Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Aale Ahmad Suroor's Photo'

آل احمد سرور

1911 - 2002 | علی گڑہ, انڈیا

جدید اردو تنقید کے بنیاد سازوں میں شامل ہیں

جدید اردو تنقید کے بنیاد سازوں میں شامل ہیں

آل احمد سرور کے اشعار

9.9K
Favorite

باعتبار

تمہاری مصلحت اچھی کہ اپنا یہ جنوں بہتر

سنبھل کر گرنے والو ہم تو گر گر کر سنبھلے ہیں

ابھی آتے نہیں اس رند کو آداب مے خانہ

جو اپنی تشنگی کو فیض ساقی کی کمی سمجھے

کچھ تو ہے ویسے ہی رنگیں لب و رخسار کی بات

اور کچھ خون جگر ہم بھی ملا دیتے ہیں

آج پی کر بھی وہی تشنہ لبی ہے ساقی

لطف میں تیرے کہیں کوئی کمی ہے ساقی

ساحل کے سکوں سے کسے انکار ہے لیکن

طوفان سے لڑنے میں مزا اور ہی کچھ ہے

جو ترے در سے اٹھا پھر وہ کہیں کا نہ رہا

اس کی قسمت میں رہی در بدری کہتے ہیں

حسن کافر تھا ادا قاتل تھی باتیں سحر تھیں

اور تو سب کچھ تھا لیکن رسم دل داری نہ تھی

وہ تبسم ہے کہ غالبؔ کی طرح دار غزل

دیر تک اس کی بلاغت کو پڑھا کرتے ہیں

بستیاں کچھ ہوئیں ویران تو ماتم کیسا

کچھ خرابے بھی تو آباد ہوا کرتے ہیں

اب دھنک کے رنگ بھی ان کو بھلے لگتے نہیں

مست سارے شہر والے خون کی ہولی میں تھے

داستان شوق کتنی بار دہرائی گئی

سننے والوں میں توجہ کی کمی پائی گئی

ہم تو کہتے تھے زمانہ ہی نہیں جوہر شناس

غور سے دیکھا تو اپنے میں کمی پائی گئی

مے کشی کے بھی کچھ آداب برتنا سیکھو

ہاتھ میں اپنے اگر جام لیا ہے تم نے

جہاں میں ہو گئی نا حق تری جفا بد نام

کچھ اہل شوق کو دار و رسن سے پیار بھی ہے

یہ کیا غضب ہے جو کل تک ستم رسیدہ تھے

ستم گروں میں اب ان کا بھی نام آیا ہے

تمام عمر کٹی اس کی جستجو کرتے

بڑے دنوں میں یہ طرز کلام آیا ہے

لوگ مانگے کے اجالے سے ہیں ایسے مرعوب

روشنی اپنے چراغوں کی بری لگتی ہے

ہستی کے بھیانک نظارے ساتھ اپنے چلے ہیں دنیا سے

یہ خواب پریشاں اور ہم کو تا صبح قیامت سونا ہے

ہم جس کے ہو گئے وہ ہمارا نہ ہو سکا

یوں بھی ہوا حساب برابر کبھی کبھی

آتی ہے دھار ان کے کرم سے شعور میں

دشمن ملے ہیں دوست سے بہتر کبھی کبھی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے