aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کھلونوں کی شکایت

نامعلوم

کھلونوں کی شکایت

نامعلوم

MORE BYنامعلوم

    ’’یا اللہ! میں اور کتنے دن یوں پلنگ کے نیچے گندی سندی پڑی رہوں گی؟‘‘

    نوری نے آزردگی سے سوچا، اس کو گندا رہنا سخت ناپسند تھا۔ ابھی پچھلے دنوں ہی زینب نے اس کی شادی کا کھیل کھیلا تھا۔ خوبصورت لال رنگ کا لہنگا اور سنہری بیل والا دوپٹہ پہنا کر اس کو دلہن بنایا تھا۔ سر پر ستاروں کا ٹیکا اور گلے میں موتیوں کا ہار تھا۔ زینب کی ساری سہیلیوں نے اس کی تعریفیں کی تھیں اور اب کوئی اس کا یہ حلیہ دیکھے۔ دوپٹہ غائب، لہنگا دھول مٹی میں اٹا اور ٹیکا سنہری بالوں میں الجھا اور لگے کا ہار ٹوٹ کر موتی ادھر ادھر پڑے تھے لیکن زینب کو کچھ خیال ہی نہیں تھا۔۔۔ کہ اس کی گڑیا کہاں اور کس حال میں ہے؟

    غم کے بارے نوری کی آہ نکل گئی۔

    ’’کیا ہوا نوری کیوں رو رہی ہو؟‘‘ پلنگ کے نیچے مزید اندر کی طرف پرے گھوڑا گاری کے گھوڑے نے نوری سے پوچھا۔ اسی گھوڑے پر دلہن بنا کر نوری کو بٹھا کر لایا گیا تھا۔ اس وقت اس گھوڑا گاڑی کی شان دیکھنے والی تھی۔ پچھلی نشست پر سرخ کپڑا بچھا تھا، سامنے گھوڑا گاڑی کا کوچوان ہیٹ لگائے بیٹھا تھا۔ چاروں پہیے سلامت تھے۔ زینب کے چھوٹے بھائی بلال نے دلہن کو احتیاط سے سوار کرایا اور آہستہ آہستہ زینب کے اس بستر کے پاس غالیچے پر گھوڑا گاڑی کو آہستہ آہستہ لے کر آیا۔

    یہ غالیچہ دراصل شادی ہال بنایا گیا تھا۔ زینب اور بلال دونوں نے اپنے اپنے دوستوں اور سہیلیوں کو اس شادی میں بلایا تھا، جو بہت خوشی اور انہماک سے دلہن کی گھوڑا گاڑی کو آتے دیکھ رہے تھے۔

    واہ کیا شاندار استقبال ہوا تھا۔ ایک طرف زینب کی سہیلیاں استقبالیہ گیت گا رہی تھیں اور دوسری طرف بلال کے دستوں نے بانسری، ڈف، پیپڑی (منہ سے بجانے والا کھلونا) جوکچھ میسر تھا۔ سب کے ساتھ دلہن کا استقبال کیا۔

    ایک زبردست شور اور ہنگامہ تھا۔ اس شور و ہنگامے کے درمیان زینب نے اپنی گڑیا دلہن نوری کو احتیاط سے گھوڑا گاڑی سےاتارا اور آہستہ آہستہ چلا کر چھوٹی میز پر بنائے گئے اسٹیج پر لے جاکر صوفے پر بٹھا دیا۔ یہ چھوٹے چھوٹے گلابی گدّوں والے صوفے نوری کو بہت پسند تھے اور پھر یوں سب کے سامنے دلہن بن کر بیٹھنا بھی کیسی شاندار بات تھی۔

    زینب کی گڑیا نوری بہت معصوم شکل والی گڑیا تھی، جس کے سنہرے بال اور نیلی آنکھیں تھیں۔ اس دن لال گلابی اور سنہری کرنوالادوپٹہ پہن کر ستارے والا ٹیکا اور موتیوں کا ہار پہن کر تو نوری بہتہی پیاری لگ رہی تھی۔ گلابی گدیوں والے صوفے پر بیٹھ کر وہ سب کو دیکھ رہی تھی لیکن یہ مزے کا دن کتنی جلدی گزر گیا۔ اس کےبعد زینب کو ہوش ہی نہیں آیا کہ اس کی گڑیا کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔

    ’’سچ ہے خوشی کے لمحے بہت جلدی گزر جاتے ہیں‘‘۔ نوری نے ایک سسکی لے کر گھوڑا گاڑی کے گھوڑے سے کہا: ’’ہاں!ٹھیک کہا۔۔۔ دیکھو ابھی میری گاڑی کہاں ہے؟ مجھے نہیں پتا۔۔۔ میری ایک ٹانگ میں موچ آ گئی ہے اور اب میں ایسی حالت میں پڑا ہوں۔۔۔ نہیں معلوم کتنے دن تک مجھےایسے ہی پڑے رہنا ہوگا‘‘۔ گھوڑا گاڑی سے الگ پڑے گھوڑے نے اداسی سے کہا۔

    ’’ارے بھئی تم لوگ تو ابھی سے گھبرا گئے۔ مجھے دیکھو میں تو پچھلے پورے ماہ سے ایسا بےحال پڑا ہوں‘‘۔ پلنگ کے دوسرے کونے میں پڑا رنگ برنگا لٹو بھی بول اٹھا جو بہت دیر سے ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا۔

    ’’میرے ساتھ تو ہر بار ایسا ہی ہوتا ہے۔ بلال مجھے چابی دے کر زور زور سے گھماتا ہے اور جب میں نیچے کہیں جاکر پھنس جاتا ہوں تو وہ مجھے بھول جاتا ہے، کبھی پلنگ کےنیچے، کبھی الماری اور کبھی صوفے کے نیچے پڑے پڑے بے حال ہوتا رہتا ہوں۔‘‘ لٹو نے بھی اپنی شکایت سنائی۔

    ’’پھر تم کیسے باہر نکلتے ہو؟‘‘ نوری نے ہمدردی سے پوچھا۔

    ’’میں بس اسی صورت میں باہر آتا ہوں جب امی جان مختاراں ماسی کو کہتی ہیں کہ آج سب چیزوں کو ہٹا کر جھاڑو دینا‘‘۔

    ’’ہائے ہائے ہماری بھی کیا اوقات ہے؟‘‘ لٹو نے مایوس ہو کر کہا۔

    نوری بولی: ’’اوقات تو ٹھیک ہی ہے، بس ہمیں شکایت ہےبچوں سے کہ وہ ہمارے ساتھ کھیلتے تو ہیں لیکن ہمارا بالکل خیال نہیں رکھتے۔ ہمیں سنبھالتے نہیں ہیں۔ ادھر ادھر پھینک دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں۔ یوں ہم ایسےہی دھول مٹی میں رلتے رہتے ہیں‘‘۔

    ’’امی جاننے بھی زینب کو کئی دفعہ سمجھایا ہے لیکن یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی‘‘ نوری نے افسوس کے ساتھ کہا:

    ’’کیا بچوں کو ہماری یاد بالکل بھی نہیں آتی؟‘‘ پاؤں کی موچ سے پریشان گھوڑے نے حسرت سے کہا:۔

    ’’جب ہم بے جان کھلونوں کو بچوں کی یاد آتی ہےتو بچے بھی ضرور ہم کو یاد کرتے ہوں گے۔۔۔ بلکہ کرتے ہیں۔ مختاراں ماسی جب بھی مجھے باہر نکالتی ہیں تو بلال بہت خوش ہوتا ہے۔ مجھےصاف ستھرا کرکے دوبارہ کھیلتا ہے‘‘۔ لٹو بولا۔

    ’’اچھا تو زینب بھی مجھے یاد کرتی ہوگی؟‘‘ نوری گڑیا نے ذرا حیرت سے پوچھا۔

    ’’ہاں کیوں نہیں دیکھنا جب وہ تم کو دوبارہ دیکھے گی تو کتنا خوش ہوگی۔۔۔‘‘ لٹو نے تسلی دی۔ یہ سن کر نوری گڑیا خوشی سے مسکرائی۔ گھوڑے گاڑی کے گھوڑے نے بھی حوصلہ پکڑا۔ ’’اللہ کرے کوئی ہماری شکایت بچوں تک پہنچا دے کہ وہ کھیلنے کے بعد ہم کو سنبھال کر رکھا کریں تاکہ وہ بھی خوش رہیں اور ہم بھی‘‘۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے