aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چڑیا کا خزانہ

افسر میرٹھی

چڑیا کا خزانہ

افسر میرٹھی

MORE BYافسر میرٹھی

    بہت دن ہوئے جاپان میں ایک بڈھا اور ایک بڑھیا رہتے تھے ان کے گھر ایک چڑا روز آتا اور دانا دنکا چن کر اڑ جاتا۔ دونوں میاں بیوی اس چڑے کا انتظار کرتے رہتے۔ وہ اس کے لیے دانہ اور ایک پیالی میں پانی رکھ دیتے۔ چڑا آتا دانہ کھاتا ادھر ادھر گھومتا، کبھی ان کے کندھوں پر بیٹھتا کبھی ہاتھوں پر اور پھر اڑ جاتا۔

    ایک دن بڑھیا اپنے صحن میں چڑے کا انتظار کر رہی تھی کہ اس کی بدمزاج پڑوسن آئی اور کہنے لگی’’کیا اپنے چڑے کا انتظار کر رہی ہو؟ اب وہ موا تمہارے یہاں کبھی نہیں آئےگا، ارے ہاں کمبخت نے ناک میں دم کر رکھا تھا، آج میرے چاول اڑا گیا، کل میری دال ہضم کر گیا، میں نے بھی کل اس کی چونچ توڑ کے رکھ دی۔‘‘

    بڈھے بڑھیا دونوں کو پڑوسن کی رام کہانی سن کر بڑا رنج ہوا۔ وہ سوچنے لگے اب بے چارہ چڑا بھوکوں مر جائےگا، کم سے کم اب وہ کسی انسان کے تو پاس بھی نہیں پھٹکےگا کہ انسان کا کیا بھروسا۔

    آخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ چلو جنگل میں چل کر چڑے کا گھونسلہ تلاش کریں اور اس سے انسان کے برے برتاؤ کے لیے معافی مانگیں۔

    بڑھیا اور اس کا بڈھا دونوں جنگل میں پہنچے اور ڈھونڈتے ڈھونڈتے انہوں نے اپنے دوست چڑے کا پتہ لگا لیا۔ چڑا ان دونوں کو دیکھ کر باہر نکلا۔ اس کی چڑیا اور دوبچے بھی ساتھ تھے وہ سب ان نیک انسانوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور خوب چہچہائے۔

    چڑا بولا، ’’آج مجھے کتنی خوشی ہے کہ میرے میزبان آج خود میرے مہمان ہیں، جو اچھا برتاؤ آپ دونوں میرے ساتھ کرتے رہے ہیں اور جس محبت سے آپ میرے ساتھ پیش آتے رہے ہیں اس کا شکریہ بھلا میں کیوں کر ادا کر سکتا ہوں؟‘‘

    چڑیوں نے پھر بہت سے پھل پھلار کر اکٹھے کر دیے جو سب نے مل کر خوب کھائے۔

    جب بہت دیر اسی طرح گزر گئی تو بڈھے بڑھیا نے چڑے سے گھر جانے کی اجازت مانگی، چڑا جلدی سے بہت چھوٹی چھوٹی دو ٹوکریاں لایا اور کہنے لگا’’ان میں سے ایک ٹوکری ہلکی ہے اور ایک بھاری ہے، دونوں میں سے آپ ایک لے لیجئے، بتائیے کون سی ٹوکری آپ لیجئےگا؟‘‘

    بڈھا بولا، ’’ہم پر آپ کی خاطرداری کا احسان ہی کیا کم ہے جو اب یہ تحفہ لے کر اس احسان کا بوجھ اور بڑھائیں۔‘‘

    چڑا، نہیں یہ ہرگز نہیں ہو سکتا، ان دونوں میں سے ایک ٹوکری تو آپ کو لینی ہی ہوگی۔

    بڈھا، اچھا اگر آپ کی یہی مرضی ہے تو ہمیں ہلکی والی ٹوکری دے دیجئے۔

    غرض چڑے چڑیا کا شکریہ ادا کرکے اور اپنے گھر آنے کی دعوت دے کر بڈھا بڑھیا دونوں وہ ہلکی ٹوکری لیے ہوئے اپنے گھر پہنچے اور اس ٹوکری کو کمرے میں رکھ دیا زمین پر رکھتے ہی وہ منی سی ٹوکری جو مشکل سے ایک آلو کے برابر ہوگی بڑی ہونے لگی اور بڑھتے بڑھتے ایک اچھے خاصے صندوق کے برابر ہو گئی، دونوں کو بڑا تعجب ہوا، مگر جب اس صندوق کو کھولا تو اور بھی زیادہ تعجب ہوا۔ سارا صندوق بہت قیمتی ریشم کے کپڑوں اور جواہرات سے بھرا ہوا تھا۔ چڑے کی دوستی نے ان کو عمر بھر کے لیے بےفکر کر دیا۔ اب انہیں کبھی غریبی کا منہ دیکھنا نہیں پڑےگا۔

    اب سنو، ان دونوں کو خوش حال دیکھ کر بدمزاج پڑوسن دوڑی ہوئی آئی اور سارا حال معلوم کر کے سیدھی جنگل کو روانہ ہو گئی۔ بڈھے کے بتائے ہوئے پتے کے مطابق اسے جلد ہی چڑے کا گھونسلہ مل گیا۔ پڑوسن نے گھونسلے پر دستک دی۔ چڑا باہر نکلا اور اس کو دیکھتے ہی ناک بھوں چڑھا کر بولا’’ کیوں کیا کام ہے؟

    پڑوسن بولی’’مجھے بڑا افسوس ہے کہ میں نے اس دن تمہاری ذرا سی چونچ توڑ دی، بات یہ تھی کہ مجھے غصہ آ گیا تھا۔ کسی کی چیز غارت ہوتی ہے تو غصہ آ ہی جاتا ہے، خیر اب ان باتوں کو چھوڑو میں تمہاری مہمان ہوں، مجھے کوئی تحفہ دو‘‘۔

    چڑا اس کی باتیس سن کر مسکرایا اور اندر جاکر وہ منی منی ٹوکریاں اٹھا لایا اور کہنے لگا’’ان میں سے ایک ٹوکری لے لو۔ لالچی عورت نے فوراً بھاری والی ٹوکری اٹھالی اور سیدھی اپنے گھر کو سدھاری، یہاں تک کہ چڑے کا شکریہ بھی ادا نہیں کیا۔

    یہ ٹوکری بڈھے بڑھیا والی ٹوکری سے بھی زیادہ عجیب تھی، ان کی ٹوکری تو گھر پہنچ کر بڑی ہوئی تھی، یہ راستے ہی میں بڑھنے لگی اور ہوتے ہوتے اتنی بڑی اور اتنی بھاری ہو گئی کہ اس عورت کے سنبھالے نہ سنبھلتی تھی۔ مگر بڑھیا بہت خوش تھی وہ سمجھ رہی تھی اس میں جواہرات بھرے ہوئے ہیں اور جواہرات تو بھاری ہوتے ہی ہیں۔ غرض کسی نہ کسی طرح اسے گھسیٹ کر گھر لے ہی آئی، دو چار منٹ دم لینے کے بعد تھکے ماندے ہاتھوں سے صندوق کھولا اک دم دو بھتنے اس کے اندر سے قہقہہ لگاتے ہوئے باہر نکل پڑے اور اس عورت کو پکڑ کر اس جزیرے میں لے گئے جہاں ایسے لوگوں کو سخت سزا دی جاتی ہے جو جانوروں کو ستاتے ہیں اور ان پر ظلم کرتے ہیں۔

    مأخذ:

    جاپانی کہانیاں (Pg. 34)

      • ناشر: اترپردیش اردو اکیڈمی، لکھنؤ
      • سن اشاعت: 1981

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے