aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آؤ کہانی لکھیں!

سعادت حسن منٹو

آؤ کہانی لکھیں!

سعادت حسن منٹو

MORE BYسعادت حسن منٹو

    لا جونتی: اپنے پتی سے اشتیاق بھرے لہجے میں۔۔۔ آؤ کہانی لکھیں۔

    کشور: (چونک کر)کہانی؟

    لاجونتی: ہاں ہاں‘کہانی

    کشور: میں لکھنا نہیں جانتا‘کہو تو ایک سُنادوں۔

    لاجونتی: سُناؤ۔

    کشور: سُنو۔۔۔ایک تھی کہانی اُس کی بہن تھی نہانی‘اُس کا بھائی تھا بسولا۔اُس نے بسائے تین گاؤں دو بسے بسائے ایک بسا ہی نہیں جو بسا ہی نہیں وہیں آئے تین کہار۔ دو لنگڑے لُولے ایک کے ہاتھ ہی نہیں جس کے ہاتھ ہی نہیں اُس نے بنائیں تین ہنڈیا‘ دو ٹوٹی ٹاٹی ایک کا تلا ہی نہیں جس کا تلا ہی نہیں اُس میں پکائے تین چاول‘ دو اینٹھے آنٹھے ایک گلا ہی نہیں۔ جو گلا ہی نہیں اُس پر اُترے تین مہمان دو رُوٹھے راٹھے ایک مناہی نہیں جو منا ہی نہیں۔۔۔

    لاجونتی: ہٹاؤ بھی اس بکواس کو۔۔۔

    کشور: ارے ‘یہ بکواس ہے کیا؟۔۔۔ جب جانوں اگر تم بتا دو کہ اس مہمان کو کیا ہوا جو منا ہی نہیں؟

    لاجونتی: یہ بھی کوئی بڑی بات ہے۔

    کشور: بات تو بڑی نہیں پر تم نہ بتا سکو گی۔۔۔ کوشش کرو۔ دو رُوٹھے راٹھے ایک مناہی نہیں‘ جو مناہی نہیں۔۔۔اُس کو؟

    لاجونتی: گھر سے نکال باہر کیا۔

    کشور: وہ کیوں؟

    لاجونتی: جب تم نہیں مانا کرتے تو میں یہی تو کیا کرتی ہوں۔

    کشور: ٹھیک ہے پر وہ مہمان ہے‘ میں نہیں ہوں۔۔۔ ہر شخص میری طرح کمزورد دل کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ تم نے سوچے سمجھے بغیر اُسے گھر سے نکال دیا۔

    ۔۔۔واہ بھئی واہ!!

    لاجونتی: میں تو یہی کرتی

    کشور: تم ایسا ہرگز نہ کرتیں۔

    لاجونتی: (زور سے ) میں ضرور کرتی۔

    کشور: تم کبھی نہ کرتیں۔

    لاجونتی: میں کہتی ہوں میں ایسا ضرور کرتی۔

    کشور: پھر وہی بات میں جو کہہ رہا ہوں کہ تم ایسا کبھی نہ کرتیں۔

    لاجونتی: دیکھو جی یہ بات بڑھ جائے گی۔ تم جانتے ہو کہ میں اپنے ہٹ کی بہت پکی ہوں۔

    ایک انچ ادھر نہ ہٹوں گی۔ تمہارا رُوٹھا ہوا مہمان گھر سے ضرور باہر نکالا جائے گا۔

    کشور: تم اُسے گھر سے باہر نہیں نکال سکتی ہو۔

    لاجونتی: (غصے میں) کیا کہا؟

    کشور: (گھبرا کر) میں نے کیا کہا تھا؟

    لاجونتی: یہ کہا تھا کہ میں اُسے گھر سے باہر نہیں نکال سکتی۔۔۔

    کشور: سچ تو کہا تھا۔۔۔ تم پر کیسے کر سکتی ہو۔

    لاجونتی: کیسے کر سکتی ہوں۔۔۔ تو بتاؤں تمہیں گھر سے باہر نکال کے۔۔۔ میں کیسے کر سکتی ہوں۔۔۔ گویا آج تک میں نے کبھی تمہیں گھر سے باہر نکالا ہی نہیں۔۔۔ چلو ابھی یہاں سے بھاگ جاؤ۔

    کشور: لا جونتی ذرا شانتی سے کام لو۔۔۔بات ہم اُس روٹھے ہوئے مہمان کی کر رہے ہیں اور گھر سے باہر تم مجھے کر رہی ہو۔

    لاجونتی: جو بات میں کہوں گی‘ تمہیں ماننا ہو گی۔

    کشور: پر یہ کیسے ہو سکتا ہے‘ کہانی میں ایسا نہیں لکھا ہے۔

    لاجونتی: کہانی میں کیا لکھا ہے؟۔۔۔یہی لکھا ہونا چاہیئے کہ اُس کو گھر سے نکال باہر کیا۔

    کشور: تم مانتی نہیں مگر میں کہتا ہوں کہ تم بہت سخت دل ہو۔۔۔ وہاں تو کچھ اور ہی لکھا ہے۔

    لاجونتی: میں کسی کے لکھے ہوئے کو نہیں مانوں گی۔

    کشور: تم سن تو لو‘دو رُوٹھے راٹھے‘ ایک مناہی نہیں‘ جو مناہی نہیں اُس کو۔۔۔

    لاجونتی: اُس کو؟

    کشور: لگائے تین پا پوش‘ ایک اِدھر ایک اُدھر ایک لگا ہی نہیں۔۔۔ اب تم خود ہی بتاؤ کہ میں زیادتی کر رہا تھا یا تم؟

    لاجونتی: تین پاپوش لگائے گئے نا؟

    کشور: ہاں ہاں‘تین۔۔۔پُورے تین۔

    لاجونتی: اگر دو ہوتے تو میں کبھی نہ مانتی۔۔۔ تمہیں اچھی طرح یاد ہے نا کہ تین ہی تھے۔

    کشور: تھے تو تین ہی۔۔۔پر تیسرا لگا ہی نہیں۔

    لاجونتی: کوئی بات نہیں۔۔۔ میرے ہاتھ کبھی نہیں چُوکیں گے۔

    کشور: میں سمجھا نہیں۔

    لاجونتی: اچھا ہے۔۔۔ابھی سمجھ کے کیا کرو گے۔

    (نرائن گھنٹی بجاتا ہے)

    کشور: کوئی آیا ہے۔

    لاجونتی: تمہار دوست نرائن ہے۔

    کشور: یہ تم نے کیسے پہچانا؟

    لاجونتی: گھنٹی سے۔

    نرائن: پر نام بھابی۔۔۔ ہیلوا ولڈ بوائے۔۔۔ کیا قصہ ہے بھئی۔۔۔رونی صورت کیوں بنائے بیٹھے ہو؟

    کشور: (چونک کر) میں؟۔۔۔بھئی میں ذرا سوچ رہا تھا۔

    لاجونتی: (طنزیہ انداز میں) آپ سوچ رہے تھے۔۔۔ کیا یہ کچھ سوچ بھی سکتے ہیں۔

    کشور: میں یہ سوچ رہا تھا۔ کہ آج اُنہوں نے گھنٹی کی آواز سے پہچان لیا ہے کہ تُم آرہے ہو تو کل میری آواز سے پہچان لیں گی کہ میں ڈاکٹر کے پاس جانے کا بہانہ کر کے تمہارے ہاں تاش کھیلنے آرہا ہوں۔۔۔ زندگی یوں بسر نہ ہو سکے گی نرائن۔۔۔یہ شرلک ہو مزبن رہی ہیں دن بہ دن۔

    نرائن: (ہنستا ہے) اماں یہ شرلک ہومز بھی ایک ہی کائیاں تھا۔ جوتے کی نوک دیکھ کر یہ بتا دیتا تھا کہ اُس کے پہننے والی کی ناک ٹیڑھی ہے ،چھڑی سے معدے کی حالت‘سگرٹ کی راکھ سے آنکھوں کا رنگ اور ہیٹ سے پیروں کی شکل بتا دینا اُس کے نزدیک معمولی کام تھا۔

    لاجونتی: یہ سب فرضی قصے ہیں۔ جھوٹ موٹ کی باتیں۔

    نرائن: جھوٹ موٹ کی باتیں۔۔۔کیا کہہ رہی ہیں آپ بھابھی جان۔

    لاجونتی: یہ سب کہانیاں ہیں بابا‘ ان میں سچ کہاں جس نے چاہا گپ ہانک دی۔۔۔۔بھلا ایسا کبھی ہو سکتا ہے۔۔۔ مجھے کہیئے تو میں اپنی طرف سے اسی طرح کی تین چار کہانیاں بنا کر سُنا دوں۔

    نرائن: تو یہ سب کہانیاں ہوتی ہیں؟

    لاجونتی: بالکل۔۔۔فرضی قصے۔۔۔

    نرائن: جن کو میں بھی لکھ سکتا ہوں۔

    لاجونتی: جب آپ کے دوست لکھ سکتے ہیں تو کیا آپ نہ لکھ سکیں گے۔

    نرائن: اماں کیشو‘مجھے معلوم نہ تھا۔ کہ تم اسٹوری رائٹر بھی ہو۔۔۔ کیا لکھا کرتے ہو ایسی کہانیاں؟

    کشور: بھئی کبھی لکھی تو نہیں لیکن صبح سے یہ میرے پیچھے پڑی ہوئی ہیں کہ آؤ کہانی لکھیں۔۔۔ آؤ کہانی لکھیں۔۔۔

    نرائن: توآؤ کہانی لکھیں۔

    لاجونتی: آؤ کہانی لکھیں۔

    کشور: تینوں مل کر ایک کہانی لکھیں۔۔۔ بہت اچھا خیال ہے۔۔۔۔ایک کہانی کے تین رائٹر ۔۔۔شروع کون کرئے؟

    لاجونتی: جو بولے وہی کنڈی کھولے۔

    کشور: تو ،لو۔۔۔تو، لو میں شروع کرتا ہوں۔۔۔ ایک روز کا ذکر ہے۔۔۔ ایک روز کا ذکر ہے‘ بابو سالگ رام رات کو بہت دیر سے گھر آیا۔۔۔ وہ سخت خوف کھا رہا تھا۔

    لاجونتی: اُس کی بیوی کملا رات کے سناٹے میں چُپ چاپ اُس کا انتظار کر رہی تھی۔

    کشور: تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ بابو سالگ رام بیا ہا ہوا تھا؟

    لاجونتی: رات کو وہی لوگ دیر سے آتے ہیں اور ڈرتے ہیں جو بیاہے ہوئے ہوں۔

    کشور: اچھا بھئی تمہاری مرضی ۔۔۔ تو اُس کی بیوی رات کے سناٹے میں اُس کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔ سالگ رام یہ سوچ رہا تھا۔۔۔

    لاجونتی: کہ اُس کی بیوی کو پتا چل گیا کہ وہ رات کے ساڑھے بارہ بجے تک برج کھیلتا رہا ہے۔ اور مہینے کی آدھی تنخواہ ہار گیا ہے تو آفت آجائے گی۔

    کشور: تم نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے۔ کہ وہ برج کھیل رہا تھا۔۔۔ حالانکہ میں چاہتا ہوں کہ وہ رات کو ایک ناچ دیکھ کر آئے۔

    لاجونتی: ناچ؟۔۔۔تو یہ اور بھی اچھا ہے۔۔۔بو لیئے نرائن صاحب ہم کہاں تک پہنچے تھے؟

    نرائن: ایک روز کا ذکر ہے بابو سالگ رام رات کو بہت دیر سے آیا۔ وہ سخت خوف کھا رہا تھا۔اُس کی بیوی کملا رات کے سناٹے میں چُپ چاپ اُس کا انتظار کر رہی تھی۔ سالگ رام یہ سوچ رہا تھا۔۔۔

    کشور: یہ سوچ رہا تھا کہ ۔۔۔کہ ۔۔۔ وہ عورت جس کا ناچ وہ کلب گھر میں دیکھ کے آیا ہے۔۔۔

    لاجونتی: کتنی حسین تھی۔۔۔ چاند سا مکھڑا ‘گوری گوری رنگت‘کالی ناگنوں کے سے بال جب وہ ناچتی تھی تو اُس کے سفیدٹخنوں میں بندھے ہوئے گنگھرؤوں کی جھنجھنا ہٹ کس طرح اُس کے دل کی دھڑکنوں میں گھل مل جاتی تھی۔۔۔

    نرائن: واہ بھائی واہ۔۔۔I say it is poetry-it is Literature۔۔۔ اُس کے سفیدٹخنوں میں بندھے ہوئے گھنگھروؤں کی جھنجھناہٹ ابھی تک گونج رہی تھی۔

    کشور: اُس کے کانوں میں ان گھنگھروؤں کی آواز تک گونج رہی تھی۔

    لاجونتی: اس کے ساتھ ساتھ اُس کے کان اُن جھڑکیوں اور گالیوں کے بے پناہ شور سننے کے لیئے تیار ہو رہے تھے جو اُس کی بیوی اپنے سینے میں چُھپائے بیٹھی تھی۔

    کشور: میں پوچھتا ہوں تم بیچ میں اس بیوی کا قصہ کیا لے بیٹھی ہو۔

    لاجونتی: عورت کے بغیر کوئی افسانہ مکمل نہیں ہو سکتا۔

    کشور: ٹھیک ہے پروہ جھڑکیوں اور گالیوں کا بے پناہ طوفان اپنے سینے میں کیوں چھپائے بیٹھی ہے؟

    لاجونتی: عورت کیا اپنے حقوق کی حفاظت نہ کرے؟۔۔۔تم جیسے بے وفا مرد اگر رات کو دو دو بجے گھر آئیں تو کیا تمہارا یہ مطلب ہے کہ عورتیں خاموش بیٹھی رہیں کچھ نہ کہیں۔۔۔گُھل گُھل کے مر جائیں‘ تم عیش کرو‘ناچ دیکھو‘ رنگ رلیاں مناؤ اور ہم اپنی زبان پر تالے ڈال لیں۔

    کشور: میں نے یہ کب کہا ہے۔۔۔ میں نے یہ کب کہا ہے۔۔۔ تم تو بات بات پر بھڑک اٹھتی ہو۔ ہم کہانی لکھ رہے ہیں بابا۔

    لاجونتی: لکھو۔۔۔ پر میری بات ٹوکنے کا تمہیں کوئی ادھیکار نہیں۔ سمجھ لیا۔۔۔ہاں تو مسٹر نرائن ہم کہاں تک پہنچ چکے ہیں۔

    نرائن: ( ٹھنڈی سانس بھر کر) بہت دُور اُس کے کان ان جھڑکیوں اور گالیوں کا بے پناہ شور سننے کے لیئے تیار ہو رہے تھے۔ جو اُس کی بیوی کملا اپنے سینے میں چھپائے بیٹھی تھی۔

    کشور: سالگ رام کو اس کی کوئی پروا نہ تھی۔

    لاجونتی: اُس پر اس ناچنے والی کے عشق کا بُھوت سوار تھا۔

    کشور: اُس نے دل میں یہی سوچا‘ مگر فوراً ہی اُس کو خیال آیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ اُسے اپنی بیوی سے بے حد محبت ہے۔

    لاجونتی: وہ اپنے آپ کو دھوکا دے رہاتھا صرف اس لیئے کہ اُس کے دل سے وہ ڈر دُور ہو جائے جو عام طور پر اُن مردوں کے دل میں پیدا ہو جایا کرتا ہے‘ جو اپنی عورتوں سے دغا کرتے ہیں۔

    کشور: اُس کا یہ خیال بھی غلط نکلا۔۔۔ دراصل اُس کے دل کو کوئی اور ہی چیز ستا رہی تھی۔

    لاجونتی: کیا؟

    کشور: یہ اُس کو معلوم نہیں تھا؟

    لاجونتی: یہ بھی عجیب بات ہے‘ اُس کو معلوم کیوں نہیں تھا؟

    کشور: اُس کو معلوم کیوں نہیں تھا؟اس لیئے کہ اُسے معلوم نہیں تھا۔

    لاجونتی: مجھے اس قسم کی اوٹ پٹانگ باتیں پسند نہیں۔ تم ٹھیک ٹھیک بتاؤ۔ کہ اُسے کیوں معلوم نہیں تھا۔ تو یہ کہہ دینے سے کہ اُسے معلوم نہیں تھا اپنے سالگ رام کو اُس کی مظلوم استری کی آنکھوں میں سر خرو ثابت نہیں کر سکتے۔ جو سزا میں نے تمہارے بابو سالگ رام کے لیئے سوچ رکھی ہے‘ اُسے مل کے ہی رہے گی۔۔۔ سمجھے؟۔۔۔تمہاری یہ چالا کیاں میرے ساتھ نہ چل سکیں گی۔

    کشور: دیکھا نرائن۔۔۔ میں تُم سے جھوٹ نہیں کہا کرتا۔ یہ عورت بارود کی بنی ہوئی ہے باردو کی۔۔۔آتش بازی کا چکر ہے۔۔۔اب تم بتاؤ کہ ایسی حالت میں افسانہ کیسے مکمل ہو سکتا ہے؟

    نرائن: مجھے تم سے پوری ہمدردی ہے۔

    لاجونتی: اور مجھ سے؟

    نرائن: اور آپ سے میں صرف اس قدر کہنا چاہتا ہوں کے آپ جو کچھ کہتی ہیں صحیح ہے

    لاجونتی: میں آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔

    کشور: مگر فیصلہ کیا ہوا؟

    نرائن: فیصلہ یہ ہے کہ کہانی کو کسی نہ کسی طرح ختم کر دیا جائے۔

    کشور: بہت بہتر۔۔۔تو ہم کیا کہہ رہے تھے؟

    نرائن: یہ کہہ رہے تھے کہ دراصل اُس کے دل کو کوئی اور چیز ہی ستا رہی تھی۔ کیا؟ ۔۔۔ یہ اُسے معلوم نہیں تھا۔

    لاجونتی: اسی ادھیڑبُن میں وہ مکان کے قریب پہنچ گیا۔

    کشور: اتنی جلدی؟

    لاجونتی: تم بیچ میں نہ بولو جی۔۔۔آپ لکھئے مسٹر نرائن۔۔۔اسی اُدھیڑ بن میں وہ مکان کے قریب پہنچ گیا۔ اُس کی بیوی بڑی بے چینی سے کمرے میں اُس کا انتظار کر رہی تھی۔ بابو سالگ رام بڑے دروازہ میں داخل ہوا۔

    کشور: یہ کہ ایکا ایکی اُسے کوئی خیال آیا اور باہر نکل کر سڑک پر ٹہلنے لگا۔

    لاجونتی: دیکھئے نرائن صاحب آپ کے دوست اُس اختیار سے ناجائز فائدہ اُٹھا رہے ہیں جو میں نے ہی اُن کے ہاتھوں میں دے دیا ہے۔

    کشور: کیسا اختیار؟۔۔۔جھوٹ نہ بولو ۔۔۔آج تک تم نے مجھے کوئی اختیار بھی دیا ہے؟۔۔۔ میں تو اس گھر میں نوکروں سے بدتر زندگی بسر کر رہا ہوں۔۔۔ مجھے کون سا اختیار دیا ہے تم نے پر ماتما کے لیئے جھوٹ نہ بولو۔

    لاجونتی: میری جوتی کو کیا غرض پڑی ہے جھوٹ بولنے کی ۔۔۔اول درجے کے جھوٹے تو تم ہو۔۔۔ ابھی پرسوں کی بات ہے دوستوں کے ساتھ وسکی اُڑا کر رات کو جب آئے تھے اور میں نے پوچھا تھا یہ تیز تیز بوُ تمہارے منہ سے کیسی آرہی ہے تو تم نے کیا جواب دیا تھا۔

    کشور: میں کیا جانوں‘ مجھے ہوش تھوڑی تھا۔

    نرائن: بھابی میں ایک بات عرض کروں۔

    لاجونتی: فرمائیے۔

    نرائن: اس وقت تو آپ کے پتی نے سولہ آنے سچ کہا ہے۔۔۔بھئی کیشو میں تمہاری ہمت کی داد دیتا ہوں‘ مجھ سے تو اتنا بڑا سچ کبھی نہ بولا جاتا۔۔۔اچھا بھابی چھوڑئیے پرانی باتوں کو ہمیں کہانی بھی تو مکمل کرنا ہے۔

    لاجونتی: کیا لکھا یا تھا انہوں نے؟

    نرائن: کہ ایکا ایکی اُسے کوئی خیال آیا اور وہ باہر نکل کر سڑک پر ٹہلنے لگا۔

    لاجونتی: گویا سڑک کوئی باغ تھا۔۔۔ خیر تو لکھیئے۔۔۔تھوڑی دیر ٹہلنے کے بعد با بو سالگ رام کے قدم اپنے آپ دروازے کی طرف اُٹھنے لگے اور ابھی وہ اچھی طرح کچھ سوچنے بھی نہ پایا تھا کہ سیڑھیاں طے کر کے دروازے کے سامنے تھا۔ اُس کی بیوی کو ایسا معلوم ہوا کہ اُس کا پتی آگیا ہے اور دروازے کے باہر کھڑا ہے۔ دوڑ کر اُس نے دروازہ کھول دیا۔

    کشور: مگر اُس کو یہ دیکھ کر بڑی نااُمید ی ہوئی کہ دروازے کے باہر کوئی بھی نہ تھا۔

    لاجونتی: وہ کیسے؟

    کشور: ایسے کہ بابو سالگ رام غلطی سے دوسری منزل پر ڈاکٹر ہیم چندر کے فلیٹ کو اپنا مکان سمجھے ہوئے تھا۔

    لاجونتی: اچھا۔۔۔اچھا۔۔۔ کوئی بات نہیں‘ کوئی بات نہیں۔۔۔بابو سالگ رام غلطی سے دوسری منزل پر ڈاکٹرہیم چندر کے فلیٹ کو اپنا مکان سمجھے ہوئے تھا۔ ۔۔۔ یہی لکھایا ہے نا تم نے؟ ۔۔۔ آگے لکھیئے مسٹرنرائن۔۔۔ اس نے دروازے پر دستک دی اور ڈکٹرہیم چندر ڈنڈا ہاتھ میں لے کر باہر نکلا۔

    کشور: بابو سالگ رام سے ان الفاظ میں معذرت طلب کی۔۔۔ مجھے بے حد افسوس ہے کہ آپ کی مسہری کا وہ ڈنڈا جو میری بیوی نے غسلخانے کانل صاف کرنے کے لیئے منگوایا تھا فوراً واپس نہ پہنچا سکا۔ آپ کو بہت تکلیف ہوئی۔

    لاجونتی: یہ۔۔۔یہ۔۔۔ یہ سراسر شرارت ہے۔۔۔ یہ ظلم ہے۔ مسٹر نرائن میں اس کے خلاف آواز بلند کیئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ آپ کے دوست مقابلے میں نہایت اوچھے ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔

    نرائن: مجھے اس کا پورا پورا احساس ہے۔۔۔ مگر کیا میں آپ سے کچھ پوچھ سکتا ہوں؟

    لاجونتی: بڑے شوق سے!

    نرائن: کیا یہ جنگ ہے؟

    لاجونتی: جی ہاں‘ جنگ ہی تو ہے

    نرائن: تو معاف کیجئے۔ جنگ اور محبت میں ہر چیز روا ہوتی ہے۔ آپ کو بھی تو ہر قسم کا اختیار حاصل ہے۔

    لاجونتی: ہے نا؟ تو کیا میں اس اختیار سے فائدہ اٹھاؤں۔

    نرائن: کیوں نہیں؟

    لاجونتی: تو لکھیئے۔۔۔ اس آسانی سے اس الجھن سے نجات پا کر بابو سالگ رام اپنے فلیٹ میں پہنچا۔ اس کی بیوی دہلیز میں کھڑی تھی۔ اپنے پتی کو ڈنڈا ہاتھ میں لیئے آتا دیکھ کر اس نے دوڑ کے۔۔۔ جو چیز اسے پہلے نظر آئی اٹھا لی (وہ گھنگھروؤں کی آواز اور آنے والے حادثے کے لیئے تیار ہو کر دروازے کے بیچ میں کھڑی ہو گئی۔۔۔اب بچاؤ اپنے آپ کو۔

    کشور: لاجونتی کہیں سچ مچ یہ گھنگھرو میرے ہی منہ پر نہ دے مارنا۔۔۔پرے کرو اس ہاتھ کو۔۔۔ اگر میرے ہاتھ میں ڈنڈا ہوتا تو اور بات تھی۔۔۔ مگر میں تو نہتا ہوں۔

    لاجونتی: تم زیادہ باتیں نہ بناؤ جی۔۔۔ اپنے بابو سالگ رام کو بچانیکی کوشش کرو۔

    کشور: میں پہلے اپنے آپ کو تو بچالوں۔۔۔ چھوڑدو ان گھنگھروؤں کو لا جونتی۔۔۔ مجھے بڑی وحشت ہوتی ہے تمہارے اٹھے ہوئے ہاتھ سے۔

    لاجونتی: اب دھری رہ گئی ساری چالاکی۔۔۔ بچاؤ اس مردوئے سالگ رام کو۔۔۔

    کشور: بھئی پرماتما کے لیئے مجھے اور بابو سالگ رام کو کسی حیلے سے بچاؤ۔۔۔میرادماغ تو اس نے ان’’ گھر کیوں ‘‘ہی سے پریشان کر دیا ہے۔

    لاجونتی: (ظفر مندانہ ہنسی) میری طرف سے آپ کو مدد کرنے کی اجازت ہے مسٹر نرائن۔

    نرائن: میں آپ کی اس عنایت کابے حد شکر گزار ہوں۔ تو کیا میں سچ مچ ان کی مدد کر سکتا ہوں۔

    لاجونتی: میں تمام دنیا کے مردوں کو ان کی مدد کی اجازت دیتی ہوں۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ اب کوئی حیلہ کام نہ کر سکے گا۔

    نرائن: شاید۔۔۔ تو بابو سالگ رام کی بیوی آنے والے حادثے کے لیئے تیار ہو کر دروازے کے بیچ میں کھڑی ہو گئی۔۔۔ وہ کانپ رہی تھی۔

    لاجونتی: کانپ رہی تھی۔۔۔غصہ سے؟

    نرائن: جی نہیں۔۔۔ وہ کانپ رہی تھی۔ اس کا پتی ڈنڈا ہاتھ میں لیئے مضبوط قدموں سے اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ کملادوڑ کے آگے بڑھی اور اپنے پتی کے قدموں میں گر پڑی۔۔۔ گھنگھر ودھاگے کے بندھن سے آزاد ہو کر پتھریلے فرش پر تاروں کی طرح بکھر گئے۔

    لاجونتی: پھر کیا ہوا؟

    نرائن: بابو سالگ رام کو سخت حیرت ہوئی کہ یہ معاملہ کیا ہے۔ گھبرائے ہوئے لہجے میں وہ صرف اس قدر کہہ سکا ’’کملا۔۔۔ اور کملانے آنسوؤں بھری آواز میں کہنا شروع کیا۔’’مجھے معاف کر دو ناتھ‘ مجھے معاف کر دو۔۔۔ جو کچھ میں نے کیا وہ صرف تمہاری خاطر تھا۔۔۔ صرف تمہاری خاطر۔۔۔ میری خاطر؟ بابو سالگ رام نے پوچھا’’ہاں تمہاری خاطر۔۔۔ اگر تمہارے سر پر تین ہزار روپے کا قرضہ نہ ہوتا تو میں کبھی ایسا نہ کرتی۔۔۔مجھے معاف کر دو۔

    لاجونتی: یہ کیا پہیلی ہے۔ میری سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں آیا۔

    نرائن: بابو سالگ رام کی سمجھ میں بھی کچھ نہ آرہا تھا۔ اس نے پوچھا کملا یہ تم کیا کہہ رہی ہو‘ ۔۔۔کملا نے جواب دیا۔ میں آج رات یونائٹیڈ کلب میں تمہاری اجازت کے بغیر ناچ کے آئی ہوں۔ مجھے اس کے عوض تین ہزا رروپے ملے ہیں جن سے تمہارا قرضہ ادا ہو سکتا ہے۔۔۔ بابو سالگ رام کے منہ سے بے اختیار ایک چیخ نکلی۔ وہ اس سے لپٹ گیا اور کہنے لگا یہ کیا رادھا کے لباس میں یونائٹیڈ کلب کے اسٹیج پر تم ناچ رہی تھیں۔۔۔ میں بھی تو وہیں موجود تھا۔

    کشور: پھر کیا ہوا؟

    نرائن: پھر کیا ہونا تھا۔۔۔ بابو سالگ رام اور۔ کملا خوشی خوشی کمرے میں جا کر سو گئے اور ساری رات ان دونوں کے کانوں میں گھنگھروؤں کی جھنجھناہٹ گونجتی رہی۔

    ۔۔۔اچھا پرنام بھابی۔۔۔ گڈنائٹ اولڈ بوائے۔۔۔ میری دعا ہے کہ آج رات آپ دونوں کے کانوں میں بھی گھنگھرو بجتے رہیں۔

    فیڈ آؤٹ

    مأخذ:

    آؤ

      • اشاعت: 1940

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے