Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Bekhud Dehlvi's Photo'

بیخود دہلوی

1863 - 1955 | دلی, انڈیا

داغ دہلوی کے شاگرد

داغ دہلوی کے شاگرد

بیخود دہلوی کے اشعار

19.1K
Favorite

باعتبار

نظر کہیں ہے مخاطب کسی سے ہیں دل میں

جواب کس کو ملا ہے سوال کس کا تھا

ہو لیے جس کے ہو لیے بیخودؔ

یار اپنا تو یہ حساب رہا

انہیں تو ستم کا مزا پڑ گیا ہے

کہاں کا تجاہل کہاں کا تغافل

ملا کے خاک میں سرمایۂ دل بیخودؔ

وہ پوچھتے ہیں بتاؤ یہ مال کس کا تھا

آئنہ دیکھ کے خورشید پہ کرتے ہیں نظر

پھر چھپا لیتے ہیں وہ چہرۂ انور اپنا

قیامت ہے تری اٹھتی جوانی

غضب ڈھانے لگیں نیچی نگاہیں

رقیبوں کے لیے اچھا ٹھکانا ہو گیا پیدا

خدا آباد رکھے میں تو کہتا ہوں جہنم کو

کیا کہہ دیا یہ آپ نے چپکے سے کان میں

دل کا سنبھالنا مجھے دشوار ہو گیا

حوروں سے نہ ہوگی یہ مدارات کسی کی

یاد آئے گی جنت میں ملاقات کسی کی

نو گرفتار محبت ہوں وفا مجھ میں کہاں

کم سے کم دل ابھی سو بار تو آنے دیجے

کوئی اس طرح سے ملنے کا مزا ملتا ہے

اوپری دل سے وہ ملتا ہے تو کیا ملتا ہے

زمانہ ہم نے ظالم چھان مارا

نہیں ملتیں ترے ملنے کی راہیں

تمہارے ہاتھ خالی جیب خالی زلف خالی تھی

نہ تھے تم چور دل کے لو ادھر دیکھو یہ کیا نکلا

اس جبین عرق افشاں پہ نہ چنئے افشاں

یہ ستارے کہیں مل جائیں نہ سیاروں میں

ہمیں اسلام اسے اتنا تعلق ہے ابھی باقی

بتوں سے جب بگڑتی ہے خدا کو یاد کرتے ہیں

یہ کہہ کے میرے سامنے ٹالا رقیب کو

مجھ سے کبھی کی جان نہ پہچان جائیے

چشم بد دور وہ بھولے بھی ہیں ناداں بھی ہیں

ظلم بھی مجھ پہ کبھی سوچ سمجھ کر نہ ہوا

آئنہ دیکھ کر وہ یہ سمجھے

مل گیا حسن بے مثال ہمیں

سخت جاں ہوں مجھے اک وار سے کیا ہوتا ہے

ایسی چوٹیں کوئی دو چار تو آنے دیجے

نہ دیکھے ہوں گے رند لاابالی تم نے بیخودؔ سے

کہ ایسے لوگ اب آنکھوں سے اوجھل ہوتے جاتے ہیں

بیخودؔ ضرور رات کو سوئے ہو پی کے تم

یہ تو کہو نماز پڑھی یا قضا ہوئی

غم میں ڈوبے ہی رہے دم نہ ہمارا نکلا

بحر ہستی کا بہت دور کنارا نکلا

پڑھے جاؤ بیخودؔ غزل پر غزل

وہ بت بن گئے ہیں سنے جائیں گے

اپنے جلوے کا وہ خود آپ تماشائی ہے

آئینے اس نے لگا رکھے ہیں دیواروں میں

تری تیغ کا لال کر دوں گا منہ

جو یہ کھیلنے مجھ سے آئے گی رنگ

وہ کچھ مسکرانا وہ کچھ جھینپ جانا

جوانی ادائیں سکھاتی ہیں کیا کیا

جواب سوچ کے وہ دل میں مسکراتے ہیں

ابھی زبان پہ میری سوال بھی تو نہ تھا

دل محبت سے بھر گیا بیخودؔ

اب کسی پر فدا نہیں ہوتا

راہ میں بیٹھا ہوں میں تم سنگ رہ سمجھو مجھے

آدمی بن جاؤں گا کچھ ٹھوکریں کھانے کے بعد

آپ کو رنج ہوا آپ کے دشمن روئے

میں پشیمان ہوا حال سنا کر اپنا

دی قسم وصل میں اس بت کو خدا کی تو کہا

تجھ کو آتا ہے خدا یاد ہمارے ہوتے

محفل وہی مکان وہی آدمی وہی

یا ہم نئے ہیں یا تری عادت بدل گئی

موت آ رہی ہے وعدے پہ یا آ رہے ہو تم

کم ہو رہا ہے درد دل بے قرار کا

چلنے کی نہیں آج کوئی گھات کسی کی

سننے کے نہیں وصل میں ہم بات کسی کی

دل تو لیتے ہو مگر یہ بھی رہے یاد تمہیں

جو ہمارا نہ ہوا کب وہ تمہارا ہوگا

کچھ طرح رندوں نے دی کچھ محتسب بھی دب گیا

چھیڑ آپس میں سر بازار ہو کر رہ گئی

سن کے ساری داستان رنج و غم

کہہ دیا اس نے کہ پھر ہم کیا کریں

جھوٹا جو کہا میں نے تو شرما کے وہ بولے

اللہ بگاڑے نہ بنی بات کسی کی

بات وہ کہئے کہ جس بات کے سو پہلو ہوں

کوئی پہلو تو رہے بات بدلنے کے لیے

تشریح

شعر میں جو نکتہ بیان کیا گیا ہے اسی نے اسے دل چسپ بنایا ہے۔ اس میں لفظ بات کی اگرچہ تین دفعہ اور پہلو کی دو دفعہ تکرار ہوئی ہے مگر لفظوں کی ترنم ریزی اور بیان کی روانی کے وصف نے شعر میں لطف پیدا کیا ہے۔ پہلو کی مناسبت سے لفظ بدلنے نے شعر کی کیفیت کو تاثر بخشا ہے۔

دراصل شعر میں جو نکتہ بیان کیا گیا ہے، وہ اگرچہ کسی تخصیص کا حامل نہیں بلکہ عام فہم ہے مگر جس انداز سے شاعر نے اس نکتے کوبیان کیا ہے وہ اس نکتے کو عام فہم ہونے کے باوجود نادر بنادیتا ہے۔

ٍشعر کا مفہوم یہ ہے کہ بات کو کچھ ایسے رمزیہ انداز میں کہنا چاہیے کہ اس سے سو طرح کے مفہوم بر آمد ہوں۔کیونکہ معنی کے اعتبار سے اکہری بات کہنا دانا لوگوں کا شیوہ نہیں بلکہ وہ سو نکتوں کا نچوڑ ایک بات میں بیان کرتے ہیں۔ اس طرح سے سننے والوں کو بحث کرنے یا وضاحت طلب کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی پہلو ہاتھ آجاتا ہے۔ اور جب بات کے پہلو کثیر ہوں تو بات بدلنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ یعنی نکتے سے نکتہ برآمد ہوتا ہے۔

شفق سوپوری

دل وہ کافر ہے کہ مجھ کو نہ دیا چین کبھی

بے وفا تو بھی اسے لے کے پشیماں ہوگا

تکیہ ہٹتا نہیں پہلو سے یہ کیا ہے بیخودؔ

کوئی بوتل تو نہیں تم نے چھپا رکھی ہے

دل وہ کافر ہے کہ مجھ کو نہ دیا چین کبھی

بے وفا تو بھی اسے لے کے پشیماں ہوگا

ہمیں پینے سے مطلب ہے جگہ کی قید کیا بیخودؔ

اسی کا نام جنت رکھ دیا بوتل جہاں رکھ دی

تم کو آشفتہ مزاجوں کی خبر سے کیا کام

تم سنوارا کرو بیٹھے ہوئے گیسو اپنے

نامہ بر یہ تو کہی بات پتے کی تو نے

ذکر اس بزم میں رہتا تو ہے اکثر اپنا

دل چرا کر لے گیا تھا کوئی شخص

پوچھنے سے فائدہ، تھا کوئی شخص

محبت اور مجنوں ہم تو سودا اس کو کہتے ہیں

فدا لیلیٰ پہ تھا آنکھوں کا اندھا اس کو کہتے ہیں

میرا ہر شعر ہے اک راز حقیقت بیخودؔ

میں ہوں اردو کا نظیریؔ مجھے تو کیا سمجھا

زاہدوں سے نہ بنی حشر کے دن بھی یارب

وہ کھڑے ہیں تری رحمت کے طلب گار جدا

اب آپ کوئی کام سکھا دیجئے ہم کو

معلوم ہوا عشق کے قابل تو نہیں ہم

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے