aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصنف : اختر شیرانی

ایڈیٹر : ایس اخترجعفری

V4EBook EditionNumber : 001

ناشر : اشرف پریس، لاہور

سن اشاعت : 1964

زبان : Urdu

موضوعات : شاعری

ذیلی زمرہ جات : انتخاب

صفحات : 222

معاون : انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی

اختر شیرانی اور اس کی شاعری

کتاب: تعارف

اختر شیرانی کی شاعری شباب ، اس کے رومان اور اس کے حسین خوابوں اور دلکش یادوں کی شاعری ہے۔ ان کا کلام پڑھ کر یہ تاثر پیداہوتا ہے کہ عورت اس کا حسن اور اس کی محبت ہی کانام اس کے نزدیک زندگی ہے۔ اختر شیرانی کی جنت یوں تو سلمیٰ ، یا ریحانہ یا عذرا کی آغوش میں ہے لیکن اس جنت کی تعمیر میں فطرت کا حسن و جمال بھی بڑا اہم عنصر ہے یوں بھی فطرت کی آغوش میں انہیں بڑا سکون ملتا ہے۔ فطرت اور اس کے مناظر و مظاہر کے ساتھ ان کارشتہ محض عشق و شباب ہی کے حوالے سے قائم نہیں ہوتا بلکہ فطرت کی رعنائی اور اس کے مظہراتی حسن و جمال کا ان کی شاعری میں اپنا ایک مقام ہے۔ ان کی شاعری میں جادو کی تاثیر ہے جس میں والہانہ عشق کا اظہار کثرت سے ملتا ہے۔ زیر نظر کتاب میں ان کے آٹھ مجموعوں کے انتخاب کو شامل کیا گیا ہے ۔ ان میں پہلا مجموعہ صبح بہار، دوسرا مجموعہ اختر ستان، تیسرا مجموعہ لالہ طور، چوتھا مجموعہ طیور آوارہ ، پانچواں نغمہ حرم ، چھٹا شہناز، اور آخری مجموعہ کلام شہرود شامل ہے۔ یہ آخری مجموعہ ان کی وفات کے بعد لاہور سے شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے میں نعت ، عید کا چاند جیسے موضوعات پر کلام پیش کیا گیا ہے۔ تعارف میں ان کی شخصیت کا مکمل خاکہ کھینچا گیا ہے۔ کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد ان کی فنی شخصیت پورے طور پر کھل کر سامنے آجاتی ہے۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

کچھ ادیب و شاعر ایسے ہوتے ہیں جن کے لئے وقت اور زمانہ سازگار ہوتا ہے اور جو اپنے زمانہ میں اور اس کے بعد بھی وہ مرتبہ حاصل کر لیتے ہیں جس کے دراصل وہ حقدار نہیں ہوتے، دوسری طرف کچھ ایسے ادیب و شاعر ہوتے ہیں جو غلط وقت پر پیدا ہوتے ہیں غلط ڈھنگ سے جیتے ہیں اور غلط وقت پر مر جاتے ہیں اور ان کو وہ مرتبہ نہیں مل پاتا جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں۔ اختر شیرانی اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا پہلا قصور یہ تھا کہ ان کی نظموں میں سلمی، عذرا اور ریحانہ کے نام کثرت سے آتے ہیں اور ان کا دوسرا قصور یہ تھا کہ وہ ترقی پسند نہیں تھے جبکہ ان کے عہد میں، اور اس کے بعد بھی طویل عرصہ تک، تخلیق و تنقید پر ترقی پسندوں کی حکمرانی رہی۔ لہٰذا زمانہ نے بڑی فراخدلی کا ثبوت دیتے ہوئے ان کو شاعر رومان کی سند دے کر ان کا اعمال نامہ بند کر دیا۔ اختر شیرانی نے صرف 43 برس کی عمر پائی اور اس عمر میں انہوں نے نظم و نثر میں اتنا کچھ لکھا کہ بہت کم لوگ اپنی طویل عمر میں اتنا لکھ پاتے ہیں۔ اردو تنقید پر اختر شیرانی کا جو قرض ہے وہ اسے ابھی تک پوری طرح ادا نہیں کر پائی ہے۔

اختر شیرانی کا اصل نام داؤد خاں تھا۔ وہ 4 مئی 1905 ء کو ہندوستان کی سابق ریاست ٹونک میں پیدا ہوئے۔ وہ جیّد عالم اور محقق حافظ محمود شیرانی کے اکلوتے بیٹے تھے۔ لہٰذا دینی تعلیم کے لئے لائق حفاظ اور اتالیق مقرر کئے گئے اور مروجہ تعلیم سے بہرہ ور کرنے کے لئے باپ نے خود استاد کی ذمہ داری نبھائی اور صابر علی شاکر کی خدمات بھی حاصل کیں۔ یہی نہیں بیٹے کی جسمانی نشو نما کے لئے پہلوان عبد القیوم خان کو ملازم رکھا۔ داؤد خاں نے کشتی اورپہلوانی کے ساتھ ساتھ لکڑی چلانے کا ہنربھی سیکھا۔ حافظ محمود شیرانی بیٹے کو اپنی ہی طرح عالم، فاضل اور محقق بنانا چاہتے تھے۔ لیکن قدرت نے انہیں کسی دوسرے ہی کام کے لئے پیدا کیا تھا۔ مزاج لڑکپن سے ہی عاشقانہ تھا۔ انھوں نے کم عمری سے ہی شاعری شروع کر دی تھی اور چوری چھپے صابر علی شاکر سے مشورۂ سخن کرتے تھے۔ جس وقت اختر شیرانی کی عمر تقریباً 16 سال تھی نواب ٹونک کے خلاف اک شورش برپا ہوئی جس کے نتیجہ میں نواب نے بہت سے لوگوں کو ریاست بدر کیا ان ہی میں ناکردہ گناہ حافظ محمود شیرانی تھے۔ وہ مجبوراً لاہور چلے گئے جہاں اختر شیرانی نے تعلیم جاری رکھتے ہوئے اورینٹل کالج سے منشی فاضل اور ادیب فاضل کے امتحانات پاس کئے اور ساتھ ہی شاعری میں علامہ تاجور نجیب آبادی کی شاگردی اختیار کر لی۔ تعلیم سے فارغ ہو کر وہ صحافت کے چکر میں پڑ گئے اور یکے بعد دیگرے کئی رسالے نکالے۔ ملازمت انھوں نے کبھی نہیں کی۔ ان کی تمام شاہ خرچیاں باپ کے ذمہ تھیں۔ قیام لاہور کے ابتدائی زمانہ میں ہی اختر شیرانی پر عشق نے حملہ کیا۔ شاعری ہی کیا کم تھی وہ شراب بھی پینے لگے۔ ان خبروں سے حافظ محمودد شیرانی کو شدید صدمہ پہنچا۔ انھوں نے ان کے اخراجات تو بند نہیں کئے لیکن حکم دیا کہ وہ کبھی ان کے سامنے نہ آئیں۔ 1946ء میں باپ کی موت کے بعد تمام ذمہ داریاں اختر کے سر پر آ گئیں جن کا انہیں کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اب ان کی شراب نوشی حد درجہ بڑھ گئی۔ پھر 1947 میں تقسیم ملک نے ان کے لئے مزید پریشانیاں پیدا کر دیں۔ وہ لاہور اپنے دیرینہ اور مخلص دوست نیّر واسطی کے پاس چلے گئے۔ تب تک بلا نوشی نے ان کے جگر اور پھیپھڑوں کو تباہ کر دیا تھا۔ 9 ستمبر 1948ء کو ایسی حالت میں ان کی موت ہوئی کہ کوئی اپنا ان کے پاس نہیں تھا۔

اختر شیرانی کی ادبی خدمات کا محاکمہ کرتے وقت ان کے ادبی فلسفہ کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ اس کو ان کے ہی الفاظ میں سن لیجئے: "میں نے جب شعر کہنا شروع کیا تو شاعری کے افادی مقصد کا وہ تصور کہیں موجود نہ تھا جسے ترقی پسندی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس تصور نے کافی فروغ پا لیا، شاعر کا کام زندگی کے حسن کو دیکھنا اور دوسروں کو دکھانا ہے۔ زندگی کے ناسوروں کے علاج کی کوشش اس کا کام نہیں میرے نزدیک شاعر کے لئے اپنے آپ کو کسی سیاسی یا اقتصادی نظام سے وابستہ کرنا ضروری نہیں۔ شاعر کی قدریں سب سے الگ اور آزاد ہیں۔" نتیجہ یہ تھا کہ اختر نے سلمیٰ کو زندگی کے حسن کا استعارہ بنا کر عشق کے گیت گائے۔ وہ سلمیٰ جو اک جیتی جاگتی ہستی بھی تھی اور حسن کا استعارہ بھی۔ لیکن اختر شیرانی کو محض حسن(خواہ آپ اسے نسائی حسن تک محدود نہ رکھیں) اور عشق کا شاعر قرار دینا ان کے ساتھ نا انصافی ہے۔ حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ اختر نے اردو شاعری کوجس طرح عورت کے کردار سے متعارف کرایا، ان سے پہلے کسی نے نہیں کرایا تھا۔ ان کی محبوبہ اردو شاعری کے ستم پیشہ، خنجر بکف معشوق کے بجائے متانت، وقار، حسن اور سپردگی کا جیتا جاگتا مجسمہ ہے جو اردو شاعری میں عورت کے روایتی کردار سے یکسر مختلف ہے۔ بہرحال ان کی شخصیت کی کئی جہتیں تھیں۔ ان میں اک نمایاں پہلو ان کی حب الوطنی ہے۔ وہ ملک کو آزاد دیکھنا چاہتے تھے اور یہ آزادی ان کو بھیک میں درکار نہیں تھی۔ 
’’عشق و آزادی بہار زیست کا سامان ہے
عشق میری جان آزادی مرا ایمان ہے‘‘
اور
’’عشق پر کر دوں فدا میں اپنی ساری زندگی
لیکن آزادی پہ میرا عشق بھی قربان ہے‘‘
یا
’’سر کٹا کر سروسامان وطن ہونا ہے
نوجوانو! ہمیں قربان وطن ہونا ہے‘‘

ان کا پہلا مجموعہ کلام "پھولوں کے گیت" ادب اطفال میں اک سنگ میل ہے۔ دوسرے شاعروں نے بھی برائے نام بچوں کے لئے شاعری کی جو عموماً یا تو ترجمہ یا مشہور حکایات پر مبنی ہے۔ اک پورا مجموعہ جو بڑی حد تک طبع زاد ہے، اختر کا بڑا کارنامہ ہے۔ دوسرے مجموعہ کلام "نغمۂ حرم" میں بھی عورتوں اور بچوں کے لئے نظمیں ہیں۔ اختر شیرانی نے ہیئت میں بھی قابل قدر تجربے کئے۔ انھوں نےپنجابی سے ماہیا، ہندی سے گیت اور انگریزی سے سانیٹ کو اپنی شاعری میں کثرت سے برتا۔ اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اردو میں باقاعدہ سانیٹ نگاری کی ابتدا اختر شیرانی نے کی۔ نثر میں بھی اختر شیرانی کے کارنامے کم نہیں۔ انھوں نے کئی رسالے جاری کئے۔ 1925 میں جب اختر شیرانی کی عمر صرف 20 برس تھی، انھوں نے لاہور ہائی کورٹ کے مولوی غلام رسول کے رسالہ کی ادارت سنبھالی۔ علامہ تاجور نجیب آبادی کے کہنے پر پنڈت رتن ناتھ سرشار کے فسانۂ آزاد کی تلخیص اور تسہیل بچوں کے لیے کی۔ اسی طرح ڈاکٹر عبدالحق کے کہنے پر سدید الدین محمد عوفی کی جوامع الحکایات و لوامع الروایات کو بڑی محنت اور تحقیقی لگن کے ساتھ اردو کا جامہ پہنایا۔ انھوں نے ترکی کے مشہور ڈرامہ نگار سامی بے کے ڈرامہ "کاوے" کو ضحاک کے نام سے اردو جامہ پہنایا۔ انھوں نے دھڑکتے دل کے نام سے افسانوں کا اک مجموعہ شائع کیا جس میں 12 افسانے دوسری زبانوں کے افسانوں کا ترجمہ اور باقی طبع زاد ہیں۔ اختر اور سلمیٰ کے خطوط، جس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں، خوبصورت نثر کا لاجواب نمونہ ہیں۔ "آئینہ خانے میں" ان کے پانچ افسانوں کا مجموعہ ہے جو مبینہ طور پر ایک ہی رات میں لکھے گئے تھے۔ یہ افسانے فلمی اداکاراؤں کی آپ بیتی کی شکل میں ہیں جن میں عورت کے استحصال کی سرگزشت ہے۔ اختر شیرانی بہت سے اخبارات و رسائل کے لئے ابن بطوطہ ایں جہانی، بالم، راجکماری بکاولی، زبور، ضحاک، عکاس، لارڈ بائرن آف راجستھان، مسعود خسرو شیرانی، ملا فرقان وغیرہ فرضی ناموں سے کالم لکھتے تھے۔ بحیثیت نثر نگاران کے مقام و مرتبہ کا تعین ابھی تک غفلت کا شکار ہے۔ اختر شیرانی کو عظیم شاعر یا ادیب کہنا مبالغہ ہوگا لیکن اس میں ذرا بھی شک کی گنجائش نہیں کہ اردو ادب کی مختصر سے مختصر تاریخ بھی ان کے ذکر کے بغیر ادھوری رہے گی۔ 

.....مزید پڑھئے

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

مقبول و معروف

مقبول و معروف اور مروج کتابیں یہاں تلاش کریں

مزید

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے