Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو زبان میں قصہ گوئی کی روایت

نسیم احمد نسیم

اردو زبان میں قصہ گوئی کی روایت

نسیم احمد نسیم

MORE BYنسیم احمد نسیم

    اردو میں قصہ گوئی کی روایت بہت ہی قدیم ہے۔ عہد قدیم میں قصے، حکایتوں اور داستانوں کے ذیلی و ضمنی واقعات پر مشتمل ہوتے تھے۔ بقول مصنف ”اردو کی نثری داستانیں‘‘ پروفیسر گیان چند جین پرانے قصوں کے چار اہم موضوعات تھے۔ جانوروں کی کہانیاں، سحر، جنس اور جنگ وجدال۔ لیکن مذہب و اخلاق بھی موضوعات رہے ہیں، جن کامصنف مذکور نے ذکر نہیں کیا ہے۔ ان قصے کہانیوں پر بجا طو رپر قدیم سنسکرت، یونانی و رومن قصّوں سے کسی نہ کسی طورپر استفادہ نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ عرب اور ایران کی قصہ گوئی کے واضح نقوش بھی ملتے ہیں لیکن یہاں صرف اردو میں قصہ گوئی کی روایت ہمارے مطالعے کا موضوع ہے۔

    دکن میں شکارنامے کو چھوڑ کر چودہویں سے لے کر اٹھارہویں صدی تک نظم و نثر پر مبنی تخلیقات کا سراغ ملتاہے۔ اس دوران جوکتب ورسائل منصہ شہود پر آئے وہ اردو کی اولین تصنیفات قرار پائے۔ ان چار سو برسوں کے درمیان جوکتابیں تصنیف ہوئیں وہ زیادہ تر مذہبی، اخلاقی اوردینی نوعیت کی تھیں۔ ان میں تصوف، اخلاقیات اور مذہبی و دینی امور پر زیادہ زور ملتا ہے۔ اس دور میں خیالی یا اختراعی قصوں کا رواج بہت کم تھا۔ صرف دو تصانیف ”سب رس“ اور ”طوطی نامہ“ ایسی ملتی ہیں جن میں قصے کہانیوں کا پتہ چلتاہے۔ ان میں بھی اکثرمقامات پر مذہبی اور اخلاقی رجحان و مزاج کا عمل دخل تھا۔ اٹھارہویں صدی کے آغا زمیں شمالی ہند اردو کے اہم مرکز کے طور پرابھرا۔ لیکن یہاں بھی حسب روایت قصوں میں مقصدی اورتعمیری رجحان قائم رہا۔ اس ضمن میں یہاں جو اہم تصنیف نظر آتی ہے وہ ہے ”کربل کتھا“ (1733) یہ کتاب ملا حسین واعظ کاشفی کی فارسی تصنیف ’روضة الشہدا‘ سے ترجمہ ہے۔ فضلی کی نثر پر گرچہ عربی اور فارسی کے اثرات زیادہ تھے اور عبارت آرائی کے دوران وہ قافیہ پیمائی اور رنگینیِ بیان پرزیادہ زور صرف کرتاتھا لیکن قصہ بیان کرنے کے دوران وہ رفتہ رفتہ صاف ستھری نثر کی طرف مائل ہوتا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ کربل کتھا میں دقیق اور رنگا رنگ طرز کے ساتھ ساتھ سلاست اور سہل نگاری بھی متوازی طو رپر ایک ساتھ نظر آتی ہے۔

    جیسا کہ عرض کیاگیا اردو میں قدیم قصہ گوئی کے ابتدائی اور باضابطہ نمونوں میں ”سب رس“ (1935) کو اولیت کا مقام حاصل ہے۔ فضلی کے کربل کتھا کی طرح یہ بھی طبع زاد نہیں تھا۔ ملاوجہی نے اسے فارسی قصے ”حسن ودل“ سے ترجمہ کیاتھا لیکن یہ وجہی کا اختصاص تھا کہ اس نے اصل میں ادنیٰ تصرف کرکے اپنی ہنر مندی کے ساتھ قصے کو اس اندا زمیں بیان کیا کہ یہ اصل کتاب پر سبقت لے گئی۔ اور اس پر طبع زاد ہونے کاگمان ہونے لگا۔ فرضی قصے کی صورت میں عشق وعقل اور حسن و دل کے معرکے بیان کرنے کے دوارن اس نے مختلف تمثیلی کرداروں اور ان کے جذبات و احساسات کو اس طرح پیش کیا کہ یہ متاثر کئے بغیرنہیں رہتے۔ اس قصے سے ملاحظہ کریں چند سطور،

    ”ایک شہر تھا اس شہر کاناﺅں سیتاں، اس ستیاں کے بادشاہ کے ناﺅں عقل، دین ودنیا کاتمام اس تے چلتا۔ اس کے حکم باج ذرا کیں نہیں ہلتا۔ اس کے فرمائے پر جنو چلے۔ ہر دو جہاں میں ہوئے بھلے۔ دنیا میں کہوائے۔ چار لوگوں میں عزت پائے۔۔۔ الحمد اللہ دونوں کوں ہوا وصال، اپنا دل خوش تو سب عالم خوش حال دل کوں ملیا جیو کاجانی، یو وصال مبارک یو خوشی ارزانی۔۔۔“

    اس دور کے دوسرے نثری قصوں میں ملا سید محمد قادری کا ”طوطی نامہ“ خاصامعروف ہے۔ یہ الف لیلیٰ اور کلیلہ و دمنہ کی طرح مشہو رہوا۔ ابتدائی صورت میں اس کے 53 قصوں کو مولانا ضیاء الدین بخشی بدایونی نے مرتب کیا لیکن زبان مشکل اور ادق تھی اس لئے سید محمد قادری نے اسے سہل اور بامحاورہ زبان میں لکھا۔ مئو لف ”داستانِ تاریخ اردو“ سید حامد حسن قادری کے مطابق اس قصے کو قبل میں غواصی اور ابن نشاطی بھی لکھ چکے تھے۔ بعد میں ”طوطی نامہ“ کا خلاصہ ابوالفضل نے شہنشاہ اکبر کے حکم سے لکھا۔ اس طویل قصے کا ایک اقتباس دیکھیں،

    بڑائی اور سنار اور درزی اور پر ہیز گار مسافری کونکلے۔ اور ایک رات بیچ جنگل دہشت بھرے ہوئے کہ پتا باگاں کاڈر سیں سے اس جنگل کا پانی ہوتاتھا۔ یکایک اپنا اس کاجاگاہ میں پڑا یعنی ہوا۔ وہ چار و یار مصلحت کرے کہ ہم ہرایک کو موافق یاری کے یک ایک پہر نگہبانی کرے۔ اول بڑائی جاگتاتھا لکڑی یک بیچ نہایت بہتری صورت کے مچھیا یعنی اچھی صورت بنایا اور پھر دوگھڑی سنار اس کے تین زیور سیں سنواریا۔ تیسری پہری میں درزی اس کے میں سات لباس کے زینت دار کہا۔ چوتھی پہری میں زاہد موں عاجزی کا طرف قبلہ کے لایا۔ دعا کیا کہ او رجان بیچ بدن اس کے پھوکے گیا ہوا۔۔۔“

    درج بالا اقتباس کے مطالعے سے اندازہ ہوتاہے کہ چند اسماء اور ضمائر کو چھوڑ کر زبان خاصی سہل اور رواں ہے۔ ساتھ میں کہانی پن کی خصوصیت بھی موجود ہے۔ اس لے ے قصے کی دلچسپی اخیر تک برقراررہتی ہے۔

    سب رس، کربل کتھا اور طوطی نامہ کی تصنیف کے عرصہ بعد فورٹ ولیم کالج کا قیام عمل میں آیا۔ اس کالج کا مقصد سہل اور سلیس زبانوں میں کتابوں کا ترجمہ کراناتھا۔ تاکہ اہل ہند اور اہل برطانیہ اسے بہ آسانی سمجھ سکیں۔ اس منشا کے تحت جان گل کرائسٹ نے کالج میں کئی منشیوں کا تقرر کیا۔ اس کالج کی مساعی سے میرامن نے ”باغ وبہار“ کی تالیف کی اورشہرت کی بلندی پر پہنچے۔ باغ و بہار پہلی دفعہ 1803ء میں طبع ہوکر منظرعام پر آئی۔ میر امن نے اس کے قصے عطا حسین تحسین کی نوطرز مرصع سے اخذ کئے تھے لیکن اپنی طرف سے یہ خوبی پید اکی کہ ادق اور بھاری بھرکم عبارتوں کی جگہ سہل اور برجستہ زبان کو ترجیح دی۔ بہتیری عبارتوں کو حذف کیا اور اپنی اختراعی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اس میں بہت کچھ اضافہ کیا۔ غرض کہ میرامن کی کوششوں نے اس کتاب کو اس حد تک دلچسپ اور مقبول بنادیا کہ اس کے ترجمے انگریزی، فرانسیسی، پرتگالی اور لاطینی جیسی اہم زبانون میں ہوئے۔ اس قصے کا ایک مختصر حصہ یہاں نمونتاً پیش کیاجاتاہے تاکہ اردو میں قصے کی روایت کے آغاز اور ارتقا کی بابت واقفیت ہوسکے،

    ”کہتے ہیں کہ ایک بزرگ نے جب اپنی زندگی کی امانت اجل کے فرشتے کو سونپی اور اسباب اپنی ہستی کا اس سراے فانی سے منزل باقی میں پہنچایاسو شخص نے انہیں خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ مرنے کے بعد تم پر کیا کیا واردات گذری۔۔۔ جواب دیا کہ ایک مدت تئیں عذاب عقاب کے پنجے میں سختی کے شاہین کے چنگل میں گرفتار تھا۔۔۔ یک بارگی کریم کے کرم سے اس حالت سے چھٹکارا ہوا۔ سائل نے پھر سوال کیا اس کا کیا سبب ہے۔۔۔ بولے کہ ایک میدان میں مسافر خانہ بنایاتھا شاید کوئی غریب راہ چلتا جیٹھ کے دنوں دوپہر کی دھوپ میں تونسا ہوا اس کے سایہ میں آنکر بیٹھا۔۔۔ خوش ہوکر نہایت عاجزی سے بدل دعا کی۔۔۔ اس کی دعا کا تیر قبولیت کے نشانہ پر درست بیٹھا۔ میری ا ٓمرزش ہوئی۔ اور جہنم کے گڈھے سے نکال کر بہشت کے غرفے میں رہنے کا حکم ہوا۔‘‘

    ”باغ وبہار“ کی اس پرکشش اور سہل تالیف کے بعدحیدر نجش حیدری کی آرائش محفل کو بھی شہرت دوام حاصل ہوئی۔ آرائش محفل کے قصے بھی نہایت دلچسپ، سلیس اور روز مرہ کی زبان میں لکھے گئے ہیں۔ نمونہ دیکھیں،

    ”چند روز بعدجب وہ لڑکی شعور دار ہوئی تواپنے ذہن کی رسائی اور نیک بختی کے باعث سے دائی سے کہا کہ اے مادر مہربان دنیا مانند حباب ہے۔ اس قدر دولت تنہا لے کر میں کیا کروں گی۔ مصلحت یہی ہے کہ اس کو خدا کی راہ میں لٹادوں اور آپ کو آلائشِ دنیاوی سے پاک رکھوں اور شاید نہ کروں بلکہ خدا کی یاد میں مصروف رہوں۔ اس واسطے تم سے پوچھتی ہوں کہ اس سے کس طرح چھٹکارا پاﺅں جو مناسب جانو کہو۔۔۔ دائی نے کہا، اے جان پدر تو ان سات سوالوں کا اشتہار لکھ کر دروازے پر چپکادے اور یہ کہہ کر جو کوئی میرے ساتوں سوال پورے کرے گا میں اسے قبول کروں گی۔۔۔“

    اور جب دائی نے ان سات سوالوں کے متعلق بتایا تو حسن بانو بہت خوش ہوئی اور دل میں کہا کہ وہ کون ایسا شخص ہوگا جو ان سات سوالوں کے جواب دے گا۔ آگے کا قصہ طویل لیکن اس طرح دلچسپیوں سے بھرپور ہے کہ اس کے سحر میں آئے بغیر کوئی بھی قاری نہیں رہ سکتا۔ حیدری کی دوسری تصانیف میں ”گل مغفرت“ کو نقش آخر کا درجہ حاصل ہے۔ یہ بھی ”روضة الشہدا“ سے استفادہ ہے۔ اس میں واقعات کربلا کو بہت ہی موثر اندا زمیں بیان کیاگیا ہے۔ میر امن اور حیدر بخش حیدری بلاشک وشبہ بڑے قصہ گوتھے لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ میرامن چھوٹے چھوٹے جملے، ہندی الاصل الفاظ اور رو زمرہ کو برتنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں جبکہ حیدری عربی، فارسی کے الفاظ کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ روزمرے اور محاورے کا استعمال بھی کم ہے۔ اس کے باوجود وہ ایک اہم قصہ گوکی حیثیت رکھتے ہیں۔

    اس سلسلے کے اہم قصہ گو شیر علی افسوس بھی تھے۔ انہوں نے فورٹ ولیم کالج میں دوران ملازمت ایک کتاب ”باغ اردو“ (۳۰۸۱ئ) ترتیب دی۔ افسوس کہ یہاں گرچہ حیدری اور میرامن کے مقابلے مفرس اور معرب الفاظ، اضافتیں اور ترکیبیں زیادہ ہیں اس کے باجوود ایک کشش ہے جو ہر جگہ اپنی طرف متوجہ کرتی رہتی ہے۔ ”گلستان سعدی“ کے ترجمے کے دوران وہ اکثر اپنی بول چال اور روز مرے سے دورجا پڑے ہیں لیکن ایک فن کاری یہ ہے کہ سعدی کے مشہور مقولے اور ضرب الامثال کو ہو بہومنتقل کردیا ہے اوراردو میں آکر یہ کافی دلچسپ اور اثرانگیز ہیں ”باغ اردو“ سے ذیل کا حصہ ملاحظہ فرمائیں،

    ”کہتے ہیں کہ نوشیرواں عادل کے واسطے شکار گاہ میں ایک شکا رکے کباب بھونتے تھے۔ نمک موجود نہ تھا۔ لوگوں نے زمیندار کے پاس آدمی بھیجا کہ نمک لے آﺅ۔ نوشیرواں بولا کہ نمک قیمت دے کر لیجئیو تاکہ رسم نہ بگڑ جائے۔ لوگ بولے اے بادشاہ وہ اتنی سی بات سے کیا خلل پید اہوگا۔ نوشیرواں نے کہا اولاً ظلم کی بنیاد تھوڑی ہی سی تھی جو آیا اس پر بڑھتا گیا۔ حتیٰ کہ اس درجہ پہنچ گئی کہ،

    جو کھائے شاہ رعیت کے باغ سے اے ک سیب

    غلام اس کے درختوں کو ڈالیں جڑ سے اکھاڑ

    جو آدھے انڈے پہ سلطان ستم روا رکھے

    سپاہی سیخ پہ بھونیں ہزار مرغ پچھاڑ

    ”باغ اردو“ کے بعد ”ہفت گلشن“ بیتال پچیسی اور شکنتلا جیسے اہم اور دلچسپ قصے ارد وکے قالب میں ڈھالے گئے۔ اس میں ہفت گلشن کو چھوڑ کر دونوں کتابیں اصلاً سنسکرت میں ہیں، لیکن اردو میں منتقل ہوکر بھی یہ اتنی ہی مقبول ہیں۔

    اردو میں قصے کی ایک بہت ہی مستحکم اور مقبول روایت داستان امیر حمزہ سے قائم ہوتی ہے۔ اس کے قصے خلیل علی خاں اور عبداللہ بلگرامی نے پہلے پہل ترتیب دئے تھے۔ لیکن مطبع نول کشور کی ایما پر سید تصدق حسین نے اس کونئے سرے سے لکھا۔ وہ فسانہ عجائب کازمانہ تھا۔ فسانہ کی رنگین عبارتوں کی دھوم تھی۔ باغ و بہار کے جواب میں تخلیق کی گئی اس داستان کے سامنے داستان امیر حمزہ تھی جس کا مقابلہ ممکن نہ تھا۔ امیرحمزہ کو تصدق حسین نے شاعرانہ صنعت گری کا عجائب خانہ بنادیا۔ اس کے طول طویل قصوں میں ہندوستانی رسم و رواج اور مختلف احوال و کوائف کو شامل کرکے ہندوستانی عوام کے مذاق کے مطابق بنایا۔ بعد میں اس قصے کو مزید وسعت دے کر ”طلسم ہوشربا“ کی متعدد ضخیم جلدیں تیا رکی گئیں۔ اس قصے کا آغاز یہاں ملاحظہ کریں۔ مقفیٰ و مسجع عبارتوں نے کیا حسن پیداکیا ہے،

    ”نخل بندان بوستان اخبار، چمن پیراہان گلستان، تختہ کاغذ صاف میں اس طرح اشجار الفاظ موقع بموقع نصب فرماتے ہیں، صحن شفاف قرطاس کو گل دریا چین مضامین رنگا رنگ سے یوں رشک تختہ ارژنگ بناتے ہیں کہ جب باغ بیداد تیار ہوا نمونہ ہشت شداد نمودار ہوا۔ القش خوشی سے پھول گیا فکر دارین بھول گیا۔‘‘

    اردو کی بڑی اور اہم داستانوں میں ”بوستان خیال“ کا بھی شما رکیاجاتاہے۔ یہ محمد شاہ رنگیلے کے عہد کا قصہ ہے۔ اس کے مصنف میر محمد تقی ہیں۔ اردو میں اس کے پہلے مترجم خواجہ امان دہلوی ہیں لیکن ان کی وفات کے بعدان کے فرزند خواجہ قمر الدین خان نے اسے مکمل کیا۔ بوستان خیال کے ترجمے لکھنو اور دہلی دونوں دبستانوں نے اپنے اپنے طور پر کئے۔ تھوڑے سے لب ولہجے اور انداز وآہنگ کے فرق کے ساتھ پوری داستان بہر طور نہایت دلچسپ، تحیر کن اور پرکشش ہے۔ سید نادر علی نے اس داستان میں خلاف تہذیب الفاظ اور واقعات کو حذف کرکے اس طرح بنایا کہ عورتیں بچے سبھی پڑھ سکیں۔ نمونتاًا س کا ایک حصہ ملاحظہ کریں،

    ”اس اثنا میں شام ہوگئی۔ ناگاہ چند کنیزیں بہ لباس تکلف باغ میں آئیں اور انہوں نے بالاتفاق کہا کہ اے شہر یار آفریں ہے تم کو۔ تم کسی کنیز وخواص سے مختلط نہ ہوئے۔ ہر گاہ تمہارا استقلال مزاج ہماری ملکہ نے سنا ہے۔ دل وجان سے تم پر عاشق ہوگئی۔ اس کا کلمہ ختم کرنے کے بعد ایک نازنین۔۔۔ اس شکل وصورت کی باغ میں آئی کہ اگر فرشتہ بھی ایک نظر دیکھتا، تو قوت ملکوتی سلب ہوجاتی۔ شہزادہ بے قرار ہوگیا۔ لیکن اس مکان پرسراپا فساد کے خوف سے کچھ دم نہ مارا اور جلد جلد اسم اعظم کا ورد کرنے لگا۔‘‘

    ’’بوستان خیال‘‘ اور ’’امیر حمزہ‘‘ وغیرہ کے بعد روایتی قصے کہانیوں کا ایک طویل سلسلہ دکھائی دیتاہے۔ قصہ گویوں کے یہاں ایک مشترک رواج یہ ہے کہ وہ یا تو اپنی قدیم روایت اور کلچر سے قصے کشید کرتے ہیں یا کسی نہ کسی معروف فارسی، عربی یاسنسکرت تصنیفات کااپنے انداز وآہنگ میں ترجمہ کرتے ہیں، مقصد حسن وکشش کے گل بوٹے کھلاناہوتا ہے۔ اس قبیل کے دوسرے قصوں میں قصہ گل بکاولی، چہار قصہ، افسانہ ہندی، لیلیٰ مجنوں، قصہ بندگان عالی، حکایت ہائے عجیب وغریب، قصہ بہروز سودا گر، قصہ حیرت افزا، مذہب عشق، قصہ گل وہرمز، قصہ قاضی چور، قصہ پوستی و بھنگی، قصہ چہار باغ، قصہ رضوان شاہ، قصہ چتر لیکھا، انوار سہیلی، شگوفہ محبت، سہراب و رستم وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ ان قصے کہانیوں کی فی زمانہ کشش اوراہمیت رہی ہے۔

    لیکن اردو میں قدیم قصے کہانیوں کی روایت اس وقت اپنا لبادہ اتار کر نئے دور میں داخل ہوجاتی ہے جب خاص اصلاحی اور تعمیری مقصد حاوی ہوتاہے۔ اس سلسلے کے مصنفین میں ڈپٹی نذیر احمد کو اولیت کا درج حاصل ہے۔ ڈپٹی نذیر کے بعدان قصوں کاایک واضح مقصد سامنے آتاہے۔ اس کے بعد عبدالحلیم شرر، مرزا ہادی رسو ا، سرسید احمدخاں وغیرہ کے نام آتے ہیں جنہوں نے اپنی کوششوں سے کہانیوں کی سمت ورفتار کو تبدیل کرنے اور ان کے نئی راہ متعین کرنے کا اہم کارنامہ انجام دیا۔

    مختصر یہ کہ اردو ادب میں قصے کہانیوں کی قدیم روایات کے غائر مطالعے سے یہ بخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ اس قبیل کی تحریریں زیادہ تر دلبستگیِ خاطر اور تفریح طبع کی غرض سے خلق کی جاتی تھیں۔ معدودے چند اخلاقی اور تعمیری قصوں، جن کا ذکر اوپر ہوچکاہے، کوچھوڑ کر کوئی واضح اور صحت مند مقصد سامنے نہیں تھا۔ بادشاہ، نوابین، امرا اور رﺅسا وغیرہ کی مبالغہ آمیز تعریف و توصیف، ان کے جھوٹے معاشقے اور معرکے کی طول طویل داستانوں کاایک لامتناہی سلسلہ تھا۔ اور اس کے پس پشت یہ نیت کارفرماتھی کہ زبان دانی کا سکہ چل جائے اور مالی اعانت بھی حاصل ہو جائے۔ گویا یہ قصے اے ک طرح سے نثر میں قصیدے تھے جن کی تان حسن طلب پر ٹوٹتی تھی۔ اس لے ے ان قصوں کا کوئی افادی اور دور رس نصب العین نہیں تھا۔ لیکن ادب میں اس لحاظ سے ان قصوں کی اہمیت مسلم قرار پائی کہ ان کے ابتدائی نقوش کو ہی دیکھ کر آئندہ کے قصہ گویوں اور افسانہ نگاروں نے اپنے لے ے نئی راہ متعین کی اور اپنے فن پاروں کو خوب سے خوب تربنانے میں کامیاب ہوئے۔ آج اردو کے قدیم قصے ترقی کرکے اس منزل پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے پوری دنیا کا سچا اور حقیقی مشاہدہ اور تجربہ کیاجاسکتاہے۔ لہٰذا آج قدیم قصے کہانیوں کی افادی اور تعمیری حیثیت جوبھی ہو لیکن ان کی تاریخی حیثیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے