Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

علم کی پیاس

MORE BYمسز افتخار بیگم صدیقی

    بچو! کبھی تم نے ڈپٹی نذیر احمد کا نام بھی سنا ہے؟ یہ ایک بڑے پایہ کے عالم، قانون داں اور اردو کے پہلے ناول لکھنے والے تھے۔ خود ان کی زندگی کی کہانی بڑی دلچسپ اور سبق آموز ہے۔

    نذیر احمد ایک بہت غریب آدمی کے بیٹے تھے۔ انہیں لکھنے پڑھنے کا بچپن ہی سے بڑا شوق تھا مگر ان کے باپ بیچارہ کے پاس اتنا پیسہ کہاں تھا کہ بچے کی پڑھائی کا انتظام کرتے۔ اس زمانے میں آج کل کی طرح جگہ جگہ ایسے اسکول تو تھے نہیں کہ جہاں بغیر پیسے خرچ کئے غریبوں کے بچے تعلیم حاصل کر سکیں۔ ان کے شوق کو دیکھ کر باپ نے انہیں ایک مولوی صاحب کے پاس چھوڑ دیا۔ مولوی صاحب تھے تو بڑے قابل مگر بڑے سخت بھی تھے، اور غریب بھی۔ ایک مسجد میں رہتے تھے۔ وہیں بہت سارے بچوں کو اکٹھا کر کے پڑھایا کرتے۔ وہ فیس کسی سے نہیں لیتے تھے۔ جو امیر بچے ہوتے تھے ان کے گھروں سے مولوی صاحب اور ان کے ساتھ رہنے والے غریب بچوں کے لئے کھانا آ جایا کرتا تھا۔ اس طرح نزیر احمد وہاں رہنے لگے۔ ان کے سپرد یہ کام تھا کہ گھروں میں جاکر کھانا لے آیا کریں۔ اس سے انہیں گھر والوں کی گھڑکیاں بھی سننی پڑتیں۔ چھوٹا بڑا کام بھی کرنا پڑتا اور کبھی کبھی کام بگڑ جانے پر مار بھی کھانا پڑتی۔ مگر پڑھائی کی خاطر وہ یہ سب برداشت کر لیتے۔

    ایک روز کیا ہوا کہ وہ کشمیری گیٹ کی طرف سے گذر رہے تھے۔ وہاں دہلی کالج کا سالانہ جلسہ ہو رہا تھا اور پاس ہونے والوں کو ڈگریاں مل رہی تھیں۔ بڑی بھیڑ تھی۔ نذیر احمد کا بھی جلسہ دیکھنے کو دل چاہا اور وہ بھیڑ میں گھس گئے۔ مگر اتنے لوگ تھے کہ وہ دھکا کھا کر گر گئے اور بےہوش ہو گئے۔ لوگ اٹھا کر پرنسپل کے دفتر میں لے گئے اور پانی کے چھینٹے وغیرہ دے کر ہوش میں لایا گیا۔ جب ہوش آیا تو پرنسپل جو کہ انگریز تھا اس نے پوچھا کہ تم کون ہو اور کہاں پڑھتے ہو؟ وہ بیچارے کسی اسکول میں تو پڑھتے نہ تھے۔ اپنی مسجد کا نام بتا دیا اور جو کتابیں مولوی صاحب سے پڑھتے تھے وہ بتلا دیں۔ کتابیں وہ تھیں جو بڑے لوگ بھی مشکل سے پڑھ اور سمجھ پائیں۔ پرنسپل سمجھا یہ ایسے ہی گپ مار رہے ہیں۔ اس نے انہیں آزمانے کو دو چار سوال کر ڈالے۔ انہوں نے ایسے جواب دیئے کہ پرنسپل حیران رہ گیا۔ اس نے پوچھا تم ہمارے کالج میں پڑھو گے۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ نذیر احمد نے فوراً ہاں کر دی مگر اپنی غریبی کا بھی حال کہہ دیا۔ پرنسپل نے ان کا وظیفہ مقرر کر کے انہیں کالج میں داخلہ دے دیا۔ اپنے شوق کی بدولت انہوں نے اونچی تعلیم حاصل کی اور اپنے زمانے کے مشہور ادیب، ماہر تعلیم، اور قانون داں کہلائے۔

    مأخذ:

    بڑوں کا بچپن (Pg. 35)

    • مصنف: مسز افتخار بیگم صدیقی
      • ناشر: ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ
      • سن اشاعت: 1983

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے