aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چوڑیاں

MORE BYسعادت حسن منٹو

    افراد

    حامدکالج کا ایک جواں طالب علم ،طبیعت شاعرانہ

    سعیدحامد کا دوست

    ڈپٹی صاحب حامد کے والد

    ثُریّاحامد کی بہن

    حمیدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ماں حامد کی ماں

    دکان دار۔حمیدہ کی ایک سہیلی۔تاروالا اور ایک ملازم۔

    پہلا منظر

    کالج ہوسٹل کا ایک کمرہ۔۔۔ہر چیز قرینے سے رکھی ہے بہت کم فرنیچر ہے لیکن ٹھکانے سے رکھا ہے اور بہت خوب صورت دکھائی دیتا ہے۔ پلنگ کی چادر اُجلی ہے‘بے داغ۔۔۔ میز کا کپڑا بھی صاف ستھرا ہے دیواروں پر صرف دو تصویریں نظر آتی ہیں چغتائی کی جن کے فریم بہت ہی نازک ہیں۔ میز پر کچھ کتابیں رکھی ہیں جن میں سے اکثر شاعروں کے دیوان ہیں۔۔۔حامد آرام کرسی میں پورے لباس میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہے اور اس کا دوست سعید لوہے کے پلنگ پر لیٹا ،نرم نرم تکیوں پر کہنی جمائے‘ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے رکھے حامد کی طرف دیکھ رہا ہے۔ جو اخبار پڑھنے میں مصروف ہے۔

    حامد(اخبار کے پیچھے سے) اپنے عزیزوں اور دوستوں کو تحفے دیجئے۔۔۔ہیں بھئی۔۔۔اشتہار کی سرخی دلچسپ ہے۔۔۔’’اپنے دوستوں اور عزیزوں کو تحفے دیجئے۔۔۔شادی بیاہ اور سالگرہ اور اسی قسم کی دوسری تقریبوں پر حسین تحفے ہی دینے چاہئیں۔۔۔آپ کا دیا ہوا آئینہ‘آپ کا پیش کردہ پھولدان‘آپ کا بھیجا ہوا ہار۔۔۔ذرا غور فرمائیے۔ ان حسین تحفوں میں کتنی شاعری ہے۔۔۔ہمارے شوروم میں تشریف لائیے اور اپنے دوست اپنے عزیز یا اپنے۔۔۔

    (سعید کھانستاہے)

    حامد: کوئی تحفہ دینے کے لیئے اپنے دل پسند شعرانتخاب فرمائیے۔

    سعید: (لائیے اخبار میرے حوالے کیجئے۔۔۔میں جنگ کی تازہ خبریں پڑھنا چاہتا ہوں۔۔۔)

    حامد: (اخبار چہرے پر سے ہٹاتے اور اسے تہہ کرتے ہوئے)آپ کو جنگ سے اتنی دل چسپی کیوں ہے؟

    سعید: اس لیئے کہ میں بہت صُلح کُل آدمی ہوں۔

    حامد: یہ جنگ بھی صُلح کُل آدمی ہی کر رہے ہیں(اخبار تہہ کرتا اُٹھتا ہے) خیر‘ہٹائیے اس قصے کو۔۔۔ میں آپ سے یہ عرض کرنے والا تھا کہ میں ایک حسین تحفہ خریدنا چاہتا ہوں۔

    سعید: (کروٹ بدل کر)کس کے لیئے؟

    حامد: (اخبار میز پر پھینکتے ہوئے) اس کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا؟

    سعید: خوب۔

    حامد: تحفہ لے آؤں تو بعد میں فیصلہ کر لیا جائے گا۔

    سعید: (اٹھ کے پلنگ پر بیٹھ جاتا ہے)ٹھیک۔۔۔ لیکن آپ کا کوئی دوست ۔۔۔کوئی عزیز۔۔۔؟۔۔۔کوئی ۔۔۔؟

    حامد: یہاں آپ کے سوا کوئی نہیں۔

    سعید: (خوش ہو کر)تو۔۔۔

    حامد: جی نہیں۔ تحفہ میں آپ کو نہیں دینا چاہتا۔

    سعید: کیوں؟

    حامد: (کرسی لے کر سعیدکے پاس بیٹھ جاتا ہے) اس لیئے کہ آپ کو اپنی تاریخ پیدائش ہی معلوم نہیں۔۔۔فرمائیے آپ کب پیدا ہوئے تھے؟

    سعید: ایسی چیزیں کون یاد رکھتا ہے۔

    حامد: اب آپ کی سالگرہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

    سعید: جی ہاں۔ بالکل پیدا نہیں ہوتا۔

    حامد: رہی آپ کی شادی تو اس کے متعلق مجھے یقین ہے کہ کبھی ہوہی نہیں سکتی۔

    سعید: یعنی اس معاملے میںآپ مجھ سے بھی کہیں زیادہ نا اُمید ہو چکے ہیں۔

    حامد: جی ہاں اس لیئے کہ آپ کبھی یہ فیصلہ نہیں کر سکیں گے کہ آپ کو پچاس برس کی عورت چاہیئے جس میں سولہ برس کی الھڑلڑکی کی خام کاریاں ہوں یا آپ کو سولہ برس کی لڑکی چاہیئے جس میں پچاس برس کی عورت کی پختہ کاریاں موجود ہوں۔۔۔لیکن میرا نقطۂ نظر بالکل جدا ہے۔۔۔

    سعید: (پلنگ پر سے اٹھ کر آرام کرسی پر بیٹھ جاتا ہے جہاں پہلے حامد بیٹھا تھا) جو مجھے اچھی طرح معلوم ہے لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ تحفہ خریدنے کے بعد ہی شادی کے مسئلے پر غور کریں گے۔

    حامد: غالباً ایسا ہی ہو گا۔

    سعید: تو ظاہر ہے کہ آپ کوئی زنانہ تحفہ خریدیں گے۔

    حامد: بالکل ظاہر ہے(پلنگ پر لیٹ جاتا ہے اسی طرح جس طرح سعید لیٹا ہوا تھا)۔۔۔ میں نے اگر کوئی مردانہ تحفہ خریدا تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ میں بہت خود غرض اور کمینہ ہوں۔

    سعید: کیا شک ہے۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔

    حامد: آپ کا مطلب ٹھیک ہے اس لیئے کہ تحفہ میری طرف سے ہو گا۔

    لیکن ہو سکتا ہے کہ میں اپنی سالگرہ منالوں۔ کیونکہ مجھے اپنی تاریخ پیدائش اچھی طرح یاد ہے۔۔۔میرا مطلب ہے زبانی یاد نہیں لیکن نوٹ بک میں لکھی ہوئی موجود ہے۔

    سعید: اس صورت میں بھی آپ کا تحفہ آپ کی طرف سے ہی ہو گا۔

    حامد: (بستر پر اُٹھ کر بیٹھ جاتا ہے)ارے ہاں۔۔۔یہ تو ہو گا۔۔۔ تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ تحفہ خریدنے کے بعد مجھے کوئی عورت۔۔۔

    سعید: (اُٹھ کھڑا ہوتا ہے) یا لڑکی کی تلاش کرنا پڑے گی جس کے ساتھ آپ شادی کر سکیں۔

    حامد: ہاں ایسی عورت۔۔۔

    سعید: یا لڑکی!

    حامد: یا لڑکی۔۔۔مجھے ہر حالت میں تلاش کرنا پڑے گی۔۔۔

    سعید: ہر حالت میں کیوں؟

    حامد: ہر حالت میں نہیں۔۔۔صرف اس حالت میں جب میں نے تحفہ خرید لیا ہو گا۔

    سعید: یہ حالت بہت ہی قابلِ رحم ہو گی۔

    حامد: کچھ بھی ہو۔۔۔ میں تحفہ خرید نے کا فیصلہ کر چکا ہوں۔۔۔ اب یہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔۔۔ آئیے چلیں۔۔۔

    (حامد ٹوپی پہنتا ہے۔۔۔ سعید ذرا آئینے میں اپنے بال درست کرتا ہے ۔

    حامد میز پر ہے سے اخبار اُٹھاتا ہے)

    حامد: چلیئے!

    سعید: چلیئے!

    (دونوں باہر نکل جاتے ہیں)

    دُوسرا منظر

    تحفوں کی دُوکان۔۔۔وسیع وعریض جگہ ہے جہاں بے شمار الماریاں دھری ہیں بڑے بڑے شیشے کے شوکیس رکھے ہیں۔ ہر ایک چیزجِھلمل جِھلمل کر رہی ہے۔۔۔ بہت سے گاہک جمع ہیں کچھ آرہے ہیں کچھ جارہے ہیں۔۔۔حامد اور سعید ادھر آتے ہیں۔ حامد کے ہاتھ میں اخبار ہے وہ اس دوکان کا پتہ دیکھ رہا ہے۔۔۔دوکان دار نئے گاہکوں کو دیکھ کر متوجہ ہوتا ہے اور پاس آتا ہے۔

    دوکاندار: فرمائیے!۔۔۔

    حامد: تحفوں کی یہی دوکان ہے ۔ جس کا اشتہار۔۔۔

    دوکاندار: آپ اس اخبار میں ملا حظہ فرما رہے ہیں۔۔۔آئیے۔۔۔آئیے۔۔۔

    (دوکان کے ذرا اندر چلے جاتے ہیں۔۔۔ اتنے میں چند لمحات کے بعد دو لڑکیاں آتی ہیں‘ بڑی تیز طرّار)

    حمیدہ: (دوکان کے ملازم سے)تحفوں کی یہی دوکان ہے۔

    ملازم: جی ہاں۔ یہی دوکان ہے اور گورنمنٹ سے رجسٹرڈ۔

    حمیدہ: رجسٹرڈ؟

    ملازم: جی ہاں۔۔۔اندر تشریف لے جائیے میم صاحب!

    (دونوں لڑکیاں دوکان کے اندر چلی جاتی ہیں حمیدہ اس شوکیس کے پاس پہنچتی ہے جہاں حامد دوکاندار کے پاس کھڑا ہے اور جھک کر شوکیس میں رکھی ہوئی چیزوں کو دیکھ رہا ہے)

    حامد: (دوکاندارسے) مجھے آپ کی سب چیزیں پسند آئی ہیں(اچانک حمیدہ کی طرف دیکھتا ہے)خاص طور پروہ چیز تو خوب ہے۔۔۔

    (حمیدہ کے ایک دم گال سرخ ہو جاتے ہیں)

    دوکاندار: کونسی؟

    حامد: (دوکان کے ایک کونے کی طرف اشارہ کر کے)وہ پتُلی جو اس کونے کی زینت بڑھا رہی ہے۔

    دوکاندار: قدر افزائی کا شکریہ۔۔۔فرمائیے کونسا تحفہ باندھ دُوں میرا ذاتی خیال ہے کہ۔۔۔

    حامد: فرمائیے فرمائیے آپ کا ذاتی خیال کیا ہے(حمیدہ کی طرف دیکھتے ہوئے)

    دوکاندار: کس کے متعلق؟

    حامد: (چونک کر) ان ہی۔۔۔ان ہی تحفوں کے متعلق!

    دوکاندار: میرا ذاتی خیال ہے۔۔۔مگر آپ کس تقریب کے لیئے تحفہ چاہتے ہیں؟

    حامد: ہاں یہ بتانا واقعی ضروری ہے ۔آواز دیتا ہے)۔سعید صاحب ۔۔۔سعید صاحب۔

    سعید: حاضر ہوا۔

    حامد: آپ انہیں بتا دیجئے کہ مجھے کس تقریب کے لیئے تحفہ چاہیئے۔

    (حمیدہ کھل کھلا کر ہنستی ہے)

    حامد: یہ کون ہنسا ؟

    دوکاندار: لڑکیاں ہیں۔ ہنس رہی ہیں۔

    حامد: ہاں لڑکیاں ہیں ہنس رہی ہیں۔۔۔قصہ یہ ہے کہ مجھے اپنی بیوی کے لیئے ۔۔۔میرا مطلب ہے کہ اُس بیوی کے لیئے جو میری بیوی ہونی چاہیئے!اور بہت جلد ہونی چاہیئے۔ مجھے ایک تحفہ خریدنا ہے۔۔۔ہم دونوں نے یہی فیصلہ کیا ہے حالانکہ میں اپنی سالگرہ منا سکتا ہوں۔

    دوکاندار: اس میں کیا شک ہے۔۔۔میرا ذاتی خیال ہے۔

    (حمیدہ ہنستی ہے)

    دوکاندار: یہ کون ہنسا؟

    سعید: لڑکیاں ہیں ہنس رہی ہیں!

    حامد: ہاں لڑکیاں ہیں۔ انہیں ہنسنا ہی چاہیئے۔

    دوکاندار: میرا ذاتی خیال ہے کہ اب آپ کو جلدی کوئی تحفہ خرید لینا چاہیئے کیوں کہ۔۔۔

    حامد: میں اپنا تحفہ منتخب کر چکا ہوں۔

    دوکاندار: فرمائیے؟

    حامد: شوکیس میں سے دو چوڑیاں نکالتا ہے جس پر مینا کاری کا کام ہے) یہ وہ چوڑیاں جو اس خوب صورت بکس میں دوحسین کلائیوں کو دعوت دی رہی ہیں۔

    دوکاندار: (بکس لے کر) واہ وا۔۔۔کیا تحفہ چُنا ہے آپ نے۔۔۔میرا ذاتی خیال ہے کہ۔۔۔

    (تیز قدمی سے حمیدہ آتی ہے)

    حمیدہ: (دوکاندار سے) اس تاش کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟

    حامد: بہت خوب صورت ہے۔۔۔خصوصاً۔۔۔

    حمیدہ: میں نے آپ کی رائے طلب نہیں کی۔

    سعیدہ: کچھ میں عرض کروں۔

    حمیدہ: جی نہیں(دوکان دار سے)فرمائیے اس کے متعلق آپ کی ذاتی رائے کیا ہے؟

    دوکاندار: بڑا خوب صورت ہے۔ دیر پا ہے اور ایک تحفہ چیز ہے۔۔۔ وہ خوش نصیب ہو گا جسے آپ یہ تحفہ دیں گی۔

    حامد: یعنی اگر وہ فلش کھیلے گا تو خوب جیتے گا۔

    حمیدہ: آپ نے کیسے جانا کہ میں یہ تاش کسی کو تحفہ دینے ہی کے لیئے خرید رہی ہوں ۔۔۔آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ یہ تاش میں نے صرف اپنے لیئے خریدا ہے۔۔۔(دوکاندار سے)پیک کرا دیجئے اسے (بٹوہ کھول کر) یہ لیجئے اس کی قیمت۔

    حامد: (چوڑیوں کا بکس دکاندار کو دیتے ہوئے)پیک کرا دیجئے اسے۔۔۔(جیب سے دام نکال کر دیتے ہوئے)لیجئے قیمت!

    (دکان دار دونوں دونوں چیزیں لے کر چلا جاتا ہے)

    حمیدہ: (اپنی سہیلی کو آواز دیتی ہے)سعیدہ!

    سعید: ارشاد۔

    حمیدہ: آپ کا نام سیدہ ہے۔

    سعید: جی نہیں۔۔۔فقط سعید‘ہائے ہوز کے بغیر۔۔۔

    (سعیدہ آتی ہے)

    حمیدہ : (حامد کی طرف دیکھ کر سعیدہ سے)کیوں سعیدہ میں نے یہ تاش اپنے لیئے خریدا ہے یا کسی کے لیئے؟

    سعیدہ: اپنے لیئے۔

    حامد: یہ اور بھی اچھا ہے۔

    حمیدہ: کیوں؟

    حامد: اس لیئے کہ چوڑیاں میں نے اپنے لیئے خریدی ہیں۔

    حمیدہ: (مسکرا کر)آپ خود پہنئے گا۔

    حامد: جی ہاں فی الحال خود ہی پہنوں گا جب تک۔۔۔آپ تاش بھی فی الحال اکیلے ہی کھیلیں گے۔

    حمیدہ: فی الحال میں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا اور میں سمجھتی ہوں کہ فی الحال ہمیں یہ گفتگو بند کر دینی چاہیئے۔

    (دکان دار آتا ہے)

    دوکاندار: میرا ذاتی خیال ہے کہ۔۔۔

    حامد: فی الحال اپنے ذاتی خیال کو موقوف رکھیئے۔۔۔لائیے میری چوڑیاں۔

    حمیدہ: لائیے میرا تاش۔

    (دکان دار دونوں کے پیکٹ دونوں کے حوالے کر دیتا ہے۔۔۔

    (سب باہر نکلتے ہیں)

    تیسرا منظر

    ہوسٹل کا وہی کمرہ جو ہم پہلے منظر میں دکھاچکے ہیں۔۔۔ حامد کرسی پر بیٹھا ہے سامنے تپائی رکھی ہے جس پر تاش کے پتے بکھرے ہوئے ہیں حامد انہیں اکٹھا کرتا ہے پھینٹتا ہے۔۔۔اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور سامنے دیوار پر چغتائی کی پینٹینگ کی طرف دیکھ کر گانا شروع کر دیتا ہے۔

    گیت

    نیندوں سے لبریز ہیں آنکھیں جیسے خواب رسیلے

    ترچھی نظریں یوں پڑتی ہیں جیسے بان کٹیلے

    چال میں ایسا دم خم جیسے رک جانے کے حیلے

    زہر سہی پر کون ہے جو یہ زہر نہ بڑھ کر پی لے

    ہونٹوں پر ان سُنے ترانے جھیل میں جیسے تارے

    بانکی چتون میں وہ ہے جھل مل جو کھیلے سو ہارے

    چہرے پر لالی سی جیسے کلیاں ندی کنارے

    حُسن کے اس اُمڈے دھا رے میں ڈھونڈے کون سہارے

    حامد(پھر کرسی پر بیٹھ جاتا ہے اور تھوڑی دیر گیت کی دُھن گُنگنانے کے بعد تاش کے پتے ایک ایک کر کے پھینکتا ہے)بادشاہ۔۔۔بیگم۔۔۔اور یہ کہ۔۔۔راؤنڈ بن گئی(گنگناتا)۔۔۔حسن کے اس اُمڈے دھارے میں ڈھونڈے کون سہارے؟(پھر پتے پھینکتا ہے)پتا ۔۔۔اُٹھا۔۔۔اور ۔۔۔یہ نہلا۔۔۔یہ نہلا۔۔۔یہ بھی راؤنڈ بن گئی۔

    (سعید اندر داخل ہوتا ہے)

    سعید: آپ راؤنڈیں کیا بنا رہے ہیں۔۔۔ارے۔۔۔یہ تو اُسی قسم کا تاش ہے۔

    حامد: اجی نہیں۔۔۔ اسی قسم کا تاش نہیں بلکہ وہی تاش ہے۔۔۔

    سعید: (حیرت سے)آپ کے مطلب؟

    حامد: (اٹھ کرتاش پھینٹتے ہوئے)بالکل واضح ہے

    سعید: (کرسی پر بیٹھ جاتا ہے)یعنی؟

    حامد: دیکھیئے میں آپ کو بتاتا ہوں(تاش کے پتے تپائی پر پھینکتا ہے) یہ دہلا۔۔۔یہ بیگم۔۔۔اور یہ غلام۔۔۔دیکھا آپ نے۔۔۔اب آپ خود ہی سوچ لیجئے۔ یہ کیا معاملہ ہے؟

    سعید: آپ خود ہی بیان فرمائیے۔

    حامد: (گاتا ہے)ہونٹوں پر ان سُنے ترانے جی میں جیسے تارے۔۔۔یہ ان سُنے ترانے آپ نہیں سُن سکتے۔

    سعید: یہ آپ کیا پہیلیاں بجھوارہے ہیں مجھ سے۔۔۔میں پوچھتا ہوں یہ تاش آپ کے پاس کیسے آگیا۔

    حامد: آگیا۔۔۔حق دار رسید۔۔۔میں نے آج نوٹ بک کھول کر دیکھی تو معلوم ہوا کہ آج ہی میری سالگرہ ہے۔۔۔ سواپنی سالگرہ کا تحفہ مجھے مل گیا او وہ دو چوڑیاں ادھر چلی گئیں۔۔۔

    سعید: کدھر؟

    حامد: اُدھر ہی۔۔۔میری ہونے والی بیوی کے پاس۔۔۔

    سعید: (اُٹھ کھڑا ہوتا ہے) میرا ذاتی خیال ہے کہ دکان دار کی غلطی سے پیکٹ بدل گئے۔۔۔آپ کی چوڑیاں اُدھر چلی گئیں اس کا تاش ادھر آگیا۔

    حامد: آپ کا ذاتی خیال دوکاندار کے ذاتی خیال سے بہت زیادہ دُرست ہے۔

    سعید: اب آپ کیا کیجئے گا؟

    حامد: کچھ بھی نہیں۔۔۔تاش کھیلا کروں گا

    سعید: اور وہ چوڑیاں پہنا کرے گی۔

    حامد: کیا حرج ہے؟

    (دروازے پر دستک ہوتی ہے)

    حامد: کون ہے؟

    تار والا: (باہر سے)تار والا حضور۔

    (حامد تاش کو تپائی پر رکھ کر باہر نکلتا ہے۔ چند لمحات تک سعید اکیلا تاش کے پتے ایک ایک کر کے تپائی پر پھینکتا ہے)

    سعید راؤنڈ۔۔۔حامد ہو گئی ہے۔

    (حامد تار لیئے اندر آتا ہے)

    حامد: کیا ہوا؟

    سعید: ایک راؤنڈ بن گئی تھی۔۔۔آپ سُنائیے خیریت تو ہے!

    حامد: قبلہ والد صاحب کا تار ہے۔

    سعید: کیا فرماتے ہیں۔

    حامد: فرماتے ہیں فوراً چلے آؤ۔۔۔ایک ضروری کام ہے۔۔۔

    سعید: یہ ضروری کام کیا ہو سکتا ہے؟

    حامد: ڈپٹی صاحب ہی جانیں۔۔۔سوال تو ہے کہ اب جانا پرے گا۔۔۔

    (سعید کے ہاتھ سے تاش لیتا ہے) دیکھئے اگر سوئے اتفاق سے میری غیر حاضری میں آپ کی ان سے ملاقات ہو جائے اور وہ اس تاش کے بارے میں استفسار کریں تو۔۔۔

    سعید: میں اپنی لاعلمی کا اظہار کروں لیکن اگر وہ اسی قسم کا دوسرا سودا کرنا چاہیں۔

    حامد: تو میری طرف سے آپ کو اس کی کھلی اجازت ہے۔

    سعید: تو چلیئے‘اپنا اسباب بند کیجئے۔

    چوتھا منظر

    ڈپٹی صاحب کا گھر۔۔۔ہال کمرہ۔۔۔پُر تکلف طریقے پر سجا ہوا ڈپٹی صاحب دوہرے بدن کے بزرگ ہیں آرام کرسی پر بیٹھے ایک موٹا سگار پینے میں مصروف ہیں۔۔۔ان کے پاس حامد کھڑا ہے جیسے وہ ابھی اسٹیشن سے آرہا ہے۔

    حامد: میں آپ کا تار ملتے ہی چل پڑا۔۔۔

    ڈپٹی صاحب: تم نے بہت اچھا کیا۔ کیونکہ وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے۔

    حامد: کس میں؟

    ڈپٹی صاحب: تمہاری شادی میں۔

    حامد: (حیرت سے)میری شادی میں۔۔۔یعنی میری شادی ہو رہی ہے۔

    ڈپٹی صاحب: قطی طور پر ہو رہی ہے۔

    حامد: کس کے ساتھ؟

    ڈپٹی صاحب: ایک لڑکی کے ساتھ!

    حامد: جس کو میں بالکل نہیں جانتا۔

    ڈپٹی صاحب: ہاں!جس کو تم بالکل نہیں جانتے۔

    حامد: اور شادی میری ہو رہی ہے؟

    ڈپٹی صاحب: تم کہنا کیا چاہتے ہو؟

    حامد: میں کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے یہ شادی منظور نہیں۔

    ڈپٹی صاحب: (غصے میں اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں)کیا کہا؟

    حامد: ابا جی یہ سرا سر ظلم ہے۔۔۔میں کیسے اپنی شادی پر رضا مند ہو سکتا ہوں۔۔۔۔میں لڑکی کو جانتا نہیں۔۔۔اس کی شکل سے ناواقف ہوں۔جانے کس مزاج کی ہے۔۔۔کیسے خیالات رکھتی ہے۔۔۔میری عدم موجودگی میں مجھ سے مشورہ لیئے بغیر آپ نے اتنا بڑافیصلہ صادر کر دیا۔

    ڈپٹی صاحب: میں تمہارا باپ ہوں۔

    حامد: درست ہے لیکن۔۔۔لیکن۔۔۔ابا جی۔۔۔آپ خُدا کے لیئے اتنا تو سوچیں۔ پڑھا لکھا آدمی ہوں۔۔۔روشن خیال ہوں۔۔۔دل میں جانے کیا کیااُمنگیں ہیں اور پھر۔۔۔اور پھر۔۔۔اب میں آپ سے کیا کہوں۔ اگرمجھے معلوم ہوتا کہ آپ مجھے یہاں بُلا کر یہ فیصلہ سنانے والے ہیں تو میں کبھی نہ آتا۔۔۔ کہیں بھاگ جاتا ۔۔۔خودکشی کر لیتا۔۔۔

    ڈپٹی صاحب: میں تمہاری یہ بکواس سُننے کے لیئے تیار نہیں۔۔۔

    حامد: میں شادی کرنے کے لیئے بھی تیار نہیں۔

    ڈپٹی صاحب: دیکھوں گا تم کیسے نہیں کرتے؟

    (غصے میں بھرے کمرے سے باہر چلے جاتے ہیں)

    حامد: (اپنے آپ سے)عجیب مصیبت میں پھنس گیاہوں۔۔۔کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں۔۔۔شادی نہ ہوئی کھیل ہو گیا۔۔۔کیا کروں کیا نہ کروں‘ میری جان عجب مصیبت میں پھنس گئی ہے(باپ کے الفاظ دُہراتا ہے)دیکھوں گا تم کیسے شادی نہیں کرتے۔۔۔ چلیئیفیصلہ ہو گیا۔۔۔اب چاہے میری ساری زندگی تباہ ہو جائے(جیب میں سے تاش کا پیکٹ نکالتا ہے۔۔۔صوفے پر بیٹھ جاتا ہے اور پتے پھینٹتے ہوئے کہتا ہے) یہ تاش ہی اب میری قسمت کا فیصلہ کرے گی۔۔۔اگر تین پتوں نے راؤنڈ نہ بنائی۔ تو میں کبھی شادی نہیں کروں گا اور اگر راؤنڈ بن گئی تو۔۔۔قہردرویش برجان درویش کر لوں گا۔۔۔جب شادی کو کھیل ہی سمجھا گیا ہے‘ تو یوں ہی سہی۔ میں بھی اس کا فیصلہ پتوں ہی سے کروں گا(ایک ایک کر کے تین پتے پھینکتا ہے)دُکی۔۔۔تکی۔۔۔ اور ۔۔۔یہ چوکا۔۔۔لعنت (تاش کی گڈی زمین پر ٹپک دیتا ہے)آخری سہارا بھی دھوکا دے گیا۔

    (حامد کی ماں جلدی جلدی کمرے میں داخل ہوتی ہے)

    ماں: یہاں بیٹھے تاش کھیل رہے ہو۔ ماں سے نہیں ملنا تھا؟

    حامد: (ماں کی طرف بڑھتے ہوئے)۔۔۔امی جان۔۔۔امی جان۔۔۔میں شادی نہیں کروں گا۔

    ماں: یہ کیا بیہودہ بک رہے ہو؟

    حامد: نہیں امی جان۔۔۔مجھے ایسی شادی منظور نہیں۔۔۔یعنی مجھ سے پوچھے بغیر میری شادی کا فیصلہ کر دیا گیا ہے۔

    ماں: اس میں پوچھنے کی بات ہی کیا تھی۔ ماں باپ اندھے تو نہیں ہوتے۔

    حامد: مجھے تو آپ لوگوں نے اندھا ہی سمجھا۔

    ماں: ہم نے جو کچھ کیا ہے‘ٹھیک کیا ہے۔

    حامد: میں مر جاؤں گا لیکن اس طرح شادی کبھی نہیں کروں گا۔

    ماں: کچھ ہوش کی دوا کرو۔۔۔جو منہ میں آتا ہے بک دیتے ہو۔۔۔

    حامد آپ تو چاہتی ہیں بس گلا ہی گھونٹ دیں۔ آدمی اُف تک نہ کرے۔

    ماں: بڑا ظلم ہوا ہے تم پر۔

    حامد: اس سے بڑھ کر اور ظلم کیا ہو گا یعنی میری ساری زندگی پرکا جل کا لیپ کیا جارہا ہے۔۔۔ مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے ایک اندھیرے غار میں دھکیلا جارہا ہے۔۔۔اور ابھی کچھ ظلم نہیں ہوا۔۔۔امی جان سچ کہتا ہوں اسے دھمکی نہ سمجھئے۔زہر کھالوں گا۔۔۔گاڑی کے نیچے جامروں گا پر ایسی شادی کبھی نہ کروں گا۔

    ماں: تم پیدا ہی نہ ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ آج مجھے یہ دن دیکھنا تو نصیب نہ ہوتا۔

    (گلے میں آواز رندھ جاتی ہے) میں نے کس چاؤ سے تمہاری نسبت ٹھہرائی تھی۔

    (رونا شروع کر دیتی ہے)

    (دُور سے ثُریّاکی آواز آتی ہے امی جان۔۔۔امی جان۔۔۔اس کے بعد وہ خود تیز قدمی سے اندر آتی ہے)

    ثُریّا: امی جان آپ ادھر ہیں۔۔۔اخاہ بھائی جان۔۔۔آپ تشریف لے آئے۔۔۔امی جان میں آپ کو اُدھر دیکھ رہی تھی۔۔۔

    ماں: کیا ہے؟

    ثُریّا: ناپ لے آئی ہوں امی جان ۔۔۔لیکن کن مشکلوں سے ملا ہے۔۔۔پر آپ خاموش کیوں ہیں؟ روکیوں رہی ہیں۔۔۔بھابی جان کیا بات ہے؟

    ماں: سُنار باہر بیٹھا ہے؟

    ثُریّا: ہاں بیٹھا ہے۔

    ماں: اس سے کہہ دے کہ چلا جائے۔۔۔ہمیں کنگنیاں نہیں بنوانا ہیں۔

    ثُریّا: یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں امی جان۔۔۔ناپ لے آئی ہوں۔۔۔

    ماں: ثُریّا تو اس وقت جا۔۔۔میری طبیعت ٹھیک نہیں۔۔۔سنار سے کہہ دے کل آئے۔۔۔

    ثُریّا: اس کا مطلب ہے ناپ موجود ہے تو پھر وہ کل آئے آج ہی کیوں نہ کام شروع کر دے تاکہ وقت پر مل جائے۔۔۔

    ماں: جو دل میں آئے۔۔۔کر۔۔۔مجھ نصیبوں جلی کو نہ ستا۔

    ثُریّا: جانے آپ کس بات پر بھری بیٹھی ہیں۔۔۔ستائیں آپ کو حامد بھائی جان۔۔۔اور کوسا مجھے جائے۔۔۔وہ تو خیر اب نخرے کریں ہی گے‘بات بات پر بگڑیں گے۔۔۔شادی جو ہو رہی ہے۔۔۔اچھا خیر اس قصے کو چھوڑیے مجھے اس کے لیئے تحفہ خریدنا ہے‘ابھی وہاں گئی تو معلوم ہوا کل اس کی سالگرہ ہے۔۔۔کچھ روپے دیجئے مجھے!

    ماں: میں کہتی ہوں دفان ہو یہاں سے۔۔۔مغرنہ چاٹ میرا(چلی جاتی ہے)

    ثُریّا: (غصے میں حامد کی طرف بڑھتی ہے)حامد بھائی جان۔۔۔آپ کیوں منہ میں گھگھنیاں ڈالے کھڑے ہیں۔۔۔جیسے آپ کے منہ میں زبان ہی نہیں۔۔۔ ایک تو میں آپ کے کام کرتی پھروں اور پھر اُلٹا جھڑکیاں کھاؤں۔۔۔

    حامد: میں اس وقت کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔۔۔

    ثُریّا: تو لیجئے۔ یہ ناپ کی چوڑی آپ سنبھالیئے۔باہر سُنار بیٹھا ہے اس سے جو کہنا ہو کہہ دیجیئے ( حامد کے ہاتھ پر غصے سے چوڑی رکھ دیتی ہے)

    حامد: (چوڑی دیکھ کر)ثُریّا۔۔۔ثُریّا۔۔۔بات سُنو۔۔۔یہ چوڑی تم نے کہا ں سے لی؟

    ثُریّا: کہیں سے بھی لی ہو۔ آپ کو اس سے کیا؟

    حامد: میں سمجھ گیا۔۔۔میں سمجھ گیا۔۔۔لیکن یہ واقعی اس کی ہے نا۔۔۔اُسی کی؟

    ثُریّا: نہیں بتاتی۔

    حامد: میری اچھی بہن جو ہوئیں۔۔۔بتاؤ کس کی ہے؟

    ثُریّا: سمجھ گئے لیکن بار بار پوچھیں گے۔۔۔مزہ آتا ہے۔۔۔آپ کی ہونے والی بیوی کی ہے جس کی کلائی سے زبردستی اُتار کے لائی ہوں۔

    حامد: زبردستی۔۔۔کیوں وہ اُتارنے نہیں دیتی تھی۔

    ثُریّا: ہاں کہتی تھی نہیں میں یہ چوڑی کبھی نہیں دُوں گی۔ کسی کا تحفہ ہے۔۔۔تم کوئی اور لے جاؤ۔

    حامد: اچھا

    ثُریّا: پر میں ایک اور بہانے سے لے آئی کہ مجھے بھی ایسا ہی جوڑا منگوانا ہے۔

    حامد: (خوش ہو کر) وہ مارا!(بہن کو گلے لگا لیتا ہے)

    ثُریّا: یہ کیا ہو گیا ہے آپ کو؟

    حامد: چُپ ۔۔۔اب میں ضرور شادی کروں گا۔۔۔اب میں ضرور شادی کروں گا۔

    امی جان کہا ں ہیں؟

    ثُریّا: یہ دیوانہ پن ہے؟

    حامد: اب میں ضرور شادی کروں گا۔ اب میں ضرور شادی کروں گا۔

    ثُریّا: یا وحشت!

    حامد: آج اس کی سالگرہ ہے نا؟(تاش کے پتے اُٹھانا شروع کرتا ہے)

    ثُریّا: ہے تو سہی پر یہ آپ تاش کے پتے کیا اکٹھے کر رہے ہیں۔

    حامد: ٹھہرو ابھی بتاتا ہوں(تاش کے پتے اکٹھے کر کے بکس میں ڈالتا ہے ثُریّاتم اسے کوئی تحفہ دینا چاہتی ہو نا؟

    ثُریّا: جی ہاں!

    حامد: تو ایسا کرو۔۔۔یہ تاش لے جاؤ۔۔۔!

    ثُریّا: تاش؟

    حامد: ہاں تم یہ پیکٹ اسے تحفے کے طورے پر دے دو اور پھر دیکھو کیا ہوتا ہے میرے منہ کی طرف کیا دیکھتی ہو؟کہہ جو دیا اس سے بہتر اور تحفہ نہیں ہو سکتا۔۔۔(گاتا ہے)

    ہونٹوں پر ان سُنے ترانے جھیل میں جیسے تارے

    بانکی چتون میں وہ ہے چھل بل جو کھیلے سوہارے!!

    چہرے پرلالی سی جیسے کلیاں ندی کنارے

    حسن کے اس اُمڈے دھارے میں ڈھونڈے کون سہارے

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پردہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    مأخذ:

    کروٹ

      • اشاعت: 1946

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے