aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ذکر اس پری وش کا: جدید اردو شاعری میں

سیداحتشام حسین

ذکر اس پری وش کا: جدید اردو شاعری میں

سیداحتشام حسین

MORE BYسیداحتشام حسین

    اس ’’پری وش‘‘ کا ذکر کسی نہ کسی پہلو سے ہر زبان کی شاعری کا اہم ترین اور حسین ترین موضوع رہا ہے، حالانکہ اس کے خط وخال، رفتار وگفتار، انداز وادا، عبارت واشارات اور نازوغمزے کے گوناگوں اور نت نئے روپ ہمیشہ سامنے آتے رہے ہیں۔ یہ پری وش ہندوستان میں شکنتلا، یونان میں ہیلن، مصر میں کلوپیٹرا، عرب میں لیلا، ایران میں شیریں اور پنجاب میں ہیر کا بھیس بدل کر متوجہ کرتی رہی ہے۔ اس کا انداز قد پہچاننے والے اسے ہر جامے میں پہچانتے رہے ہیں اور اس کا بت پوجنے والے ہر رنگ میں اس کی صنم گری کرتے رہے ہیں۔ کبھی تخئیل کی بے راہ روی نے اس کی صورت بگاڑ دی ہے اور کبھی وہ حقیقتاً جیسی ہے اس سے حسین تر بناکر پیش کیا ہے۔

    تصوریت اور مثالیت کے باوجود سماجی ماحول نے اس کی انفرادیت متعین کرنے میں مدد دی ہے اور حالات نے اس کے نقش ونگار میں اپنے عہد کا رنگ بھرا ہے۔ غرض کہ ہر دور میں اس کے لئے جان ودل نثار کرنے والے، اس کی جھلک دیکھنے، اس سے دو لفظ بول لینے اور اس کا قرب حاصل کرنے کی تمنا میں جیتے اور مرتے رہے ہیں۔ تصور محض میں اس کا نام حسن اور اس کے جذبۂ پرستش کا نام عشق رہا ہے لیکن شاعری اور دوسرے فنون لطیفہ میں اس کا مادی وجود ہی جذبہ وفکر کی بنیاد ہے۔ یہ پری وش اردو شاعری کا محبوب ہے جسے ہزاروں ناموں سے یاد کیا گیا ہے۔

    بعض حقیقت پسند قدیم اردو شاعری پر اکثر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس کا محبوب یا تو ایرانی روایت کا کوئی امرد ہے یا کوئی طوائف اور بازاری عورت۔ روایتی غزل گوئی کے دائرے میں اس کا ایک پہلو کسی حد تک حقیقت پر مبنی کہا جا سکتا ہے۔ لیکن تاریخی، سماجی، تہذیبی اور فنی روایات کی روشنی میں یہ ایک ادھوری حقیقت سے زیادہ نہیں۔ سچے اصلیت پسند اور عظیم المرتبت شاعروں کے یہاں محبوب روایتوں میں اسیر نہیں ہے، اپنی شخصیت رکھتا ہے اور ہر شاعر کے ساتھ اس کا رنگ بدلتا رہتا ہے۔ ہر سچے شاعر کی طرح ہر نیا عہد بھی محبت اور محبوب کے نئے تصور لاتا ہے اور وہ چیز جو بہ ظاہر انفرادی اور داخلی نظر آتی ہے، کبھی سماجی اور تاریخی تقاضوں سے اور کبھی محض اظہار کی جدت اور نئے پن کی تلاش میں اپنی شکل بدل دیتی ہے۔

    جب ہندوستانی سماج اور سیاست کا نقشہ بدلا تو محبوب وہ نہ رہا جسے جاگیردارانہ نظام کی پابندیوں نے جنم دیا تھا اور عاشق کو بھی زندگی کے جھمیلوں میں اس کی فرصت نہ رہی کہ وہ،

    بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے

    یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ محبت کا جذبہ ہی فنا ہو گیا ہے، لیکن یقینا اس کا اظہار مسائل حیات اور غم روزگار کے نیچے دب گیا۔ حالیؔ کی غزلیں زندگی کی آگ سے سلگ رہی تھیں، حالات سے اس قدر مبہوت ہوئے کہ انھوں نے محبت کی رام کہانی ہی چھوڑدی اور قوم کا مرثیہ لکھنے لگے۔ محمد حسین آزاد نے اپنے مجموعۂ نظم کو حسن وعشق کی قید سے آزاد رکھا۔ تعمیری اور مقصدی شاعری کا ایسا زور بندھا کہ محبوب کا ذکر ہی غائب ہو گیا۔ جس طرح شیخ سعدی نے دمشق کی قحط سالی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ فاقوں کی وجہ سے لوگ عشق کرنا بھول گئے تھے، شاید اسی طرح ۱۸۵۷ء کے انتشار اور ہنگاموں کے بعد یہاں بھی عشق کی فرصت نایاب ہو گئی اور مضطرب ولوں سے آواز آئی،

    اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

    نتیجہ یہ ہوا کہ جو شعرا محض روایتوں کے سہارے جی رہے تھے، انھوں نے عشق کو رسمی تعشق اور محبت کو تعیش بنا لیا۔ عشق ومحبت کے تذکرے میں غزل گویوں کے یہاں شدت تو ضرورپیدا ہوئی اور مبالغہ آمیز انداز میں مرنے جینے کا ذکر بھی بہت آیا لیکن اس میں سچائی، گرمی، محبت کی تپش، عاشقانہ سپردگی نہ رہی۔ کچھ نئے غزل گویوں جیسے شادؔ عظیم آبادی اور حسرتؔ موہانی وغیرہ نے پھر توجہ کی اور محبت ومحبوب کے خط وخال ابھرنے لگے۔ یہ سلسلہ انفرادی مزاج کے لحاظ سے بعد کی غزل گوئی میں بھی جاری رہا جس کی نمائندگی فانیؔ، جگرؔ، فراقؔ نے کی بلکہ آخر الذکر نے تو عشقیہ اور جمالیاتی شاعری ہی کو اپنے افکار وخیالات کا مرکز قرار دیا۔

    لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بیسویں صدی کے ابتدائی بیس پچیس سال بھی عشقیہ شاعری کے لیے بہت سازگار نہیں تھے کیونکہ کش مکش حیات میں زندگی نے دوسرے مطالبات پیش کر دیے۔ اس عہد کے نمودار شاعروں میں سرورؔ، چکبستؔ، نادرکا کوروی، اکبرؔ اور اقبالؔ نے یا تو اپنی تاریخی روایات کی کھوج کی یا وطن دوستی کے جذبے پر تازیانے لگائے یا تو بدلتے ہوئے سماج میں قومی شعور کو مہمیز کرنے کی کوشش کی یا اتحاد واتفاق کا نعرہ بلند کیا۔ اس میں بھی محبوب کی موہنی صورت اور اس سے لگاؤ کا ظہار محض چند غزل گویوں کے افکار تک محدود رہا۔ اقبال نے خودی، انسانی عظمت، جہد وعمل کا نعرہ بلند کیا، اور اس سلمیٰ کو بھلا دیا جس کی گود میں بلی کا بچہ دیکھ کر ان کا دل دھڑکا تھا۔

    سرورؔ اور چکبستؔ نے وطن کو محبوب بناکر پیش کیا۔ اکبرؔ اور ظفرؔ علی خاں نے شاعری کو سیاست کا لبادہ اڑھا دیا لیکن اسی عہد میں جب قومی آزادی کی لہریں بلند ہو رہی تھیں، جب قدیم سماجی ڈھانچہ ٹوٹ رہا تھا، کچھ شعرا کے یہاں ایک قسم کا جذباتی ابال اور اظہار شخصیت کا جذبہ بیدار ہوا، جسے آسانی کے لیے رومانی تحریک کا عکس بھی کہا جا سکتا ہے۔ جوش ملیح آبادی، اخترؔ شیرانی، ڈاکٹر بجنوری، عظمت اللہ خاں، حفیظ جالندی، ساغرؔ نظامی، روشؔ صدیق وغیرہ نے کسی قدر آزادانہ اس عورت کا ذکر کیا جس میں محبوب بننے کی ساری ادائیں موجود تھیں۔ رومانی وفور کے تحت تقریباً ہر حسین عورت محبوبہ ہی بن کر سامنے آتی ہے، وہ کہیں جنگل کی شاہ زادی ہے، کہیں جوگن، کہیں بھکارن ہے، کہیں کنکر کوٹنے والی مزدور لڑکی، کہیں سلمیٰ ہے، کہیں ریحانہ، کہیں بے پردہ سیر وتفریح کرکے دلوں کو لبھا لینے والی نوجوان حسینہ ہے، کہیں دیہات کی الھڑ لڑکی۔

    اس دور میں محبوبہ، تعیش کے طلب گار مرد، خیال پرست، عاشق سماجی بندھنوں سے محض ذہنی اور خیالی ٹکر لینے والے شاعر اور روایتی بندشتوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے بےچین نوجوانوں کے خوابوں کی رانی ہے۔ یہ محبوبہ ابھی خود آزاد نہیں ہے۔ وہ محبت کا جواب محبت سے آزادانہ نہیں دے سکتی، بغاوت نہیں کر سکتی، اس کی اپنی آزاد شخصیت نہیں ہے، وہ صرف عاشق کی پرستش کا مرکز ہے، محبت کی مجہول اور انفعالی شریک کار ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ان شعرا کے یہاں محبوبہ کا حسن، اس کا لباس، بناؤ سنگار، اس کی حیات پرستی اور انداز واطوار کا نقش خالص ہندوستانی عورت کی تصویر میں جلوہ گر ہوتا ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ خیالی زیادہ ہے۔

    اس عہد میں عورت کی بےچارگی اور مرد کے مقابلے میں اس کے کم تر اور کمزور سمجھے جانے کے خلاف رد عمل بھی پیدا ہوا۔ یہ بھی رومانیت ہی کی ایک شکل ہے۔ مالن، جوگن، بھکارن سب اپنی خوب صورتی اور دل کشی کی وجہ سے متوجہ کرتی ہیں۔ ضمناً ان کی طبقاتی پستی اور زبوں حالی کا بھی ذکر آ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سچے عشق کی وہ تصویر جو میرؔ، غالبؔ یا مومنؔ کی شاعری میں جادو جگاتی ہے، ان رومانی شعرا کے یہاں واضح طور پر موجود نہیں ہے۔ ان کے عشق کا کوئی مرکزی نقطہ نہیں ہے، ہر خوب صورت عورت کو محبوبہ سمجھ لینے سے عشق کا وہ تصور ہی قائم نہیں ہوتا جس میں ذاتوں کے ایک دوسرے سے قریب آنے کی شدید خواہش، ایک دوسرے کی آگ میں جل بجھنے کی تمنا، سپردگی کا لامتناہی احساس پیدا ہو، پھر بھی یہی وہ زمانہ ہے جب محبت کا ذکر آزادی، بے باکی اور قدرے سماجی احساس کے ساتھ شاعری میں آیا۔

    موجودہ صدی کی تیسری دہائی میں، جہاں ایک طرف اشتراکی افکار کے اثر سے سماجی زندگی میں اجتماعی انقلاب کے لے ابھر رہی تھی، وہیں فرائڈ کے جنسی نظریات کے تحت محبت کا تصور بھی نیاروپ دھارنے لگا تھا، افلاطونی یا بے غرض پاکیزہ محبت اگر کہیں ہو بھی تو وہ فنون لطیفہ میں کبھی جاندار انداز میں نہیں پیش ہوئی ہے۔ ہاں، جنسی محبت کے فطری تقاضے اور لطیف حقیقی پیکر قدیم اور جدید شعر وادب، مصوری اور صنم گری، رقص اور نقاشی میں بکھرے ہوئے ہیں۔ اگرچہ اخلاقی پابندیاں اس جذبے کو دباتی رہی ہیں لیکن یہ علامتوں اور استعاروں کے پردوں میں ہر جگہ عریاں ہوتا رہا ہے۔ فرائڈ نے اس کے لاشعوری اور نیم شعوری بھیس کا پتا لگاکر ایک طرح سے شعور کو اس اظہار کے لیے آزاد کر دیا اور جنس کا ذکر اتنا ہی فطری نظر آنے لگا جتنا روٹی کپڑے اور مسرت ویاس کا ذکر۔

    چنانچہ وہ شعرا جنھوں نے ۱۹۳۰ء کے بعد سے لکھنا شروع کیا اور جنھیں مغرب کی ادبی تحریکوں سے واقفیت بھی تھی، انھوں نے محبت کے جنسی پہلو کا اظہار کھلے بندوں شروع کر دیا، اس میں جنسی کج روی، جنسی گھٹن اور تھکن، ہر ایک کی تصویریں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان شعرا نے اپنے جواز میں کبھی ہومرؔ، سیفوؔ، شکسپیئرؔ، میرحسنؔ، مومنؔ، اجنتاؔ اور الورا کو پیش کیا، کبھی فرائڈ، ایڈلر اور لارنس کے نتائج افکار کو۔ اس سے جو تازگی اور جدت، جو فطری اظہار کی آسانی پیدا ہوئی وہ ضرور متوجہ کرنے والی تھی لیکن محبت اور محبوب کے تصورات میں ایسی زبردست تبدیلی رونما ہوئی کہ ان کا پہچاننا مشکل ہو گیا۔ رومانیوں تک تو محبت میں انفرادی اور سماجی دونوں پہلو اپنے اپنے ڈھنگ سے آتے رہے لیکن اب ان شعرا کے یہاں محبوب کے نقش ونگار نگاہوں سے اوجھل ہونے لگے۔

    جو شعرا ہیئت کے تجربوں میں لگے ہوئے تھے، انھوں نے محبوب اورمحبت کو نظرانداز کر دیا اور جو خالص جنسی ابال اور فطری میلان کی شکل میں دیکھتے تھے، انھوں نے اس کے سراپا سے آنکھیں پھیر لیں۔ کوئی شخص اس زمانے کے ن، م راشد، میرا جی، مختار صدیقی کا کلام دیکھے تو وہ اپنے ذہن میں محبوب کی کوئی ایسی تصویر نہیں بنا سکتا جس کے لئے دل وجان نذر کرنے کی خواہش پیدا ہو۔

    اس کے برعکس وہ شعرا جو سماجی احساس اور وقت کے تقاضوں سے سرشار تھے، سماج کو ایسا بنانے کے حق میں تھے، جہاں محبت کی آزادی ہو، فیضؔ، مجازؔ، سردار جعفریؔ، جواد زیدیؔ، مخدومؔ، کیفیؔ، تاباں، جذبیؔ جنھوں نے ۱۹۴۷ء تک بہت کچھ لکھا، اس جذبے کا اظہار کسی نہ کسی شکل میں کرتے رہے۔ فیض نے محبوب سے پہلے سی محبت نہ مانگنے کی تمنا ظاہر کی، کیونکہ وقت سازگار نہیں، لیکن ان کی شاعری میں محبوب کا آنچل، رخسار کی دمک، زلف کی چھاؤں اور آویزے کی ٹمٹماہٹ کا ذکر بھی اس سماجی ناانصافی کے ذکر کے ساتھ ساتھ ہے جو محبت سے محروم کر دیتی ہے۔ یہی رنگ مجازؔ، سردارؔ، قاسمیؔ، کیفیؔ وغیرہ کے یہاں بھی ملتا ہے۔ ان شعرا کے یہاں محبوب محض تعیش کا سہارا نہیں، ساتھی بھی ہے جسے کارزار حیات میں ساتھ ساتھ چلنا ہے۔ یعنی اسے خواب گاہ میں محبوب اور جہد حیات میں ساتھی بن کر رہنا ہے۔ انفرادی اور سماجی احساس کی یہ آمیزش مصنوعی نہیں تھی۔ گو عشقیہ شاعری کے مخصوص نقطۂ نظر سے یہ بات کچھ اچھی نہیں لگتی لیکن اس میں حقیقت پسندی کی ایک جھلک ضرور ہے۔ یہاں محبوب کم سے کم گوشت پوست کا وہ مجمسہ تو تھا جسے دیکھا، چھوا اور چاہا جا سکتا تھا۔

    آزادی کے بعد سے عشقیہ شاعری کا موقف بہت زیادہ بدل گیا ہے، نئے شاعروں کو اب نہ کسی سیاسی، تہذیبی نقطۂ نظر پر یقین ہے، نہ محبت اور دوستی پر، نہ خوشی پائدار ہے، نہ غم سکون بخش ہے، کوئی تصور ذہن میں اس طرح نہیں جمتا کہ اسے سینے سے لگاکر خوبصورت بناکر شاعروں میں پیش کیا جائے۔ چند شعرا کو چھوڑکر کسی کا واسطہ اس محبوب سے نہیں رہ گیا ہے جو شاعری کا لازوال موضوع بنا ہے اور جس کے ذکر سے انسانوں کا دل دھڑکتا اور خوش گوار لذت حاصل کرتا رہا ہے۔ بعض اوقات تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ شاعری حسن ومحبت کی موت کا اعلان کر رہی ہے اور عشق کا جذبہ محض میکانکی اور کاروباری بن جانے والا ہے جس کا ذکر نفسیاتی اصطلاحوں میں جذباتی بے تعلقی سے کیا جائےگا۔

    مأخذ:

    جدید ادب: منظر پس منظر (Pg. 234)

    • مصنف: سیداحتشام حسین
      • ناشر: اترپردیش اردو اکیڈمی، لکھنؤ
      • سن اشاعت: 1978

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے