Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میں کیوں روئی

واجدہ تبسم

میں کیوں روئی

واجدہ تبسم

MORE BYواجدہ تبسم

    کوئی بیس برس پہلے کی بات ہے۔

    میری اور نیلو کی دوستی سب کے لئے قابل حیرت تھی۔ بات تھی بھی حیرت کی۔ وہ لمبی سی چمکتی ہوئی کار میں اسکول آتی تھی۔ وہ روز ایک نئی فراک پہن کر آتی تھی۔ اس کے جوتے ہمیشہ فراکوں سے میل کھاتے اس کی چوریاں، اس کے رنگ برنگی ربن، اس کی آیا۔۔۔ جو چیز دیکھو ایسی چم چماتی ہوئی اور بھڑکیلی جیسے وہ کوئی شہزادی ہو۔۔۔ اور میں ایک غریب سی ننھی لڑکی، جس کے پاس لے دے کے ایک ہی فراک تھی، جسے امی دھو کر سکھانے ڈالتیں تو اتنی دیر کے لئے میں بھیا کی قمیض پہنے رہتی۔

    یہ دوستی کیسے ہوئی، اس کا علم نہ مجھے تھا، نہ کسی اور کو، نہ خود نیلو کو۔ بس پہلی بار ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، وہ مسکرائی تو میں بھی ہنس دی۔۔۔ ننھی منی معصوم کلیوں کی سی پاکیزہ ہنسی نے جیسے ہم دنوں کو پیار کے دھاگے میں باندھ دیا۔ نہ میں نے کبھی اس کی کسی اچھی چیز کی طرف للچائی نظروں سے دیکھا، نہ کبھی یہ ظاہر کیا کہ میں نے دوستی کا ہاتھ اس کی دول سے مرعوب ہو کر بڑھایا تھا۔ نہ کبھی نیلو ہی نے اپنی امارت کا رعب مجھ پر ڈالا۔ ہم دونوں ایک ہی سطح پر رکھ کر سوچتی تھیں۔ بس ہم میں یہی ایک احساس مشترک تھا کہ ہم دونوں چھوٹی چھوٹی لڑکیاں ہیں اور سہیلیاں ہیں نیلو کی دوستی نے کبھی مجھے احساس کمتری میں مبتلا نہیں کیا اور نہ کبھی میں روتی۔

    ہماری دوستی اتنی بڑھی کہ سب ہمیں ایک دوسرے کا سایہ کہنے لگے۔۔۔ ہمیں کتنوں ہی نے لڑانے کی کوشش کی، لیکن ہماری محبت اتنی گہری تھی کہ ہم کبھی لرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔

    لیکن ایک دن ہماری لڑائی ہوتے ہوتے رہ گئی۔

    ہماری دوستی ہوئے کوئی سال بھر ہونے کو آیا تھا کہ نیلو کی سالگرہ کا دن آ پہنچا۔ اس سالگرہ کی تفصیل میں کیا بیان کروں؟ میری ننھی سی عمر کا وہ پہلا ایسا ہنگامہ تھا جسے میں نے خوابوں اور پریوں کے دیس کا سا کوئی واقعہ سمجھا۔ یہاں سے وہاں تک رنگین بلب۔۔۔ پس منظر میں ہلکی ہلکی موسیقی۔ بہت سارے خوبصورت بچے، بچیاں۔۔۔ بےحد حسین چمکدار بھڑکیلے کپڑے پہنے ہوئے۔ ایک طرف بینڈ بج رہا تھا۔ میں وہاں کیسے پہنچ گئی تھی۔ ظاہر ہے میری سہیلی کی سالگرہ جو تھی اور عید پر جو میری فراک بنی تھی وہی اس دن کام آئی۔۔۔ بس ایک غم تھا کہ میں ساتھ کوئی تحفہ نہ لے جا سکی۔۔۔ میں بھلا کیا لے جاتی؟ میرے پاس پیسے ہی کہاں تھے؟ لیکن نیلو نے اس قدر اصرار سے بلایا تھا کہ ناممکن تھا کہ میں نہ جاتی۔

    ایک بڑی سی میز پر کھانے پینے کا اتنا سامان رکھا تھا کہ حد نہیں اور دوسری میز جو اس سے کہیں بڑی تھی، تحفوں سے لدی ہوئی تھی۔ شرم کے مارے میرا برا حال تھا۔۔۔ سب ہی سوچیں گے کہ میں نے کیا دیا۔ اسی دم ایک عجیب و غریب کارروائی شروع ہو گئی۔ ایک چھوٹی سی تپائی پر نیلو چڑھ کر کھڑی ہو گئی اور ہر ایک کے تحفے کا اعلان کرنا شروع کر دیا۔ میرا سر چکرا رہا تھا کانوں میں سائیں سائیں سی ہو رہی تھی، دل دھڑ دھڑ کر رہا تھا۔ جی چاہ رہا تھا کہ اس محفل سے نکل بھاگوں۔ کوئی سوچے نہ سوچے، میں خود اس قدر نادم تھی کہ کسی طرح اس جگہ سے چھٹکارا پانا چاہ رہی تھی۔ اسی لمحے نیلو نے برے پیار سے اعلان کیا۔۔۔

    ’’اور آج کا سب سے پیارا تحفہ میری سب سے پیاری سہیلی سبو نے دیا ہے۔ اس نے ہاتھوں میں اوپر اٹھا کر سب کو ایک تاج محل دکھایا، جس میں چھوٹے چھوٹے بلب لگے ہوئے تھے۔۔۔ سنگ مرمر کا حسین و جمیل تاج محل۔۔۔ مارے جگمگاہٹ کے کسی کی اُس پر نظر نہیں ٹھہر رہی تھی۔

    میں نے گھبرا کر نیلو کو دیکھا۔ نیلو نے بھی مجھے دیکھا اور پیار سے ہنس دی اور یوں سالگرہ کی خوشی والے دن جب کہ آنسو براشگون سمجھے جاتے ہیں۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ جب ایک ایک کر کے سب مہمان چلے گئے تو نیلو میرے پاس آئی۔ بےحد محبت سے مجھے لگے لگا کر بولی: ’’میری اچھی سبّو۔۔۔ میں سب کے سامنے تجھے شرمندہ ہونے کا موقع کیسے دے سکتی تھی؟ تو نے برا تو نہیں مانا؟‘‘

    بس وہی ایک لمحہ تھا جب ہماری لڑائی ہوتے ہوتے رہ گئی۔ لیکن میں لڑی جھگڑی نہیں۔ بس روئے گئی، روئےگی۔

    اور اب اتنے سال گزرنے پر میں سوچتی ہوں کہ میں بھی کیسی پاگل تھی جو اس دن رونے بیٹھ گئی تھی۔ یہ تو خوشی کی اور ہنسنے کی بات تھی نا؟ سچی دوستی وہی تو ہوتی ہے کہ ایک سہیلی دوسری سہیلی کا درد اپنا لے۔ آج میں اُس دن کے بارے میں کبھی اس انداز سے نہیں سوچتی کہ میں کیوں روئی تھی۔

    مأخذ:

    کھلونا،نئی دہلی (Pg. 108)

      • ناشر: محمد یونس دہلوی
      • سن اشاعت: 1969

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے