Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سمندر کا کھارا پانی

ٹو موذی موتو

سمندر کا کھارا پانی

ٹو موذی موتو

MORE BYٹو موذی موتو

    دلچسپ معلومات

    (جاپان کی لوک کہانی)

    پرانے زمانے کی بات ہے ایک گاؤں میں دو بھائی رہتے تھے۔ بڑا بھائی تو امیر تھا لیکن چھوٹا بھائی تھا کنگال۔ ایک دفعہ نئے سال کے دن جب کہ سارا شہر جشن کی تیاری کر رہا تھا اس چھوٹے بھائی کے گھر کھانے کو چاول نہ تھے۔ وہ اپنے بڑے بھائی سے ایک سیر چاول ادھار مانگنے کے لیے گیا لیکن اس نے اسے ٹکا سا جواب دے دیا جب وہ نا امید ہو کر واپس آرہا تھا تو اسے راستے میں لکڑی کا بھاری گٹھا اٹھائے ہوئے ایک بوڑھا ملا۔ بوڑھے نے اس سے پوچھا:

    ’’تم کہاں جا رہے ہو؟ معلوم ہوتا ہے تم کسی مصیبت میں پڑے ہوئے ہو؟‘‘

    چھوٹے بھائی نے اسے اپنی مصیبت کی ساری کہانی سنا دی بوڑھے نے اسے حوصلہ دلاتے ہوئے کہا۔ ’’اگر تم لکڑی کے اس گھٹے کو میرے گھر تک پہنچا دو تو میں تمہیں ایک ایسی چیز دوں گا جس کی مدد سے تم مالا مال ہو جاؤگے۔‘‘

    چھوٹا بھائی بہت رحمدل تھا اس نے لکڑی کا گٹھا سر پر رکھ لیا اور بوڑھے کے پیچھے پیچھے چل دیا۔

    گھر پہنچ کر بوڑھے نے اسے ایک مال پوا دیا اور کہا۔ ’’اس کو لے کر تم مندر کے پیچھے جو جنگل ہے وہاں جاؤ وہاں ایک بل ہے جس میں بہت سے بونے رہتے ہیں ان بونوں کو یہ مال پوئے بہت پسند ہیں وہ کسی بھی قیمت پر اسے حاصل کرنا چاہیں گے۔‘‘

    اس وقت اس کے بدلے میں تم دھن دولت نہ مانگنا بلکہ پتھر کی ایک چکی مانگ لینا۔ بعد میں تمہیں اس چکی کی کرامات معلوم ہو جائےگی۔

    بوڑھے سے رخصت ہو کر چھوٹا بھائی اس جنگل میں آیا۔ مندر سے کچھ دور اسے ایک بل میں بہت سے بونے نکلتے اور اندر جاتے نظر آئے۔ وہ ایک درخت کو کھینچ کر اپنے بل تک لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ ان کے لیے بہت مشکل کام تھا۔

    چھوٹے بھائی نے کہا۔’’اچھا میں تمہارے لیے یہ درخت بل تک لے چلتا ہوں۔‘‘ بل کے پاس آکر اسے ایک مہین سی آٰواز سنائی دی ’’مجھے بچائیے میں مر جاؤں گا۔‘‘ یہ سن کر چھوٹے بھئی نے گھبرا کر چاروں طرف دیکھا۔ اس کے پاؤں کی انگلیوں کے بیچ میں ایک ننھا سا بونا بھینچا جا رہا تھا اس نے بونے کو جھٹ سے اٹھا لیا۔ اصل میں یہ بونوں کا راجکمار تھا۔

    بونوں کے راجکمار کی نظر جب مال پوئے پر گئی تو وہ بولا: ’’مہربانی کر کے یہ مال پوا مجھے دے دیجئے اس کے بدلے میں آپ کو بہت سے جواہرات دوں گا۔‘‘ لیکن چھوٹے بھائی کو بوڑھے کی بات یاد تھی۔ اس نے مال پوئے کے بدلے میں پتھر کی چکی مانگی۔ آخرکار بونے راجکمار کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے راجہ نے چکی دینا منظور کر لیا۔ جب چکی لے کر چھوٹا بھائی چلنے لگا تو بونے راجہ نے کہا۔ ’’دیکھو بھائی یہ ہمارے راج کی سب سے قیمتی چیز ہے اس کا استعمال سوچ سمجھ کرنا۔ تم اس چکی کو داہنی طرف سے چکر دے کر جو چیز مانگوگے وہ اس میں سے نکلنی شروع ہو جائےگی اور جب تک اسے بائیں طرف سے چکر نہیں دوگے وہ چیز نکلتی ہی جائےگی۔

    چھوٹا بھائی پتھر کی چکی لے کر گھر آیا۔ اس کی بیوی اپنے شوہر کے انتظار میں بھوکی پیاسی بیٹھی ہوئی تھی۔ شوہر کو خالی ہاتھ آتے دیکھ کر وہ بہت ناامید ہوئی۔ مگر چھوٹے بھائی نے آتے ہی کہا۔ ’’جلدی سے فرش پر چٹائی بچھاؤ۔

    چٹائی پر چکی رکھ کر چھوٹے بھائی نے اسے داہنی طرف سے گھما کر کہا ’’چاول نکلو‘‘ بس اتنا کہنا تھا کہ چاولوں کے ڈھیر لگ گئے۔ پھر وہ بولا ’’مچھلی نکلو‘‘ اب مچھلی نکلنا شروع ہو گئی۔ اس طرف اس کو جن جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ سب اس نے چکی سے حاصل کر لیں۔

    پھر اسے خیال آیا کہ اب تو میں امیر آدمی ہوں مجھے تو عالیشان مکان میں رہنا چاہیئے۔ اس لیے اس نے چکی کو گھماکر نیا مکان اصطبل، گودام غرض یہ کہ شان و شوکت کی سب چیزیں مانگ لیں۔ پھر اس نے اپنے اڑوس پڑوس کے سب لوگوں کو دعوت دی۔ اس طرح اس نے نئے سال کا جشن خوب دھوم دھام سے منایا۔

    یہ دیکھ کر بڑا بھائی سوچنے لگا کہ میرا چھوٹا بھائی ایک رات میں لکھ پتی کیوں کر بن گیا۔ اس میں ضرور کوئی بھید ہے۔ وہ چھپ کر دروازے کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔ اس نے دیکھا کہ چھوٹا بھائی ایک چکی کو گھما کر مٹھائی کے ٹوکروں کے ٹوکرے بھر رہا ہے اور انہیں مہمانوں کو دے رہا ہے۔ بڑے بھائی نےارادہ کر لیا کہ میں کسی نہ کسی طرح اس چکی کو ضرور حاصل کروں گا۔

    رات کو جب سب سو رہے تھے وہ اپنے بھائی کے گھر پچھواڑے سے گھسا اور چکی اٹھا لایا۔ چکی کو لے کر وہ ایک کشتی میں سوار ہو گیا اور ارادہ کیا کہ کسی الگ جزیرے میں اسے لے جاؤں اور لکھ پتی ہو جاؤں۔ ہوا ایسا کہ اپنی کشتی میں ضرورت کی اور سب چیزیں تو وہ لے آیا تھا مگرنمک لانا بھول گیا تھا۔ اس نے چکی چلا کر کہا: ’’نمک نکلو، نمک نکلو‘‘

    کہنے کی دیر تھی کہ چکی میں سے ڈھیروں نمک نکلنا شروع ہو گیا۔ بڑے بھائی کو چکی روکنے کا طریقہ معلوم نہیں تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نمک کے بوجھ سے بڑا بھائی کی کشتی سمندر میں ڈوب گئی۔

    لوگوں کا کہناہے کہ تک تب سے وہ چکی سمندر میں برابر چل رہی ہے اور اس کے نمک سے سمندر کا سارا جل کھاری ہو رہا ہے۔

    مأخذ:

    دیس دیس کی لوک کہانیاں (Pg. 36)

      • ناشر: پبلیکیشنز ڈویژن، دہلی
      • سن اشاعت: 1957

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے