کیے ہیں، ان کی وضاحت اس شعر سے جتنی خوبی سے ہوتی ہے، اتنی خوبی سے ان کی مثال کے ذریعے نہیں ہوتی، کیونکہ یہاں صاف ذکر ہے کہ قائل نے اپنے بیٹے سے کہا۔ ’’لغت‘‘ کے اقتباس میں یہ مفہوم واضح نہیں ہے۔

    ایک اور اندراج دیکھیے، ’’ایمفی تھیٹر۔‘‘ یہ خدا معلوم کب اور کیوں کر اردو کا لفظ ہو گیا۔ پھر معنی بھی غلط دیے ہیں۔ لکھا ہے، ’’گول دائرے میں بناہوا (کذا) مسقف ہال۔‘‘ یہ گول دائرہ بھی خوب رہی، شاید چوکور دائرہ بھی ہوتا ہے! اور ایمفی تھیٹرنہ دائرے میں بنا ہوتا ہے، نہ مسقف ہوتا ہے، نہ ہال ہوتا ہے، یہ تو کھلی ہوا کا تھیٹر ہوتا ہے، عام طور پر نعل اسپ یا نیم دائرے کی شکل میں، بیچ کی جگہ ہمیشہ خالی یعنی بے چھت کی ہوتی ہے۔ سامعین کی نشستیں بھی اکثر بے چھت کی ہوتی ہے۔ سب معنی مہمل لکھ دیے اور ظلم پر ظلم یہ کیا کہ جو شعر سند میں لائے ہیں اس میں ایمفی‘‘ کی جگہ’’امفی‘‘ یعنی فاعلن کی جگہ فعلن موزوں ہواہے۔ سب بات ہی چوپٹ ہو گئی۔ اگر اس لفظ کو لغت بناناہی تھاتو ’’الف میم‘‘ کی تقطیع میں لگاتے، نہ کہ ’’الف ے میم‘‘ کی تقطیع میں۔ شعریوں ہے۔

    چھوٹی سی ریل کاخود دوڑنا چپے چپے
    اور وہ ایک طرف سامنے ایمفی تھیٹر
    ۱۹۰۶ (تیر ونشتر)

    ممکن ہے ’’ایمفی تھیٹر‘‘ جیسا لفظ یا’’اینی ورسری‘‘ وغیرہ قبیل کے الفاظ چالیس پچاس برس پہلے مروج رہے ہوں، (مجھے اس میں شبہ ہے) لیکن اس زمانے میں تو یہ الفاظ اردو ہرگز نہیں۔ اگر انہیں درج کرنا ہی تھا تو صاف لکھ دینا تھاکہ متروک ہیں۔ لیکن متروکات کے بارے میں ارباب ’’لغت‘‘ نے اپنا ایک نظریہ پیش کیا ہے، فرماتے ہیں، ’’کسی لفظ کے متعلق متروک یا شاذ ہونے کا اشارہ نہیں کیا گیا۔ لیکن یہ بات کہ لفظ متروک ہے یا نہیں، اس کے استعمال کی مثالوں کے قدیم وجدید ہونے سے اخذ کی جا سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ جدید دور کے بہت سے علمائے ادب عموماً اور راقم الحروف اور رفقا خصوصاً ترک الفاظ کے حق میں نہیں ہیں، کیونکہ اس سے زبان کا دائرہ محدود ہو جاتا ہے۔‘‘ 

    اس چھوٹی سی عبارت میں بھی اس قدر گھپلے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ چلیے کسی لفظ کے متروک ہونے کے بارے میں اطلاع اس کے استعمال کی مثالوں کے قدیم وجدید ہونے سے اخذ ہو سکتی ہوگی (مجھے اس میں بہت شک ہے)، لیکن یہ اطلاع کہاں سے اخذ ہوگی کہ یہ لفظ شاذ ہے؟ ارباب ’’لغت‘‘ تو ’’اسپوک‘‘ (Spoke) اور ’’اسپون‘‘ جیسے قطعاً غیر اردو الفاظ کی مثال (’’اسپوک‘‘ بہ معنی ’’لوہے کی تیلی‘‘، ’’سینگ‘‘ ۱۹۴۴ اور’’اسپون‘‘ بہ معنی ’’چمچہ‘‘ ۱۸۸۹) لکھ کر جھومنے جھامتے نکل گئے، (’’اسپوک‘‘ کے معنی بھی بالکل غلط لکھے ہیں) اب مجھے کون بتائے کہ یہ لفظ شاذ ہیں کہ نہیں؟ اور جب میں ۱۸۸۹ سے بھی پہلے کے ہزارہا الفاط ومحاورات کو اب بھی مروج دیکھ رہا ہوں تو کیسے پتہ لگے گاکہ یہ لفظ متروک ہو گیا؟

    متروک ہونے کا تو یہ عالم ہے کہ پندرہ پندرہ بیس بیس برس میں الفاط متروک ہو جاتے ہیں۔ یہ بولنے والوں کاحق ہے، کوئی کیا کرےگا! ’’اسپوک‘‘ اور ’’اسپون‘‘ اس زمانے میں تو ہرگز اردو کے الفاظ نہیں ہے۔ لیکن’’اسپوک‘‘ کی سند ۱۹۴۴ سے لاکر (ایک ہی سند اور وہ بھی مجہول) ارباب ’’لغت‘‘ نے طالب علم پر بڑی زیادتی کی ہے۔

    الفاظ کے معنی یا جنس بعض اوقات بہت جلد بدلنے یا متروک ہونے کی مثال خود ہی ارباب ’’لغت‘‘ نے انتہائی معصوم لاعلمی سے فراہم کر دی ہے۔ انہوں نے ’’التفات‘‘ کو مذکر درج کیا ہے، اور بالکل ٹھیک درج کیا ہے۔ آج کل یہ بالاتفاق مذکر ہے۔ لیکن صاحبان ’’لغت‘‘ نے اسے مؤنث بھی درج کیا ہے۔ اور قدیم ترین شعری مثال (۱۷۵۵) مذکر کی ہے۔ اور جدید شعری مثال (۱۹۱۱) مؤنث ظاہر کرتی ہے! علم بدیع کی ضمن میں ’’بحر الفصاحت‘‘ کا اقتباس نقل کرکے (۱۹۲۶) لکھا ہے۔ اب سوچیے ’’التفات‘‘ علم بدیع کی کوئی اصطلاح ہے کہ نہیں؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ اور اگر ۱۹۲۶ میں نجم الغنی نے مذکر لکھا ہے تو اسی کو مرجح مانیے (ویسے نجم الغنی نے خود یہ لکھا ہے کہ بحر الفصاحت پہلی بار ۱۸۸۵ میں شائع ہوئی) جلیل مانک پوری نے اپنی کتاب ’’تذکیر وتانیث‘‘ (۱۳۳۵ھ۱۹۱۶ء) میں لکھا ہے کہ اتفاق مذکر پر ہی ہے۔

     لہٰذا معلوم ہوا کہ ۱۹۱۱ تک شاید اسے کسی نے مؤنث باندھا ہو، لیکن ۱۹۱۶ کے آتے آتے اتفاق رائے مذکر پر ہو گیا۔ آفاق بنارسی کی ’’معین الشعرا‘‘ (مرتبہ غالباً ۱۹۳۴، کتاب مصنف کی وفات (۱۹۳۵) کے بعد شائع ہوئی) میں دو شعر مذکر کے اور ایک مؤنث کا لکھا ہے لیکن تینوں شعر قدیم ہیں۔ ’’لغت‘‘ میں تفصیلات کا اندراج نہیں ہے۔ صرف قدیم شعر ’’التفات‘‘ کو مذکر اور جدید شعر (اگر۱۹۱۱ کو جدید مانا جائے) اسے مؤنث ظاہر کرتا ہے۔ اب صرف تاریخوں کے قدیم اور جدید ہونے سے کیسے پتہ چلے کہ کون سا لفظ متروک یا کون سی جنس متروک ہو گئی؟

    صاحبان ’’لغت‘‘ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے کسی لفظ کے معنی، استعمال یا جنس کو متروک لکھ دیا تو زبان محدود ہو جائےگی۔ انہوں نے اتنا بھی غور نہیں کیاکہ اگر کوئی لفظ استعمال نہیں ہوتا تو زبان اس حد تک تو محدود ہو ہی گئی۔ ان کے ظاہر کرنے نہ کرنے سے کیا فرق پڑتا؟ یہ اطلاع طالب علم کو بہم پہنچانا آپ کا فرض ہے کہ فلاں لفظ؍ محاورہ؍فقرہ اب نہیں بولا جاتا، یا کم بولا جاتا ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر ایک لفظ متروک ہوتا ہے تو چار نئے داخل بھی ہوتے ہیں ورنہ زبان میں وسعت کس طرح آئے؟ آپ ایک متروک لفظ کو دوبارہ استعمال یا مستعمل کرنا چاہتے ہیں، یہ بڑی اچھی بات ہے۔ لیکن لغت نگار کا کام یہ ہے کہ زبان کی تاریخی (یعنی گزشتہ اور موجودہ صورت حال کو ٹھیک ٹھیک بیان کرے۔

    لغت نگار علمائے ادب کے زمرے میں نہیں، بلکہ علمائے زبان کے زمرے میں ہیں۔ جب علمائے ادب کسی متروک لفظ کو دوبارہ چالو کر دیں گے تو علمائے زبان کو ماننا ہی پڑےگا۔ لیکن علمائے زبان کو علمائے ادب کا بھیس بدلنے کی ضرورت نہیں، نہ یہ ان کا منصب ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح لفظ اختراع کرنا بھی لغت نگار کا منصب نہیں۔ اس نکتے سے ارباب ’’لغت‘‘ اچھی طرح آگاہ ہیں اور اس کی وضاحت بھی کر چکے ہیں۔

    الفاظ کو لغت کا درجہ دینے کے لیے ارباب ’’لغت‘‘ نے جو اصول متعین کیے ہیں، ان کا ذکر میں اوپر کر چکا ہوں۔ وہ کہتے ہیں غیر زبانوں کے ایسے الفاظ بھی درج کر لیے گئے ہیں جو کم سے کم دو مصنفوں نے اپنی تصانیف میں استعمال کیے ہوں۔ یہاں مصنف اور تصانیف کی تعریف متعین کرنا ضروری تھا۔ بہت سے الفاظ ایسے ہیں جو شاید ایک ہی بار استعمال ہوئے ہوں۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جو شاید کبھی تحریر میں نہ آئے ہوں لیکن پھر بھی انہیں لغت کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ پھر مصنف کس مرتبہ کا ہو، کتاب یا تصنیف کا رتبہ کیا ہو، یہ باتیں بھی دھیان میں رکھنے کی ہیں۔

    مشکل یہ ہے کہ خود ارباب ’’لغت‘‘ نے دو مصنفین کی شرط کا لحاظ نہیں کیا ہے (جیسا کہ’’اسپون‘‘، ’’اسپوک‘‘ کی مثال سے واضح ہوا ہوگا۔) لیکن اس سے زیادہ گم راہ کن ان کا یہ نظریہ ہے، وہ لگی بندھی ترکیبیں جن سے مفردات کے معنی میں اضافہ ہوتا ہے یا جن کے اجزائے ترکیب کا مفہوم علیحدہ علیحدہ مبہم یانا قص ہے۔ جیسے ’’اب‘‘ کے تحت’’اب کے‘‘، ’’اب تب‘‘، ’’اب نہ تب‘‘، ’’اب آؤ تو جاؤ کہاں‘‘ بھی لغت بنائے جانے کا استحقاق رکھتے ہیں۔ یہاں مشکل در مشکل یہ ہے اصول کچھ بیان کیا ہے او ر مثالوں سے واضح کچھ ہوتا ہے۔

    مثلاً، ’’آہ سحر‘‘، ’’بت ہزار شیوہ‘‘ لگی بندھی ترکیبیں ہیں۔ ان سے مفردات کے معنی میں اضافہ بھی ہوتا ہے، کیونکہ محض’’آہ‘‘ اور’’آہ سحر‘‘ میں فرق ہے۔ اور ’’بت‘‘ کے مقابلے میں ’’بت ہزار شیوہ‘‘ مختلف معنی رکھتا ہے۔ لیکن ’’لغت‘‘ میں ’’آہ سحر‘‘ تو درج ہے اور ’’بت ہزار شیوہ‘‘ نہ دارد۔ اگر کہا جائے کہ ’’بت ہزار شیوہ‘‘ لگی بندھی ترکیب نہیں ہے یااس سے ’’بت‘‘ کے معنی میں اضافہ یا اختلاف نہیں واقع ہوتا، تو’’بت بے پیر‘‘ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ’’بت بے پیر‘‘ بھی ’’لغت‘‘ میں درج نہیں ہے۔ ’’بے پیر‘‘ ضرور درج ہے۔ ’’بے پیر‘‘ کے بارے میں مجھے شک ہے کہ یہ فارسی میں بھی ہے کہ نہیں۔ (’’برہان قاطع‘‘ اور ’’بہار عجم‘‘ دونوں میں نہ ’’بت بے پیر‘‘ ملتا ہے، نہ’’بے پیر‘‘) 

    ’’نور‘‘ نے لکھا ہے کہ فارسی میں ’’بے پیر‘‘ گالی کے طور پر مستعمل ہے (لیکن جو شعر نقل کیا ہے اس میں گالی کا کوئی مفہوم واضح نہیں۔ بے پیر، بے پیر مرد تو درخرابات ؍ہر چند سکندر زمانی) اور یہ بھی لکھا ہے کہ بعض شعرائے لکھنؤ’’بے پیر‘‘ کو فارسی اضافت کے ساتھ استعمال نہیں کرتے۔ ’’آصفیہ‘‘ میں ہے کہ کشمیری اس لفظ کو سخت گالی سمجھتے ہیں، اور جلال الدین اسیر کے سوا اور شعرائے فارسی کے کلام میں نظر سے نہیں گزرا۔

    ’’آصفیہ‘‘ نے جلال اسیر کا شعرل نقل نہیں کیاہے لیکن غالب نے بھی اپنے ایک خط میں جلال اسیر کے کسی شعر کا ذکر کیا ہے اور سخت تعجب کیا ہے کہ ایرانی رئیس زادہ ایسا لفظ لکھے جو بقول ان کے ’’تورانی بچگان ہندی نژاد کا تراشا ہوا ہے۔‘‘ لہٰذا طالب علم ’’بے پیر‘‘ سے ’’بت بے پیر‘‘ کی قیاسی ترکیب کا تصور نہیں کر سکتا۔ یہ ترکیب لغت میں درج نہ ہو تو طالب علم یہ گمان کر سکتا ہے کہ یہ اردو میں ہے ہی نہیں۔ حالانکہ ظاہر ہے کہ اردو اساتذہ نے اس کو متعدد بار استعمال کیا ہے۔ ’’بت بے پیر‘‘ کا لغت نہ قائم کرکے ارباب ’’لغت‘‘ نے بڑی زیادتی کی ہے۔

    سب سے بڑی مشکل ارباب ’’لغت‘‘ نے یہ کہہ کر ڈال دی ہے کہ وہ تراکیب جن کے اجزائے ترکیبی کا مفہوم علیحدہ علیحدہ ناقص یا مبہم ہے، وہ بھی لغت کا استحقاق رکھتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی فقرے کے اجزائے ترکیب کا مفہوم الگ الگ لیا جائےگا تو وہ محض ناقص یا مبہم ٹھہرےگا۔ مثلاً ’’میں لکھنو گیا‘‘ ایک فقرہ ہے جس کے تینوں الفاظ اگر الگ الگ لیے جائیں تو وہ مفہوم متعین نہیں ہوسکتا جو پورے فقرے کا ہے۔ لیکن اس پورے فقرے کا مکمل مفہوم بھی اپنے سیاق وسباق کا محتاج ہے۔ ایسے فقرے جن کا مکمل مفہوم سیاق وسباق کا محتاج ہو، ’ لغت‘ بننے کے لائق نہیں ہو سکتے، اور جو فقرے سیاق وسباق سے بے نیاز ہوتے ہیں، وہ روزمرہ (Phrase) کے ذیل میں آتے ہیں، انہیں لغت میں ضرور درج ہونا چاہیے۔

    ارباب ’’لغت‘‘ نے جو مثالیں درج کی ہیں، ان میں سے ایک، جو پہلی ہے (’’اب جب‘‘) اس پر بحث کرچکا ہوں۔ بقیہ میں ’’اب کے‘‘، ’’اب تب‘‘ (لگنا، کرنا یا ہونا) محاورے ہیں اور ’’اب نہ تب‘‘، ’’اب آؤ تو جاؤ کہاں‘‘ روز مرہ ہیں۔ ان کا اندراج مناسب بلکہ ضروری تھا۔ لیکن ’’اب بتا‘‘، ’’اب بول‘‘ یا’’اب بھی‘‘ (تاکیدی) کا اندراج فضول ہے۔ کیونکہ ان کے معنی سیاق وسباق کے محتاج ہیں۔ یہ روز مرہ کے ضمن میں نہیں آتے۔ ’’آصفیہ‘‘ نے بھی اس ضمن میں افراط وتفریط سے کام لیا ہے اور’’اب تک‘‘، ’’اب بھی‘‘ درج کیے ہیں۔ لیکن کثیر پیمانے پر یہ بدعت ’’نور‘‘ نے شروع کی۔ اس میں ’’اب بتاؤ‘‘، ’’اب بھی‘‘، ’’اب پھنسے‘‘ (اس پر میں گزشتہ صفحات میں بحث کر چکا ہوں) ’’اب تک‘‘، ’’اب تلک‘‘، ’’اب جاکے‘‘ (اس پر بحث کر چکا ہوں) ’’ اب کہیے‘‘ وغیرہ کی بھر مار ہے۔

    دراصل صاحبان ’’آصفیہ‘‘ اور’’نور‘‘ اور’’لغت‘‘ کے ذہن فقرہ، روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل کے بارے میں صاف نہیں ہیں۔ انہوں نے ان اصطلاحات کے معنی اور تعریف متعین کرنے کی زحمت ہی نہیں گوارا کی۔ ’’آصفیہ‘‘ اور ’’نور‘‘ تو آکسفرڈ ڈکشنری سے بے خبر تھے، لیکن ارباب’’لغت‘‘ کوتو دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنا لغت اسی کے نمونے پر مرتب کیا ہے۔ لہٰذا ان سے یہ توقع بجا ہے کہ انہوں نے اس معاملے پر بھی غور کیا ہوگا، لیکن انہوں نے صرف یہ کیا ہے کہ ’’آصفیہ‘‘ اور’’نور‘‘ کی مکھیوں پر درجنوں مکھیاں اور مار دی ہیں۔ اردو کی حد تک فقرہ، روز مرہ، محاورہ اورضرب المثل کی تعریف یوں متعین ہو سکتی ہے،

    (۱) فقرہ (Construction) یا (Structure) وہ عبارت ہے (الفاظ کا وہ مجموعہ ہے) جس کی شکل (یعنی ترتیب) ترمیم ناپذیر (یا متعین) ہو یانہ ہو، لیکن جو اپنے معنی کے لیے سیاق وسباق کا کسی حد تک محتاج ہو اور جس کے اجزائے ترکیبی اپنے لغوی، عام فہم معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ چنانچہ ’’میں لکھنؤ گیا‘‘ یا’’بندر کا بچہ‘‘ فقرے ہیں، جن میں تمام الفاظ اپنے لغوی عام فہم معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ ان کی صحیح قیمت (یعنی مفصل معنی) ان کے سیاق وسباق پر منحصر ہیں۔ یہی حال ’’اب بتاؤ‘‘، ’’اب بول‘‘، ’’ادھر دیکھ‘‘، ’’بڑی مشکل ہے‘‘، ’’کچھ بات کہنی ہے۔‘‘ وغیرہ عبارتوں کی ہے۔ ان سب میں جتنے الفاظ ہیں وہ اپنے عام فہم لغوی معنی میں استعمال ہوئے ہیں او ر ان عبارتوں کی صحیح قیمت ان کے سیاق وسباق کے بغیر متعین نہیں ہو سکتی۔

    (۲) روز مرہ (Phrase) وہ عبارت ہے (الفاظ کاوہ مجموعہ ہے) جس کی شکل (یعنی ترتیب) اکثر ترمیم ناپذیر (یا متعین) ہوتی ہے اور جس کے مفصل معنی خوداسی کے اندر ہوتے ہیں، خواہ وہ معنی ظاہر (Explicit) ہوں یا مضمر (Implicit) ہوں۔ اس میں استعمال ہونے والے الفاظ کے معنی اکثر لغوی عام فہم معنی سے زیادہ (یا مختلف) ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ سیاق وسباق کے محتاج نہیں ہوتے۔ مثلاً، ’’اب پھر کیا پوچھنا ہے ؍ تھا‘‘ یا’’اب کے بچی تو گھر گھر نچی۔‘‘ (’’آصفیہ‘‘ ان دونوں سے خالی ہے۔ ’’نور‘‘ میں اول الذکر نہیں ہے ؛ آخر الذکر ہے لیکن صیغہ مونث کی جگہ مذکر کا ہے۔ ’’لغت‘‘ نے اس باب میں ’’نور‘‘ کا اتباع کیا ہے۔ ’’لغت‘‘ میں اول الذکر بھی ہے لیکن ’’پھر‘‘ اور’’تھا‘‘ کے بغیر۔) 

    مزید مثالیں ملاحظہ ہوں، ’’بے بات کی بات‘‘، ’’اس کی؍ میری؍ اپنی؍ ان کی؍ ہماری؍ تمہاری؍ بلا سے؍ جانے‘‘، ’’اس سے ؍تجھ سے ؍ ان سے ؍خدا سمجھے‘‘، کچھ کا کچھ سمجھنا؍ سمجھ لینا؍ سمجھا‘‘، ’’آؤ جاؤ گھر تمہارا ہے‘‘، ’’اسے اپنا ہی گھر سمجھیے‘‘، ’’ہائے توبہ‘‘، ’’جانے میری؍ اس کی بلا‘‘ وغیرہ۔ انگریزی میں اس زبان کو Ibiomatic کہتے ہیں جو روز مرہ کے مطابق ہو، چاہے اس میں اصطلاحی معنوں والے محاوروں کا استعمال نہ کیا گیا ہو۔

    (۳) محاورہ (Idiom) وہ عبارت ہے (الفاظ کاوہ مجموعہ ہے) جس کی شکل (یعنی ترتیب) ہمیشہ ترمیم ناپذیر اور متعین ہے اور جس کے مفصل معنی خود اس کے اندر موجود ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر وہ معنی ظاہر نہیں بلکہ Implicit ہوتے ہیں۔ کیونکہ محاورے میں استعمال ہونے والے الفاظ زیادہ تر استعاراتی رنگ لیے ہوتے ہیں۔ (بلکہ اکثرمحاورے استعارہ ہی ہوتے ہیں) محاورے کے معنی بھی سیاق وسباق کے محتاج نہیں ہوتے۔ محاورے عام طور پر مصدری (Infinitive) شکل میں ہوتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں۔ محاورے کی ضروری شرطیں ہیں الفاظ کا ترمیم ناپذیر ہونا اور (۲) استعاراتی ہونا۔

    محاورے کی مثالیں دینا غیرضروری ہے، لیکن ایک آدھ بات کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ’’آب‘‘ بہ معنی’’چمک‘‘ یا ’’کاٹ‘‘ محاورہ نہیں ہے لیکن ’’آب تیغ کھانا‘‘ یا’’آب تیغ پینا‘‘ محاورہ ہے۔ لہٰذا یہ تو ممکن ہے کہ ’’چمک‘‘ یا’’کاٹ‘‘ کے معنی میں ’’آب‘‘ کی جگہ’’چمک‘‘ یا’’کاٹ‘‘ لکھ دیا جائے، لیکن تلوار کا زخم کھانے کی معنی میں ’’تلوار کا پانی پینا‘‘ نہیں لکھ سکتے۔ لہٰذا محاورے کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ اکثر محاوروں کا لفظی ترجمہ اصل محاورے کی جگہ نہیں استعمال ہو سکتا۔

    (۴) ضرب المثل کے لیے انگریزی میں کئی لفظ ہیں Epigram,Proverb, Maximesayisg Saw, Apopthegm وغیرہ۔ Epigram) عام طور پر ایک چھوٹی سی نظم ہوتی ہے، لیکن کسی چبھتے ہوئے موثر فقرے کو بھی Epigram کہتے ہیں۔ ملاحظہ ہو (O.E.D ضرب المثل کے لیے عام طور پر شرط یہ ہوتی ہے کہ وہ موزوں اور مقفیٰ ہوتی ہے۔ اور اس کے پس پشت کوئی اصلی یا فرضی واقعہ ہوتا ہے یا اس کی بنیاد کسی (اصلی یا فرضی واقعے)، کسی تجربے یا مشاہدے یا تصور ((Concept) پر ہوتی ہے اور اس کے الفاظ اتنے تفصیلی ہوتے ہیں کہ خود انہیں سے کسی واقعہ یا وقوعہ (گزشتہ یا آئندہ) کی طرف اشارہ ملتا ہے۔

    ضرب المثل میں استعارے کا رنگ فطری ہے، لیکن ہر ضرب المثل میں استعاراتی کیفیت برابر کے درجے کی نہیں ہوتی۔ بعض میں بہت کم ہوتی ہے، بعض میں بہت زیادہ۔ ضرب المثل کے بھی الفاظ کی شکل (یعنی ترتیب) ترمیم ناپذیر اور متعین ہوتی ہے۔ ضرب المثل کی مثالیں دینا غیرضروری ہے۔ اگر اول الذکر تین تراکیب کی تعریف واضح ہو گئی ہے تو ضرب المثل کی تعریف خود بہ خود صاف ہو گئی ہوگی۔

    اب یہ دیکھنے کے لیے لغت نگار زبان کے ان چار مظاہر کے ساتھ کیا رویہ رکھتا ہے، میں بالکل آنکھ بند کرکے آکسفرڈ ڈکشنری کھولتا ہوں۔ آنکھ کھولتا ہوں تو لفظ Block سامنے پڑتا ہے۔ حسن اتفاق سے یہ لفظ ہر طرح سے مناسب ہے کیونکہ یہ لفظ خاصا قدیم بھی ہے اور اس کے ساتھ محاورے وغیرہ بھی وابستہ ہیں۔ Block کے پہلے معنی’’لکڑی کا ایک ٹھوس ٹکڑا‘‘ بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس لفظ کو اکثر بے حسی، بے عقلی، کم عقلی کی تشبیہ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پھر مثالیں لکھی ہیں۔ پھر ایک متروک معنی درج کرنے کے بعد لکھا ہے کہ بعض متروک کہاوتیں روز مرہ یعنی Pharases میں اسے بھوسے Straw کے متضاد کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ پھر مثالیں درج کی ہیں۔ پھر ایک اور معنی درج کرکے اس سے متعلق ایک محاورہ لکھا ہے، Beetleand the Block اور کہا ہے کہ اسے Beetle کے ذیل میں دیکھیے۔

    پھر ایک معنی لکھے ہیں، ’’کوئی ٹھنٹھ نما چیز جس کی مدد سے گھوڑے پر چڑھایا اترا جائے۔‘‘ اور لکھا ہے کہ اس مفہوم میں استعاراتی استعمال بھی ہواہے (یعنی Block اورHorse کو یک جاکر کے استعارہ بھی بنایا گیا ہے) پھر اور معنی لکھ کر یہ لکھا ہے کہ ہیٹ کے قالب Mould کو بھی کہتے ہیں، اس لیے استعارۃً ’’ہیٹ‘‘ کے فیشن یا طرز کو بھی Block کہا جاتا ہے۔ پھر حجاموں کی اصطلاح کے طور پر Barber,s Block کے معنی’’مصنوعی بالوں والی ٹوپی‘‘ لکھے ہیں۔ پھر لکھا ہے کہ اس سے تبادلہ ہوکر Slang میں Block کے معنی ’’سر‘‘ ہو گئے۔ کچھ معنی اور بیان کرنے کے بعد جہاز رانوں کا روز مرہ Phrase) دیا ہے Block & Block اور اس کی مثال دی ہے۔

    پھر بہت سی حرفتوں کے اصطلاحی معنی دیے ہیں۔ پھر ایک معنی اور دے کر لکھا ہے کہ اس سے روزمرہ بنتا ہے In۔ Block یعنی’’سب کے سب‘‘، ’’بہ حیثیت مجموعی۔‘‘ اس کے بعد ایک اور معنی دے کر لکھا ہے کہ اب یہ معنی محض ایک محاورے Stumbling Block میں باقی رہ گئے ہیں۔ پھر ایک معنی دے کر ایک روز مرہ Erratic Block لکھا ہے۔ کچھ معنی اور دینے کے بعد Block کے مجازی معنی بیان کیے ہیں۔ پھر ان سے متعلق روز مرہ درج کیے ہیں مثلاً Chip of the Old Block پھر اس کے بعد میں مزید اصطلاحی معنی لکھے ہیں۔ سب سے آخر میں بعض الفاظ لکھے ہیں جو Block کے ساتھ کسی اور لفظ کو ملاکر بنتے ہیں۔

    ظاہر ہے کہ O.E.D کا طریق کار ارباب لغت سے ذرا مختلف ہے۔ لیکن اس سے ارباب ’’لغت‘‘ پر کوئی حرف نہیں آتا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ O.E.D نے محاوروں، استعاراتی استعمال، روز مرے، کہاوتوں کا اندراج تو کیا ہے لیکن ادھر ادھر کے فقرے، جن کے معنی سیاق وسباق کے بغیر نامکمل رہتے ہیں، نظرانداز کر دیے ہیں، چنانچہ O.E.D میں اس قسم کے فقرے مثلاً Block of Goldیا Road Block وغیرہ (یا جن کے معنی Block سے واضح ہو سکتے ہیں اور جن میں کوئی خصوصیت روز مرہ یا محاورہ یا کہاوت کی نہیں ہے) درج نہیں ہیں۔ اس کے برخلاف ارباب ’’نور‘‘ و’’آصفیہ‘‘ اور علی الخصوص ارباب ’’لغت‘‘ نے اندھا دھند ایسے فقرے درج کیے ہیں جو ہرگز لغت نہ بنتے بشرطیکہ ان کے ذہنوں میں ’’لفظ‘‘، ’’روز مرہ‘‘، ’’محاورہ‘‘ اور’’ضرب المثل‘‘ کی تعریف واضح ہوتی۔ چند مثالیں بالکل سرسری ورق گردانی کے بعد مزید نقل کرتا ہوں،

    نور، آنکھیں رو رو کے سجانا، آنکھیں روتے روتے سوج جانا، آنکھیں رو رو کے لال کرنا، آنکھیں قدموں پر ملنا (اس کو قدم بہ معنی پانوں کی تقطیع میں جگہ مل سکتی تھی) آواز پا (آواز کے معنی پانوں کی آہٹ پہلے ہی لکھ چکے ہیں) آواز سنانا آواز صور (اسے ’’صور‘‘ کی تقطیع میں شاید جگہ مل سکتی تھی) آواز غیب (اسے شاید’’غیب‘‘ کی تقطیع میں جگہ مل سکتی تھی) آواز قدم، آواز کان تک پہنچانا، آواز گرجنا، آواز میں رعشہ ہونا۔ آواز نکلنا کے معنی ’’صدا، بانک، پکار‘‘ پہلے ہی لکھ چکے ہیں۔) 

    لغت، آنکھوں پر غفلت کا پردہ پڑنا، پردے پڑنا (آنکھوں پر پردہ۔ پردے پڑنا پہلے درج کر چکے ہیں) آنکھ کا اندھا، آنکھوں کی اندھی، آنکھ کا، کی کیچڑ (اس کی جگہ ’’کیچڑ‘‘ کی تقطیع میں ہونا چاہیے تھا) آنکھ کی سیل، آنکھوں کی سیل (ان کی جگہ’’سیل‘‘ کی تقطیع میں تھی)۔ آنکھ کی گردش۔ آنکھ سے ٹپ ٹپ آنسو ٹپکنا، چلنا، گرنا۔ آواز باز گشت (اس کی جگہ ’’باز گشت‘‘ کی تقطیع میں تھی) آواز پا، آواز پر لبیک کہنا، آواز پیدا ہونا، آواز خندہ، آواز درا، آواز غیب، آواز گونجنا (اس کی سند میں ’’امیر اللغات‘‘ کا جملہ دیا ہے، جس سے مکان کا گونج اٹھنا ظاہر ہوتا ہے، ’’کیا آواز ہے کہ سارا مکان گونج اٹھا‘‘) اگر اس طرح مصادر لگا کر اندراجات کرنا ہیں تو’’آواز پھیلنا‘‘ کیوں چھوڑ دیا؟ ’’آواز آنا‘‘، ’’آواز جانا‘‘ تک تو لکھ دیا ہے۔

    حاصل کلام یہ کہ اسناد ومصادر کے معمولہ میل (Combination) اور ہر طرح کے معمولہ معانی والے فقرے درج کرنے سے لغت کاحجم تو بڑھ سکتا ہے لیکن زبان کی خدمت نہیں ہو سکتی۔ اگر اسناد و مصادر کے میل اور اسناد کی صفات دکھانا ہی منظور تھا تو ’’بہار عجم‘‘ کی طرح ایک ہی تقطیع میں سب کو درج کر دیتے کہ اس اسم کے ساتھ فلاں فلاں مصادر مستعمل ہیں یا پھر اس فہرست کو اس حد تک مکمل بناتے کہ کسی قسم کے شک کی گنجائش باقی نہ رہتی۔ مثلاً ’’آواز پھیلنا‘‘، ’’آوازابھرنا‘‘، ’’آواز پکڑنا‘‘، ’’آواز پڑنا‘‘، ’’آواز اچھلنا‘‘ وغیرہ نہ لکھ کر صاحبان ’’نور‘‘ و’’لغت‘‘ نے زبان اور طالب علم کے ساتھ دو زیادتیاں کی ہیں۔ طالب علم یا تو سمجھےگا کہ ’’لغت‘‘ اور’’نور‘‘ میں مندرجہ فہرستیں مکمل ہیں، اس لیے ’’آواز پھیلنا‘‘ وغیرہ اردو میں نہیں ہیں۔ یا پھر وہ یہ سمجھ گا کہ چونکہ ان میں ’’آواز پھیلنا‘‘ وغیرہ نہیں ہیں، اس لیے فہرستیں نامکمل ہیں اور ’’آواز بولنا‘‘، ’’آواز پکارنا‘‘، ’’آواز بہانا‘‘ وغیرہ بھی ممکن ہیں۔

    مطلب یہ ہوا کہ یا تو یہ فہرست بالکل مکمل ہوتی (ظاہر ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے) یاصرف اصلی محاورے اور روز مرے درج کر دیے جاتے تاکہ قیاس کی گنجائش رہ جاتی لیکن غلط فہمی کا امکان رفع ہو جاتا۔ موجودہ صورت میں الفاظ کے جو دریا ان لغات میں بہائے گئے ہیں ان میں علم اور طالب علم دونوں کا سفینہ غرق ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لغت اورغیرلغت میں فرق نہ کرنے کی بڑی وجہ ارباب’’لغت‘‘ اور صاحب ’’نور‘‘ کی لاعلمی نہیں، بلکہ اس مناسبت اور موانست کی کمی ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے۔ لغت نگار اہل زبان ہو یا نہ ہو، اس کو اگر زبان کے ساتھ مناسبت نہیں ہے تو وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔

    امیر مینائی سے بڑھ کر اہل زبان کون ہوگا، اور نظیر اکبرآبادی سے بڑھ کر کم ہی شاعروں نے نئے نئے لفظ استعمال کیے ہوں گے۔ اس کے باوجود امیر مینائی نے ’’امیر اللغات‘‘ مرتب کرنے کے دوران ایک خط میں لکھا ہے کہ نظیر اکبر آبادی کے کلام نے انہیں ایک لفظ کا بھی فائدہ نہیں دیا۔ ایسے اہل زبان میں لغت نویسی کی لیاقت معلوم! لغت اور غیر لغت میں فرق کرنے سے متعلق مسئلہ یہ بھی ہے کہ لغت کو کہاں درج کیا جائے۔ اس سلسلہ میں ’’نور‘‘ اور’’لغت‘‘ کے بعض مسامحات کی طرف اشارہ کر چکا ہوں۔ ایک اور مثال سے اپنی بات مزید واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس میں بعض اور نکات پر بھی روشنی پڑتی ہے۔

    مصدر’’چلنا‘‘ کے ایک مجازی معنی ہیں، ’’شروع ہونا۔‘‘ اب اس کے ساتھ بعض دوسرے مصادر کی تصریفی شکل لگاکر اس مصدر میں بیان کردہ عمل کے شروع ہونے کا مصدر بنتا ہے۔ مثلاً ’’ہو چلنا‘‘ (شام ہو چلی تھی) ’’بھر چلنا‘‘ (زخم بھر چلے ہیں) ’’ابھر چلنا‘‘ (چوٹ کے نشان ابھر چلے ہیں) وغیرہ۔ ’’نور‘‘ اور ارباب ’’لغت‘‘ نے چلنا کے اس معنی پر غور نہیں کیا، اور’’ابھر چلنا‘‘ کا علیحدہ لغت قائم کرکے معنی لکھے ہیں۔ ’’نمو شروع ہونا۔ ترقی کرنے لگنا‘‘ (’’نور‘‘) اور ترقی کرنے لگنا، حالت سنبھلنا (’’لغت‘‘) اس پر’’نور‘‘ کا حوالہ دیا لیکن دو اور محاوراتی معنی نقل کرنے کے باوجود (جن کا ماخذ’’مہذب اللغات‘‘ ہے) ارباب ’’لغت‘‘ نے معلوم نہیں کیوں، ’’نور‘‘ کے پہلے معنی (’’نمو شروع ہونا‘‘) نہیں درج کیے۔ یہ بات الگ رہی۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ’’ابھر چلنا‘‘ کے مفاہیم میں جو’’نور‘‘ اور’’لغت‘‘ سے میں نے نقل کیے ہیں، اصل مفہوم ’’چلنا‘‘ سے برآمد ہونا ہے ’’ابھر‘‘ سے نہیں۔ میر کا شعر ہے،

    نشان اشک خونیں کے اڑتے چلے ہیں
    خزاں ہو چلی ہے بہار گریباں
    فورٹ ولیم ۱۸۱۱، (کلیات، دیوان اول ۱۳۴)

    دونوں مصرعوں میں ’’چلنا‘‘ کا مفہوم متحد ہے (شروع ہونا) اس کو نظرانداز کرنے کے باعث’’نور‘‘ اور ’’لغت‘‘ نے ایک غیر ضروری اندراج کر دیا ہے اور تاثر یہ پیدا کیا ہے کہ’’اڑچلنا‘‘، ’’ہو چلنا‘‘، ’’بھر چلنا‘‘ وغیرہ زبان میں داخل نہیں ہیں۔ ’’لغت‘‘ کا تو پتہ نہیں، کیونکہ تقطیع ’’بھ‘‘ ان کے یہاں جلد سوم میں ہوگی، لیکن’’نور‘‘ نے ’’بھر چلنا‘‘ درج نہیں کیا ہے۔ ’’آصفیہ‘‘ نے احسن بات کی ہے کہ ’’چلنا‘‘ کا مفہوم ’’شروع ہونا‘‘ بھی درج کیا ہے اور’’ابھر چلنا‘‘ وغیرہ قسم کے گم راہ کن اندراج نہیں کیے۔

    ’’اڑچلنا‘‘ کے تحت ’’نور‘‘ اور’’لغت‘‘ نے گل پر گل کھلائے ہیں۔ اول تو دونوں نے ’’اڑنا شروع ہونا‘‘ والے معنی نظر انداز کر دیے ہیں۔ دوم یہ کہ ’’نور‘‘ نے تین معنی لکھے ہیں، جن میں دو اگر بالکل نہیں تو تقریباً ایک سے ہیں۔ ایک دو معنی’’آصفیہ‘‘ نے زائد بیان کیے ہیں اور ارباب’’لغت‘‘ نے یہ غضب کیا ہے کہ’’آصفیہ‘‘، ’’نور‘‘ اور’’پلیٹس‘‘ کے حوالے سے مندرجہ ذیل معنی لکھے ہیں، میں پوری عبارت نقل کرتا ہوں تاکہ کسی قسم کی غلط فہمی کا امکان نہ رہے۔

    محاورہ، (محاورہ) بدچلن ہونا، بدکرداری اختیار کرنا، آوارہ ہونا، اترانا۔
     (فرہنگ آصفیہ ۱، ۱۵۳، نور اللغات، ۱، ۳۱۵، پلیٹس)

    اس بات سے قطع نظر کہ ’’آصفیہ‘‘ اور’’نور‘‘ کے صفحہ نمبر غلط ہیں (ممکن ہے میرا ایڈیشن مختلف ہو) اور پلیٹس کا صفحہ نمبر نہیں دیا۔ ’’بدچلن ہونا‘‘، ’’بد کرداری اختیار کرنا‘‘ اور ’’آوارہ ہونا‘‘ نہ ’’آصفیہ‘‘ میں ہے نہ’’نور‘‘ میں نہ پلیٹس میں۔ میرے ایڈیشن کے صفحہ ۱۵۲ پر’’آصفیہ‘‘ میں ’’بد راہ بننا‘‘، ’’بد چلنی اختیار کرنا‘‘ ضرور درج ہے اور میرے ’’نور‘‘ کے ایڈیشن کے صفحہ ۲۷۲ پر ’’آوارہ ہو جانا‘‘ بھی درج ہے۔ پلیٹس (میرے ایڈیشن میں صفحہ ۴۴) کے یہاں بدچلن، آوارہ وغیرہ قسم کے معنی نہیں ہیں۔ ہاں ’’اترانا‘‘ اور’’کسی چیز میں بےحد مغرور ہو جانا‘‘ ضرور ملتا ہے۔ ارباب’’لغت‘‘ اس بات کو کس طرح ثابت کریں گے کہ ’’آصفیہ‘‘ اور’’نور‘‘ کے حوالے سے جو معنی انہوں نے درج کیے ہیں، وہ وہی ہیں جو ’’آصفیہ‘‘ اور’’نور‘‘ نے لکھے ہیں؟ الفاظ کا ذرا سا ہیر پھیر کرکے ارباب ’’لغت‘‘ نے معنی کچھ سے کچھ کر دیے۔ خود بھی گناہ کے مرتکب ہوئے، اور بے چاری ’’آصفیہ‘‘ اور ’’نور‘‘ کو بھی بدنام کیا۔

    وہ صاحبان جو’’بد چلن ہونا‘‘ اور’’بد چلنی اختیار کرنا‘‘ اور ’’آوارہ ہو جانا‘‘ کو ایک سمجھتے ہوں، جو ’’بدراہ بننا‘‘ کا ترجمہ ’’بدکرداری اختیار کرنا‘‘ سمجھے ہوں انہیں اردو کی پرائمری جماعت میں محمد حسین آزاد اور مولوی اسمٰعیل میرٹھی کی کتاب دوبارہ شروع کرنا چاہیے۔ (اور علمی بددیانتی کی سزا کے طور پر ’’چلنا‘‘ کے معنی ’’شروع ہونا‘‘ بھی ایک ہزاربار یاد کرنا چاہیے۔) 

    میں نے شروع میں لکھا تھا کہ لغت نگار کے سامنے بامعنی اور بے معنی الفاظ کابھی مسئلہ ہوتا ہے، یعنی کون سے بے معنی الفاظ درج کیے جائیں اور کون سے ترک کیے جائیں؟ بے معنی الفاظ کئی طرح کے ہو سکتے ہیں،

    (۱) گڑھے ہوئے الفاظ، خواہ وہ محض تفریحاً بنا لیے گئے ہوں (جیسے منٹو کا’’فل فل فوٹی‘‘، ’’لڑکی، کے معنی میں)، خواہ اصطلاحاً وضع کیے گئے ہوں، (جیسے Colour Blind) کے لیے مولوی عبدالحق مرحوم کا’’رنگوندھا‘‘) ایسے الفاظ اگر مروج نہیں ہوئے (خواہ انہیں کئی مصنفوں نے استعمال کیا ہو) تو وہ لغت نہیں بن سکتے۔

    (۲) وہ الفاظ جو مروج تو ہیں لیکن جن کی اصل نہیں معلوم، یاجن کی کوئی اصل نہیں، لہٰذا ان کے معنیٰ سراسر سماعی ہیں۔ مثلاً ’’چھیچھالیدر‘‘، ’’کتاخصی‘‘، ’ لشٹم پشٹم‘‘ اس طرح کے سب الفاظ لغت بنائے جائیں گے۔

    (۳) وہ الفاظ جو فجائیہ مفہوم یا کیفیت رکھتے ہوں، مثلاً’’ہاں‘‘، ’’ہیں‘‘ اور ’’ہی‘‘ (’’ہائیں‘‘ کے معنی میں، خود’’ہائیں‘‘ بھی اسی قسم کا فجائیہ ہے۔) ’’اوہو‘‘، ’’اہاہا‘‘، ’’اخاہ‘‘ وغیرہ، یہ سب لغت بنائے جائیں گے۔

    (۴) بچوں کے الفاظ۔ یہ کئی طرح کے ہو سکتے ہیں،

    (الف) وہ آوازیں جو بچے اس وقت نکالتے ہیں جب انہیں بولنا نہیں آتا مثلا، ’’آغوں‘‘، ’’اکہ۔‘‘ انہیں لغت بنانا چاہیے۔

    (ب) وہ الفاظ جو بچے تو تلے پن کی وجہ سے اصل تلفظ سے مختلف ادا کرتے ہیں، یا انہیں مختصر کرکے ادا کرتے ہیں، مثلاً’’چھپکلی‘‘ کی جگہ ’’چھکی‘‘، ’’بندر‘‘ کی جگہ ’’بن نن‘‘، ’’شیر‘‘ کی جگہ ’’چھیل‘‘، کتا کی جگہ’’تتا‘‘ (میں نے ایک بچے کو’’گائے‘‘ کی جگہ’’جائے‘‘ کہتے سنا ہے) ایسے الفاظ لغت نہیں بن سکتے، کیونکہ یہ مستقل نہیں ہیں۔ مختلف بچے مختلف طرح بولتے ہیں۔

    (ج) وہ الفاظ جو بچے یا بڑے آپس میں کھیل یا دل بہلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جیسے آنکھوں پر انگلیاں رکھ کر یا کسی کے پیچھے سے جھانک کر’’اجھاں‘‘ کہنا، کھانے کو ’’ہپا‘‘ کہنا۔ چونکہ یہ الفاظ مستقل ہو چکے ہیں، اس لیے انہیں لغت میں آنا چاہیے۔

    (د) وہ الفاظ جو صرف بچوں کے لئے مخصوص ہیں، جیسے پانی کو’’مم‘‘ کہنا؛ رفع حاجت کرنے کو’’اینہہ‘‘ یا’’چھی کرنا‘‘ کہنا۔ یہ الفاظ بھی مستقل ہو چکے ہیں اور انہیں لغت میں آنا چاہیے۔

    (ہ) وہ الفاظ جو بچے آپس میں کھیل کے وقت (یا کھیل کے نام بیان کرنے کے لیے) استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً اکڑ بکڑ بمبے بو، اسی نوے پورے سو، سو میں لگا دھاگا، چور نکل کر بھاگا‘‘ وغیرہ۔ اس طرح کے الفاظ اور فقرے لغت میں درج ہونا چاہیے۔

    یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ بعض ترقی یافتہ زبانوں (مثلاً جاپانی) میں بچوں کی مستقل زبان ہوتی ہے جسے وہ بارہ برس کی عمر تک استعمال کرتے ہیں۔ اردو میں مستقل زبان تو نہیں ہے، لیکن (جیساکہ اوپر کی مثالوں سے واضح ہوتا ہے) بہت سے مستقل الفاظ اور فقرے ضرور ہیں، یہ زبان کا بہت اہم حصہ ہیں۔ انہیں نظرانداز نہیں ہونا چاہیے۔

    مندرجہ بالا خیالات کی روشنی میں ’’آصفیہ‘‘، ’’نور‘‘ اور ’’لغت‘‘ تینوں ناکافی اور نامکمل نظر آتی ہیں۔ ’’الف‘‘ اور’’ب‘‘ کی تقطیع میں آنے والے شق نمبر دو مندرجہ بالا کے بعض الفاظ، جن سے یہ تینوں لغات خالی ہیں، حسب ذیل ہیں، انڈبنڈ۔ بڑبک۔ اکسٹھ باسٹھ۔ اسی تقطیع کے بعض فجائیہ الفاظ جو بعض میں ہیں، اور بعض میں نہیں، حسب ذیل ہیں، ’’اخاہ‘‘، ’’اخوہ‘‘ (’’آصفیہ‘‘ میں نہیں)، ’’اخوہ‘‘ (’’نور‘‘ میں نہیں) ’’بک‘‘ یا’’بھک‘‘ (دونوں غالباً ’’بھاگ‘‘ سے بنے ہیں)، (’’آصفیہ‘‘، ’’نور‘‘، ’’لغت‘‘ تینوں میں نہیں)، ’’آئیں‘‘ (’’ایں‘‘ کی تشدید، ’’آصفیہ‘‘ اور ’’نور‘‘، ’’لغت‘‘ تینوں میں نہیں۔) 

    بچوں کی بولی والے الفاظ اور فقرے جو اس تقطیع میں آتے ہیں تقریباً سب کے سب ان لغات سے غائب ہیں، حتیٰ کہ ’’اکڑ بکڑ بمبے بو‘‘ تک نہیں جس میں مجروح سلطان پوری فلمی گانا بھی لکھ چکے ہیں۔ معلوم ہوا کہ بے معنی الفاظ جو لغت بننے کے لائق ہیں ہمارے تینوں اہم لغات کے ارباب حل وعقد نے اکثر نظر انداز کر دیے ہیں۔ میں نے بھی عرض کیا ہے کہ لغت نگار کو ایک ہی لغت پر بھروسہ نہ کرنا چاہیے۔ اس اصول کو سب سے زیادہ نظر انداز کرنے والے ارباب ’’لغت‘‘ ہیں۔ انہوں نے کئی الفاظ محض’’جامع اللغات‘‘ یا ایسے ہی کسی ایک لغت کے حوالے سے درج کیے ہیں۔ بعض الفاظ میں تو انہوں نے ایسی ٹھوکر کھائی ہے کہ توبہ بھلی۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں،

    اسپینی مکھی، ایک قسم کی آبلہ انگیز مکھی جسے خشک کرکے بطور دوا استعمال کرتے ہیں۔ ہسپانوی مکھی، اسپینش فلائی۔ اس کے بعد سرسید کا ایک جملہ نقل کیا ہے، جس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اسپینی مکھی’’ایک قسم کی آبلہ انگیز مکھی ہوتی ہے۔‘‘ معلوم ہوتا ہے ارباب ’’لغت‘‘ نے مولوی عبدالحق صاحب مرحوم کے انگریزی اردو لغت میں Spanish fly کا غلط مطلب’’ہسپانوی مکھی‘‘ دیکھا اور سند کی تلاش میں نکل پڑے۔ سند ملی تو معنی قیاس کر لیے۔ اگر وہ آکسفورڈ کی چھوٹی والی ڈکشنری بھی دیکھ لیتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ Spanish fly ایک پاؤڈر ہوتا ہے، جس کو قوت باہ کے لیے، اور بول آوری کے لیے بھی دوا کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ایک کیڑا بھی Cantharis نام کا ہوتا ہے جس سے یہ دوا برآم ہوتی ہے لیکن لفظ fly کے معنی یہاں ’’مکھی‘‘ نہیں ہیں۔

    اسپینیل، ایک ولایتی کتا جس کے کان اور بال لمبے ہوتے ہیں۔ یہ معنی ’’جامع اللغات‘‘ کے حوالے سے درج کیے گئے ہیں۔ خدا معلوم کیا قباحت ہو جاتی اگر کسی معمولی انگریزی ڈکشنری کو بھی ملاحظہ فرما لیتے۔ بہت سے کتوں کے کان اور بال لمبے ہوتے ہیں، اس میں اسپینل کی کیا تخصیص ہے؟ اور ہر اسپینل کے بال لمبے بھی نہیں ہوتے، صرف کا کر اور واٹراسپینل کے بال لمبے ہوتے ہیں اور اسپینل ولایتی نہیں، بلکہ جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے، ہسپانوی النسل کتا ہے۔ جتنی معلومات فراہم کیں، سب غلط یا گم راہ کن۔ تقریباً وہی حال کر دیا جو بےچاری ہسپانوی مکھی کا کیا تھا۔

    بروکیڈ، جامہ وار، زربفت، کم خواب۔ تین قسم کے کپڑے ایک ’’بروکیڈ‘‘ کے معنی میں، جونہ اردو کا لفظ ہے، اور نہ ہی کپڑے کی کوئی مخصوص قسم ہے، بس اس لیے لکھ دیے کہ کوئی تو صحیح بیٹھ جائےگا۔ یہ معنی شاید کسی دیہاتی بزاز سے پوچھ کر لکھے ہیں، ورنہ کسی معمولی انگریزی ڈکشنری میں دیکھ لیتے تو معلوم ہو جاتا کہ بروکیڈ ہر اس کپڑے کو کہتے ہیں جس پرPattern ابھرا ہوا ہو اور ہر اس ہندوستانی کپڑے کو کہتے ہیں جس میں سونے چاندی کے تار لگے ہوں، یعنی زربفت اور کمخواب۔

    اردو لفظوں کا انگریزی ترجمہ کرکے اردو کے لغت میں شامل کرنا اور پھر معنی غلط لکھنا، ارباب’’لغت‘‘ ہی کے بس کا روگ ہے۔ یہی حال رہا تو ’’لغت‘‘ کے اختتام تک انگریزی کے صدہا الفاظ اردو سے ترجمہ ہوکر دوبارہ لغت کی زینت بن جائیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اس منطق سے کام لیتے ہوئے صاحبان ’’لغت‘‘ نے ’’کوکونٹ‘‘، ’’ٹائگر‘‘، ’’روز‘‘ وغیرہ بھی شامل کر لیے ہوں گے۔ ایسی حرکتیں ’’آصفیہ‘‘ اور ’’نور‘‘ نے بھی کی ہیں۔ مگر شاذ۔

    اس کے علاوہ ان لوگوں پر انگریزوں کی دھونس بھی تھی۔ وہ یہ دکھانا چاہتے تھے کہ انگریزی کے بے شمار الفاظ اردو میں دخیل ہو گئے ہیں (ورنہ ’’بورڈآف ریونینو‘‘، ’’بل‘‘ بہ معنی ’’ہنڈی‘‘، ’’قبض الوصول‘‘، ’’بک‘‘ بہ معنی ’’کتاب‘‘ وغیرہ کا اردو کے لغت میں کیا محل؟ اسی دھونس میں ’’آصفیہ‘‘ نے ’’بگھی‘‘ اور’’بالٹی‘‘ تک کو انگریزی کی سند دے دی۔ انگریزی Buggy کے بارے میں O.E.D کا خیال ہے اس کی اصل نامعلوم ہے، لیکن اسے ہند۔ انگریزی ماننے کی کوئی وجہ نہیں۔

    پلیٹس ’’بگھی‘‘ کو ہندی کہتا ہے اور ’’بالٹی‘‘ کے بارے میں کہتا ہے کہ مراٹھی میں یہ ’’بلٹی‘‘ ہے۔ خیر ’’آصفیہ‘‘ اور’’نور‘‘ پر انگریزی اور انگریزوں کی دھونس سمجھ میں آتی ہے لیکن ارباب ’’لغت‘‘ کو انگریزی الفاظ کیوں اس قدر مرغوب ہیں؟ اور مرغوب ہیں تو ان کے صحیح معنی کیوں نہیں لکھتے؟ یہ ساری قباحتیں لفظ کی صحیح تعریف متعین نہ کرنے اور معنی و مرادف کی ضروری تحقیق سے گریز کرنے کے باعث پیدا ہوئی ہیں۔

    اب الفاظ کو ترتیب سے جمع کرنے کے مسئلے پر آئیے۔ یہاں بھی ’’نور‘‘، ’’آصفیہ‘‘ اور ’’لغت‘‘ اپنی اپنی راہ پر گامزن ہیں۔ الفاظ کی ترتیب کے مندرجہ ذیل طریقے ممکن ہیں۔ لغت نگار کو ضروری ہے کہ ان پر غور کرکے وہ طریقہ اپنائے جس میں لغت کے قاری کو سہولت ہو، اور جو زبان کے مزاج اور تاریخی پس منظر سے ہم آہنگ بھی ہو۔ بہرحال وہ طریقے یہ ہیں،

    (۱) الفاظ کو کسی ترتیب کے بغیر درج کر دیا جائے۔ اس میں مشکل یہ ہے کہ اگر لغت میں دس ہزار الفاظ ہیں تو کسی ایک لفظ کا فوراً مل جانا دس ہزار کے مقابلے میں ایک کا امکان رکھتا ہے۔ اور اگر لغت بہت ضخیم ہے تو امکان بعید تر ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ طریقہ انتہائی غیر منظم اور طالب علم کے لیے تکلیف دہ ہے۔ (بعض قدیم فارسی لغات میں یہی کیا گیا ہے۔) 

    (۲) الفاظ کو آخری حرف کے اعتبارسے جمع کیا جائے مثلاً’’دل‘‘، ’’مجمل‘‘، ’’عنادل‘‘، سب یک جا کر دیے جائیں۔ اس طریقے میں ڈھونڈ نے والے کی مشکل کم ہو جاتی ہے لیکن اگر کسی تقطیع میں پانچ سو الفاظ ہیں تو مطلوبہ لفظ کا فوراً مل جانا پانچ سو کے مقابلے میں ایک کا امکان رکھےگا اور محاوروں، روزمروں اور ضرب الامثال وغیرہ کے درج کرنے میں بہت مشکل ہوگی۔

    (۳) الفاظ کو آخری اور پہلے دونوں حروف کے اعتبار سے جمع کیا جائے۔ مثلاً الف مع لام تقطیع الگ ہو اور الف مع واؤ الگ ہو۔ یہ طریقہ اچھا ہے لیکن اس میں محاوروں، روزمروں وغیرہ کا اندراج آسانی سے نہیں ہو سکتا، کیوں کہ ایک ہی محاورے کی کئی شکل ہو سکتی ہیں، اس طریقے کی رو سے انہیں الگ الگ درج کرنا ہوگا۔

    (۴) الفاظ کو آخری اور پہلے دونوں حروف کے اعتبار سے جمع کیا جائے اور پھر اس کے اندر ترتیب یہ ہو کہ پہلے حرف کے بعد والے حرف کا بھی لحاظ رکھا جائے مثلاً الف مع لام میں ’’امل‘‘ پہلے آئے اور’’اول‘‘ بعد میں (کیونکہ ’’امل‘‘ میں ’’الف‘‘ کے بعد ’’میم‘‘ ہے جو’’واؤ‘‘ سے پہلے آتا ہے۔) یہ طریقہ بہت احسن ہے کیونکہ اس میں قافیے بھی جمع ہو جاتے ہیں۔ (’’منتخب اللغات‘‘ میں ایسا ہی کیا گیا ہے۔) لیکن محاوروں، رو ز مروں وغیرہ کے لیے یہ طریقہ بھی نامناسب ہے، کیونکہ ایک طرح کے محاورے ایک جگہ نہیں ملیں گے۔ مثلاً ’’آنکھ‘‘ کی ضمن میں آنے والی کہاوت، ’’آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل‘‘ تو الف مع لام میں ملے گی، اور ’’آنکھ ناک سے درست‘‘ کا روز مرہ الف مع ت میں ملےگا۔ لہٰذا لغت کا ایک اہم تفاعل (ایک ہی طرح کے محاورے وغیرہ ایک جگہ درج کرنا) کم ہو جائےگا۔

    (۵) الفاظ کو حروف تہجی کے لحاط سے مشترک حروف کے اصول پر جمع کرنا۔ مشترک اصول کا مطلب یہ ہے کہ الفاظ جمع کیے جائیں حروف تہجی کے اعتبار سے، اور ان کے اجتماع کی اندرونی ترتیب یہ ہوکہ جتنے حرف شروع میں مشترک آئیں ان کو نظر انداز کرکے پہلے حرف کے بعد مشترک حرف پر اجتماع کی بنیاد رکھی جائے۔ اس کی مثال ملاحظہ کیجیے، مستور، مستطیل، مستار، مستبشر، مستطیر۔ یہ سب الفاظ میم کی تقطیع میں درج ہوں گے۔ چونکہ ان سب کے شروع میں م، س، ت مشترک ہے۔ اس لیے م، س، ت کو نظر انداز کرکے دیکھا جائے کہ ان کے بعد پہلا حرف کون سا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ’’مستبشر‘‘ میں ’’ب‘‘ پہلے ہے، ’’مستار‘‘ میں ’’الف‘‘ پہلے ہے، ’’مستطیر‘‘ اور ’’مستطیل‘‘ میں ’’ط‘‘ پہلے ہے اور ’’مستور‘‘ میں ’’واؤ‘‘ پہلے ہے۔ لہٰذا ترتیب یوں بنے گی، مستار، مستبشر۔

    اب دیکھا گیا کہ ’’مستطیل‘‘ اور’’مستطیر‘‘ میں م، س، ت کے بعد ’’ط‘‘ اور’’ی‘‘ بھی مشترک ہیں۔ اس لیے اس کی ترتیب ’’ی‘‘ کے بعد والے حرف کے اعتبار سے ہوگی۔ یعنی ’’مستطیل‘‘ بعد میں اور ’’مستطیر‘‘ پہلے اور ’’مستور‘‘ سب سے بعد آئےگا۔ یعنی اولین ترتیب تو پہلے حرف’’م‘‘ کے لحاظ سے ہوئی اور باریک ترتیب ’’م‘‘ کے بعد مشترک آنے والے حرف کو نظرانداز کرکے ان کے بعد والے پہلے حرف کے لحاظ سے یوں ہوگی، مستار، مستبشر، مستطیر، مستطیل، مستور۔ اس ترتیب میں مزید باریکی پیدا کرنے کے لیے زیر، زبر، پیش کا بھی لحاظ رکھ سکتے ہیں۔ یعنی (مثلا) ’’م زبر‘‘ والے الفاظ کو پہلے رکھا جائے، ’’میم زیر‘‘ والے کو اس کے بعد اور ’’میم پیش‘‘ والے کو سب کے بعد۔

    ظاہر ہے کہ یہ طریقہ نمبر۵ (اس مزید باریکی کے ساتھ جو اوپر بیان ہوئی) بہترین ہے۔ لیکن بنیادی شرط یہ ہے کہ ترتیب حروف تہجی کے اعتبار سے ہو۔ اس لیے حروف تہجی کی تعریف طے کرنا ضروری ہے۔ لیکن یہ کام آسان نہیں ہے۔ حروف تہجی کی عام تعریف تو یہ ہے کہ ہر وہ حرف جس سے کوئی لفظ شروع ہو سکتا ہو حروف تہجی ہے۔ لیکن اردو کے بعض حروف تہجی مثلاً ہمزہ چھوٹی یے، بڑی یے، ڑ، اس تعریف پر پورے نہیں اترتے۔ پھر حروف تہجی اس حرف (یا حرفوں کے اس مجموعے) کو کہہ سکتے ہیں، جو کسی ایک آواز کو ظاہر کرے۔ (یعنیPhoneme) اس میں مشکل یہ ہے کہ بہت سے Phoneme ایسے ہوتے ہیں جو محض سننے میں آتے ہیں اور ان کی قیمت بدلتی رہتی ہے۔ (مثلا ’’گڑھا‘‘ بروزن ’’فعل‘‘ میں ’’ڑ‘‘ اور’’ہ‘‘ ملا کر ایک فونیم بنتا ہے لیکن اس کی قیمت وہ نہیں جو’’گاڑھا‘‘ میں ’’ڑ‘‘ کی ہے، اگرچہ اس سے مشابہ ہے۔) 

    لہٰذا Phoneme کو حرف تہجی فرض کرنا ممکن نہیں۔ ایک اور مثال ’’لہر‘‘ جیسے الفاظ میں ’’ل زبر‘‘ کا ساتلفظ ہے، اس میں زبر ہے بھی اور نہیں بھی۔ اگر حرف تہجی کو کسی نظام تحریر کا قلیل ترین ٹکڑا مانا جائے، جو کسی آواز کو ظاہر کرتا ہے (یعنی Craphem کو) تو مشکل یہ آتی ہے کہ اردو کے بہت سے مخطوط آوازوں والے مجموعوں (’’چولھا‘‘ میں ’’لھ‘‘، ’’دودھ‘‘ میں ’’دھ‘‘ وغیرہ کو بھی حرف تہجی ماننا پڑےگا اور اگر ’’گ ھ‘‘، ’’ب ھ‘‘ وغیرہ کو حرف تہجی مانا جائے تو ’’دھ پیش‘‘، ’’گ ھ پیش‘‘ کو حرف تہجی مان کران کی الگ تقطیع کیوں نہ قائم کی جائے؟

    بنیادی بات یہ ہے کہ حروف تہجی کا تعین اور تنظیم صوتیات یاعلم تحریر کی بنا پر نہیں بلکہ رواج اور روایت اور تاریخ کی بنا پر ہے۔ اس رواج اور روایت اور تاریخ میں تبدیلی کرنا لغت نگار کا کام نہیں۔ اس کا یہ بھی منصب نہیں ہے کہ وہ زبان میں نئے حروف تہجی قائم کر دے۔ چنانچہ لغت نگار نہ تو یہ کر سکتا ہے کہ وہ دال کو بعد میں رکھے اور ذال کو پہلے، اور نہ یہ کر سکتا ہے کہ حرو ف تہجی کی وہ فہرست جو زمانۂ قدیم سے چلی آ رہی ہے، اس میں اضافہ یا تخفیف کرے۔ حروف تہجی کی فہرست میں اضافہ کرنا یا ان کی مروجہ ترتیب کو بدلنا، دونوں ہی باتیں انتشار اور اشکال کو راہ دیتی ہیں۔

    لغت نگار چونکہ الفاظ کو حروف تہجی کے اعتبار سے جمع کرتا ہے۔ (یعنی جس حرف سے جو لفظ شروع ہوا سے اس حرف کی تقطیع میں رکھتا ہے) اس لیے اس کا اصول یہ ہونا چاہیے کہ وہ ان حروف تہجی کو نظر انداز کردے جن سے کوئی حرف شروع نہیں ہوتا (مثلاً ہمزہ اور ڑ) لیکن ان کو نظرانداز نہ کرے جو حرف کے شروع میں آتے ہیں خواہ وہ کسی شکل میں آئیں، اس حساب سے دیکھا جائے تو لغت میں جمع کیے جانے والے الفاظ مندرجۂ ذیل فہرست اور ترتیب پر جمع ہوں گے، ا، ب، پ، ت، ٹ، ج، چ، ح، خ، د، ڈ، ر، ز، ژ، س، ش، ص، ض، ط، ظ، ع، غ، ف، ق، ک، گ، ل، م، ن، و، ہ، ی۔

    اور دوسرا وصول یہ ہوگا کہ اگر لفظوں کے شروع میں کئی حرف مشترک ہیں تو شروع کے حروف کی تقطیع کا لحاظ رکھتے ہوئے، مشترک حروف کو نظرانداز کرکے، ترتیب کی بنیاد مشترک حروف کے بعد جو حرف سب سے پہلے آئے گا، اس پر رکھی جائےگی۔ چنانچہ اگر کسی لفظ کے شروع میں دو’’الف‘‘ ہیں تو وہ ان تمام لفظوں سے پہلے آئےگا جن میں ایک ’’الف‘‘ ہو۔ اسی طرح اگر کسی لفظ کے شروع میں دو’’جیم‘‘ ہیں تو وہ اس لفظ کے پہلے درج ہوگا جس میں ’’جیم‘‘ کے بعد ’’چ‘‘ ہوگی۔

    مندرجہ بالا اصول کی روشنی میں دیکھیے تو ’’آصفیہ‘‘، ’’نور‘‘ اور’’لغت‘‘ اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ الاپتی نظر آتی ہیں۔ ’’الف مد‘‘ کے بارے میں یہ سب کو معلوم ہے کہ یہ دراصل دو الف ہیں۔ اس لیے ظاہر ہے کہ وہ تمام الفاظ جن کے شروع میں ’’الف مد‘‘ ہو، ان لفظوں کے پہلے آئیں گے، جس میں صرف ایک ’’الف‘‘ ہے۔ ’’آصفیہ‘‘ نے ’’الف مد‘‘ کو نظرانداز کر دیا ہے اور’’الف‘‘ کے بعد’’آ‘‘ اور’’آ‘‘ کے بعد ’’اب‘‘ اور’’اب‘‘ کے بعد’’آب‘‘ درج کیا ہے۔ یعنی ایک طرف تو وہ ’’الف مد‘‘ کو دوالف مان کر’’آ‘‘ کو’’اب‘‘ کے پہلے درج کرتی ہے، لیکن دوسری طرف ’’الف مد‘‘ کو دو الف نہیں مانتی اور’’آ‘‘ کے بعد ’’آب‘‘ کی جگہ’’اب‘‘ درج کرتی ہے۔ پھر ’’آب‘‘ کے بعد ’’ابا‘‘ در ج ہے۔ ’’ابا‘‘ کے نیچے ’’آبا‘‘، اس کے بعد ’’اباحت۔‘‘ پھر’’آباد کار۔‘‘ اس کے بعد ’’آبادانی۔‘‘ یعنی کسی قسم کے اصول کا پتہ ہی نہیں لگتا، جس کی روشنی میں لفظ تلاش کیا جائے۔

    اگر ’’الف مد‘‘ کو دو الف نہیں فرض کرنا تھا تو ’’الف‘‘ کے بعد ’’اب‘‘ آنا چاہیے تھا نہ کہ’’آ‘‘، موجودہ صورت میں ’’آصفیہ‘‘ کی ترتیب الفاظ ایسی ہے کہ کسی لفظ کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ کہاں ملےگا؟ ’’با‘‘ کی تقطیع میں ’’با‘‘ کو مستقل لغت بھی قرار دیا ہے اور’’با‘‘ لاحقے کے ساتھ آنے والے محض چودہ لفظ درج کیے ہیں جو ’’بااثر‘‘ سے لے کر’’باوفا‘‘ تک پھیلے ہوئے ہیں۔ (اس فہرست میں ’’باادب‘‘، ’’بامراد‘‘ شامل نہیں ہیں) ’’بے‘‘ کا الگ لغت قائم کیا ہے۔ اس میں ’’بے مزہ‘‘ درج ہے لیکن’’با‘‘ کے ضمن میں ’’بامزہ‘‘ درج نہیں ہے) ’’بے دل‘‘ ہے مگر’’بے جگر‘‘ نہیں ہے۔ لیکن لطف مزید یہ ہے کہ ’’بے‘‘ کو لاحقہ مان کر اس کے تحت ’’بے رخ ہونا‘‘، ’’بے غل وغش‘‘ تو درج کیا ہے لیکن ’’بے مات بھائی ؍بہن‘‘ کا لغت الگ قائم کیا ہے اور اسے ’’ب، ی، م‘‘ کی تقطیع میں لائے ہیں۔ معلوم ہوا’’آصفیہ‘‘ کو ترتیب الفاظ کا کوئی خاص سلیقہ نہیں۔

    ’’نور‘‘ نے ’’الف مد‘‘ کو دو الف مانا ہے اور’’الف‘‘ کے بعد ’’آ‘‘ اور’’آ‘‘ کے بعد ’’آب‘‘ درج کیا ہے۔ ’’نور‘‘ نے ’’الف‘‘ کے عنوان سے تقطیع ہی الگ رکھ دی ہے اور اس کے بعد دوسری تقطیع شروع کر دی ہے جس کا عنوان ’’الف مقصورہ‘‘ ہے۔ اس طرح ’’نور‘‘ کا طریق کار’’آصفیہ‘‘ کے مقابلے میں زیادہ عقلی اور بااصول ہے لیکن ’’نور‘‘ نے نہ’’الف مقصورہ‘‘ کو لغت بنایا ہے نہ’’الف ممدودہ‘‘ کو۔ اس لیے طالب علم ’’الف ممدودہ‘‘ سے ناواقف رہتا ہے اور الف مقصورہ کو حروف تہجی میں سے ایک مستقل حرف سمجھنے کی غلطی میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ پھر’’نور‘‘ نے ’’آ‘‘ کو لاحقہ فرض کرتے ہوئے ’’آ بیٹھنا‘‘، ’’آئیے‘‘، ’’آ پکڑنا‘‘ وغیرہ سب کو ’’آ‘‘ کے تحت درج کیا ہے۔ حالانکہ ان محاوروں اور لغات میں ’’آ‘‘ کے معنی زیادہ تر روزمرہ اور سماعت پر مبنی ہیں۔

    ’’آ‘‘ اس معنی میں لاحقہ نہیں ہے جس معنی میں ’’بے‘‘ لاحقہ ہے کیونکہ ’’بے‘‘ بہ طور لاحقہ ہر جگہ ’’بغیر‘‘ کے معنی رکھتاہے اور ’’آ‘‘ بطور لاحقہ فرض کیا جائے تو اس کے بھی ایک ہی مستقل معنی (یعنی ’’آنا کا امر‘‘) فرض کرنا ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ ’’آبے‘‘ میں ’’آ‘‘ کے معنی استعاراتی او ر مصدری ہیں۔ ان سب کو الگ الگ لغت بنانا چاہیے تھا، نہ کہ ’’آ‘‘ یعنی آنا کا امر کے ذیل میں۔ بہرحال ان معمولی فروگذاشتوں سے قطع نطر’’نور‘‘ کی ترتیب الفاظ درست اور سہل الفہم ہے۔

    افسوس یہ ہے کہ ارباب ’’لغت‘‘ نے عقلی گدوں کاجو سلسلہ باندھا ہے اس میں ترتیب الفاظ اور حروف تہجی کو بھی جکڑ لیا ہے اور ایسے ایسے گل کھلائے ہیں کہ عقل دنگ اور ہوش گم ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے زیادتی تو انہوں نے یہ کی ہے کہ بزعم خود Phoneme کو حروف تہجی کا درجہ بخش دیا ہے۔ لہٰذا ان کی فہرست کوئی دو ہاتھ لمبی ہو گئی ہے اور اس میں ’’آ‘‘، ’’رھ‘‘، ’’ڑھ‘‘، ’’مھ‘‘، ’’لھ‘‘ جیسے ’’حروف بھی شامل ہیں۔ خدا معلوم ’’دوچشمی ہ‘‘ کو کیوں چھوڑ دیا جس کے باعث ان مبینہ Phoneme میں سے اکثر کا وجود ممکن ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ان میں سے بہت سے حروف لفظ کے شروع میں نہیں آتے لیکن چونکہ ان کا مستقل آوازی وجود ہے، اس لیے ان سب کا’’مجرد حرف کے طور پر‘‘ اندراج کیا گیا ہے، اور ان کا ’’خاطر خواہ‘‘ تعارف کرایا گیا ہے۔

     اول تو ان سب آوازوں کا Phoneme ہونا ہی مشتبہ ہے، لیکن اگر یہ Phoneme ہیں بھی تو یہ کیوں ضروری ہے کہ وہ مستقل حروف بھی قرار دیے جائیں اور اس طرح حروف تہجی میں غیر ضروری الفاظ کا اضافہ کیا جائے؟ اچھا اسے بھی مان لیتے ہیں کہ یہ مستقل حرف ہیں۔ لیکن ’’رھ‘‘، ’’نھ‘‘ (زبر اور پیش کے ساتھ) مستقل حرف ہیں تو ’’رھ‘‘، ’’رُھ‘‘ (زیر اور پیش کے ساتھ) اور ’’نھ‘‘، ’’نھ‘‘ (زیر اور پیش کے ساتھ) حرف کیوں نہ مانے جائیں؟ اس طرح تو ہمیں تمام ہکار آوازوں کے تین تین سٹ قائم کرنے پڑیں گے۔ پھر ان زیر اور پیش والے ’’حروف‘‘ کو کیوں ترک کیا؟ اچھا اسے بھی منظور کر لیا، لیکن اگر تمام Phonemes کو حرف کا درجہ دینا ہے، تو ’’بہن‘‘ اور ’’احمد‘‘ جیسے الفاظ میں ’’ہ‘‘ کی جو آواز ہے اس کو حرف کا درجہ کیوں نہیں دیا؟

    ’’تابع‘‘ اور ’’طارق‘‘ میں زیر کی آوازیں مختلف ہیں۔ ان کو الگ حرف کیوں نہیں مانا؟ کسرۂ اضافت کو بھی الگ حرف کیوں نہیں مانا؟ ارباب ’’لغت‘‘ نے Phonemesاور Graphemes وغیرہ کا نام سن لیا ہے اور فرض کر لیا ہے کہ جتنی آوازیں ان کو سنائی دیتی ہیں، یاد کھائی دیتی ہیں وہ سب حرف ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ بہت سی آوازیں (جن میں سے بعض کی مثالیں اوپر درج ہوئیں) ان کو سنائی بھی نہیں دیتیں۔

    حروف تہجی میں اضافے کی یہ کوشش نہ صرف قبیح اور غیر ضروری ہے بلکہ غیر فطری اور غیر سائنسی بھی ہے، ’’بھ‘‘، ’’پھ‘‘ وغیرہ کو الگ حرف مان کر انہوں نے مزید زیادتی یہ کی ہے کہ ان کو’’بے‘‘ کے بعد رکھا ہے۔ چنانچہ ’’بڑا‘‘ تو اپنی جگہ درج ہے، لیکن ’’بڑھا‘‘ کو’’بڑے‘‘ کے بعد درج کیا ہے۔ ڈھونڈنے والا لاکھ سر مارے، اس کی سمجھ میں نہیں آئےگا کہ یہ ہو رہا ہے؟ ہائے دوچشمی کو الگ حرف ماننے سے انکار بھی ہے، لیکن ہکار آوازوں والے Graphemes کو حروف تہجی کی فہرست میں سب سے آخر میں رکھنے پر اصرار بھی ہے۔ یاالٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟

    لیکن سب سے بڑی زیادی ارباب ’’لغت‘‘ نے بے چارے ’’الف‘‘ کے ساتھ کی ہے۔ بڑے اعتماد سے کہتے ہیں، ’’ہم نے اپنی پہلی جلد کا آغاز الف مقصورہ سے کیا ہے، جب کہ تمام دوسری لغات متداولہ الف ممدودہ سے شروع ہوتی ہیں۔ دراصل الف ممدودہ دوالف کے برابر اور الف مقصورہ ہی کی موجودہ شکل ہے؛ لہٰذا ہمارے خیال میں اردو کا پہلا حرف مقصورہ ہی ہے۔‘‘ 

    اول تو یہی بیان محل نظر ہے کہ اردو کے تمام متدوال لغات الف ممدودہ سے شروع ہوتے ہیں۔ ’’آصفیہ‘‘ کی افراتفری ہم دیکھ چکے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ’’الف ممدودہ دوالف کے برابر‘‘ اور ’’الف مقصورہ ہی کی ممدودہ شکل ہے‘‘ دو الگ الگ باتیں ہیں۔ اگرالف ممدودہ دو الف کے برابر ہے تو الف مقصورہ کی ممدودہ شکل کیسے ہو گیا؟ دونوں باتیں بہ یک وقت صحیح نہیں ہو سکتیں۔ مثلاً کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ جس حرف پر تشدید ہے وہ دوحرف کے برابر بھی ہے اور اس حرف کی مشدد شکل بھی ہے؟

    ظاہر ہے کہ یہ بولنے میں دو حرف کے برابر لکھنے میں اور اس حرف کی شکل ہے۔ لیکن دونوں باتیں ایک نہیں ہیں۔ الف کا تو معاملہ بھی دوسرا ہے۔ اگر الف ’’ممدودہ‘‘ کی تعریف یہ ہے کہ یہ ’’الف مقصورہ‘‘ کی ممدودہ شکل ہے، تو الف مقصورہ کی تعریف یہ کیوں نہ ہو کہ یہ ’’الف ممدودہ‘‘ کی مقصورہ شکل ہے؟ اہل منطق نے ایسی ہی تعریف کو Circular کہہ کر اس سے پناہ مانگی ہے۔ ہمارے یہاں اس استدلال کو دندان تو جملہ درد ہانند؍چشمان تو زیر ابروانند سے تعبیر کرتے ہیں، یعنی’’گز‘‘ کی تعریف یہ ہے کہ وہ پیمانہ جس میں تین فٹ ہوں، اور’’فٹ‘‘ کی تعریف یہ کہ وہ پیمانہ جس کے تین مل کر ایک گز بنتا ہے۔ ارے صاحب اگر ’’الف ممدودہ‘‘ دو الف کے برابر ہے اور اگر’’الف مقصورہ‘‘ ایک الف ہے، تو’’الف ممدودہ‘‘ کو الف مقصورہ کی ممدودہ شکل‘‘ کہنے سے کیا مراد ہے؟

    مصیبت یہ ہے کہ ارباب ’’لغت‘‘ نے الف مقصورہ کی تعریف کہیں درج نہیں کی ہے۔ ’’الف مقصورہ‘‘ کے اندراج میں تحریر فرماتے ہیں، ’’رجوع کیجیے، الف‘‘، ’’الف ممدودہ‘‘ کے ذیل میں بھی یہی لکھا ہے۔ چلیے ’’الف‘‘ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ وہاں تحریر ہے۔ ’’الف کی دو صورتیں ہیں۔ مقصورہ اور ممدودہ۔ آخر الذکر کھینچ کر پڑھا جاتا ہے اور دو الفوں کے برابر ہوتا ہے اور اس کے اوپر ایک علامت (ٓ) ہوتی ہے، جسے ’’مد‘‘ کہتے ہیں۔‘‘ اللہ اللہ، کیا تعریف بتائی ہے۔ خدا کے لیے ان سے کوئی پوچھے کہ ’’کھانا‘‘، ’’روانہ‘‘، ’’امداد‘‘ میں جو الف’’کھ‘‘، ’’واو‘‘ اور’’دال‘‘ کے بعد آیا ہے وہ مقصورہ ہے کہ ممدودہ؟ اگر ممدودہ ہے تو اس پر مد کہاں ہے؟ اگر اس پر مد نہیں ہے تو اسے کھینچ کر کیوں پڑھتے ہیں؟ اور اگر مقصورہ ہے تو یہ الف کھینچ کر کیسے پڑھا جائےگا؟

    ’’آصفیہ‘‘ میں ’’الف مقصورہ‘‘ کی تعریف لکھی ہے، ’’چھوٹی آواز کاالف، وہ الف جو مد نہ رکھتا ہو۔‘‘ اور مثال میں ’’نانا‘‘ بھی درج کیا ہے۔ اب بے چارہ طالب علم کہاں جائے؟ کس لغت سے اپنا سر پیٹے؟ وہ کون سا’’الف‘‘ ہے جو مقصورہ ہے اور اردو کا پہلا حرف بھی ہے، اور’’نانا‘‘، ’’کھانا‘‘ جیسے الفاظ میں بھی آتا ہے؟ ظاہر ہے کہ حرف تہجی کی حیثیت سے الف مقصورہ یا ممدودہ کا کوئی وجود نہیں۔ کسی لفظ کے شروع میں ایک الف ہوگا، کسی کے شروع میں دوالف ہوں گے۔ دوالف والے لفظ پہلے بیان کیے جائیں گے (جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا) ارباب’’لغت‘‘ نے ’’اب‘‘ سے لغت شروع کیا ہے اور ’’اوہاں‘‘ پر جلد ختم کی ہے (خدا معلوم ’’اوہاں‘‘ کو’’یہاں‘‘ کے بعد کیوں رکھا ہے؟ کیا ان کے خیال میں ’’واؤ‘‘ کی جگہ’’ی‘‘ کے بعد ہے؟) پھر انہوں نے ’’آ‘‘ کی تقطیع شروع کی ہے، سارا معاملہ ہی پلٹ دیا۔

    شاید ان کا خیال ہے کہ اگر نیا لغت ہے، تو اس میں بدعات کی کثرت لازمی ہے، ورنہ کیوں کر ثابت ہوگا کہ وہ فن سے واقف ہیں؟ حروف تہجی میں اضافہ اور ان کی بے اصول ترتیب ارباب ’’لغت‘‘ کے ناقابل دفاع اقدامات ہیں۔ بات لمبی ہوتی جاری ہے۔ رات کم اور سوانگ بہت ہے۔ لیکن مزید چند نکات کی طرف اشارہ کیے بغیر کام پورا نہیں ہو سکتا۔ ارباب لغت کا خیال ہے کہ زبان میں مرادفات کا وجود نہیں۔ بعض الفاظ میں معنی کے اجزا ضرورم شترک ہوتے ہیں، لیکن دو ہم معنی الفاظ ممکن نہیں۔ یہ ادبی تنقید کا ایک کار آمد اصول ہے لیکن اس کا اطلاق لغت نگاری تو کجا، تنقید پر بھی مکمل طور پر نہیں ہوتا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ای۔ ڈی۔ ہرش کی کتاب The Aims of Interpretation جس میں اس نے ثابت کیا ہے کہ بعض حالات میں اور بعض مقاصد کے لیے دوعبارات بالکل متحد المفہوم ہوتی ہیں)

    لیکن یہ بات صحیح ہے کہ لغت نگار کو معنی، مرادف اور تعریف کا فرق ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ بہت سے الفاظ (خاص کر محاوروں، روز مروں اور کہاوتوں) کے معنی بیان کرنا کافی ہے۔ ان کی تعریف لاحاصل اور مرادفات اکثر غیر ضروری ہوتے ہیں۔ بہت سے الفاظ کا مرادف دیے بغیر کام نہیں بنتا۔ مثلاً ’’شب‘‘ کا مرادف’’رات‘‘ دیے بغیر چارہ نہیں۔ بعض اوقات مرادف اور معنی دونوں ایک ہی شے ہوتے ہیں۔ مثلاً ’’طلوع آفتاب‘‘ کا مرادف’’سورج کا نکلنا‘‘ اس کے معنی بھی ہیں۔ یعنی مرادف ترجمے کا کام بھی کرتا ہے، اور معنی کا بھی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ معنی یا مرادف جو بھی بیان کیے جائیں، ان میں غیر ضروری الفاظ نہ ہوں۔ غیر ضروری افراط کی مثالیں ’’آصفیہ‘‘، ’’نور‘‘ اور’’لغت‘‘ تینوں میں کثرت سے ہیں۔ لیکن ارباب ’’لغت‘‘ یہاں بھی سبقت لے گئے (مثالیں اوپر درج کر چکا ہوں)۔

    مرادف لکھنے میں مشکل اس وقت آتی ہے جب معنی اور مرادف اور ترجمے کی الگ الگ حیثیتوں پر غور کیا جائے۔ اکثر مرادفات ایسے ہوتے ہیں جو اصل لفظ کی جگہ استعمال نہیں ہو سکتے۔ مثلاً ’’باپ‘‘ کا مرادف ’’اب‘‘ ہے، لیکن ’’باپ‘‘ کی جگہ ’’اب‘‘ استعمال نہیں ہو سکتا۔ ’’دروازہ‘‘ کا مرادف’’باب‘‘ ہے لیکن ’’دروازہ‘‘ کی جگہ ’’باب‘‘ بہت کم استعمال ہو سکتا ہے۔ پھر بہت سے مرادف ایسے ہوں گے جو اصل لفظ سے مشکل ہوں گے یعنی ’’دروازہ‘‘ کے تحت محض ’’باب‘‘ لکھ دینے سے کام نہیں چلےگا، کیونکہ اغلب ہے کہ جس شخص کو ’’دروازہ‘‘ کے معنی معلوم کرنا ہوں گے، وہ’’باب‘‘ سے بھی ناآشنا ہوگا۔

    پھر معنی بیان کرنے کے لیے ان الفاظ ومحاورات وامثال میں خاص احتیاط کی ضرورت ہوگی، جہاں اصل لفظ یا محاورہ کی جگہ ان کے معنی بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ مثلاً’’سبز باغ دکھانا‘‘ کی جگہ اس کے معنی’’لالچ دینا، فریب دینا‘‘ بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ لیکن’’گل کھلنا‘‘ کی جگہ اس کے معنی استعمال نہیں ہو سکتے۔ لغت نگار کو ان تمام باتوں کا لحاظ رکھنا ہوگا۔ خاص کر ایسے محاورے (جیسے گل ’’کھلنا‘‘) جن کے معنی خاصے وسیع ہوں، ان کے معنی اور مثال میں عام محاوروں سے زیادہ تفحص اور احتیاط کی ضرورت ہوگی۔

    سب سے بڑا مسئلہ تعریف طلب الفاظ کا ہے۔ پرانے لغت نگار تو تعریف طلب الفاظ درج ہی نہیں کرتے تھے، یا محض ان کا عربی فارسی مرادف لکھ دیتے تھے، یا لکھتے تھے کہ ’’معروف است۔‘‘ چنانچہ ’’بہار عجم‘‘ جیسے لغت میں ’’بت‘‘ کے معنی ’’صنم‘‘ درج ہیں اور ’’بت کدہ‘‘، ’’بتستان‘‘ وغیرہ لکھ دیا ہے کہ ’’ہر کدام معروف۔‘‘ ظاہر ہے کہ طالب علم پوچھ سکتا ہے کہ ’’اگر معروف بودے من معانی ایں لغات را چرا جستجو کردمے؟‘‘ لیکن اصولی سوال یہ ہے کہ ایسے الفاظ جن کے معنی لوگوں کو عام طور پر معلوم ہوں، ان کو درج ہی کیوں جائے؟

    اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اس لیے درج کیا جائے کہ خدا معلوم یہ لفظ کب متروک ہو جائیں۔ (کس کو معلوم تھا کہ ’’ٹک‘‘ اور’’سیتی‘‘ اور’’ہور‘‘ اور’’ہار‘‘ اور’’ذرہ‘‘ بہ معنی ’’ذرا‘‘ جیساکہ میر کے ہاں ہے۔ (خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا) جیسے الفاظ متروک ہو جائیں گے؟ دوسراجواب یہ ہے کہ لفظوں کے معنی بدلتے رہتے ہیں، شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔ (مثلاً حاتم نے ’’تاؤ گے‘‘ کو’’جلاؤ گے‘‘ اور’’دہے‘‘ کو ’’جلے‘‘ کے معنی میں استعمال کیا ہے۔) 

    اب’’تاؤ‘‘ تو مستعمل ہے لیکن مصدری معنی میں نہیں۔ اور’’دہے‘‘ کے مصدری معنی ہی مفقود ہیں۔ محرم کے دہے ضرور ہوتے ہیں۔ اسی طرح میر نے ’’ناپیدا‘‘ لکھ کر’’ناپید‘‘ مراد لیا ہے۔ اب’’ناپیدا کنار‘‘ تو مستعمل ہے لیکن مجرد ’’ناپیدا‘‘ کی جگہ صرف ’’ناپید‘‘ بولتے ہیں۔ الفاظ کو لغت میں درج کرنے کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ انہیں محفوظ کر لیا جائے۔ خاص کر آئندہ زمانے والوں اور غیر اہل زبان طالب علموں اور لسانیات اور علم اللسان کے ماہروں کو قدم قدم پر الفاظ کی تحقیق کی ضرورت پڑتی ہے۔ لہٰذا وہ الفاظ بھی جن کے معنی اغلب سب لوگوں کو معلوم ہوں گے اور جن کے مرادفات خود اصل لفظ سے مشکل ہو سکتے ہیں، ان کو لغت میں درج کرکے ان کی تعریف بیان کرنا ضروری ہے۔

     تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ طے کرنا ہی بہت مشکل ہے کہ وہ کون سے الفاظ ہیں اور ان کے کون سے معنی ہیں جو اغلباً سب لوگوں کو معلوم ہوں گے۔ لہٰذا شمولیت کا اصول انتخاب سے بہتر ہے۔ تعریف بیان کرنا بڑی ٹیڑھی کھیر ہے۔ دومثالوں سے بات واضح کرنا چاہتا ہوں۔
    ’’آنکھ‘‘، اس کی تعریف لغات زیر بحث میں یوں درج ہے،

    آصفیہ، نین، نیتر، لوچن، دیدہ، چشم، بینائی کا آلہ۔ ظاہر ہے کہ ’’آصفیہ‘‘ نے تعریف کے نام پر ایک مہمل فقرہ (’’بینائی کاآلہ‘‘) لکھا ہے کیونکہ بینائی کا آلہ دوربین بھی ہے اور عینک بھی اور کوئی بھی ایسی چیز جس سے دیکھنے کا کام لیا جائے۔ مثلاً وہ شیشہ جسے گھڑی ساز یا جوہر تراش استعمال کرتے ہیں۔ لفظ ’’آلہ‘‘ خود بھی گم راہ کن ہے۔ اس اعتبار سے ’’دانت‘‘ کو کھانے کا آلہ اور ’’پاؤں‘‘ کو ’’چلنے کا آلہ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔

    جہاں تک سوال مرادفات کا ہے تو ’’دیدہ‘‘، ’’آنکھ‘‘ کا مرادف ہے بھی اور نہیں بھی۔ ایسے مرادف مزید گم راہ کن ہیں۔ مجرد’’دیدہ‘‘، ’’آنکھ‘‘ کے معنی میں اردو میں نہیں آتا۔ مرکب شکلوں میں آتا ہے۔ ہاں عورتوں کی زبان میں ’’آنکھوں‘‘ کے لیے ’’دیدے‘‘ مستعمل ہے۔ ’’نین‘‘ اور ’’چشم‘‘ صحیح مرادفات ہیں، لیکن ’’نین‘‘ اب متروک ہے۔ ’’نیتر‘‘ میں نے جدید اردو میں نہیں دیکھا، دکنی میں ہو تو ہو۔ غرض کہ صاحب ’’آصفیہ‘‘ کو’’آنکھ‘‘ کی تعریف اور مردافات دونوں میں دھوکا ہوا۔

    نور، دیکھنے کا عضو۔ یہاں بھی وہی حال ہے۔ بس یہ کرم کیا ہے کہ مرادفات سے جان بخشی کرا دی لیکن’’دیکھنے کا عضو‘‘ چہ معنی دارد؟ دیکھنے کا عضو، مگر کس کا؛ کس طرح کا؟ کیا شیشے کی آنکھ جس سے کچھ دکھائی نہیں دیتا، دیکھنے کا عضو ہے؟ اگر نہیں تو اسے ’’آنکھ‘‘ کیوں کہتے ہیں؟ دیکھنے کا اصل عضو تو آنکھ کا Lens اور پردہ یعنی Retina ہے جس پرCornea اورLens مل کر عکس ڈالتے ہیں۔ یہ چیزیں نہ ہوں گی تو آنکھ پھر بھی رہےگی لیکن دکھائی کچھ نہ دے گا۔ پھر بہت سے Invertebrate جانداروں میں آنکھ اس طرح کی ہوتی ہی نہیں جیسی Vertebrates میں ہوتی ہے۔ بعض تو ایسے ہیں جن کے آنکھ ہی نہیں ہوتی بلکہ تکونی شکل کے کئی Lens مل کر (جو دور دور ہوتے ہیں) ’’آنکھ‘‘ بناتے ہیں۔ لہٰذا یہ تعریف بھی نامکمل ہے۔

    لغت، وہ عضو جس سے دیکھتے ہیں، آلۂ بصارت۔ یعنی صاحبان’’لغت‘‘ نے ’’آصفیہ‘‘ اور’’نور‘‘ کی مکھیوں کو پکڑ کر اپنے رنگ میں رنگ لیا اور اپنے پنجرے میں چھوڑ دیا ہے۔ تعریف بیان کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جس شے کی تعریف کر رہے ہیں، اس کی جامع ومانع شکل بیان ہو جائے۔ ان تینوں لغات کی تعریفیں اس صفت سے خالی ہیں۔ صاحبا ن لغت نے شاید یہ اطمینان کر لیا ہے کہ O.E.D میں Eye کی تعریف The Organ of Sight ہے۔ لہٰذا ہم بھی وہی کریں۔ وہ بھول گئے کہ “Organ” کے معنی‘‘ آلہ‘‘ نہیں اورSight اور چیز ہے۔ ’’دیکھتے ہیں‘‘ یا’’بصارت‘‘ اور چیز ہے۔ انگریزی میں تو جانور کی نظر کو بھی Sight کہتے ہیں۔ مثلاً The eagle has sharp sight یا The Tiger has Poor sight لیکن ہمارے یہاں کوئی نہیں کہتا کہ شیر کی بصارت کم زور یا عقاب کی بصارت تیز ہوتی ہے۔ اردو میں ایسے موقعوں پر ’’نگاہ‘‘ یا ’’نظر‘‘ استعمال کرتے ہیں۔

    ارباب .O.E.D تو sight کہہ کر صاف بچ گئے لیکن ہمارے لغت نویسان کرام sight کا صحیح ترجمہ ’’بصارت‘‘ کرنے کے باوجود غلطی میں رہے۔ پھر O.E.D نے Invertberate جانوروں کی sight کو الگ سے بیان کیا ہے۔ Random House کے بڑے، یک جلدی لغت میں وضاحت کر دی گئی ہے کہEye وہ حصہ جسم ہے جس سے Vertebrate جان دار دیکھنے کا کام لیتے ہیں۔ ان تما م تفصیلات کے بغیر تعریف نامکمل رہتی ہے۔

    دوسری مثال لیجیے، ’’ بال۔‘‘ اس کی تعریف ان لغات میں یوں درج ہیں،

    آصفیہ، مو، شعر، رواں، رونگٹا، پشم کیس۔ سبحان اللہ! تعریف کے چکر ہی میں نہیں پڑے۔ ’’شعر‘‘ عربی میں بال کے معنی میں ہے، اردو میں شاید کسی نے برتا ہو، اور اگر لکھا بھی ہے تو بہرحال ’’بال‘‘ ہے بہت زیادہ نامانوس، لہٰذا طالب علم کے لیے فضول ہے۔ ’’رواں‘‘، ’’رونگٹا‘‘، ’’بال‘‘ ہر گز نہیں ہے۔ ’’پشم‘‘ بعض جانوروں کے بال اور انسان کے موے زہار کو کہتے ہیں۔ ’’بال‘‘ کے مرادف کے طور پر اس کو لکھنا سید احمد صاحب ہی کے بس کا روگ تھا۔ ’’کیس‘‘ اردو میں مستعمل ہی نہیں۔ اب لے دے کر ایک ’’مو‘‘ رہ گیا۔ جو مجرد’’بال‘‘ کے معنی میں نہیں آتا، ہمیشہ مرکب آتا ہے، اس سے تو اچھا تھا کہ ’’بال‘‘ بیچارے کو مونڈ دیتے، اندراج ہی نہ کرتے۔

    نور، مو، رواں، رونگٹا۔ ظاہر ہے کہ جو باتیں ’’آصفیہ‘‘ کے بارے میں کہی گئی ہیں وہی یہاں بھی وارد ہوں گی، اس شکر گزاری کے ساتھ کہ ’’شعر‘‘، ’’پشم‘‘ اور’’کیس‘‘ کو ترک کر دیا۔

    لغت، رواں، رونگٹا، مو، پشم، ریشہ (حیوانات، نباتات کے جسم کا۔) اس کو بھی ’’آصفیہ‘‘ اور ’’نور‘‘ پر قیاس کر لیجیے۔ کسی بھی لغت سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ وہ لمبی لمبی سی باریک چیز جو انسانوں اور جانوروں کے جسم پر اگتی ہے، ’’بال‘‘ کہلاتی ہے۔ تینوں میں سے کسی نے واضح نہیں کیا کہ ’’رواں‘‘ اور ’’بال‘‘ کس طرح مرادف ہیں؟  ’’رونگٹے کھڑے ہو جانا‘‘ کی جگہ’’روئیں یا بال کھڑے ہو جانا ‘‘کہاں کی اردو ہے؟’’ رواں رواں دعا دیتا ہے ‘‘کی جگہ’’ بال بال دعادیتاہے ‘‘کس نے لکھا ہے؟’’ بال بال قرض میں بندھا ہے ‘‘کی جگہ’’رونگٹا رونگٹا قرض میں بندھا ہے‘‘ کہاں کی بولی ہے؟ قربان جائیے اس لغت نگاری کے۔

    اب ایک بات تاریخی اصول کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ’’آصفیہ‘‘ اور ’’نور‘‘ نے یہ جھگڑا ہی نہیں رکھا ہے۔ اس لیے صرف ’’لغت‘‘ پر اظہار خیال کروں گا۔ اس بات سے قطع نظر کہ اردو میں تاریخوں کااس قدر فقدان ہے اور جو تاریخیں ہیں بھی، ان کے تعین میں اس قدر جھگڑا ہے کہ تاریخی اعتبار سے الفاظ کے معنی یا ان کے استعمال کے ارتقا کا بیان کرنے کی کوشش بڑی حد تک ناکام ہی ہوگی۔ ضروری بات یہ ہے کہ اگر تاریخی اصول کو برتنے کا دعویٰ ہی ہے تو کم سے کم اس کو ممکن حد تک تو برتناتھا۔ ارباب ’’لغت‘‘ فرماتے ہیں،

    ’’مثال درج کرتے وقت یہ بھی ضروری تھا کہ سنہ تصنیف یا مصنف کا سنہ وفات درج کیا جائے۔ چنانچہ طے پایا کہ سنہ تصنیف اور مصنف کے سنہ وفات میں سے جو قدیم تر ہوا سے درج کر دیا جائے۔ بہرحال ان کا دریافت کرنا بھی ایک علمی تحقیقی اور خاصا طویل کام تھا جسے بورڈ نے پوری کاوش سے انجام دیا ہے۔‘‘ 

    اصول بالکل صحیح، لیکن اس کو برتنے میں اتنی لاپروائی برتی گئی ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ لاپروائی ہی صاحبان ’’لغت‘‘ کا اصول تھا۔ اور جہاں تک سنین کے دریافت کرنے میں ’’پوری کاوش‘‘ کا معاملہ ہے، تو ’’لغت‘‘ دیکھ کر تمنا ہوتی ہے کہ کاش ارباب ’’لغت‘‘ نے پوری نہ سہی، صرف چوتھائی یا محض سرسری کاوش سے تو کام لیا ہوتا۔ موجودہ صورت میں سنین کے اندراجات اغلاط کی پوٹ سے زیادہ نہیں ہیں۔ ان میں دونوں طرح کے اغلاط ہیں۔

     یعنی تصنیف کا سنہ معلوم ہونے یا بہ آسانی معلوم ہو سکنے کے باوجود مصنف کا سنہ وفات دے کر لفظ کی قدامت کم کر دی گئی یا سنہ ہی غلط دے دیا گیا۔ قاضی عبدالودود نے ’’آصفیہ‘‘ کے تاریخی اغلاط پر ایک مبسوط مضمون حال ہی میں لکھا ہے۔ ’’لغت‘‘ کے تاریخی اغلاط پر تو ایک پوری کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے کہ ارباب ’’لغت‘‘ نے اس معمولی کاوش سے بھی کام نہ لیا، جو مجھ جیسے طالب علم بھی انجام دے سکتے ہیں، کجا کہ ’’پوری کاوش‘‘ جس کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو،

    ابراہیم، سند میں ’’خضر راہ‘‘ کا شعر نقل کرکے ’’بانگ درا‘‘ کی تاریخ اشاعت (۱۹۲۴) نقل کی ہے، جب کہ سب کو معلوم ہے کہ ’’خضر راہ‘‘ کا سنہ تصنیف ۱۹۲۱ ہے۔

    ابنائے زماں، سند میں غالب کا شعر نقل کرکے ۱۸۶۹ لکھا ہے، جب کہ یہ شعر نسخہ حمیدیہ (کتابت ۱۸۲۱) میں شامل ہے۔

    آنڈو، غالب کے خط کا جملہ نقل کرکے تاریخ وہی ۱۸۶۹ لکھی ہے۔ خط قدر بلگرامی کے نام ہے اور ۱۸۵۷ کے پہلے کا ہے۔

    آگ، میر کا شعر نقل کرکے تاریخ ۱۸۱۰ لکھی ہے۔ یہ شعر دیوان اول کے اس مخطوطے میں ہے جس کی تاریخ ۱۲۰۳ھ مطابق ۱۷۸۸ء ہے۔ دیوان اول ۱۷۸۸ کے پہلے مرتب ہو چکا تھا، لیکن قدیم ترین دستیاب نسخہ ۱۷۸۸ کا ہے، عرصہ ہوا چھپ چکا ہے۔

    بادۂ دوشینہ، غالب کا شعر نقل کرکے حسب معمول ۱۸۶۹ ٹھونک دیا ہے۔ یہ شعر نبی بخش حقیر کے نام خط میں موجود ہے، جو ۱۸۵۱ کا لکھا ہوا ہے۔

    بازار میں بٹھانا، مثال’’طلسم ہوش رہا‘‘ سے دے کر تاریخ ۱۸۹۲ لکھی ہے، لیکن ’’بازارن‘‘ کے ذیل میں کسی’’انتخاب طلسم ہوش رہا‘‘ کاحوالہ دے کر تاریخ ۱۸۸۸ لکھی ہے۔

    باس کرنا، میر کا شعر لکھ کر تاریخ وہی ۱۸۱۰ درج کی ہے۔ یہ شعر بھی دیوان اول کا ہے اور ۱۷۸۸ کے مخطوطے میں موجود ہے۔ (دیوان اول کی تکمیل ۱۷۵۰ کے آس پاس کی ہے، لیکن ۱۷۸۸ کا مخطوطہ اس کا اولین دستیاب مخطوط ہے۔) 

    الٰہی کارخانے ہیں، ’’نور اللغات‘‘ (جلد اول صفحہ ۳۹۹) کا حوالہ دے کر تاریخ ۱۹۲۴ درج کی ہے۔ لیکن ’’الزام ملنا‘‘ میں ’’نور اللغات‘‘ (جلد اول صفحہ ۳۸۲) لکھ کر تاریخ ۱۹۳۴ لکھی ہے۔ جو نسخہ میرے زیر نظر ہے، اس پر تاریخ نومبر ۱۹۲۴ چھپی ہوئی ہے۔

    ابرو پھڑکنا، سودا کا شعر نقل کیا ہے،

    کہتے ہیں لوگ یار کا ابرو پھڑک گیا
    تیغا سا کچھ نظر میں ہماری سڑک گیا

    ’’کلیات سودا‘‘ جلد اول مرتبہ اکبرالدین صدیقی (لاہور۱۹۷۳) میں یہ شعر یوں ملتا ہے،

    کہتے ہیں لوگ یار کا ابرو دھڑک گیا
    تیغا سا کچھ ہماری نظر میں کھڑک گیا
     (صفحہ ۵۸۷)

    اکبرالدین صدیقی کا خیال ہے کہ اس شعر کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ سودا ہی کا ہے۔ شعر سودا کا ہو یا نہ ہو، لیکن اکبرالدین صدیقی نے جو متن درج کیا ہے، اس کے اعتبار سے ارباب ’’لغت‘‘ کا محاورہ اور سند دونوں غارت ہو گئے۔

    افغان، سند میں مصحفی کا شعر دے کر تاریخ ۱۸۲۴ درج کی ہے جو مصحفی کی تاریخ وفات ہے۔ شعر دیوان اول میں موجود ہے جو ۱۷۵۸ تک مکمل ہو چکا تھا۔

    ارہ زبان، حوالہ’’وضع اصطلاحات‘‘ کا دیا ہے، لیکن تاریخ (۱۹۲۱) نہیں لکھی۔

    اعضا، اقبال کا شعر نقل کرکے ’’بانگ درا‘‘ کا حوالہ دیا ہے۔ تاریخ ۱۹۲۴ لکھی ہے۔ شعر ’’خضر راہ‘‘ میں ہے جس کی تاریخ ۱۹۲۱ ہے۔

    اعصاب پر سوار ہونا، ’’ضرب کلیم‘‘ کا حوالہ دیا ہے۔ تاریخ ۱۹۳۶ کے بجائے ۱۹۲۶ لکھی ہے۔

    آ، امیر خسرو سے منسوب ایک شعر نقل کیا ہے۔ وہ بھی’’فرہنگ آصفیہ‘‘ کے حوالے سے۔ سب جانتے ہیں کہ سوائے ان چند مختصر عبارتوں کے جو امیر موصوف کے فارسی کلام میں ملتی ہیں ان کا کوئی ہندوی کلام مستند نہیں۔ آ بڑے باپ کی بیٹی ہے تو

    پنجہ کر لے ، ’’نجم الامثال‘‘ کا حوالہ دیا ہے لیکن تاریخ نہیں درج کی ہے۔ یہ بھی نہیں بتایا کہ ’’پنجہ کرنا‘‘ محاورہ ہے جس کے معنی ہیں ’’مقابلہ کرنا۔‘‘ 

    ابرک کی ٹٹی، سند میں مثنوی میر حسن کا شعر لکھ کر تاریخ ۱۷۸۷ لکھی ہے (جو مشکوک ہے) لیکن ’’آن کے‘‘ تحت اسی مثنوی کا شعر نقل کیا ہے اور تاریخ ۱۷۸۴ لکھی ہے۔

    بابو، پریم چند کی’’پریم چالیسی‘‘ کا حوالہ دے کر تاریخ ۱۹۳۶ لکھی ہے، جو پریم چند کی تاریخ وفات ہے۔ کتاب کی تاریخ اشاعت (۱۹۳۰) درج کرنا تھی۔

    باہر ہی باہر، یہاں ’’پریم پچیسی‘‘ کا حوالہ ہے، تاریخ وہی ۱۹۳۶ ہے۔ کتاب کی تاریخ اشاعت (۱۹۳۵) آسانی سے دستیاب ہے۔ اس کے بہت سے افسانے ’’بیتسی‘‘ اور’’چالیسی‘‘ میں شامل ہیں۔ یہ بھی تحقیق کرنا تھی کہ جس افسانے کا حوالہ دیا جا رہا ہے وہ۱۹۳۵ کے پہلے کا تو نہیں ہے۔

    بریان، میر کا شعر نقل کرکے کسی کلیات کے صفحہ ۹۳۵ کا حوالہ دیاہے۔ تاریخ حسب معمول وہی ۱۸۱۰ ہے۔ شعر’’دریائے عشق‘‘ میں ہے، جو میر کے لکھنؤ وارد ہونے (۱۷۸۲) سے پہلے لکھی جا چکی تھی۔

    بلبل شیراز، اقبال کا شعر نقل کرکے کسی کلیات کے صفحہ ۸۹ کا حوالہ دیا ہے اور تاریخ ۱۹۰۵ لکھی ہے! اقبال کا خدا معلوم کون سا کلیات ۱۹۰۵ میں شائع ہوا تھا۔ شعر دراصل ’’مرثیۂ داغ‘‘ کا ہے اور حوالہ کلیات کے صدی ایڈیشن کے صفحہ ۸۹ کا۔ غلط مبحث اسی کو کہتے ہیں۔

    ادنی، پریم چند کی’’گئو دان‘‘ کا حوالہ دے کر تاریخ ۱۹۳۵ لکھی ہے جب کہ’’گئو دان‘‘ اردو میں ۱۹۳۹ میں چھپی۔

    اخلاص، ذوق کے مشہور سہرے کا شعر نقل کرکے تاریخ ۱۸۶۴ لکھی ہے جو غالباً ۱۸۵۴ (تاریخ وفات) کی جگہ طباعت کی غلطی ہے۔ لیکن غالب والے سہرے اور اس سہرے کی تاریخ ایک ہی ہے یعنی ۱۸۵۱۔ یہاں ۱۸۵۴ کی جگہ ۱۸۵۱ چاہیے تھا۔

    یہ مثالیں مشتے نمونہ از خروارے کا حکم رکھتی ہیں۔ ’’لغت‘‘ کے اور پہلو بڑی حدتک قابل استناد ہو سکتے ہیں، لیکن اس کی تاریخیں سخت مخدوش ہیں۔ پھر مختلف تاریخوں سے مثالیں نقل کرنے کا فائدہ تب تھا، جب لفظ کے معنی میں وسعت یا تغیر ثابت کیا جاتا۔ موجودہ صورت میں تو اکثر الجھن پیدا ہوتی ہے۔ مذکر؍مونث کے باب میں یہ جھگڑا اور پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ ’’التفات‘‘ کی مثال اوپر درج کر چکا ہوں۔ یہی حال ’’ایجاد‘‘ کا ہے۔ یہ لفظ اب بالاتفاق مونث ہے۔ ’’لغت‘‘ نے مذکر، مونث دونوں درج کیا ہے۔ لیکن افراط وتفریط کا یہ عالم ہے کہ ۱۷۳۹، ۱۸۶۵، ۱۷۳۲، ۱۸۷۴ ان تاریخوں کے اسناد بالترتیب درج کیے ہیں، لیکن ان سے مذکر، مونث کچھ نہیں کھلتا۔ ۱۹۴۰ کی سند اس کے بعد آتی ہے۔ اس سے مونث معلوم ہوتا ہے۔ اس کے بعد۱۷۸۰ اور ۱۸۶۹ کی مثالیں ہیں جو اس لفظ کو مذکر ثابت کرتی ہیں۔ بعد ۱۹۰۳، ۱۸۷۴ اور ۱۹۲۲ کی مثالیں ہیں جن سے کچھ نہیں معلوم ہوتا کہ یہ لفظ مذکر ہے یا مونث۔

    ’’بلبل‘‘ کی جو تعریف صاحبان ’’لغت‘‘ نے بیان کی ہے وہ حد درجہ مضحکہ خیز بلکہ مہمل ہے۔ لیکن ستم بالائے ستم یہ کیا ہے کہ اس کی بھی تذکیر وتانیث کا جھگڑا فیصل کیے بغیر چھوڑ دیا ہے، اس کو مذکر، مونث دونوں لکھا ہے، لیکن ۱۵۰۳ کی مثال اسے مونث کرتی ہے ۱۷۰۷ اور ۱۸۳۶ کی مثال سے یہ مذکر معلوم ہوتا ہے۔ ۱۹۴۲ کی مثال سے کچھ ظاہر نہیں ہوتا۔ یہ لفظ بھی اب بالاتفاق مونث ہے، لیکن طالب علم کو اس کی تانیث کی کوئی جدید مثال فراہم نہ کرکے بڑی بے انصافی کی ہے۔

    اس خامہ فرسائی سے اور کچھ ثابت ہواہو یا نہ ہواہو لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ بزرگوں نے اگر ’’ہرکارے وہر مردے‘‘ صحیح کہا ہے تو ابھی ہمیں اس مرد غیب کا انتظار کرنا چاہیے جو اردو لغت کا کارے بکند۔ اس وقت تک کے تو تمام لغات نقص فکر اور نقض عمل کا نمونہ ہیں۔

    حاشیہ
    ۱۔ صاحب ’’آصفیہ‘‘ کے قول وفعل میں جگہ جگہ تضاد بھی ہے۔ انہوں نے بہت کم الفاظ ایسے چھوڑے ہیں جنہیں فحش یا مغلظات کہا جا سکے۔ اسی طرح قاموسیت کا دعویٰ کرنے کے باوجود انہوں نے ’میثم طمار‘ جیسے مشہور ناموں کا ذکر نہیں کیا ہے۔ انہوں نے ’’اسکالر شپ‘‘ جیسا غریب اور غیراردو لفظ تو لیا ہے، لیکن شہر ’’اسکندریہ‘‘ کو بھول گئے ہیں۔

    مأخذ:

    تنقیدی افکار (Pg. 184)

    • مصنف: شمس الرحمن فاروقی
      • ناشر: ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2004

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے