Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو ناول کا ادبی پس منظر

ناز قادری

اردو ناول کا ادبی پس منظر

ناز قادری

MORE BYناز قادری

    قصہ گوئی سے انسان کی دلچسپی ایک جبلی تقاضا ہے۔ کوئی قوم و جماعت اور عہد و تہذیب ایسی نہیں جس میں کسی نہ کسی شکل میں قصہ گوئی کا سراغ نہ ملتا ہو۔ انسان جیسے جیسے تہذیب و تمدن سے ہم کنار ہوا اور عروج و ارتقا کی منزلیں طے کرتا رہا ویسے ویسے قصہ کہانی کا انداز اور معیار بدلتا گیا۔ ابتدا میں یہ قصے کہانیاں زبانی کہی اور سنی جاتی تھیں لیکن تعلیم و ہنر کے جاگنے سے قید تحریر میں آنے لگیں۔ قصہ اور انسانی جبلت کے رشتے پر محققین و ناقدین فن نے اس کائناتی رائے سے خصوصیت کے ساتھ اتفاق کیا ہے۔ احتشام حسین لکھتے ہیں:

    ”کہا جاتا ہے اور بات سمجھ میں بھی آتی ہے کہ کہانیوں کا وجود اُس وقت سے ہے جب سے انسان نے سماجی زندگی بسر کرنا شروع کیا ہے یا شاید اتنا ہی کہنا کافی ہو کہ کہانیاں اس وقت سے پائی جاتی ہیں جب سے انسان ہے کیوں کہ انسان کا تصور سماجی زندگی کے بغیر کیا ہی نہیں جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کہانیوں کی پیدائش اور ارتقا کی حیثیت سماجی ہے۔ کہانیوں کے سلسلے میں کہانی کہنے والے اور سننے والے‘ لکھنے اور پڑھنے والے کا وجود لازمی ہے۔ یہ بات اس کی سماجی حیثیت کو متعین کرتی ہے۔“

    احتشام حسین کا یہ خیال حقیقت پر مبنی ہے اور اس سے اختلاف کی گنجائش بھی نظر نہیں آتی۔ انسان کی ابتدا سے لے کر ارتقا تک افسانہ و افسوں کا سلسلہ پھیلا دکھائی دیتا ہے۔ فلسفیانہ نقطہ ¿ نظر ہو کہ مذہبی انداز فکر یا سائنسی زاویہ ¿ نگاہ‘ سب کے سب اس کائنات میں انسان کی ابتدا کے متعلق کچھ ایسے ہی نظریات پیش کرتے ہیں جو کسی نہ کسی طرح قصہ کے زمرہ میں آتے ہیں۔ آدم و حوّا کی تخلیق ہو یا ڈارون کا انکشاف سب اتفاق و حادثہ کی باتیں ہیں۔ بہر کیف‘ ان نظریات کے افسانوی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ احتشام حسین نے بڑی سچی بات کہی ہے کہ کہانی سماجی حیثیت رکھتی ہے اور جب سے انسانی سماج کا سراغ ملتا ہے تب سے قصوں اور کہانیوں کے وجود کا پتہ بھی چلتا ہے۔ عمرانیات کے محققین و ماہرین اس نظریہ پر متفق ہیں۔ نفسیاتی تحلیل و تجزیہ سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسانی ذہن قصے اور کہانیوں سے دلچسپی لینے میں فطری طور پر مجبور ہے۔

    قصے کہانی کی بنیاد حیرت‘ خوف‘ مسرت اور کشمکش پر ہوتی ہے اور یہ ساری کیفیات ذہنِ انسانی سے وابستہ ہیں یعنی انسان کے نفسیاتی عوامل ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب قصہ گوئی انسانی زندگی سے اتنے گہرے طور پر ہم آہنگ ہے تو کسی بھی سماج میں خواہ وہ پتھر کے عہد کا سماج ہی کیوں نہ ہو‘ اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ اس نظریہ کو کائناتی صداقت حاصل ہے۔ اسی لیے کہا گیا کہ قصہ اور کہانی انسانی جبلت کی ضرورت اور تکمیل ہے۔ اس ضمن میں کارل بیوش کے خیالات بھلائے نہیں جاسکتے۔ رقص و موسیقی اور دیگر فنونِ لطیفہ کے ساتھ ساتھ اس نے قصہ گوئی کے فروغ پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ کارل بیوش کا کہنا ہے کہ پیداواری رشتوں (Productive Relations) کے ساتھ ساتھ کہانی کا فن بھی بدلتا گیا۔

    ادب اور زندگی کے روابط و تعلقات پر خاصی بحثیں ہوچکی ہیں۔ دنیا کی بڑی زبان اور بڑے ادب کے تخلیقی اور تنقیدی ماہرین نے ادب اور زندگی کو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم قرار دیا ہے۔ انہوں نے اس رائے سے بھی اتفاق کیا ہے کہ ہر ادب اپنے زمانے کی تہذیبی و ثقافتی‘ معاشی و اقتصادی‘ سیاسی اور سماجی زندگی کا آئینہ دار ہوتا ہے اور نقاد بھی۔ میتھو آرنلڈ نے پیمبرانہ صداقت کے ساتھ کہا ہے: ART IS THE CRITICISM OF LIFE IN AESTHETIC SENSE یہ اتنا جامع اور مانع تبصرہ ہے کہ اس سے اختلاف و انکار گویا ادبی کفر کی راہیں ہموار کرتا ہے۔ ادب‘ زندگی سے جتنا بھی آفاقی طور پر وابستہ ہو‘ اس کی سب سے صحیح تعریف یہی ہے کہ یہ جمالیاتی سطح پر زندگی کی تنقید پیش کرتا ہے۔ اس بات کی وضاحت کی ضرورت نہیں کہ زندگی ارتقا کا ایک سلسلہ ہے‘ بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ ساتھ تہذیبی اقدار و معیار بدل جاتے ہیں اور زندگی کے ساتھ ساتھ ادب بھی ارتقا کی راہ پر گامزن ہے۔ ظاہر ہے کہ جمالیاتی تصورات و نظریات بھی ارتقائی عمل اور رد عمل سے گزرتے ہیں اس لیے کہ یہی وہ رشتہ ¿ نازک ہے جو ادب اور زندگی کے درمیان انسلاک رکھتا ہے۔ جس عہد کی سماجی زندگی جیسی ہوگی اسی مناسبت سے اس عہد کے جمالیاتی تصورات و نظریات ہوں گے اور اسی طرح کی فنی تخلیقات بھی معرض وجود میں آئیں گی۔اس سلسلے میں ہاورڈ فاسٹ کی شہرہ آفاق کتاب LITERATURE AND REALITY کو دیکھنا چاہئے ۔ سماجی حقیقت نگاری کی بات چھڑنے پر یہ نکتہ ملحوظ رہنا چاہئے کہ سماجی حقیقت کوئی جامد چیز نہیں۔ روس میں جب ٹالسٹائی پر عینیت پسندی کا الزام لگایا جارہا تھا‘ لینن انہیں انقلاب کا ترجمان ثابت کر رہے تھے کیوں کہ ٹالسٹائی کا فن اپنے عہد کے تاریخی اور مادی تقاضوں کو اپنی حدود میں رہ کر برت رہا تھا۔ پریم چند کی ترقی پسندی بھی ہندوستان کے پس منظر میں ٹالسٹائی کی روایات کو دہراتی ہے۔ اس بارے میں احتشام حسین کا مضمون ”پریم چند کی ترقی پسندی“ مشعل راہ کا درجہ رکھتا ہے۔

    بہر کیف! اس وضاحت کے بعد کہ ہر عہد کا اپنا نمائندہ جمالیاتی تصور ہوتا ہے جس کی ترجمانی اس عہد کے تخلیقی ادب سے ہوتی ہے‘ یہ بات از خود سامنے آجاتی ہے کہ اردو زبان و ادب کے ہر دور میں قصہ کہانیوں سے دلچسی لی جاتی رہی ہے۔ ناول نگاری سے بہت پہلے اردو زبان میں قصہ اور کہانی کی ادبی ہیئتیں موجود ہیں جن میں مقبول ترین صنف نثر میں داستان اور نظم میں داستانی مثنویاں ہیں۔ داستانوں کے علاوہ تمثیل‘ ڈرامے اور چھوٹے چھوٹے مذہبی قصے بھی ناول کے قبل ملتے ہیں لیکن ناول سے پہلے جس صنفِ ادب نے اُس عہد کی سماجی زندگی کو کہانی اور قصہ گوئی کے دائروں میں اسیر کیا وہ داستان ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ناول داستان کی ارتقائی صورت ہے تو شاید غلط نہ ہو اس لیے کہ داستان اور ناول کے فنی تقاضوں میں بڑی مماثلت ملتی ہے۔ بعض نقاد فن تو یہاں تک کہتے ہیںکہ ملا وجہی کی داستان سب رس“ میں بھی ناولی انداز ملتا ہے جو قرینِ گمان معلوم ہوتا ہے ۔ اس جہت سے ”سب رس“ ہی نہیں اردو کی تمام منثور و منظوم داستانیں فنِ ناول نگاری کے پس منظر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی ناول کی بنیاد Tales مانی جاتی ہے۔ انگریزی ناقدین کو بھی اس سلسلہ میں کوئی اختلاف نہیں۔

    اردو ادب میں قصے کی ابتدا کا مسئلہ کچھ عجیب سا ہے۔ میرا خیال ہے کہ دنیا کی مشہور زبانوں کا المیہ یا طربیہ یہ ہے کہ قصے کی بنیاد زبان کی ابتدا سے بہت پہلے پڑ چکی تھی یعنی قصے کی ابتدا کا مسئلہ تو خلقِ انسان کے مسئلے سے وابستہ ہے اور اس لحاظ سے عصرِ حاضر کی موجودہ زبانوں کی عمر بہت کم ہے۔ آدم و حوّا کی روایت اور جرم نا فرمانی کی سزا میں انسانوں کی بے آبروئی کی کہانی اردو زبان کی پیدائش کے بہت پہلے مکمل ہوچکی تھی اور یہی حال دوسری زبانوں کا بھی ہے۔ اس بحث کی روشنی میں اس حقیت کا اعتراف کر لینا چاہئے کہ اردو میں قصہ کی ابتدا اسی وقت ہوئی جب اس کی لسانی حیثیت متعین ہوگئی۔ اس کے ثبوت میں صوفیائے کرام کے ملفوظات اور اردو کی ابتدائی منظوم مثنویاں جو تبلیغ و ترویجِ مذہبی کے لیے قلم بند کی گئیں، پیش کی جاسکتی ہیں۔ حضرت شیخ فرید الدین شکر گنج ؒ کی منظوم مثنویوں کو لسانی اہمیت ضرور حاصل ہے۔ حضرت بابا شیخ فرید الدین شکر گنج متوفٰی ۴۶۶ہجری کی مختصر مثنویوں کے علاوہ اردو کی قدیم ترین طویل مثنوی ”کدم راو پدم راو ہے جو نویں صدی ہجری میں لکھی گئی ہے جیسا کہ نصیر الدین ہاشمی نے اپنی کتاب دکن میں اردو“ میں درج کیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو میں ناول نگاری کے بہت پہلے قصہ گوئی کی ایک باضابطہ صنف موجود تھی جو داستان کے نام سے موسوم رہی۔

    یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قصہ اور کہانی سماجی تخلیق ہے۔ اس بنیاد پر اس حقیقت کا اعتراف کر لینا چاہئے کہ داستان کی صنف اپنے عصری پس منظر میں قصہ گوئی کے جمالیاتی تقاضوں کی تکمیل کر رہی تھی۔ میتھو آرنلڈ کے پیش کردہ قول کے مطابق ادب جمالیاتی سطح پر زندگی کی تنقید پیش کرتا ہے‘ یہ نتیجہ منطقی اور فطری طور پر سامنے آتا ہے کہ داستان کی صنف اپنے عصری پس منظر کی آئینہ دار‘ ترجمان اور نقاد تھی یعنی وہ اپنے عصری سماج میں قصہ گوئی کی ضرورتوں کی باضابطہ طور پر تکمیل کرتی تھی۔ اس عہد کی سماجی زندگی کے مزاج رجحان اور میلان کی حرف بہ حرف اور پہلو بہ پہلو ترجمانی کے لیے داستان کی صنف فنی پختگی رکھتی تھی۔ عصرِ حاضر کے ناقدین ادب نے داستان کی صنفی حیثیت میں بہت سی خامیاں تلاش کیں لیکن یہ حضرات اس حقیقت کو فراموش کر گئے کہ ادب صرف معنوی طور پر زندگی سے متعلق نہیں ہوتا بلکہ ہیئتی سطح پر بھی زندگی سے متعلق ہوتا ہے یعنی سماجی نظام کی نوعیت صنف کی ہیئت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ہر تکنیک اپنی تھیم (Theme) کے اعتبار سے کروٹیں بدلتی ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت داستانی عہد کے سماجی نظام اور فنِ داستان کی خصوصیت کو سامنے رکھ کر پیش کیا جاسکتا ہے۔

    ہندوستان میں سامراجی نظام کی بنیاد پڑنے سے قبل جاگیر دارانہ نظام کار فرما تھا۔ ان دنوں طبقاتی نظام زندگی انتہائی درجہ ناگفتہ بہہ رہی۔ حکمراں طبقے کو زندگی کی ساری نعمتیں حاصل تھیں‘ محکوم طبقہ سماج میں صفر کی حیثیت رکھتا تھا۔ ریاضیات ہی کی طرح زندگی کے اعداد و شمار کی بنیاد بھی صفر ہی ہے۔ ہر دور میں کوئی نہ کوئی طبقہ سماج کی اس بنیاد کا کام کرتا ہے ۔ جاگیر دارانہ دور میں محکوم طبقے نے زندگی کی صلیب ڈھوئی تھی اور سامراجی نظام میں مزدوروں کو زینت فراز دار ہونا پڑا ۔ بہر کیف حاکم و محکوم کی عملی اور سماجی زندگی کے ساتھ ساتھ داستان کے پلاٹ کو بھی ملحوظ نظر رکھنا چاہئے۔ ان پلاٹوں میں عام طور پر کوئی شاہزادہ ہیرو ہے اور کوئی شاہزادی ہیروئن جس کی تلاش میں ہیرو نکلتا ہے اور اس کا تصادم یا تو جن دیو اور ساحر و ساحرہ سے ہوتا ہے یا پھر کسی دوسرے ملک کے حکمراں سے۔ ہیرو آخر میں کامیاب و کامران لوٹتا ہے‘ المیہ کا سوال نہیں۔ اسے محض شعری انصاف (Poetic Justice) نہیں کہا جاسکتا بلکہ ترجمانیِ حقیقت تسلیم کرنا چاہئے۔ حکمراں طبقہ جاگیردارانہ نظام میں المیہ کردار نہیں بنتا اس لیے کہ حکمراں وہی ہوگا جو فاتح ہوگا۔ یہ ساری باتیں تخئیلی اور تصوراتی نہیں ہیں‘ اس عہد کا سماج ہی ایسا تھا۔شاہزادے کا انفرادی مسئلہ اُس عہد کا قومی مسئلہ تھا۔ اُس عہد میں ہم جن دیو اور ساحر و ساحرہ پر اعتقاد و یقین رکھتے تھے اور جنگ بھی ذاتی سطح پر ہوتی تھی یعنی رزم آرائی دو شاہزادوں کے درمیان۔اس لیے اردو داستانوں میں بھی یہی نظام‘ یہی تنظیم اور یہی سانچہ ملتا ہے۔ وہ عہد سماجی کشمکش کے جدید تقاضوں سے واقف نہیں تھا‘ زندگی سست رو تھی‘ مقصد و منزل مخصوص اور زاویہ نظر محدود تھا۔ داستان کی ہیئت میں آج کے ناقدین ادب کو یہ کمی تو ضرور ملتی ہے لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ کمی اس عہد کے سماجی نظام کی ہے ۔ جب سے سامراجی نظام سامنے آیا اور سماجی کش مکش کی ابتدا ہوئی تو داستان اور ناول کے درمیان فنی مصالحت کی ایک صورت نظر آئی۔ ریکس وارنر سے لے کر رالف فاکس تک سب اس بات پر متفق ہیں کہ ناول کا فن سرمایہ دارانہ نظام کی انتہائی منزل کی پیداوار ہے ۔ لینن کی نگاہ میں یہ انتہائی منزل سامراجیت کے علاوہ کچھ نہیں اور ڈپٹی نذیر احمد کی کہانیاں فنی سطح پر ناول کے معیار پر نہیں پہنچتیں لیکن جنہیں داستان کا اگلا قدم تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس عہد میں سماجی جنگ ذاتی سطح پر نہیں اجتماعی سطح پر لڑی جانے لگی یعنی کار زارِ حیات میں دو شاہزادوں میں تصادم کی جگہ دو قومی اور ملی رزم آرائی کی بنیاد پڑی۔ یعنی محکوم طبقہ حکمراں طبقے سے بہت نچلی سطح پر مبارزت طلب ہوا اور سماج کی اوپری سطح پر دو تین طبقے‘ فرقے اور گروہ ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے۔ اس لیے اب ہیرو ایک سماجی کردار ہے یعنی اپنی انفرادی شخصیت کے پیچھے اجتماعی احساسات رکھتا ہے اور اس طرح نصوح‘ اور کلیم‘ کی جنگ صرف دو باپ بیٹے کی جنگ نہیں بلکہ اس عہد کی دو نسلوں کا ٹکراو ہے اور اس طرح محدود پیمانے پر یہ اپنے عصر کی سماجی کشمکش کا آئینہ دار ہے۔

    نظامی کی مثنوی ”کدم راو پدم راو اردو کی پہلی داستان ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ منظوم ہے لیکن اس سے اُس کی داستانی حیثیت میں کمی نہیں آتی۔ نثری داستانوں میں صوفیائے کرام کے چھوٹے چھوٹے مذہبی قصے‘ داستان کی دنیا میں خشت اول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ کو اردو نثر کی ابتدا میں سنگِ میل کا درجہ حاصل ہے۔ ان کے عہد میں داستانوں کا سراغ اردو میں ملتا ہے لیکن اردو کی سب سے پہلی نثری داستان جس کو ادبی و فنی اہمیت حاصل ہے‘ ملا وجہی کی ”سب رس“ ہے۔ ”سب رس“ کا سنہِ تصنیف ۰۴۰۱ ہجری ہے۔ مثنوی کی فنی اور جمالیاتی قدروں کی تعیین اسی داستان کی رہین منت ہے۔ فن داستان گوئی کے جو اصول مرتب کئے گئے ان پر یہ داستان مجموعی طور پر پوری نہیں اُترتی اور بعض اہم فنی خامیوں اور کمی کی شکار ہے۔ اس کے باوجود اس داستان کو اردو کی پہلی ادبی و فنی داستان کی حیثیت حاصل ہے اور اس کے مصنف ملا وجہی کو ایک صاحبِ طرز نثر نگار کا مرتبہ دیا جاتا ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ سب رس“ کا قصہ ملاوجہی کی اپنی ذہنی اُپج نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اردو نثر کا اتنا جامع اور مانع اسلوب پہلے سامنے نہیں آیا تھا۔

    دکن کے بعد اردو داستان کا اہم مرکز فورٹ ولیم کالج بنا۔ فورٹ ولیم کالج کا عہد حقیقتاً داستانوں کا عہد ہے ۔ اس دور میں بے شمار بلندو پست منظوم و منثور داستانیں معرض تصنیف میں آئیں۔ فورٹ ولیم کالج کے عہد میں لکھی گئی داستانوں میں میر شیر علی افسوس مظہر علی خاں ولا، خلیل خاں اشک ، حیدر بخش حیدری، مرزا کاظم علی جوان اور نہال چند کی داستانیں مشہور و معروف ہیں۔ لیکن ان تمام داستان نگاروں میں میرامن کو سالارِ قافلہ کی حیثیت حاصل ہے ۔ میرامن کی داستان باغ و بہار“ جس کا سال تصنیف 2۔1810 عیسوی ہے اردو میں داستانوں کی سب سے اہم نمائندہ ہے اور داستان کے فنی تقاضوں پر بڑی حد تک مکمل اُترتی ہے۔ اس عہد میں داستانوں کے فنی اصول و اقدار کی تنظیم و تعیین ہوچکی تھی۔ داستان گوئی کے فنی تقاضوں میں قصہ گوئی‘ دلچسپی کا عنصر‘ واقعہ طرازی‘ کردار سازی‘ فضا بندی‘ جذبات نگاری‘ منظر کشی‘ مکالمہ‘ اسلوب اور پلاٹ کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اردو کے مستند نقادوں نے جن میں کلیم الدین احمد کا نام سر فہرست ہے‘ داستان گوئی کے مذکورہ بالا فنی تقاضوں کی تکمیل کو ایک کامیاب داستان کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔

    مسئلہ یہ ہے کہ ناول کے فنی تقاضوں کے لیے بھی انہیں قدروں کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ یہ مسئلہ اُس وقت اور سنجیدگی اختیار کر لیتا ہے جب داستان اور ناول کے فنی تقاضوں کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ ناول میں زمان و مکان کو ایک فنی قدر کی حیثیت حاصل ہے مگر داستان کے فنی تقاضوں میں اس کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی۔ بعض ناقدین نے عذر لنگ کا سہارا لیا ہے لیکن اس رائے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ داستان میں زمان و مکان کو کم ہی سہی مگر اہمیت دی جاتی ہے اور ایک فنی قدر کی حیثیت سے اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس طرح اگر خارجی سطح پر سوچئے تو داستان اور ناول کے درمیان ایک واضح خطِ امتیاز کھینچنا کارِ مشکل نظر آتا ہے۔ یہ مسئلہ اب بھی نقادوں کی توجہ کا محتاج ہے۔

    اس رائے کے اظہار کے باوجود میرا خیال ہے کہ داستان اور ناول میں ایک واضح فنی تفریق و امتیاز موجود ہے۔ اس تفریق و امتیاز کی وضاحت کے لیے پہلا قدم یہ ہے کہ داستان اور ناول کے مزاج (Spirit) پر غور کیا جائے۔ انگریزی ناول کے مشہور ناقدین نے ناول کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ناول وہ قصہ ہے جو سماجی کش مکش کو پیش کرتا ہے اور یہ فن سماجی کش مکش کی دین ہے۔ یہ بات حقیقت سے بڑی حد تک قریب ہے اس لیے کہ ہر زبان کا ہر اہم ناول اپنے عہد کی سماجی اور طبقاتی کشمکش کا آئینہ دار ہوتا ہے اور ہے‘ اور یہ فرق مختلف عہد میں لکھے ہوئے ناول کے مزاج (Spirit) کو سامنے رکھنے سے واضح ہوجاتا ہے۔ اس قولِ فیصل میں اتنی ترمیم کردی جائے کہ ہر قصہ اپنے عہد کی سماجی کش مکش کا آئینہ دار ہوتا ہے‘ ناول وہ قصہ ہے جو عصر جدید کی سماجی و طبقاتی کش مکش کا ترجمان ہے تو قصے کے مزاج (Spirit) کے دونوں پہلو سامنے آجاتے ہیں۔

    داستان میں قصہ گوئی، فضا بندی، واقعہ طرازی، کردار سازی اور دوسرے فنی تقاضے مثلاً پلاٹ ، مزاج وغیرہ اپنے زمانے کے سماجی اور طبقاتی زندگی سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔ داستانی عہد کا سماج حاکم اور محکوم کے خانوں میں تقسیم تھا جس میں صرف حاکم ہی سماجی سطح پر زندہ رہتا تھا‘ محکوم کا سماجی وجود نہیں تھا اس لیے اس دور میں رزم آرائی دو شاہ زادوں کے درمیان نظر آتی ہے اور سماجی طبقاتی کش مکش کے فقدان کی بنا پر زندگی کے مقصد و منزل میں بھی سطحیت ملتی ہے۔ حاصل زندگی کسی شاہ زادی کا حصول ہے۔ اوہام باطلہ پر اعتقاد و ایقان ، طلسم و سحر، تعویذ اور اسم اعظم وغیرہ سے داستانوں کی فضا بندی ہوتی ہے اور شاہ زادے کا رقیب چوں کہ عام آدمی نہیں ہوسکتا اس لیے دیو، جن، جادو گر اس کے ویلن کی حیثیت سے لائے جاتے ہیں۔ در اصل اس عہد کا سماج بھی ایسا ہی تھا یعنی سادہ، سماجی کش مکش سے عاری، طبقاتی آویزش سے دور اور خوابیدہ۔ اس لیے اردو داستانوں میں بھی ایسا ہی سماج ہمیں ملتا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے کہ داستانیں اپنے عہد اور ہم عصر سماجی اور معاشی حالات کے آئینہ دار اور عکاس ہیں۔ اس روشنی میں ناول کی بہترین تعریف یہی ہے کہ ناول قصہ گوئی کی اس نثری صنف کا نام ہے جس میں عہد جدید کی سماجی اور طبقاتی کش مکش کو سنگ میل کی حیثیت ہے۔

    ناول کی مذکورہ بالا تعریف و توصیف کی روشنی میں اردو ناول کا آغاز ڈپٹی نذیراحمد کی اولین طبع زاد کہانی ”مراة العروس“ (مطبوعہ ۹۶۸۱ئ) سے ہوتا ہے۔ ان کی کہانیاں اپنے سماجی اور معاشرتی حالات کی بہترین ترجمانی کرتی ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ڈپٹی نذیر احمد کا سماجی پس منظر آویزش اور تصادم سے اچھی طرح آشنا ہوچکا تھا۔ سماج کی کئی سطحوں پر یہ تصادم، یہ آویزش اور یہ کش مکش چل رہی تھی۔ ڈپٹی نذیر احمد ہندوستان بالخصوص دلی کے متوسط مسلم گھرانے کے ترجمان تھے۔ سماج کا یہ طبقہ بھی کش مکش اور آویزش کا شکار تھا۔ اس کی زندہ، متحرک اور ڈرامائی تصویر ”توبتہ النصوح“ اور ابن الوقت“ میں موجود ہے۔ چوں کہ اس وقت کا سماج کش مکش کے دور سے گزر رہا تھا اس لیے ناول کی رفتار میں تیزی، واقعات میں تجربیت، کردار میں سماجی عکاسی ، اسلوب میں سادگی اور پلاٹ میں واقعیت پسندی ملتی ہے اور ان فنی تقاضوں کی یہی صفتیں ناول کے فن کو داستان گوئی کے فن سے ممیز کرتی ہیں اس لیے کہ داستانوں کے قصے اختراعی، واقعات غیر فطری، کردار مافوق الفطری ، فضا طلسمی، اسلوب بناوٹی اور پلاٹ تخئیلی ملتے ہیں۔ ملا وجہی کی داستان سب رس“ ، میر امن کی ”باغ و بہار“ اور رجب علی بیگ سرور کی فسانہ عجائب“ تینوں داستانوں میں خارجی سطح پر فنی تقاضوں میں بڑا فرق ہے لیکن تینوں داستانوں کے مزاج میں مماثلت و مطابقت ملتی ہے۔ داستان اور ناول میں یہی مزاج کا فرق اور روح کا اختلاف ملا وجہی، میر امن اور رجب علی بیگ سرور کی تخلیقات اور ڈپٹی نذیر احمد کی تصنیفات کے درمیان خط امتیاز کھینچتا ہے۔ چنانچہ ناول اور داستان کے فنی تقاضوں کا تجزیہ کرنے کے بعد ڈپٹی نذیر احمد کو اردو کا پہلا ناول نگار تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں ہے۔

    حاصل گفتگو یہ ہے کہ ناول کا فن داستان کے فن کا اگلا قدم ہے، یہ باہر سے نہیں آیا ہے۔ عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ اردومیں ناول انگریزی ادب کی دین ہے۔ یہ مجموعی حقیقت کا ایک جزوی پہلو ہے‘ حقیقت کل نہیں ہے۔ ہاں، انگریزی ادب کی قربت نے اس پودے کی آبیاری میں زبردست حصہ لیا ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد نے ناول نگاری کا فن باہر سے نہیں لیا بلکہ اپنے سماج کی قصہ گوئی کی روایت کو آگے بڑھانے کا فرض انجام دیا اور ناول کے سانچے کی بنیاد رکھی۔ یہ عمل تخلیقی شعور کی اس کیفیت کا نام ہے جو لاشعوری رد عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد کی ابتدائی تین کہانیوں میں انگریزی قصوں کے اثرات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اس سانچے کی آبیاری کے لیے انگریزی ادب سے استفادہ کی بنیاد رکھی جس سے یہ حقیقت روشن ہوتی ہے کہ اردو ناول نگاری انگریزی ناول کے زیر اثر اپنے عہد طفلی سے ہی پروان چڑھی ہے لیکن در اصل ناول کا فن اردو میں قصہ گوئی کی فطری نشو و نما کی تخلیق ہے اور یہ صنف فطری طور پر داستان کے فن کے بطن سے پیدا ہوئی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے