Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پوری جو کڑھائی سے نکل بھاگی

ڈاکٹر ذاکر حسین

پوری جو کڑھائی سے نکل بھاگی

ڈاکٹر ذاکر حسین

MORE BYڈاکٹر ذاکر حسین

    گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا اور اس کی بیوی۔ کسان کا نام تھا منسا اور اس کی بیوی کا گریا۔ ان کے پاس روپیہ پیسہ اچھا خاصا تھا مگر گھر میں کام کرنے والے آدمی کم تھے۔ اس لئے ہمیشہ دوسروں سے یا تو مزدوری پر کام لینا پڑتا تھا یا میٹھی بات کر کے بیساکھ کا مہینہ تھا۔ منسا کے کھیتوں میں گیہوں کی فصل خوب ہوئی تھی اور کھیت کٹ بھی چکے تھے۔ اب بالیوں پر دائیں چلا کر دانے نکالنا باقی تھا۔ دوسرے سب کسان بھی اپنے اپنے کام میں لگے تھے تم جانو ان دنوں جب فصل کٹتی ہے تو سب ہی کو تھوڑا بہت کام ہوتا ہے

    اس نے بہتیرا چاہا کہ کوئی مزدور ملے مگر نہ ملا۔ ادھر آسمان پر دو ایک دن سے بادل آنے لگے اور ڈر تھا کہ کہیں پانی پڑ گیا تو سب دانے خراب ہو جائیں گے۔

    بیچ میں ایک دن کوئی تہوار آ گیا سب کسانوں نے اپنے یہاں کام بند رکھا۔ اس گاون میں بہت سے آدمیوں کی چھٹی ہوگی ۔منسا ان کے پاس گیا اور مشکل سے پانچ آدمیوں کو پھسلا کر لایا کہ بھائی ہماری دائیں چلا دو۔ گھر میں بیوی سے کہا کہ تہوار کا دن ہے یہ لوگ آج کام کو آئے ہیں انھیں پوریاں کھلانا ہے، کوئی گیارہ بجے بیوی نے چولہے پر کڑھائی چڑھائی کئی پلی کڑوا تیل کڑھائی میں ڈالا، آٹے کی چھوٹی سی ٹکیا بنا کر پہلے تیل میں ڈالی او تیل گرم ہو کر کڑکڑانے لگا۔

    تو یہ ٹکیہ نکال لی۔ اس سے کڑوے تیل کی ہیک کم ہو جاتی ہے۔ اب بیلن سے بیل بیل کر کڑھائی میں پوریاں ڈالنی شروع کیں۔ کچھ پوریاں پک گئیں تو باورچی خانے میں کسان کا بیٹا بدھو جانے کہاں سے آیا اور ادھر ادھر چیزیں کھکورنے لگا اور ناک سے برابر سڑ سڑ سڑ سڑ کرتا جاتا تھا۔ ہونٹوں پر ناک بہہ رہی تھی۔ ماں نے ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور پلو سے اس زور سے ناک پوچھی کہ بدھو کن کن کرتا ہوا باورچی خانے سے چل دیا۔ کڑھائی میں جو پوری پڑی تھی وہ اتنی دیر میں جلنے لگی اور اسے برا لگا کہ بدھو کی ماں نے اس کا ذرا خیال نہ کیا اور اتنی دیر جلتے ہوئے تیل میں اسے رکھ کر تکلیف دی۔ بدھو کی ماں نے جلدی سے جو اسے پلٹنا چاہا تو یہ اور چڑ گئی اور جھٹ سے کڑھائی میں کود کر بھاگ کھڑی ہوئی کہ تم بدھو کی ناک پوچھو میں تو جاتی ہوں۔

    ’’بدھو کی ماں نے بہت چاہا کہ اسے پکڑے مگر وہ کہاں ہاتھ آتی ہے۔ جھٹ گھر میں سے نکل کھیت کی طرف بھاگی۔ راستے میں منسا اور اس کے پانچوں دوست دانوں پر دائیں چلا رہے تھے۔ یہ پوری ان کے پاس سے گذری اور کہا کہ میں بدھو کی ماں سے بچ کر کڑھائی سے نکل کر آئی ہوں تم سے بھی بچ کر نکلوں گی۔ لو مجھے کوئی پکڑو تو‘‘۔ ان آدمیوں نے جب دیکھا کہ اچھی پکی پکائی پوری یوں پاس سے بھاگی جا رہی ہے تو کام چھوڑ کر اس کے پیچھے ہولئے مگر وہ بھلا کہاں ہاتھ آتی ہے۔ یہ سب دوڑتے دوڑتے ہانپ گئے اور لوٹ آئے۔

    کھیت سے نکل کر پوری کو بنجر میں ایک خرگوش ملا۔ اسے دیکھ کر پوری بولی۔ ’’میں تو کڑھائی سے نکل کر، بدھو کی ماں سے بچ کر اور چھ جوان جوان آدمیوں کو ہرا کر آئی ہوں۔ میاں چھٹ دمے خرگوش تم سے بھی نکل بھاگوں گی۔‘‘

    خرگوش کو یہ سن کر اور ضد ہوئی اور اس نے بڑی تیزی سے اس کا پیچھا کیا اور سچی بات تو یہ ہے کہ بی پوری ایک بھٹ میں نہ گھس گئی ہوتیں تو اس چھٹ دمے نے پکڑ ہی لیا تھا۔ مگر بھٹ میں یہ لومڑی کے ڈر سے نہ گیا۔

    پوری جو بھٹ میں گھسی تو واقعی اس میں لومڑی بیٹھی تھی۔ اس نے جو دیکھا کہ یہ ایک پوری گھسی چلی آتی ہے تو جھٹ اٹھ کھڑی ہوئی کہ اب آئی ہے تو جائےگی کہاں۔ مگر پوری الٹے پاؤں لوٹی اور یہ کہتی ہوئی بھاگی۔ ’’کہ میں تو کڑھائی میں سے نکل کر، بدھو کی ماں سے بچ کر، چھ جوان جوان آدمیوں کو ہرا کر اور میاں چھٹ دمو خرگوش کو الو بنا کر آئی ہوں۔ بی مٹ دمی لومڑی میں تمہارے بس کی بھی نہیں‘‘۔

    لومڑی نے کہا ’’کہاں جاتی ہے ٹھہر تو۔ تیری شیخی کا مزہ تجھے بتاتی ہوں‘‘ اور پیچھے لپکی۔ مگر پوری تھی بڑی چالاک اس نے جھٹ سے ایک کسان کے مکان کا رخ کیا اور لومڑی بھلا کتوں کے ڈر کے مارے ادھر کیسے جاتی۔ لاچار رک گئی۔

    کسان کے مکان کے قریب ایک دبلی سی بھوکی کتیا اور اس کے پانچ بجے ادھر ادھر پھر رہے تھے۔ انہوں نے بھی ارادہ کیا کہ اس پوری کو چٹ کریں۔ پوری نے کہا ’’میں کڑھائی میں سے نکل کر، بدھو کی اماں سے بچ کر چھ جوان جوان مردوں کو ہرا کر میاں چھٹ دمو خرگوش کو الو بناکر اور بی مٹ دمی لومڑی کو چونا لگا کر آئی ہوں۔ اجی بی بی لپ لپ، میں تمہارے بس کی بھی نہیں‘‘۔

    کتیا بڑی ہوشیار تھی۔ آگے کو منہ بڑھا کر جیسے بہرے لوگ کرتے ہیں، کہنے لگی، ’’بی پوری کیا کہتی ہو۔ میں ذرا اونچا سنتی ہوں‘‘ پوری ذرا قریب کو آئی اور کتیا نے بھی بہروں کی طرح اپنا منہ اس کی طرف اور بڑھایا۔

    پوری پھر وہی کہنے لگی۔ ’’میں کڑھائی میں سے نکل کر، بدھو کی ماں سے بچ کر چھ چھ جوان جوان مسٹنڈوں کو تھکا کر، میاں چھٹ دمے خرگوش اور بی مٹ دمی لومڑی کو الو بنا کر آئی ہوں۔ اجی بی لپ لپ ۔۔۔‘‘ اتنا ہی کہنے پائی تھی کہ کتیا نے منہ مارا ’’حپ‘‘ اور آدھی پوری اس کے منہ میں آ گئی۔ اب جو آدھی پوری بچی تھی وہ ایسی تیزی سے بھاگی اور آگے جاکر نہ معلوم کس طرح زمین کے اندر گھس گئی کہ کتیا ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے تھک گئی مگر کہیں پتہ نہ چلا۔ کتیا نے اپنے پانچوں بچوں کو بلایا کہ ذرا ڈھونڈو تو لیکن بی پوری کا کہاں پتہ لگتا ہے۔ اس کتیا نے اور اس کے بچوں نے ساری عمر اس آدھی پوری کو ڈھونڈا مگر وہ نہ ملنا تھا نہ ملی۔ ابھی تک سارے کتے اسی آدھی پوری کی تلاش میں ہر وقت زمین سونگھتے پھرتے ہیں کہ کہیں سے اس کا پتہ چلے تو نکالیں۔ اس نے ہماری دادی اماں کو دھوکہ دیا تھا۔ مگر اس آدھی پوری کا کہیں پتہ نہیں چلتا۔

    مأخذ:

    پوری جو کڑھائی سے نکل بھاگی اور نرالا بچہ (Pg. 3)

    • مصنف: ڈاکٹر ذاکر حسین
      • ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے