Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ٹمرک ٹوں

اکشے کمار شرما

ٹمرک ٹوں

اکشے کمار شرما

MORE BYاکشے کمار شرما

    دلچسپ معلومات

    راجستھانی بچوں کی لوک کہانی

    بھرپور چوماسے کے دن کھیتوں کی بات نہ پوچھئے! باجرے کی ہری بالیں ان میں دودھیا دانے اوران پر سنہری کوں کوں، جیسے موتیوں پر کسی نے سونے کا پانی چڑھا دیا ہو۔ تربوز کی ہری ہری بیلوں کی نالیں دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ننگ دھڑنگ رہنے والی سنہری ریت نے اپنے اوپرجیسے ابھی ابھی ہرے رنگ کا باریک ددپٹہ ڈال لیا ہو اور بھوریئے کسان کا کھیت تو سب سے بازی لے گیا۔ باجرے کے ایک ایک بوٹے میں دس دس بالیں۔ بھوریا دن بھرنا چتا پھرتا کھیت میں کام کرتا ایک کمیٹری (کبوتر کی طرح کاایک پرندہ ۔فاختہ) نے بھوریئے کے کھیت کو دیکھا۔ اس کادل للچا اٹھا۔ وہ ہرروز سویرے چوگے پانی کے لئے بھوریئے کے کھیت پر پہنچ جاتی پھر پھر کرتی ہوئی اڑ کر باجرے پر جا بیٹھتی۔ دانے چگتی اور اڑ جاتی۔ بھوریا پیپا بجاکر چڑیوں کو اڑاتا۔

    ایک دن بھوریئے نے کمیٹری سے کہا ۔’’تومیرے کھیت میں نہ آیا کر نہیں تومیں تجھے پکڑ لوں گا۔‘‘

    کمیٹری نے کہا :’’کھیت تیرا اکیلے کا نہیں۔ میری ماں میری دادی، میری پڑدادی یہیں دانے چگتی تھیں۔ تومجھے پکڑےگا؟میں پھر پھر کر اڑنے والاپرندہ !میری ماں کہتی تھی آدمی ہیکری کا پتلا ہے۔ آج بات سچ نکلی۔‘‘

    بھوریا چپ رہا۔ دوسرے دن بھوریا کو شرارت سوجھی کھیجڑی پرایک پھندا ڈالا۔ کمیٹری اڑتی کھیجڑی پر بیٹھنے آئی اور اس کے پاؤں الجھ گئے۔ بھوریا تاک میں بیٹھا تھا۔ دوڑا دوڑا آیا۔ بھوریا نے کمیٹری کے پاؤں کو کس کر باندھا اور اسے الٹا لٹکا دیا اور کہنے لگا۔ ’’اوپرندے ! اب اڑ!!‘‘

    کمیٹری بےچاری چپ۔ وہ کچھ نہ بولی۔ وہ جانتی تھی۔ بھوریئے کا دل پتھر ہے۔ وہ داد فریاد سے پگھلنے والا نہیں۔چونچ کو تھوڑا سا ترچھا کرکے اس نے صرف بھوریئے کو دیکھا اور بھوریا کہتا گیا:’’اوپرندے!اب اڑکے دکھا۔‘‘

    گائیوں کا ایک گوالا کھیت کی منڈیر کے پاس سے نکلا۔ ایک ہاتھ میں لاٹھی اور دوسرے میں الغوزا۔ گائیوں کا جھنڈپاس ہی چر رہا تھا ۔ کمیٹری نے روتے روتے کہنا شروع کیا:

    گائیاں کا گنوالیہ رے ویر ٹمرک ٹوں

    بندھی کمیٹری چھڑائی مہاراویر! ٹمرک ٹوں

    وڈنگر لارے بچہ رے ویر! ٹمرک ٹوں

    ننھا ننھا بچہ رے ویر! ٹمرک ٹوں

    آندھی سوں اڑ جاسی رے ویر!ٍ ٹمرک ٹوں

    میہاں سے گل جاسی رے ویر! ٹمرک ٹوں

    لواں سوں جل جاسی رے ویر! ٹمرک ٹوں

    ’’اے گائیوں کے گوالے، اے میرے بھائی

    بندھی کمیٹری کو چھڑاؤنا بھائی!

    میرے بچے پہاڑی کے پیچھے ہیں۔

    وہ آندھی سے اڑ جائیں گے۔

    مینہ سے گل جائیں گے۔

    لو سے جل جائیں گے۔

    کمیٹری کی آوازمیں بےحد دکھ تھا۔ دردتھا۔ اس کا دل رو رہاتھا۔ تڑپ رہا تھا۔ گوالا رکا اس نے کھیجڑی پربندھی ہوئی کمیٹری کودیکھا۔ گوالے کی آنکھوں میں موتی کی طرح بڑے بڑے آنسو بھر آئے وہ بیچارہ کیا کرتا۔ بھوریا سے وہ ڈرتاتھا۔ بھوریا جھگڑالو سوتے ناگ کو کون چھیڑے؟ گوالے نے بھوریئے سے کہا: بھائی بھوریا! میری ایک اچھی دودھ والی گائے لے لو اور اس کمیٹری کوچھوڑ دو۔‘‘

    لیکن بھوریئے نے کہا، نہ بھائی نہ ! گوالی بیچارہ چلتا بنا

    اتنے میں اونٹوں کارائکا (اونٹ چرانے والا) ادھرسے نکلا۔اسے مخاطب کرکے کمیٹری نے پھر وہی گیت گایا۔

    رائکا چلتا بنااسی طرح بھیڑ اور بکری چرانے والا نکلا۔ مگر بھوریا ٹس سے مس نہ ہوا۔ اتنے میں چوہا بل سے نکلا۔چوہے نے کمیٹری کو آواز لگاتے ہوئے کہا۔

    ’’کمیٹری بائی نیچے آؤ!

    دھول میں کھیلو گیت سناؤ:

    مگر کمیٹری نے روتے روتے کہا۔ چوہے بھیا! دیکھتے نہیں بھوریئے نے مجھے باندھ دیاہے۔ میں تو اب مرکر ہی نیچے آؤں گی۔ میں اب کبھی نہیں گا سکوں گی کبھی نہ کھیل سکوں گی۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے پہاڑی کے پیچھے۔۔۔‘‘

    یہ کہتے کہتے کمیٹری کا گلا بھر آیا۔چوہا باہر نکل کر دیکھنے لگا۔ اس نے مونچھوں کو ہلاتے ہوئے کہا۔’’ڈرو نہیں کمیٹری بہن! بھوریئے کا پھندا تو کیا ایک بار موت کے پھندے سے بھی تمہیں چھڑا سکوں گا۔‘‘

    اتنے میں بھوریا آتا ہوا دکھائی دیا۔ چوہے نے بھوریے سے کہا۔’’بھوڑیا! او بھوریا! میرے پاس زمین میں سونے کا خزانہ ہے۔ تم کمیٹری کو چھوڑدو تو میں تمہیں نہال کروں گا۔ تمہارا گھر سونے سے بھردں گا۔‘‘ بھوریا سونے کانام سن کر راضی ہو گیا۔ کہنے لگا ’’چوہے جی راج! تم زمین کے راجہ ہو تمہاری بات نہیں مانوں گا تو کس کی مانوں گا؟‘‘ اتناکہہ کر بھوریئے نے کمیٹری کی ٹانگیں کھول دیں۔ کمیٹری پھر پھر کرتی ہوئی اڑگئی۔

    چوہا بل میں گھستے ہوئے کہنے لگا۔’’سچ، آدمی لالچی بھی ہے۔ ٹمرک ٹوں!‘‘

    مأخذ:

    بھارت کی لوک کہانیاں (Pg. 130)

    • مصنف: نامعلوم مصنف
      • ناشر: پبلیکیشنز ڈویژن، دہلی
      • سن اشاعت: 1957

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے