Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Hafeez Jaunpuri's Photo'

حفیظ جونپوری

1865 - 1918 | جون پور, انڈیا

اپنے شعر ’بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے‘ کے لیے مشہور

اپنے شعر ’بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے‘ کے لیے مشہور

حفیظ جونپوری کے اشعار

8.2K
Favorite

باعتبار

جو کعبے سے نکلے جگہ دیر میں کی

ملے ان بتوں کو مکاں کیسے کیسے

سچ ہے اس ایک پردے میں چھپتے ہیں لاکھ عیب

یعنی جناب شیخ کی داڑھی دراز ہے

قید میں اتنا زمانہ ہو گیا

اب قفس بھی آشیانہ ہو گیا

اس کو سمجھو نہ خط نفس حفیظؔ

اور ہی کچھ ہے شاعری سے غرض

زاہد کو رٹ لگی ہے شراب طہور کی

آیا ہے میکدے میں تو سوجھی ہے دور کی

زاہد شراب ناب ہو یا بادۂ طہور

پینے ہی پر جب آئے حرام و حلال کیا

جب نہ تھا ضبط تو کیوں آئے عیادت کے لیے

تم نے کاہے کو مرا حال پریشاں دیکھا

مرے بت خانے سے ہو کر چلا جا کعبے کو زاہد

بظاہر فرق ہے باطن میں دونوں ایک رستے ہیں

ان کی یہ ضد کہ مرے گھر میں نہ آئے کوئی

اپنی ہی ہٹ کہ مجھے خود ہی بلائے کوئی

مری شراب کی توبہ پہ جا نہ اے واعظ

نشے کی بات نہیں اعتبار کے قابل

ان کی یکتائی کا دعویٰ مٹ گیا

آئنے نے دوسرا پیدا کیا

پہنچے اس کو سلام میرا

بھولے سے نہ لے جو نام میرا

جب ملا کوئی حسیں جان پر آفت آئی

سو جگہ عہد جوانی میں طبیعت آئی

کافر عشق کو کیا دیر و حرم سے مطلب

جس طرف تو ہے ادھر ہی ہمیں سجدا کرنا

بہت دور تو کچھ نہیں گھر مرا

چلے آؤ اک دن ٹہلتے ہوئے

ہمیں یاد رکھنا ہمیں یاد کرنا

اگر کوئی تازہ ستم یاد آئے

تھے چور میکدے کے مسجد کے رہنے والے

مے سے بھرا ہوا ہے جو ظرف ہے وضو کا

آدمی کا آدمی ہر حال میں ہمدرد ہو

اک توجہ چاہئے انساں کو انساں کی طرف

قسم نباہ کی کھائی تھی عمر بھر کے لیے

ابھی سے آنکھ چراتے ہو اک نظر کے لیے

اخیر وقت ہے کس منہ سے جاؤں مسجد کو

تمام عمر تو گزری شراب خانے میں

جو دیوانوں نے پیمائش کی ہے میدان قیامت کی

فقط دو گز زمیں ٹھہری وہ میرے دشت وحشت کی

جاؤ بھی جگر کیا ہے جو بیداد کرو گے

نالے مرے سن لو گے تو فریاد کرو گے

حال میرا بھی جائے عبرت ہے

اب سفارش رقیب کرتے ہیں

عاشق کی بے کسی کا تو عالم نہ پوچھیے

مجنوں پہ کیا گزر گئی صحرا گواہ ہے

یاد آئیں اس کو دیکھ کے اپنی مصیبتیں

روئے ہم آج خوب لپٹ کر رقیب سے

بوسۂ رخسار پر تکرار رہنے دیجیے

لیجیے یا دیجیے انکار رہنے دیجیے

پی کر دو گھونٹ دیکھ زاہد

کیا تجھ سے کہوں شراب کیا ہے

گیا جو ہاتھ سے وہ وقت پھر نہیں آتا

کہاں امید کہ پھر دن پھریں ہمارے اب

شب وصال لگایا جو ان کو سینے سے

تو ہنس کے بولے الگ بیٹھیے قرینے سے

برا ہی کیا ہے برتنا پرانی رسموں کا

کبھی شراب کا پینا بھی کیا حلال نہ تھا

کبھی مسجد میں جو واعظ کا بیاں سنتا ہوں

یاد آتی ہے مجھے پیر خرابات کی بات

ہم نہ اٹھتے ہیں نہ وہ دیتے ہیں

ہاتھ میں پان ہے کیا مشکل ہے

آپ ہی سے نہ جب رہا مطلب

پھر رقیبوں سے مجھ کو کیا مطلب

تندرستی سے تو بہتر تھی مری بیماری

وہ کبھی پوچھ تو لیتے تھے کہ حال اچھا ہے

اب مجھے مانیں نہ مانیں اے حفیظؔ

مانتے ہیں سب مرے استاد کو

بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے

ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

لٹ گیا وہ ترے کوچے میں دھرا جس نے قدم

اس طرح کی بھی کہیں راہزنی ہوتی ہے

پی لو دو گھونٹ کہ ساقی کی رہے بات حفیظؔ

صاف انکار سے خاطر شکنی ہوتی ہے

وہ منائے گا جس سے روٹھے ہو

ہم کو منت سے عاجزی سے غرض

او آنکھ بدل کے جانے والے

کچھ دھیان کسی کی عاجزی کا

حسینوں سے فقط صاحب سلامت دور کی اچھی

نہ ان کی دوستی اچھی نہ ان کی دشمنی اچھی

پری تھی کوئی چھلاوا تھی یا جوانی تھی

کہاں یہ ہو گئی چمپت جھلک دکھا کے مجھے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے