aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گلو

MORE BYناصرہ شرما

    الٰہ آباد کے نخاس کونے محلہ میں شمشاد اور دلشاد دو بھائی اپنے خاندان کے ساتھ ایک گھر ہی میں رہتے تھے۔ ان کے کل ملا کر چھ بچے تھے۔ بڑے بھائی شمشاد کے دو لڑکے اور ایک لڑکی تھی اور دلشاد کے تینوں لڑکے تھے۔ شمشاد کے بڑے لڑکے کا نام گل فام تھا پیار سے سب اسے گلو پکارتے تھے۔ بچپن میں کان بہنے اور ٹھیک سے علاج نہ ہونے کی وجہ سے اونچا سنتا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ اکثر بڑوں سے ڈانٹ اور بھائی بہنوں سے اپنا مذاق اڑتا دیکھتا تھا مگر کچھ کہتا نہیں تھا۔ اس کے رونے دھونے اور شکایت نہ کرنے کی وجہ سے باقی پانچوں شیر ہو گئے اور جی بھر کر گلو کو ستاتے تھے۔

    ایک دن گلو سے کوئی کام کرنے کو کہا گیاـ ’’بھائی جان! مسجد جاکر مولانا صاحب سے کہہ آئیں کہ ابا جان دس منٹ میں حاضر ہوں گے کسی ضروی کام کی وجہ سے انہیں تاخیر ہو جائےگی‘‘ گلو مست کھڑے آسمان پر ناچتی پتنگیں دیکھتے رہے اور پھر کٹی پتنگ کا مانجھا لوٹنے چھت کی طرف دوڑ گئے۔

    جب شمشاد میاں وہاں پہنچے تو مولانا صاحب کو ناراض دیکھ کر انہیں رنج پہنچا اور گلوکی لاپرواہی پر شرمندگی ہوئی۔ گھر لوٹ کر انہوں نے گلو کی جم کر پٹائی کی جس کو دیکھ کر چھوٹے بہن بھائی منہ دبا کر ہنسنے لگے مگر ان کا یہ طور طریقہ ہمیشہ کی طرح چچی جان کو پسند نہیں آیا اور انہوں نے بچوں کو خوب لتھاڑا،’’ ارے خدا کے قہر سے ڈرو۔۔۔ اس معصوم مجبور کو اس طرح ستا کر تم سب کو کیا ملتا ہے؟ کان کھول کر سن لو میں اس بار معاف کئے دیتی ہوں مگر آئندہ تم لوگوں نے اگر اس طرح کا بیہودہ مذاق بڑے بھائی کے ساتھ کیا تو میں تم سب کی شکایت کر دوں گی پھر پٹنا جی بھر کر‘‘۔

    اس واقعہ سے پہلے بھی چچی اور امی کئی بار بچوں کو پھٹکار لگا چکی تھیں لیکن کسی کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگی تھی مگر اس بار چچی نے قسم کھائی تھی کہ یہ ظلم وہ گلو پر نہیں ہونے دیں گی۔ کچھ دن خاموشی سے گذرے۔ ایک دن کیا ہوا کہ خاندانی تیل والا لیمپ کمرے میں گیند اچھالنے سے ٹوٹ گیا۔ سب باہر بھاگ گئے وہیں پر گلو بیٹھے پڑھ رہے تھے۔ انہیں نہ لیمپ گرنے اور نہ بھائی بہن کے بھاگنے کی آواز سنائی پڑی۔ مگر ہاں، گیند وہاں اچھالنے کے لئے گلو نے منع ضرور کیا تھا۔ مگر ان کی کسی نے نہیں سنی تھی۔

    بڑی امی کو جب لیمپ ٹوٹنے کی آواز سنائی پڑی تو وہ پاس کے کمرے سے آئیں۔ یہ لیمپ ان کے دادا مرحوم کا تھا۔ خاندانی چیز کو ٹوٹنے کا انہیں سخت رنج تھا۔ آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ شام کو بڑے آبا نے بچوں کی عدالت لگائی اور کمر سے بیلٹ نکال کر پوچھ گچھ شروع ہوئی سب بھائیوں میں غضب کا اعتماد تھا۔ کوئی کچھ نہیں بولا۔ جب یہ پتہ چلا کہ گلو وہیں کمرے میں موجود تھا تو اس سے پوچھ گچھ شروع ہوئی۔ اب تو سب کی جان نکل گئی۔ انہیں لگا۔ سب دن کی کسر اب بھائی جان نکالیں گے ہم انہیں گاندھی جی کے بندر کہہ کر چڑھاتے تھے۔ آج وہ ہماری شامت اس بیلٹ سے بلوا دیں گے۔ سب نے ڈر کر بھائی جان کی طرف دیکھا۔ آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ دل ہی دل میں توبہ کرنے لگے کہ اب وہ کبھی بھائی جان کو بہرہ بلا کہہ کر نہیں چڑھائیں گے’’ یا خدا ہم کو معاف کرنا۔‘‘

    ’’بولو گلو تم نے کیا دیکھا۔ کس کے گیند مارنے سے لیمپ نیچے گرا تھا؟‘‘ بڑے ابا نے بیلٹ کوڑے کی طرح لہرائی۔

    ’’ابا جان! وہ روز جو کالی بلی آتی ہے نہ باورچی خانہ میں۔۔۔ وہی آج کمرے میں گھر آئی تھی۔ اسی نے لیمپ گرایا تھا‘‘ ، گلو نے جواب دیا اس کا جواب سن بڑے ابا کچھ لمحہ گلو کو غصہ سے گھورتے رہے مگر کچھ بولے نہیں، پاس کھڑے چچا نے غصہ میں کہا۔

    ’’جھوٹ بول رہے ہو۔ ان شیطانوں کو جان بوجھ کر بچا رہے ہو۔ یہ اچھا نہیں کر رہے ہو گلو!‘‘

    ’’جی میں نے تو کالی بلی ہی دیکھی تھی‘‘، گلو نے دھیرے سے کہا۔

    ’’بہرہ تو خدا نے بنایا تھا اب نیکی کے چکر میں اندھا بھی بن رہا ہے‘‘، چچی غصہ میں بڑبڑائیں۔ ان کا دل تو چاہ رہا تھا کہ آج بیلٹ کی مار ان سب کی کمر پر پڑ جاتی ہمیشہ کے لیے یہ سب سدھر جاتے مگر افسوس گلو نے سارا قصور بلی کا بتایا جب کہ وہ نگوڑی کمرے کی طرف کبھی جاتی ہی نہیں۔

    ’’خیر۔۔۔ چلو! تم لوگ۔۔۔ مگر یاد رکھنا جواب کسی نے گیند کمرے میں کھیلی بڑے ابا نے یہ کہتے ہوئے بیلٹ کمر پر کسی اور بیوی کو چپ کرانے کمرے میں گئے جو وہاں بیٹھی سسک رہی تھیں۔

    رات کو کھانا کھانے کے بعد پانچوں بہن بھائیوں نے گلو کو گھیر لیا اور معافی مانگنے لگے۔ گلو صرف مسکرا کر رہ گیا۔ یہ دیکھ کر ان سب کے دلوں میں اپنے بھائی جان کے لئے عزت اور محبت کا جذب جاگا۔ جو کام بڑے ابا کی بیلٹ نہیں کر پائی تھی وہ کام گلو کو معافی نے کر دکھایا تھا اس دن سے آج کا دن ہے جو کسی نے گلو کا مذاق اڑایا ہو اس کے بہرے پن کو لے کر چھیڑ خانی کی ہو۔ ان کا بدلہ رویہ دیکھ کر سب سے زیادہ چچی جان کو حیرت ہے کہ یہ پانچوں شیطان ایک دم سے سدھر کیسے گئے؟ یہ گتھی وہ ابھی تک سلجھانے نہیں پائی ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے