Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عالیہ باجی

شمیم حنفی

عالیہ باجی

شمیم حنفی

MORE BYشمیم حنفی

    عالیہ باجی بچپن ہی سے اس عجیب کامپلکس کا شکار تھیں۔ اماں مرحومہ بتایا کرتی تھیں کہ جس دن انہوں نے دونوں پیروں پر کھڑے ہوکر ایک ذرا کھسکنا شروع کیا تھا، ایک دم سے عالیہ باجی بن بیٹھی تھیں۔ مجھ سے عمر میں صرف ڈیڑھ سال بڑی تھیں لیکن میری صورت دیکھتے ہی ایسی بزرگی کے خول میں چھپ جاتیں کہ مجھے سچ مچ ان سے ڈر سا محسوس ہونے لگتا اور میری ہمت نہ پڑتی کہ دوسرے بچوں کی طرح صرف چھیڑنے ہی کے لیے انہیں عالیہ باجی کے بجائے صرف عالیہ کہہ کر پکاروں۔

    جیسے جیسے میری عمر بڑھتی گئی، میرے دل میں عالیہ باجی کے لیے ایک عجیب سی ہمدردی بلکہ ترس کا جذبہ ابھرنے لگا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جس سال میں نے بی اے پاس کیا اور خالہ جان نے اماں مرحومہ سے میری شادی کی بات چھیڑتے ہوئے اچانک چپکے سے عالیہ باجی کانام لے لیا تو مجھے ایسا لگا کہ انہوں نے میری سوچ کے صدیوں پرانے بت کے ٹکڑے کرڈالے ہیں۔ عالیہ باجی کے ساتھ شادی! یہ بات مجھے کچھ عجیب سی لگی۔ میں اپنی ہی نظروں میں گستاخ ہوگیا۔ آخر کار میری ہٹ دھرمی کے آگے کسی کی ایک نہ چلی اور اماں مرحومہ عالیہ باجی کو اپنی بہو بنانے کی آرزو سینے سے لگائے اللہ کو پیاری ہوگئیں۔

    اماں مرحومہ کی لاش پر آخری نظر ڈالتے ہوئے مجھے یہ خیال ضرور آیا کہ میں نے ان کی اتنی سی بات پوری کردی ہوتی تو کون سی قیامت آجاتی لیکن چالیسویں کے بعد جب میں پھر شہر پہنچا تو کچھ ہی دنوں میں یہ سب کچھ بھول گیا۔ ابا اپنے خطوں میں کبھی کبھی مجھے یہ بات یاد دلادیتے تھے اور ان کا خط دیکھتے ہی مجھے ایسا لگتا تھا کہ اماں مرحومہ کفن کی جالی سے آنکھیں لگائے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی ہیں۔ لیکن وقت کا دھارا ابا کے خط کو جلد ہی تنکے کی طرح بہا لے جاتا اور میں سب کچھ بھول کر پھر اپنے کام میں لگ جاتا۔

    گرمیوں کی چھٹیاں ہوتے ہی میں گھر چلا آیا۔ ابا کو دیکھ کر ایک دھچکا سا لگا۔ اماں مرحومہ کی موت نے انہیں بالکل ویران کردیا تھا۔ اجڑے اجڑے دکھائی دیتے تھے اور سارا گھر خالی خالی سا، کچھ سویا سویا سا، کچھ ڈوبا ڈوبا سا نظر آتا تھا، جیسے محرومیوں کی کمند نے اسے چاروں طرف سے اچھی طرح جکڑ لیا ہو۔ اسی دوران میں میرا نتیجہ نکل آیا۔ اس دن ابا نے پاس پڑوس کے سارے گھروں میں مٹھائی تقسیم کی لیکن مجھے یہ دیکھ کر بڑے شدید درد کا احساس ہوا کہ اس دن وہ کچھ اور بوڑھے ہوگئے تھے۔ گھر کے کونوں کھدروں پر اس طرح نظریں ڈال رہے تھے جیسے کسی کو ڈھونڈ رہے ہوں۔

    ایک بارگی مجھے اماں مرحومہ کی یاد اس طرح آئی کہ آتی ہی چلی گئی اور جی اداس ہوگیا۔ آخر ابا سے نہ دیکھا گیا اور انہوں نے زبردستی مجھے پھوپھی امی کے یہاں بھیج دیا جو میرے گھر سے دومیل دور ایک گاؤں سلامت پور میں رہتی تھیں۔ پھوپھی امی کے یہاں میرا جی بہل گیا۔ وہ بھی شاید اسی گھڑی کی تاک لگائے بیٹھی تھیں۔ ایک دن مجھے خوش دیکھ کر اچانک اپنے مطلب پر آگئیں۔

    ’’آخر وہ کب تک تیرے لیے بیٹھی رہے گی؟‘‘ انہوں نے دھیرے سے کہا۔

    ’’کون؟‘‘ میں جان بوجھ کر ان جان بن گیا۔

    ’’ارے وہی عالیہ اور کون؟‘‘ وہ رازدارانہ لہجے میں بولیں۔

    ’’اوہ! عالیہ باجی!‘‘ میں دھیرے سے بڑبڑایا اور پھوپھی امی کا چہرہ چولھے میں جلتی آگ کی طرح لال ہوگیا۔ وہ ایک بارگی پھٹ پڑیں، ’’غضب خدا کا! ماں بیچاری یہی ارمان لیے چلی گئی اور بیٹے کا اب تک وہی حال ہے۔ عمر عمر عمر۔۔۔ آخر پیارے رسولؐ اور خدیجہ بی بی کی عمر میں بھی تو۔۔۔‘‘

    وہ اسی طرح جانے کیا کیا بکتی رہیں۔ اماں مرحومہ کا نام سنتے ہی میرا جی بھر آیا تھا۔ میں کچھ دیر سرجھکائے بیٹھا رہا اور پھر خدا جانے کیا سوچ کر اٹھتے اٹھتے ہاں کردی۔ پھوپھی امی اس طرح کھل اٹھیں جیسے قارون نے اپنا سارا خزانہ ان کے قدموں میں ڈال دیا ہو۔ سلامت پور میں آٹھ دس دن گزار کر میں گھر واپس آگیا۔ اس دوران میں پھوپھی امی نے میری رضامندی کی اطلاع ابا کو بھیج دی تھی کیوں کہ اب ابا کی بوڑھی آنکھوں میں ایک بے نام سی چمک آگئی تھی اور وہ دن رات گھر کی مرمت اور سامان کی خریداری میں لگے ہوئے تھے۔

    میں چپ چاپ یہ سب دیکھ رہا تھا لیکن زبان بند تھی۔ پھر بھی دل میں کوئی کانٹا سا چبھنے لگتا تھا۔ تین چار روز بعد خالو جان کا خط آگیا کہ میں دیہات میں چھٹیاں گزارنے کے بجائے لکھنؤ چلاآؤں۔ ابا پرانے خیال کے آدمی تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ عالیہ باجی کے گھر جانے سے وہ مجھے خود ہی روکیں گے لیکن مجھے سخت حیرت ہوئی جب روکنے کے بجائے وہ مجھے مجبور کرنے لگے کہ میں چند دنوں کے لیے لکھنؤ چلا جاؤں۔ ان کے بار بار کہنے سے میں ایک صبح لکھنؤ کے لیے روانہ ہوگیا۔ راستے بھر مجھے یہی خیال کچوکے لگارہا تھا کہ اس واقعے کا ردعمل عالیہ باجی پر کیا ہوگا؟ خدا جانے وہ کیا سوچیں گی؟ میرے پہنچنے پر وہ خوش ہوں گی یا اداس؟ ہو سکتا ہے شرماجائیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بور ہوجائیں۔

    لکھنؤ پہنچا تو خالہ جان کے گھر کی دنیا ہی بدلی ہوئی دکھائی دی۔ اماں مرحومہ کی موت پر خالہ جان اپنے خاندان سمیت ہمارے گھر آئی تھیں۔ اس بات کو دوسال کا عرصہ ہوچکا تھا لیکن یہ دوسال مجھے صدیوں کی پگڈنڈی پر بکھرے ہوئے، لانبے، بھولے بھٹکے دکھائی دیتے تھے۔ ان دوبرسوں میں سبھی تو بدل گئے تھے۔ مجھے اکیلا پاکر رئیسہ کھلکھلاتی ہوئی پاس آئی اور دولہا بھائی کہہ کر زور سے ہنس دی۔ ننھا خالد اب خاصا بڑا ہوگیا تھا۔ اس کا کنٹھا پھوٹ رہا تھا اور عجیب گھوں گھوں سی آواز ہوگئی تھی۔ لیکن میری نظریں تو عالیہ باجی کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ وہ نہ جانے کن پردوں میں چھپی بیٹھی تھیں۔ یوں میں سوچ رہاتھا کہ لکھنؤ کی زندگی اور گرلز کالج کے ماحول نے انہیں شاید اب کچھ بدل دیا ہو۔ اس سال وہ بی ایس سی میں پڑھ رہی تھیں اور وہ بھی بڑا ہوکر ڈاکٹرنی بننے کے شوق کا، جس نے انہیں برقعے کی دیوار کے اس پار کھڑا کردیا تھا، ورنہ عالیہ باجی ایسی نہ تھیں کہ اتنی آسانی سے منہ کھولے باہر آجائیں۔

    لیکن عالیہ باجی پر نظر پڑتے ہی میں بوکھلا گیا۔ وہ ہو بہو ویسی ہی تھیں۔ وہ چپ چپ سے ہونٹ، حیران حیران سی آنکھیں، کھویا کھویا سا چہرہ اور جوان جسم پر بوڑھی سوچ کی پرچھائیں۔ مجھے دیکھتے ہی ان کی بڑی بڑی کالی آنکھوں میں شکایتوں کا ایک طوفان امڈ آیا۔ ان کی ساری بزرگی اور وقار اپنی ہار پر آنسو بن کر آنکھوں کے کٹوروں میں بھر گئے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ یہ کٹورے بس اب چھلکے تب چھلکے۔

    اسی دن شام کو میں حضرت گنج سے گھوم پھر کر واپس آیا تو رئیسہ کے کمرے میں چلا گیا۔ عالیہ باجی اس کے ساتھ کیرم کھیل رہی تھیں۔ میرے پاؤں کی چاپ سنتے ہی انہوں نے اس طرح دیکھا جیسے کہہ رہی ہوں۔۔۔ تم کچھ دنوں کے لیے تو مجھے اکیلا چھوڑ دو!میں الٹے پاؤں واپس آنے کے لیے کمرے سے نکل ہی رہا تھا کہ رئیسہ چلائی، ’’ارے ارے کہاں چل دیے؟‘‘

    ’’میرا آنا کسی کو اچھا نہیں لگا شاید!‘‘ میں نے اداس لہجہ میں کہا۔

    ’’آخر کس کو؟‘‘ رئیسہ نے تیز لہجے میں پوچھا۔

    ’’اپنی بجیا سے پوچھ لو!‘‘ میں دھیرے سے بولا۔

    اور یہ سنتے ہی عالیہ باجی نے جواب تک کیرم بورڈ کے پتلے سے گھتے میں سما جا نے کی کوشش کر رہی تھی ایک پل کے لیے اپنی پلکیں اوپر اٹھائیں۔ ان کے ہونٹ ایک دوسرے میں گڑے ہوئے تھے اور کہیں کہہ رہی تھیں، ’’میں رئیسہ کی بجیا ہوں۔ کیا تمہاری بجیا نہیں ہوں!‘‘

    میرا جی بری طرح اچاٹ ہوگیا۔ دوسرے دن خالہ جان کی ڈانٹ ڈپٹ اور رئیسہ کی ساری ضد کے باوجو دمیں گھر کے لیے روانہ ہوگیا۔ گھر پر اسی زور و شور سے تیاریاں ہو رہی تھیں۔ میں نے دوچار دن تو صبر کیا لیکن ایک دن بڑی ہمت کرکے پھوپھی امی سے اتنا کہہ ہی دیا، ’’میں ابھی شادی نہیں کروں گا!‘‘

    ’’کیوں؟‘‘ پھوپھی امی نے یہ کہتے ہوئے میری طرف یوں دیکھا جیسے اچانک مجھے پاگل سمجھ بیٹھی ہوں۔

    ’’ابھی مجھے نوکری مل جانے دیجیے!‘‘ میں نے ٹالنا چاہا۔

    پھوپھی امی ایک ٹھنڈی سانس بھرکر بولیں، ’’بیٹا!آج کو تمہاری اماں ہوتیں تو۔۔۔‘‘ انہوں نے وہی آزمایا ہوا نسخہ نکال لیا تھا۔ میری کنپٹیاں جل اٹھیں۔ اماں مرحومہ کی کمندیں تو موت کے بعد اور مضبوط ہوگئی تھیں۔

    ’’ایسا ہی ہے تو میری شادی رئیسہ سے کرادیجیے!‘‘ یہ کہتے کہتے میں نے دل پر ایک پتھر کا بوجھ محسوس کیا۔ پھوپھی امی کی آنکھیں حیرت سے پھٹ پڑیں۔ انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی سے اٹھ کر ابا کے کرے میں چلی گئیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے ابا سے اس سلسلے میں کیا باتیں کیں۔ اتنا ضرور ہوا کہ ابا مجھ سے کھنچے کھنچے سے رہنے لگے۔ دوچار روز بعد جب میرا موڈ کچھ ٹھیک ہوا تو دھیمے لیکن سخت لہجے میں بولے، ’’تمہاری شادی عالیہ ہی کے ساتھ ہوگی! لیکن میں اس وقت کا انتظار کروں گا جب تم اپنے پیروں پر کھڑے ہو جاؤ۔۔۔‘‘

    اس دن پہلی بار میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میں ساری عمر یوں ہی بے روزگار پڑا رہوں۔ لیکن قسمت بھی مجھ سے شاید کوئی بدلہ لینے پر تلی ہوئی تھی۔ اس واقعے کے ٹھیک دس دن بعد معلوم ہوا کہ ریلوے میں ایک تین سو روپے کی نوکری مجھے مل گئی ہے اور دو ہفتے کے اندر ہی مجھے جوائن کرلینا ہے۔

    اب زندگی کا ایک نیا موڑ سامنے آگیا۔ میں سب کچھ بھول کر ایک ٹرنک اور بستر لیے ہوئے ایک شام الٰہ آباد کے لیے روانہ ہوگیا۔ اچھی خاصی نوکری مل جانے کی وجہ سے میں مستقبل کی طرف سے اب بے پروا ہوگیا تھا۔ کبھی کبھی میں یہ سوچتا تھا کہ جب قسمت ہی مجھے اور عالیہ باجی کو ایک رشتے میں جوڑنا چاہتی ہے تو میں اماں مرحومہ کی ایک آرزو پوری ہی کیوں نہ کردوں۔ سچ تو یہ ہے کہ دھیرے دھیرے عالیہ باجی میرے دل میں ایک نئے روپ کے ساتھ جگہ بناتی جارہی تھیں۔

    لیکن ایک روز اچانک ابا کے خط کو دیکھ کر میرے سارے بدن میں سنسنی سی دوڑ گئی۔ انہوں نے لکھا تھا کہ میری شادی بائیس دسمبر کو رئیسہ کے ساتھ ہوگی۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا لیکن جب ہر بار مجھے عالیہ باجی کے بجائے رئیسہ ہی کا نام دکھائی دیا تو میری آنکھیں سرخ ہوگئیں۔ بڑی کرب ناک ا لجھن تھی۔ آخر کار میں نے بیماری کا بہانہ کرکے تین روز کی چھٹی لی اور گھر چلا آیا۔

    نائٹرک ایسڈ کے کچھ چھینٹے بھک سے اڑ کر عالیہ باجی کی آنکھوں میں پڑگئے تھے اور وہ ہمیشہ کے لیے اندھی ہوگئی تھیں۔ یہ بات مجھے گھر پہنچتے ہی معلوم ہوگئی، جسے سنتے ہی میرے پاؤں ڈگمگانے لگے اور حلق سوکھ کر کانٹا بن گیا۔ میں نے سوچا کہ دنیا جہان کے سر پر ہاتھ رکھنے والی عالیہ باجی کا ہاتھ اب کون تھامے گا؟ بڑی مشکل سے میں نے چلتے چلتے ابا سے بس اتنا کہا کہ میری شادی بائیس دسمبر کو ہوگی لیکن عالیہ باجی کے ساتھ!

    پھوپھی نے میری بات سن لی تھی، جیسے ہی میں ان کے قریب سے گزرا، وہ میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں، ’’یوں جان بوجھ کر کون جیتی مکھی نگلتا ہے؟‘‘

    ’’لیکن پھوپھی امی۔۔۔‘‘ میں نہ معلوم کیا کہنا چاہتا تھا۔ لفظ حلق میں ڈوب کر رہ گئے۔

    ’’لیکن ویکن کچھ نہیں۔ عالیہ جنم جنم کی ایسی ہی تھی جب دیکھو بسورتی سی صورت!‘‘ پھوپھی امی تیز لہجے میں بولیں اور مجھے غصہ آگیا لیکن بڑے ضبط سے کام لے کر میں نے بس اتنا کہا، ’’اماں مرحومہ کی آرزوکا تو خیال کیجیے پھوپھی امی!‘‘

    پھوپھی امی کچھ نہ بول سکیں۔ میں نے انہیں کا حربہ ان پر آزمایا تھا۔ ابا چپ رہ کر بھی سب کچھ کہہ گئے۔ میری ہٹ دھرمی کے آگے سب کو جھکنا پرا اور بالآخرخر یہ طے ہوگیا کہ دسمبر کی بائیس کو میری شادی عالیہ باجی کے ساتھ ہوگی۔

    کیلنڈرکے ورق دھیرے دھیرے پھٹتے گئے اور دسمبر آگیا۔ ایک مہینے کی چھٹی لے کر میں گھر چلا آیا۔ بہت سارے رشتے دار جمع تھے۔ ہر شخص مجھے بڑی گھٹیا ترس آمیز نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ میں سب کچھ سمجھ کر بھی خوش اور مطمئن تھا۔ یہ خوشی کیا کم تھی کہ بچپن سے اپنی بڑائی کا رعب جمانے والی عالیہ باجی پلک جھپکتے میں مجھے سے چھوٹی ہوگئی تھیں اور قسمت کی ایک معمولی سی شرارت نے ان کی بزرگی کا اونچا پہاڑ فرش پر ڈال دیا تھا۔

    نکاح کے دوبول پڑھ کر میں نے عالیہ باجی کی خود ساختہ بزرگی کا بت ہمیشہ کے لیے توڑ دیا اور وہ رخصت ہوکر میرے گھر آگئیں۔ رات کو شاید بارہ بجے یاایک بجے، مجھے وقت یاد نہیں جب سب کے

    سب سوگئے تو کلثوم بھابھی نے مجھے ایک کمرے میں دھکیل کر باہر سے کنڈی چڑھادی۔ عالیہ باجی پھولوں سے سجے پلنگ پر گول مول سی گٹھری بنی پڑی تھیں۔ لال جوڑا عطر میں بسا ہواتھا اور کمرے میں سارے جہان کی خوشبوئیں سما گئی تھیں۔

    ’’آج بڑی ٹھنڈک ہے عالیہ با۔۔۔‘‘ کہتے کہتے میں اچانک رک گیا۔ پھر اپنے آپ ہنسی آگئی۔ عالیہ باجی اسی طرح دم سادھے بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں پلنگ پر جیسے ہی چڑھا ایسا لگا کہ عالیہ باجی کے بدن سے ابلتی مہک میرے وجود پر چھائی جارہی ہے۔ میں بڑے جذباتی انداز میں بولا، ’’عالیہ! میری جان! میری عورت! دیکھو میں تم سے کتنا بڑا ہوں۔ میں۔۔۔‘‘ اور میں نے گھونگھٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن میرا جی دھک سے ڈوب گیا۔ عالیہ باجی کہاں تھیں؟ ایک بے جان جسم بڑی بڑی کٹوروں جیسی آنکھوں جیسی آنکھوں پر پپوٹوں کی چادر تانے سو رہی تھیں اور ادھ کھلے ہونٹ جیسے کہہ رہے تھے، ’’یہ سب کہتے تجھے شرم نہیں آئی؟ دیکھ میں تجھ سے بڑی ہوں نا؟‘‘

    میں دھیرے سے بڑبڑایا، ’’تم ٹھیک کہتی ہو عالیہ باجی۔ زندگی نے ایک موڑ پر لاکر تمہیں مجھ سے چھوٹا کردیا تھا۔ مر کر تو تم اور بڑی ہوگئیں!‘‘

    اور ان کی چھاتی سے لپٹ کر میں ہچکیاں لینے لگا۔

    مأخذ:

    چہارسو (Pg. 34)

      • ناشر: فیض الاسلام پرنٹنگ پریس، راولپنڈی
      • سن اشاعت: 2017

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے