aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گھاس کی شکایت

نامعلوم

گھاس کی شکایت

نامعلوم

MORE BYنامعلوم

    راجاوکرمادتیہ بھارت کے مشہور راجا تھے۔ کہا جاتا ہے کہ راجا کو بھگوان نے وہ طاقت دی تھی کہ وہ چھپی ہوئی چیزوں کا پتہ چلا لیتے تھے۔ ایک دن انہوں نے اپنے دربار میں کہا کہ وہ جنگل کی سیر کرنا چاہتے ہیں۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ا کی حکومت میں جانوروں اور جنگلی چیزوں کو کوئی دکھ تو نہیں پہنچتا۔ دربار میں تیاری شروع ہوئی۔ مہاراجہ اور ان کے وزیر تیار ہو کر جنگل پہنچے۔ جنگل میں کوئی راستہ تو تھا نہیں۔ انہوں نے دیکھا کہ ہر طرف گھاس ہی گھاس ہے اور گھاس بھی اتنی لمبی کہ راجا اور اس کے درباریوں کا چلنا مشکل ہوگیا تھا۔ راجا نے گھاس سے شکایت کی ’’گھاس تو اتنی کیوں بڑھ گئی۔ کیا کوئی تیرے پاس نہیں أتا۔‘‘ گھاس نے کہا’’مہاراج! میں کیا کروں۔ مجھے تو خود بہت تکلیف ہے میں جب بڑھ جاتی ہوں تو مجھے کھانے میں تکلیف ہوتی ہے۔ میں پانی بھی پیٹ بھر کر نہیں پی سکتی۔ پہلے یہاں گائے آیا کرتی تھیں وہ مجھے کھا جاتی تھیں لیکن اب اس نے بھی آنا چھوڑ دیا ہے اسی لئے میں بہت بڑھ گئی آپ کو تکلیف ہوئی اس کے لیے مجھے معاف کردیجئے گا۔‘‘

    مہاراجا جنگل کی سیر کر کے واپس آئے تو انہوں نے حکم دیا کہ تمام گائیں حاضر ہوں۔

    گائے آئیں اور مہاراج کے آگے سر جھکا کر کھڑی ہوگئیں۔ مہاراج۔ پوچھا۔ ہم کل جنگل کی سیر کو گئے تھے۔ وہاں گھاس کو تم سے بہت شکایت ہے کہ تم اسے کھانے کے لئے جنگل نہیں جاتیں۔

    ’’مہاراج! ہمیں معاف کریں۔ ہم تو خود بھوکے رہتے ہیں ہمیں کھانے کے لئے بہت کم گھاس ملتی ہے۔ گوالا ہمیں جنگل تک نہیں لے جاتا ہم بس ادھر ادھر سے پھر کر واپس آجاتے ہیں‘‘ ایک گائے نے جواب دیا۔

    ’’اچھا گوالے کو حاضر کیا جائے‘‘ مہاراجا نے حکم دیا۔

    مہاراجا کے حکم کی دیر تھی کہ سپاہی گوالے کو بلانے کے لئے چل دیئے۔ گوالا ایک پیڑ کے نیچے آرام کر رہا تھا۔ سپاہیوں نے جاکر مہاراجا کا حکم سنایا۔ گوالا نے سپاہیوں سے پوچھا ’’سرکار! کیا بات ہے۔ مہاراجا مجھ سے کیوں خفا ہیں جو مجھے بلایا ہے۔ مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی کیا؟ یہ تو میں جانتا ہوں کہ سرکار نے بغیر کسی غلطی کے آج تک کسی کو سزا نہیں دی ہے ضرور مجھ سے کوئی بھول ہوئی ہے۔‘‘

    سپاہی اسے پکڑ کر لے گئے۔ گوالے نے مہاراج کے آگے ماتھا پٹکا اور کہا۔ ’’حضور مجھ سے جو بھول ہوئی ہو اسے معاف کردیں‘‘ مہاراج نے کہا۔ ’’یہ گائے شکایت کر رہی ہیں کہ تم انہیں جنگل نہیں لے جاتے اور یہ گھاس نہیں کھا سکتیں۔ وہاں گھاس بڑھتی جارہی ہے۔‘‘

    گوالے نے کہا ’’جی سرکار صحیح ہے مگر میں کیا کروں۔ میرا مالک مجھے اتنا کم کھانے کو دیتا ہے کہ خود میں دن بہ دن کمزور ہوتا جارہا ہوں۔ وہاں تک جانے کی کوشش کرتا ہوں مگر جا نہیں سکتا۔ اگر مجھے کھانے کو ملے تو میرے اندر طاقت آجائے اور پھر یہ گائیں جنگل جانے لگیں۔‘‘

    مہاراجا نے فوراً گوالے کے مالک کو بلانے کے لئے اپنے سپاہی دوڑا دیے۔ ذرا سی دیر میں مالک روتا پیٹتا آپہنچا۔

    ’’حضور سرکار! مجھے معاف کردیجئے۔ میری کیا خطا ہے۔‘‘

    وہاں تو دربار لگا تھا۔ گوالا گائے اور گھاس سب ہی موجود تھے۔ مہاراجا نے اس سے پوچھا ’’تم اس گوالے کو کھانے کے لئے کیوں نہیں دیتے۔ یہ کمزور ہوتا جارہا ہے اور اسی لئے یہ گایوں کو جنگل تک نہیں لے جاتا۔ گائے جنگل نہیں جاتیں تو گھاس بڑھتی جارہی ہے۔‘‘

    ’’سچ ہے سرکار۔ پر میں کیا کروں۔ میں توخود بہت پریشان ہوں میرا سارا اناج چوہے خراب کردیتے ہیں۔ میں اناج صاف کر کے جو بھرتا ہوں وہ اس کو کھاجاتے ہیں اور اناج کا پھٹکن کو منہ نہیں لگاتے۔‘‘

    چوہے بلائے گئے اور مہاراجا نے ان سے کہا ’’تم سارا اناج کیوں خراب کرتے ہو، یہ بچارا تم سے پریشان ہے۔ یہ اپنے نوکر کو کھانا نہیں دیتا۔ نوکر گایوں کو جنگل نہیں لے جاتا۔ گائیں گھاس نہیں کھاتیں اور گھاس بڑھتی جارہی ہے۔

    چوہے خاموش رہے ان کے پاس اس شرارت کا کوئی جواب نہ تھا مہاراجا نے کہا ’’اچھا تمہاری یہ سزا ہے کہ آج سے بلی تمہیں کھائے گی۔‘‘ بلی کو بلایا گیا اور اسے حکم دیا گیا کہ وہ چوہوں کو ان کی شرارت کی سزا دے۔ بلی نے چوہے کھانے شروع کردیے۔ چوہے اپنی جان بچانے کو اناج کے بھنڈار سے بھاگ گئے۔ اناج بچا تو مالک نے گوالے کو خوب کھانا دیا۔ گوالے نے کھانا کھایا تو وہ بہت تندرست ہوا اور گائیں جنگل جانے لگیں۔ گائیں جنگل جانے لگیں تو گھاس کھانے لگیں۔ اس طرح گھاس کم ہوتی گئی۔

    کچھ دنوں بعد جب مہاراجا پھر جنگل گئے تو انہوں نے دیکھا کہ اب گھاس ٹھیک ہے، انہوں نے پوچھا ’’کیا حال ہے، گھاس نے کہا اب ٹھیک ہے۔ گائیں آتی ہیں اور مجھے چرجاتی ہیں۔

    اس طرح جنگلی گھاس کا بڑھنا رک گیا۔

    (ایک پرانی لوک کتھا)

    مأخذ:

    بھارت کی لوک کتھائیں (Pg. 44)

    • مصنف: محمد قاسم صدیقی
      • ناشر: ترقی اردو بیورو، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1980

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے