مرزا ہادی رسوا کے اشعار
دلی چھٹی تھی پہلے اب لکھنؤ بھی چھوڑیں
دو شہر تھے یہ اپنے دونوں تباہ نکلے
کیا کہوں تجھ سے محبت وہ بلا ہے ہمدم
مجھ کو عبرت نہ ہوئی غیر کے مر جانے سے
مرنے کے دن قریب ہیں شاید کہ اے حیات
تجھ سے طبیعت اپنی بہت سیر ہو گئی
بعد توبہ کے بھی ہے دل میں یہ حسرت باقی
دے کے قسمیں کوئی اک جام پلا دے ہم کو
دیکھا ہے مجھے اپنی خوشامد میں جو مصروف
اس بت کو یہ دھوکا ہے کہ اسلام یہی ہے
ٹلنا تھا میرے پاس سے اے کاہلی تجھے
کمبخت تو تو آ کے یہیں ڈھیر ہو گئی
ہم نشیں دیکھی نحوست داستان ہجر کی
صحبتیں جمنے نہ پائی تھیں کہ برہم ہو گئیں
دل لگانے کو نہ سمجھو دل لگی
دشمنوں کی جان پر بن جائے گی
ضرب المثل ہے ہوتے ہیں معشوق بے وفا
یہ کچھ تمہارا ذکر نہیں ہے خفا نہ ہو
انہیں کا نام لے لے کر کوئی فرقت میں مرتا ہے
کبھی وہ بھی تو سن لیں گے جو بدنامی سے ڈرتے ہیں
بت پرستی میں نہ ہوگا کوئی مجھ سا بدنام
جھینپتا ہوں جو کہیں ذکر خدا ہوتا ہے
ہم کو بھی کیا کیا مزے کی داستانیں یاد تھیں
لیکن اب تمہید ذکر درد و ماتم ہو گئیں
ہے یقیں وہ نہ آئیں گے پھر بھی
کب نگہ سوئے در نہیں ہوتی
ہنس کے کہتا ہے مصور سے وہ غارت گر ہوش
جیسی صورت ہے مری ویسی ہی تصویر بھی ہو
چند باتیں وہ جو ہم رندوں میں تھیں ضرب المثل
اب سنا مرزا کہ درد اہل عرفاں ہو گئیں
برباد کر کے مجھ کو نہ ہوں منفعل حضور
میں آپ معترف ہوں کہ میرا قصور تھا
دبکی ہوئی تھی گربہ صفت خواہش گناہ
چمکارنے سے پھول گئی شعر ہو گئی
کس قدر معتقد حسن مکافات ہوں میں
دل میں خوش ہوتا ہوں جب رنج سوا ہوتا ہے
مری بیتابیوں کا حال غیروں سے نہ کہنا تھا
تم ایسے ہو تو پھر کوئی کسی کا راز داں کیوں ہو
رکھ لی مرے خدا نے گناہوں کی میرے شرم
زاہد کو اپنے زہد پہ کتنا غرور تھا
اسی پر منحصر تھی زندگی کیا
گھٹا جاتا ہے دم ضبط فغاں سے
اپنے صورت گر سے پوچھوں میں اگر مقدور ہو
کیا بنایا تھا مجھے تو نے مٹانے کے لیے
کھول تو آنکھ ذرا دیکھ تماشا کیا ہے
وہم ہے یا کہ حقیقت ہے یہ دنیا کیا ہے
جس کو برسوں ہنسی نہ آئی ہو
اس کو ناصح کی بات پر آئے
الحذر یہ کام دنیا میں تمہیں سے ہو سکا
چاہنے والے پہ اپنے کھینچنا شمشیر کا
تنگیٔ عیش میں ممکن نہیں ترک لذت
سوکھے ٹکڑے بھی تو فاقوں میں مزا دیتے ہیں
شکوؤں میں بھی انداز نہ ہو حسن طلب کا
ہاں اے دل بیتاب رہے پاس ادب کا
رکھتے ہیں حسن ظن یہ بتوں کی وفا سے ہم
جیسے کہ مانگتے ہیں دعائیں خدا سے ہم