Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

امداد_ باہمی

غلام حیدر

امداد_ باہمی

غلام حیدر

MORE BYغلام حیدر

    چوراہے پر لگی بتیوں پر جیسے ہی ہری بتی بجھی اور پیلی جلی، راکیش، احمد، موہن اور دیوان اپنے اپنے اخباروں کی گڈی سنبھال کر تیار ہو گئے اور پھر لال بتی جلتے ہی۔۔۔ ’ایوان نیوز‘، ’ساندھیا ٹائمس‘ چیختے چلاتے سڑک پر اتر آئے۔

    بسوں، موٹروں، اسکوٹروں، کاروں کے اس چھتے میں کہیں جسم سمیٹ کر، کہیں گھس کر یا ادھر ادھر گھوم کر تیزی سے چکر لگانے اور ہر کار کے شیشے اور بس کی کھڑکی سے اپنا اخبار اندر بڑھانے کی انہیں پوری مہارت ہو گئی تھی۔ گاڑیوں کے چاروں طرف یہ ایسے گھومتے پھرتے تھے جیسے رنگ برنگی کیاریوں پر بھنورے منڈلا رہے ہوں۔

    اور پھر ایک ڈیڑھ منٹ بعد جیسے ہی بتی ہری ہوئی یہ گاڑیوں کے بمپروں، اسکوٹر اور موٹر سائیکلوں کے پہیوں سے بچتے بچاتے ادھر ادھر کی پیڑیوں پر دوڑ پڑے اور اگلی لال بتی کا انتظار کرنے لگے۔

    ایک اخبار کے پیسے لینے میں دیوان کو ذرا دیر ہوئی تو وہ گاڑیوں کے جال میں پھنس سا گیا۔ ایک پٹری سے راکیش اور موہن اور دوسری سے احمد گھبرا کر زورزور سے چلائے، ’’دیوان، دیوان۔۔۔ دیکھ پیچھے بس ہے‘‘ ۔۔۔ ارے وہ کنارے والی کار تیز ہو گئی ہے!‘‘ کئی گاڑیوں کے ہارن زور سے بجے۔۔۔ کچھ ڈرائیور زور زور سے بڑ بڑاتے، برا بھلا کہتے آگے بڑھ گئے۔ دیوان آخرکار سے تو بچ گیا مگر اونچی پٹری کے کنارے سے ٹکرا کر ایسے گرا کہ ایک ٹانگ میں، کہنیوں میں اور ٹھوڑی میں کافی چوٹ آئی۔

    یہ چاروں لڑکے جو آشرم کے چوراہے پر شام کا اخبار بیچتے ہیں، ان میں موہن ایک دو سال بڑا بھی لگتا ہے اور اخبار بیچنے کے کام میں سب سے پرانا بھی ہے۔۔۔ روزانہ دوڈھائی بجے ایک اخبار والا بہت سے اخباروں کی گڈیاں سائیکل پر رکھے لاتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کو گن گن کر اخبار دے دیتا ہے۔۔۔ پھر رات کو آتا ہے اور ایک روپئے کے اخبار پر بارہ پیسے کے حساب سے انہیں دے کر بچے ہوئے اخبار اور پیسے گن کر لے جاتا ہے۔

    ہر روز جیسے ہی اخبار آتے، سب سے پہلے موہن کسی ہندی اخبار سے موٹی موٹی خبریں پڑھ کر سب کو سنا دیتا۔۔۔ اس نے پانچویں کلاس تک پڑھا تھا، چھٹی کلاس کا امتحان نہیں دے سکا تھا۔۔۔۔ پھر احمد، جسے ٹوٹی پھوٹی انگریزی آتی ہے، ایوننگ نیوز اور ’مڈڈے‘ کی سب سے موٹی سرخی کی خبر کچھ اٹکل سے، یا کبھی کوئی تصویر دیکھ کر سب کو بتا دیتا اور پھر ان میں سے ہر ایک کوئی گرما گرم خبر چھانٹ لیتا اور ’’سڑک پر دن دہاڑے لوٹ لیا‘‘، ’’بسوں کی ٹکر میں چار مرے‘‘، ’’پردھان منتری کی کڑی چیتاونی‘‘ کی ہانکیں لگا لگاکر چار پانچ گھنٹے چوراہے پر ناچتا پھرتا۔ ہر شام ایسا ہی ہوتا تھا۔

    شام کو جب انہیں پیسے ملتے، تو ان میں سے ہر ایک کچھ پیسوں کے چنے، مونگ پھلی، ’چنا جور گرم‘ یا ’مسالے والا پاپڑ‘ کھاتا ہوا اپنے گھر چلا جاتا۔ موہن، جسے یہ اپنا ’استاد‘ مانتے تھے اس نے انہیں اخبار بیچنے کے کچھ گھر بھی سکھا دیے تھے۔۔۔ جیسے بتی کا رنگ بدلنے کے کتنی دیر بعد یا کتنی دیر پہلے پٹری سے اترنا یا پٹری کی طرف پلٹنا چاہئے۔ بس میں بیٹھے ہوئے مسافر کو اس وقت تک اخبار نہیں دینا چاہئے، جب تک وہ نقد پیسے پہلے نہ دے دے، بچوں کو اخبار نہیں دینا چاہئے، اگر کسی اخبار کے پیسے نہ ملیں تب بھی کسی کار یا بس کے پیچھے زیادہ دوڑنا نہیں چاہئے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ اتنی احتیاطوں کے بعد بھی کبھی کبھی ایک آدھ اخبار کے پیسے ضرور مارے جاتے تھے۔۔۔ مگر اخبار والا تو رات کو اخبار گن کر اپنے پورے پیسے گنوا لیتا تھا۔ بارش کے دن ان بے چاروں کے اخبار کافی کم بکتے تھے۔

    اس دن چوٹ لگنے کے بعد جب کئی دن تک دیوان اخبار بیچنے نہیں آیا تو ایک دن موہن نے کہا، ’’ارے کسی نے دیوان کا گھر دیکھا ہے؟‘‘

    ’’ہاں! میں نے دیکھا ہے۔!‘‘ احمد نے بتایا۔

    ’’تو تو کل اس کا حال پوچھ کر آنا‘‘۔

    ’’اچھا ضرور۔۔۔!‘‘ احمد نے وعدہ کیا۔

    اگلے دن احمد نے بتایا کہ دیوان کی کئی چوٹیں اب پکنے لگی ہیں اور ان کی ماں کے پاس بالکل پیسے نہیں ہیں۔ اس بات کو سن کر تینوں ساتھی آج کچھ چپ چپ اور اداس سے نظر آ رہے تھے۔ اخبار آنے سےکچھ پہلے موہن نے ایک دم کہا۔

    ’’سن احمد! اور راکیش تو بھی سن!‘‘

    دونوں نے اسے بڑے غور سے دیکھا۔

    ’’ہم آج سے تین نہیں، چار لڑکوں کے اخبار لیں گے!‘‘

    ’’کیا مطلب۔۔۔؟‘‘ دونوں نے لگ بھگ ساتھ ہی کہا۔

    ’’آج سے ہم دیوان کے حصے کے اخبار بھی بیچیں گے۔۔۔ تھوڑی بھاگ دوڑ ہی تو زیادہ کرنی ہوگی۔۔۔ اخبار والے سے کہہ دیں گے، اب وہ آٹھ بجے نہیں نو بجے پیسے لینے آیا کرے۔۔۔‘‘ موہن نے ایک ایک لفظ جماکر کہا، ’’اور تو احمد، اس کے حصے کے پیسے اس کے گھر دے کر آئےگا۔۔۔ جب تک وہ ٹھیک نہیں ہوتا۔۔۔ بولو منظور ہے؟‘‘

    ’’منظور ہے، منظور ہے!‘‘ دونوں نے پورے جوش سے کہا۔

    اور پھر اگلے کافی دنوں تک تینوں دوست دیوان کے حصے کے اخبار بیچنے کے لئے خوب بھاگ دوڑ کرتے رہے۔ رات کو تینوں اپنے اپنے پیسے بغیر گنے ایک ساتھ جمع کر لیتے۔ انہیں چار برابر حصوں میں بانٹ لیا جاتا۔ اب انہوں نے مونگ پھلی یا ’مسالے والا پاپڑ‘ بھی کھانا بند کر دیا تھا۔ احمد دیوان کا حصہ اسی رات اس کے یہاں پہنچا دیتا۔۔۔ دیوان کی ماں نے جب پیسے لینے سے انکار کیا تو احمد نے کہہ دیا۔۔۔’’خالہ۔۔۔ تم اس وقت تو لے لو۔۔۔ بعد میں ہم دوست آپس میں حساب کر لیں گے‘‘۔

    دیوان کے ٹھیک ہو جانے کے بعد اب چاروں نے باقاعدہ ایک ٹولی بنالی ہے۔ اس کا نام انہوں نے ’’ایون نیوز ٹولی‘‘ رکھ لیا ہے۔ اب موہن ہی سارے اخبار لیتا ہے اور رات کو اخبار والے سے حساب کرتا ہے۔۔۔ پھر سارے پیسے برابر برابر بانٹ لیے جاتے ہیں۔۔۔ مگر ان میں سے ایک روپیہ پہلے نکال لیا جاتا ہے۔

    سڑک کے کنارے بیٹھا پاپڑ والا یا ’چناجور گرم‘ والا ان کا انتظار کرتا رہتا ہے۔۔۔ یہ کسی دن چار پاپڑ اور کسی دن چار پڑیا چنا جور کی لے کر اس پر خوب مسالا ڈلوا کر ’سی سی‘ کی آوازوں کے ساتھ اسے کھاتے، آنسو پونچھتے اپنے اپنے گھر کی طرف چل دیتے ہیں۔

    مأخذ:

    آخری چوری اور دوسری کہانیاں (Pg. 42)

    • مصنف: غلام حیدر
      • ناشر: مکتبہ پیام تعلیم، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2006

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے