دولت درد سمیٹو کہ بکھرنے کو ہے
دولت درد سمیٹو کہ بکھرنے کو ہے
رات کا آخری لمحہ بھی گزرنے کو ہے
خشت در خشت عقیدت نے بنایا جس کو
ابر آزار اسی گھر پہ ٹھہرنے کو ہے
کشت برباد سے تجدید وفا کر دیکھو
اب تو دریاؤں کا پانی بھی اترنے کو ہے
اپنی آنکھوں میں وہی عکس لیے پھرتے ہیں
جیسے آئینۂ مقسوم سنورنے کو ہے
جو ڈبوئے گی نہ پہنچائے گی ساحل پہ ہمیں
اب وہی موج سمندر سے ابھرنے کو ہے
کنج تنہائی میں کھلتا ہے تخیل میرا
اور میں خوش ہوں کہ یہ گل پھر سے نکھرنے کو ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.