Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اپنے بالوں کی حفاظت میں

غلام حیدر

اپنے بالوں کی حفاظت میں

غلام حیدر

MORE BYغلام حیدر

    ’’بدتمیز!‘‘ ایک تھپڑ

    ’’ناکارہ!‘‘ دوسرا تھپڑ

    ’’پاجی‘‘ اور پھر تو جیسے تھپڑوں کی بارش ہی ہونے لگی اور دن میں تارے نظر آنے لگے۔ دیوار پر لٹکی کبیر، غالب اور آئنسٹائن کی تصویری ایک دوسرے میں گڈمڈ ہوکر ناچ رہی تھیں اور پھر تو چہرے اور گنجے سر پر پڑنے والے بےشمار تھپڑوں کا حق دار ہوں؟ اس وقت میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا اور دلی کے ایک ہوسٹل میں رہتا تھا۔ میری آواز بہت اچھی تھی۔ شاید ہی اسکول کا کوئی جلسہ ایسا ہوا ہو جس میں میں نے کوئی نظم، ترانا یا گانا نہ گایا ہو۔

    ان دنوں ایک خاص جلسے کی تیاری چل رہی تھی۔ اس جلسے کی صدارت ملک کی ایک مشہور شخصیت کو کرنی تھی۔ تیاریاں پورے جوش و خروش کے ساتھ چل رہی تھیں۔ کئی ہفتے پہلے سے کلاسیں صاف ہونے لگی تھیں۔ دیواروں کو چارٹ اور تصویروں سے سجایا جا رہا تھا۔ ان دنوں ہر شخص کسی نہ کسی کام میں مصروف نظر آتا تھا۔

    ان خاص مہمان کے اعزاز میں ایک نظم بھی پڑھی جانی تھی اور ظاہر ہے کہ یہ کام میرے علاوہ اسکول میں کون کرتا۔

    ہاں، میں یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ اس زمانے میں میرے بال کچھ زیادہ ہی لمبےرہتے تھے۔ میرے بالوں کی وجہ سے کئی بار میرے والدین بھی مجھ سے ناراض ہو چکے تھے اور اسی لیے ہاسٹل میں داخل ہوتے وقت مجھے خوشی تھی کہ اب میں اپنے بالوں کو اپنی مرضی سے بڑھا سکتا ہوں۔

    مگر ہاسٹل میں داخل ہونے کے بعد جلدی ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہاں حالات اور بھی زیادہ خراب تھے۔

    ہمارے وارڈن صاحب یوں تو بہت نیک اور محترم بزرگ تھے۔ لیکن تھے میرے والدین سے بھی زیادہ سخت وہ ایک آرٹسٹ تھے اور غیرضروری حد تک ہر چیز کی صفائی اور سلیقے پر زور دیتے تھے۔۔۔ ظاہر ہے کہ میرے بال بہت جلد ہم دونوں کے بیچ فساد کی جڑ بن گئے تھے۔

    ہر اتوار کو ہوسٹل میں ایک بوڑھا نائی آتا تھا، جسے ہم خلیفہ جی کہا کرتے تھے۔ میرا اتوار کا دن وارڈن صاحب کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے گذرتا تھا۔ لیکن لاکھ کوششوں کے باوجود بھی چوتھے یا پانچویں ہفتے مجھے پکڑ کر خلیفہ جی کے حوالے کر ہی دیا جاتا تھا۔ خلیفہ جی کو میرا نام بھی لیتے جھر جھر آتی تھی۔ میں تھا ہی اتنا شیطان۔ میرے بالوں کو چھوتے ہوئے ان کے ساتھ کانپنے لگتے تھے۔

    جلسے سے پہلے اتوار کو صبح سے ہی وارڈن صاحب بار بار مجھے آگاہ کر چکے تھے کہ اگر میں نے بال نہیں کٹوائے تو بہت سخت سزا ملےگی۔

    وارڈن صاحب کی یہ بات مجھے سخت ناگوار گذر رہی تھی۔ کیونکہ میری خواہش تھی کہ اسٹیج پر میں اپنے بالوں کا شاندارتاج پہن کر جاؤں۔

    وارڈن صاحب کے چنگل سے بچ نکلنا ناممکن ہو گیا اور مجھے سیدھا خلیفہ جی کے حوالے کر دیا گیا۔

    جس کا خوف تھا وہ گھڑی آ گئی تھی۔ یہی وقت تھا فیصلہ کرنے کا۔ وارڈن صاحب کی دھمکیوں سے ڈر کر خود کو ان کے حوالہ کر دوں یا پھر بغاوت۔

    اور بس مجھے شیطان نے ورغلا دیا اور میں نے بدلا لینے کی ٹھان لی۔ آج مجھے اپنا اگلا پچھلا سب حساب برابر کرنا تھا۔ میں نے شرافت سے خلیفہ جی کے سامنے اپنا سر پیش کر دیا اور سر پر استرا پھیرنے کی ہدایت کی۔

    ظاہر ہے کہ خلیفہ جی نے میری بات پر ذرا سا بھی یقین نہیں کیا۔ لیکن میری ضد کے آگے آخرکار انہیں بار ماننی ہی پڑی۔ خلیفہ جی نے سر پر پانی لگایا استرا اٹھانے سے پہلے ایک بار پھر مجھ سے پوچھا۔

    ’’میاں، تو کیا تم سچ مچ گنجے ہونا چاہتے ہو؟‘‘

    خلیفہ جی کو یقین دلانے میں مجھے تقریباً دس منٹ لگے تھے۔ آخرکار کانپتے ہاتھوں سے انہوں نے استرا میرے سر پر پھیرنا شروع کر ہی دیا۔ کچھ ہی دیر میں میرے سر پر تین بار استرا پھیرا جا چکا تھا۔ اب میری چمکتی کھوپڑی پر بال کا نام ونشان تک نہ تھا۔ میں ننے اپنی بھنویں بھی کچھ چھٹوا دیں۔ پھر میں نے بڑی احتیاط سے سر پر تیل لگا کر خوب چمکایا۔ کمرے میں جاکر ایک نیکر پہنا، کندھے پر تولیہ ڈالا اور بڑی شان سے ہاسٹل سے باہر نکلا۔ میرے ساتھی ہنستے ہنستے پاگل ہوئے جارہے تھے۔ تالیاں بجاتے شور مچاتے ہوئے وہ بھی میرے پیچھے ہو لیے۔ ہڑدنگوں کی اس ٹولی کے آگے آگے بدھ بھکشو جیسی شکل میں میں چل رہا تھا۔

    وراڈن صاحب ایک کلاس سجانے میں مصروف تھے۔ ہمارا ہنستا غل مچاتا۔ یہ جرگہ جب وہاں سے گزرا تو وہ گھبرا کر جلدی سے باہر نکل آئے۔ مجھے اس حال میں دیکھ کر تو جیسے انہیں سکتہ سا ہو گیا۔ شاید انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ انہوں نے مجھے کئی بار سر سے پاؤں تک دیکھا اور پھر وہی ہوا جس کی مجھے امید تھی۔

    اس دن میری خوب دھنائی ہوئی۔۔۔ خیر آج مجھے لگتا ہے کہ شاید وہ ضروری بھی تھی۔

    ظاہر ہے کہ ایسی شکل میں مجھے اسٹیج پر نہیں جانے دیا گیا مگر اس سے بھی بری بات یہ تھی کہ کئی مہینوں تک مجھے ایک بھکشو کی طرح رہنا پڑا اور یار دوستوں کی ٹول بازی کا نشانہ بننا پڑا۔ البتہ اس کے بعد سے کبھی کسی نے مجھ سے بال کٹوانے کے لئے نہیں کہا۔

    اور آج تک اپنے بالوں کا میں خود ہی مالک ہوں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے