بکھرے ہوئے تاروں سے مری رات بھری ہے
بکھرے ہوئے تاروں سے مری رات بھری ہے
یہ نور ہے یا نور کی دریوزہ گری ہے
ہے آج بھی پہلو میں وہی زخم بہاراں
اب تک مری آنکھوں میں ہر اک شاخ ہری ہے
دنیا میں اندھیروں کے سوا اور رہا کیا
اک تیری تمنا سو چراغ سحری ہے
اب ساتھ نہ دے پائیں گے ٹوٹے ہوئے بازو
اڑتے ہوئے لمحوں سے مری ہم سفری ہے
ہر لحظہ بدلتی ہوئی آنکھوں پہ نہ جاؤ
دل کے لیے امید فزا بے خبری ہے
جلوے کی بصیرت کو سمجھتی نہیں آنکھیں
آئینے کا مقدور پریشاں نظری ہے
اڑتے ہوئے آتے ہیں ابھی سنگ تمنا
اور کار گہہ دل کی وہی شیشہ گری ہے
چپ چاپ دریچوں کی طرف دیکھتے پھرنا
زندہ ہیں تو شہزادؔ یہی در بدری ہے
مأخذ:
Deewar pe dastak (Pg. 51)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.