aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

طوطے کے بچے

ذکیہ مشہدی

طوطے کے بچے

ذکیہ مشہدی

MORE BYذکیہ مشہدی

    اسکول میں چھٹیاں ہوتیں تو فرحان کبھی کبھی نانا کے یہاں آجاتے تھے۔ نانا گاؤں میں رہتے تھے۔ فرحان کو وہاں بہت مزہ آتا تھا۔ بڑا سا کھلا کھلا سرخ ٹائلوں والا گھر تھا۔ گھر کے پیچھے کافی وسیع باغ۔ سامنے بھی پھولوں کی کیاریاں تھیں۔ پھول آنکھوں کو کیسے بھلے لگتے ہیں۔ تھوڑے سے بھی ہوں تو ماحول بدل جاتا ہے۔ جی اپنے آپ ہی خوش ہوجاتا ہے۔ پھررجّن بھی تھا۔ وہ فرحان کو گاؤں بھر میں گھماتا پھرتا۔ تالاب میں سنگھاڑے کی بیلیں۔ کھیت میں گنّے اور چنا مٹر۔ آگ میں بھنی ہوئی شکرقند ۔ گنے کے رس کو کڑھاؤ میں ابال کر بنتا ہوا گڑ۔ کئی بار دیکھنے کے بعد بھی یہ ساری چیزیں بہت اچھی لگتی تھیں۔ ہوا میں انوکھی فرحت محسوس ہوتی تھی۔

    رجّن نانا کے منشی جی کا بیٹا تھا۔ منشی جی گھر کے سارے کاموں کا انتظام دیکھتے۔ باغ کے آموں کی فصل پکواتے۔ کچھ زمینیں تھیں ان کا حساب رکھتے۔ باغ کے اگلے سرے پر نانا نے ان کے لئے دو کمروں کا چھوٹا سا گھر بنوادیا تھا۔ اس میں برآمدہ، باورچی خانہ اور بیت الخلا سب ہی کچھ تھا۔ رجن کو نانا اسکول میں پڑھوا رہے تھے۔

    اس مرتبہ فرحان نانا کے گھر آئے تو انہوں نے باغ میں گھومتے ہوئے ایک نئی چیز دیکھی۔ آم کے درخت کے تنے میں ایک کوٹر(چھوٹی سی کھوکھلی جگہ ) بن گیا تھا۔ اس میں سے ایک بڑا خوبصورت طوطا گردن نکال کر جھانک رہا تھا۔ فرحان کو وہ بہت پیارا لگا۔ جیسے کوئی کھڑکی میں سے جھانک رہا ہو۔ وہ منہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگے۔ طوطے نے جھٹ سے گردن اندر کر لی۔

    ’’یہاں طوطا تھا‘‘۔ فرحان نے رجّن سے کہا۔

    ’’طوطے کا گھر‘‘۔

    ’’ہاں۔ مطلب اس کا گھونسلہ۔ اس نے بچے نکالے ہیں، اور بے وقوف وہ طوطی ہے۔ ان بچوں کی ممی‘‘۔

    ’’ہا ہا ہا۔ طوطوں کی ممی۔ فرحان کو بہت مزہ آیا۔ سب جانوروں کی، پرندوں کی ممی تو ہوتی ہی ہیں۔ ممی نہیں ہوں گی تو بچے پالے گا کون‘‘۔ لیکن گھونسلہ تو پیڑ پر ہونا چاہئے۔ بیل کے درخت پر کوے نے گھونسلا بنا رکھا تھا۔ انہوں نے کہا۔ رجّن فرحان کو گاؤں میں گھماتا تو خوب تھا لیکن کبھی کبھی شہری بابو کہہ کر چڑھاتا بھی تھا۔ اس وقت بھی اس نے چڑھایا۔

    ’’ارے شہری بابو، طوطے زیادہ تر کسی کھوکھلی جگہ جیسے پیڑ یا پہاڑی کے کوٹر میں گھونسلا بناتے ہیں۔ اس میں انڈے دے کر انہیں سیتے اور بچے نکالتے ہیں۔ ہم اس طوطے کو شروع سے دیکھ رہے ہیں۔ کوٹر میں بچے نکل چکے ہیں۔ اب تو کچھ بڑے ہوئے ہوں گے‘‘۔

    فرحان نے تالی بجائی۔ ’’ہم انہیں دیکھیں گے۔ طوطے کے بچے۔ آہا کتنے پیارے لگیں گے‘‘۔

    ’’ابھی باہر نہیں آتے۔ کیسے دیکھوگے‘‘۔ رجن نے کہا۔

    ’’کوٹر زیادہ اونچائی پر نہیں ہے۔ اس کے پاس موٹی سی شاخ بھی ہے۔ ہم اس پر چڑھ کر بچے دیکھیں گے‘‘۔ گاؤں میں برابر آتے رہنے کی وجہ سے فرحان کو پیڑ پر چڑھنا آتا تھا۔ دراصل رجن نے ہی سکھایا تھا۔ وہ تو بندر کی سی پھرتی سے کسی بھی پیڑ پر چڑھ جاتا تھا۔

    ’’بچوں کی ممی ناراض ہوگئی تو تمہیں کاٹ لے گی‘‘۔ رجن نے ڈرایا۔

    اس وقت بات آئی گئی ہوگی لیکن فرحان کے دل میں طوطے کے بچے دیکھنے کا خیال بنا رہا۔ تیسرے دن فرحان کی چھٹیاں ختم ہو رہی تھیں۔ اب پھر نہ جانے کب چھٹیاں ہوں گی۔ اس لئے دوپہر میں وہ چپکے سے باغ میں نکل گئے۔ سر اٹھا کر دیکھا۔ طوطا۔۔۔نہیں طوطی ۔۔۔۔ پھر آدھا جسم نکال کر جھانک رہی تھی۔ پھر وہ اڑ گئی۔ فرحان بہت خوش ہوئے۔ اچھا ہے بچے اکیلے مل جائیں گے ورنہ ان کی ممی کاٹ لیتی۔ وہ احتیاط سے پیر جما جما کر درخت پر چڑھ گئے۔ کوٹر میں جھانکا۔ کچھ ہرے ہرے پروں سے ڈھکے ننھے ننھے بچے دکھائی دیئے۔ شروع سے زیادہ تر پرندوں کے بچوں کے جسم پر، پر نہیں ہوتے۔ گوشت کے لوتھڑے سے دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ بڑے ہوتے ہیں تبھی پر نکلتے ہیں۔ یہ بچے اتنے بڑے ہوگئے تھے کہ ان پر پنکھ آگئے تھے۔ بہت ہی پیارے لگے۔ فرحان کا جی چاہا انہیں ہاتھ میں لے کر دیکھیں۔ تبھی غصے سے ٹیں ٹیں کرتا طوطا ان کے سر پر منڈلانے لگا۔ فرحان نے جلدی سے ہاتھ ہٹایا۔ چہرہ دوسری طرف کر لیا۔ یہ ضرور وی ہے۔ بچوں کی ممی۔ انہوں نے گھبراہٹ میں سوچا اور جلدی سے پھسل کر اتر آئے۔ دیکھا طوطا ان کے سر پر اب بھی منڈلا رہا ہے۔ وہ بگٹٹ بھاگے۔ اپنے گھر کے بجائے رجّن کے گھر کا رخ کیا۔ اپنے گھر میں داخل ہوتے تو گھبراہٹ کی وجہ بتانی پڑتی۔ جلدی میں اترتے ہوئے کچھ خراشیں آگئی تھیں۔ ان کی وجہ بھی بتانی پڑتی۔ اچھی طرح ڈانٹ پڑتی۔ پیڑ پر چڑھنے کے لیے مما ہمیشہ منع کرتی تھیں۔ نانا بھی منع کرتے تھے۔

    رجّن گھر پر ہی تھا۔ وہ بہت ہنسا۔ اسے شرارت سوجھی۔

    ’’پتہ ہے تمہیں طوطوں کی ممی نے پہچان لیا ہے۔ اب وہ تمہارا پیچھا کرے گی‘‘۔

    ’’فرحان ڈر گئے۔ تب کیا کریں‘‘۔

    ’’ایسا کرو تم اپنے کپڑے بدل لو۔ تب طوطاتمہیں نہیں پہچان سکے گا‘‘۔

    ’’لاؤ اپنے کپڑے‘‘۔ فرحان راضی ہوگئے۔

    ’’ہمارے پاس صرف تین شرٹ ہیں۔ ایک کو ممی نے صابن ڈال کر بھگو رکھا ہے۔ ایک ہم نے پہنی ہے۔ تیسری تمہیں پہنا دی تو ابھی نہا کر کیا بدلیں گے‘‘۔

    ’’تب؟‘‘ فرحان سخت پریشان ہوگئے۔

    ’’ایک طریقہ ہے۔ تم بابو جی کی شرٹ پہن کر چلے جاؤ۔ اپنے کپڑوں کے اوپر ہی ڈال لینا‘‘۔ جان تو بچے گی۔ اب گھر پر جو بھی ہو۔ وہاں ڈانٹ پڑے گی۔ کوئی طوطا تو نہیں کاٹے گا۔ سوچ کر فرحان راضی ہوگئے۔ رجن نے منشی جی کی قمیص نکال کر فرحان کو پہنچا دی۔ منشی جی لمبے چوڑے آدمی تھے۔ نوسال کے فرحان تو ان کی شرٹ میں جیسے ڈوب ہی گئے۔ بالکل پیروں تک آگئی۔ مسخروں جیسے حلیے میں انہوں نے پورا باغ پار کیا اور گھر میں داخل ہوئے۔ رجّن کچھ دور تک ساتھ آیا، پھر چپکے سے پلٹ گیا۔

    ممی سامنے ہی کھڑی ٹوکری میں پھل دیکھ رہی تھیں جو نانی نے دیئے تھے۔ شام کو واپس جانا تھا۔ یک دم سے فرحان پر نظر پڑی تو گھبرا گئیں۔ ’’ارے مما ۔۔۔۔ہم ہیں۔ ہم فرحان‘‘۔ ممی کی گھبراہٹ دیکھ کر وہ جلدی سے بولے۔

    ’’یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے۔ اور یہ قمیص تو منشی جی کی ہے‘‘۔ ممی نے ٹوکری الگ رکھ کر پوچھا۔

    مجبوراً فرحان نے پوری کہانی سنائی۔ وہ ابھی تک وہی قمیص پہنے کھڑا تھا۔ تبھی نانا بھی آگئے۔ باورچی خانے سے روٹی پکاتی قمرن بوا نے جھانکا اور ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگئیں۔ توے پر روٹی جل اٹھی۔ نانی نے مینا پال رکھی تھی، اس نے شور مچایا’’کون ہے، کون ہے!‘‘

    پیچھے کچھ رک کر رجّن بھی آگیا تھا۔ وہ خوب قہقہے لگا رہا تھا۔ ’’ارے بابوجی کی شرٹ تو اتارو۔‘‘ اس نے قمیص اتروائی۔

    ’’مما، ہم اگلی بار نانا کے یہاں آئیں گے تب بھی طوطوں کی ممی ہمیں پہچان کر سر پر ٹھونگ لگائے گی؟‘‘ فرحان نے پوچھا۔

    لوگ پھر ہنس پڑے۔ ’’نہیں تب نہیں پہچانے گی۔ بھول چکی ہوگی۔‘‘ نانانے کہا۔

    مگر رجّن ٹپ سے بول پڑا۔ ’’ممی نہیں پہچانے گی لیکن تب بچے تمہیں پہچان لیں گے۔ تینوں مل کر تمہیں ٹھونگ لگائیں گے‘‘۔

    فرحان روہانسے ہوگئے۔

    نانا نے ہنس کر کہا، ’’بے وقوف، رجّن تمہیں چھیڑ رہا ہے لیکن ہاں، پرندوں کو پریشان نہیں کرنا چاہئے۔ بلکہ کسی بھی جانور کو پریشان نہیں کرنا چاہئے۔ انہیں بھی چین سے رہنے کا حق ہے۔ وہ ہمارے ماحول کا بہت ضروری حصہ ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے